حضرت عمر بن خطابؓ
خطبہ جمعہ 22؍ اکتوبر 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
گذشتہ خطبہ میں مَیں نے حضرت عمرؓ کی شہادت کے ضمن میں حضرت عُبیداللہ بن عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے باہمی الجھاؤ کا ذکر کیا تھا اور جس طرح وہ روایت بیان کی گئی تھی، یہ بھی بتایا تھاکہ ایک روایت ہے، اور اللہ بہتر جانتا ہے کہاں تک یہ سچی ہے، کہ ان کی آپس میں لڑائی ہوئی۔ اس بارہ میں مزید تحقیق کے بعد جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ بھی بیان کر دیتا ہوں۔ ایک جگہ یہ بھی ذکر ملا ہے کہ حضرت عُبید اللّٰہ بن عمرؓ جب حضرت عثمانؓ سے الجھے ہیں تو اس وقت تک ابھی حضرت عثمانؓ خلافت کے مسند پر فائز نہیں ہوئے تھے۔ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ عُبیداللّٰہ کا ارادہ تھا کہ وہ آج مدینہ کے کسی قیدی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ مہاجرین اوّلین ان کے خلاف اکٹھے ہو گئے اور انہیں روکا اور انہیں دھمکی دی تو وہ مہاجرین کو بھی خاطر میں نہ لائے اور انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! مَیں انہیں یعنی جتنے بھی قیدی ہیں، غلام ہیں، ضرور قتل کروں گا۔ حتیٰ کے عمروبن عاصؓ ان کے ساتھ مسلسل لگے رہے یہاں تک کہ انہوں نے تلوار عمرو بن عاصؓ کے حوالے کر دی۔ پھر سعد بن ابی وقاصؓ سمجھانے کے لیے ان کے پاس آئے تو ان سے بھی عُبید اللّٰہ بن عمرؓ نے لڑائی کی۔ جیسا کہ بیان ہوا تھا کہ حضرت عثمانؓ سے لڑائی ہوئی اور لوگوں نے بیچ بچاؤ کروایا۔ اس ضمن میں یہ ذکرملتا ہے کہ جب یہ واقعہ ہوا تو ابھی حضرت عثمانؓ کی بیعت نہیں کی گئی تھی۔ یعنی حضرت عثمانؓ اس وقت تک خلیفہ منتخب نہیں ہوئے تھے جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔ (ماخوذ از سیرت عمرفاروقؓ از محمدرضا (مترجم) صفحہ 342-343 مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ لاہور 2010ء)
اسی طرح یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ حضرت عُبید اللّٰہ کو اس کے بعد قید بھی کر لیا گیا تھا۔ حضرت عثمانؓ کی بیعت کے بعد جب خلافت پہ متمکن ہوئے تو حضرت عُبید اللّٰہ کو حضرت عثمانؓ کے سامنے پیش کیا گیا تو امیر المومنین نے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ مجھے اس شخص کے بارے میں رائے دو جس نے اسلام میں رخنہ ڈالا ہے۔ حضرت علی بن ابی طالبؓ نے فرمایا کہ اسے چھوڑنا انصاف سے بعید ہے، میری رائے میں اس کو یعنی عُبید اللّٰہ بن عمرؓ کو قتل کرا دینا چاہیے لیکن بعض مہاجرین نے اس رائے کو ناقابلِ برداشت، شدت اور سختی پر محمول کیا اور کہا کہ کل عمرؓ قتل کیے گئے اور آج ان کا بیٹا قتل کر دیا جائے۔ اس اعتراض نے حاضرین کو مغموم کر دیا اور حضرت علیؓ بھی خاموش رہے لیکن بہرحال پھر حضرت عثمانؓ نے چاہا کہ حاضرین میں سے کوئی شخص اس نازک صورت حال سے عہدہ برا ہونے کی کوئی راہ نکالے، مشورہ دے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ اس مجلس میں موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نے آپؓ کو اس سے معاف رکھا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپؓ مسلمانوں کے امیر نہیں تھے اور چونکہ یہ واقعہ آپؓ کے عہد خلافت میں نہیں ہوا اس لیے آپؓ پر اس کی کوئی ذمہ داری عائدنہیں ہوتی لیکن حضرت عثمانؓ ان کی اس رائے سے مطمئن نہیں ہوئے اور بہتر یہی سمجھا کہ خون بہا ادا کیا جائے۔ چنانچہ فرمایا: میں ان مقتولین کا ولی ہوں اس لیے خون بہا مقرر کر کے اپنے مال سے ادا کروں گا۔ (ماخوذ از سیدناحضرت عمرفاروق اعظمؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 881-882 مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور) اس بارے میں ایک یہ رائے ہے۔
تاریخ طبری کے مطابق حضرت عثمانؓ نے حضرت عُبید اللّٰہ کو ہرمزان کے بیٹے کے سپرد کر دیا تھا کہ وہ اپنے باپ کے بدلے میں قصاص کے طور پر قتل کر دے لیکن بیٹے نے معاف کر دیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کو بیان فرمایا ہے اور ایک مسئلہ کے حل کے بیان میں اس کی تفصیل میں لکھا ہے جو میں ایک گذشتہ خطبہ میں بیان کر چکا ہوں تاہم یہاں وضاحت کے لیے دوبارہ بیان کرتا ہوں کہ کیا مقتول کافر معاہد کے بدلے میں مسلمان قاتل کو سزا دی جا سکتی ہے؟ معاہد کافر کے بدلے میں مسلمان قاتل کو سزا دی جا سکتی ہے کہ نہیں؟ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ طبری میں قُمَاذْبَان بن ہُرْمُزَان اپنے والد کے قتل کا واقعہ بیان کرتاہے۔ ہرمزان ایک ایرانی ریئس اور مجوسی المذہب تھا اور حضرت عمرؓ خلیفہ ثانی کے قتل کی سازش میں شریک ہونے کا شبہ اس پر کیا گیا تھا۔ اس پر بلا تحقیق جوش میں آکر عُبیداللّٰہ بن عمرؓ نے اس کو قتل کر دیا۔ وہ بیٹا کہتا ہے کہ ایرانی لوگ مدینہ میں ایک دوسرے سے ملے جلے رہتے تھے جیسا کہ قاعدہ ہے کہ دوسرے ملک میں جاکر وطنیت نمایاں ہو جاتی ہے۔ ایک دن فیروز قاتل جو حضرت عمرؓ کا تھا میرے باپ سے ملا اور اس کے پاس ایک خنجر تھا جو دونوں طرف سے تیز کیا ہوا تھا۔ میرے باپ نے (یہ ہُرمُزان کا بیٹا بیان کر رہا ہے) کہ میرے باپ نے اس خنجر کو پکڑ لیا اور اس سے دریافت کیا کہ اس ملک میں تُو اس خنجر سے کیا کام لیتا ہے یعنی یہ ملک تو امن کا ملک ہے۔ اس میں ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس سے اونٹ ہنکانے کا کام لیتا ہوں۔ جب وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے تو اس وقت کسی نے ان کو دیکھ لیا اور جب حضرت عمرؓ مارے گئے تو اس نے بیان کیا کہ میں نے خود ہُرمُزان کو یہ خنجر فیروز کو پکڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اِس پر عُبید اللّٰہؓ حضرت عمرؓ کے چھوٹے بیٹے نے جا کر میرے باپ کو قتل کر دیا۔ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلایا اور عُبید اللّٰہ کو پکڑ کر میرے حوالے کر دیا اور کہا کہ اے میرے بیٹے! یہ تیرے باپ کا قاتل ہے اور تُو ہماری نسبت اس پر زیادہ حق رکھتا ہے۔ پس جا اور اس کو قتل کر دے۔ میں نے اس کو پکڑ لیا اور شہر سے باہر نکلا۔ راستہ میں جو شخص مجھے ملتا میرے ساتھ ہو جاتا لیکن کوئی شخص مقابلہ نہ کرتا۔ وہ مجھ سے صرف اتنی درخواست کرتے تھے کہ میں اسے چھوڑ دوں۔ پس میں نے سب مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا میرا حق ہے کہ میں اسے قتل کردوں؟ سب نے جواب دیا کہ ہاں تمہارا حق ہے اسے قتل کر دو، اور عُبیداللّٰہ کو بھلا برا کہنے لگے کہ اس نے ایسا بُرا کام کیا ہے۔ پھر میں نے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں کو حق ہے کہ اسے مجھ سے چھڑالو؟ انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں اور پھرعُبیداللّٰہ کو برا بھلا کہا کہ اس نے بلا ثبوت اس کے باپ کو قتل کر دیا۔ اس پر میں نے خدا اور ان لوگوں کی خاطر اس کو چھوڑ دیا اور مسلمانوں نے فرطِ مسرت سے مجھے اپنے کندھوں پر اٹھالیا اور خداتعالیٰ کی قَسم! میں اپنے گھر تک لوگوں کے سروں اور کندھوں پر پہنچا اور انہوں نے مجھے زمین پر قدم تک نہیں رکھنے دیا۔ اس روایت سے ثابت ہے کہ صحابہ کا طریق عمل بھی یہی رہا ہے کہ وہ غیر مسلم کے مسلم قاتل کو سزائے قتل دیتے تھے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خواہ کسی ہتھیار سے کوئی شخص مارا جائے وہ مارا جائے گا۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قاتل کو گرفتار کرنے والی اور اس کو سزا دینے والی حکومت ہی ہے کیونکہ اس روایت سے ظاہر ہے کہ عُبید اللّٰہ بن عمرؓ کو گرفتار بھی حضرت عثمانؓ نے ہی کیا اور اس کوقتل کے لیے ہُر مُزان کے بیٹے کے سپرد بھی انہوں نے ہی کیاتھا۔ نہ ہرمزان کے کسی وارث نے اس پر مقدمہ چلایا اور نہ گرفتار کیا۔
اس جگہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس شبہ کا ازالہ بھی کردینا ضروری ہے کہ قاتل کو سزا دینے کے لیے آیا مقتول کے وارثوں کے سپرد کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت عثمانؓ نے کیا یا خود حکومت کو سزا دینی چاہیے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ ایک جزوی معاملہ ہے اس لیے اس کو اسلام نے ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق عمل کرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ قوم اپنے تمدن اور حالات کے مطابق جس طریق کو زیادہ مفید دیکھے اختیار کر سکتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں طریق ہی خاص خاص حالات میں مفید ہوتے ہیں۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 359تا 361)
یہ وضاحت کرنے کے بعد اب میں حضرت عمرؓ کے کچھ اور واقعات کا ذکر کرتا ہوں۔ وفات کے وقت حضرت عمرؓ کے الحاح اور عجز و انکسار کا کیا حال تھا؟ اس بارے میں ان کے بیٹے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ میرے کفن میں میانہ روی سے کام لینا۔ اگر اللہ کے پاس میرے لیے خیر ہو گی تو مجھے اس سے اچھے لباس سے بدل دے گا۔ اگر میں اس کے سوا ہوں گا تو مجھ سے چھین لے گا اور چھیننے میں تیزی کرے گا اور یہ بھی کہ میری قبر کے متعلق بھی میانہ روی سے کام لینا۔ اگر اللہ کے پاس میرےلیے اس میں خیر ہے تو اس کو اتنا وسیع کر دے گا جہاں تک میری نظر جائے گی اور اگر میں اس کے سوا ہوا تو وہ اسے مجھ پر تنگ کر دے گا کہ میری پسلیاں ٹوٹ جائیں گی۔ اور پھر میرے جنازے کے ساتھ کسی عورت کو نہ لے کر جانا۔ میری ایسی تعریف نہ بیان کرنا جو مجھ میں نہیں ہے کیونکہ اللہ مجھے زیادہ جانتا ہے۔ اور جب تم مجھے لے جانے لگو تو چلنے میں جلدی کرنا۔ اگر میرے لیے اللہ کے پاس خیر ہے تو تم مجھے اس چیز کی طرف بھیجتے ہو جو میرے لیے زیادہ بہتر ہے اور اگر اس کے سوا ہو تو تم اپنی گردن سے اس شر کو ٹال دو گے جو تم اٹھائے ہوئے ہو۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 273۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
اس کے علاوہ یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ حضرت عمرؓ نےوصیت کی تھی کہ مجھے مِسک یعنی کستوری وغیرہ سے غسل نہ دینا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 279۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت عثمان بن عفانؓ سے مروی ہے کہ میں حضرت عمرؓ کے پاس گیا جب ان کا سر ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی ران پر تھا۔ حضرت عمرؓ نے ان کو یعنی حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو کہا کہ میرا رخسار زمین پر رکھ دو۔ حضرت عبداللہ نے کہا میری ران اور زمین برابر ہی ہے یعنی اس میں فاصلہ ہی کتنا ہے۔ حضرت عمرؓ نے دوسری یا تیسری مرتبہ کہا کہ تیرا بھلا ہو میرا رخسار زمین پر رکھ دو۔ پھر آپ (حضرت عمرؓ ) نے اپنی ٹانگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا لیا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر میں نے آپ (حضرت عمرؓ ) کوکہتے ہوئے سنا کہ میری اور میری ماں کی ہلاکت ہو گی اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے نہ بخشا یہاں تک کہ آپؓ کی وفات ہو گئی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 274-275 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت سماک حنفیؓ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباسؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت عمرؓ سے کہا اللہ نے آپؓ کے ذریعہ سے نئے شہر آباد کیے اور آپؓ کے ذریعہ سے بہت سی فتوحات حاصل ہوئیں اور آپؓ کے ذریعہ سے فلاں فلاں کام ہوا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میری تو تمنا ہے کہ اس سے ایسے نجات پا جاؤں کہ نہ میرے لیے کوئی اجر ہو اور نہ کوئی بوجھ۔ یعنی اس بات پر فخر نہیں کہ ہاں میں نے بڑے بڑے کام کیے ہیں اور میرے وقت میں بڑی فتوحات ہوئی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت غالب رہے اور اپنی آخرت کی فکر تھی۔
زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؓ نے فرمایا تم لوگ امارت کے بارے میں مجھ پر شک کرتے ہو۔ خدا کی قسم! مجھے تو یہ پسند ہے کہ میں اس طرح نجات پا جاؤں کہ لَا عَلَیَّ وَلَا لِیْ کہ نہ مجھ پر کچھ عذاب ہو اور نہ میرے لیے کوئی ثواب یا جزا ہو۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ267 ذکر ہجرۃ عمر بن الخطاب مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ جیسا انسان جنہوں نے اپنی ساری عمر ہی ملت اسلامیہ کے غم اور فکر میں گھلا دی۔ جنہوں نے ہر موقعہ پر اعلیٰ سے اعلیٰ قربانی کی گو عمل کے لحاظ سے ان کی قربانیاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قربانیوں تک نہ پہنچیں لیکن ارادہ اور نیت کے لحاظ سے سب کی برابر تھیں۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور انہوں نے کہا: خدا تعالیٰ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر برکت کرے میں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ ان سے بڑھ جاؤں مگر کبھی کامیاب نہ ہوا۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال لاؤ تو میں اپنا نصف مال لے گیا اور خیال کیا کہ آج میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ جاؤں گا مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے پہلے وہاں پہنچے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چونکہ ان سے رشتہ بھی تھا اور جانتے تھے کہ انہوں نے کچھ نہیں چھوڑا ہو گا اس لئے آپؐ دریافت فرما رہے تھے کہ ابوبکرؓ ! گھر کیا چھوڑا؟ انہوں نے کہا گھر‘‘ گھر میں ’’خدا اور رسولؐ کا نام چھوڑا ہے۔ یہ کہہ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ روتے اور فرماتے میں اس وقت بھی ان سے نہ بڑھ سکا۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’یہ ان کی قربانیاں تھیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پہلے بھی دیتے رہتے تھے لیکن جب خاص موقعہ آیا تو سب کچھ لا کر رکھ دیا۔ ایک طرف تو یہ لوگ تھے اور ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے مال کے دسویں حصہ کی قربانی کا بھی موقعہ نہیں ملتا اور کہتے ہیں ہم لٹ گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب فوت ہونے لگے تو بار بار ان کی آنکھیں پرنم ہو جاتیں اور کہتے خدایا میں کسی انعام کا مستحق نہیں ہوں۔ میں تو صرف یہی چاہتا ہوں کہ سزا سے بچ جاؤں۔‘‘ (خطبات محمود جلد10 صفحہ 24)
پھر تدفین اور جنازے کے بارے میں بیان ہوتا ہے کہ آپؓ کے بیٹے حضرت عبداللہؓ نے آپؓ کو غسل دیا۔ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ مسجدنبویؐ میں حضرت عمرؓ کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور حضرت صہیبؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپؓ کی نماز جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر اور روضہ کے درمیان والی جگہ پر ادا کی گئی۔ حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ کو قبر میں اتارنے کے لیے عثمان بن عفانؓ، سعید بن زید، صہیب بن سنان اور عبداللہ بن عمرؓ اترے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ المجلد الثالث صفحہ 279 تا 281، فی ذکر استخلاف عمر۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ مجلد رابع صفحہ 166۔ دار الکتب العلمیۃ۔ الطبعۃ الثالثۃ 2003ء)
ان کے علاوہ حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر بن عوامؓ کا نام بھی آتا ہے۔ (سیدنا حضرت عمر فاروق اعظمؓ از محمد حسین ہیکل، مترجم 867-868 اسلامی کتب خانہ لاہور) (الفاروق از شبلی نعمانی صفحہ 169 دار الاشاعت کراچی 1991ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’صلحاء کے پہلو میں دفن بھی ایک نعمت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھاہے کہ مرض الموت میں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہلا بھیجا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں جو جگہ ہے انہیں دی جاوے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایثار سے کام لے کر وہ جگہ ان کو دےدی تو فرمایا۔ مَا بَقِیَ لِیْ ھَمٌّ بَعْدَ ذَلِکَ۔ یعنی اس کے بعد اب مجھے کوئی غم نہیں جبکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ میں مدفون ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد8صفحہ286)
ایک اَور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص بکمال شوق اللہ کے دامن سے وابستہ ہو جاتا ہے تو وہ اسے ہرگز ضائع نہیں کرتا خواہ دنیا بھر کی ہر چیز اس کی دشمن ہو جائے۔ اور اللہ کا طالب کسی نقصان اور تنگی کا منہ نہیں دیکھتا۔ اور اللہ صادقوں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا۔ اللہ اکبر! ان دونوں (ابوبکرؓ و عمرؓ ) کے صدق و خلوص کی کیا بلند شان ہے وہ دونوں ایسے (مبارک) مدفن میں دفن ہوئے کہ اگر موسیٰؑ اور عیسیٰؑ زندہ ہوتے تو بصد رشک وہاں دفن ہونے کی تمنا کرتے لیکن یہ مقام محض تمنا سے تو نہیں حاصل ہو سکتا اور نہ صرف خواہش سے عطا کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو بارگاہ رب العزت کی طرف سے ایک ازلی رحمت ہے اور یہ رحمت صرف انہی لوگوں کی طرف رخ کرتی ہے جن کی طرف عنایت (الٰہی) ازل سے متوجہ ہو۔‘‘ (سرّ الخلافہ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 346۔ اردو ترجمہ سرّ الخلافہ صفحہ 78)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوت ہونے لگے تو انہوں نے اس بات کے لئے بڑی تڑپ ظاہر کی کہ آپؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں دفن ہونے کی جگہ مل جائے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہلا بھیجا کہ اگر اجازت دیں تو مجھے آپؐ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ حضرت عمرؓ وہ انسان تھے جن کے متعلق عیسائی مؤرخ بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسی حکومت کی جو دنیا میں اَور کسی نے نہیں کی۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں‘‘ یعنی عیسائی مؤرخین ’’مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے ہیں۔ ایسا شخص ہر وقت کی صحبت میں رہنے والا مرتے وقت یہ حسرت رکھتا ہے کہ رسول کریمﷺ کے قدموں میں‘‘ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا مرتے وقت بھی یہ حسرت کرتا ہے کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں اسے جگہ مل جائے۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی کہ آپؐ خدا کی رضا کے لئے کام نہیں کرتے تو کیا حضرت عمرؓ جیسا انسان اس درجہ کو پہنچ کر کبھی یہ خواہش کرتا کہ آپؐ کے قدموں میں جگہ پائے۔‘‘ (دنیا کا محسن۔ انوار العلوم جلد 10 صفحہ 262)
پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے جس کی وجہ سے حضرت عمرؓ کی بھی خواہش ہوئی کہ آپؐ کے قدموں میں جگہ پائیں۔ حضرت عمرؓ کی وفات ۔حضرت عمرؓ کی وفات کے وقت کیا عمر تھی؟
اس بارے میں بھی مختلف رائے ہیں۔ سن پیدائش کے متعلق مختلف روایات ہیں۔ اس لیے آپؓ کی وفات کے وقت عمر کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ چنانچہ تاریخ طبری، اسد الغابہ، البدایۃ والنھایہ، ریاض النظرۃ، تاریخ الخلفاء کی مختلف روایات میں آپؓ کی عمر ترپن سال، پچپن سال، ستاون سال، انسٹھ سال، اکسٹھ سال، تریسٹھ سال اور پینسٹھ سال بیان ہوئی ہے۔ (تاریخ الطبری مترجم جلد سوم حصہ اول صفحہ 211 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2003ء) (اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 166 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت) (البدایۃ والنھایہ الجزء العاشر صفحہ 192 تا 194 مطبوعہ دار ھجر 1998ء) (ریاض النظرۃ صفحہ 418-419 دار الکتب العلمیۃ بیروت) (تاریخ الخلفاء از امام جلال الدین سیوطی (مترجم) صفحہ 168 ممتاز اکیڈمی لاہور)
البتہ صحیح مسلم اور ترمذی کی روایت کے مطابق آپؓ کی عمر تریسٹھ سال بیان کی گئی ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ وفات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ برس تھی۔ حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے وقت عمر تریسٹھ برس تھی اور حضرت عمرؓ کی بھی وفات کے وقت عمر تریسٹھ برس تھی۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب کم سن النبیﷺ یوم قبض حدیث6091) (سنن الترمذی کتاب المناقب باب فی سنن النبیؐ کم کان حین مات حدیث 3653)
حضرت عمرؓ کی وفات پر بعض صحابہ کرام کے تاثرات کے بارے میں یہ بیان ہوا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کا جسد مبارک جنازے کے لیے رکھا گیا اور لوگ ان کے گر د کھڑے ہو گئے۔ ان کے اٹھانے سے پہلے دعا کرنے لگے۔ پھر نماز جنازہ پڑھنے لگے اور میں بھی ان میں موجود تھا تو ایک شخص نے میرا کندھا پکڑ کر چونکا دیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت علی بن ابوطالبؓ ہیں۔ آپؓ نے حضرت عمرؓ کے لیے رحمت کی دعا کی اور کہا کہ آپؓ نے کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جو آپؓ سے بڑھ کر مجھے اس لحاظ سے پیارا ہو کہ میں اس کے اعمال جیسے عمل کرتے ہوئے اللہ سے ملوں۔ بخدا میں یہی سمجھتا تھا کہ اللہ آپؓ کو بھی آپؓ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا یعنی حضرت عمرؓ کو بھی آپؓ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا اور میں جانتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت دفعہ میں یہ سنا کرتا تھا، آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ ذَہَبْتُ أَنَا وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ۔ میں اور ابوبکر اور عمر گئے۔ مَیں اور ابوبکر اور عمر داخل ہوئے۔ مَیں اور ابوبکر اور عمر نکلے۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل الصحاب النبیﷺ باب مناقب عمر بن الخطاب حدیث 3685)
یعنی مختلف واقعات بیان کرتے ہوئے آپؐ یہ فقرے فرمایا کرتے تھے۔
جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطابؓ کو غسل اور کفن دے دیا گیا اور آپؓ کو چارپائی پر رکھ دیا گیا تو حضرت علیؓ نے ان کے پاس کھڑے ہو کر آپؓ کی تعریف فرمائی اور کہا اللہ کی قسم! مجھے اس چادر میں ڈھکے ہوئے انسان سے زیادہ رُوئے زمین پر کوئی شخص پسندنہیں کہ میں اس کے نامہ اعمال کے ساتھ خدا سے ملوں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ282ذکر ہجرۃ عمر بن الخطاب مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
ابومَخْلَدسے روایت ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالبؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے تھے کہ ہم نے جان لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکرؓ ہم میں افضل ہیں اور حضرت ابوبکرؓ فوت نہیں ہوئے تھے کہ ہم نے جان لیا کہ حضرت ابوبکرؓ کے بعد ہم میں حضرت عمرؓ سب سے افضل ہیں۔ (سیرۃ عمر بن الخطاب از ابن جوزی صفحہ 212۔ مکتبہ مصریہ الازھر)
زید بن وَھَب بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئے۔ آپ حضرت عمرؓ کا ذکر کرتے ہوئے اتنا روئے کہ آپؓ کے آنسو گرنے سے کنکر بھی تر ہوگئے۔ پھر آپؓ نے کہا حضرت عمرؓ اسلام کے لیے حصن ِحصین تھے۔ لوگ اس میں داخل ہوتے اور باہر نہ نکلتے۔ ایک مضبوط قلعہ تھے لوگ اس میں داخل ہوتے اور باہر نہ نکلتے۔ جب آپؓ کی وفات ہوئی تو اس قلعہ میں دراڑ پڑ گئی اور لوگ اسلام سے نکل رہے ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ جلد3صفحہ283دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان1990)
ابووائل سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ اگر حضرت عمرؓ کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور باقی تمام انسانوں کا علم دوسرے پلڑے میں تو حضرت عمرؓ کا پلڑا بھاری ہو گا۔ ابووائل نے کہا کہ میں نے اس کا ذکر ابراہیم سے کیا تو انہوں نے کہا خدا کی قسم! ایسا ہی ہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے اس سے بھی بڑھ کر کہا کہ میں نے پوچھا کیا کہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ جب حضرت عمرؓ کی وفات ہو گئی تو انہوں نے یہ کہا کہ علم کے دس میں سے نو حصے جاتے رہے۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3صفحہ 651 عمر بن الخطابؓ مطبوعہ دارالفکر بیروت 2003ء)
حضرت انسؓ نے کہا کہ جب حضرت عمر بن خطابؓ کی شہادت ہوئی تو حضرت ابوطلحہؓ نے کہا: عرب میں کوئی شہری یا بدوی گھر ایسا نہیں مگر اس کے گھر کو حضرت عمرؓ کی شہادت سے نقصان پہنچا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 285۔ ذکر استخلاف عمر۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان1990)یعنی ہر ایک کی اتنی مدد کرتے تھے کہ یقیناً ان کو نقصان پہنچے گا۔ یہ لوگ متاثر ہوں گے۔
حضرت عبداللہ بن سلامؓ نے حضرت عمرؓ کے جنازے کے بعد حضرت عمرؓ کی چارپائی کے پاس کھڑے ہو کر کہا اے عمرؓ ! آپؓ کیا ہی عمدہ اسلامی بھائی تھے۔ حق کے لیے سخی اور باطل کے لیے بخیل تھے۔ رضا مندی کے اظہار کے وقت آپؓ راضی ہوتے اور غصہ کے وقت آپؓ غصہ کرتے۔ پاک نظر اور عالی ظرف والے تھے۔ نہ بےجا تعریف کرنے والے تھے اور نہ ہی غیبت کرنے والے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ282 ذکر ھجرۃ عمر بن الخطاب مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان1990)
ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت عمرؓ کی وفات پر حضرت سعید بن زیدؓ روئے تو کسی نے کہا اے اَبُوالْاَعْوَر! آپؓ کیوں روتے ہیں؟ انہوں نے کہا میں اسلام پر روتا ہوں۔ یقیناًً حضرت عمرؓ کی وفات سے اسلام میں ایسا رخنہ پیدا ہو گیا ہے جو قیامت تک پُر نہیں ہوگا۔ (طبقات الکبریٰ جلد3صفحہ284 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان1990)
حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں آپؐ کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکر ہیں۔ پھر حضرت عمر، پھر حضرت عثمان ہیں رضی اللہ عنہم۔ (سنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب فی التفضیل حدیث: 4628)
حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ حضرت عمرؓ کے دَور میں اسلام کی مثال اس شخص کی طرح تھی جو مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ جب آپؓ کی شہادت ہو گئی تو وہ دَور پیٹھ پھیر گیا اور مسلسل پیچھے جاتا جا رہا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 285۔ ذکر استخلاف عمر۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان1990)
حضرت عمرؓ کی ازواج اور اولاد کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ آپؓ کی مختلف وقتوں میں دس بیویاں تھیں جن میں سے نو بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں۔ ان میں سے ایک حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ بننے کی سعادت ملی۔ حضرت زینب بنت مظعونؓ پہلی تھیں۔ یہ حضرت عثمان بن مظعونؓ کی بہن تھیں۔ ان سے آپ کی اولاد عبداللہ، عبدالرحمٰن اکبر اور حضرت حفصہؓ ہیں۔ حضرت ام کلثوم بنت علی بن ابوطالبؓ: ان سے آپؓ کی اولاد زید اکبر اور رُقَیّہ ہیں۔ مُلَیْکَہ بنت جَرْوَلْ: ان کو ام کلثوم بھی کہتے ہیں۔ ان سے آپؓ کی اولاد زید اصغر اور عُبید اللّٰہ ہیں۔ قُرَیْبَہ بنتِ ابوامیہ مخزومی: چونکہ مُلَیْکَہ اور قُرَیْبَہ ایمان نہیں لائی تھیں اس لیے حضرت عمرؓ نے چھ ہجری میں ان دونوں کو طلاق دے دی تھی۔ حضرت جمیلہ بنت ثابت: ان کا نام عَاصِیَہ تھا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کر کے جَمِیلہ رکھ دیا تھا۔ یہ بدری صحابی عاصم بن ثابت کی بہن تھیں۔ ان سے آپ کی اولاد عاصم ہیں۔ لُھَیَّہ سے آپ کی اولاد عبدالرحمٰن اَوْسَطْ ہیں۔ ایک اور آپؓ کی بیوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ام ولد ہیں یعنی کہ وہ لونڈی جس سے شادی کی جاتی ہے۔ اس کی اولاد ہو تو وہ آزاد ہو جاتی ہے۔ ایک اَور ام ولد تھیں جن کے بطن سے عبدالرحمٰن اصغر پیدا ہوئے۔ حضرت ام حکیم بنت حارث سے آپؓ کی اولاد فاطمہ تھیں۔ فُکَیھَہ سے آپؓ کی اولاد زینب تھیں۔ حضرت عاتکہ بنت زید: اِن سے آپ کی اولاد عیاض ہے۔ (الخلفاء الرشدون از محمد رضا صفحہ 100 مطبوعہ دار الکتاب العربی بیروت 2004ء) (الفاروق از شبلی نعمانی صفحہ 404 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 1991ء) (اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 53 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2003ء)
مشہور مستشرق ایڈورڈ گبن حضرت عمرؓ کی تعریف میں لکھتا ہے کہ حضرت عمرؓ کی پرہیز گاری اور عاجزی حضرت ابوبکرؓ کی نیکیوں سے کم نہ تھی۔ آپؓ کے کھانے میں جَو کی روٹی اور کھجوریں ہی ہوتی تھیں۔ پانی آپؓ کا مشروب تھا۔ آپؓ نے لوگوں کو تبلیغ کی اس حال میں کہ آپؓ کا چوغہ بارہ جگہوں سے پھٹا ہوا تھا۔ ایرانی گورنر جنہوں نے اس فاتح کو خراج عقیدت پیش کیا انہوں نے آپؓ کو مسجدنبوی کی سیڑھیوں پر فقیروں کے ساتھ سوتے دیکھا۔ معیشت منبع ہوتی ہے آزاد خیالی کا اور آمدنی میں اضافے کے باعث عمرؓ اس قابل ہوئے کہ مخلصین کی ماضی اور حال کی خدمات کے باعث ان کے لیے وظیفہ کا منصفانہ اور مستقل نظام قائم کر سکیں۔ اپنے وظیفہ سے بے نیاز تھے۔ آپؓ نے عباس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا) کے لیے سب سے پہلا اور ضرورت کے لیے کافی پچیس ہزار درہم یاچاندی کے ٹکڑے وظیفہ مقرر کیا۔ جنگِ بدر میں شامل ہونے والے بزرگ صحابہ میں سے ہر ایک کے لیے پانچ ہزار درہم کا وظیفہ مقرر کیا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہ کو سالانہ انعام کے طور پر تین ہزار چاندی کے ٹکڑوں سے نوازا گیا۔ (The decline and fall of the Roman empire. by Edward Gibbon. vol. 3 chapter LI. page 178. London)
مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی کتاب The Hundred میں تاریخ کی سو بااثر شخصیات کا ذکر کیا ہے اور پہلے نمبر پر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیا ہے اور اس کتاب میں باون ویں نمبر پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا ہے۔ یہ لکھتا ہے کہ عمر بن خطاب مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ اور غالباً مسلمانوں کے سب سے عظیم ترین خلیفہ تھے۔ آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نوجوان ہم عصر اور انہی کی طرح مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپؓ کی پیدائش کا سال معلوم نہیں مگر شاید 586ء کے قریب کا زمانہ تھا۔ آغاز میں عمؓ ر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپؐ کے نئے دین کے سب سے سخت دشمنوں میں سے تھے تاہم اچانک عمرؓ نے اسلام قبول کر لیا اور اس کے بعد اس کے مضبوط ترین حمایتیوں میں سے ہو گئے۔ سینٹ پال کے عیسائی ہونے سے اس کی مشابہت حیرت انگیز ہے۔ عمرؓ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین مشیروں میں سے ہو گئے اور آپ کی وفات تک ایسے ہی رہے۔
632ء میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بغیر اپنا جانشین نامزد کیے فوت ہو گئے۔ عمرؓ نے فوری طور پر ابوبکرؓ کے عہدہ خلافت کے لیے حمایت کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھی اور خسر تھے جس کی وجہ سے اقتدار کی کشمکش ٹل گئی۔ یہ تو اپنے انداز میں لکھ رہا ہے اور یہ ماننے کوتیار نہیں کہ کس طرح لوگوں نے اکٹھے ہو کرآپؓ کو خلیفہ منتخب کیا لیکن بہرحال دنیاوی نظر سے دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ان کے خسر کی بیعت کر لی جس کی وجہ سے اقتدار کی کشمکش ٹل گئی اور اس سے ابوبکرؓ اس قابل ہوئے کہ ان کو عام طور پر پہلا خلیفہ مانا گیا یعنی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین۔ ابوبکرؓ ایک کامیاب راہنما تھے لیکن وہ صرف دو سال تک خلیفہ کے طور پر خدمت بجا لانے کے بعد فوت ہوئے۔ البتہ انہوں نے اپنے بعد معین طور پر عمرؓ کو اپنا جانشین نامزد کیا۔ عمرؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خسر تھے اس وجہ سے ایک دفعہ پھر اقتدار کی جنگ ٹل گئی۔ پھر یہ اس کو دنیاوی رنگ دینا چاہتا ہے۔ لیکن تعریف بہرحال کر رہا ہے۔ عمر 634ء میں خلیفہ بنے اور 644ء تک اقتدار یعنی خلافت میں رہے جب انہیں ایک فارسی غلام نے مدینہ میں شہید کر دیا۔ بسترِ مرگ پر عمرؓ نے چھ لوگوں کی ایک کمیٹی کو مقرر کیا جو ان کا جانشین منتخب کر لیں اور اس دفعہ ایک دفعہ پھر مسلح اقتدار کی جنگ کو ٹال دیا۔ اس کمیٹی نے عثمانؓ کو تیسرا خلیفہ مقرر کیا جنہوں نے 644ءسے 656ء تک حکومت کی۔
پھر یہ لکھتا ہے کہ یہ حضرت عمرؓ کا ہی دس سالہ دور خلافت تھا جس میں عربوں نے سب سے اہم فتوحات حاصل کیں۔ آپؓ کی خلافت کے تھوڑے عرصہ ہی میں عرب فوج نے شام اور فلسطین پر حملہ کیا جو اس وقت بازنطینی سلطنت کا حصہ تھے۔ جنگِ یرموک 636ء میں عربوں نے بازنطینی فوجوں کے خلاف ایسی فتح حاصل کی جس سے ان کی کمر ٹوٹ گئی۔ دمشق بھی اسی سال فتح ہوا اور یروشلم نے بھی دو سال بعد ہتھیار ڈال دیے۔ 641ء تک عرب تمام فلسطین اور شام کو فتح کر چکے تھے اور موجودہ دور کے ترکی میں پیش قدمی کر رہے تھے۔ 639ء میں عرب فوجیں مصر میں داخل ہو گئیں جو کہ بازنطینی حکومت کے ہی ماتحت تھا۔ تین سال کے اندر اندر عرب مکمل طور پر مصر پر فتح پا چکے تھے۔ عراق پر عربوں کے حملے جو اس وقت فارسیوں کی ساسانی سلطنت کا ایک حصہ تھا وہ حضرت عمرؓ کے مسند خلافت پر فائز ہونے سے بھی پہلے شروع ہو چکے تھے۔ عربوں کی کلیدی فتح جنگِ قادسیہ 637ء میں کامیابی کی صورت میں حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی۔ 641ء تک تمام عراق عربوں کے قبضے میں آ چکا تھا اور یہیں پر بس نہیں، عرب فوجوں نے فارس پر بھی حملہ کر دیا تھا اور نہاوند کے معرکہ میں 642ء عیسوی میں انہوں نے آخری ساسانی بادشاہوں کی فوجوں کو فیصلہ کن شکست دے دی تھی۔
جس وقت عمر کی وفات ہوئی یعنی 644ء میں مغربی ایران کا بیشتر حصہ قبضہ میں آ چکا تھا۔
حضرت عمرؓ کی وفات پر بھی عرب فوجوں کا جوش ماندنہ پڑا۔ مشرق میں انہوں نے جلد ہی فارس کی فتح مکمل کر لی جبکہ مغرب میں شمالی افریقہ میں قدم بڑھاتے رہے۔ پھر لکھتا ہے کہ جس قدر عمرؓ کی فتوحات کی وسعت کی اہمیت ہے اسی قدر ان فتوحات کی پائیداری بھی اہم ہے۔ اگرچہ ایران کی آبادی نے اسلام قبول کر لیا لیکن بالآخر انہوں نے عربوں کی حکمرانی سے آزادی حاصل کر لی لیکن شام، عراق اور مصر نے ایسا نہیں کیا۔ وہ یکسر عرب تہذیب میں ڈھل گئے اور آج تک یہی صورتحال ہے۔ پھر لکھتا ہے کہ بلاشبہ عمرؓ کو پالیسیاں بنانی پڑیں تاکہ وہ اس عظیم سلطنت کا انتظام کر سکیں جو ان کی فوجوں نے فتح کی تھیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ عربوں کو ان علاقوں میں جو انہوں نے فتح کیے ہیں ایک خصوصی فوجی مقام حاصل ہو اور وہ مقامی لوگوں سے الگ چھاؤنیوں میں رہیں۔ محکوم لوگوں کو اپنے مسلمان فاتحین کو جو زیادہ تر عرب تھے ایک جزیہ دینا ہوتا تھا۔ باقی انہیں مکمل امن و امان حاصل تھا۔ اس کے علاوہ ان پر کوئی اور ذمہ داری عائدنہیں ہوتی تھی۔ خصوصاً انہیں اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاتا تھا۔ مندرجہ بالا بات سے یہ ثابت ہے کہ عربوں کی مہمات مقدس جنگوں سے زیادہ قومی نوعیت کی تھیں۔ اگرچہ مذہبی عنصر مکمل طور پر مفقودنہیں تھا۔ عمرؓ کی کامیابیاں بلا شبہ متاثر کن ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؓ اسلام کے پھیلاؤ میں کلیدی شخصیت تھے۔ آپؓ کی تیز رفتار فتوحات کے بغیر شاید یہ ممکن نہ ہوتا کہ اسلام اتنا پھیلتا جتنا آج وہ پھیلا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ حضرت عمرؓ کے دور میں فتح کیے گئے علاقے اب تک عرب ہی ہیں۔ بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ سب سے اہم محرک تھے انہی کو بہت زیادہ ترقیات کا کریڈٹ جاتا ہے مگر حضرت عمرؓ کے کردار کو نظر انداز کرنا بھی بہت بڑی غلطی ہو گی۔ آپؓ کی فتوحات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اثر میں رہنے کی وجہ سے نتیجۃً خود بخودنہیں ہوئی تھیں کچھ وسعت تو مقدر تھی لیکن اس غیر معمولی حد تک نہیں جہاں تک عمرؓ کی شاندار قیادت میں ہوئی۔ پھر لکھتا ہے کہ شاید یہ حیرت کاموجب ہو کہ عمرؓ جو مغرب میں ایک نامعلوم شخصیت ہیں کو شارلیمن (Charlemagne) اور جولیس سیزر جیسی مشہور شخصیات سے بلند تر مرتبہ دیا جائے تاہم عمرؓ کے دور میں عربوں کی فتوحات شارلیمن اور جولیس سیزر کے مقابلے میں بلحاظ حجم اور وقت کے بہت زیادہ اہم ہیں۔ (The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History by Michael H. Hart pages 271 to 275 Golden Books centre Sdn. Bhd. 2008)
پھر ایک پروفیسر ہیں فلپ۔ کے۔ ہٹی (Philip K. Hitti) اپنی کتاب History of the Arabsمیں لکھتے ہیں کہ سادہ، کفایت شعار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متحرک اور باصلاحیت جانشین عمرؓ جو کہ بلند قامت اور مضبوط جسامت والے اور سر پر کم بالوں والے تھے، آپؓ نے خلافت کے بعد کچھ وقت تک تجارت کے ذریعہ گزر بسر کی کوشش کی۔ آپؓ نے اپنی تمام عمر ایک بادیہ نشین شیخ کی طرح سادگی سے گزاری۔ درحقیقت عمر کو، جن کا نام مسلم روایات کے مطابق ابتدائے اسلام میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے عظیم تھا، مسلمان مؤرخین نے ان کے تقویٰ، انصاف اور سادگی کے لیے بطور مثال پیش کیا ہے اور خلیفہ کی شخصیت میں ہونے والی تمام خوبیوں کے طور پر پیش کیا ہے۔ پھر لکھتا ہے کہ آپؓ کا بلندو بالا کردار تمام باضمیر جانشینوں کے لیے پیروی کا نمونہ بن گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ آپؓ کے پاس صرف ایک قمیص اور ایک چوغہ تھا اور دونوں پر پیوند واضح طور پر نظر آتے تھے۔ آپؓ کھجور کے پتوں کے بستر پر سو جاتے۔ آپؓ کو ایمان کی پختگی، انصاف کی بالا دستی، عربوں اور اسلام کے عروج اور سلامتی کے علاوہ کوئی اَور خیال نہ تھا۔ (History of The Arabs by Philip K. Hitti ,10th edition, page 175, London 1989)
یہ ذکر ابھی چل رہا ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ (بیان) ہو گا۔
اس وقت مَیں کچھ جنازوں کا، مرحومین کا ذکر کروں گا جس میں سے پہلا ذکر مکرمہ صاحبزادی آصفہ مسعودہ بیگم صاحبہ کا ہے جو ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب ابن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی اہلیہ تھیں۔ گذشتہ دنوں 92 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نواسی اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اور حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہو تھیں۔ اللہ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ ان کے پسماندگان میں ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہیں۔ ان کے بیٹے طارق اکبر کہتے ہیں کہ امی ہمیشہ جماعت اور خلیفہ وقت کی وفادار رہیں۔ ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ جماعت کی خدمت کریں اور اپنی وصیت کا حق ادا کریں۔ آپ نے اپنی زندگی میں ہی اپنا حصہ جائیداد ادا کر دیا تھا۔ ہر سال مرحومین کی طرف سے بھی چندہ ادا کرتی تھیں۔ غریبوں کی دل کھول کر اور خفیہ طور پر مدد کرتی تھیں۔ ملازمین کے بارے میں مجھے اکثر کہا کرتی تھیں کہ یہ تمہارے بہن بھائیوں کی طرح ہیں ان کا خیال رکھا کرو۔ رشتوں کو نبھانے کی کوشش کرتی تھیں اور کوشش کرتی تھیں کہ ان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ نمازوں کی پابند، حقو ق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے والی خاتون تھیں۔ ان کی بہو نعیمہ صاحبہ کہتی ہیں کہ جب امریکہ میں ہمارے گھر کی تعمیر مکمل ہوئی تو فرمانے لگیں کہ اس گھر میں سامان لانے سے پہلے اس گھر کے ہر کمرے اور گوشے میں نوافل ادا کرنا۔ پھر کہتی ہیں کہ میری والدہ کی وفات کے بعد مجھے کہنے لگیں کہ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم اب بِن ماں کے ہو۔ میں تمہاری ماں ہوں اور واقعی ان کی محبت بھری اور دعا گو پیاری شخصیت نے مجھے اپنی بیٹیوں سے بڑھ کر محبت دی۔ پھر ہمیشہ یہ نصیحت کرتی تھیں کہ خلافت سے کبھی تعلق نہ توڑنا اور پھرمجھ سے جو اِن کا رشتہ ہے، مختلف رشتے تھے کیونکہ یہ میری دادی کی دوسری والدہ سے بہن بھی تھیں اس لحاظ سے دادی بھی کہلاتی تھیں اور خالہ بھی بنتی تھیں۔ رشتہ میں پھوپھی بھی بنتی تھیں۔ لیکن کہتی ہیں کہ ان سب رشتوں کے باوجود میں بس خلیفہ وقت کی تابعدار ہوں اور یہ صرف باتیں ہی نہیں ہیں بلکہ واقعی انہوں نے اس تعلق کو جو خلافت کے ساتھ ان کا تعلق ہے اس کو وفا کے ساتھ نبھایا۔ کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے والی تھیں۔ تحریک جدید کا چندہ بزرگان اور اساتذہ بلکہ یہاں تک کہ قادیان کے ملازموں کی طرف سے بھی ادا کیا کرتی تھیں۔ ملازم کو جب کوئی رخصت ہوتا تو کافی دے دلا کر رخصت کرتیں اور پھریہ بھی کہتیں کہ اگر کوئی غلطی ہو تو معاف کر دینا۔
ان کی ایک بیٹی شاہدہ کہتی ہیں چھوٹے ہوتے سے ہی امی نے ہمارا اللہ تعالیٰ سے اس طرح تعارف کروا دیا کہ کہا کرتی تھیں کہ جوتے کا تسمہ بھی چاہیے تو خدا تعالیٰ سے مانگو اور دعاؤں پر زور دو اور خلافت کے احترام کی طرف بہت تلقین کیا کرتی تھیں اور جب بھی انتخاب خلافت کا وقت آیا تو کہتی تھیں کہ جو بھی خلیفہ منتخب ہو کامل فرمانبرداری سے اس کی اطاعت کرنی ہے او ریہ بھی کہا کرتی تھیں کہ یہ دعا کرو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سرسبز ٹہنی بنو، سوکھی ٹہنی نہ بن جانا اور کسی کے لیے ٹھوکر کا باعث نہ بننا۔
پھر ان کی بیٹی نصرت جہاں کہتی ہیں کہ ہمارے بچپن سے ہی تربیت کا پہلو ہمیشہ مدنظر رکھتیں۔ قرآن کریم پڑھ رہی ہوتیں تو کسی آیت پر رک جاتیں اور ہمیں اس کا مطلب سمجھاتیں یا کوئی اَور نصیحت کرتیں۔ اس حوالے سے ہمیشہ بزرگوں کا ذکر خیر کرتی رہتیں۔ بہت سے انمول اور نصیحت آموز قصے ان کو یاد تھے جو اکثر وہ دہراتی رہتی تھیں اور ہمیں بتاتی رہتی تھیں۔ صدر صاحبہ لجنہ ضلع لاہور فوزیہ شمیم صاحبہ جو حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ کی بیٹی بھی ہیں وہ کہتی ہیں کہ غیر معمولی خاتون تھیں۔ جب کبھی آپ کو چندے کی تحریک کی جاتی اور ان کو شرح صدر ہو جاتا تو دل کھول کر چندہ ادا کرتی تھیں۔ کبھی زبانی اور کبھی چٹ پر لکھ کر چندے کا وعدہ کر دیا کرتی تھیں اور بڑی رقم چندے کے لیے ادا کرتی تھیں اور ساتھ یہ کہتی تھیں کہ کہیں اس کا ذکر نہ ہو۔ بڑی سادہ خاتون تھیں۔ اپنے ذاتی معاملات میں بہت سادہ بلکہ بعض لوگ انہیں کنجوس سمجھتے تھے لیکن خود سادہ رہتی تھیں۔ صدقہ و خیرات میں بہت کھلا ہاتھ تھا۔ کہتی ہیں ایک دفعہ میں نے اپنے علاقے میں مساجد کے لیے تحریک کی اور ان سےذکر کیا تو ایک بہت بڑی خطیر رقم قریباً ایک کروڑ روپے کی مجھے چندے کے لیے بھجوا دی۔
پھر ان کی نواسی راضیہ کہتی ہیں۔ بہت سی نیک باتیں اور ہدایتیں بچپن سے ہی ہمیں کیا کرتی تھیں۔ چھوٹی عمر سے ہی نیک نصیب ہونے کی دعا کرنے کی تلقین کرتی تھیں۔ نیک شوہر ملنے کے لیے دعا کے لیے تلقین کیا کرتی تھیں اور چھوٹی عمر میں شرم آتی تو کہتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی شرم نہیں ہونی چاہیے اس سے کھل کر مانگو۔ دینی کتابیں باقاعدگی سے پڑھتیں اور اکثر گاڑی میں سفر کے دوران دعاؤں اور دعائیہ شعروں کو پڑھتی رہا کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو اور اگلی نسل کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پھر دوسرا ذکر مکرمہ کلارا آپا صاحبہ اہلیہ رولان ساسن بائیف صاحب سابق امیر جماعت قزاقستان کا ہے جو گذشتہ ماہ فوت ہو گئی تھیں۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ عطاءالرب چیمہ صاحب قزاقستان کے مبلغ لکھتے ہیں کہ 94ء- 95ء میں انہوں نے بیعت کی توفیق پائی۔ قزاقستان کے ایک بہت معروف گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے شوہر محترم رولان ساسن بائیف صاحب جماعت قزاقستان کے پہلے امیر جماعت اور صدر جمہوریہ کے ایڈوائزر بھی رہ چکے ہیں اور قزاخ زبان کے معروف ادیب بھی ہیں۔ خود کلارا صاحبہ بھی بہت اچھی مترجم اور مصنفہ تھیں۔ قزاقستان میں جماعت کے قیام کا سہرا کلارا صاحبہ اور ان کے شوہر محترم رولان صاحب کے سر ہے۔ محترمہ کلارا صاحبہ نے قرآن کریم کا قزاخ زبان میں ترجمہ بھی کیا جو بہرحال شائع تو نہیں کیا جا سکا لیکن اس سے ان کی جماعت کے ساتھ محبت بہت عیاں تھی کہ کس طرح وہ احمدیت کو قزاقستان میں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی تھیں اور اس کے لیے حتی المقدور کوشش کرتی تھیں۔ مقامی ملاں لوگ مخالفت میں اس خاندان کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کا اظہار بھی ضرور کیاکرتے ہیں کہ یہ احمدی ہیں اور قزاقستان میں احمدیت کو لانے والے یہی لوگ ہیں۔ مرحومہ کلارا صاحبہ کی بیٹی مَرْحَبَاساسین بائیوالکھتی ہیں کہ وہ بہت اچھی مترجم تھیں۔ کثیر جہتی اور مضبوط شخصیت کی مالک تھیں۔ وہ بہت صاف اور چمکدار کردار کی حامل تھیں۔ 95ء میں لندن میں قائم شدہ قزاقستان کے ثقافتی مرکز ہاؤس آف آبائے کے بانیوں میں سے ایک تھیں۔ لندن میں ہی انہوں نے کتاب قزاقستان تحریر کی اور اس وقت ہی وہ جماعت سے متعارف ہوئیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ صرف بچوں کی والدہ ہی نہیں تھیں بلکہ ان تمام کے لیے بھی جو اُن کے پاس مدد یا مشاورت کے لیے آتے تھے والدہ کا درجہ رکھتی تھیں۔ نورم تائیبیک صاحب کہتے ہیں کہ جماعت کے تمام نوجوان احمدیوں اور عموماً تمام جماعت احمدیہ قزاقستان کے لیے ماں کی جگہ تھیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے دس سال کے عرصہ میں کلارا صاحبہ کا وہ دور دیکھا ہے جس کے پہلے تین سالوں میں انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ اور بعض اوقات ایک پہاڑ کی طرح جماعت کے دفاع اور جماعتی خدمت میں مصروف رہتی تھیں۔ عمر، بیماری اور دیگر امور اور کتابوں کی تیاری وغیرہ کی وجہ سے بعد میں ان کی مصروفیت ہو گئی لیکن دل سے ہمیشہ وہ اسی کوشش میں رہتی تھیں کہ جماعت کا زیادہ سے زیادہ کام کریں اور خلافت اور جماعت سے ہمیشہ مخلص رہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ رولان صاحب اور کلارا صاحبہ قزاقستان میں ایک لمبا عرصہ سے حب الوطنی اور ملک و قوم کے اعلیٰ ترین ترقی کا نشان سمجھے جاتے ہیں۔ رولان صاحب کی کامیابیوں کا بڑا حصہ کلارا صاحبہ کا مرہون منت ہے جو جماعت احمدیہ قزاقستان کے لیے صرف ایک متحرک صدر لجنہ ہی نہیں تھیں بلکہ تمام جماعت احمدیہ قزاقستان کے پہلے امیر کی استاد بھی تھیں۔ کہتے ہیں مجھے یاد ہے کہ کس طرح 96ء سے 99ء یا اس کے بعد تک بھی انہوں نے نہایت عمدہ طریق سے جماعت کے مشن ہاؤس میں لجنہ کی ہفتہ وار کلاس میں لجنہ کی حاضری کو یقینی بنایا جس میں لجنہ مربی صاحب سے مختلف سوال کرتی اور پھر انہیں ان سوالوں کے جواب بتائے جاتے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا کلارا صاحبہ سے بہتر مترجم نہیں ہو سکتا۔ کلارا صاحبہ تمام بزرگ احمدیوں میں سب سے بہترین احمدی تھیں جو جماعت کے نوجوان احمدیوں کے لیے روحانی تقویت کا ذریعہ تھیں۔ ان میں جماعتی اقدار یعنی حقیقی اسلام کی اصل روح قائم تھی۔ مشکل حالات میں بھی وہ کبھی ہمت نہ ہارتی تھیں بلکہ ہمیشہ خود بھی اور دوسروں کو بھی فتوحات کی طرف لے کر جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی کوششیں جو قزاقستان میں احمدیت کے بارے میں ہیں ان کو بھی پورا فرمائے اور ان کی دعاؤں کو بھی پورا فرمائے۔
اگلا ذکر ونگ کمانڈر عبدالرشید صاحب کا ہےجو گذشتہ مہینے فوت ہوئے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے بیٹے فاروق کہتے ہیں کہ ان کے والد کا نام بابو شیخ عبدالعزیز تھا جو سیکرٹری مجلس کارپرداز رہے اور ان کے تایا خان صاحب فرزند علی خان صاحب تھے جنہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کی تاریخ میں پہلا امیر جماعت لاہور مقرر کیا۔ آپ کے والدنے اپنی جوانی میں خود مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اپنے والد کے بارے میں کہتے ہیں کہ رشید صاحب اپنے والدین کی واحد اولاد تھے۔ رشید صاحب کے والد کی پہلے شادی ہوئی پھر ان کے احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے بیوی اپنی دو بیٹیوں سمیت چھوڑ گئی پھر دوسری شادی ہوئی تو اس سے رشید صاحب پیدا ہوئے لیکن کہتے ہیں کہ والدین کے بہت تابعدار تھے۔ ہمیشہ خدمت کرتے اور تابعداری سے ان کی ہر بات مانتے۔ پارٹیشن تک والد صاحب نے قادیان میں ہی تعلیم حاصل کی۔ پھر کہتے ہیں پارٹیشن کے موقع پر آپ بھی دیگر قافلوں کے ہمراہ قادیان سے لاہور پہنچے اور پھر شروع کی چند فیملیوں کے ہمراہ اپنے والدین سمیت ربوہ جا کر آباد ہو گئے۔ 54ء کے لگ بھگ انہوں نے ایئر فورس میں کمیشن حاصل کیا اور مختلف ایئر بیسز (air bases)میں تعینات رہے۔ جہاں بھی رہے احمدیت کا خوب اظہار کرتے رہے۔ لیبیا میں بھی کچھ عرصہ ان کو ڈیپوٹیشن پہ پاکستانی حکومت کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ باوجود اس کے کہ ان کی فائل پہ لکھا ہوا تھا یہ قادیانی ہے، نہیں جا سکتا لیکن ان کے افسر نے ان کو پھر بھی بھیج دیا کہ تمہارے جیسا افسر مجھے اَور کوئی نظر نہیں آ رہا۔ کہتے ہیں کہ والد صاحب کہتے تھے کہ ایک دفعہ پاکستان کے لیبیا میں سفیر سے ملاقات تھی۔ جب آپ سفیر کے آفس میں داخل ہوئے تو ایک طرف عربی زبان میں جماعت کے خلاف کتابیں اور پمفلٹ رکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے(رشید صاحب نے) بڑی جرأت سے سفیر سے پوچھا کہ یہ کیا ہے اور کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ اس نے جواب دیا یہ سب کچھ لغویات ہیں۔ فکر نہ کرو۔ کہتے ہیں کہ یہ ضیاء الحق کی حکومت کی طرف سے چھپوا کر ہمیں بھجوایا گیا ہے کہ اپنے ملکوں میں تقسیم کریں اور تمام عرب ایمبیسیز کو یہ بھیجا گیا ہے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ 1982ء میں ان کی ایک رپورٹ پر جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سپین آئے ہوئے تھے تو وہیں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے خود اپنے ہاتھ سے خط پہ لکھ کے ان کو امیر جماعت لیبیا مقرر کیا اور آپ لیبیا کے پہلے امیر جماعت تھے۔ نمازوں کی ادائیگی تو خیر ہے ہی کہ ایک مومن کا فرض ہے۔ تلاوت قرآن کریم اور چندہ جات کی ادائیگی میں بھی بہت باقاعدہ تھے۔ وفات سے پہلے ہی اپنا حصہ آمد ادا کر چکے تھے۔ وقفِ جدید، تحریک جدید کے چندے اپنی طرف سے بھی اور بزرگوں کی طر ف سے بھی ادا کیا کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کا ایک واقعہ اپنے بیٹے کو بیان کیا۔ بیٹے نے لکھا ہے کہ ربوہ کے شروع دنوں میں کسی موقع پر خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو بلایا، گرمیوں کے دن تھے۔ کہتے ہیں جب اباجان کمرے میں داخل ہوئے تو حضور چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور جب آپ اٹھے تو حضور کے بدن پر چٹائی کے نشان موجود تھے۔ ان باتوں کی وجہ سے کہتے ہیں ہم بچوں کے دل میں بھی خلافت سے محبت اور اطاعت کا بڑا تعلق پیدا ہوا اور بہت اثر ہوا۔
1984ء میں ایئر فورس سے سکواڈرن لیڈر کے عہدے سے، رینک سے ریٹائر ہوئے۔ پھر ربوہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور صدر عمومی اور قضا کے دفتر میں کچھ عرصہ کام کیا۔ غریب پرور انسان تھے اور ہر ایک کی ضرورتوں کا خیال رکھا کرتے تھے اور کہتے ہیں کہ انہوں نے جاتے ہوئے آخری وصیت بھی یہی کی کہ غریبوں کا خیال رکھنا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔
اگلا ذکر مکرمہ زبیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ کریم احمدنعیم صاحب امریکہ کا ہے۔ ان کی وفات بھی گذشتہ مہینے ہوئی ہے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحبؓ کی چھوٹی بہو تھیں۔ مرحومہ خلافت کی شیدائی، نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں پسماندگان میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے منعم نعیم صاحب ہیومینٹی فرسٹ یوایس اے کے چیئرمین ہیں اور ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کی یہ ساس تھیں۔ ان کی بیٹی امۃ الشافی اہلیہ ڈاکٹر منان صدیقی صاحب لکھتی ہیں کہ ہر کسی سے پیار اور محبت کا سلوک کرنا ان کا شیوہ تھا۔ ان کے لیے دعائیں کیا کرتی تھیں۔ مخلص مشورہ دیا کرتی تھیں۔ غریبوں کی مدد کیا کرتی تھیں۔ قریب اور دور کے تمام رشتہ داروں سے محبت کا سلوک کرنا ان کا خاص وصف تھا۔ جوانی کی عمر سے تہجد گزار تھیں۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزاری۔ جمعہ کے دن خاص عبادت میں گزارتے ہوئے انہیں ہم نے اپنے بچپن سے دیکھا۔ اپنا چندہ بروقت ادا کرنے کی فکر رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ بچوں کو بھی نیکیاں کرنے کی توفیق دے۔
اگلا ذکر حفیظ احمد گھمن صاحب کا ہے جو گذشتہ دنوں میں فوت ہوئے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کا ان کو خاص شوق تھا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب کا مطالعہ کیا ہوا تھا۔ ربوہ میں دینی خدمت کا بھی موقع ملا۔ وقت کے بےحد پابند تھے۔ مہمان نواز، بچوں پہ شفقت کرنے والے، انتہائی سادہ مزاج اور محنتی انسان تھے۔ زبان پر ہر وقت ذکرِ الٰہی کا ورد رہتا۔ ہمدردی ٔخلق میں بہت نمایاں تھے۔ خود کو تکلیف میں ڈال کر بھی دوسروں کو سکون مہیا کیا کرتے تھے۔ مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے ایک بیٹے، ان کے داماد کاشف حمید باجوہ یہاں ہمارے پی ایس دفتر میں اس وقت مربی کے طور پہ کام کر رہے ہیں۔ ان کی بیٹی امۃ القدوس کہتی ہیں عاجزی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ لباس سادہ، گھر سادہ، خوراک سادہ، تفاخر سے ہمیشہ بھاگتے تھے۔ انہیں ہمیشہ غریبوں کی مدد کا خیال رہتا تھا۔ باوجود وسائل کے اپنے اوپر کم خرچ کرتے تھے اور غریبوں پر زیادہ خرچ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔
خدا کی قَسم! مجھے تو یہ پسند ہے کہ مَیں اس طرح نجات پا جاؤں کہ لَا عَلَیَّ وَلَا لِیْ کہ نہ مجھ پر کچھ عذاب ہو اور نہ میرے لیے کوئی ثواب یا جزا ہو۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
حضرت عمرؓ کی سیرت سے بعض واقعات نیز حضرت عمرؓ کے بارے میں صحابہ کرامؓ اور بعض مستشرقین کے تاثرات کا بیان۔
پانچ مرحومین: صاحبزادی آصفہ مسعودہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب، مکرمہ کلارا صاحبہ اہلیہ رولان سائن با ئیف صاحب سابق امیر جماعت قزاقستان، وِنگ کمانڈر عبدالرشید صاحب، مکرمہ زبیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ کریم احمدنعیم صاحب آف امریکہ اور مکرم حفیظ احمد گھمن صاحب کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب۔
فرمودہ 22؍اکتوبر2021ء بمطابق 22؍اخاء1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔