حضرت عمر بن خطابؓ
خطبہ جمعہ 12؍ نومبر 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
گذشتہ خطبات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہو رہا تھا۔ آج بھی وہی ہے۔
حضرت حفصہ بنتِ عمرؓ حضرت عمرؓ کی دنیا سے بے رغبتی اور زہد کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتی ہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ اپنے والد بزرگوار سے کہا اے امیر المومنین! اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اس طرح مخاطب کیا کہ اے میرے باپ! اللہ نے رزق کو وسیع کیا ہے اور آپ کو فتوحات عطا کی ہیں اور کثرت سے مال عطا کیا ہے کیوں نہ آپ اپنے کھانے سے زیادہ نرم غذا کھایا کریں اور اپنے اس لباس سے زیادہ نرم لباس پہنا کریں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا میں تم سے ہی اس امر کا فیصلہ چاہوں گا۔ کیا تمہیں یادنہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی میں کتنی سختیاں گزارنی پڑیں۔ راوی کہتے ہیں کہ آپؓ مسلسل حضرت حفصہؓ کو یہ یاد دلاتے رہے یہاں تک کہ حضرت حفصہؓ کو رلا دیا۔ پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! جہاں تک مجھ میں طاقت ہو گی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کی زندگیوں کی سختی میں شامل رہوں گا تا کہ شاید میں ان دونوں کی راحت کی زندگی میں بھی شریک ہو جاؤں۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت حفصہؓ سے کہا کہ اے حفصہ بنت عمر !تم نے اپنی قوم کی خیر خواہی تو کی ہے لیکن اپنے باپ کی خیر خواہی نہیں کی۔ تم نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ یہ ہوگا تو قوم کی بہتر خدمت کروں گا لیکن میری خیر خواہی نہیں ہے۔ اور پھر فرمایا کہ میرے خاندان والوں کا صرف میری جان اور میرے مال پر حق ہے لیکن میرے دین اور میری امانت میں ان کا کوئی حق نہیں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ148 ذکر ہجرۃ عمر بن الخطاب مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
یعنی جو امانت میں ادا کر رہا ہوں اور جس طرح ادا کر رہا ہوں، اس میں مجھے تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس بات میں، اس بارے میں کہنا تمہارا کوئی حق نہیں۔ حضرت عکرمہ بن خالدؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حفصہؓ اور حضرت عبداللہؓ اور ان کے علاوہ کچھ اَور لوگوں نے حضرت عمرؓ سے بات کرتے ہوئے کہا۔ اگر آپؓ زیادہ عمدہ غذا کھائیں تو حق کے لیے کام کرنے پرآپؓ زیادہ قوی ہو جائیں گے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کیا تم سب کی یہی رائے ہے تو انہوں نے کہا ہاں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں تمہاری خیر خواہی سمجھ گیا ہوں لیکن میں نے اپنے دونوں دوستوں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کو اس راستے پر چھوڑا ہے کہ اگر میں نے ان دونوں کا وہ راستہ چھوڑ دیا تو میں ان دونوں سے منزل میں نہیں مل سکوں گا۔ (تاریخ الخلفاء از جلال الدین سیوطی صفحہ 101 عمر بن خطاب مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت لبنان 1999ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ خوف و خطر کا زمانہ تھا۔
اس وقت جو آپ نے مسلمانوں کو احکام دیے تھے ہم ان سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ کا اپنا طریق بھی یہ تھا اور ہدایت بھی آپ نے یہ کر رکھی تھی کہ ایک سے زیادہ سالن استعمال نہ کیا جائے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ایک خطبہ میں تحریکِ جدید کے سلسلہ میں ہی یہ ذکر کر رہے ہیں۔ بہرحال فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت تھی کہ ایک سے زیادہ سالن استعمال نہ کیا جائے اور اس پر اتنا زور دیتے تھے کہ بعض صحابہ نے اس میں غلو کر لیا۔ انتہا سے بڑھ گئے۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے سامنے سرکہ اور نمک رکھا گیا تو آپؓ نے فرمایا کہ یہ دو کھانے کیوں رکھےگئے ہیں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک کھانے کا حکم دیا ہے۔ آپؓ سے عرض کیاگیا، لوگوں نے حضرت عمرؓ کو کہا یہ دو نہیں بلکہ نمک اور سرکہ دونوں مل کر ایک سالن ہوتا ہے۔ مگر آپؓ نے کہا نہیں۔ یہ دو ہیں۔ اگرچہ حضرت عمرؓ کا یہ فعل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جذبہ کی وجہ سے غلو کا پہلو رکھتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ غالباً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشا نہ تھا لیکن اس مثال سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ آپؓ نے دیکھ کر کہ مسلمانوں کو سادگی کی ضرورت ہے اس کی کس قدر تاکید کی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ والا مطالبہ مَیں نہیں کرتا اور یہ نہیں کہتا کہ نمک ایک سالن ہے اور سرکہ دوسرا مگر یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ آج سے تین سال کے لیے جس کے دوران میں ایک ایک سال کے بعد دوبارہ اعلان کرتا رہوں گا تاکہ اگران تین سالوں میں حالت خوف بدل جائے تو احکام بھی بدلے جاسکیں۔ ہر احمدی جو اس جنگ میں ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہے یہ اقرار کرے کہ وہ آج سے صرف ایک سالن استعمال کرے گا۔ روٹی اور سالن یا چاول اور سالن۔ یہ دو چیزیں نہیں بلکہ دونوں مل کر ایک ہوں گے لیکن روٹی کے ساتھ دو سالن ہوں یا چاولوں کے ساتھ دو سالنوں کی اجازت نہ ہو گی۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 15 صفحہ 426)
یہ اس زمانے کی بات ہے جب تحریک جدید کا اعلان فرمایا تھا اور اس وقت جماعت کو ضرورت تھی تو تحریک کی کہ اپنے خرچے کم کر کے چندہ دو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب حالات مختلف ہیں۔ اس لیے یہ پابندی نہیں ہے لیکن پھر بھی اسراف سے کام نہیں لینا چاہیے۔
حضرت مصلح موعود آیت وَالَّذِینَ إِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا (الفرقان: 68) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی عبدالرحمٰن بننا چاہے تو اس کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے وقت دو باتوں کا لحاظ کرے۔ اول یہ کہ وہ اپنے مال میں اسراف نہ کرے۔ اس کا کھانا صرف تکلّف اور مزے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ قوت طاقت اور بدن کو قائم رکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ اس کا پہنناآرائش کے لیے نہیں ہوتا بلکہ بدن کو ڈھانکنے اور خدا تعالیٰ نے جو اسے حیثیت دی ہے اس کے محفوظ رکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کا طرزِ عمل بتاتا ہے کہ وہ اسی طرح کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ ایک دفعہ ملک شام کو تشریف لے گئے وہاں بعض صحابہ نے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ (ریشمی کپڑوں سے مراد وہ کپڑے ہیں جس میں کسی قدر ریشم تھا ورنہ خالص ریشم کے کپڑے سوائے کسی بیماری کے مردوں کو پہننے منع ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ ان لوگوں پر خاک پھینکو یعنی بُرا منایا اور ان سے کہا کہ تم اب ایسے آسائش پسند ہو گئے ہو کہ ریشمی کپڑے پہنتے ہو۔ اس پر ان صحابہ میں سے ایک نے کرتہ اٹھا کر دکھایا تو معلوم ہوا کہ اس نے نیچے موٹی اون کا سخت کرتہ پہنا ہوا تھا۔ اس نے حضرت عمرؓ کو بتایا کہ ہم نے ریشمی کپڑے اس لیے نہیں پہنے کہ ہم ان کو پسند کرتے ہیں بلکہ اس لیے کہ اس ملک کے لوگوں کی طرز ہی ایسی ہے۔ اور یہ بچپن سے ایسے امراء کو دیکھنے کے عادی ہیں جو نہایت شان و شوکت سے رہتے تھے۔ پس ہم نے بھی ان کی رعایت سے اپنے لباسوں کو ملکی سیاست کے طور پر بدلا ہے ورنہ ہم پر ان کا کوئی اثر نہیں۔ پس صحابہ کا عمل بتاتا ہے کہ اسراف سے کیا مراد ہے۔ اس سے یہی مراد ہے کہ مال ایسی اشیاء پر نہ خرچ کرے جن کی ضرورت نہیں اور جن کا مدعا صرف آرائش اور زیبائش ہو۔ غرض خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ عبادالرحمٰن وہ ہوتے ہیں جو اپنے مالوں میں اسراف نہیں کرتے۔
جو مالوں میں اسراف نہ کرتے ہوں وہ اپنے مالوں کو ریا اور دکھاوے کے لیے خرچ نہ کرتے ہوں بلکہ فائدہ اور نفع کے لیے صرف کرتے ہوں۔ پھر اپنے مالوں کو ایسی جگہ دینے سے نہ روکیں جہاں دینا ضروری ہو اور ان کا قوّام ہو یعنی درمیانی ہو (اس فائدہ کا ذریعہ بن رہا ہو۔) نہ اپنے مالوں کو اس طرح لوٹائیں جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے ماتحت نہ ہو اور نہ اس طرح روکیں کہ جائز حقوق کو بھی ادا نہ کریں۔ یہ دو شرطیں عبادالرحمٰن کے لیے مال خرچ کرنے کے متعلق ہیں لیکن بہت لوگ ہیں جو یا تو اسراف کی طرف چلے جاتے ہیں یا بخل کی طرف چلے جاتے ہیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد5 صفحہ4، 3)
حضرت عمرؓ دکھاوے اور شان و شوکت والے لباس کے اس قدر خلاف تھے کہ مفتوح دشمن کے لیے بھی یہ پسندنہیں کرتے تھے کہ وہ کوئی ایسا لباس پہن کے ان کے سامنے آئے جو شان و شوکت والا ہو۔ چنانچہ فارسیوں کے سپہ سالار ہُرْمُزَان کے واقعہ میں اس کی تفصیل ملتی ہے۔ یہ تفصیل تو مَیں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ اس جگہ میں کچھ تھوڑا سا حصہ واضح کرنے کے لیے بیان کرتا ہوں۔ جب تُسْتُر کی فتح کے وقت فارسیوں کے سپہ سالار ہُرْمُزَان نے ہتھیار پھینک دیے اور خود کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا اور اسے حضرت عمرؓؓ کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا گیا تو مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے جو مسلمان لے جانے والے تھے انہوں نے اسے اس کا ریشمی لباس پہنا دیا تا کہ حضرت عمرؓ اور مسلمان اس کی اصل ہیئت کو دیکھ سکیں۔ جب حضرت عمرؓ کے سامنے وہ آیا تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کیا ہُرْمُزَان ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں۔ تو حضرت عمرؓ نے اس کو اور اس کے لباس کو بغور دیکھا اور کہا میں آگ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں اور اللہ سے مدد مانگتا ہوں۔ قافلہ کے لوگوں نے کہا کہ یہ ہُرْمُزَان ہے۔ اس سے بات کر لیں۔ آپ نے کہا ہرگز نہیں یہاں تک کہ وہ اپنا زرق برق لباس اور زیورات اتار دے۔ یہ سب کچھ اتارا گیا اور پھر حضرت عمرؓ نے اس سے بات کی۔ (ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحہ424 تا 425 دارالمعرفہ بیروت 2007ء)
حضرت عمرؓ کی عاجزی اور تقویٰ کے معیار کے بارے میں اس بات سے اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت عُروَہ بن زُبیرؓ سے روایت ہے کہ مَیں نے عمر بن خطابؓ کو کندھے پر پانی کا ایک مشکیزہ اٹھائے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا: اے امیر المومنین! آپؓ کے لیے یہ مناسب نہیں ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ جب وفود اطاعت اور فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے پاس آئے، مختلف قوموں کے وفد جب اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئے تو میرے دل میں اپنی بڑائی کا احساس ہوا۔ اس لیے میں نے اس بڑائی کو توڑنا ضروری سمجھا۔ (سیرت عمر بن الخطاب از علی محمدالصلابی صفحہ 122 دارالمعرفۃ بیروت 2007ء)
یہ بڑائی کیوں پیدا ہوئی؟ اس لیے میں نے سوچا کہ میں پھر اس کو اس طرح توڑوں کہ پانی کا مشکیزہ اٹھا کے لے کے جاؤں۔ حضرت یحییٰ بن عبدالرحمٰن بن حاطبؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمر بن خطابؓ کے ساتھ مکہ سے قافلے کی صورت میں واپس آ رہے تھے یہاں تک کہ ہم ضَجْنَان کی گھاٹیوں میں پہنچے تو لوگ رک گئے۔ ضَجْنَان مکہ سے پچیس میل کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا مجھے اس جگہ پر وہ وقت بھی یاد ہے جب میں اپنے والد خطاب کے اونٹ پر ہوتا تھا اور وہ بہت سخت طبیعت کے انسان تھے۔ ایک مرتبہ میں ان اونٹوں پر لکڑیاں لے کر جاتا تھا اور دوسری مرتبہ ان پر گھاس لے کر جاتا تھا۔ آج میرا یہ حال ہے کہ لوگ میرے علاقے کے دُور دراز میں سفر کرتے ہیں اور میرے اوپر کوئی نہیں۔ یعنی میں ایک وسیع و عریض علاقے کا حاکم ہوں جس میں لوگ دُور دور تک سفر کرتے ہیں اور مجھ سے ملنے آتے ہیں اور میرے اوپر دنیا کا کوئی حکمران نہیں ہے جو مجھ پر حکومت کرتا ہو۔ پھر یہ شعر پڑھا۔
لَا شَیْءَ فِیمَا تَرٰى اِلَّا بَشَاشَتَہُ
یَبْقَى الْاِلٰہُ وَ یُوْدِی الْمَالُ وَ الْوَلَد
یعنی جو کچھ تمہیں نظر آتا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں سوائے ایک عارضی خوشی کے۔ صرف خدا کی ذات باقی رہے گی جبکہ مال اور اولاد فنا ہو جائے گی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 202 عمر بن الخطاب مطبوعہ دارا لکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) (فتح الباری جلد 2 صفحہ 144 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں ’’حضرت عمرؓ حج سے آتے ہوئے ایک درخت کے پاس کھڑے ہو گئے۔ حذیفہ جو بے تکلف تھا اس نے جرأت کی اور وجہ پوچھی آپؓ نے فرمایا کہ ایک وقت تھا کہ جب میں اپنے ایک اونٹ کو چراتا تھا اور اس درخت کے نیچے میرے والدنے مجھے بہت زجر و توبیخ کی تھی اور اب یہ وقت ہے کہ اونٹ تو کیا کئی لاکھ آدمی میری آنکھ کے اشارے پر جان دینے کو تیار ہیں۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ326)
اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ اونٹوں کے چرانے والا ایک شخص عظیم الشان بادشاہ بن گیا اور صرف دنیاوی بادشاہ نہیں بنا بلکہ روحانی بھی۔ یہ حضرت عمرؓ تھے جو ابتدائے عمر میں اونٹ چرایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ حج کو گئے تو راستہ میں ایک مقام پر کھڑے ہو گئے۔ دھوپ بہت سخت تھی جس سے لوگوں کو بہت تکلیف ہوئی لیکن کوئی یہ کہنے کی جرأت نہ کرتا کہ آپؓ یہاں کیوں کھڑے ہیں۔ آخر ایک صحابی کو جو حضرت عمرؓ کے بڑے دوست تھے اور جن سے آپ فتنہ کے متعلق پوچھا کرتے تھے لوگوں نے کہا کہ آپ ان سے پوچھیں‘‘ حضرت عمرؓ سے پوچھیں ’’کہ یہاں کیوں کھڑے ہیں؟ انہوں نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ آگے چلئے یہاں کیوں کھڑے ہو گئے ہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے ’’فرمایا کہ میں یہاں اس لئے کھڑا ہوا ہوں کہ ایک دفعہ میں اونٹ چرانے کی وجہ سے تھک کر اس درخت کے نیچے لیٹ گیا تھا۔ میرا باپ آیا اور اس نے مجھے مارا کہ کیا تجھے اس لئے بھیجا تھا کہ وہاں جا کر سو رہنا۔ تو ایک وقت میں میری یہ حالت تھی لیکن میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کیا تو خدا تعالیٰ نے مجھے یہ درجہ دیا کہ آج اگر لاکھوں آدمیوں کو کہوں تو وہ میری جگہ جان دینے کو تیار ہیں۔ اس واقعہ سے اور نیز اس قسم کے اَور بہت سے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کس حالت میں تھے اور رسول کریمؐ کی اتباع سے ان کی کیا حالت ہو گئی اور انہوں نے وہ درجہ اور علم پایا جو کسی کو حاصل نہ تھا۔ ’’حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’یہ قصہ میں نے اس لئے سنایا ہے کہ دیکھو ایک اونٹ چرانے والے کو دین اور دنیا کے وہ وہ علم سکھائے گئے جو کسی کو سمجھ نہیں آ سکتے۔ ایک طرف اونٹ یا بکریاں چرانے کی حالت کو دیکھو کیسی علم سے دور معلوم ہوتی ہے اور دوسری طرف اس بات پر غور کرو کہ اب بھی جبکہ یورپ کے لوگ ملک داری کے قوانین سے نہایت واقف اور آگاہ ہیں حضرت عمرؓ کے بنائے ہوئے قانون کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک اونٹ کا چرواہا اور سلطنت کیا تعلق رکھتے ہیں؟ لیکن دیکھو کہ انہوں نے وہ کچھ کیا کہ آج دنیا ان کے آگے سر جھکاتی ہے اور ان کی سیاست دانی کی تعریف کرتی ہے۔ پھر دیکھو حضرت ابوبکرؓ ایک معمولی تاجر تھے لیکن اب دنیا حیران ہے کہ ان کو یہ فہم، یہ عقل اور یہ فکر کہاں سے مل گیا۔ میں بتاتا ہوں کہ ان کو قرآن شریف سے سب کچھ ملا۔ انہوں نے قرآن شریف پر غور کیا اس لئے ان کو وہ کچھ آ گیا جو تمام دنیا کو نہ آتا تھا کیونکہ قرآن شریف ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جب اس کے ساتھ دل کو صیقل کیا جائے تو ایسا صاف ہو جاتا ہے کہ تمام دنیا کے علوم اس میں نظر آ جاتے ہیں اور انسان پر ایک ایسا دروازہ کھل جاتا ہے کہ پھر کسی کے روکے وہ علوم جو اس کے دل پر نازل کئے جاتے ہیں نہیں رک سکتے۔ پس ہر ایک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کو پڑھنے اور غور کرنے کی کوشش کرے۔‘‘ (انوار خلافت، انوار العلوم جلد3 صفحہ 130-131)
حضرت عمرؓ کی عاجزی اور انکساری کے بارے میں ایک روایت میں اس طرح ذکر ملتا ہے۔ جُبَیربن نُفَیرسے روایت ہے کہ ایک جماعت نے عمر بن خطاب سے کہا اے امیر المومنین! اللہ کی قَسم ہم نے کسی شخص کو آپ سے زیادہ انصاف کرنے والا، زیادہ حق گو اور منافقین پر سختی کرنے و الا نہیں دیکھا۔ بیشک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر ہیں۔ عوف بن مالک نے اس کہنے والے شخص کو کہا کہ اللہ کی قسم! تم نے جھوٹ بولا ہے۔ یقینا ًہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان سے بہتر کو دیکھا ہے یعنی حضرت عمرؓ سے بہتر کو بھی دیکھا۔ تو حضرت عمرؓ نے پوچھا اے عوف! وہ کون ہے تو انہوں نے کہا ابوبکرؓ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا عوف نے سچ بولا اور اس شخص کو کہا کہ تم نے جھوٹ بولا۔ اللہ کی قسم! ابوبکرؓ مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہیں اور میں اپنے گھر والوں کے اونٹوں سے بھی زیادہ بھٹکا ہوا ہوں۔ (کنز العمال مجلد السادس کتاب فضائل الصحابہ روایت نمبر 35624 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ’’حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ کی کسی بات پر تکرار ہو گئی۔ یہ تکرار بڑھ گئی۔ حضرت عمرؓ کی طبیعت تیز تھی۔ اس لئے حضرت ابوبکرؓ نے مناسب سمجھا کہ وہ اس جگہ سے چلے جائیں تا کہ جھگڑا خواہ مخواہ زیادہ نہ ہو جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جانے کی کوشش کی تو حضرت عمرؓ نے آگے بڑھ کر حضرت ابوبکرؓ کا کرتہ پکڑ لیا کہ میری بات کا جواب دے کر جاؤ۔ جب حضرت ابوبکرؓ اس کو چھڑا کر جانے لگے تو آپ کا کرتہ پھٹ گیا۔ آپ وہاں سے اپنے گھر کو چلے آئے لیکن حضرت عمرؓ کو شبہ پید اہوا کہ حضرت ابوبکرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میری شکایت کرنے گئے ہیں۔ وہ بھی پیچھے پیچھے چل پڑے تا کہ میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا عذر پیش کر سکوں لیکن راستے میں حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ حضرت عمرؓ یہی سمجھے کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کرنے گئے ہیں وہ بھی سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا پہنچے۔ وہاں جا کر دیکھا تو حضرت ابوبکرؓ موجودنہ تھے لیکن چونکہ ان کے دل میں ندامت پیدا ہو چکی تھی اس لئے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں ابوبکرؓ سے سختی سے پیش آیا۔ حضرت ابوبکرؓ کا کوئی قصور نہیں۔ میرا ہی قصور ہے۔ جب حضرت عمرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ کو جا کر کسی نے بتایا کہ حضرت عمرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی شکایت کرنے گئے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مجھے بھی اپنی براءت کے لئے جانا چاہئے تا کہ یکطرفہ بات نہ ہو جائے اور میں بھی اپنا نقطہ نگاہ پیش کر سکوں۔ جب حضرت ابوبکرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مجلس میں پہنچے تو حضرت عمرؓ عرض کر رہے تھے کہ یا رسول اللہؐ ! مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے حضرت ابوبکرؓ سے تکرار کی اور ان کا کرتہ مجھ سے پھٹ گیا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو غصہ کے آثار آپ کے چہرہ پر ظاہر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا۔ اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے جب ساری دنیا میرا انکار کرتی تھی اور تم لوگ بھی میرے مخالف تھے اس وقت ابوبکرؓ ہی تھا جو مجھ پر ایمان لایا اور ہر رنگ میں اس نے میری مدد کی۔ پھر افسردگی کے ساتھ فرمایا کیا اب بھی تم مجھے اور ابوبکرؓ کو نہیں چھوڑتے؟ آپ یہ فرما رہے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ داخل ہوئے۔ یہ ہوتا ہے سچے عشق کا نمونہ کہ بجائے یہ عذر کرنے کے کہ یا رسول اللہؐ ! میرا قصور نہ تھا عمرؓ کا قصور تھا۔‘‘ حضرت ابوبکر جب داخل ہوئے اور ’’آپؓ نے جب دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خفگی پیدا ہو رہی ہے آپؐ سچے عاشق کی حیثیت سے برداشت نہ کر سکے کہ میری وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو۔‘‘ اس لئے حضرت ابوبکرؓ ’’آتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ ! عمر کا قصور نہیں تھا میرا قصور تھا۔‘‘ (خطبات محمود جلد27 صفحہ313-314)
حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے لوگوں سے عورت کے جنین کے اِسقاط کی صورت میں اس کی دیت کے بارے میں مشورہ کیا۔ مُغیرہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام یا لونڈی کی قیمت بطور دیت ادا کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا ایسا شخص لاؤ جو تمہارے ساتھ اس بات کی گواہی دے۔ پھر محمد بن مَسْلَمہ نے گواہی دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فیصلہ کیا تھا۔ (صحیح البخاری کتاب الدیات باب جنین المراۃ روایت نمبر 6905، 6906)یعنی کسی ظلم کی وجہ سے یا زبردستی کسی عورت کا اِسقاط ہو جائے یا کروایا جائے تو پھر اس کی دیت دینی ضروری ہے اور جس نے یہ ظلم کیا ہو وہ دیت دے گا اور ایک لونڈی یا غلام آزاد کرے گا۔
حضرت ابوسعیدؓ سے مروی ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا السلام علیکم۔ کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دل میں کہا ابھی تو ایک بار اجازت طلب کی ہے۔ تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر انہوں نے کہا السلام علیکم۔ کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دل میں کہا یعنی جواب دل میں دیا اور پھر کہا کہ ابھی دو ہی بار اجازت طلب کی ہے۔ تھوڑی دیر مزید خاموش رہ کر انہوں نے پھر کہا السلام علیکم۔ کیا مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت ہے؟ جب ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تین بار اجازت طلب کر چکے تو پھر واپس ہو لیے۔ جب تین بار انہوں نے اجازت لے لی اور حضرت عمرؓ کا جواب نہیں سنا تو واپس چلے گئے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دربان سے کہا ابوموسیٰ نے کیا کیا؟ اس نے کہا کہ لَوٹ گئے ہیں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ انہیں بلا کر میرے پاس لاؤ۔ پھر جب وہ ان کے پاس آئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یہ آپ نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے سنت پر عمل کیا ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا سنت پر؟ قَسم اللہ کی تمہیں اس کے سنت ہونے پر دلیل اور ثبوت پیش کرنا ہو گا ورنہ میں تمہارے ساتھ سخت برتاؤ کروں گا۔ ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ پھر وہ ہمارے پاس آئے۔ اس وقت ہم انصار کی ایک جماعت کے ساتھ تھے۔ ابوموسیٰ اشعری نے کہا اے انصار کی جماعت !کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو دوسرے لوگوں سے زیادہ جاننے والے نہیں ہو، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا اَلْاِسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ؟ یعنی اجازت طلبی تین بار ہے۔ اگر تمہیں اجازت دے دی جائے تو گھر میں جاؤ اور اگر اجازت نہ دی جائے تو لَوٹ جاؤ۔ یہ سن کر لوگ ان سے ہنسی مذاق کرنے لگے۔ ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنا سر ابوموسیٰ اشعری کی طرف اونچا کر کے کہا اس سلسلہ میں جو بھی سزا آپ کو ملے گی میں اس میں حصہ دار ہوں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے ٹھیک کہا ہے۔ راوی کہتے ہیں پھر وہ یعنی ابوسعید، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور ان کو اس حدیث کی خبر دی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ٹھیک ہے مجھے اس حدیث کا علم نہیں تھا اور اب مجھے علم ہو گیا ہے۔ (سنن الترمذی کتاب الاستئذان باب ما جاء فی الاستئذان ثلاثۃ۔ حدیث 2690)
صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سمیت اَور لوگ بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھ کر چلے گئے مگر آپ کو واپسی میں دیر ہو گئی اور ہم ڈرے کہ آپ ہم سے کٹ نہ جائیں اور ہم گھبرا گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے مجھے فکر پیدا ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈنے کے لیے باہر نکل پڑا یہاں تک کہ میں انصار کے ایک باغ کے پاس آیا جو بنونجار کا تھا۔ میں نے اس کے گرد چکر لگایا کہ دروازہ ڈھونڈوں مگر میں نے دروازہ نہ پایا پھر دیکھا کہ پانی کا ایک بڑا نالہ باہر ایک کنویں سے باغ کے اندر جاتا ہے تو کہتے ہیں میں اس میں لومڑی کے سمٹنے کی طرح سمٹ کر نالے کے ذریعہ سے داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا گیا۔ آپؐ نے پوچھا ابوہریرہ؟ میں نے کہا جی ہاں یا رسول اللہؐ ! فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے کہا آپؐ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے۔ پھر آپؐ اٹھ کھڑے ہوئے مگر واپسی میں آپ کو دیر ہو گئی تو ہم ڈر گئے کہ آپ ہم سے کٹ نہ جائیں تو ہم گھبرا گئے۔ سب سے پہلے مجھے فکر پیدا ہوئی اور میں اس باغ کے پاس آیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر اس میں داخل ہوا اور وہ لوگ میرے پیچھے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے جوتے دیے اور آپؐ نے فرمایا اے ابوہریرہ! میرے یہ دونوں جوتے لے جاؤ اور جو کوئی اس باغ کے پرے تمہیں ملے اور یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی قابلِ عبادت نہیں اور دل سے اس بات پر یقین رکھتا ہو تو اس بات پہ اسے جنت کی بشارت دے دو۔
کہتے ہیں: میں جب گیا تو سب سے پہلے حضرت عمرؓ ملے۔ انہوں نے کہا اے ابوہریرہ! یہ جوتے کیسے ہیں؟ میں نے کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نشانی کے طور پر مجھے دیے ہیں اور ان دونوں کے ساتھ بھیجا ہے کہ میں جس سے ملوں اور وہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اور دل سے اس پر یقین رکھتا ہو تو میں اسے جنت کی بشارت دوں۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس پر حضرت عمرؓ نے غصہ میں زور سے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور میں پشت کے بل گرا۔ انہوں نے کہا اے ابوہریرہ! واپس جاؤ۔ خیر کوئی ضرورت نہیں کسی کو کچھ کہنے کی۔ کہتے ہیں مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس گیا اور رونے ہی لگا تھا کہ حضرت عمرؓ بھی میرے پیچھے پیچھے آ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ! تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا میں عمر سے ملا تھا اور ان سے جو آپؐ نے مجھے دے کر بھیجا تھا بیان کیا تو عمر نے مجھے سینے پر زور سے ہاتھ مارا۔ میں پشت کے بل گر گیا۔ انہوں نے کہا واپس جاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر! تم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت عمرؓ نے کہا یارسول اللہؐ !میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔ کیا آپؐ نے اپنی جوتیوں کے ساتھ ابوہریرہ کو بھیجا تھا کہ جو اسے ملے اور گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس کا دل اس بات پر یقین رکھتا ہو تو اسے جنت کی بشارت دے دے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ ایسا نہ کیجیے کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ لوگ پھر اسی پر بھروسہ کرنے لگ جائیں گے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ ان کو عمل کرنے دیں وہ عمل کریں اور نیکیوں کا جو حکم ہے، احکامات ہیں ان پر عمل کرنے دیں تا کہ وہ حقیقی مومن بنیں۔ نہیں تو یہ صرف اسی بات پر قائم ہو جائیں گے کہ لا الٰہ الا اللہ کہنا ہی جنت کی بشارت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا رہنے دو۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعًا۔ حدیث 147)ٹھیک ہے، اسی طرح کرتے ہیں۔ بڑی محتاط طبیعت تھی حضرت عمرؓ کی۔
حضرت عمرؓ سے ڈر کر شیطان بھی بھاگتا ہے اس بارے میں بھی بعض روایات ہیں۔ صحیح بخاری میں ایک روایت ہے۔ حضرت سعد بن وقاصؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اندر آنے کی اجازت مانگی اور اس وقت آپ کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ آپ سے باتیں کر رہی تھیں اور آپ سے زیادہ خرچ مانگ رہی تھیں۔ ان کی آواز آپ کی آواز سے اونچی تھی۔ جب حضرت عمر بن خطاب نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو وہ اٹھ کر جلدی سے پردے میں چلی گئیں اور اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو آنے کی اجازت دی۔ حضرت عمرؓ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ! اللہ آپ کو ہمیشہ ہنستا رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان عورتوں سے متعجب ہوں جو میرے پاس تھیں۔ جب انہوں نے آپ کی آواز سنی جلدی سے پردے میں چلی گئیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ! حالانکہ آپ زیادہ لائق ہیں کہ آپ سے ڈریں۔ پھر حضرت عمرؓ نے عورتوں کو مخاطب کیا اونچی آوا زمیں اور کہنے لگے: اے اپنی جانوں کی دشمنو! کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں۔ وہ بولیں ہاں آپ تو بڑے سخت مزاج اور سخت دل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خطاب کے بیٹے سنو۔ اسی ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ شیطان جب کبھی بھی تمہارے راستے پر چلتے ہوئے ملا ہے تو ضرور ہی اس نے اپنا وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ لیا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبی باب فضائل حضرت عمرؓ حدیث 3683)
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ہم نے شور سنا اور بچوں کی آوازیں بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے۔ وہاں حبشہ کی ایک عورت تھی جو ناچ کر کرتب دکھا رہی تھی اور بچے اس کے ارد گرد جمع تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ آ جاؤ اور دیکھ لو۔ میں آئی اور اپنی ٹھوڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر رکھ کر دیکھنے لگی۔ میری ٹھوڑی آپ کے سر اور کندھے کے درمیان تھی۔ پھر آپ مجھ سے فرمانے لگے کیا تم سیر نہیں ہوئی؟ میں نے کہا ابھی نہیں تا کہ میں دیکھوں کہ آپ کو میری کتنی قدر ہے۔ جب حضرت عمرؓ آئے تو لوگ اس عورت کے پاس سے بھاگ گئے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں دیکھتا ہوں کہ جن و انس کے شیطان عمر سے بھاگتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں پھر میں وہاں سے لوٹ آئی۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب قولہ ان الشیطان لیخاف منک یا عمر حدیث 3691)
حضرت بریدہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوہ کے لیے نکلے۔ جب آپ واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ فام لونڈی نے آ کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو سلامتی سے واپس لے آیا تو میں آپؐ کے سامنے دف بجا کر گانا گاؤں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم نے نذر مانی ہے تو بجا لو ورنہ نہیں۔ چنانچہ وہ دف بجانے لگی اور حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے۔ وہ دف بجاتی رہی۔ پھر حضرت علیؓ آئے تو وہ دف بجاتی رہی۔ پھر حضرت عثمانؓ آئے تو پھر بھی دف بجاتی رہی۔ پھر حضرت عمرؓ تشریف لائے تو اس نے دف اپنے نیچے رکھ لی اور اس کے اوپر بیٹھ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر! شیطان بھی تجھ سے ڈرتا ہے۔ میں بیٹھا تھا تو یہ دف بجاتی رہی۔ پھر ابوبکر آئے یہ دف بجاتی رہی۔ پھر علی آئے تو بھی بجاتی رہی۔ پھر عثمان آئے تو یہ بجاتی رہی مگر اے عمر! جب تم آئے ہو تو اس نے دف رکھ دی ہے۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب قولہ ان الشیطان لیخاف منک یا عمر حدیث 3690)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو کہا تھا کہ اگر شیطان تجھ کو کسی راہ میں پاوے تو دوسری راہ اختیار کرے اور تجھ سے ڈرے اور اس دلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان حضرت عمرؓ سے ایک نامرد ذلیل کی طرح بھاگتا ہے۔‘‘ (نور الحق حصہ اول، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 143)
حضرت عمرؓ کی زبان اور دل پر حق اور سکینت کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے حق کو عمر کی زبان اور دل پر جاری کر دیا۔ (سنن ترمذی کتاب المناقب باب ان اللّٰہ جعل الحق علی لسان عمر و قلبہ حدیث: 3682)
حضرت ابن عباسؓ اپنے بھائی فضل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عمر بن خطاب میرے ساتھ ہوتا ہے جہاں میں پسند کرتا ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جہاں وہ پسند کرتا ہے اور میرے بعد عمر بن خطاب جہاں ہو گا حق اس کے ساتھ رہے گا۔ (سیرت عمر بن خطاب از ابن الجوزی صفحہ 21 المطبعۃ المصریۃ الازہر)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم آپس میں گفتگو کیا کرتے تھے کہ سکینت حضرت عمرؓ کی زبان اور دل پر جاری ہوتی ہے۔ (کنز العمال مجلد السادس جزء 12۔ کتاب الفضائل۔ فضائل عمر۔ روایت 35870۔ دار الکتب العلمیۃ 2004ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی سے کہا کہ میرا سامانِ سفر باندھنا شروع کرو۔ انہوں نے رخت سفر باندھنا شروع کیا اور حضرت عائشہؓ سے کہا میرے لئے ستو وغیرہ یا دانے وغیرہ بھون کر تیار کرو۔ اسی قسم کی غذائیں ان دنوں میں ہوتی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے مٹی وغیرہ پھٹک کے دانوں سے نکالنی شروع کی۔ حضرت ابوبکرؓ گھر میں بیٹی کے پاس آئے اور انہوں نے یہ تیاری دیکھی تو پوچھا عائشہؓ ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا رسول اللہؐ کے کسی سفر کی تیاری ہے؟ کہنے لگیں سفر کی تیاری ہی معلوم ہوتی ہے۔ آپؐ نے سفر کی تیاری کے لئے کہاہے۔ کہنے لگے کوئی لڑائی کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا کچھ پتہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرا سامان سفر تیار کرو اور ہم ایسا کر رہے ہیں۔ دو تین دن کے بعد آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو بلایا اور کہا دیکھو! تمہیں پتہ ہے خُزاعہ کے آدمی اس طرح آئے تھے اور پھر بتایا کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور مجھے خدا نے اس واقعہ کی پہلے سے خبر دے دی تھی کہ انہوں نے غداری کی ہے۔‘‘ یعنی مکہ والوں نے غداری کی ہے ’’اور ہم نے ان سے معاہدہ کیا ہوا ہے۔ اب یہ ایمان کے خلاف ہے کہ ہم ڈر جائیں اور مکہ والوں کی بہادری اور طاقت دیکھ کر ان کے مقابلہ کے لئے تیار نہ ہو جائیں تو ہم نے وہاں جانا ہے۔ تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا یا رسول اللہ! آپؐ نے تو ان سے معاہدہ کیا ہوا ہے اور پھر وہ آپؐ کی اپنی قوم ہے۔ مطلب یہ تھا کہ آپؐ اپنی قوم کو ماریں گے؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’فرمایا ہم اپنی قوم کو نہیں ماریں گے۔ معاہدہ شکنوں کو ماریں گے۔ پھر حضرت عمرؓ سے پوچھا تو انہوں نے کہا بسم اللہ! میں تو روز دعائیں کرتا تھا کہ یہ دن نصیب ہو اور ہم رسول اللہؐ کی حفاظت میں کفار سے لڑیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکرؓ بڑا نرم طبیعت کا ہے مگر قول صادق عمرؓ کی زبان سے زیادہ جاری ہوتا ہے۔ فرمایا کرو تیاری۔ پھر آپؐ نے ارد گرد کے قبائل کو اعلان بھجوایا کہ ہر شخص جو اللہ اور رسول پر ایمان رکھتا ہے وہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں مدینہ میں جمع ہو جائے۔ چنانچہ لشکر جمع ہونے شروع ہوئے اور کئی ہزار آدمیوں کا لشکر تیار ہو گیا اور آپؐ لڑنے کے لئے تشریف لے گئے۔‘‘ (سیر روحانی (7)، انوار العلوم جلد 24۔ صفحہ 260-261)
حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ کی فضیلت کے بارے میں ایک روایت ہے حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علیین والوں میں سے کوئی شخص جنت والوں پر جھانکے گا تو اس کے چہرہ کی وجہ سے جنت جگمگا اٹھے گی۔ گویا ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے اور حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ بھی ان میں سے ہیں اور وہ دونوں کیا ہی خوب ہیں۔ (سنن ابو داؤد کتاب الحروف والقراءات حدیث3987)
ابوعثمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو ذَاتُ السَّلَاسِلْ کی فوج پر افسر مقرر کر کے بھیجا۔ اس زمانے کا جو سفر کا طریقہ ہوتا تھا اس کے مطابق یہ مدینہ سے کوئی ایک دن کے سفر پہ واقع جگہ ہے۔ اور وادی القریٰ سے آگے قبیلہ جُذَام کے علاقے میں ایک کنویں کا نام ہے۔ حضرت عمرو کہتے ہیں کہ جب میں آپ کے پاس واپس آیا تو میں نے آپ سے پوچھا: لوگوں میں سے آپ کو کون زیادہ پیارا ہے؟ آپ نے فرمایا عائشہ۔ میں نے کہا مردوں میں سے کون زیادہ پیارا ہے، آپ نے فرمایا اس عائشہ کا باپ۔ میں نے کہا پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا عمر۔ پھر آپ نے کئی مَردوں کا نام لیا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ السلاسل …حدیث4358) (فرہنگ سیرت صفحہ152 زوار اکیڈیمی کراچی 2003ء)
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار میں سے اپنے صحابہ کے پاس نکل کر آتے اور وہ بیٹھے ہوتے۔ ان میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی ہوتے تو ان میں سے کوئی اپنی نگاہ آپ کی طرف نہیں اٹھاتا تھا سوائے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے۔ یہ دونوں آپ کو دیکھتے اور مسکراتے اور آپ ان دونوں کو دیکھتے اور مسکراتے۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب فی ما لابی بکر و عمر عند النبیﷺ …حدیث 3668)
حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نکلے اور آپ اور حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ مسجد میں داخل ہوئے ان میں سے ایک آپ کے دائیں جانب تھے اور دوسرے بائیں جانب اور آپ ان دونوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اسی طرح ہم قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب قولہ لابی بکر و عمر: ہکذا نبعث یوم القیامۃ حدیث 3669)
عبداللہ بن حَنْطَبْ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکراور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھ کر فرمایا: یہ دونوں کان اور آنکھ ہیں۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب قولہ فیہما ہذان السمع والبصر حدیث 3671)
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر انسان! اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا سنو! اگر تم ایسا کہہ رہے ہو تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کسی آدمی پر سورج طلوع نہیں ہوا جو عمر سے بہتر ہو۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب قول عمر لابی بکر یا خیر الناس بعد رسول اللّٰہﷺ۔ حدیث 3684)
حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں وہ پہلا شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہو گی۔ پھر ابوبکر۔ پھر عمر رضی اللہ عنہما۔ پھر میں بقیع والوں کے پاس آؤں گا تو وہ میرے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ پھر میں مکہ والوں کا انتظار کروں گا یہاں تک کہ حرمین کے درمیان اٹھایا جاؤں گا۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب انا اول من تنشق عنہ الارض ثم ابوبکر ثم عمر حدیث 3692)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آ رہا ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آ رہا ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب اخبارہ عن اطلاع رجل من اہل الجنۃ فاطلع عمر حدیث 3694)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ کے بارے میں فرمایا۔ یہ دونوں جنت کے اوّلین اور آخرین کے تمام بڑی عمر کے لوگوں کے سردار ہیں سوائے انبیاء اور مرسلین کے۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب اقتدوا بالذین من بعدی حدیث 3664)
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد ان دونوں ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب اقتدوا بالذین من بعدی حدیث 3662)
حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کے آسمان والوں میں سے دو وزیر ہوتے ہیں اور زمین والوں میں سے بھی دو وزیر ہوتے ہیں۔ آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر جبرئیل اور میکائیل ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر ہیں۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب فاما وزیرای فی الارض …حدیث 3680)
حضرت حُذَیفہؓ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ میں کب تک تمہارے درمیان رہوں گا۔ پس تم لوگ ان دونوں کی پیروی کرو جو میرے بعد ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی طرف اشارہ کیا۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب ابی بکر وعمر کلیھما، حدیث 3663)
حضرت ابوبَکْرَہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز فرمایا: تم میں سے کس نے خواب دیکھی ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا گویا کہ ایک میزان ہے۔ آسمان سے اترا ہے اور آپؐ کو اور حضرت ابوبکرؓ کو تولا گیا تو آپؐ حضرت ابوبکرؓ سے بھاری ہوئے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو تولا گیا تو حضرت ابوبکرؓ بھاری ہوئے۔ پھر حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کو تولا گیا تو حضرت عمرؓ بھاری ہوئے۔ اس کے بعد میزان ترازو اٹھا لی گئی۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے۔
ایک اَور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب کے سننے کے بعد فرمایا: یہ نبوت کی خلافت ہے۔ اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا بادشاہت عطا فرمائے گا۔ (سنن ابو داؤد کتاب السنۃباب فی الخلفاء حدیث4634-4635) (عون المعبود شرح سنن ابی داؤد جزء 12 صفحہ 387، 388 کتاب السنہ باب فی الخلفاء مطبوعہ المکتبۃ السلفیہ مدینہ 1969ء)
عَبْدِ خَیْر بیان کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ منبر پر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اے لوگو !کیا میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین انسان کے بارے میں نہ بتاؤں۔ لوگوں نے کہا کیوں نہیں۔ حضرت علیؓ نے کہا ابوبکرؓ ہیں۔ پھر آپ تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر کہنے لگے اے لوگو !کیا میں تمہیں حضرت ابوبکرؓ کے بعد اس امت کے سب سے بہترین انسان کے بارے میں بتاؤں وہ عمرؓ ہیں۔ (حلیۃالاولیاء از امام اصفہانی جلد 7 صفحہ 205 حدیث 10323مکتبہ ایمان منصورہ 2007ء)
ابو جُحَیْفَہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ سے سنا کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین ابوبکرؓ ہیں۔ پھر عمرؓ ہیں۔ (حلیۃ الاولیاء از امام اصفہانی جلد 7 صفحہ 205 حدیث 10325مکتبہ ایمان منصورہ 2007ء)
یہ ذکر ابھی چل رہا ہے۔ آئندہ بھی ان شاء اللہ یہ بیان ہو گا۔ کچھ دیر حضرت عمرؓ کا یہ ذکر چلے گا۔
اس وقت میں نماز کے بعد کچھ جنازے پڑھاؤں گا جن کا ذکر یہاں کر دیتا ہوں۔ پہلا ذکر مکرم کامران احمد صاحب شہید ابن نصیر احمد صاحب آف پشاور کا ہے۔ 9؍نومبر کو مخالفین نے ان کے آفس میں فائرنگ کر کے انہیں شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ شہید کی عمر چوالیس (44) سال تھی۔ پشاور میں ایک احمدی مکرم شفیق الرحمٰن صاحب کی فیکٹری میں بطور اکاؤنٹنٹ کام کر رہے تھے۔ ایک مسلح شخص دفتر میں آیا اور آکے فائرنگ کر دی۔ انہیں چار گولیاں لگیں اور موقع پر شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ وقوعہ کے بعد قاتل فرار ہو گیا۔
شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد مکرم نصیر احمد صاحب کے نانا حضرت نبی بخش صاحب ابن فتح دین صاحب آف بھینی بانگڑ نزد قادیان کے ذریعہ سے ہوا تھا جنہوں نے 1902ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ شہید مرحوم نے کچھ عرصہ قبل ایک دکان لے کر اپنے بھائی کے ساتھ ایک آفس بنایا تھا۔ مالک دکان نے محض احمدی ہونے کی بنا پر ایک دن کے نوٹس پر دکان خالی کروا لی اور اس کے بعد چوک کا نام ختم نبوت چوک رکھ دیا گیا۔ قریبی ایک دکان لینے پر مخالفین نے جلوس نکال کر وہ دکان بھی خالی کروا لی۔ ان کے گھر کے قریب اکتوبر میں بڑا جلسہ کیا گیا اور جماعت کے خلاف شدید اشتعال انگیز تقاریر کی گئیں۔ یہ کہتے ہیں کہ اس علاقے میں اتنا بڑا جلسہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس علاقے میں شدیدنفرت کی فضا قائم ہو گئی۔ شہید مرحوم عرصہ کئی سال سے ایک پرائیویٹ ادارے کے اکاؤنٹس کے معاملات کو بھی دیکھتے تھے۔ مخالفت کی وجہ سے انہوں نے وہاں سے معذرت کر دی تو ان لوگوں نے کہا کہ آپ کا کردار اور دیانت ایسی ہے کہ ہم آپ کو نہیں چھوڑ سکتے چاہے چند منٹ کے لیے ہمارے پاس آ جایا کریں اور جب ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو وہ لوگ بڑے تکلیف میں تھے۔ شہید مرحوم بےشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کے والد کہتے ہیں کہ رات کو دیر سے گھر آنے پر ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ بڑی دیر سے گھر آئے ہو۔ کیا وجہ ہے؟ تو کہنے لگے فلاں جو مخالف احمدیت ہے بلکہ معاند ہے، اس مخالف کی فیملی میں کسی عورت کو خون کی ضرورت تھی اس کو خون دے کے آیا ہوں اور خون اس لیے دیا ہے کہ یہ لوگ مالی لحاظ سے کمزور ہیں اور مجبور ہیں اور ان کا اپنا کردار ہے اور ہمارا اپنا کردار ہے۔ ہمیشہ خدمت میں پیش پیش رہتے۔ جماعتی خدمت اور ڈیوٹیوں میں سب سے پہلے حاضر ہوتے اور ہمیشہ حساس مقام پر خود کھڑے ہوتے۔ پھر ہجرت کرنے کے لیے جب ان کو مشورہ دیا جاتا تو کہتے اگر ہم لوگ یہاں سے چلے گئے تو کمزور احمدیوں کے مسائل اَور بڑھ جائیں گے۔ چندہ جات کی ادائیگی میں ان کی بڑی نمایاں حیثیت تھی۔ چندہ جات کی تحریک کے وقت ہمیشہ اوّلین وقت میں ادائیگی کیا کرتے تھے۔ بارہ تیرہ سال کی عمر میں ایک دفعہ مباہلہ پمفلٹ تقسیم کرنے کی وجہ سے ان کو پولیس نے پکڑ کر حوالات میں بھی بند کر لیا۔ اگلے روز ان کی رہائی ہوئی۔ کہتے ہیں واقعہ شہادت سے دو دن پہلے انہوں نے خواب دیکھی تھی کہ ایک بزرگ خاتون ان کے گھر کی صفائی کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ خلیفہ رابع نے آنا ہے تو کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے بعد حضور رحمہ اللہ تشریف لائے اور شہید مرحوم کا ہاتھ پکڑ لیا اور بڑے پیار سے کہا کہ ہم اکٹھے رہیں گے اور تم نے میرے ساتھ ہی رہنا ہے۔ بفضلہ تعالیٰ وصیت کے نظام میں شامل تھے۔ نرم مزاج، علاقے کی ہردلعزیز شخصیت تھے۔ شریف النفس، غریبوں کے ہمدرد، خلافت سے بے پناہ عشق رکھنے والے۔ پسماندگان میں ان کے والدنصیر احمد صاحب اور والدہ ہیں اور اہلیہ ہیں اور تیرہ سال، گیارہ سال اور آٹھ سال کے تین بچے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کا بھی حافظ و ناصر ہو اور سب کو حوصلہ اور صبر عطا فرمائے اور ان سے بھی مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کی والدہ بھی بیمار ہیں۔ ان کے لیے بھی دعا کریں۔ کینسر کی مریضہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
دوسرا ذکر ڈاکٹر مرزا نُبَیر احمد اور ان کی اہلیہ عائشہ عنبر سید کا ہے۔ امریکہ میں ملواکی (Milwaukee)میں ایک حادثے میں ان دونوں کی وفات ہو گئی۔ ڈاکٹر مرزا نبیر احمد کی عمر پینتیس (35) سال تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم کے پڑدادا حضرت ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ اور مرحوم کی دادی ماسٹر عبدالرحمٰن صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی تھیں۔ ان کے پڑنانا بھی صحابی تھے۔ ان کے خاندان میں کافی صحابہ ہیں۔ 2012ء میں یہ امریکہ منتقل ہوئے۔ سترہ سال کی عمر میں ان کو نظام وصیت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ قائد مجلس خدام الاحمدیہ کی خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ مرحوم ملواکی مسجد کے لیے ایک نئی عمارت خریدنے کے لیے مقامی جماعت کے سب سے زیادہ عطیہ پیش کرنے والے احباب میں شامل تھے۔ پسماندگان میں ان کے والد مرزا نصیر احمد صاحب ہیں جو اس وقت سیکرٹری امورعامہ اسلام آباد ہیں۔ والدہ لجنہ اسلام آباد کی ریجنل صدر ہیں۔ بہن ہیں نادیہ اور دو بھائی ہیں۔ اور ان کی اہلیہ عائشہ عنبر جو ان کے ساتھ تھیں جن کی وفات ہوئی وہ سید سجاد احمد شاہ صاحب جاپان کی بیٹی تھیں اور جاپان میں آجکل ہمارے مربی سلسلہ سید ابراہیم کی ہمشیرہ تھیں۔ ان کے خاندان میں احمدیت سید عبدالرحیم شاہ صاحب آف پھگلہ کے ذریعہ سے آئی تھی۔ 1930ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت کی تھی اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ عائشہ عنبر کی وفات بھی اپنے خاوند کے ساتھ ہی ایکسیڈنٹ میں دو دن کے بعد ہوئی۔ مرحومہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی ایک فعال ٹیم ممبر تھیں اور میرے خطبات جو تھے ان کا جاپانی میں لائیو ترجمہ بھی کیا کرتی تھیں اور جاپانی زبان میں subtitling بھی کیا کرتی تھیں۔ ان کے لواحقین میں ان کے والد سید سجاد احمد ہیں، والدہ سیدہ درثمین سید ہیں۔ تین بھائی اور ایک بہن ہیں۔ ان کے بھائی ابراہیم صاحب جو جاپان میں مربی سلسلہ ہیں وہ کہتے ہیں بہت سارے جماعتی کاموں میں میری مدد کرتی تھیں۔ ’’لیکچر لاہور‘‘ اور ’’ہمارا خدا‘‘ کے جاپانی ترجمہ میں میری مدد کرتی رہیں اور ایسا ترجمہ کرتی تھیں کہ میں ہمیشہ حیران ہوتا تھا کہ باوجود فارمیسی پڑھنے کے اتنا اچھا ترجمہ کیسے کر لیتی ہیں۔ ان کی بڑی بہن فاطمہ ہیں وہ کہتی ہیں کہ ان کی ایک ڈائری تھی جو اتفاق سے میرے پاس آ گئی اور ہر صفحہ دو عنوانات پر مشتمل ہوتا تھا۔ ایک پہ لکھا ہوا تھا میری دنیاوی زندگی اور ایک پہ لکھا ہوا تھا میری روحانی زندگی اور دنیاوی صفحے روزمرہ کی زندگی کے کاموں اور دنیاوی مقاصد کے لئے مختص تھے اور روحانی صفحہ روحانی مقاصد کے لیے اور جماعت کے نوٹس اور دینی علم کے لیے وقف تھا۔ ہر صفحہ بہت خوبصورتی اور سوچ سمجھ کر لکھا ہوتا تھا۔ خلیفہ وقت کے ہر ہر لفظ کو غور سے سننا اور اس پر عمل کرنا اور اپنے بہن بھائیوں کو بھی اس کی تلقین کرنا ان کا خاص طریقہ تھا۔ جاپانی سہیلیوں کو بھی اسلام کی پرحکمت تعلیم سے آگاہ کیا کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں مرحومین سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔
اگلا ذکر چودھری نصیر احمد صاحب کا ہے جو کراچی میں اس وقت کلفٹن جماعت کے سیکرٹری مال تھے۔ چودھری نذیر احمد صاحب ربوہ کے یہ بیٹے تھے۔ انہتر سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ وفات کے وقت یہ اپنی اہلیہ اور برادر نسبتی کو نماز فجر کی امامت کروا رہے تھے تو دوسری رکعت میں سجدے کے دوران اچانک حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز کی حالت میں موت کو ایک قابل رشک موت قرار دیا ہے۔ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 542)
چودھری نذیر احمدصاحب جو ان کے والد تھے ان کو بھی ریٹائرمنٹ کے بعد پچیس سال جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔ نائب ناظر زراعت اور وکیل الزراعت رہے۔ ان کے چھوٹے بھائی ہیں چودھری نعیم احمد صاحب وہ انجمن کے اس وقت افسر خزانہ ہیں۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ ہیں نصرت نصیر صاحبہ۔ ان کی اولادنہیں تھی۔ 1972ء میں کراچی شفٹ ہوئے۔ وہیں ان کا کاروبار تھا۔ وہاں مختلف حیثیتوں سے جماعت کی خدمت کی توفیق ملی اور غیر معمولی خدمت کی انہوں نے توفیق پائی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
اگلا ذکر سرداراں بی بی صاحبہ اہلیہ چودھری نبی بخش صاحب دارالرحمت غربی ربوہ کا ہے جن کی گذشتہ دنوں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کا تعلق پٹھانکوٹ ضلع گورداسپور سے تھا۔ پھر یہ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ پہلے سیالکوٹ پھر سندھ۔ والدین اور سارا خاندان شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ 1949ء میں جب اپنے خاندان کے ساتھ آپ نے احمدیت قبول کی تو والدین نے کہا کہ تمہارا خاوند کافر ہو گیا ہے اس لئے تم واپس آ جاؤ۔ خاندان کے ساتھ نہیں اپنے خاوند کے ساتھ احمدیت قبول کی تھی۔ باقی خاندان نے بیعت نہیں کی۔ انہوں نے کہا خاوند کافر ہو گیا ہے اس لیے تم اس کو چھوڑ دو۔ اس پر انہوں نے اپنے گھر والوں کو، خاندان کو جواب دیا کہ اب تو میں صحیح مسلمان ہوئی ہوں۔ آپ کے پاس تو صرف فجر کی نماز پڑھتی تھی اور اب میں نہ صرف پانچ وقت کی نمازیں بلکہ تہجد کی نماز بھی باقاعدگی سے پڑھتی ہوں اس لئے واپس نہیں آؤں گی۔ چودہ سال کے بعد اپنے والدین کو ملنے گئیں تو اس وقت بھی وہ بڑی سردمہری سے ملے اور اس کے باوجود ان کے دل نرم نہیں ہوئے اور کبھی وہ ان کو ملنے نہیں آئے۔ جماعت سے سچا پیار کرتی تھیں خلافت سے فدائیت کا تعلق تھا۔ غریب پرور، نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں تین بیٹے اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب کو نصرت جہاں کے تحت پانچ سال سیرالیون میں خدمت کی توفیق ملی۔ چھوٹے بیٹے عبدالخالق نیر صاحب مربی سلسلہ ہیں آج کل کیمرون میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ وہاں مشنری انچارج بھی ہیں۔ امیر بھی ہیں جو میدان عمل میں اس وقت مصروف ہیں اور اس وجہ سے والدہ کے جنازہ میں بھی شامل نہیں ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر اور حوصلہ بھی عطا فرمائے۔ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 03؍دسمبر2021ء صفحہ 5تا10)
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں دیکھتا ہوں کہ جن و انس کے شیطان عمر سے بھاگتے ہیں۔
’’عمر بن خطاب میرے ساتھ ہوتا ہے جہاں میں پسند کرتا ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جہاں وہ پسند کرتا ہے اور میرے بعد عمر بن خطاب جہاں ہو گا حق اس کے ساتھ رہے گا‘‘ (الحدیث)
سکینت حضرت عمرؓ کی زبان اور دل پر جاری ہوتی ہے۔ (حضرت علیؓ )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بارے میں فرمایا یہ دونوں جنت کے اوّلین اور آخرین کے تمام بڑی عمر کے لوگوں کے سردار ہیں سوائے انبیاء اور مرسلین کے۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ۔
پانچ مرحومین مکرم کامران احمد صاحب شہیدآف پشاور، ڈاکٹر مرزا نبیر احمد صاحب اور ان کی اہلیہ مکرمہ عائشہ عنبر سیّد صاحبہ آف امریکہ، مکرم چودھری نصیر احمد صاحب آف کراچی اور مکرمہ سرداراں بی بی صاحبہ آف دارالرحمت غربی ربوہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب۔
فرمودہ 12؍نومبر2021ء بمطابق 12؍نبوت1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔