حضرت ابوبکر صدیقؓ ا ور سال نو۲۰۲۲ءکے لئے دعائیں
خطبہ جمعہ 31؍ دسمبر 2021ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفۡلٰی ؕ وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ(التوبۃ: 40)
گذشتہ خطبہ میں حضرت ابوبکرؓ کے
غارِ ثور کے واقعہ کا ذکر
چل رہا تھا۔ اس واقعہ کے حوالے سے جو غارِ ثور میں دشمن کے پہنچ جانے کا ہے قرآن کریم میں یہ آیت جو ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر تم اس رسول کی مدد نہ بھی کرو تو اللہ پہلے بھی اس کی مدد کر چکا ہے جب اسے ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا وطن سے نکال دیا تھا اس حال میں کہ وہ دو میں سے ایک تھا جب وہ دونوں غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس اللہ نے اس پر اپنی سکینت نازل کی اور اس کی ایسے لشکروں سے مدد کی جن کو تم نے کبھی نہیں دیکھاتھا اور اس نے ان لوگوں کی بات نیچی کر دکھائی جنہوں نے کفر کیا تھا اور بات اللہ ہی کی غالب ہوتی ہے اور اللہ کامل غلبہ والا اور بہت حکمت والا ہے۔
قرآن شریف میں غارِ ثور کے واقعہ کے حوالے سے یہ ذکر ہے۔ کفارِ مکہ غار کے دہانے پر کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ انہیں سن کر گھبرا گئے کہ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں پکڑ لیا گیا تو کیا بنے گا۔ سارا اسلام تو گویا اسی ذاتِ بابرکات سے وجود باجودتھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس گھبراہٹ کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر ؓکو گھبراہٹ پیدا ہو رہی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔
غم نہ کرو ابوبکر! یقیناً ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے۔(ماخوذ از شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جزء 2 صفحہ 122-123، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کرتے ہوئے جب وہ لوگ غارِثور کے پہاڑ کے پاس پہنچے تو سراغ رساں نے کہا: مجھے پتہ نہیں چل رہا کہ اس کے بعد ان دونوں نے کہاں اپنے قدم رکھے ہیں اور جب وہ غار کے قریب ہو گئے تو سراغ رساں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! جس کی تلاش میں تم لوگ آئے ہو وہ یہاں سے آگے نہیں گیا۔(تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ15 فی وقائع السنۃ الاولیٰ من الہجرۃ دارالکتب العلمیۃ 2009ء)
غار کے دہانے پر اس سراغ رساں نے جب یہ ساری بات کی اور کسی نے چاہا بھی کہ غار کے اندر جھانک کر دیکھا جائے تو اُمَیَِّہ بن خَلْف نے تلخ اور بے پروائی کے سے انداز میں کہاکہ یہ جالا (اور درخت) تو مَیں محمدکی پیدائش سے پہلے یہاں دیکھ رہا ہوں (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ تم لوگوں کا دماغ چل گیا ہے۔ وہ یہاں کہاں ہو سکتا ہے اور یہاں سے چلو کسی اَور جگہ اس کی تلاش کریں اور یہ کہتے ہوئےسب لوگ وہاں سے واپس چلے آئے۔(المواھب اللدنیہ لعلامہ قسطلانی جلد1 صفحہ292-293 مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت 2004ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں قریش ِمکہ کے اعلان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کرنے کے بارے میں جو ذکر فرمایا ہے وہ اس طرح ہے کہ ’’انہوں نے عام اعلان کیا کہ جو کوئی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اس کو ایک سو اونٹ انعام دیئے جاویں گے۔ چنانچہ کئی لوگ انعام کی طمع میں مکہ کے چاروں طرف اِدھر ادھر نکل گئے۔ خود رؤساء قریش بھی سراغ لیتے لیتے آپؐ کے پیچھے نِکلے اورعین غارِ ثور کے منہ پر جاپہنچے۔ یہاں پہنچ کر ان کے سراغ رسان نے کہا کہ بس سراغ اس سے آگے نہیں چلتا۔ اس لئے یا تو محمدؐ یہیں کہیں پاس ہی چھپا ہوا ہے ’’(صلی اللہ علیہ وسلم)‘‘ یا پھر آسمان پر اڑ گیا ہے۔ کسی نے کہاکوئی شخص ذرا اس غار کے اندر جاکر بھی دیکھ آئے مگر ایک اَور شخص بولا کہ واہ یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے۔ بھلا کوئی شخص اس غار میں جاکر چھپ سکتا ہے۔ یہ ایک نہایت تاریک و تاراور خطرناک جگہ ہے اور ہم ہمیشہ سے اسے اسی طرح دیکھتے آئے ہیں۔ یہ بھی روایت آتی ہے کہ غار کے منہ پر جو درخت تھا۔ اس پر آپؐ کے اندر تشریف لے جانے کے بعد مکڑی نے جالا تن دیا تھا اور عین منہ کے سامنے کی شاخ پر ایک کبوتری نے گھونسلا بنا کر انڈے دے دیئے تھے۔‘‘ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے خیال میں ’’یہ روایت تو کمزور ہے لیکن اگر ایسا ہوا ہو تو ہر گز تعجب کی بات نہیں۔‘‘ کمزور روایت ہے لیکن تعجب والی بات کوئی نہیں ہے کیونکہ ’’مکڑی بعض اوقات چند منٹ میں ایک وسیع جگہ پر جالا تن دیتی ہے اورکبوتری کو بھی گھونسلا تیار کرنے اور انڈے دینے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ اس لیے اگر خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کی حفاظت کے لیے ایسا تصرف فرمایا ہو تو ہر گز بعید نہیں ہے بلکہ اس وقت کے لحاظ سے ایسا ہونا بالکل قرین قیاس ہے۔ بہرحال قریش میں سے کوئی شخص آگے نہیں بڑھا اور یہیں سے سب لوگ واپس چلے گئے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں کہ ’’روایت آتی ہے کہ
قریش اس قدر قریب پہنچ گئے تھے کہ ان کے پاؤں غار کے اندر سے نظر آتے تھے اور ان کی آواز سنائی دیتی تھی۔
اس موقعہ پر حضرت ابوبکرؓ نے گھبرا کر مگر آہستہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ! قریش اتنے قریب ہیں کہ ان کے پاؤں نظر آرہے ہیں اور اگر وہ ذرا آگے ہو کر جھانکیں تو ہم کو دیکھ سکتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔
یعنی ہرگز کوئی فکر نہ کرو۔اللہ ہمارے ساتھ ہے۔پھر فرمایا
وَمَاظَنُّکَ یَااَبَابَکْر بِاِثْنَیْنِ اَللّٰہُ ثَالِثُھُمَا۔
یعنی اے ابوبکرؓ! تم ان دو شخصوں کے متعلق کیا گمان کرتے ہو جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جب قریش غار کے منہ کے پاس پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ سخت گھبرا گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی گھبراہٹ کو دیکھا تو تسلی دی کہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے رِقت بھری آواز میں کہا:
اِنْ قُتِلْتُ فَاَنَا رَجُلٌ وَاحِدٌ وَاِنْ قُتِلْتَ اَنْتَ ھَلَکَتِ الْاُمَّۃُ۔
یعنی یا رسول اللہؐ! اگر مَیں مارا جاؤں تو مَیں تو بس ایک اکیلی جان ہوں لیکن اگر خدانخواستہ آپؐ پر کوئی آنچ آئے تو پھر تو گویا ساری امت کی امت مِٹ گئی۔ اس پر آپؐ نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر یہ الفاظ فرمائے کہ
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَاا۔(سورۃ التوبہ:40)
یعنی اے ابوبکرؓ! ہرگز کوئی فکر نہ کرو کیونکہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہم دونوں اس کی حفاظت میں ہیں۔یعنی تم تو میری وجہ سے فکر مند ہو اور تمہیں اپنے جوش اخلاص میں اپنی جان کا کوئی غم نہیں مگر خداتعالیٰ اس وقت نہ صرف میرا محافظ ہے بلکہ تمہارا بھی اور وہ ہم دونوں کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھے گا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 237 تا 239)
یہ سیرت خاتم النبیین کا حوالہ ہے اورحضرت مصلح موعودؓ اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم ملا تو آپؐ حضرت ابوبکرؓ کو اپنے ساتھ لے کر جبلِ ثور کی طرف تشریف لے گئے جو مکہ سے کوئی چھ سات میل کے فاصلہ پر ہے اور اس پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ صبح جب کفار نے دیکھا کہ آپؐ اپنے گھر میں موجود نہیں اور ہر قسم کے پہرہ کے باوجود محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامیابی کے ساتھ نکل گئے ہیں تو وہ فورا ًآپؐ کی تلاش میں نکل کھڑ ے ہوئے اور انہوں نے مکہ کے چند بہترین کھوجی جو پاؤں کے نشانات پہچاننے میں بڑی بھاری دسترس رکھتے تھے اپنے ساتھ لئے جو انہیں جبلِ ثور تک لے آئے اور انہوں نے کہا کہ بس محمدرسول اللہؐ اگر ہیں تو یہیں ہیں۔ اس سے آگے اَور کہیں نشان نہیں ملتا۔ اس وقت یہ کیفیت تھی کہ دشمن غار کے عین سر پر کھڑا تھا اور غار کا منہ تنگ نہیں تھاجس کے اند ر جھانکنا مشکل ہو مگر وہ ایک فراخ منہ کی کھلی غار ہے جس کے اندر جھانک کر بڑی آسانی سے معلوم کیا جاسکتا تھا کہ کوئی شخص اندر بیٹھا ہے یا نہیں مگر ایسی حالت میں بھی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی خوف طاری نہیں ہوتا بلکہ آپؐ کی قوتِ قدسیہ کی برکت سے حضرت ابوبکرؓ کا دل بھی مضبوط رہتا ہے اور وہ موسیٰؑ کے ساتھیوں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ہم پکڑے گئے بلکہ انہوں نے اگر کچھ کہا تو یہ کہ یا رسول اللہ! دشمن اتنا قریب پہنچ چکا ہے کہ وہ اگر ذرا بھی نظر نیچی کرے تو ہمیں دیکھ سکتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اُسْکُتْ یَا اَبَا بَکْرٍ اِثْنَانِ اللّٰہُ ثَالِثُھُمَا۔
ابوبکر!خاموش رہو۔ ہم اِس وقت دو نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ایک تیسرا خدا بھی ہے پھر وہ کیونکر ہمیں دیکھ سکتے ہیں۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ باوجود اس کے کہ دشمن غار کے سر پرپہنچ چکا تھا پھر بھی اسے یہ توفیق نہ ملی کہ وہ آگے بڑھ کر جھانک سکتا اور وہ وہیں سے بڑبڑاتے واہی تباہی باتیں کرتے ہوئے واپس چلا گیا۔ غرض اس واقعہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ موسیٰؑ کے ساتھیوں نے گھبرا کر یہ کہا کہ اے موسیٰؑ ہم پکڑے گئے۔گویا انہوں نے اپنے ساتھ موسیٰؑ کو بھی لپیٹ لیا اور خیال کیا کہ اب ہم سب فرعون کی گرفت میں آنے والے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توکل نے آپؐ کے ساتھی پر بھی ایسا اثر ڈالا کہ اس کی زبان سے بھی یہ الفاظ نہ نکلے کہ ہم پکڑے گئے۔ بلکہ اس نے کہا تو صرف یہ کہ دشمن اتنا قریب آچکا ہے کہ اگروہ ہمیں دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتاہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واہمہ کو بھی برداشت نہ کیا اور فرمایا کہ
ایسا خیال بھی مت کرو ہم اس وقت دو نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ایک اَور بھی ہستی ہے اور وہ ہمار اخدا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 7صفحہ147،146)
حضرت مصلح موعودؓ ایک اَور جگہ فرماتے ہیں ’’جب مکہ کے لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہا درجہ کے مظالم شروع کر دئیے اور ان کی وجہ سے دین کی اشاعت میں روک پیدا ہونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حکم دیا کہ مکہ چھوڑ کر چلے جائیں۔ آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ بھی مکہ چھوڑنے کے لئے تیار ہو گئے۔ اس سے پہلے کئی دفعہ انہیں جانے کے لئے کہا گیا مگر آپؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر جانے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگے تو حضرت ابوبکرؓ کو بھی آپؐ نے ساتھ لے لیا۔ جب آپ رات کے وقت روانہ ہوئے‘‘ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ یہ ’’ایک جگہ جو مَیں نے بھی دیکھی ہے‘‘ حج کے دوران ’’پہاڑ میں معمولی سی غار ہے جس کا منہ دو تین گز چوڑا ہو گا اس میں جا کر ٹھہر گئے۔ جب مکہ کے لوگوں کو پتہ لگا کہ آپ چلے گئے ہیں تو انہوں نے آپؐ کا تعاقب کیا۔ عرب میں بڑے بڑے ماہر کھوجی ہوا کرتے تھے ان کی مدد سے تعاقب کرنے والے عین اس مقام پر پہنچ گئے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ بیٹھے تھے۔ خدا کی قدرت کہ غار کے منہ پر کچھ جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں جن کی شاخیں آپس میں ملی ہوئی تھیں۔ اگر وہ لوگ شاخوں کو ہٹا کر اندر دیکھتے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ بیٹھے ہوئے نظر آجاتے۔ جب کھوجی وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا کہ یا تو وہ آسمان پر چڑھ گئے ہیں یا یہاں بیٹھے ہیں اس سے آگے نہیں گئے۔ خیال کرو اس وقت کیسا نازک موقع تھا۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ گھبرائے مگر اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے۔ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔
گھبراتے کیوں ہو خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں نہ دیکھتے تو کس طرح ممکن تھا کہ ایسے نازک وقت میں گھبرا نہ جاتے۔ قوی سے قوی دل گردہ کا انسان بھی دشمن سے عین سر پر آجانے سے گھبرا جاتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل قریب بلکہ سر پر آپؐ کے دشمن کھڑے تھے اور دشمن بھی وہ جو تیرہ سال سے آپؐ کی جان لینے کے درپے تھے اور جنہیں کھوجی یہ کہہ رہے تھے کہ یا تو وہ آسمان پر چڑھ گئے ہیں یا یہاں بیٹھے ہیں۔ اس جگہ سے آگے نہیں گئے۔ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔
خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے تمہیں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا عرفان ہی تھا جس کی وجہ سے آپؐ نے یہ کہا۔ آپؐ خدا تعالیٰ کو اپنے اندر دیکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ میری ہلاکت سے خدا تعالیٰ کے عرفان کی ہلاکت ہو جائے گی اس لئے کوئی مجھے ہلاک نہیں کر سکتا۔‘‘(عرفان الٰہی اورمحبت باللہ کا عالی مرتبہ، انوارالعلوم جلد11صفحہ223-224)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی رفاقت کے لئے صرف ایک ہی شخص اختیار کیا تھا یعنی دھوما کو جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے وقت صرف حضرت ابوبکر کو اختیار کیا تھا کیونکہ سلطنت رومی حضرت عیسیٰ کو باغی قرار دے چکی تھی اور اسی جرم سے پیلا طوس بھی قیصر کے حکم سے قتل کیا گیا تھا کیونکہ وہ در پردہ حضرت عیسیٰ کا حامی تھا اور اس کی عورت بھی حضرت عیسیٰ کی مرید تھی۔ پس ضرور تھا کہ حضرت عیسیٰ اس ملک سے پوشیدہ طور پر نکلتے۔ کوئی قافلہ ساتھ نہ لیتے۔ اس لئے انہوں نے اس سفر میں صرف دھوما حواری کو ساتھ لیا جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے سفر میں صرف ابوبکرؓ کو ساتھ لیا تھا اور جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی اصحاب مختلف راہوں سے مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا پہنچے تھے ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری مختلف راہوں سے مختلف وقتوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں جا پہنچے تھے۔‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 402)
پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا صدق اس مصیبت کے وقت ظاہر ہوا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محاصرہ کیا گیا۔ گو بعض کفا ر کی رائے اخراج کی بھی تھی مگر اصل مقصد اور کثرت رائے آپؐ کے قتل پر تھی۔ ایسی حالت میں
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے صدق اور وفا کا وہ نمونہ دکھلایا جو ابدا لآباد تک کے لئے نمونہ رہے گا۔
اس مصیبت کی گھڑی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انتخاب ہی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت اور اعلیٰ وفاداری کی ایک زبر دست دلیل ہے… یہی حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتخاب کا تھا۔ اس وقت آپؐ کے پاس ستر اسّی صحابہؓ موجود تھے جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے مگر ان سب میں سے آپؐ نے اپنی رفاقت کے لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہی انتخاب کیا۔ اس میں کیا سِرّ ہے؟ بات یہ ہے کہ نبی خدا تعالیٰ کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اس کا فہم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کشف اور الہام سے بتا دیا کہ اس کام کے لئے سب سے بہتر اور موزوں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہیں۔ ابوبکرؓ اس ساعتِ عسر میں آپؐ کے ساتھ ہوئے۔ یہ وقت خطر ناک آزمائش کا تھا۔ حضرت مسیحؑ پر جب اس قسم کا وقت آیا تو اُن کے شاگرد اُن کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور ایک نے لعنت بھی کی۔ مگر صحابہ کرامؓ میں سے ہر ایک نے پوری وفاداری کا نمونہ دکھایا۔ غرض حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کا پورا ساتھ دیا اور ایک غار میں جس کوغارِثور کہتے ہیں۔ آپؐ جا چھپے۔ شریر کفار جو آپؐ کی ایذارسانی کے لئے منصوبے کر چکے تھے تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچ گئے۔ حضرت ابوبکرؓ صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اب تو یہ بالکل سر پر ہی آپہنچے ہیں اور اگر کسی نے ذرا پیچھے نگاہ کی تو وہ دیکھ لے گا اور ہم پکڑے جائیں گے۔ اس وقت آپؐ نے فرمایا
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔
کچھ غم نہ کھاؤ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اس لفظ پر غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرصدیقؓ کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا
اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔
مَعَنَا میں آپ دونوں شریک ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ تیرے اور میرے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک پلّہ پر آنحضرتؐ کو اور دوسرے پر حضرت صدیقؓ کو رکھا ہے۔ اس وقت دونوں ابتلا میں ہیں کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے یا تو اسلام کی بنیاد پڑنے والی ہے یا خاتمہ ہو جانے والاہے۔ دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہو رہی ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ا س غار کی تلاشی کرو کیونکہ نشان پا یہاں تک ہی آکر ختم ہو جا تا ہے لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گزر اور دخل کیسے ہو گا؟ مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے کبوتر نے انڈے دیئے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی باتوں کی آوازیں اندر پہنچ رہی ہیں اور آپ بڑی صفائی سے ان کو سن رہے ہیں۔ ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اور دیوانے کی طرح بڑھتے آئے ہیں لیکن آپ کی کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپؐ اپنے رفیق صادق صدیقؓ کو فرماتے ہیں:
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔
یہ الفاظ بڑی صفا ئی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ آپؐ نے زبان ہی سے فرمایا کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں۔ اشارہ سے کام نہیں چلتا۔ باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم ومخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس امر کی پرواہ نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے۔ خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ کافی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 1 صفحہ 376تا 378)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اَور مقام پر فرماتے ہیں کہ ’’اللہ جل شانہٗ نے اپنے نبی معصوم کے محفوظ رکھنے کے لئے یہ امر خارق عادت دکھلایا کہ باوجودیکہ مخالفین اس غار تک پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے رفیق کے مخفی تھے مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے ایک کبوتر کا جوڑا بھیج دیا جس نے اسی رات غار کے دروازہ پر آشیانہ بنا دیا اور انڈے بھی دے دئیے اور اسی طرح اذنِ الٰہی سے عنکبوت نے اس غار پر اپنا گھر بنا دیا جس سے مخالف لوگ دھوکہ میں پڑ کر ناکام واپس چلے گئے۔‘‘(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 66حاشیہ)
پھر روایت میں آتا ہے کہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کے ہونہار صاحبزادے حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ رات کو غارِثور آتے اور دن بھر کی مکّہ کی ساری خبریں دیتے۔ ہدایات لیتے اور علی الصبح اس طور سے مکہ واپس چلے جاتے کہ جیسے رات مکّہ میں ہی بسر کی ہو اور ساتھ ہی عامر بن فُہَیرہ کی ذہانت ہے کہ رات کو دودھ والی بکریوں کا دودھ دینے کے بعد بکریوں کے ریوڑ کو اس طرح واپس لاتے کہ حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ کے قدموں کے نشانوں کو بھی ساتھ ساتھ مٹا دیا جاتا۔(صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب ہجرۃ النبیﷺ … حدیث نمبر3905)(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جزء1-2 صفحہ 289 ، ذکر ھجرۃ الرسول، مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت 2008ء)
بعض سیرت نگاروں نے تو یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت اسماءؓ روزانہ کھانا لے کر آیا کرتی تھیں۔ (السیرۃ الحلبیہ جزء2 صفحہ54 باب عرض رسول اللّٰہﷺ نفسہ۔۔۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء) لیکن یہ جو ہے بعید از قیاس بات ہے۔ بعضوں کی یہ رائے صحیح ہے کہ اس خطرے کے عالم میں ایک خاتون کا روزانہ ادھر آنا راز فاش کرنے کے مترادف ہے اور جبکہ عبداللہ بن ابوبکر روزانہ آ رہے تھے تو پھر حضرت اسماءؓ کے کھانا لانے کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی۔ بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن تین دن اسی طرح گزر گئے۔ مکہ والے جب قریبی جگہوں کی تلاش سے فارغ ہو کر ناکام ہو گئے تو انہوں نے باہم مشاورت سے ایک بہت بڑے انعام کا اعلان کرتے ہوئے ارد گرد کی بستیوں میں ڈھنڈورچی بھیج دیے جو اعلان کر رہے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو زندہ یا مردہ لانے کی صورت میں ایک سو اونٹ انعام دیا جائے گا۔ اتنے بڑے انعام کی لالچ نے کئی لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش کے لیے پھر سے تازہ دم کر دیا۔(السیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ 58 باب الھجرۃ الی المدینۃ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
دوسری طرف تین دن مکمل ہونے پر حسبِ وعدہ عبداللہ بن اُرَیْقِطْ اونٹ لے کر آ گیا۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ ذکر ہے کہ عبداللہ بن اُرَیْقِطْ سے یہ وعدہ ٹھہرایا گیا تھا کہ وہ تین دن کے بعد صبح کے وقت اونٹ لے کر پہنچے گا۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 344، ھجرۃ الرسول مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)(صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب ہجرۃ النبیﷺ … حدیث نمبر3905)(فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد 7 صفحہ 238 دار المعرفۃ بیروت)
اس روایت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ غارِثور سے مدینہ کی طرف روانگی صبح کے وقت شروع ہوئی تھی مگر بخاری کی ہی دوسری روایت میں یہ وضاحت موجود ہے کہ سفر رات کے وقت شروع ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے عبداللہ بن اُرَیْقِطْ کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ نے اسے پہلے سے اپنی اونٹنیاں سپرد کر رکھی تھیں اور سمجھا رکھا تھا کہ تین رات کے بعد تیسرے دن کی صبح کو اونٹنیاں لے کر غارِ ثور میں پہنچ جائے۔ چنانچہ وہ حسبِ قرار داد پہنچ گیا۔ یہ بخاری کی مشہور روایت ہے مگر مؤرخین لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کو روانہ ہوئے تھے اور خود بخاری کی ہی ایک دوسری روایت میں اس کی تصدیق پائی جاتی ہے۔اور قرینِ قیاس بھی یہی ہے کہ آپؐ رات کو روانہ ہوئے ہوں۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ239-240)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیر کی رات یکم ربیع الاول کو غار سے نکل کر روانہ ہوئے۔ ابنِ سعد کے مطابق آپؐ ربیع الاول کی چار تاریخ کو پیر کی رات غار سے روانہ ہوئے۔(تاریخ الخمیس جلد2 صفحہ 18، ذکر خروجہﷺ مع ابی بکر من مکۃ۔۔۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت2009ء)
پہلی تاریخ خمیس کی روایت ہے۔
صحیح بخاری کے شارح عَلّامہ ابن حَجَر عَسْقِلَانی لکھتے ہیں کہ امام حاکم نے کہا کہ اس بارے میں متواتر آرا ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ سے نکلنا پیر کے دن تھا اور مدینہ میں داخل ہونا بھی پیر کے دن تھا سوائے محمد بن موسیٰ خوارزمی کے جس نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے جمعرات کے روز نکلے۔ علامہ ابن حَجَر ان روایات میں تطبیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے تو جمعرات کو نکلے تھے اور غار میں جمعہ، ہفتہ اور اتوار، تین راتیں قیام کرنے کے بعد پیر کی رات کو مدینہ کے لیے روانہ ہوئے۔(فتح الباری شرح صحیح البخاری لابن حجر جلد7 صفحہ299مطبوعہ قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹنی جس کا نام قَصْوَاملتا ہے اس پر سوار ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی اونٹنی پر اپنے ساتھ عامر بن فُہَیرہ کو سوار کیا اور اُرَیْقِطْ اپنے اونٹ پر سوار ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ کے پاس گھر میں کل سرمایہ پانچ یا چھ ہزار درہم تھا وہ بھی ساتھ لیا۔ بعض روایات کے مطابق عامر بن فُہَیرہ اور حضرت اَسماء ؓ کھانا لے کر آ گئیں اور جس میں بکری کا بھنا ہوا گوشت تھا لیکن یہاں پہنچ کر خیال آیا کہ کھانا اور مشکیزہ باندھنے کے لیے کوئی کپڑا وغیرہ نہیں ہے تو حضرت اَسماء نے اپنا نطاق کھول کر دو حصے کیے۔ ایک سے کھانا اور ایک سے مشکیزے کا منہ باندھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماءؓ کو جنت میں دو نطاقوں کی بشارت دی اور ان سب کو رخصت کیا اور یہ دعا کرتے ہوئے سفر شروع کیا:
اَللّٰہُمَّ اصْحَبْنِیْ فِیْ سَفَرِیْ، وَاخْلُفْنِیْ فِیْ أَہْلِیْ
کہ اے اللہ! میرے سفر میں تُو میرا ساتھی ہو جااورمیرے اہل میں میرا قائم مقام ہو جا۔(محمدرسول اللّٰہ والذین معہ از عبدالحمید جودۃ السحار جلد3 صفحہ 61مکتبۃ مصر)(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 345، دا رالکتب العلمیة بیروت 2001ء)
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ نطاق سے کھانا باندھنے کا واقعہ حضرت ابوبکرؓ کے گھر سے چلتے وقت ہوا تھا لیکن بہرحال یہاں بھی یہ ذکر ملتا ہے۔ تاریخ میں دو مواقع پر یہ ذکر ملتا ہے۔ بعض کے نزدیک اس وقت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے مکہ میں حضرت ابوبکرؓ کے گھر سے غارِثور کے لیے روانہ ہو رہے تھے اور بعض کے نزدیک اس وقت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غارِثور سے مدینہ کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔ بہرحال یہ دونوں ذکر ملتے ہیں لیکن بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سفرِہجرت کی جو تفصیل بیان فرمائی ہے اس روایت کے تسلسل سے یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ حضرت ابوبکرؓ کے گھر سے روانگی کا واقعہ ہے۔ لہٰذا بخاری کی روایت کو ترجیح دینا زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ اول تو غارِثور کے قیام کو جس طرح خفیہ رکھا گیا تھا وہاں حضرت اسماءؓ کا کھانا لے کر جانا محلِ نظر ہو سکتا ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ اور حضرت عامِر بن فُہَیرہؓ یہ دونوں مرد روزانہ چھپ کر جا رہے تھے تو پھر ایک خاتون کا جانا حفاظت اور احتیاط کے تقاضوں کے منافی نظر آتا ہے۔ بہرحال گھر میں بھی نِطاق سے کھانا باندھنے کا جو واقعہ ہے اس میں حضرت اسماءؓ کی فدائیت اور والہانہ محبت کی جھلک بھی نمایاں ہوتی ہے کہ بجائے اس کے کہ اس وقت کھانا باندھنے کے لیے کوئی اَور چیز ڈھونڈنے میں وقت ضائع کریں (اپنا کمربند کھول کر کھانا باندھ دیا)۔ غار میں تو کہا جا سکتا ہے کہ غار میں واقعہ ہوا ہو گا کیونکہ وہاں کوئی چیز نہیں تھی لیکن گھر میں بھی یہ واقعہ ہو سکتا ہے کہ فوری طور پر کوئی چیز نہ ملی ہو اور وقت ضائع ہونے کا خدشہ ہو تو اپنا کمر بند کھول کر کھانا باندھ کر حضرت ابوبکرؓ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رخصت کیا۔ اس لیے بخاری کی روایت کے مطابق یہ زیادہ درست معلوم ہوتا ہے کہ کھانا باندھنے کا واقعہ حضرت ابوبکرؓ کے گھر سے رخصت ہونے کا ہو گا نہ کہ غارِثور سے مدینہ کی طرف سفر کے آغاز کا۔ بہرحال واللہ اعلم۔
حضرت اسماءؓ بیان کرتی ہیں کہ
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت کے لیے نکلے تو حضرت ابوبکرؓ نے اپنا سارا مال ساتھ لے لیا جو پانچ یا چھ ہزار درہم تھا۔
آپؓ بیان کرتی ہیں کہ ہمارے دادا ابو قُحافہ ہمارے پاس آئے۔ اس وقت ان کی بینائی جا چکی تھی۔ انہوں نے کہا اللہ کی قسم! میرا خیال ہے کہ وہ یعنی حضرت ابوبکرؓ اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے مال کے ذریعہ بھی تم لوگوں کو مصیبت میں ڈال گیا ہے۔ اس پر حضرت اسماءؓ کہتی ہیں مَیں نے کہا کہ نہیں دادا جان! ہرگز نہیں۔ وہ تو ہمارے لیے بہت سا مال چھوڑ گئے۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ مَیں نے کچھ پتھر لیے اور ان کو گھر کے اس روشن دان میں رکھ دیا جہاں میرے والد مال رکھا کرتے تھے اور پھر مَیں نے ان پر کپڑا ڈال دیا اور اپنے دادا کا ہاتھ پکڑ کر مَیں نے کہا دادا جان اس مال پر اپنا ہاتھ تو رکھیں۔ پس انہوں نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا کوئی حرج نہیں اگر وہ تمہارے لیے اتنا کچھ چھوڑ کر گیا ہے تو پھر اس نے اچھا کیا ہے۔ حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں اللہ کی قسم! حضرت ابوبکرؓ ہمارے لیے کچھ بھی چھوڑ کر نہیں گئے تھے مگر مَیں چاہتی تھی کہ اس بزرگ کو اس طرح اطمینان دلا سکوں۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام 345،ھجرۃ الرسولﷺ،دا رالکتب العلمیة بیروت 2001ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے غارِثور سے روانگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’غارِ ثور سے نکل کر آپؐ ایک اونٹنی پر جس کا نام بعض روایات میں اَلْقَصْوَا بیان ہوا ہے سوار ہو گئے اور دوسری پر حضرت ابوبکرؓاور ان کا خادم عَامِر بن فُہَیرہ سوار ہوئے۔ روانہ ہوتے ہوئے آپؐ نے مکہ کی طرف آخری نظر ڈالی اور حسرت کے الفاظ میں فرمایا: اے مکہ کی بستی! تُو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓنے کہا۔ اِن لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے۔ اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ240)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’دو دن اِسی غار میں انتظار کر نے کے بعد پہلے سے طے کی ہوئی تجویز کے مطابق رات کے وقت غار کے پاس سواریاں پہنچائی گئیں اور دو تیز رفتار اونٹنیوں پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی روانہ ہوئے۔ ایک اونٹنی پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور رستہ دکھانے والا آدمی سوار ہوا۔‘‘ یہ بھی ایک روایت میں آتا ہے کہ دونوں ایک سواری میں تھے۔ ایک میں یہ کہ تین اونٹنیاں تھیں۔ بہرحال اور ’’دوسری اونٹنی پر حضرت ابوبکرؓ اور ان کا ملازم عامر بن فُہَیرہ سوار ہوئے۔ مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ مکہ کی طرف کیا۔ اس مقدس شہر پر جس میں آپ پیدا ہوئے، جس میں آپ مبعوث ہوئے اور جس میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے زمانہ سے آپ کے آباؤاجداد رہتے چلے آئے تھے آپؐ نے آخری نظرڈالی اور حسرت کے ساتھ شہر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے مکہ کی بستی! تو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ نے بھی نہایت افسوس کے ساتھ کہا: اِن لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ223-224)(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام باب ہجرۃ الرسولﷺ صفحہ 344 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
ایک روایت کے مطابق جب جُحْفَہ مقام پر پہنچے، جُحْفَہ مکہ سے تقریباً 82میل کے فاصلے پر ہے تو یہ آیت نازل ہوئی:
اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَادُّکَ اِلٰى مَعَادٍ(القصص:86)
یقیناً وہ جس نے تجھ پر قرآن کو فرض کیا ہے تجھے ضرور ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا۔(محمد رسول اللّٰہ والذین معہ از عبدالحمید جودۃ السحار جلد3 صفحہ 64مکتبۃ مصر)(شرح زرقانی علی مواہب اللدنیہ جلد 2 صفحہ 172 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ساری رات یہ سفر جاری رہا یہاں تک کہ جب دوپہر کا وقت ہونے لگا تو ایک چٹان کے سائے میں قافلہ استراحت کے لیے رکا۔ حضرت ابوبکرؓ نے بستر تیار کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آرام فرمانے کی درخواست کی۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ باہر نکل گئے تا دیکھیں کہ تعاقب کرنے والوں میں سے کوئی آ تو نہیں رہا۔ اتنے میں دُور سے بکریوں کا ایک چرواہا بھی سائے کی تلاش میں ادھر آ نکلا۔ حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے اس سے پوچھا لڑکے تم کس کے غلام ہو؟ اس نے کہا قریش کے ایک شخص کا ہوں۔ اس نے اس کا نام لیا اور مَیں نے اس کو پہچان لیا۔ مَیں نے کہا کیا تمہاری بکریوں میں کچھ دودھ ہے۔ اس نے کہا ہاں۔ مَیں نے کہا کیا تم ہمارے لیے کچھ دودھ دوہو گے؟ اس نے کہا ہاں۔ چنانچہ مَیں نے اسے دودھ دوہنے کے لیے کہا۔ اس نے اپنی بکریوں میں سے ایک بکری کی ٹانگ اپنی پنڈلی اور ران کے درمیان پکڑ لی۔ پھر مَیں نے اس کو کہا کہ پہلے تھن کو اچھی طرح صاف کرو۔ پھر اپنی نگرانی میں دودھ برتن میں ڈلوایا۔ اس میںپانی ڈالا تا کہ دودھ کی حدت کچھ کم ہو جائے اور دودھ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ دودھ لے کر حاضر ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک سوئے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے مناسب نہ سمجھا کہ آپؐ کے آرام میں خلل کیا جائے۔ چنانچہ آپؐ کے بیدار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ بیدار ہونے پر دودھ پیش کیا اور عرض کیا یا رسول اللہ پئیں۔ اور آپؐ نے اتنا پیا کہ حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ میں خوش ہو گیا۔ پھر مَیں نے کہا یا رسول اللہ ؐ!کُوچ کا وقت آ پہنچا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ یا ایک روایت میں یہ ذکر ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب سفر دوبارہ شروع کیا جائے؟ عرض کیا گیا جی میرے آقا۔ چنانچہ سفر پھر شروع ہوا۔(صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ بَابُ مَنَاقِبِ المُهَاجِرِينَ وَفَضْلِهِمْ حدیث نمبر 3652)(سبل الھدیٰ والرشاد جلد3 صفحہ243-244،جماع ابواب الھجرۃ الی المدینۃ…. دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
سراقہ بن مالک کا تعاقب
اس کا واقعہ یہ ہے کہ اُرَیْقِطْ جیسے ماہر راستہ شناس کی نگرانی میں ساحلی بستیوں کی جانب سے مدینہ کی طرف یہ سفر شروع کیا گیا تھا جو کہ مدینہ کے عمومی راستے سے مختلف روٹ (route) تھا۔ مکہ اور اس کے ارد گرد کی بستیوں میں سو اونٹ انعام کا اعلان عام ہو چکا تھا اور بہت سے لوگ چاہتے تھے کہ یہ گراں قدر انعام انہیں ملے۔ سُراقہ بن مالِک بیان کرتے ہیں، بعد میں یہ مسلمان ہو گئے تھے اور اسلام لانے کے بعد انہوں نے خود یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ہمارے پاس کفارِ قریش کے ایلچی آئے۔ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ ہر دو کی دیت مقرر کی ہوئی تھی ان لوگوں کے لیے جو ان دونوں کو قتل کرے گا یا انہیں زندہ پکڑ لے گا۔
سراقہ کہتے ہیں مَیں اپنی قوم بَنُو مُدْلِجْ کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص ان کے سامنے سے آیا اور ہمارے پاس کھڑا ہوا جبکہ ہم بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے کہا کہ اے سراقہ! مَیں نے ساحل کی طرف کچھ سائے سے دیکھے ہیں یا کہا کہ تین افراد کا ایک قافلہ جاتے دیکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ ہو نہ ہو یہ محمدؐ ہی ہیں۔ سراقہ بن مالک کہتے ہیں کہ مَیں جان گیا کہ واقعی یہ محمدؐ کا ہی قافلہ ہو گا لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے ساتھ کوئی اَور اس انعام میں شریک ہو۔ اس لیے مَیں نے فوراً موقع کی نزاکت کو سنبھالا اور اس بتانے والے کو آنکھ سے اشارہ کیا کہ وہ خاموش رہے اور خود مَیں نے کہا کہ نہیں نہیں وہ محمدؐ کا قافلہ نہیں ہوسکتا بلکہ جن لوگوں کا تم ذکر کر رہے ہو وہ تو ابھی ہمارے سامنے سے گزر کر گئے ہیں۔ وہ بنو فلاں ہیں جو اپنی گمشدہ اونٹنی کی تلاش میں جا رہے تھے۔ سراقہ کہتے ہیں کہ مَیں کچھ دیر اُس مجلس میں رہا تا کہ کسی کو شک نہ گزرے اور پھر اپنی ایک خادمہ کو کہا کہ وہ میری فلاں تیز رفتار گھوڑی کو لے کر گھر کے پیچھے فلاں جگہ پر کھڑی ہو اور میرا انتظار کرے اور کچھ دیر کے بعد وہ خود وہاں پہنچ گیا اور بیان کرتے ہیں کہ میں نے فال نکالی لیکن اس سفر کے خلاف نکلی لیکن میں نے پروا نہیں کی اور گھوڑی کو ایڑھ لگا کر ہوا ہو گیا اور تیزی سے اس قافلے کا پیچھا کرنے لگا جو میں سمجھتا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی قافلہ ہے۔ سراقہ کہتے ہیں کہ منزل پر منزلیں مارتے ہوئے میں جلد ہی اس قافلے کے قریب پہنچ گیا اور ابھی کچھ ہی فاصلے پر تھا کہ میری گھوڑی نے خلاف معمول ٹھوکر کھائی کہ میں اس سے گر پڑا۔ پھر مَیں اٹھ کھڑا ہوا اور مَیں نے فال نکالی اور فال پھر میرے ارادے کے خلاف نکلی مگر میں چاہتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس لے کر جا ؤں اور سو اونٹنیوں کا انعام حاصل کروں۔ پھر میں اٹھا اور گھوڑی پر سوار ہوا اور اب مَیں اتنا قریب ہو چکا تھا کہ نہ صرف مَیں یہ پہچان چکا تھا کہ یہ محمدؐ اور ابوبکرؓ ہیں بلکہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ پڑھنے کی آواز بھی آر ہی تھی کہ اتنے میں میری گھوڑی نے بری طرح ٹھوکر کھائی اور اس کی ٹانگیں ریت میں دھنس گئیں اور میں اس سے گر پڑا۔ پھر مَیں نےگھوڑی کو ڈانٹا اور اٹھ کھڑا ہوا یعنی گھوڑی کو بُرا بھلا کہا اوراٹھ کھڑا ہوا اور گھوڑی اپنی ٹانگیں زمین سے نکال نہ سکتی تھی۔ آخر جب وہ سیدھی کھڑی ہوئی تو اس کی دونوں ٹانگوں سے گرد اٹھ کر فضا میں دھوئیں کی طرح پھیل گئی۔ اتنی دھنسی ہوئی تھی کہ جب مٹی سے یا ریت سے ٹانگیں باہر نکالیں تو گرد اُڑی۔ کہتے ہیں اب میں نے دوبارہ تیروں سے فال نکالی تو وہی نکلا جسے میں ناپسند کرتا تھا۔ میں نے وہیں سے امان کی آواز لگائی اور کہا کہ میری طرف سے آپ لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ اس سے پوچھو کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اس نے کہا کہ مَیں سراقہ ہوں اور آپ لوگوں سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر وہ رک گئے۔ سراقہ بتانے لگا کہ مکہ والوں نے ان کے زندہ یا مردہ پکڑے جانے پر سو اونٹ انعام مقرر کیا ہے اور میں اسی لالچ میں آپ کا تعاقب کرتے ہوئے آیا ہوں لیکن جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے اس سے میں اس یقین پر قائم ہوں کہ میرا تعاقب درست نہیں ہے۔ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زادِراہ وغیرہ کی پیشکش بھی کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہ فرمایا۔ بس یہ کہا کہ ہمارے بارے میں کسی کو نہ بتانا۔ اس نے یہ وعدہ کیا اور ساتھ یہ بھی عرض کیا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ ایک دن بادشاہت حاصل کر لیں گے۔ مجھے کوئی عہد و پیمان لکھ دیں کہ اس وقت جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں تو مجھ سے عزت و احترام سے پیش آیا جائے۔ بعض روایات کے مطابق اس نے امان کی تحریرکے لیے درخواست کی تھی۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر اس کو وہ تحریر حضرت ابوبکرؓ نے اور ایک روایت کے مطابق عامِر بن فُہَیرہؓ نے لکھ کر دی اور وہ یہ تحریر لے کر واپس آ گیا۔(صحیح البخاری کتاب المناقب باب ھجرۃ النبیﷺ و اصحابہ الی المدینۃ روایت نمبر 3906)(سبل الھدیٰ والرشاد جلد3 صفحہ248،قصۃ سراقۃؓ…… دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)(محمد رسول اللّٰہ والذین معہ جلد 3 صفحہ 64-65 مطبوعہ مصر)
یہ ذکر ان شاء اللہ ابھی آئندہ بھی چلے گا۔ کل ان شاء اللہ نیا سال بھی شروع ہو رہا ہے ۔
اللہ تعالیٰ آنے والے سال کو افراد جماعت کے لیے، جماعت کے لیے من حیث الجماعت ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔
ہر قسم کے شر سے جماعت کو محفوظ رکھے اور دشمن کے جو جماعت کے خلاف منصوبے ہیں ہر منصوبے کو خاک میں ملا دے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے جو اللہ تعالیٰ نے وعدے کیے ہیں ان وعدوں کو ہم بھی اپنی زندگیوں میں کثرت سے پورا ہوتا ہوا دیکھیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ یہ نظارے بھی دکھائے۔ پس بہت دعائیں کرتے رہیں۔
نئے سال میں دعاؤں کے ساتھ داخل ہوں۔ تہجد کا بھی خاص اہتمام کریں۔
بعض مساجد میں ہو بھی رہا ہے۔ باقی جہاں نہیں ہے وہاں بھی کرنا چاہیے۔ انفرادی طور پر اگر اجتماعی طور پر نہیں تو انفرادی طور پر بھی اور گھروں میں بھی تہجد کی نماز ضرور خاص طور پر ادا کرنی چاہیے۔ دعا کرنی چاہیے۔ اول تو یہ مستقل عادت ہونی چاہیے لیکن کل سے جب پڑھیں یا آج رات سے تو اس کی بھی کوشش کریں کہ زندگیوں کا مستقل حصہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق بھی دے۔
یہ دعائیں بھی درود شریف اور استغفار کے علاوہ کثرت سے پڑھا کریں
کہ
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ (آل عمران:9)
اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تُو ہمیں ہدایت دے چکا ہو اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقیناً تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے۔ پھر یہ بھی دعا پڑھیں
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ (آل عمران:148)
کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور اپنے معاملے میں ہماری زیادتی بھی اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور ہمیں کافر قوم کے خلاف نصرت عطا کر۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس کی توفیق دے۔
مَیں نمازوں کے بعد
بعض جنازہ غائب
بھی پڑھاؤں گا۔ اس وقت ان کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا ذکر
مکرم ملک فاروق احمد کھوکھر صاحب
کا ہے۔ یہ ضلع ملتان کے امیر رہے ہوئے ہیں۔ 18؍دسمبر کو اَسّی(80)سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کے والد مکرم ملک عمر علی کھوکھر صاحب تھے جو رئیس ملتان کہلاتے تھے اور والدہ سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ۔ سیدہ بیگم کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کی یہ بیٹی تھیں۔ حضرت ملک عمر علی صاحب نے اپنی جوانی میں احمدیت قبول کی تھی۔ حضرت خلیفہ ثانیؓ کے دَور میں قادیان جا کر انہوں نے بیعت کی سعادت حاصل کی تھی۔ ملک عمر علی صاحب کی وفات جلدی ہو گئی تھی۔اس وقت ملک فاروق احمد صاحب تقریباً بیس بائیس سال کی عمر کے تھے۔ جوان تھے۔ ملک صاحب کا علاوہ زمینوں کے کراچی میں کچھ بزنس تھا۔ اس کو انہوں نے بڑا احسن رنگ میں سنبھالا اور اپنی والدہ، دو والدہ تھیں ان کی اور بہن بھائیوں کی پرورش کی۔ ملک فاروق کھوکھر صاحب لمبا عرصہ قائد مجلس خدام الاحمدیہ ضلع ملتان اور پھر قائد علاقہ ملتان کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 1980ء سے 85ء تک بطور امیر ضلع ملتان خدمت کی توفیق پائی۔ اس دوران میں آپ امیر شہر ملتان بھی خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ ان کی شادی 1968ء میں حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کی بیٹی دردانہ صاحبہ سے ہوئی تھی۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے نکاح پڑھایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹے اور پانچ بیٹیوں سے نوازا۔
آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ بہت ہی محبت کرنے والے اور خیال رکھنے والے تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتے۔ باقاعدہ تہجد پڑھتے اور مجھے بھی روزانہ تہجد کے لیے اٹھاتے تھے۔ جس دن وفات ہوئی ہے اس رات بھی نفل پڑھے اور نماز پڑھی اور پھر سو گئے۔ ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ کہتے ہیں جب ابھی امیر جماعت نہیں تھے تو کسی احمدی کا کوئی مسئلہ ہوتا ،کسی وقت بھی کسی کا کام آ جاتا یا اس کا فون آ جاتا تو فوری طور پر کام کے لیے تیار ہوتے۔ کہتی ہیں جب امیر جماعت بنے تو مجھے یہ حکم تھا کہ ہر وقت کھانے اور چائے کا انتظام تیار رہنا چاہیے کسی وقت بھی کوئی مہمان آ سکتاہے۔ کہتی ہیں مجھے نہیں یاد کبھی میرا گھر مہمانوں سے خالی ہو یا کوئی نہ کوئی مستقل آ کے ٹھہرا نہ ہو۔ بعض مربیان کو بھی گھر میں ٹھہراتے تھے۔ گھر جو تھا وہ دفتر ہی بنا رہتا تھا۔ بہت کھلے دل کے اور دل سے محبت کرنے والے تھے۔ سب غیر احمدی رشتہ دار بلکہ پورا کھوکھر خاندان ان کی بہت عزت اور احترام کرتا تھا۔ محبت کرتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ ان سے خوب نبھایا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قرآن مجید کی تلاوت بہت اچھی تھی۔ کہتی ہیں جب مَیں تلاوت کرتی تھی تو میری تلاوت کی بغیر قرآن مجید کھولے اصلاح کرتے تھے۔
ان کے بیٹے طلحہ کہتے ہیں کہ اپنی دونوں ماؤں کا بہت خیال رکھا اور کبھی فرق نہیں کیا اور اپنی تمام بہنوں بھائیوں کی شادیاں بھی خود ہی کروائیں۔ ان کا گھر ہمیشہ ان کے دل کی طرح ہر ایک کے لیے کھلا تھا خاص طور پر واقفین جماعت کے لیے۔ ان کا ایک گھر خیرا گلی مری میں تھا اور کہا کرتے تھے یہ تو میں نے بنایا ہی جماعت کے لیے ہے ۔کبھی کسی کو انکار نہیں کیا جو بھی وہاں جا کے رہنا چاہتا تھا رہتا تھا وہاں۔ یہ کہتے ہیں کہ 1984ء کے حکومتی آرڈیننس کے بعد کے آزمائشی دور میں خدا کے فضل سے اپنی دلیرانہ personality سے ملتان ضلع اور شہر کے تمام ساتھیوں کو ہمیشہ ہمت دلاتے رہے، کبھی کمزور نہیں پڑنے دیا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا جو ہجرت کا سفر تھا۔ اللہ کے فضل سے ان کو حضور کے قافلہ میں شامل ہونے کی توفیق ملی اور ایک جگہ ایک موقع پر انہوں نے قافلے کو لیڈ بھی کیا، صحیح رستہ گائیڈ کیا۔ ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ ابا کی امارت کے دوران ہمارا گھر گھر سے زیادہ دفتر بنا ہوتا تھا۔ خوب رونق ہوتی تھی۔ زمینوں کا کام اپنے چھوٹے بھائی کے سپرد کر دیا اور اپنا تمام وقت دین کے لیے وقف کر دیا۔ ہرایک بے تکلفی سے آیا کرتا تھا۔ بےتکلف طبیعت تھی۔ غیر از جماعت رشتہ داروں کی مالی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ان کے جنازے پر ہمارے کچھ رشتہ دار آئے تو روتے ہوئے کہنے لگے آج ہم لاوارث ہو گئے ہیں کیونکہ ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں ہمیشہ ہمیں نماز کی تلقین کرتے خاص طور پر فجر کی نماز کی۔ ان کی چھوٹی بیٹی فائزہ کہتی ہیں کہ ابا کا اللہ پر توکّل ہمارے لیے ایک مثال تھی۔ ہر طرح کا زمانہ دیکھا۔ نوجوانی میں یتیم ہوئے۔ ہر طرح کے حالات دیکھے۔ تنگی بھی اور آرام بھی مگر مَیں نے بچپن سے دیکھا ہے کہ ابا نے اللہ پر توکّل کا برملا اظہار کیا اور ہمیشہ کہتے کہ میرے ہر کام اللہ تعالیٰ خود کرتا ہے۔ کہتی ہیں کہ ابا کو خلافت سے بےانتہا محبت تھی اور خلافت کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑتے تھے اور ایک ابتلا بھی ان پر آیا اور اس کو بھی انہوں نے بڑے صبر اور دعاؤں کے ساتھ گزارا۔
ان کے چھوٹے بھائی ملک طارق علی کھوکھر جو دوسری والدہ سے تھے وہ کہتے ہیں کہ میری عمر نو سال تھی جب میرے والد فوت ہوئے اور یہ بھائی جان میرے بڑے بھائی ملک فاروق جو تھے یہ 22سال کے نوجوان تھے لیکن انہوں نے ہمیں باپ کی طرح سنبھال لیا اور تمام عمر مجھے کبھی باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ غیر از جماعت رشتہ داروں پر ان کا خاص رعب تھا اور انکا یہ خیال بھی بہت رکھتے تھے۔ بےشمار احمدی خاندانوں کی کفالت کر رہے تھے۔ بہت سے بچوں کو تعلیم دلوا کر برسرِروزگار کیا۔ پھرکہتے ہیں کہ میرے بھائی ہر ضرورت مند کو قرضہ دیتے تھے اور کبھی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔ ہمیشہ اس نیت سے دیتے تھے کہ قرضہ حسنہ ہے۔
بہت سے نومبائع کہتے ہیں کہ ہمیں احمدیت میں داخل ہونے کے بعد ملک فاروق احمد کھوکھر صاحب نے اپنوں کی طرح سنبھال کر ہماری ضروریات کا خیال رکھا۔ اسّی سال کے ہو گئے تھے لیکن گذشتہ دو سال سے کہتے ہیں کہ ان کو فکر تھی تو یہ کہ اپنی جائیداد کا حصہ ادا کر دوں۔زیادہ تر حصہ جائیداد ادا کر دیا تھا،کچھ رہ بھی گیا۔ اللہ تعالیٰ بچوں کو توفیق دے کہ باقی بھی ادا کر دیں۔
ان کی بہن طاہرہ کہتی ہیں یہ بھی دوسری والدہ سے ہیں کہ میرے بھائی نے ہمیشہ میرے ساتھ ایک شفیق باپ کی طرح سلوک کیا۔ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے کبھی سگے اور سوتیلے کی تفریق نہیں کی۔ سب بہن بھائیوں سے یکساں سلوک کیا اور دونوں والداؤں کے ساتھ برابری کا سلوک کیا۔ ہمیں کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ ہماری مائیں علیحدہ ہیں۔ پھر یہ کہتی ہیں کہ وہ واقعتا ًمیرے باپ ہی کی جگہ تھے۔ جس طرح خاموشی سے ایک باپ اپنی بیٹی کے دکھ اور سکھ میں کام آتا ہے بالکل ایسا ہی ان کا میرے ساتھ تعلق تھا۔ پھر ان کی بیٹی نمودِ سحر کہتی ہیںکہ کچھ چیزیں ابا کی زندگی میں بہت نمایاں ہیں اور بار بار یاد آتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ان کی مہمان نوازی اور لوگوں سے محبت کا تعلق ہے۔ پھر کہتی ہیں: مہمان نوازی کا یہ حال تھا کہ گھر میں کھانا پکا ہوتا مہمان آ جاتے۔ کھانے کے لیے گھر والے بیٹھے ہیں لیکن وہی کھانا باہر مہمانوں کو چلا گیا اور گھر والوں نے پھر انڈے تل کر گزارا کر لیا۔ پھر کہتی ہیں کہ بہت سی غلطیاں زندگیوں میں ہوتی ہیں۔ ا نسان سے اونچ نیچ بھی ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے بعض ابتلا میں سے بھی ان کو گزرنا پڑا لیکن کبھی خلافت کے بارے میں انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی کہ جس سے ہمیں کبھی خیال ہو کہ خلیفہ وقت کا کوئی غلط فیصلہ ہوا ہے۔ ہمیشہ ہمارے گھر میں خطبہ سننا اور جماعت سے تعلق رکھنا یہ خاص اہتمام سے ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو صبر اور حوصلہ دے اور نیکیوں میں بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگلا ذکر
رحمت اللہ صاحب
کا ہے۔یہ انڈونیشیا کے ہیں۔ چھیاسٹھ(66)سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مشرقی جاوا میں ان کی پیدائش ہوئی۔ 1980ء میں جماعت انڈونیشیا کے سابق رئیس التبلیغ مکرم سیوطی عزیز احمد صاحب کے ذریعہ بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوئے۔1993ء میں نظامِ وصیت میں شامل ہوئے۔ وہاں کارنگ ٹینگہ (Karang Tengah) کی جماعت ہے، اپنی وفات تک وہاں ان کو خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بچے اور چھ نواسے شامل ہیں۔
ان کی اہلیہ نے لکھا کہ مرحوم نے ایک خواب دیکھا تھا جس میں انہوں نے اپنے آپ کو لوگوں کے ہجوم کے درمیان قطاروں میں کھڑے دیکھا۔ انہوں نے خواب میں کسی سے پوچھا کہ کون سی قطار میں شامل ہو جاؤں۔ کسی نے ایک قطار کی طرف اشارہ کیا جس میں ایک مقدس ہستی تھی۔ مرحوم نے اس مقدس آدمی کو نہیں پہچانا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد معلوم ہوا کہ انہوں نے خواب میں جس مقدس ہستی کو دیکھا تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے۔ اسی وجہ سے مرحوم جماعت کی سچائی کے قائل ہو گئے اور پھر بیعت بھی کر لی۔ آپ کی بیٹی نے لکھا کہ مرحوم بیعت کے بعد مقامی جماعت کے علاوہ لوکل مجلس انصار اللہ میں خدمت بجا لاتے رہے۔ جماعت کو مخالفین کی طرف سے حملے اور دھمکیاں ملتی تھیں تو مرحوم بڑی بہادری سے جماعت کی طرف سے دفاع کرتے تھے۔ بڑے سخی تھے۔ جب کوئی مدد مانگنے یا قرض لینے آتا تو ہمیشہ اس کی مدد کرتے۔ ان کی تیسری بیٹی نے لکھا کہ خلافت سے بے انتہا محبت رکھنے والے تھے اور بڑے اطاعت گزار تھے۔
عبدالباسط صاحب امیر انڈونیشیا لکھتے ہیں کہ خلافت اور جماعت سے بے پناہ محبت رکھنے والے تھے۔ کہتے ہیں وہاں مغربی جاوا کے ایک شہر میں ایک جماعت ہے وہاں چند مرتبہ مخالفینِ جماعت نے ہماری مسجد پر حملہ کیا اور مقامی حکومت کو جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کے لیے کہا تو اس موقع پر رحمت اللہ صاحب نے بڑی بہادری سے مخالفین اور مقامی حکومت کا سامنا کیا اور ان کے اعتراضات کے جواب دیتے اور مرحوم کی کوششوں کی وجہ سے وہاں اب تک جماعت قائم ہے اور کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگلا ذکر
الحاج عبدالحمید ٹاک صاحب
یاری پورہ کشمیر کا ہے۔24؍دسمبر کو 94سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ محمد اکرم ٹاک صاحب یاری پورہ کے بیٹے تھے جو اس علاقے کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے۔ مرحوم بہت نیک، نرم مزاج،ملنسار،ہر دلعزیز،سنجیدہ مزاج،خاموش طبع بزرگ تھے۔ لمبا عرصہ جماعتی خدمات کی توفیق پائی۔ صوبائی امیر جموں و کشمیر کے علاوہ ضلعی امیر اور ناظم انصاراللہ کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ مقامی جماعت میں مقامی عہدوں پر خدمت بجا لاتے رہے۔ سالہا سال انجمن تحریک جدید بھارت کے اعزازی ممبر اور رکن رہے۔ ان کے وقت میں صوبائی امارت کے دوران 1987ء میں وادیٔ کشمیر میں پانچ جماعتی سکولوں کا قیام بھی عمل میں آیا۔ کئی مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر کے لیے آپ نے بہت محنت کی۔ نوجوانوں کی علمی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور بڑھانے کے لیے کافی کوششیں کرتے اور اس کام میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ یاری پورہ کے علاقے میں ان کی سماجی خدمات کی وجہ سے لوگوں میںآپ کی بڑی عزت تھی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی اگلی نسلوں کو بھی نیک اور صالح بنائے، خدمت کی توفیق دیتا رہے۔
(الفضل انٹرنیشنل 21؍جنوری2022ءصفحہ5تا10)
’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے صدق اور وفا کا وہ نمونہ دکھلایا جو ابدا لآباد تک کے لئے نمونہ رہے گا‘‘ (حضرت اقدس مسیح موعودؑ)
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ۔
مدینہ کی طرف روانہ ہوتے ہوئے آپؐ نے مکہ پر آخری نظرڈالی اور حسرت کے ساتھ شہر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے مکہ کی بستی! تُو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ نے بھی نہایت افسوس کے ساتھ کہا: اِن لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے۔
مکرم ملک فاروق احمد کھوکھر صاحب سابق امیر ضلع ملتا ن، مکرم رحمت اللہ صاحب انڈونیشیا اور مکرم الحاج عبدالحمید ٹاک صاحب یاری پورہ کشمیر کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب۔
فرمودہ 31؍دسمبر2021ء بمطابق 31؍فتح1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔