حضرت ابوبکر صدیقؓ
خطبہ جمعہ 21؍ جنوری 2022ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج کل
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر
چل رہا ہے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی طرف توجہ فرمائی۔ چنانچہ اس بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ
مدینہ کے قیام کا سب سے پہلاکام مسجد نبوی کی تعمیر
تھا۔ جس جگہ آپؐ کی اونٹنی آکر بیٹھی تھی وہ مدینہ کے دو مسلمان بچوں سہل اور سہیل کی ملکیت تھی جو حضرت اَسْعدبن زُرَارَہؓ کی نگرانی میں رہتے تھے۔ یہ ایک افتادہ جگہ تھی جس کے ایک حصہ میں کہیں کہیں کھجوروں کے درخت تھے اور دوسرے حصہ میں کچھ کھنڈرات وغیرہ تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجد اور اپنے حجرات کی تعمیر کے لیے پسند فرمایااور دس دینار میں (یعنی اس وقت اس زمانے میں اس کی جو قیمت لگی وہ آپ نے یہاں روپوں میں لگائی تھی) بہرحال دس دینار میں زمین خرید لی گئی اور جگہ کوہموار کرکے اور درختوں کوکاٹ کر مسجد نبوی کی تعمیر شروع ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دعامانگتے ہوئے سنگِ بنیاد رکھا اور جیسا کہ قبا کی مسجد میں ہواتھا صحابہ نے معماروں اور مزدوروں کا کام کیا جس میں کبھی کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی شرکت فرماتے تھے۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ صفحہ269)
جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ مسجد کے لیے اور حجرات کے لیے یہ جو جگہ تھی یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس دینار میں خریدی تھی اور روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے مال سے یہ رقم ادا کی گئی تھی۔(المواہب اللدنیہ جلد1 صفحہ316، بناء المسجد النبوی، مطبوعہ المکتب الاسلامی2004ء)
مسجدکی تعمیر کے بارے میں مزید تفصیل یوں ملتی ہے۔ تعمیر شروع ہونے کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے ایک اینٹ رکھی۔ پھر آپؐ نے حضرت ابوبکر ؓکو بلایا تو انہوں نے آپؐ کی اینٹ کے ساتھ ایک اینٹ رکھی۔ پھر حضرت عمرؓ کو بلایا جنہوں نے حضرت ابوبکرؓ کی اینٹ کے ساتھ ایک اینٹ رکھی۔ پھر حضرت عثمانؓ آئے انہوں نے حضرت عمرؓ کی اینٹ کے ساتھ ایک اینٹ رکھی۔
ایک اَور روایت میں آتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد تعمیر کی تو آپؐ نے بنیاد میں ایک پتھر رکھا اور حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ اپنا پتھر میرے پتھر کے ساتھ رکھو۔ پھر آپؐ نے حضرت عمر ؓسے فرمایا: اپنا پتھر ابوبکرؓ کے پتھرکے ساتھ رکھو۔ پھر حضرت عثمانؓ سے فرمایا: اپنا پتھر عمرؓ کے پتھر کے ساتھ رکھو۔(السیرۃ الحلبیہ جلد2۔ باب الہجرۃ صفحہ 90 دارالکتب العلمیۃ بیروت2002)
محرم 7؍ ہجری میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خیبر سے فاتح و کامران لوٹے تو آپؐ نے
مسجد نبویؐ کی توسیع اور تعمیر نَو
کا ارشاد فرمایا۔ اس دفعہ بھی آپؐ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ مل کر مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔(ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ 446اورینٹل پبلی کیشنز پاکستان)
عبیداللہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں مکانوں کے لیے زمین عطا فرمائی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے ان کے گھر کی جگہ مسجد کے پاس مقرر فرمائی۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 93 ’ابوبکر الصدیق‘ومن بنی تیم بن مرَّۃ بن کعب۔داراحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
حضرت ابوبکرؓ کی مؤاخات
کے بارے میں روایات ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت خارجہ بن زیدؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔(الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 2صفحہ190، خارجہ بن زید، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے درمیان عقدِ مؤاخات قائم فرمایا۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 93 ’ابوبکر الصدیق‘ومن بنی تیم بن مرَّۃ بن کعب۔داراحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
حضرت عمرؓ کے ساتھ مؤاخات مکہ میں ہوئی تھی۔
اس کے بارے میں روایت آتی ہے کہ حضرت عمر ؓکے ساتھ جو مؤاخات کی روایت ملتی ہے یہ مؤاخات مکہ میں ہوئی تھی۔ جیسا کہ علامہ ابن عساکر لکھتے ہیں کہ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق ؓاور حضرت عمر بن خطابؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے وہ مؤاخات منسوخ فرما دی سوائے دو مؤاخات کے۔ وہ دو مؤاخات قائم رہیں جن میں سے ایک آپ کے اور حضرت علیؓ کے درمیان تھی اور دوسری حضرت حمزہؓ اور حضرت زید بن حارثہؓ کے درمیان تھی۔(تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر جلد 16 جزء 32 صفحہ 63 عبد اللّٰہ بن عثمان بن قحافہ۔ دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء)
مؤاخات کب ہوئی؟
اس بارے میں تاریخ میں یہ ذکر ملتا ہے کہ مؤاخات دو مرتبہ ہوئی۔ چنانچہ صحیح بخاری کے شارح علامہ قَسْطَلَانِیبیان کرتے ہیں کہ مؤاخات دو مرتبہ ہوئی؛ پہلی مرتبہ ہجرت سے قبل مکہ میں مسلمانوں کے درمیان ہوئی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓکے درمیان اور حضرت حمزہؓ اور حضرت زید بن حارثہؓ کے درمیان، حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے درمیان، حضرت زبیرؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے درمیان اور حضرت علیؓ اور اپنے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو مہاجرین اور انصار کے درمیان حضرت انس بن مالکؓ کے گھر میں مؤاخات قائم فرمائی۔ ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو صحابہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی یعنی پچاس مہاجرین اور پچاس انصار کے درمیان۔(ماخوذ از ارشاد الساری شرح صحیح بخاری جزء7صفحہ133حدیث نمبر3937دار الفکر 2010ء)
غزوۂ بدر اور حضرت ابوبکرؓ
اس بارے میں ذکر ملتا ہے کہ غزوۂ بدر رمضان 2؍ ہجری مطابق مارچ 623ء میں ہوئی۔(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 349)
غزوۂ بدر کے لیے روانگی کے وقت صحابہ کے پاس ستر اونٹ تھے اس لیے ایک ایک اونٹ تین تین آدمیوں کے لیے مقرر کیا اور ہر ایک باری باری سوار ہوتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔(ماخوذ از السیرة الحلبیہ باب ذکر مغازیہ جلد2صفحہ204دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
بدر کے لیے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روانگی فرمائی
تو اس کے ذکر میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان کے قافلے کی روک تھام کے لیے مدینہ سے نکلے جو شام کی طرف سے آ رہا تھا۔ جب مسلمانوں کا قافلہ ذَفِرَانْ کی وادی میں پہنچا، یہ مدینہ کے نواح میں صَفْرَاء کے قریب ایک وادی ہے تو آپؐ کو قریش کے بارے میں خبر ملی کہ وہ اپنے تجارتی قافلہ کو بچانے کے لیے نکل پڑے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ طلب کیا اور ان کو یہ خبر دی کہ مکہ سے ایک لشکر انتہائی تیز رفتاری سے نکل پڑا ہے اس بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ کیا لشکر کے مقابلہ میں تجارتی قافلہ تم کو زیادہ پسندہے؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ یعنی ایک گروہ نے کہا ہم دشمن کے مقابلہ میں تجارتی قافلے کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ایک روایت میں ذکر ملتا ہے کہ ایک گروہ نے کہا کہ آپؐ نے ہم سے جنگ کا ذکر کیوں نہ کیا تا کہ ہم اس کی تیاری کر لیتے۔ ہم تو تجارتی قافلے کے لیے نکلے ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسولؐ! آپ کو تجارتی قافلے کی طرف ہی جانا چاہیے اور آپؐ دشمن کو چھوڑ دیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا۔ حضرت ابوایوبؓ بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہی واقعہ ہے کہ
کَمَاۤ اَخۡرَجَکَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَیۡتِکَ بِالۡحَقِّ ۪ وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ لَکٰرِہُوۡنَ (الانفال:6)
کہ جیسے تیرے رب نے تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکالا تھا حالانکہ مومنوں میں سے ایک گروہ اسے یقینا ًناپسند کرتا تھا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ کھڑے ہو گئے اور گفتگو کی اور بہت عمدہ گفتگو کی۔ پھر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور گفتگو کی اور بہت عمدہ گفتگو کی۔ پھر حضرت مقدادؓکھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ؐ!جس کا اللہ نے آپؐ کو حکم دیا ہے اسی طرف چلیے۔ ہم آپؐ کے ساتھ ہیں۔ اللہ کی قسم! ہم آپؐ سے یہ نہ کہیں گے جیسا کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا تھا کہ
فَاذْہَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ (المائدۃ:25)
پس جا تُو اور تیرا رب دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ
ہم لوگ آپؐ کے ساتھ مل کر قتال کریں گے جب تک ہم میں جان ہے۔ اللہ کی قسم! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر مبعوث فرمایا ہے اگر آپؐ ہمیں برک الغماد بھی لے کر چلیں تو ہم آپؐ کے ہمراہ تلواروں سے لڑائی کرتے ہوئے چلتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ ہم وہاں پہنچ جائیں۔
برک الغمادمکہ سے پانچ رات کی مسافت پر ایک شہر ہے جو سمندر سے متصل ہے۔ بہرحال حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کو دیکھا ، وہ اس بات پر چمک اٹھا اور آپؐ اس بات پر بہت زیادہ مسرور ہوئے۔(السیرة الحلبیہ باب ذکر مغازیہ جلد2صفحہ205-206دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)(معجم البلدان جلد اول صفحہ 475 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذَفِرَانسے روانہ ہوئے اور بدر کے قریب پڑاؤ کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب میں سے ایک شخص سوار ہوا۔ ابن ہشام کے مطابق وہ حضرت ابوبکرؓ تھے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کی بجائے حضرت قَتَادہ بن نُعمانؓ یا حضرت مُعاذ بن جَبَلؓ تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے ایک بوڑھے شخص کے پاس رکے اور اس سے قریش کے متعلق اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں دریافت کیا اور یہ کہ ان کے بارے میں کیا خبر ہے؟(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 421، غزوۃ بدر الکبریٰ، ذکر الرسولؐ وابوبکر یتعرفان اخبار قریش، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)(السیرة الحلبیة جلد 2 صفحہ 207، ذکر مغازیہ۔ دار الکتب العلمیة بیروت 2002ء)
جب میدانِ بدر میں جمع ہو گئے تووہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک سائبان بنایا گیا تھا۔ اس کی تیاری کے بارے میں لکھا ہے’’سعد بن معاذ رئیس اوس کی تجویز سے صحابہ نے میدان کے ایک حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ایک سائبان سا تیار کردیا اور سعدؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سائبان کے پاس باندھ کر عرض کیا کہ یارسول اللہ ؐ!آپؐ اس سائبان میں تشریف رکھیں اورہم اللہ کا نام لے کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں… اور سعدؓ اور بعض دوسرے انصار اس کے گرد پہرہ دینے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ نے اسی سائبان میں رات بسر کی۔‘‘ ایک روایت میں ذکر ہے کہ حضرت ابوبکرؓ سائبان میں ننگی تلوار سونت کر آپؐ کے پاس حفاظت کے لئے کھڑے رہے ’’اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رات بھر خدا کے حضورگریہ و زاری سے دعائیں کیں اور لکھا ہے کہ سارے لشکر میں صرف آپؐ ہی تھے جو رات بھر جاگے۔ باقی سب لوگ باری باری اپنی نیند سو لئے۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ﷺ صفحہ 357)(سبل الھدیٰ جلد11 صفحہ398 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہادری
کے بارے میں حضرت علیؓ سے ایک روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے صحابہ کے ایک گروہ سے پوچھا کہ مجھے لوگوں میں سے سب سے زیادہ بہادر شخص کے متعلق بتاؤ۔ حضرت علیؓ نے پوچھا تو لوگوں نے جواب دیا کہ آپؓ یعنی حضرت علیؓ۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابوبکرؓ ہیں۔ جب بدر کا دن تھا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سائبان تیار کیا۔ پھر ہم نے کہا کہ کون ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک کوئی مشرک نہ پہنچ پائے تو اللہ کی قسم! ہم میں سے کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہ گیا مگر حضرت ابوبکرؓ تلوار کو سونتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے پاس کھڑے ہو گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی مشرک نہیں پہنچے گا مگر پہلے وہ ابوبکرؓ سے مقابلہ کرے گا۔(السیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ214 باب ذکر مغازیہﷺ دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ صحابہؓ میں سب سے زیادہ بہادر اور دلیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور پھر انہوں نے کہا کہ جنگِ بدر میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک علیحدہ چبوترہ بنایا گیا تو اس وقت سوال پیدا ہوا کہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا کام کس کے سپرد کیا جائے۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فوراً ننگی تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اس انتہائی خطرہ کے موقع پر نہایت دلیری کے ساتھ آپؐ کی حفاظت کا فرض سرانجام دیا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 7صفحہ364-365)
حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپؐ بدر کے دن ایک بڑے خیمے میں تھے کہ
اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَنْشُدُکَ عَہْدَکَ وَوَعْدَکَ، اَللّٰہُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الْیَوْمِ
کہ اے میرے اللہ! مَیں تجھے تیرے ہی عہد اور تیرے ہی وعدے کی قسم دیتا ہوں۔ اے میرے ربّ! اگر تُو ہی مسلمانوں کی تباہی چاہتا ہے تو آج کے بعد تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کا ہاتھ پکڑ لیا اور انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! بس کیجیے۔ آپؐ نے اپنے ربّ سے دعا مانگنے میں بہت اصرار کر لیا ہے اور آپ زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپؐ خیمہ سے نکلے اور آپؐ یہ پڑھ رہے تھے
سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔ بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَۃُ اَدْہٰى وَ اَمَرُّ(القمر:46-47)
عنقریب یہ سب کے سب شکست کھا جائیں گے اور پیٹھ پھیر دیں گے اور یہی وہ گھڑی ہے جس سے ڈرائے گئے تھے اور یہ گھڑی نہایت سخت اور نہایت تلخ ہے۔(صحیح بخاری کتاب الجہاد و السیر باب ما قیل فی درع النبیﷺ و القمیص فی الحرب حدیث :2915)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ بدر والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا وہ ایک ہزار تھے اور آپؐ کے صحابہ تین سو انیس تھے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف منہ کیا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور اپنے رب کو بلند آواز سے پکارتے رہے۔
اَللّٰھُمَّ اَنْجِزْ لِیْ مَا وَعَدْتَّنِیْ اَللّٰھُمَّ اٰتِ مَا وَعَدْتَّنِیْ اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَةَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِی الْاَرْضِ
یعنی اے اللہ! جو تُو نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما۔ اے اللہ! جو تُو نے مجھ سے وعدہ کیاہے وہ مجھے عطا فرما۔ اے اللہ! اگر تُو نے مسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک کر دیا تو زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ قبلے کی طرف منہ کیے دونوں ہاتھ پھیلائے آپؐ مسلسل اپنے رب کو بلند آواز سے پکارتے رہے یہاں تک کہ آپؐ کی چادر آپؐ کے کندھوں سے گر گئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپؐ کے پاس آئے اور آپؐ کی چادر اٹھائی اور آپؐ کے کندھوں پر ڈال دی۔ پھر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے سے چمٹ گئے اور عرض کیا، اے اللہ کے نبیؐ! آپؐ کی اپنے رب کے حضور الحاح سے بھری ہوئی دعا آپؐ کے لیے کافی ہے۔ وہ آپؐ سے کیے گئے وعدے ضرور پورے فرمائے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی
اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕکَۃِ مُرْدِفِیْنَ (الانفال: 10)
یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اس نے تمہاری التجا کو قبول کر لیا اس وعدے کے ساتھ کہ میں ضرور ایک ہزار قطار در قطار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔ پس اللہ نے ملائکہ کے ساتھ آپ کی مدد فرمائی۔(صحیح مسلم کتاب الجہاد و السیر باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر و اباحۃ الغنائم حدیث نمبر 4588)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بدر کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تفصیل اس طرح بیان فرمائی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہوکر یہ بھی فرمایا کہ لشکر کفار میں بعض ایسے لوگ بھی شامل ہیں جواپنے دل کی خوشی سے اس مہم میں شامل نہیں ہوئے بلکہ رؤساءِ قریش کے دباؤ کی وجہ سے شامل ہوگئے ہیں ورنہ وہ دل میں ہمارے مخالف نہیں۔ اسی طرح بعض ایسے لوگ بھی اس لشکر میں شامل ہیں جنہوں نے مکہ میں ہماری مصیبت کے وقت میں ہم سے شریفانہ سلوک کیا تھا اور ہمارا فرض ہے کہ ان کے احسان کا بدلہ اتاریں۔ پس اگر کسی ایسے شخص پر کوئی مسلمان غلبہ پائے تواسے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائے اور آپؐ نے خصوصیت کے ساتھ قسم اوّل میں عباس بن عبدالمطلب اور قسم ثانی میں اَبُوالْبَخْتَرِیکا نام لیا اوران کے قتل سے منع فرمایا مگر حالات نے کچھ ایسی ناگریز صورت اختیار کی کہ اَبُوالْبَخْتَرِیقتل سے بچ نہ سکا گو اسے مرنے سے قبل اس بات کاعلم ہوگیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل سے منع فرمایاہے۔‘‘ صحابہ سے یہ فرمانے کے بعد ’’…آپؐ سائبان میں جاکر پھردعا میں مشغول ہو گئے۔ حضرت ابوبکرؓ بھی ساتھ تھے اورسائبان کے ارد گرد انصار کی ایک جماعت سعد بن معاذؓ کی زیر کمان پہرہ پر متعین تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد میدان میں سے ایک شور بلند ہوا اور معلوم ہوا کہ قریش کے لشکر نے عام حملہ کردیا ہے۔ اس وقت آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نہایت رقت کی حالت میں خدا کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے دعائیں کررہے تھے اور نہایت اضطراب کی حالت میں فرماتے تھےکہ
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَنْشُدُکَ عَھْدَکَ وَ وَعْدَکَ اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِی الْاَرْضِ۔
اے میرے خدا! اپنے وعدوں کو پورا کر۔ اے میرے مالک! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج اس میدان میں ہلاک ہو گئی تو دنیا میں تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ اوراس وقت آپؐ اس قدر کرب کی حالت میں تھے کہ کبھی آپؐ سجدہ میں گرجاتے تھے اور کبھی کھڑے ہوکر خداکو پکارتے اور آپؐ کی چادر آپؐ کے کندھوں سے گر گر پڑتی تھی اورحضرت ابوبکرؓ اسے اٹھا اٹھا کر آپؐ پر ڈال دیتے تھے۔حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ مجھے لڑتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاخیال آتا تھا تومَیں آپؐ کے سائبان کی طرف بھاگا جاتا تھا لیکن جب بھی مَیں گیامَیں نے آپؐ کو سجدہ میں گڑگڑاتے ہوئے پایا اور مَیں نے سنا کہ آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ یَا حَیُّ یَا قَیَّوْمُ، یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ۔
یعنی اے میرے زندہ خدا! اے میرے زندگی بخش آقا! حضرت ابوبکرؓ آپؐ کی اس حالت کودیکھ کر بے چین ہوئے جاتے تھے اورکبھی کبھی بے ساختہ عرض کرتے تھے یارسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔ آپؐ گھبرائیں نہیں۔ اللہ اپنے وعدے ضرور پورے کرے گا۔ مگراس سچے مقولہ کے مطابق کہ ’ہر کہ عارف تراست ترساں تر‘۔‘‘یعنی ہر کوئی جتنی معرفت رکھتاہے اتنا ہی وہ ڈرتا ہے۔ ’’آپؐ برابردعااورگریہ وزاری میں مصروف رہے۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ﷺ صفحہ 360-361)
حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’بدر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو ظہور میں آیا وہ بھی چشم بصیرت رکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لئے کافی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے دل میں اللہ تعالیٰ کا کس قدر خوف تھا۔ جنگِ بدر کے موقع پر جبکہ دشمن کے مقابلہ میں آپؐ اپنے جاںنثار بہادروں کو لے کر پڑے ہوئے تھے۔ تائیدِ الٰہی کے آثار ظاہر تھے۔ کفار نے اپنے قدم جمانے کے لئے پختہ زمین پر ڈیرے لگائے تھے اور مسلمانوں کے لئے ریت کی جگہ چھوڑی تھی لیکن خدا نے بارش بھیج کر کفار کے خیمہ گاہ میں کیچڑ ہی کیچڑ کر دیا اور مسلمانوں کی جائے قیام مضبوط ہو گئی۔ اسی طرح اَور بھی تائیداتِ سماوی ظاہر ہو رہی تھیں لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کا خوف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر ایسا غالب تھا کہ سب وعدوں اور نشانات کے باوجود اس کے غنا کو دیکھ کر گھبراتے تھے اور بےتاب ہو کر اس کے حضور میں دعا فرماتے تھے کہ مسلمانوں کو فتح دے۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ…نبی کریمؐ جنگ بدر میں گول خیمہ میں تھے اور فرماتے تھے کہ
اے میرے خدا! مَیں تجھے تیرے عہد اور وعدے یاد دلاتا ہوں اور ان کے ایفاء کا طالب ہوں۔ اے میرے رب! اگر تُو ہی (مسلمانوں کی تباہی) چاہتا ہے تو آج کے بعد تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔
اس پر حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ !بس کیجئے۔ آپؐ نے تو اپنے رب سے دعا کرنے میں حد کر دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت زرہ پہنی ہوئی تھی۔ آپؐ خیمہ سے باہر نکل آئے اور فرمایا کہ ابھی ان لشکروں کو شکست ہو جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ یہ وقت ان کے انجام کا وقت ہے اور یہ وقت ان لوگوں کے لئے نہایت سخت اور کڑوا ہے۔ اللہ اللہ! خوف خدا کا ایسا تھا کہ باوجود وعدوں کے اس کے غناء کا خیال تھا لیکن یقین بھی ایسا تھا کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی تو بآواز بلند سنا دیا کہ مَیں ڈرتا نہیں بلکہ خدا کی طرف سے مجھے علم ہو چکا ہے کہ دشمن شکست کھا کر ذلیل و خوار ہو گا اور ائمة الکفر یہیں مارے جائیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔‘‘(سیرة النبیﷺ، انوار العلوم جلد 1 صفحہ 466-467)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں : ’’قرآن شریف میں بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں پر فتح پانے کا وعدہ دیا گیا تھا مگر جب بدر کی لڑائی شروع ہوئی جو اسلام کی پہلی لڑائی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رونا اور دعا کرنا شروع کیا اور دعا کرتے کرتے یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے
اَللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ أَبَدًا
یعنی اے میرے خدا! اگر آج تُو نے اس جماعت کو (جو صرف تین سو تیرہ آدمی تھے) ہلاک کر دیا تو پھر قیامت تک کوئی تیری بندگی نہیں کرے گا۔ ان الفاظ کو جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے سنا تو عرض کی یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ اس قدر بےقرار کیوں ہوتے ہیں؟ خدا تعالیٰ نے تو آپؐ کو پختہ وعدہ دے رکھا ہے کہ مَیں فتح دوں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ سچ ہے مگر اس کی بے نیازی پر میری نظر ہے یعنی کسی وعدہ کا پورا کرنا خدا تعالیٰ پر حق واجب نہیں ہے۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21صفحہ 255-256)
جب گھمسان کی جنگ شروع ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سائباں سے نیچے تشریف لائے اور لوگوں کو قتال پر ابھارا۔ لوگ اپنی صفوں میں اللہ کا ذکر کر رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود خوب قتال کیا اور آپؐ کے پہلو بہ پہلو حضرت ابوبکر صدیقؓ قتال کرتے رہے۔
حضرت ابوبکرؓ کی بے نظیر شجاعت
سامنے آئی۔ آپؓ ہر سرکش کافر سے لڑنے کے لیے تیار تھے اگرچہ آپؓ کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ اس معرکے میں آپؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن کفار کی جانب سے لڑنے کے لیے آئے تھے اور عرب میں سب سے بڑے بہادروں میں سے ایک سمجھے جاتے تھے اور قریش میں تیر اندازی میں سب سے بڑے ماہر تھے۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو اپنے والد حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا: بدر کے دن آپ میرے سامنے واضح نشان و ہدف پر تھے لیکن مَیں آپؓ سے ہٹ گیا اور آپؓ کو قتل نہ کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا اگر تُو میرے نشانے پر ہوتا تو مَیں تجھ سے نہ ہٹتا۔ (سیدنا ابوبکر صدیقؓ، شخصیت اور کارنامے از علی محمد صلابی، صفحہ 108-109مکتبہ الفرقان پاکستان )
اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے میں شریک تھے کہ مختلف امور پر باتیں شروع ہو گئیں۔ حضرت عبدالرحمٰن جو حضرت ابوبکررضی اللہ کے بڑے بیٹے تھے اور جو بعد میں مسلمان ہوئے بدر یا احد کی جنگ میں کفار کی طرف سے لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔انہوں نے کھا نا کھاتے ہوئے باتوں باتوں میں کہا کہ ابا جان اس جنگ میں جب فلاں جگہ سے آپؓ گذرے تھے تو اس وقت میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا اور میں اگر چاہتا تو حملہ کر کے آپؓ کو ہلاک کر سکتا تھا مگر میں نے کہا اپنے باپ کو کیا مارنا ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا
خدا نے تجھے ایمان نصیب کرنا تھا اس لئے تُو بچ گیا
ورنہ خدا کی قسم! اگر مَیں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ 588)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غزوۂ بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ اور اس میں حضرت ابوبکر ؓکی رائے
کیا تھی؟ اور اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ کی رائےکے مطابق ہی عمل کیا گیا۔ اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کے متعلق مشورہ کیا کہ ان کے متعلق کیا کرنا چاہئے۔ عرب میں بالعموم قیدیوں کو قتل کردینے یامستقل طورپر غلام بنالینے کا دستور تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت پر یہ بات سخت ناگوار گزرتی تھی اور پھر ابھی تک اس بارہ میں کوئی الٰہی احکام بھی نازل نہیں ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میری رائے میں تو ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ آخر یہ لوگ اپنے ہی بھائی بند ہیں اور کیا تعجب کہ کل کوانہی میں سے فدایانِ اسلام پیدا ہو جائیں۔ مگر حضرت عمرؓ نے اس رائے کی مخالفت کی اور کہاکہ دین کے معاملہ میں رشتہ داری کاکوئی پاس نہیں ہونا چاہئے اوریہ لوگ اپنے افعال سے قتل کے مستحق ہوچکے ہیں۔ پس میری رائے میں ان سب کو قتل کردینا چاہئے بلکہ حکم دیا جاوے کہ مسلمان خود اپنے ہاتھ سے اپنے اپنے رشتہ داروں کوقتل کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فطری رحم سے متاثر ہو کر حضرت ابوبکرؓ کی رائے کوپسند فرمایا اور قتل کے خلاف فیصلہ کیا اورحکم دیا کہ جو مشرکین اپنا فدیہ وغیرہ ادا کر دیں انہیں چھوڑ دیا جاوے۔ چنانچہ بعد میں اسی کے مطابق الٰہی حکم نازل ہوا۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ﷺ صفحہ 367-368)
مدینہ میں ایک دفعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ بیمار ہو گئے۔
اس بارے میں حضرت عائشہ ؓکی ایک روایت ہے۔ آپؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر ؓاور حضرت بلالؓ کو بخار ہو گیا۔ کہتی تھیں میں ان دونوں کے پاس گئی اور پوچھا۔ ابا! آپؓ اپنے تئیں کیسا پاتے ہیں؟ اور بلال تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو؟ آپؓ کہتی ہیں کہ جب حضرت ابوبکرؓ کو بخار ہوتا تویہ شعر پڑھتے
کُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِیْ أَہْلِہٖ
وَالْمَوْتُ أَدْنٰى مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہٖ
ہر شخص جو اپنے گھر والوں میں صبح کو اٹھتا ہے تو اسے سلامتی کی دعائیں دی جاتی ہیں اور حالت یہ ہے کہ موت اس کی جوتی کے تسمہ سے نزدیک تر ہوتی ہے۔ اور حضرت بلالؓ جب ان کا بخار اتر جاتا تو بلند آواز سے رو کر بعض شعر پڑھتے تھے جس میں مکہ کی ارد گرد کی آبادیوں کا ذکر ہوتا اور اس کو یاد کر رہے ہوتے۔ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور سارا احوال آپؐ سے بیان کیا یعنی حضرت ابوبکرؓ نے کیا کہا اور حضرت بلال ؓکیا کہتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! مدینہ بھی ہمیں ایسا ہی پیارا بنا دے جیسا کہ ہمیں مکہ پیارا ہے یا اس سے بھی بڑھ کر اور اس کو صحت بخش مقام بنا اور ہمارے لیے اس کے صاع میں اور مُد میں برکت دے۔ یہ مُد اور صاع وزن کے پیمانے ہیں اور اس کے بخار کو یہاں سے لے جا کر جُحْفَہ کی طرف منتقل کر دے۔ جُحْفَہ مکہ سے مدینہ کی جانب بیاسی میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے۔(صحیح البخاری كتاب مناقب الأنصار بَابُ مَقْدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ الْمَدِيْنَةَ،حدیث: 3926)(شَرْحُ الزَّرْقَانِیْ جلد 2 صفحہ 172 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
غزوۂ احد کے بارے میں روایات ہیں
کہ یہ غزوہ شوال تین ہجری بمطابق 624ء میں مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان ہوا۔ تین ہجری کے آخر پر قریش مکہ اور ان کے حلیف قبیلوں پر مشتمل لشکر کے مدینہ پر چڑھائی کی اطلاع ملی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کر کے قریش کے حملہ کے بارے میں آگاہ کر کے ان سے مشورہ مانگا کہ آیا مدینہ میں ہی رہ کر ان کا مقابلہ کیاجائے یا باہرنکلا جائے۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ صفحہ 483-484)
اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کوجمع کرکے ان سے قریش کے اس حملہ کے متعلق مشورہ مانگا کہ آیا مدینہ میں ہی ٹھہرا جائے یاباہر نکل کر مقابلہ کیا جاوے۔ مشورہ سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے حملے اوران کے خونی ارادوں کاذکر فرمایا اورفرمایا کہ آج رات مَیں نے خواب میں ایک گائے دیکھی ہے اورنیز مَیں نے دیکھا کہ میری تلوار کاسر ٹوٹ گیا ہے۔ اورپھر میں نے دیکھا کہ وہ گائے ذبح کی جارہی ہے اورمیں نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط اور محفوظ زرہ کے اندر ڈالا ہے اورایک روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک مینڈھا ہے جس کی پیٹھ پر میں سوار ہوں۔ صحابہ نے دریافت کیا یارسول اللہ ؐ! آپؐ نے اس خواب کی کیا تعبیر فرمائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ گائے کے ذبح ہونے سے تو مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے صحابہ میں سے بعض کاشہید ہونا مراد ہے اورمیری تلوار کے کنارے کے ٹوٹنے سے میرے عزیزوں میں سے کسی کی شہادت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ یا شاید خود مجھے اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے اورزرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حملہ کے مقابلہ کے لیے ہمارا مدینہ کے اندر ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے اور مینڈھے پرسوار ہونے والے خواب کی آپ نے یہ تاویل فرمائی کہ اس سے کفار کے لشکر کاسردار یعنی علمبردار مراد ہے جو اِن شاء اللہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارا جائے گا۔
اس کے بعد آپ نے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا کہ موجودہ صورتحال میں کیا کرنا چاہیے؟ بعض اکابر صحابہ نے حالات کے اونچ نیچ کو سوچ کراورشاید کسی قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب سے متاثر ہو کر یہ رائے دی کہ مدینہ میں ہی ٹھہر کر مقابلہ کرنا مناسب ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی رائے کوپسند فرمایا اورکہا کہ بہتر یہی معلوم ہوتاہے کہ ہم مدینہ کے اندر رہ کر اس کامقابلہ کریں لیکن اکثر صحابہ نے خصوصاً نوجوانوں نے، جو بدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے اوراپنی شہادت سے خدمتِ دین کا موقع حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھے، بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ شہر سے باہر نکل کرکھلے میدان میں مقابلہ کرنا چاہیے۔ ان لوگوں نے اس قدر اصرار کے ساتھ اپنی رائے پیش کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جوش کو دیکھ کران کی بات مان لی اورفیصلہ فرمایا کہ ہم کھلے میدان میں نکل کر کفار کامقابلہ کریں گے اورپھر جمعہ کی نماز کے بعد آپؐ نے مسلمانوں میں عام تحریک فرمائی کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے اس غزوہ میں شامل ہو کر ثواب حاصل کریں۔ اس کے بعد آپؐ اندرونِ خانہ تشریف لے گئے جہاں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی مدد سے آپؐ نے عمامہ باندھا اورلباس پہنا اورپھر ہتھیار لگا کر اللہ کا نام لیتے ہوئے باہر تشریف لے آئے لیکن اتنے عرصہ میں یہ جو نوجوان تھے ان کو بعض صحابہ کے کہنے پر اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پراصرار نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ جب یہ احساس ان کو ہوا تو اکثر ان میں سے پشیمانی کی طرف مائل تھے۔ جب ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوہتھیار لگائے اور دوہری زرہ اور خود وغیرہ پہنے ہوئے تشریف لاتے دیکھا توان کی ندامت اَور بھی زیادہ ہو گئی اور انہوں نے قریباً یک زبان ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہؐ! ہم سے غلطی ہو گئی کہ ہم نے آپؐ کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پر اصرار کیا۔ آپؐ جس طرح مناسب خیال فرماتے ہیں اسی طرح کارروائی فرمائیں۔ ان شاءاللہ اسی میں برکت ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
خدا کے نبی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگاکرپھر اسے اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے۔ پس اب اللہ کا نام لے کر چلو اوراگرتم نے صبر سے کام لیا تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہوگی۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ صفحہ 484تا486)
غزوۂ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایاکہ کون ہے جو اس کا حق ادا کرے؟ اس موقع پر جن اصحاب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ تلوار ان کو عنایت کی جائے ان میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔(شرح زرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد 2 صفحہ 404 غزوۃ احد دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کا ذکر یوں فرمایا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا کون ہے جو اسے لے کر اس کا حق ادا کرے۔ بہت سے صحابہ نے اس فخر کی خواہش میں اپنے ہاتھ پھیلائے۔ جن میں حضرت عمرؓ اور زبیرؓ بلکہ روایات کی رو سے حضرت ابوبکرؓ وحضرت علیؓ بھی شامل تھے۔ مگر آپؐ نے اپنا ہاتھ روکے رکھا اور یہی فرماتے گئے۔ کوئی ہے جو اس کا حق ادا کرے؟ آخر اَبُودُجَانہ انصاریؓ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اورعرض کیا۔ یارسول اللہؐ! مجھے عنایت فرمایئے۔ آپؐ نے یہ تلوار انہیں دے دی۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ؐ صفحہ489)
غزوہؐ احد میں جب کفار نے پلٹ کر حملہ کیا اور مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی یہ خبر مشہور ہوئی کہ آپؐ شہیدہو گئے ہیں۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کے اعلان اور کچھ لوگوں کے منتشر ہو جانے کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نگاہ پڑی۔ ان کا بیان ہے کہ مَیں نے خود کے درمیان میں سے آپؐ کی چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر بلند آواز سے پکارا اے مسلمانو! خوش ہو جاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ خاموش رہو۔ جب مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہمراہ گھاٹی کی طرف روانہ ہوئے۔ آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر ؓ،حضرت علیؓ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ،حضرت زبیر بن عَوَّامؓ اور حضرت حَارِثْ بِن صِمَّہؓ وغیرہ صحابہ کرامؓ تھے۔(ماخوذ از تاریخ الطبری لابی جعفر محمد بن جریر طبری غزوہ احد جلد 3 صفحہ 70دار الفکر بیروت 2002ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے موت پر بیعت لی
جب بظاہر مسلمانوں کی پسپائی ہوئی تھی تو وہ ثابت قدم رہے اور اپنی جان پر کھیل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے لگے یہاں تک کہ ان میں سے کچھ شہید ہو گئے۔ ان بیعت کرنے والے خوش نصیبوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمرؓ ، حضرت طلحہ ؓ،حضرت زبیر ؓ،حضرت سعدؓ ، حضرت سہل بن حُنَیفؓ اور حضرت اَبُودُجَانہؓ شامل تھے۔(الاصابہ جزء 3 صفحہ 431دارالکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
غزوۂ احد کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مزید لکھا ہے کہ ’’جوصحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع تھے انہوں نے جو جان نثاریاں دکھائیں تاریخ ان کی نظیر لانے سے عاجز ہے۔ یہ لوگ پروانوں کی طرح آپؐ کے ارد گرد گھومتے تھے اورآپؐ کی خاطراپنی جان پرکھیل رہے تھے۔ جووار بھی پڑتا تھا صحابہ اپنے اوپر لیتے تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بچاتے تھے اورساتھ ہی دشمن پربھی وار کرتے جاتے تھے۔ حضرت علیؓ اور زبیرؓ نے بے تحاشا دشمن پر حملے کئے اور ان کی صفوں کو دھکیل دھکیل دیا۔ ابوطلحہ انصاریؓ نے تیر چلاتے چلاتے تین کمانیں توڑیں اوردشمن کے تیروں کے مقابل پرسینہ سپر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن کواپنی ڈھال سے چھپایا۔ سعد بن وقاصؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تیرپکڑاتے جاتے تھے اور سعدؓ یہ تیر دشمن پربے تحاشا چلاتے جاتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ نے سعدؓ سے فرمایا۔ تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ برابر تیر چلاتے جاؤ۔ سعدؓ اپنی آخری عمر تک آپؐ کے ان الفاظ کونہایت فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے۔ اَبُودُجَانہؓ نے بڑی دیرتک آپؓ کے جسم کواپنے جسم سے چھپائے رکھا اورجو تیر یا پتھر آتا تھا اسے اپنے جسم پرلیتے تھے حتی کہ ان کا بدن تیروں سے چھلنی ہو گیا مگر انہوں نے اف تک نہیں کی تاایسا نہ ہوکہ ان کے بدن میں حرکت پیدا ہونے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کاکوئی حصہ ننگا ہو جاوے اور آپؐ کو کوئی تیر آ لگے۔ طلحہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبچانے کے لئے کئی واراپنے بدن پرلئے اور اسی کوشش میں ان کا ہاتھ شل ہو کر ہمیشہ کے لئے بیکار ہو گیا مگریہ چند گنتی کے جاں نثار اس سیلاب عظیم کے سامنے کب تک ٹھہر سکتے تھے جو ہر لحظہ مہیب موجوں کی طرح چاروں طرف سے بڑھتا چلاآتا تھا۔ دشمن کے ہرحملہ کی ہرلہر مسلمانوں کوکہیں کا کہیں بہا کرلے جاتی تھی مگرجب ذرا زور تھمتا تھا مسلمان بیچارے لڑتے بھڑتے پھر اپنے محبوب آقا کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔ بعض اوقات توایسا خطرناک حملہ ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عملاً اکیلے رہ جاتے تھے۔ چنانچہ ایک وقت ایسا آیا کہ آپؐ کے اردگرد صرف بارہ آدمی رہ گئے اور ایک وقت ایسا تھا کہ آپؐ کے ساتھ صرف دو آدمی ہی رہ گئے۔ ان جان نثاروں میں حضرت ابوبکرؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعدؓ بن وقاص، اَبُودُجَانہؓ انصاری، سعد ؓبن معاذ اور طلحہؓ انصاری کے نام خاص طورپر مذکور ہوئے ہیں۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ؐ صفحہ495-496)
غزوۂ احد کے دوران جب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے تو اس وقت کا جو نقشہ
حضرت ابوبکرؓ نے کھینچا ہے اس کے متعلق حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ جب یومِ احد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ دن سارے کا سارا طلحہؓ کا تھا۔ پھراس کی تفصیل بتاتے کہ مَیں ان لوگوں میں سے تھا جو احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس لوٹے تھے تو مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپؐ کی حفاظت کرتے ہوئے لڑ رہا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپؓ نے فرمایا وہ آپؐ کو بچا رہا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا کاش! طلحہ ہو۔ مجھ سے جو موقع رہ گیا سو رہ گیا اور مَیں نے دل میں کہا کہ میری قوم میں سے کوئی شخص ہو تو یہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس وقت یہ سوچا۔ کہتے ہیں اور میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک شخص تھا جس کو مَیں نہیں پہچان سکا حالانکہ مَیں اس شخص کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب تھا اور وہ اتنا تیز چل رہا تھا کہ مَیں اتنا تیز نہ چل سکتا تھا تو دیکھا کہ وہ شخص ابوعبیدہ بن جراحؓ تھے۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپؐ کا رَبَاعِیدانت یعنی سامنے والے دو دانتوں اور نوکیلے دانت کے درمیان والا دانت ٹوٹ چکا تھا اور چہرہ زخمی تھا۔ آپؐ کے رخسار مبارک میں خود کی کڑیاں دھنس چکی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں اپنے ساتھی کی مدد کرو۔ اس سے آپ کی مراد طلحہ تھی اور ان کا خون بہت بہ رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے یہ کہ مجھے دیکھو فرمایا کہ طلحہ کو جاکے دیکھو۔ ہم نے ان کو رہنے دیا اورمیں آگے بڑھا تا خود کی کڑیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک سے نکال سکوں۔ اس پر حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا کہ میں آپؓ کو اپنے حق کی قسم دیتا ہوں کہ آپؓ اسے میرے لیے چھوڑ دیں۔ پس میں نے ان کو چھوڑ دیا اور ابوعبیدہؓ نے ناپسند کیا کہ ان کڑیوں کو ہاتھ سے کھینچ کر نکالیں اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچے تو انہوں نے ان کڑیوں کو اپنے منہ سے نکالنے کی کوشش کی اور ایک کڑی کو نکالا تو کڑی کے ساتھ ان کا اپنا سامنے کا دانت بھی ٹوٹ گیا۔ پھر دوسری کڑی نکالنے کے لیے میں آگے بڑھا کہ میں بھی ایسا ہی کروں جیسا انہوں نے کیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ مَیں بھی اسی طرح دوسری کڑی نکالنے کی کوشش کرتا ہوں تو حضرت ابوعبیدہؓ نے پھر کہا کہ مَیں آپؓ کو اپنے حق کی قسم دیتا ہوں کہ آپؓ اسے میرے لیے چھوڑ دیں۔ انہوں نے حضرت ابوبکر ؓکو کہا تو پھر حضرت ابوبکرؓ پیچھے ہٹ گئے تو انہوں نے پھر ویسا ہی کیا جیسا پہلے کیا تھا تو ابوعبیدہ کا سامنے کا دوسرا دانت بھی کڑی کے ساتھ ٹوٹ گیا۔ پس
ابوعبیدہ سامنے کے ٹوٹے ہوئے دانتوں والے لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔
پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاج معالجہ سے فارغ ہو کر طلحہ کے پاس آئے۔ وہ ایک گڑھے میں تھے تو دیکھا کہ ان کے جسم پر نیزے تلوار اور تیروں کے کم و بیش ستر زخم تھے اور ان کی انگلی بھی کٹی ہوئی تھی تو ہم نے ان کی مرہم پٹی کی۔(سبل الہدیٰ جلد 4 صفحہ 199-200 غزوہ احد۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)(لغات الحدیث زیر لفظ رباعی نعمانی کتب خانہ لاہور 2005ء)
حضرت اَبُوعُبَیْدہؓ کے علاوہ حضرت عُقْبَہ بن وَہْبؓ اور حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں بھی روایت میں ملتا ہے کہ انہوں نے یہ کڑیاں نکالیں۔(شرح زرقانی جلد 2صفحہ 425غزوہ احد۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)لیکن بہرحال پہلی روایت زیادہ بہتر ہے۔
غزوۂ احد کے دن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ پہاڑ پر چڑھ گئے تو کفار بھی آپؐ کے پیچھے آئے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ابوسفیان نے تین بار پکار کر کہا :کیا ان لوگوں میں محمد ہے (صلی اللہ علیہ وسلم )؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اسے جواب دینے سے روک دیا۔ پھر اس نے تین بار پکار کر پوچھا :کیا لوگوں میں ابوقحافہ کا بیٹا ہے یعنی ابوبکر؟ پھر تین بار پوچھا :کیا ان لوگوں میں ابن خطاب یعنی عمر ہے؟ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور کہنے لگا یہ جو تھے وہ تو مارے گئے۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بولے اے اللہ کے دشمن! بخدا تم نے جھوٹ کہا ہے۔ جن کا تم نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں۔ جو بات ناگوار ہے اس میں سے ابھی تیرے لیے بہت کچھ باقی ہے۔(صحیح بخاری كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالِاخْتِلاَفِ فِي الحَرْبِ، وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ حدیث نمبر 3039)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہو کر بےہوش ہونے اور اس کے بعد کے واقعہ کا ذکر
کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آ گیا اور صحابہ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دیئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہو جائیں۔ بھاگا ہو الشکر پھر جمع ہونا شروع ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے۔ جب دامنِ کوہ میں بچا کھچا لشکر کھڑا تھا تو ابوسفیان نے بڑے زور سے آواز دی اور کہا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو مار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی بات کا جواب نہ دیاتا ایسا نہ ہو دشمن حقیقت حال سے واقف ہوکر حملہ کر دے اور زخمی مسلمان پھر دوبارہ دشمن کے حملہ کا شکار ہو جائیں۔ جب اِسلامی لشکر سے اِس بات کا کوئی جواب نہ ملا تو ابو سفیان کو یقین ہو گیا کہ اس کا خیال درست ہے اور اس نے بڑے زور سے آواز دے کر کہا ہم نے ابوبکرؓ کو بھی مار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ کو بھی حکم فرمایا کہ کوئی جواب نہ دیں۔ پھر ابو سفیان نے آواز دی ہم نے عمرؓ کو بھی مار دیا۔ تب عمرؓ جو بہت جوشیلے آدمی تھے انہوں نے اس کے جواب میں یہ کہنا چاہا کہ ہم لوگ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور تمہارے مقابلہ کے لئے تیار ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ مسلمانوں کو تکلیف میں مت ڈالو اور خاموش رہو۔ اب کفار کو یقین ہو گیا کہ اِسلام کے بانی کو بھی اور ان کے دائیں بائیں بازو کو بھی ہم نے مار دیا ہے۔ اِس پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے خوشی سے نعرہ لگایا
اُعْلُ ھُبَل۔ اُعْلُ ھُبَل۔
ہمارے معزز بت ہبل کی شان بلند ہو کہ اس نے آج اِسلام کا خاتمہ کر دیا ہے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’وہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی موت کے اعلان پر، ابوبکرؓ کی موت کے اعلان پر اور عمرؓ کی موت کے اعلان پر خاموشی کی نصیحت فرما رہے تھے تا ایسا نہ ہو کہ زخمی مسلمانوں پر پھر کفار کا لشکرلوٹ کر حملہ کر دے اور مٹھی بھر مسلمان اس کے ہاتھوں شہید ہو جائیں اب جبکہ خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں مارا گیا تو آپؐ کی روح بےتاب ہوگئی اور آپؐ نے نہایت جوش سے صحابہؓ کی طر ف دیکھ کر فرمایا تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہ نے کہا یا رسول اللہؐ! ہم کیا کہیں؟ فرمایا کہو
اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۔ اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۔
تم جھوٹ بولتے ہوکہ ہبل کی شان بلند ہوئی‘‘ یہ جھوٹ ہے تمہارا۔’’اللہ وحدہ لاشرِیک ہی معزز ہے اور اس کی شان بالا ہے اوراس طرح آپؐ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر دشمنوں تک پہنچا دی۔ اِس دلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا اثر کفار کے لشکر پر اتنا گہرا پڑ اکہ باوجود اِس کے کہ ان کی امیدیں اس جواب سے خاک میں مل گئیں اور باوجود اس کے کہ ان کے سامنے مٹھی بھر زخمی مسلمان کھڑے ہوئے تھے جن پر حملہ کر کے ان کو مار دینا مادی قوانین کے لحاظ سے بالکل ممکن تھا وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکے اور جس قدر فتح ان کو نصیب ہوئی تھی اسی کی خوشیاں مناتے ہوئے مکہ کو واپس چلے گئے۔‘‘(دیباچہ تفسیرالقرآن، انوارالعلوم جلد20صفحہ 52تا 253)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آیت
اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ ؕۛ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَ اتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ۔(آل عمران:173)
صحابہ سے متعلق ہے۔ کہتی ہیں کہ یہ صحابہ سے متعلق ہے یعنی جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی بات مانی بعد اس کے کہ ان کو زخم پہنچے ان میں جنہوں نے نیک کام کیے اور تقویٰ اختیار کیا ان کے لیے بہت بڑا اجر ہو گا۔ حضرت عائشہؓ نے عروہ سے کہا اے میرے بھانجے! تیرے آباء زبیرؓ اور حضرت ابوبکرؓ بھی انہی لوگوں میں سے تھے کہ جب جنگِ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے اور مشرکین پلٹ گئے تو آپؐ کو اندیشہ ہوا کہیں وہ پھر نہ لوٹ آئیں۔ آپؐ نے فرمایا ان کا تعاقب کون کرے گا؟ تو ان میں سے ستّر آدمیوں نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ عروہ کہتے تھے ان میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت زبیرؓ بھی تھے۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب الذین استجابوا للّٰہ و الرسول … حدیث 4077)
اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں یہ ایک عجیب بات ہے کہ باوجود اس کے کہ قریش کواس موقع پر مسلمانوں کے خلاف غلبہ حاصل ہوا تھا اور ظاہری اسباب کے لحاظ سے وہ اگر چاہتے تواپنی اس فتح سے فائدہ اٹھا سکتے تھے اور مدینہ پر حملہ آور ہونے کا راستہ توبہرحال ان کے لیے کھلا تھا مگر خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ قریش کے دل باوجود اس فتح کے اندر ہی اندر مرعوب تھے اورانہوں نے اسی غلبہ کوغنیمت جانتے ہوئے جو احد کے میدان میں ان کوحاصل ہوا تھا مکہ کو جلدی جلدی لوٹ جانا ہی مناسب سمجھا مگر بایں ہمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید احتیاط کے خیال سے فوراً ستّر صحابہ کی ایک جماعت جس میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت زبیرؓ بھی شامل تھے تیار کرکے لشکر قریش کے پیچھے روانہ کر دی۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ عام مورخین یوں بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے حضرت علیؓ یابعض روایات کے مطابق سعد بن وقاصؓ کو ان کے پیچھے بھجوایا اوران سے فرمایا کہ ان کاپتہ لاؤ کہ لشکر قریش مدینہ پر حملہ کرنے کی نیت تو نہیں رکھتا؟ آپؐ نے ان سے فرمایا کہ اگر قریش اونٹوں پر سوار ہوں اور گھوڑوں کو خالی چلا رہے ہوں تو سمجھناکہ وہ مکہ کی طرف واپس جا رہے ہیں۔ مدینہ پرحملہ آور ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے اوراگر وہ گھوڑوں پر سوار ہوں تو سمجھنا کہ ان کی نیت بخیر نہیں اور آپ نے ان کوتاکید فرمائی کہ اگر قریش کالشکر مدینہ کا رخ کرے تو فوراً آپؐ کواطلاع دی جاوے اور آپؐ نے بڑے جوش کی حالت میں فرمایا کہ
اگر قریش نے اس وقت مدینہ پرحملہ کیا تو
خدا کی قَسم! ہم ان کا مقابلہ کر کے انہیں اس حملہ کامزا چکھا دیں گے۔
بہرحال یہ جو وفد گیا تھا جلد ہی یہ خبر لے کر واپس آگیا کہ قریش کا لشکر مکہ کی طرف جارہا ہے۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ﷺ صفحہ 499-500)
یہ ذکر ابھی ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی چلے گا۔
(الفضل انٹرنیشنل 11؍فروری 2022ء صفحہ5تا10)
خدا کے نبی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگاکرپھر اسے اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے۔ پس اب اللہ کا نام لے کر چلو اوراگرتم نے صبر سے کام لیا تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہوگی۔(الحدیث)
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ۔
مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےسب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی طرف توجہ فرمائی۔
تاریخ میں یہ ذکر ملتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صحابہ میں دو مرتبہ مؤاخات قائم فرمائی۔ ایک دفعہ ہجرت سے پہلے مکّہ میں اور دوسری دفعہ مدینہ میں۔
غزوۂ بدر کے لیے روانگی کے وقت صحابہ کے پاس ستر اونٹ تھے اس لیے ایک ایک اونٹ تین تین آدمیوں کے لیے مقرر کیا اور ہر ایک باری باری سوار ہوتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔
حضرت ابوبکرؓ سائبان میں ننگی تلوار سونت کر آپؐ کے پاس حفاظت کے لئے کھڑے رہے ’’اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رات بھر خدا کے حضورگریہ و زاری سے دعائیں کیں اور لکھا ہے کہ سارے لشکر میں صرف آپؐ ہی تھے جو رات بھر جاگے باقی سب لوگ باری باری اپنی نیند سولئے۔‘‘
فرمودہ 21؍جنوری2022ء بمطابق 21؍صلح1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔