رمضان المبارک: رحمان کے بندے بنو
خطبہ جمعہ 8؍ اپریل 2022ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ(البقرۃ:187)
اس آیت کا ترجمہ ہے: اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً مَیں قریب ہوں۔ مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے
رمضان کے مہینے
سے ہم گزر رہے ہیں۔ یہ مہینہ دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں خاص رحمت سے دعاؤں کو قبول کرنے کا اعلان فرما دیا ہے، اپنے فیضِ خاص کا چشمہ جاری فرما دیا ہے کیونکہ اس میں انسان اپنا ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ حتیٰ کہ کھانا پینا بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور ایک مقررہ وقت میں کرتا ہے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنت کے دروازے اس مہینے میں کھول دیے جاتے ہیں اوردوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اس مہینے میں شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے۔(صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل شھر رمضان حدیث 2495)
پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان ہمارے لیے مہیا فرما دیتا ہے جس میں ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا سامان کر سکتے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہو گی کہ ایسے حالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے میسر آنے کے بعد بھی ہم اس سے فیض نہ پا سکیں۔
کیا دنیا میں رمضان کے مہینے میں زانی، ڈاکو، چور، فاسق ، فاجر اپنے کام نہیں کرتے؟ کرتے ہیں اور یقیناً کرتے ہیں۔ اگر ہر ایک کا شیطان جکڑ دیا جائے تو پھر وہ یہ شیطانی کام کیوں کریں۔ یہ نصیحت ہے مومنوں کو، اُن لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ کا قرب پانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینے میں اس لیے کہ تم میرے کہنے سے اپنے آپ کو جائز کام سے بھی روک رہے ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ عام حالات میں جو شیطان کو کھلی چھٹی ہے جیسا کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے مہلت مانگی تھی کہ دائیں بائیں آگے پیچھے سے انسان پر حملہ کرے اور اسے ورغلا کر اپنے پیچھے چلائے اسے آج میں نے ان لوگوں کے لیے جکڑ کر باندھ دیا ہے یا رمضان کے مہینے میں اسے باندھ دیا ہے اور ان لوگوں کو مکمل اپنی حفاظت کے حصار میں لے لیا ہے جو میری خاطر روزہ رکھ رہے ہیں، اپنے کھانے پینے کو کم کر رہے ہیں، اپنی روحانیت میں بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا ہے کہ مادی خوراک کو کم کر کے روحانی خوراک میں اضافہ کر رہے ہیں یا کوشش کر رہے ہیں اور یہی رمضان کی روح ہے، روزے کی روح ہے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد9 صفحہ123)
اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے شیطان کو مکمل طور پر جکڑ دیتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ روزےدار کی جزا میں خود ہو جاتا ہوں۔(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللّٰہ تعالیٰ یریدون ان یبدلوا کلام اللّٰہ حدیث7492)کتنی بڑی خوشخبری ہے۔ پس ہمیں اس سے فیض پانے کی کوشش کرنی چاہیے اور جنت کے دروازے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے کھولے ہیں ان میں ہر دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس بات کے نیچے آنے والے بن جائیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے تمہارے بھوکا پیاسا رہنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر تم نے صبح سحری کھا لی اور شام کو افطاری کھا لی اور رات اور دن میں جو نیکیاں کرنے کی تم سے توقع کی جاتی تھی وہ نہ کیںتو یہ بھوکا پیاسا رہنا، سارا دن کچھ کھانا پینا نہ کرنا نہ تمہیں کوئی فائدہ دے گا نہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے اس بھوکا پیاسا رہنے سے کوئی غرض ہے۔ یہ پیغام ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ملا۔(صحیح البخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم حدیث1903)
پس ہمیں اس روح کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے کی ضرورت ہے جو رمضان کا مقصد ہے۔
یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے یہ رمضان کی فرضیت اور احکامات اور روزوں کی اہمیت کے بارے میں بیان کی جانے والی آیات کے بیچ میں آنے والی آیت ہے اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ دعاؤں کی قبولیت کے طریق یا کِن لوگوں کی دعا قبول ہوتی ہے ان کے بارے میں بیان فرما رہا ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں بیان فرما رہا ہے جو عبادالرحمٰن ہیں، عبادالرحمٰن بننا چاہتے ہیں، شیطان کے چنگل سے نکلنا چاہتے ہیں، اپنی دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شروع ہی اس طرح فرمایا کہ جب میرے بندے اے رسول! تجھ سے سوال کریں اور پوچھیں کہ ہمارا خدا کہاں ہے؟ ایک عاشق کی طرح بے چین ہو کر سوال کریں، اللہ تعالیٰ کو پانے کے لیے ہر کوشش کرنے کا بے چینی سے اظہار کریں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان سے کہہ دو گھبراؤ نہیں۔ مَیں تمہارے قریب ہی ہوں۔ پس
پہلی بات یا شرط تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پانے کے لیےاللہ تعالیٰ کا بندہ بننے کی لگا دی۔
اگر انسان خدا تعالیٰ کا بندہ بننے کا حق ادا کرنے والا بن جائے تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اس کی پکار بھی سنتا ہوں، اس کے شیطان کو جکڑ دیتا ہوں۔ جب بھی شیطان حملہ آور ہو میں مدد کے لیے آ جاتا ہوں۔ صرف سال کا ایک مہینہ نہیں جو رمضان کا مہینہ ہے بلکہ ہمیشہ ایسے شخص کو شیطان کے حملے سے بچاؤں گا بشرطیکہ میری بندگی کا حق ادا کرو، میرے حکموں کو مستقل مانو۔ صرف رمضان کے مہینے میں ہی نیکیاں نہ بجا لاؤ بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرو۔ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرو، اپنے ایمان کو پختہ کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری تمام صفات پر کامل یقین اور ایمان رکھو۔ پھر دیکھو کس طرح قبولیتِ دعا کے نظارے بھی تم دیکھتے ہو اور اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالنے والے ہی حقیقی رشد اور ہدایت پانے والے ہیں۔ پس
خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس رمضان کواپنی قبولیت دعا کا ہمیشہ ذریعہ بنا لیں۔
اللہ تعالیٰ کے حقیقی عبد بننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے ہوں۔ اپنے ایمان کو کامل کرنے والے ہوں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے جنہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے راستے اور دعا کی قبولیت کے راستے اور طریق دعا دکھائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں ’’اللہ جل شانہ نے جو دروازہ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لئے کھولا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دعا۔ جب کوئی شخص بکا وزاری سے اس دروازہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ مولائے کریم اس کو پاکیزگی وطہارت کی چادر پہنا دیتا ہے اور اپنی عظمت کا غلبہ اس پر اس قدر کر دیتا ہے کہ بے جا کاموں اور ناکارہ حرکتوں سے وہ کوسوں بھاگ جاتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد5صفحہ438ایڈیشن 1984ء)
پھر اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ
قبولیت دعا کے لیے کیسی حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے،
کیا لوازمات ہیں جو قبولیت دعا کے لیے ضروری ہیں، اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کے لیے ضروری ہیں آپ فرماتے ہیں کہ ’’یہ سچی بات ہے کہ
جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا وہ دعا نہیں کرتا بلکہ خداتعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے۔
اس لیے دعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے۔ اور یہی معنی اس دعا‘‘اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ’’کے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’پہلے لازم ہے کہ انسان اپنے اعتقاد، اعمال میں نظر کرے۔‘‘ اپنے اعتقاد پہ، اپنے اعمال پہ نظر کرے ’’کیونکہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ اصلاح اسباب کے پیرایہ میں ہوتی ہے۔ وہ کوئی نہ کوئی ایسا سبب پید اکردیتا ہے کہ جو اصلاح کا موجب ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ اس مقام پر ذرا خاص غور کریں جو کہتے ہیں کہ جب دعا ہوئی تو اسباب کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ دعا کر لی اس لیے عمل کی ضرورت کوئی نہیں، سامانوں کی ضرورت کوئی نہیں، کوشش کی ضرورت کوئی نہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’وہ نادان سوچیں کہ دعا بجائے خود ایک مخفی سبب ہے جو دوسرے اسباب کو پیداکردیتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد1 صفحہ124ایڈیشن1984ء)دعا تو خود ایک سبب ہے، چھپا ہوا سبب ہے، اور دوسرے سبب کو، اسباب کو پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے۔
پس قبولیت دعا کے لیے، اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان کوشش کر کے اللہ تعالیٰ سے ایک تو اس کا فضل مانگے اور فضل یہ ہے کہ بکا و زاری کر کے اس کے بندوں میں شامل ہو اور اس کے لیے کوشش کرے۔ یہ دعا کرے کہ مجھے اپنے بندوں میں شامل کر لے۔ ان بندوں میں جو اعتقاد اور اعمال کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے خالص بندے ہیں۔ وہ دعا کرنے سے پہلے اپنے عمل کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے اور ان بندوں میں شامل ہو جن کے ایمان غیرمتزلزل ہیں اور پکے اور مضبوط ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میں یہ طاقت ہے کہ وہ مٹی کے ذرّے کو بھی سونا بنا سکتا ہے۔ وہ یہ طاقت رکھتا ہے کہ انتہائی بگڑے ہوؤں کو بھی اپنے عباد میں شامل کر لے۔ ان کو اپنے راستے دکھائے اور پھر وہ خدا تعالیٰ کی طرف چلنے والے راستوں پر چلنے والے بن جائیں۔ اس مضمون کو بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ میرے راستے پر چلنے کے لیے جہاد کرنے والوں کو میں اپنا راستہ دکھاتا ہوں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70) یعنی وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ضرور ان کو اپنے راستے دکھاتے ہیں۔ پس یہ رمضان کا مہینہ خاص طور پر اس جہاد کا مہینہ ہے۔ اس میں
ہمیں بھرپور کوشش کرنی چاہیے، ایک جہاد کرنا چاہیے کہ ہم خدا تعالیٰ کے اُن بندوں میں شامل ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ کے عباد میں شامل ہیں،
اُن لوگوں میں شامل ہو جائیں جن کے اللہ تعالیٰ قریب ہے۔ اُن لوگوں میں شا مل ہو جائیں جن کی دعائیں اللہ تعالیٰ سنتا ہے۔ اُن لوگوں میں شامل ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے لوگ ہیں۔ اُن لوگوں میں شامل ہو جائیں جن کو اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر کامل ایمان اور یقین ہے۔ اُن لوگوں میں شامل ہو جائیں جو حقیقی ہدایت یافتہ ہیں۔ اُن لوگوں میں شامل ہو جائیں جن کا شیطان ہمیشہ کے لیے جکڑا جاتا ہے لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان سے ظاہر ہے اس کے لیے پہلے ہمیں جہاد کی ضرورت ہے۔ اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق بنانے کی ضرور ت ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف مواقع پر ہماری راہنمائی فرمائی، مختلف زاویوں سے راہنمائی فرمائی۔ چنانچہ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں ’’بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ جو شخص نہایت لاپروائی سے سستی کر رہا ہے وہ ایسا ہی خدا کے فیض سے مستفیض ہو جائے جیسے وہ شخص کہ جو تمام عقل اور تمام زور اور تمام اخلاص سے اس کو ڈھونڈتا ہے۔ اسی کی طرف ایک دوسرے مقام میں بھی اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا یعنی جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کو بالضرور اپنی راہیں دکھلا دیا کرتے ہیں۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ566-567 حاشیہ نمبر11)
پس واضح فرما دیا کہ لاپروائی اور سستی دکھانے والے کے لیے ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اس کو بھی ان لوگوں میں شامل کر لے جو اپنی تمام تر طاقتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کرتے ہیں، ایک جہاد کرتے ہیں۔
لوگ سوال کرتے ہیں، خطوں میں مجھے لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے بہت دعا کی ہے لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ پس جو یہ کہتے ہیں وہ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ غلط نہیں۔ جس کو انسان اپنی طرف سے بہت دعا کا معیار سمجھ رہا ہوتا ہے ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس میں بھی کمی ہو اور ابھی اسے مزید جہاد کی ضرورت ہو۔ پھر اپنے طریقِ دعا کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ فرما رہے ہیں کہ جو شخص اپنی تمام عقل اور تمام زور اور تمام اخلاص کے ساتھ اسے ڈھونڈ رہا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم اسے بالضرور اپنی راہیں دکھلا دیا کرتے ہیں۔ پس ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم نے اپنی عقل کے مطابق، اپنی تمام تر صلاحیتوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کر لیا ہے کہ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ کہ میری بات پر لبیک کہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر مکمل عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تمام زور اس بات پر لگا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر بات پر لبیک کہنا ہے۔ پورے اخلاص و وفا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر رہے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر ہمیں شکوہ نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کو نہیں سنا۔ پس
دعاؤں کی قبولیت کے لیے بھی پہلے اپنی حالتوں کو بدل کرخدا تعالیٰ کی طرف قدم بڑھانا ضروری ہے، جہاد کرنا ضروری ہے۔
بندے نے جہاد کی انتہا کیا کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندے پر اتنا مہربان ہے کہ اس کی ذرا سی کوشش کو ہی وہ اس کا جہاد سمجھ کر نواز دیتا ہے۔ اس کی رحمانیت جو ہر چیز پر حاوی ہو جاتی ہے تو پھر بندے کا جہاد بھی آسان ہو جاتا ہے۔ اس کو بھی آسان کر دیتی ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بندہ میری طرف ایک قدم چل کر آتا ہے تو میں دو قدم چل کے آتا ہوں، اس کی طرف بڑھتا ہوں۔ جب وہ چل کر میری طرف آ رہا ہوتا ہے، تیز چل کے آ رہا ہوتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف آتا ہوں۔(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء…… باب فضل الذکر والدعاء والتقرب الی اللّٰہ تعالیٰ حدیث6833)
پس خدا تعالیٰ تو ہم پر اتنا مہربان ہے لیکن بات وہی ہے کہ اخلاص و وفا شرط ہے۔یہ نہیں کہ رمضان میں تو دعویٰ کریں کہ ہم نمازیں پڑھیں گے، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کریں گے، حقوق اللہ بھی ادا کریں گے اور حقوق العباد بھی ادا کریں گے اور رمضان میں یہ کرتے بھی رہیں لیکن رمضان گزرنے کے بعد پھر خدا تعالیٰ کو اور اس کے احکامات کو بھول جائیں۔
دنیا داری ہم پر غالب ہو جائے تو پھر خداتعالیٰ پر یہ شکوہ نہیں ہونا چاہیے کہ خداتعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں اور مَیں نے تو رمضان میں اللہ تعالیٰ کو بہت پکارا ہے لیکن میری دعائیں تو نہیں سنی گئیں۔
ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ اسے یہ بھی پتہ ہے کہ انسان نے اپنا عہدِ وفا نبھانے کے پہلے بھی وعدے کیے اور توڑ دیے اور اب یہ صرف رمضان میں ہی نیکیوں کی طرف توجہ کر رہا ہے تو پھر ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ جو چاہے وہ سلوک کرتا ہے لیکن یہ بھی ہے کہ بعض دفعہ ایسے لوگوں کی بھی بعض دعائیں اللہ تعالیٰ قبول کر لیتا ہے تا کہ انہیں پتہ چلے کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف ہی ہر وقت جھکے رہنا چاہیے۔ پس اللہ تعالیٰ تو بندے پر ظلم نہیں کرتا ۔وہ تو اُسے ہر وقت اپنے پیار کی آغوش میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔ اُسے تو اپنے بندے کے اپنی طرف آنے اور خالص ہو کر اس کی باتیں ماننے کی اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی ایک ماں کو اپنے گمشدہ بچے کے ملنے کی خوشی ہوتی ہے یا جس طرح ایک مسافر کو ریگستان میں اپنے سامان سے لدے ہوئے اونٹ کے گم جانے کے بعد اس کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے۔ پس یہ مثالیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دے دے کے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو تو اس طرح خوشی ہوتی ہے۔(صحیح البخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد…… حدیث5999، کتاب الدعوات باب التوبۃ حدیث 6309)
پس یہ ہم ہی ہیں جو خدا تعالیٰ کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں اور پھر شکوہ بھی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں نہیں سُنیں۔ پس ہمیں اس لحاظ سے اپنے جائزے لینے چاہئیں۔
یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اس رمضان کو خدا تعالیٰ کو پانے کا ذریعہ بنائیں گے۔اس کے حکموں پر چلنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔
جیسے بھی حالات ہم پر گزریں، جتنا لمبا عرصہ بھی ہمیں جہاد کرنا پڑے اللہ تعالیٰ کے پیار اور قرب کو حاصل کرنے کے لیے ہم یہ جہاد کرتے چلے جائیں گے۔ اپنے ایمانوں کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں گے۔ اگر ایسی حالت ہم اپنے پر طاری کرنے والے بن جائیں تو قبولیتِ دعا کے معجزات بھی ہم دیکھنے والے ہوں گے اور یہ باتیں نہیں بلکہ یہ مقام لوگ حاصل کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’اس آیت کو نازل ہوئے تیرہ سو برس گذر گیا ہے اور کچھ شک نہیں کہ برطبق مضمون اس آیت کے ہر یک جو اس عرصہ میں مجاہدہ کرتا رہا ہے وہ وعدہ لَنَہْدِیَنَّہُمْ سے حصہ مقسومہ لیتا رہا ہے اور اب بھی لیتا ہے اور آئندہ بھی لے گا‘‘۔(الحق مباحثہ دہلی، روحانی خزائن جلد4 صفحہ192)
پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فیض سے حصہ لینے والے بنیں اور کبھی اپنا جہاد جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے جہاد ہے، جو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کا جہاد ہے، جو قرآن کریم کے سات سو یا زیادہ حکموں پر چلنے کا جہاد ہے، جو ایمان کو کامل کرنے کا جہاد ہے، جو اللہ تعالیٰ کی صفات کو حاصل کرنے کا جہاد ہے کبھی اسے کم نہ ہونے دیں۔ ہمارا ہر قدم ترقی کی طرف بڑھنے والا قدم ہو اور یہ رمضان ہمارے اس جہاد کا سنگ میل ہو۔
اس مضمون کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ اَور اقتباسات اورحوالے بھی پیش کرتا ہوں۔
یہ ایسا مضمون ہے کہ جس کو بار بار سن کر سمجھنے کی ضرورت ہےاور اگر یہ ہماری زندگیوں کا حقیقت میں حصہ بن جائے توایک انقلاب ہم دنیا میں پیدا کر سکتے ہیں۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جس طرح ہماری دنیوی زندگی میں صریح نظر آتا ہے کہ ہمارے ہر ایک فعل کے لئے ایک ضروری نتیجہ ہے اور وہ نتیجہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے۔ ایسا ہی دین کے متعلق بھی یہی قانون ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ ان دو مثالوں میں صاف فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔ (العنکبوت:70) فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ (الصف:6)یعنی جو لوگ اس فعل کو بجا لائے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی جستجو میں پوری پوری کوشش کی تو اس فعل کے لئے لازمی طور پر ہمارا یہ فعل ہو گا کہ ہم ان کو اپنی راہ دکھاویں گے اور جن لوگوں نے کجی اختیار کی اور سیدھی راہ پر چلنا نہ چاہا تو ہمارا فعل ان کی نسبت یہ ہو گا کہ ہم ان کے دلوں کو کج کر دیں گے۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ389)
پس اس کو ایک اَور زاویے سے آپؑ نے پیش فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر ہماری راہ کو حاصل کرنے کے لیے تم جہاد کر کے ہمارا فیض پاتے ہو تو اس بات کو بھی یاد رکھو کہ اس کے منفی پہلو بھی ہیں کہ میری راہ پر نہیں چلو گے تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے۔ دعاؤں کا قبول ہونا تو ایک طرف رہا اس کے نتیجہ میں، اللہ کے رستے پر نہ چلنے کے نتیجہ میں تم شیطان کی گود میں گر جاؤ گے اور شیطان کی گود میں گرا ہوا انسان پھر اپنی دنیا اور عاقبت دونوں خراب کرنے والا بن جاتا ہے۔ پس
اس ارشاد میں جہاں خوشخبری ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ انذار بھی دے دیا ہے۔
پھر ایک اور جگہ آپؑ وضاحت فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’انسان کے دل پر کئی قسم کی حالتیں وارد ہوتی رہتی ہیں۔ آخر خدا تعالیٰ سعید روحوں کی کمزوری کو دور کرتا ہے اور پاکیزگی اور نیکی کی قوت بطور موہبت عطا فرماتا ہے۔ پھر اس کی نظر میں وہ سب باتیں مکروہ ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں مکروہ ہیں اور وہ سب راہیں پیاری ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کو پیاری ہیں۔ تب اس کو ایک ایسی طاقت ملتی ہے جس کے بعد ضعف نہیں اور ایک ایسا جوش عطا ہوتا ہے جس کے بعد کسل نہیں۔ اور ایسی تقویٰ دی جاتی ہے کہ جس کے بعد معصیت نہیں۔ اور رب کریم ایسا راضی ہو جاتا ہے کہ جس کے بعد خطا نہیں۔ مگر یہ نعمت دیر کے بعد عطا ہوتی ہے۔ اوّل اوّل انسان اپنی کمزوریوں سے بہت سی ٹھوکریں کھاتا ہے اور اسفل کی طرف گر جاتا ہے مگر آخر اس کو صادق پا کر طاقتِ بالا کھینچ لیتی ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طاقت اسے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ’’اس کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا‘‘ عربی میں ہی آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘ یعنی نُثَبِّتُھُمْ عَلَی التَّقْوٰی وَالْاِیْمَانِ وَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَ الْمَحَبَّةِوَالْعِرْفَانِ۔ وَسَنُیَسِّرُھُمْ لِفِعْلِ الْخَیْرَاتِ وَ تَرْکِ الْعِصْیَانِ۔’’(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد3 صفحہ626)یعنی ہم ان کو تقویٰ اور ایمان پر ثابت قدم کر دیں گے اور ضرور انہیں محبت اور معرفت کے راستوں کی ہدایت دیں گے اور انہیں نیک اعمال بجا لانے اور معصیت کو ترک کرنے کی توفیق دیتے رہیں گے۔
جیسا کہ میں نے کہا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا کے حوالے سے ہمیں مختلف پیرائے میں نصائح فرمائی ہیں اور علم و عرفان کے دروازے کھولے ہیں۔ اس حوالے میں جو بیان ہوا ہےانسانی فطرت کا نقشہ کھینچ کر تفصیل بیان فرمائی کہ انسان ایک حالت پر مستقل قائم نہیں رہ سکتا۔ اتار چڑھاؤ انسان کی طبیعت میں آتا رہتا ہے لیکن جو سعید فطرت ہے وہ اپنی کمزوری کی حالت سے بھی سبق حاصل کرتا ہے، توبہ واستغفار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے اور اپنی کمزوری پر شرمندہ ہو کر پھر اللہ تعالیٰ کی تلاش میں جہاد کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی محبت جوش میں آتی ہے، اس کی بخشش جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے بندے کی طرف دوڑ کر آتا ہے اور اسے پاکیزگی اور نیکی کی قوت عطا فرماتا ہے اور
جب انسان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکیزگی اور نیکی کی قوت پیدا ہو جاتی ہے تو پھر اس کا ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بن جاتا ہے۔
ہر قسم کی کمزوری و سستی سے وہ پاک ہو جاتا ہے۔ وہ تقویٰ پر چلنے والا بن جاتا ہے اور گناہوں سے بچایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایسی رضا حاصل کرنے والا ایسا انسان بن جاتا ہے کہ پھر اس سے ایسی غلطیاں سرزد ہی نہیں ہوتیں جو خداتعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہوں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا لیکن یاد رکھو کہ اس حالت کو حاصل کرنے کے لیے مستقل مزاجی سے محنت کرنی پڑتی ہے۔ عارضی محنت نہیں مستقل محنت کی ضرورت ہے۔ اور پھر یہ نیکیاں اور دعاؤں کی قبولیت کے نظارے زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔
پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اس کو اپنی راہیں دکھلا دیں گے۔ فرمایا یہ تو وعدہ ہے اور ادھر یہ دعا بھی ہمیں سکھا دی کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ۔سو انسان کو چاہیے کہ اس کو مدنظر رکھ کر نما زمیں بالحاح دعا کرے اور تمنا رکھے کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہو جاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس جہان سے بےبصیرت اور اندھا اٹھایا جاوے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد1 صفحہ20ایڈیشن 1984ء)
پس اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے جہاں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ یہ دعا بھی ضروری ہے اور سورۂ فاتحہ پڑھتے وقت بار بار پڑھنی چاہیے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ۔ قادیان کا کسی نے ایک واقعہ بیان کیا ہوا ہے کہ کسی بزرگ کی نماز پڑھتے ہوئے کیسی حالت ہوتی تھی۔ وہ بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ایک صحابی مسجد مبارک کے ایک کونے میں کھڑے تھے، نماز پڑھ رہے تھے۔ بڑی خشیت طاری تھی، رقت طاری تھی اور بڑی دیر تک ہاتھ باندھ کےکھڑے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے تجسّس پیدا ہوا کہ جا کے دیکھوں کیونکہ ہلکی ہلکی آواز بھی آرہی تھی کہ کیا پڑھ رہے ہیں۔تو باربار وہاِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اوراِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کو ہی دہراتے چلے جا رہے تھے اور رقّت طاری ہوئی ہوئی تھی۔ تو یہ وہ دعا ہے جو انسان کو اپنی ہدایت کے لیے بہت پڑھنی چاہیے۔
پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’خدا تعالیٰ کا یہ سچا وعدہ ہے کہ جو شخص صدق دل اور نیک نیتی کے ساتھ اس کی راہ کی تلاش کرتے ہیں‘‘ وہ ان پر ہدایت اور معرفت کی راہیں کھول دیتا ہے۔ ’’جیساکہ اس نے خود فرمایا ہے وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَایعنی جو لوگ ہم میں سے ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں۔ ہم میں ہو کر سے یہ مراد ہے کہ محض اخلاص اور نیک نیتی کی بناء پر خدا جوئی اپنا مقصد رکھ کر‘‘ یہ مجاہدہ کرتے ہیں کہ خدا کو ہی ہم نے پانا ہے۔ کوئی خاص دنیا داری کا مقصد نہیں ہوتا۔ اصل چیز خدا کا مقصد ہے۔ اخلاص کے ساتھ خدا کو پانا مقصد ہے فرمایا ’’لیکن اگر کوئی استہزاء اور ٹھٹھے کے طریق پر آزمائش کرتا ہے وہ بدنصیب محروم رہ جاتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’پس اسی پاک اصول کی بنا پر اگر تم سچے دل سے کوشش کرو اور دعا کرتے رہو تو وہ غفورٌ رحیم ہے لیکن اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی پروا نہیں کرتا وہ بے نیاز ہے۔‘‘(ملفوظات جلد6صفحہ439ایڈیشن 1984ء)یعنی اللہ تعالیٰ کو بھی تمہاری کوئی پروا نہیں ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’جس قدر کاروبار دنیا کے ہیں سب میں اول انسان کو کچھ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ جو بھی دنیا کے کاروبار ہیں پہلے انسان کو کوشش کرنی پڑتی ہے دنیا کے کاموں میں بھی تم دیکھ لو۔ یہی مثال ہے دنیا میں۔ ’’جب وہ ہاتھ پاؤں ہلاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی برکت ڈال دیتا ہے۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی راہ میں وہی لوگ کمال حاصل کرتے ہیں جو مجاہدہ کرتے ہیں۔ اس لئے فرمایا ہے وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔ پس کوشش کرنی چاہئے کیونکہ مجاہدہ ہی کامیابیوں کی راہ ہے۔‘‘(ملفوظات جلد7صفحہ224ایڈیشن1984ء)
پس جب ہم دنیاوی چیزوں کے حصول کے لیے اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچاتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کو پانے کے لیے، پانے کے راستوں کے لیے انتہائی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ ذرا سا ہم نے منہ سے کہا اور اللہ تعالیٰ ہمیں مل جائے گا یا ہماری دعائیں قبول کر لے گا۔ پس یہاں پھر وہی بات آ گئی کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں وہ پہلے اپنے جائزے لیں۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پانے کے لیے تن آسانی ہو اور دنیاوی چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے محنت کے اصول کو سامنے رکھا جائے۔ یہ اصول پھر ہر جگہ چلے گا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک اَور جگہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کو پانے کے لیے محنت کی ضرورت ہے فرماتے ہیں کہ ’’جو لوگ کوشش کرتے ہیں ہماری راہ میں انجام کار راہنمائی پر پہنچ جاتے ہیں۔ جس طرح وہ دانہ تخم ریزی کا بدوں کوشش اور آبپاشی کے بے برکت رہتا بلکہ خود بھی فنا ہو جاتا ہے اسی طرح تم بھی اس اقرار کو ہر روز یاد نہ کرو گے اور دعائیں نہ مانگو گے کہ خدایا! ہماری مدد کر تو فضل الٰہی وارد نہیں ہو گا اور
بغیر امداد الٰہی کے تبدیلی ناممکن ہے۔‘‘(ملفوظات جلد7 صفحہ225ایڈیشن 1984ء)
پس یہ قانونِ قدرت ہے۔ اللہ تعالیٰ کو پانے کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔ جس طرح دانہ ڈال کر ایک زمیندار بیٹھا نہیں رہتا اسی طرح یہاں بھی انسان کو صرف یہ لے کے کہ میں ایمان لے آیا، میں نے مان لیا، بیٹھ جانے سے کچھ نہیں ہو گا بلکہ کوشش کرنی ہو گی۔ اپنے ایمان کے پودوں کی نگہداشت کرنی ہو گی۔
پھرآپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف رجوع کرے گا۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ جہاں تک بس چل سکے وہ اپنی طرف سے کوتاہی نہ کرے۔ پھر جب اس کی کوشش اس کے اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچے گی تو وہ خدا تعالیٰ کے نور کو دیکھ لے گا۔ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا میں‘‘ فرمایا کہ اس میں ’’اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو حق کوشش کا اس کے ذمہ ہے اسے بجا لائے یہ نہ کرے کہ اگر پانی ۲۰ ہاتھ نیچے کھودنے سے نکلتا ہے تو وہ صرف دو ہاتھ کھود کر ہمت ہار دے۔‘‘بیس فٹ یا تیس فٹ کھودنے سے پانی نکلتا ہے تو دو چار فٹ کھود کے بیٹھ جائے کہ پانی نہیں نکلا۔ فرمایا کہ
’’ہر ایک کام میں کامیابی کی یہی جڑ ہے کہ ہمت نہ ہارے۔
پھر اس امت کے لئے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی پورے طور سے دعا و تزکیہ نفس سے کام لے گا تو سب وعدے قرآن شریف کے اس کے ساتھ پورے ہو کر رہیں گے۔‘‘ جو ہمت کے ساتھ پورے طور پر دعا اور تزکیہ نفس سے کام لے گا اس کے ساتھ قرآن شریف کے سب وعدے پورے ہو کر رہیں گے ۔ ’’ہاں جو خلاف کرے گا وہ محروم رہے گا کیونکہ اس کی ذات غیور ہے۔ اس نے اپنی طرف آنے کی راہ ضرور رکھی ہے لیکن اس کے دروازے تنگ بنائے ہیں۔ پہنچتا وہی ہے جو تلخیوں کا شربت پی لیوے۔‘‘ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ’’لوگ دنیا کی فکر میں درد برداشت کرتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ لوگ دنیا کی فکر میں درد برداشت کرتے ہیں ’’حتی کہ بعض اسی میں ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ایک کانٹے کی درد بھی برداشت کرنا پسند نہیں کرتے۔ جب تک اس کی طرف سے صدق اور صبر اور وفاداری کے آثار ظاہر نہ ہوں‘‘ یعنی جب بندے کی طرف سے صدق اور صبر اور وفا داری کے آثار ظاہر نہ ہوں تو ادھر سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی رحمت کے آثار نہیں ظاہر ہوتے‘‘ فرمایا کہ ’’تو ادھر سے رحمت کے آثار کیسے ظاہر ہوں۔‘‘(ملفوظات جلد7 صفحہ291ایڈیشن 1984ء)گے پھر؟ پس یہ ان لوگوں کے سوال کا جواب ہے جو پھر وہی بات کہتے ہیں کہ ہم نے بہت دعا کی اور قبول نہیں ہوئی۔ گویا وہ خداتعالیٰ کو پابند کر رہے ہیں کہ ہم آئیں گے بھی خدا تعالیٰ کے پاس اپنی مرضی سے اور جب ضرورت ہو گی اس وقت آئیں گے اور خدا تعالیٰ نعوذ باللہ ہمارا پابند ہے کہ ہم جو کہیں اور جیسا چاہیں وہ ہماری دعا قبول کر لے لیکن یہ بات تو وہ دنیا کے قانون اور تعلقات میں بھی دیکھتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ایسا نہیں ہوتا پھر خدا تعالیٰ کے معاملے میں یہ توقع کیوں ہے کہ جس طرح ہم چاہیں وہ ہو جائے اور بغیر محنت کے ہو جائے۔ پس یہاں یہی فرمایا کہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف آؤ تو پھر دیکھو اس کے پیار کے نظارے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’یاد رکھنا چاہئے کہ ایمان بغیر اعمال کے ایسا ہے جیسے کوئی باغ بغیر انہار کے۔‘‘ نہروں کے بغیر، پانی کے بغیر کوئی باغ ہو۔ ’’جو درخت لگایا جاتا ہے اگر مالک اس کی آبپاشی کی طرف توجہ نہ کرے تو ایک دن خشک ہو جائے گا۔ اسی طرح ایمان کا حال ہے۔ وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا یعنی تم ہلکے ہلکے کام پر نہ رہو بلکہ اس راہ میں بڑے بڑے مجاہدات کی ضرورت ہے۔ نفس کو بیل سے مشابہت دی گئی ہے۔‘‘(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد3 صفحہ631)
پس اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ کہ مجھے پکارنے والے مجھ پر ایمان لائیں تو ایمان یہ ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے اللہ تعالیٰ پر ایمان کا حق ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ ایمان کے باغ کی پرورش اور نگہداشت کرنے کا اپنے بندوں کو فرماتا ہے۔ ہم اپنے گھروں میں بھی دیکھتے ہیں کہ پودوں کو بھی اگر ہم باقاعدگی سے نہ دیکھیں، ان کا خیال نہ رکھیں تو وہ سوکھنے لگ جاتے ہیں۔ پھر ایمان کے باغ کو کس طرح ہم بغیر نگہداشت کے چھوڑ سکتے ہیں۔ پھر ایک اور زاویے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بات کو بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ہمارے راہ کے مجاہد راستہ پاویں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس راہ میں پیمبر کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا ہوگا۔ ایک دو گھنٹہ کے بعد بھاگ جانا مجاہد کا کام نہیں بلکہ جان دینے کے لئے تیار رہنا اس کا کام ہے۔
سو متقی کی نشانی استقامت ہے۔‘‘(ملفوظات جلد1صفحہ25ایڈیشن1984ء)
پس ہم نے جب اپنے عہد بیعت میں یہ عہد کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے تو پھر اس عہد پر قائم رہنے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ دین ہم سے کیا چاہتا ہے جس کو ہم نے مقدم رکھنا ہے اور پھر اس پر مستقل مزاجی سے قائم بھی رہنا ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’جو شخص محض اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس کی راہ کی تلاش میں کوشش کرتا ہے اور اس سے اس امر کی گرہ کشائی کے لئے دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے موافق ( وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر کوشش کرتے ہیں ہم اپنی راہیں ان کو دکھا دیتے ہیں) خود ہاتھ پکڑ کر راہ دکھا دیتا ہے اور اسے اطمینانِ قلب عطا کرتا ہے اور اگر خود دل ظلمت کدہ اور زبان دعا سے بوجھل ہو اور اعتقادشرک و بدعت سے ملوث ہو۔‘‘اعتقاد شرک اور بدعت سے ملوث ہو ’’تو وہ دعا ہی کیا ہے اور وہ طلب ہی کیا ہے جس پر نتائج حسنہ مترتب ہوں۔‘‘(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد3 صفحہ632)
پس ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہیے کہ کیا ہم اس سوچ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہوں کی تلاش کر رہے ہیں اور ہمارے دل غیر اللہ سے بالکل خالی ہو چکے ہیں؟
پھر
توبہ و استغفار کی طر ف توجہ
دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’توبہ استغفار وصول الی اللہ کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا۔ پوری کوشش سے اس کی راہ میں لگے رہو منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی سے بخل نہیں۔‘‘(ملفوظات جلد10صفحہ107)
فرمایا کہ ’’بموجب تعلیم قرآن شریف ہمیں یہ امر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اپنے کرم، رحم، لطف اور مہربانیوں کی صفات بیان کرتا ہے اور رحمان ہونا ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف فرماتا ہے کہ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى(النجم:40) اور وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَافرما کر اپنے فیض کو سعی اور مجاہدہ میں منحصر فرماتا ہے نیز اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا طرز عمل ہمارے واسطے ایک اسوۂ حسنہ اور عمدہ نمونہ ہے۔ صحابہ کی زندگی میں غور کر کے دیکھو بھلا انہوں نے محض معمولی نمازوں سے ہی وہ مدارج حاصل کر لئے تھے؟ نہیں بلکہ انہوں نے تو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے واسطے اپنی جانوں تک کی پروا نہیں کی اور بھیڑ بکریوں کی طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو گئے جب جا کر کہیں ان کو یہ رتبہ حاصل ہوا تھا۔ ‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’اکثر لوگ ہم نے ایسے دیکھے ہیں وہ یہی چاہتے ہیں کہ ایک پھونک مار کر ان کو وہ درجات دلا دئیے جاویں اور عرش تک ان کی رسائی ہو جاوے۔‘‘(ملفوظات جلد10صفحہ205ایڈیشن1984ء)یہ نہیں ہو سکتا۔
پس بیشک اللہ تعالیٰ رحیم و کریم بھی ہے لیکن ساتھ ہی اس نے کامل الایمان بننے والے لوگوں کے لیے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ وہ اس کی راہ میں جہاد کرنے والے ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے مقام اونچے کرتا چلا جاتا ہے۔ قبولیت دعا کے بھی وہ نظارے دیکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کے بھی پہلے سے بڑھ کر نظارے دیکھتے ہیں جو صحابہ نے دیکھے اور خدا تعالیٰ کی محبت میں وہ لوگ ایسے ڈوبے جس کی مثال نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے بھی گئے تو پھر وہ جنتوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خوشخبری پانے والے بھی بن گئے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’جو لوگ خدا میں ہو کر خدا کے پانے کے واسطے تڑپ اور گدازش سے کوشش کرتے ہیں ان کی محنت اور کوشش ضائع نہیں جاتی اور ضرور ان کی راہبری اور ہدایت کی جاتی ہے۔ جو کوئی صدق اور خلوصِ نیت سے خدا کی طرف قدم اٹھاتا ہے خدا تعالیٰ اس کی طرف راہنمائی کے واسطے بڑھتا ہے۔ انسان کا فرض ہے کہ تدبر کرے اور حق طلبی کی سچی تڑپ اور پیاس اپنے اندر پیدا کرے۔ معلومات کے وسیع کرنے کی جو سبیل اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے ان پر کاربند ہو۔ خدا بھی بے نیاز ہو جاتا ہے اس شخص سے جو خدا سے لاپروائی کرتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد 10 صفحہ 284 ایڈیشن1984ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو۔‘‘ کوشش کرو۔ ’’نماز میں دعائیں مانگو۔ صدقات خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلہ سے وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا میں شامل ہو جاؤ۔ جس طرح بیمار طبیب کے پاس جاتا، دوائی کھاتا، مسہل لیتا، خون نکلواتا، ٹکور کرواتا اور شفا حاصل کرنے کے واسطے ہر طرح کی تدبیر کرتا ہے اسی طرح اپنی روحانی بیماریوں کو دور کرنے کے واسطے ہر طرح کی کوشش کرو۔ صرف زبان سے نہیں بلکہ مجاہدہ کے جس قدر طریق خدا تعالیٰ نے فرمائے ہیں وہ سب بجا لاؤ۔ ‘‘(ملفوظات جلد8صفحہ188ایڈیشن1984ء)پس یہ وہ طریق ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے پانے کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں اور پھر دعاؤں کی طرف توجہ بھی دلاتے ہیں۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’انسان کو چاہئے کہ اس زندگی کو اس قدر قبیح خیال کرکے اس سے نکلنے کے لئے کوشش کرے۔‘‘ اس زندگی کو سب کچھ نہ سمجھو بلکہ یہ دنیا داری جو ہے اسے عارضی زندگی اور گندی زندگی سمجھو ’’اور دعا سے کام لے کیونکہ جب وہ حق تدبیر کا ادا کرتا ہے اور پھر سچی دعاؤں سے کام لیتا ہے تو آخر اللہ تعالیٰ اس کو نجات دے دیتا ہے اور وہ گناہ کی زندگی سے نکل آتا ہے کیونکہ دعا بھی کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ وہ بھی ایک موت ہی ہے۔جب اس موت کو انسان قبول کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو مجرمانہ زندگی سے جو موت کا موجب ہے بچا لیتا ہے اور اس کو ایک پاک زندگی عطا کرتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’بہت سے لوگ دعا کو ایک معمولی چیز سمجھتے ہیں۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ دعا یہی نہیں کہ معمولی طور پر نماز پڑھ کر ہاتھ اٹھا کر بیٹھ گئے اور جو کچھ آیا منہ میں سے کہہ دیا۔ اس دعا سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ دعا نری ایک منتر کی طرح ہوتی ہے۔ نہ اس میں دل شریک ہوتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں پر کوئی ایمان ہوتا ہے۔
یاد رکھو دعا ایک موت ہے اور جیسے موت کے وقت اضطراب اور بیقراری ہوتی ہے اسی طرح پر دعا کے لئے بھی ویسا ہی اضطراب اور جوش ہونا ضروری ہے۔
اس لئے دعا کے واسطے پورا پورا اضطراب اور گدازش جب تک نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔ پس چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نہایت تضرع اور زاری وابتہال کے ساتھ خداتعالیٰ کے حضور اپنی مشکلات کو پیش کرے اور اس دعا کو اس حد تک پہنچاوے کہ ایک موت کی سی صورت واقع ہو جاوے۔ اس وقت دعا قبولیت کے درجہ تک پہنچتی ہے۔‘‘
فرماتے ہیں کہ ’’یہ بھی یاد رکھو کہ سب سے اول اور ضروری دعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کی دعا کرے۔ ساری دعاؤں کا اصل اور جزو یہی دعا ہے کیونکہ جب یہ دعا قبول ہو جاوے اور انسان ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ہو کر خدا تعالیٰ کی نظر میں مطہر ہو جاوے تو پھر دوسری دعائیں جو اس کی حاجاتِ ضروریہ کے متعلق ہوتی ہیں‘‘ یعنی انسان کی دوسری دنیاوی ضرورتوں کے لیے ہوتی ہیں ’’وہ اس کو مانگنی بھی نہیں پڑتیں وہ خود بخود قبول ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بڑی مشقت اور محنت طلب یہی دعا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاوے۔‘‘ سب سے بڑی دعا یہی ہے کہ انسان اپنے لیے دعا کرے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاوے ’’اور خدا تعالیٰ کی نظر میں متقی اور راستباز ٹھہرایا جاوے۔ یعنی اول اول جو حجاب انسان کے دل پر ہوتے ہیں ان کا دور ہونا ضروری ہے۔ جب وہ دور ہو گئے تو دوسرے حجابوں کے دور کرنے کے واسطے اس قدر محنت اور مشقت کرنی نہیں پڑے گی کیونکہ خداتعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال ہو کر ہزاروں خرابیاں خود بخود دُور ہونے لگتی ہیں اور جب اندر پاکیزگی اور طہارت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا ہوجاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اس کا متکفل اور متولی ہوتا ہے اور اس سے پہلے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی کسی حاجت کو مانگے اللہ تعالیٰ خود اس کو پورا کر دیتا ہے۔ یہ ایک باریک سرّ ہے جو اس وقت کھلتا ہے‘‘ یہ بڑا باریک راز ہے اور یہ راز اس وقت کھلتا ہے ’’جب انسان اس مقام پر پہنچتا ہے۔ اس سے پہلے اس کی سمجھ میں آنا بھی مشکل ہوتا ہے لیکن یہ ایک عظیم الشان مجاہدہ کا کام ہے کیونکہ دعا بھی ایک مجاہدہ کو چاہتی ہے۔ جو شخص دعا سے لاپروائی کرتا ہے اور اس سے دور رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا اور اس سے دور ہو جاتا ہے۔ جلدی اور شتاب کاری یہاں کام نہیں دیتی۔ خداتعالیٰ اپنے فضل وکرم سے جو چاہے عطا کرے اور جب چاہے عنایت فرمائے۔ سائل کا کام نہیں ہے کہ وہ فی الفور عطا نہ کئے جانے پر شکایت کرے اور بدظنی کرے بلکہ استقلال اور صبر سے مانگتا چلا جاوے۔‘‘(ملفوظات جلد6صفحہ406-407ایڈیشن1984ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس رمضان کو ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق جوڑنے والا بنا دے۔ اس کی باتوں پر عمل کرنے والا بنا دے۔ اس پر کامل ایمان لانے والا بنا دے۔ قبولیتِ دعا کے نظارے ہمیں دیکھنے والا بنا دے اور یہ حالت ہمیشہ قائم رہنے والی ہو۔ رمضان میں بھی اور رمضان کے بعد بھی ہم اللہ تعالیٰ کا خالص عبد بننے کا کردار ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایسے راستے دکھائے جن سے ہم کبھی بھٹکنے والے نہ ہوں اور ہمیشہ اس کی پیار کی نظر ہم پر پڑتی رہے۔ ہم زمانے کے امام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو پا کر کبھی اس سے محروم رہنے والے نہ بنیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کا یہ انعام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مخالفین اور دشمنوں کے شر سے ہمیشہ ہمیں محفوظ رکھے۔ ہماری دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے دشمنوں کے شر اُن پر الٹائے۔ جماعت کی ترقی کے سامان ہمیشہ پیدا فرماتا رہے۔ پس اس رمضان کو اپنی مقبول دعاؤں کا ذریعہ بنا لیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
دنیا کے حالات کے لیے بھی دعائیں کریں۔
اللہ تعالیٰ دنیا کو تباہ کاریوں سے بچائے اور ان کو عقل دے کہ یہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے والے ہوں۔
نماز جمعہ کے بعد میں ایم ٹی اے کی
ایک سائٹ کا بھی اجرا کروں گا جو ایم ٹی اے انٹرنیشنل نے ویب سائٹ بنائی ہے۔ اس کی موبائل ایپلیکیشن بنائی ہے
جس میں تین سو تیرہ بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کے متعلق میرے خطبات جمعہ کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہے۔ اس ویب سائٹ پر احباب یہ خطبات جمعہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ بدری صحابہ کے متعلق بنائی گئی پروفائلز پڑھ سکتے ہیں اور جہاں تک کسی نے مشاہدہ اور مطالعہ کیا ہوا ہو گا اس کو بُک مارک (book mark)بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر صحابی کے متعلق سوال و جواب کا ایک کوئز موجود ہے۔ ویب سائٹ پر متعلقہ مفید نقشے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ناموں اور مشکل الفاظ کا عربی تلفظ بھی سنا جا سکتا ہے۔ اب تک کی اپلوڈ کی گئی معلومات کے علاوہ آئندہ آنے والی نئی معلومات اور ویڈیوز بھی ہر ہفتے اس میں جاری کی جائیں گی۔ ویب سائٹ کا جو پتہ ہے وہ یہ ہے کہ
www.313companions.org
جیسا کہ میں نے کہا کہ نماز کے بعد اس کا اجرا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو بھی لوگوں کے لیے فائدے کا موجب بنائے۔
’’اللہ جل شانہ نے جو دروازہ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لئے کھولا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دعا۔ جب کوئی شخص بکا وزاری سے اس دروازہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ مولائے کریم اس کو پاکیزگی وطہارت کی چادر پہنا دیتا ہے اور اپنی عظمت کا غلبہ اس پر اس قدر کر دیتا ہے کہ بے جا کاموں اور ناکارہ حرکتوں سے وہ کوسوں بھاگ جاتا ہے۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)
رمضان المبارک میں دعا کی اہمیت نیز قبولیتِ دعا کے عوامل و شرائط پر سیر حاصل بیان۔
آیتِ قرآنی وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا کا دعاؤں کی قبولیت سے لطیف تعلق
دنیا کے حالات کے پیشِ نظر دعاؤں کی تحریک ’’اللہ تعالیٰ دنیا کو تباہ کاریوں سے بچائے اور ان کو عقل دے کہ یہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے والے ہوں۔‘‘
بدری صحابہ کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد فرمودہ معرکہ آرا خطباتِ جمعہ پر مشتمل ایم ٹی اے کی تیار کردہ ویب سائٹ www.313companions.org کا اجرا۔
فرمودہ 08؍ اپریل2022ء بمطابق 08؍ شہادت 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔