حضرت ابوبکر صدیقؓ

خطبہ جمعہ 17؍ جون 2022ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

گذشتہ خطبہ میں مَیں نے بیان کیا تھا کہ مرتدین یا منافقین کا قصہ ختم ہواجو یمامہ کے تعلق میں تھا اور مُسَیْلِمہ کذاب اور اس کے ساتھیوں کا جو قصہ تھا وہ گذشتہ خطبہ میں ختم ہوا تھا۔

مرتدین جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہتھیار اٹھائے ان کا ابھی ذکر چل رہا ہے۔

جیساکہ میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ کئی مہمات تھیں۔ پہلی مہم جو کافی لمبی تھی وہ تو بیان ہوئی ، جو بقیہ دس مہمات ہیں ان میں سے دو اور تین کے ذکر میں یہ آتا ہے کہ حضرت حُذَیفہؓ اور حضرت عَرْفَجہؓ کےذریعہ سے یہ مہم سر کی گئی جو عُمان کے مرتد باغیوں کے خلاف مہم تھی۔ عُمان بحرین کے قریب یمن کا ایک شہر ہے۔ جو خلیج فارس اور بحیرہ عرب کے درمیان واقع ہے جس میں ان دنوںآج کے متحدہ عرب امارات کے مشرقی علاقے بھی شامل تھے۔ یہاں بت پرست قبیلہ اَزْد اور دیگر قبائل آباد تھے جو مجوسی تھے۔ مسقط، صُحاراور دَبایہاں کے ساحلی شہر تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں عُمان ایرانیوں کی عمل داری میں شامل تھا اور ان کی طرف سے جَیْفرنامی شخص عامل مقرر تھا۔ اس علاقے میں مجوسی مذہب پھیلا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 8؍ہجری میں حضرت ابوزید انصاریؓ کو تبلیغِ اسلام کی غرض سے اور حضرت عمرو بن عاصؓ کو یہاں کے دو رئیس بھائیوں جَیْفربن جُلُنْدیاور عَبَّادبن جُلُنْدیکے نام خط دے کر بھیجا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کا مضمون

یہ تھا:بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یہ خط محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے جَیْفراور عَبَّاد پسران جُلُنْدی کی طرف ہے۔ سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ مَیں تمہیں اسلام لانے کی دعوت دیتا ہوں۔ تم اسلام قبول کر لو، محفوظ رہو گے۔ مَیں اللہ کا رسول ہوں اور ساری دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں تاکہ ہر اس شخص کو ڈراؤں جو زندہ ہے اور کافروں پر اتمامِ حجت کروں۔ اگر تم اسلام لے آؤ گے تو مَیں تمہیں بدستور وہاں کا حاکم رہنے دوں گا اور اگر اسلام قبول کرنے سے انکار کرو گے تو تمہاری ریاست تم سے چھن جائے گی۔(سیرت حضرت عمرو بن العاص ؓ صفحہ 49 مؤلفہ ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن ،اردوترجمہ شیخ محمداحمدپانی پتی)(فتوح البلدان صفحہ 103-104 موسسۃ المعارف بیروت 1987ء)(فرہنگ سیرت صفحہ209 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)(اٹلس سیرت نبویﷺ صفحہ68مکتبہ دار السلام الریاض 1424ھ )

بعض روایات کے مطابق کافی دن کی بحث کے بعد ان بھائیوں نے اسلام قبول کیا اور ایک روایت کے مطابق عُمان کے حاکم جَیْفرنےکہا مجھے اسلام لانے میں تو کوئی عذر نہیں لیکن یہ ڈر ہے کہ اگر مَیں نے یہاں سے زکوٰۃ اکٹھی کر کے مدینہ بھیجی تو میری قوم مجھ سے بگڑ جائے گی۔ اس پر حضرت عمرو بن عاصؓ نے اس کو پیشکش کی کہ اس علاقے سے زکوٰۃ کا جو مال وصول ہو گا وہ اسی علاقے کے غرباء پر خرچ کر دیا جائے گا ۔چنانچہ اس نے اسلام قبول کر لیا۔ حضرت عَمروؓ یہاں دو سال تک مقیم رہے اور لوگوں کو تبلیغِ اسلام کرتے رہے۔ آپؓ کی اس کامیاب تبلیغی مساعی سے اس علاقے کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور عرب کے چاروں طرف ارتداد اور بغاوت پھیل گئی تو حضرت ابوبکرؓنے حضرت عَمرو بن عاصؓ کو عُمان سے مدینہ طلب فرما لیا۔ دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لَقِیط بن مالک اَزْدیان میں اٹھا جس کا لقب ذوتاج تھا اور یہ دورِ جاہلیت میں شاہ عُمان جُلُنْدیکے ہم پلہ سمجھا جاتا تھا۔جُلُنْدی عُمان کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ بہرحال اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور عُمان کے جاہلوں نے اس کی پیروی کی، یہ عُمان پر قابض ہو گیا اور جَیْفراور اس کے بھائی عَبَّادکو پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی اور جَیْفرنےحضرت ابوبکرؓ کو اس ساری صورتِ حال سے باخبر کیا اور مدد طلب کی۔ حضرت ابوبکرؓنے ان کے پاس دو امیر بھیجے، ایک حُذَیفہ بن مِحْصَن غَلْفانی حِمْیَریکو عُمان کی طرف اور دوسرے عَرْفَجہبن ھَرْثَمَہ بارقی اَزْدیؓ کو مَھْرَہ کی طرف اور حکم دیا کہ وہ دونوں ساتھ ساتھ سفر کریں اور جنگ کا آغاز عُمان سے کریں۔مَھْرَہ یمن کے ایک قبیلے کا نام تھا اور حکم دیا کہ جب عُمان میں جنگ ہو تو حُذَیفہؓ قائد ہوں گے اور جب مَھْرَہ میں جنگ ہو تو حُذَیفہؓ سپہ سالاری کے فرائض سرانجام دیں گے۔

حضرت حُذَیفہؓ اور حضرت عَرْفَجہؓ کا تعارف

یہ ہے۔ تاریخِ طبری میں حضرت حُذَیفہؓ کا نام حُذَیفہبن مِحْصَن غَلْفانیؓبیان ہوا ہے جبکہ صحابہ کے حالات پر مشتمل کتاب میں ان کا نام حُذَیفہ قَلْعانیؓ بیان ہوا ہے۔ آپ حضرت ابوبکرؓ کی وفات تک عُمان کے والی رہے۔

صحابہ کے حالات پر مشتمل کتب میں حضرت عَرْفَجہؓ کا مکمل نام عَرْفَجہ بن خُزَیمہؓ بیان ہوا ہے۔ علامہ ابن اثیر کے نزدیک ان کے والد کا نام ھَرْثَمَہ تھا۔ یہ دشمن کے خلاف جنگی چالوں کے لیے مشہور تھے۔

حضرت ابوبکرؓ نے ان دونوں کی مدد کے لیے حضرت عِکْرِمَہؓ بن ابوجہل کو روانہ کیا۔ اس سے پہلے جنگِ یمامہ کی تفصیلات میں مُسَیْلِمہ کذاب کے ذکر میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓنے حضرت عِکْرِمَہؓ کو فتنہ ارتداد اور بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا اور شُرَحْبِیلبن حسنہ کو ان کی مدد کے لیے روانہ کیا تو عِکْرِمَہکو حکم دیا تھا کہ وہ شُرَحْبِیل کے آنے سے پہلے حملہ نہیں کریں گے لیکن انہوں نے اس کا انتظار کیے بغیر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں انہیں شکست کھانا پڑی جس پر حضرت ابوبکرؓ ان سے ناراض ہوئے اور انہیں عُمان کی طرف جانے کا حکم دیا۔ حضرت ابوبکرؓ کے حکم کے مطابق عِکْرِمَہ اپنی فوج کے ساتھ عُمان کی طرف عَرْفَجہؓ اور حُذَیفہؓ کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے اور قبل اس کے کہ وہ دونوں عُمان پہنچتے عِکْرِمَہ عُمان کے قریب ایک مقام رجام میں ان دونوں سے جا ملے اور انہوں نے جَیْفر اور اس کے بھائی عَبَّاد کے پاس اپنا پیغام بھیج دیا۔ تاریخ کی بعض کتب جیسے کامل ابن اثیر میں اس کا نام عِیاذبیان کیا جاتا ہے۔ رِجام عُمان میں ایک طویل پہاڑی سلسلہ ہے۔

بہرحال مسلمان لشکر کے سرداروں کے پیغام ملنے کے بعد جَیْفر اور عَبَّاد اپنی اپنی قیام گاہوں سے نکلے جو پہلے چھپ گئے تھے۔ اس مرتد کے نبی کے اعلان ہونے کے بعد جس نے اپنی فوج بنا لی تھی اس کی طاقت زیادہ ہو گئی تھی تو بہرحال یہ اپنی قیام گاہوں سے نکلے اور انہوں نے صُحار میں آ کر پڑاؤ کیا اور حُذَیفہؓ، عَرْفَجہؓ اور عِکْرِمَہؓ کوکہلا بھیجا کہ آپ سب ہمارے پاس آ جائیں۔ صُحار بھی عُمان میں پہاڑوں سے متصل ایک قصبہ ہے۔ اس کے بارے میں آتا ہے کہ عُمان کا ایک بازار جو رجب کے شروع میں پانچ راتوں تک یہاں لگتا تھا۔ چنانچہ

مسلمانوں کا لشکر صُحار میں جمع ہو گیا اور متصلہ علاقوں کو مرتدین سے پاک کر دیا۔

ادھر لَقِیط بن مالک کو اسلامی لشکر کے پہنچنے کی خبر ملی تو وہ اپنی فوج لے کر مقابلے کے لیے نکلا اور دباکے مقام پر فروکش ہوا۔ اس نے عورتوں بچوں اور مال و متاع کو اپنے پیچھے رکھا تاکہ اس سے جنگ میں تقویت ملے۔ دَبا بھی اس علاقے کا شہر تھا اور تجارتی منڈی تھی۔ مسلمان امراءنے لَقِیط کے ساتھی سرداروں کو خطوط لکھے اور اس کی ابتدا انہوں نے قبیلہ بنو جُدیدکے رئیس سے کی۔ ان کے جواب میں ان سرداروں نے بھی مسلمان امراءکو خطوط لکھے۔ اس مراسلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ سب سردار لَقِیط سے علیحدہ ہو گئے۔(اسدالغابۃ جلد 4 صفحہ 21-22 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2008ء)(المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، الفصل السادس والاربعون:انساب القبائل، جلد 4 صفحہ 329، مکتبہ جریر 2006ء)(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ291-292 دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)(سیدنا ابوبکر صدیق شخصیت اور کارنامے از صلابی صفحہ 338 الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ)(معجم البلدان جلد 5 صفحہ270، جلد 3 صفحہ 31 دارالکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگ سیرت صفحہ 170 زوار اکیڈمی کراچی)

اور مسلمانوں کے ساتھ آ ملے۔ اسی جگہ یعنی

دَبا کے مقام پر لَقِیط کی فوج کے ساتھ پھر گھمسان کی جنگ ہوئی۔

ابتدا میں لَقِیط کا پلہ بھاری رہا اور قریب تھا کہ مسلمانوں کو شکست ہو جاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے احسان فرمایا اور اس نازک گھڑی میں مدد نازل فرمائی۔ بحرین کے مختلف قبائل اور بنو عبدالقَیْس کی طرف سے بھاری کمک پہنچ گئی جس سے ان کی قوت اور طاقت میں اضافہ ہو گیا اور انہوں نے آگے بڑھ کر لَقِیط کی فوج پر شدید حملہ کر دیا جس سے لَقِیط کی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور دس ہزار مقاتلین کو تہ تیغ کیا اور بچوں اور عورتوں کو قید کر لیا۔ مال و بازار پر قبضہ کر لیا اور اس کا خُمُس عَرْفَجہؓ کے ہاتھ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں روانہ کر دیا۔ اس طرح عُمان میں بھی اس فتنہ کا خاتمہ ہو گیا اور مسلمانوں کی حکومت پائیدار بنیادوں پر قائم ہو گئی۔ جنگ کے بعد حُذَیفہؓ نے عُمان ہی میں سکونت اختیار کر لی اور یہاں کے حالات کی درستی اور امن و امان قائم کرنے میں مصروف ہو گئے۔ عَرْفَجہؓ توجیساکہ ذکر ہوا مالِ غنیمت لے کر مدینہ چلے گئے اور حضرت عِکْرِمَہؓ اپنے لشکر لے کر مَھْرَہ کی بغاوت کا سدباب کرنے کے لیے روانہ ہو گئے۔(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمدصلابی مترجم صفحہ 338-339مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)( حضرت ابوبکر صدیق ؓازمحمدحسین ہیکل مترجمہ شیخ احمدپانی پتی ، صفحہ244-245)

حضرت عِکْرِمَہؓ کی مرتد باغیوں کے خلاف مہمات

کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓنے ایک جھنڈا حضرت عِکْرِمَہؓ کو دیا تھا اور ان کو مُسَیْلِمہ کے مقابلہ کا حکم دیا تھا۔(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 257 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ)

حضرت ابوبکرؓ نے عِکْرِمَہ کو

مُسَیْلِمہ کے مقابلے کے لیے یمامہ کی طرف روانہ

کیا اور ان کے پیچھے حضرت شُرَحْبِیلبن حسنہؓ کو بھی یمامہ بھیجا تھا۔ حضرت ابوبکرؓنے ان دونوں کے لیے یمامہ کا نام لیا البتہ عِکْرِمَہؓ سے فرمایا کہ جب تک شُرَحْبِیلنہ پہنچ جائیں حملہ نہیں کرنا لیکن عِکْرِمَہ نے جلدی کی جیساکہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اور شُرَحْبِیل کے آنے سے پہلے آگے بڑھ کر حملہ کر دیا اور مُسَیْلِمہ نے ان کو پیچھے دھکیل دیا۔ شکست کھا کر وہ پیچھے ہٹ گئے۔ حضرت شُرَحْبِیلبن حسنہؓ کو جب واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ جہاں تھے وہیں ٹھہر گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے شُرَحْبِیل کو لکھا کہ تم یمامہ کے قریب ہی مقیم رہو یہاں تک کہ تمہیں میرا دوسرا حکم موصول ہو۔(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 291مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

اور حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عِکْرِمَہؓ کو یہ لکھا کہ مَیں اب تمہاری شکل نہیں دیکھوں گا، پہلے بھی بیان ہو چکا ہے، اور نہ ہی تمہاری کوئی بات سنوں گا مگر بعد اس کے کہ تم کوئی کارہائے نمایاں سرانجام دو۔ کوئی غیر معمولی کام کر کے دکھاؤ پھر ٹھیک ہے، پھر میرے پاس آنا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ

تم عُمان جاؤ اور اہلِ عُمان سے لڑو اور حُذَیفہؓ اور عَرْفَجہؓ کی مدد کرو۔

بہرحال عُمان جیساکہ بیان ہو چکا ہے کہ خلیج فارس کا حصہ تھا جس میں ان دنوں آج کے متحدہ عرب امارات کے مشرقی علاقے بھی شامل تھے۔ یہاں بت پرست قبیلہ ازد اور دیگر قبائل آباد تھے جو مجوسی تھے۔ مسقط، صُحار اور دبا یہاں کے ساحلی شہر تھے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم میں ہر ایک شخص اپنے گھڑ سواروں کا سردار رہے گا البتہ جب تک تم لوگ حُذَیفہؓ کے زیرِ نگرانی علاقے میں رہو گے وہ تم سب کے امیر ہوں گے۔ جب تم لوگ فارغ ہو جاؤ تو پھر مَھْرَہ چلے جانا، پھر وہاں سے یمن چلے جانا یہاں تک کہ یمن اور حضْرمَوت کی کارروائیوں میں مہاجر بن ابواُمَیَّہ کے ساتھ رہنا اور عُمان اور یمن کے درمیان جن لوگوں نے ارتداد اختیار کیا ہے ان کی سرکوبی کرنا اور مجھے جنگ میں تمہارے کارہائے نمایاں کی خبر پہنچتی رہے۔(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 291مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)(اٹلس سیرت نبویﷺ صفحہ 68مکتبہ دار السلام الریاض 1424ھ)

یہ حضرت ابوبکرؓنے ارشاد فرمایا۔ بہرحال عِکْرِمَہ کی روانگی سے قبل حضرت ابوبکرؓ کی ہدایت کے مطابق حُذَیفہ بن مِحْصَن غَلْفانیؓ عُمان اور عَرْفَجہ بارقیؓ مَھْرَہ کے مرتدین سے لڑنے کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کے حکم کے مطابق عِکْرِمَہ اپنی فوج کے ساتھ عَرْفَجہؓ اور حُذَیفہؓ کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے اور قبل اس کے کہ وہ دونوں عُمان پہنچتے عِکْرِمَہان سے جا ملے۔ اس سے قبل حضرت ابوبکرؓنے ان دونوں کو یہ تاکیدی حکم دے دیا تھا کہ عُمان سے فارغ ہونے کے بعد وہ عِکْرِمَہ کی رائے پر عمل کریں چاہے وہ ان کو اپنے ساتھ لے لیں یا عُمان میں ٹھہرنے کا حکم دیں۔ بہرحال پھر جیساکہ ذکر ہو چکا ہے جب یہ تینوں امیر عُمان کے قریب ایک مقام رجام میں باہم جا ملے تو انہوں نے جَیْفر اور عَبَّاد کے پاس اپنے پیامبر بھیجے اور دوسری طرف جب لَقِیط کو ان کی فوج کی آنے کی خبر ہوئی تو اس نے اپنی جماعتوں کو اکٹھا کیا اور دَبا میں آ کر پڑاؤ ڈالا۔ جَیْفر اور عَبَّادبھی اپنی اپنی قیام گاہوں سے نکلے۔ انہوں نے صُحار میں آ کر پڑاؤ کیا۔ حُذَیفہؓ،عَرْفَجہؓ اور عِکْرِمَہکوکہلا بھیجا کہ آپ سب ہمارے پاس آ جائیں۔ چنانچہ جیساکہ ذکر ہوا ہے وہ سب ان دونوں کے پاس صُحار میں جمع ہو گئے اور اپنے متصلہ علاقے کو مرتدین سے پاک کر دیا یہاں تک کہ اپنے قرب و جوار میں سب لوگوں سے صلح ہو گئی۔ نیز ان امراء نے لَقِیط کے ساتھی سرداروں کو خطوط لکھے۔ انہوں نے بنو جُدَید کے رئیس سے ابتدا کی۔ اس کے جواب میں سرداروں نے بھی مسلمانوں کو خطوط لکھے۔ جیساکہ ذکر ہوا ہے اس کے نتیجہ میں سردار لَقِیط سے علیحدہ ہو گئے۔ اس کے بعد لَقِیط کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کی شدید لڑائی ہوئی اور اس کی تفصیل پہلے آ چکی ہے ۔ اس معرکے کے بعد عِکْرِمَہؓ اور حُذَیفہؓ اس رائے پر متفق ہوئے کہ حُذَیفہؓ عُمان میں ہی قیام کریں اور معاملات کو سلجھائیں اور لوگوں کو امن دلائیں اور حضرت عِکْرِمَہؓ مسلمانوں کی بڑی فوج کے ساتھ دوسرے مشرکین کی سرکوبی کے لیے آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے مَھْرَہسے اپنی جنگی کارروائی کی ابتدا کی۔(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 292 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

حضرت عِکْرِمَہؓ کی مَھْرَہ قبیلہ کی طرف پیش قدمی

کے بارہ میں آتا ہے کہ عُمان کے مرتدین کی سرکوبی سے فارغ ہونے کے بعد عِکْرِمَہ اپنے لشکر کے ہمراہ نجد کے علاقے مَھْرَہ قبیلہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ لکھا ہے کہ انہوں نے اہلِ عُمان اور عُمان کے ارد گرد کے لوگوں سے اپنی اس مہم کے لیے مدد طلب کی۔ وہ چلتے رہے یہاں تک کہ مَھْرَہ قبیلے کے علاقے میں پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ مختلف قبائل کے لوگ تھے یہاں تک کہ عِکْرِمَہ نے مَھْرَہ قبیلے اور اس کے مضافاتی علاقوں پر چڑھائی کر دی۔ ان کے مقابلہ کے لیے مَھْرَہکے لوگ دو گروہوں میں تقسیم تھے۔ ایک گروہ بمقام جَیروتمیں ایک شخص شِخْرِیت کی سرکردگی میں مورچہ زن تھا۔ دوسرا گروہ نجد میں بنو مُحارب کے ایک شخص مُصَبَّح کی سرکردگی میں تھا۔ دراصل تمام مَھْرَہ اسی لشکر کے سردار کے تابع تھا سوائے شِخْرِیت اور اس کی جمعیت کے۔ یہ دونوں سردار ایک دوسرے کے مخالف تھے اور ایک دوسرے کو اپنی طرف بلاتے تھے اور ان دونوں فوجوں میں سے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ ان کے سردار کو ہی کامیابی حاصل ہو۔ یہی وہ بات تھی جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کی اور ان کو ان کے دشمنوں کے خلاف مضبوط کیا اور دشمنوں کو کمزور کر دیا۔ جب عِکْرِمَہؓ نے شِخْرِیت کے ہمراہ تھوڑی تعدادمیں لوگ دیکھے تو انہوں نے اسے اسلام کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی۔ یہ پہلے مسلمان تھا۔ اسے کہا کہ دوبارہ مسلمان ہو جاؤ اور اب مسلمانوں سے جنگ نہ کرو۔ چنانچہ اس ابتدائی تحریک پر ہی شِخْرِیت نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا اور اس طرح اللہ نے مُصَبَّح کو کمزور کر دیا۔ پھر عِکْرِمَہؓ نے مُصَبَّح کی طرف پیغامبر بھیجا اور اسے اسلام کی طرف واپس آنے اور کفر سے لوٹنے کی دعوت دی مگر اس کے ساتھ لوگوں کی جو کثیر تعداد تھی اس کثرت نے اس کو دھوکا دیا۔ شِخْرِیت کے اسلام لانے کی وجہ سے مُصَبَّح اور شِخْرِیت میں دوری مزید بڑھ گئی۔ بہرحال عِکْرِمَہؓ نے اس کی طرف پیش قدمی کی اور شِخْرِیت بھی آپؓ کے ساتھ تھا۔ ان دونوں کا نجد میں مُصَبَّح کےساتھ مقابلہ ہوا اور انہوں نے یہاں دَبا سے بھی زیادہ شدید جنگ کی۔

اللہ نے مرتد باغیوں کے لشکر کو شکست دی اور ان کا سردار مارا گیا۔

مسلمانوں نے بھاگنے والوں کا تعاقب کیا اور ان میں سے بہت سی تعداد کو قتل کیا اور بکثرت قیدی بنائے گئے اور مال غنیمت میں دو ہزار کی تعداد میں عمدہ نسل کی اونٹنیاں بھی مسلمانوں کے ہاتھ آئیں۔

حضرت عِکْرِمَہؓ نے مالِ غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا اور شِخْرِیتکو خُمُس کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کی طرف روانہ کر دیا۔ باقی چار حصے انہوں نے مسلمانوں میں تقسیم کر دیے۔ اس طرح عِکْرِمَہؓ کا لشکر سواریوں اور مال و متاع اور سازو سامان کی وجہ سے مزید طاقتور ہو گیا۔ حضرت عِکْرِمَہؓ نے وہیں قیام کر کے اس علاقے کے تمام لوگوں کو جمع کیا اور ان سب نے اسلام قبول کر لیا۔ حضرت عِکْرِمَہؓ نے اس فتح کی خوشخبری سائب نامی ایک شخص کے ذریعہ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں پہنچائی۔(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 292-293 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

پھر

حضرت عِکْرِمَہؓ کی یمن کی طرف پیش قدمی کا ذکر

ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے خط میں جس کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے حضرت عِکْرِمَہؓ کو ہدایت دی تھی کہ مَھْرَہ کےبعد یمن چلے جانا اور یمن اور حَضْرمَوت کی کارروائیوںمیں حضرت مہاجر بن ابو امیہ کے ساتھ رہنا اور عُمان اور یمن کے درمیان جن لوگوں نے ارتداد اختیار کیا ہے ان کی سرکوبی کرنا۔(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 291مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

چنانچہ حضرت عِکْرِمَہؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اِس ارشاد کی تکمیل میں مَھْرَہ سے نکل کر یمن کی طرف پیش قدمی کی یہاں تک کہ اَبْیَن جا پہنچے۔ اَبْیَن بھی یمن کی ایک بستی ہے۔ ان کے ساتھ ایک بہت بڑا لشکر تھا جس میں قبیلہ مَھْرَہ اور دوسرے قبائل کے بہت سے لوگ شامل تھے۔ حضرت عِکْرِمَہؓ نے اپنا مکمل قیام جنوبی یمن میں ہی رکھا اور وہاں نَخَعْ اور حِمْیَرْ کے قبائل کی سرکوبی میں مشغول رہے اور شمالی یمن کی طرف بڑھنے کی نوبت ہی نہ آئی۔

حضرت عِکْرِمَہؓ نے قبیلہ نَخَعْ کےمفرور لوگوں کو پکڑ لینے کے بعد اس قبیلے کے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ تم لوگوں کی اسلام کے بارے میں کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ جاہلیت کے زمانے میں بھی ہم اہلِ مذہب تھے، مذہب سے ہمیں لگاؤ تھا، ہم عرب ایک دوسرے پر چڑھائی نہیں کرتے تھے تو ہمارا اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم اس دین میں داخل ہو جائیں جس کی فضیلت سے ہم واقف ہو چکے ہیں اور اس کی محبت ہمارے دلوں میں داخل ہو چکی ہے، یعنی اسلام کی محبت ہمارے دلوں میں اب داخل ہو چکی ہے۔ حضرت عِکْرِمَہؓ نے جب ان کے بارے میں تحقیقات کیں کہ دل سے یہ کہہ رہے ہیں یا صرف جان بچانے کے لیے تو معلوم ہوا کہ معاملہ ویسا ہی ہے جیساکہ انہوں نے بیان کیا تھا۔ وہ حقیقت میں صحیح بیان دے رہےتھے۔ ان کے عوام بدستور اسلام پر ثابت قدم رہے البتہ ان کے خواص میں سے جو مرتد ہو گئے تھے وہ بھاگ گئے۔ اس طرح

حضرت عِکْرِمَہؓ نے نَخَعْاورحِمْیَرْقبائل کو ارتداد کے الزام سے

بری قرار دیا اور وہ ان کو جمع کرنے کے لیے وہیں مقیم رہے۔(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 298 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)(حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 233مطبوعہ بک کارنر شو روم جہلم)(معجم البلدان جلد1صفحہ109 )

اَبْیَن میں حضرت عِکْرِمَہؓ کی اقامت سے اَسْوَد عَنْسِی کی باقی ماندہ جماعت پر گہرا اثر پڑا جس کی قیادت قَیس بن مَکشوح اور عمرو بن مَعدی کَرِبْکر رہے تھے۔ صنعا سے بھاگنے کے بعد قَیس صنعا کے مابین چکر کاٹتا رہا اور عمرو بن مَعدی کَرِبْ، اَسْوَدعَنْسِی کی لَحْج میں موجود پارٹی میں شامل ہوا تھا لیکن جب حضرت عِکْرِمَہؓ اَبْیَن پہنچے تو دونوں یعنی قَیْس اور عمرو بن مَعدی کَرِبْ آپ سے قتال کے لیے اکٹھے ہو گئے، جنگ کے لیے تیار ہو گئے، لیکن جلد ہی دونوں میں اختلاف ہوا اور ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ اس طرح حضرت عِکْرِمَہؓ کے مشرق کی طرف سے آنے نے لَحْج میں موجود مرتدین کی جماعتوں کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کیا۔(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از صلابی مترجم صفحہ 304مکتبہ الفرقان مظفر گڑھ )

یمن کے ساتھ ہی

کِنْدَہ قبیلہ

آباد تھا جو حَضْرمَوت کے علاقے میں تھا۔ اس علاقے کے عامل حضرت زیاد بن لبیدؓ تھے۔ انہوں نے زکوٰۃ کے بارے میں سختی کی تو ان کے خلاف بغاوت برپا ہو گئی۔ چنانچہ حضرت عِکْرِمَہؓ اور حضرت مہاجر بن ابو امیہؓ دونوں ان کی مدد کے لیے پہنچے۔ اس کی تفصیل جو ہے وہ حضرت مہاجر بن امیہؓ کے ضمن میں بیان ہو جائے گی۔ بہرحال جب حضرت عِکْرِمَہؓ نے مرتدین سے مہمات کے بعد مدینہ لَوٹنے کی تیاری شروع کر دی تو ان کے ہمراہ نعمان بن جَوْن کی بیٹی بھی تھی جس سے انہوں نے میدانِ جنگ میں شادی کر لی تھی۔ اگرچہ انہیں علم تھا کہ اس سے پہلے اُمّ تمیم اور مَجَاعہکی بیٹی سے شادی کر لینے کے باعث حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت خالد بن ولیدؓ پر سخت ناراض ہوئے تھے، اس کا پہلے تفصیلی ذکر گذشتہ خطبہ میں ہوچکا ہے۔ لیکن انہوں نے یعنی حضرت عِکْرِمَہؓنے اس کے باوجود اس سے شادی کر لی۔ اس پر حضرت عِکْرِمَہؓ کی فوج کے کئی افراد نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔یہ معاملہ حضرت مہاجرؓ کے سامنے پیش کیا گیا مگر وہ بھی کوئی فیصلہ نہ کر سکے اور یہ تمام حالات حضرت ابوبکر صدیق ؓکی خدمت میں لکھ کر ان سے رائے دریافت کی۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریر فرمایا کہ عِکْرِمَہ نےشادی کر کے کوئی نامناسب کام نہیں کیا۔

بعض لوگ جو ناراض تھے ان کی بہرحال تسلی ہو گئی۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ کچھ لوگ جو حضرت عِکْرِمَہؓ سے ناراض ہوئے تھے ان کی ناراضگی کا پس منظر یہ تھا کہ نعمان بن جَوْننے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بیٹی کو اپنے عقدِ زوجیت میں قبول فرما لیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرما دیا اور اس کی بیٹی کو اس کے والد کے ساتھ ہی واپس روانہ کر دیا۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لڑکی کو ردّ کر چکے تھے اس لیے حضرت عِکْرِمَہؓ کی فوج کے ایک حصہ کا خیال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے حضرت عِکْرِمَہؓ کو بھی اس لڑکی سے شادی نہیں کر نی چاہیے تھی لیکن حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ دلیل تسلیم نہیں کی۔ انہوں نے کہا یہ بالکل غلط ہے اور

حضرت عِکْرِمَہؓ کی شادی کو جائز قرار دیا۔

حضرت عِکْرِمَہؓ اپنی بیوی کے ہمراہ مدینہ واپس آ گئے اور لشکر کا وہ حصہ بھی جو ان سے خفا ہو کر علیحدہ ہو گیا تھا وہ دوبارہ ان سے آ ملا۔(حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 242،243 شرکت پرنٹنگ پریس لاہور)

اسماء بنت نعمان بن جَوْن، جس لڑکی کا ذکر ہے اس کا مختصر تعارف

یہ ہے۔ حضرت عِکْرِمَہؓ نے جس خاتون سے شادی کی تھی بخاری اور دیگر کتب احادیث میں اس کی بابت روایات مذکور ہیں۔ اس خاتون کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا تاہم رخصتی سے قبل ہی اس سے ایسی حرکت سرزد ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کو واپس اس کے قبیلے میں بھجوا دیا۔ ان کے نام سمیت واقعات میں بہت اختلاف بھی ہیں۔ بعض نے ان کی شادی حضرت مہاجر بن ابی امیہ سے بھی بیان کی ہے۔ بہرحال اس واقعہ کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا ہے کہ جب عرب فتح ہوا اور اسلام پھیلنے لگا تو کِنْدَہ قبیلہ کی ایک عورت جس کا نام اسما یا اُمَیمہ تھا اور وہ جَوْنیہ یا بنت الجَوْن بھی کہلاتی تھی۔ اس کا بھائی لقمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم کی طرف سے بطور وفد حاضر ہوا اور اس موقع پر اس نے یہ بھی خواہش کی کہ اپنی ہمشیرہ کی شادی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دے اور بالمشافہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست بھی کر دی کہ میری ہمشیرہ جو پہلے ایک رشتہ دار سے بیاہی ہوئی تھی اب بیوہ ہے، نہایت خوبصورت اور لائق ہے، آپ اس سے شادی کر لیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ قبائلِ عرب کا اتحاد منظور تھا آپؐ نے اس کی یہ دعوت منظور کر لی اور فرمایا ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی پر نکاح پڑھ دیا جائے۔ اس نے کہا یا رسول اللہؐ! ہم معزز لوگ ہیں مہر تھوڑا ہے۔

آپؐ نے فرمایا اس سے زیادہ مَیں نے اپنی کسی بیوی یا لڑکی کا مہر نہیں باندھا۔

جب اس نے رضامندی کا اظہار کر دیا تو نکاح پڑھا گیا اور اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ کسی آدمی کو بھیج کر اپنی بیوی منگوا لیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواُسَیدکواس کام پر مقرر کیا۔ وہ وہاں تشریف لے گئے۔ جَوْنیہ نے ان کو اپنے گھر بلایا تو حضرت ابو اُسَیدؓ نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں پر حجاب نازل ہو چکا ہے۔ اس پر اس نے دوسری ہدایات دریافت کیں جو آپؓ نے بتا دیں اور اونٹ پر بٹھا کر مدینہ لے آئے اور ایک مکان میں جس کے گرد کھجوروں کے درخت بھی تھے لا کر اتارا۔ اس کے ساتھ اس کی دایہ بھی اس کے رشتہ داروں نے روانہ کی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ جس طرح ہمارے ملک میں بھی امیر لوگ جو ہیں ایک بے تکلف نوکر ساتھ کر دیتے ہیں تاکہ اسے یعنی لڑکی کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ چونکہ یہ عورت حسین مشہور تھی اور یوں بھی عورتوں کو دلہن دیکھنے کا شوق ہوتا ہے، مدینہ کی عورتیں اس کو دیکھنے گئیں اوراس عورت کے بیان کے مطابق کسی عورت نے اس کو سکھا دیا کہ رعب پہلے دن ہی ڈالا جاتا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس آئیں تو کہہ دینا کہ مَیں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، اس پر وہ تیرے زیادہ گرویدہ ہو جائیں گے۔ حضرت مصلح موعودؓلکھتے ہیں کہ اگر یہ بات اس عورت کی بنائی ہوئی نہیں ہے یعنی جس کی شادی تھی تو کچھ تعجب نہیں کہ اس طرح کا فقرہ کہلوانا

کسی منافق نے اپنی بیوی یا اَور کسی رشتہ دار کے ذریعہ یہ شرارت کی ہو،

غرض جب اس کی آمد کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپؐ اس گھر کی طرف تشریف لے گئے جو اس کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ احادیث میں لکھا ہے کہ، اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے تو آپؐ نے اس سے فرمایا کہ تُو اپنا نفس مجھے ہبہ کر دے۔ اس نے جواب دیا کہ کیا ملکہ بھی اپنے آپ کو عام آدمیوں کے سپرد کیا کرتی ہے؟ نعوذ باللہ اپنے آپ کو بڑا ظاہر کیا۔ ابواُسَیدؓ کہتے ہیں کہ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال سے کہ اجنبیت کی وجہ سے گھبرا رہی ہے اسے تسلی دینے کے لیے اس پر اپنا ہاتھ رکھا۔ آپؐ نے اپنا ہاتھ ابھی رکھا ہی تھا کہ اس نے یہ نہایت ہی گندا اور نامعقول فقرہ کہہ دیا کہ مَیں تجھ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں۔ چونکہ نبی خداتعالیٰ کا نام سن کر ادب کی روح سے بھر جاتا ہے اور اس کی عظمت کا متوالا ہو تا ہے۔ اس کے اس فقرے پر آپؐ نے فوراً فرمایا کہ تُو نے ایک بڑی ہستی کا واسطہ دیا ہے اور اس کی پناہ مانگی ہے جو بڑا پناہ دینے والا ہے اس لیے میں تیری درخواست کو قبول کرتا ہوں۔ چنانچہ آپؐ اسی وقت باہر تشریف لے آئے اور فرمایا کہ اے ابواُسَید! اسے دو چادریں دے دو اور اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو۔ چنانچہ

اس کے بعد اسے مہر کے حصہ کے علاوہ بطور احسان دو رازقی چادریں دینے کا بھی حکم دیا۔

بڑی اچھی سفید لمبی سوتی چادریں تھیں تاکہ قرآن کریم کا حکم وَلَا تَنسَوُاْ الۡفَضۡلَ بَیۡنَکُمۡ پورا ہو جو ایسی عورتوں کے متعلق ہے جن کو بلا صحبت طلاق دے دی جائے۔ اور آپؐ نے اسے رخصت کر دیا اور ابواُسَیدؓ ہی اس کو اس کے گھر پہنچا آئے۔ اس کے قبیلے کے لوگوں پر یہ بات نہایت شاق گزری اور انہوں نے اس کو ملامت کی مگر وہ یہی جواب دیتی رہی کہ یہ میری بدبختی ہے اور بعض دفعہ اس نے یہ بھی کہا کہ مجھے ورغلایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس آئیں تو تم پرے ہٹ جانا اور نفرت کا اظہار کرنا اس طرح ان پر تمہارا رعب قائم ہو جائے گا۔ معلوم نہیں یہی وجہ ہوئی یا کوئی اَور، بہرحال اس نے نفرت کا اظہار کیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے علیحدہ ہو گئے اور اسے رخصت کر دیا۔(ماخوذ از تفسیر کبیرجلد 2 صفحہ 533تا 535)

مَیں ایک صحابی حضرت اسیدؓ کے ذکر میں یہ پہلے بھی بیان کر چکاہوں۔ بہرحال حضرت عِکْرِمَہؓ کِندہ، حَضْرمَوت سے یمن اور مکہ کے راستے واپس ہوئے۔ جب آپؓ مدینہ پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ نے آپ کو حکم دیا کہ خالد بن سعید کی مدد کے لیے روانہ ہو جائیں۔ حضرت عِکْرِمَہؓ نے اپنی فوج کو جس نے آپ کے ساتھ ارتداد کی جنگوں میں شرکت کی تھی چھٹی دے دی تھی۔ حضرت ابوبکرؓنے ان کے بدلے دوسری فوج تیار کی۔ اس لیے چھٹی دے دی کہ اب تم لوگ تھک گئے ہو گے، کافی بڑی مہمات کر کے آئے ہو۔ بہرحال حضرت ابوبکرؓ نے دوسری فوج تیار کی اور انہیں حکم دیا کہ عِکْرِمَہؓکے پرچم تلے شام کے لیے روانہ ہو جائیں۔(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از صلابی مترجم صفحہ 433 حاشیہ مطبوعہ مکتبہ الفرقان مظفر گڑھ )

وہاں حضرت عِکْرِمَہؓ نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے اور بڑی دلیری سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا اس کی تفصیل ان شاء اللہ شام کی مہمات میں بیان ہو جائے گی۔

پھر

پانچویں مہم

جو تھی

حضرت شُرَحْبِیل بن حسنہؓ کی مرتد باغیوں کے خلاف مہم

تھی۔ حضرت ابوبکرؓنے حضرت عِکْرِمَہؓ کو مُسَیْلِمہ کی طرف یمامہ کے علاقے میں بھیجا اور ان کے پیچھے حضرت شُرَحْبِیلبن حسنہؓ کو بھی یمامہ کی طرف روانہ فرمایا۔ حضرت شُرَحْبِیل بن حسنہؓ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ حضرت شُرَحْبِیلبن حسنہؓ کے والد کا نام عبداللہ بن مُطاع تھا اور والدہ کا نام حسنہ تھا۔ بعض لوگوں انہیں کِندی اور بعض تمیمی کہتے ہیں۔ شُرَحْبِیل کے والد بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اور یہ اپنی والدہ حسنہ کے نام پر شُرَحْبِیلبن حسنہ کہلائے۔ حضرت شُرَحْبِیلابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ آپؓ نے اپنے بھائیوں کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور جب حبشہ سے واپس آئے تو مدینہ میں آپؓ بنو زُرَیقکے مکانوں میں قیام پذیر ہوئے۔ خلافتِ راشدہ میں یہ مشہور سپہ سالاروں میں سے ایک تھے۔ اٹھارہ ہجری میں ستاسٹھ سال کی عمر میں طاعون عَمواس میں وفات پائی۔(ماخوذاز اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 2صفحہ 619-620،دارالکتب العلمیۃ بیروت)

بہرحال جیساکہ ذکر ہو چکا ہے کہ عِکْرِمَہؓ نے حضرت ابوبکرؓکے حکم کے باوجود کہ حضرت شُرَحْبِیلؓ کے پہنچنے سے پہلے حملہ نہ کرنا، انہوں نے جلدی کی اور حضرت شُرَحْبِیلؓ کے آنے سے قبل ہی مُسَیْلِمہ پرحملہ کردیا تاکہ فتح کا سہرہ انہی کے سر بندھے تاہم مُسَیْلِمہ نے ان کو پیچھے دھکیل دیا اور حضرت عِکْرِمَہؓ نے اس ناکامی کی اطلاع جب حضرت ابوبکرؓ کو دی تو جیساکہ پہلے ذکر ہو چکا ہے حضرت ابوبکرؓنے انہیں تنبیہی خط لکھا اور فرمایا کہ یہ شکست کا داغ لے کر مدینہ نہ آنا کہیں لوگوں میں بددلی نہ پھیل جائے اور انہیں عُمان کی طرف جانے کا حکم دیا۔ حضرت شُرَحْبِیل بن حسنہؓ ابھی راستہ میں ہی تھے کہ حضرت عِکْرِمَہؓ کی شکست کی خبر ان کو موصول ہوئی۔ انہوں نے پیش قدمی بند کر دی اور حضرت ابوبکرؓ کو نئی ہدایات کے لیے مراسلہ بھیجا۔ حضرت ابوبکرؓنے ان کو لکھا کہ تم جہاں ہو وہیں ٹھہرے رہو۔(حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط از خورشید احمد فارق ،کتاب میلہ مطبع جاوید بٹ پریس صفحہ 43)

حضرت ابوبکرؓ نے شُرَحْبِیل کو لکھا کہ تم یمامہ کے قریب ہی مقیم رہو

یہاں تک کہ تمہیں میرا دوسرا حکم موصول ہو

اور جس شخص یعنی مُسَیْلِمہ کے مقابلے کے لیے تم کو بھیجا ہے سردست اس کا مقابلہ نہ کرو۔(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 291مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

پھر جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو یمامہ کی مہم پر مامور کیا تو حضرت شُرَحْبِیلبن حسنہؓ کو حکم دیا کہ جب خالد بن ولیدؓ تم سے آ ملیں اور یمامہ کی مہم سے تم بخیر و خوبی فارغ ہو جاؤ تو قبیلہ قُضَاعہ کا رخ کرنا اور حضرت عمرو بن عاصؓ کے ساتھ ہو کر قُضَاعہ کے ان باغیوں کی خبر لینا جو اسلام لانے سے انکار کریں اور اس کی مخالفت پر کمربستہ ہوں۔ صرف انکار نہیں ہے بلکہ مخالفت بھی ہے۔(حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط از خورشید احمد فارق ،کتاب میلہ مطبع جاوید بٹ پریس صفحہ 24)

قُضَاعہ بھی عرب کا ایک مشہور قبیلہ تھا جو مدینہ سے دس منزل پر وادی القُریٰسے آگے مدائن صالح کے مغرب میں آباد تھا۔(فرہنگ سیرت صفحہ 237 زوار اکیڈیمی کراچی)

بہرحال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کے مطابق

حضرت شُرَحْبِیلؓ اپنے لشکر سمیت رکے رہے تاہم مُسَیْلِمہ نے ان پر اپنے لشکر کے ساتھ چڑھائی کر دی۔

اس کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ ابھی حضرت خالد بن ولیدؓ یمامہ کے راستے ہی میں تھے کہ مُسَیْلِمہ کی فوج نے حضرت شُرَحْبِیلؓ کی فوج سے نبرد آزمائی کی اور اسے پیچھے دھکیل دیا۔ کچھ مؤرخین یہ لکھتے ہیں کہ حضرت شُرَحْبِیلؓ نے بھی وہی غلطی کی جو اس سے قبل ان کے پیش رو حضرت عِکْرِمَہ ؓکر چکے تھے یعنی مُسَیْلِمہ پر فتح یابی کا مقام خود حاصل کرنے کے شوق میں آگے بڑھے لیکن انہیں بھی شکست کھا کر پیچھے ہٹنا پڑا تاہم واقعہ ایسا نہیں ہے بلکہ خود یمامہ کے لشکر نے اس خیال سے کہ کہیں حضرت شُرَحْبِیلؓ حضرت خالدؓ سے مل کر انہیں نقصان نہ پہنچائیں آگے بڑھ کر لشکر پر حملہ کر دیا اور شکست دے کر انہیں پیچھے ہٹانے میں کامیاب رہا۔ دونوں میں سے کوئی بات ہوئی ہو مگر واقعہ یہی ہے کہ حضرت شُرَحْبِیلؓ اپنے لشکر لے کر پیچھے ہٹ گئے۔ جب حضرت خالد بن ولیدؓ کے پاس پہنچے اور تمام حالات و واقعات کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت شُرَحْبِیلؓ کو سرزنش کی۔ حضرت خالدؓ کا یہ خیال تھا کہ اگر دشمن سے ٹکر لینے کی پوری طاقت نہ ہو تو بےشک اس وقت تک اس کے مقابلے سے گریز کیا جائے جب تک کہ مطلوبہ طاقت میسر نہ ہو جائے۔ بجائے اس کے کہ طاقت نہ ہونے کے باوجود دشمن سے جنگ چھیڑی جائے اور اس کے نتیجہ میں شکست کھانی پڑے۔(حضرت سیدنا ابوبکرصدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ190 مطبوعہ شرکت پرنٹنگ پریس لاہور)

بہرحال پھر بعد میں حضرت شُرَحْبِیلؓ حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ جنگ میں شریک رہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت شُرَحْبِیلؓ کو مقدمة الجیش پر نگران مقرر کیا یعنی فوج کا جو اگلا حصہ تھا اس کا نگران انہیں بنایا اور میمنہ اور میسرہ دائیں اور بائیں پر زید بن خطاب اور ابو حُذَیفہ بن عتبہ بن ربیعہ کو مقرر فرمایا۔(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمدصلابی مترجم صفحہ 355مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)

یمامہ کی مہم سے فارغ ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ارشاد کے مطابق حضرت شُرَحْبِیلؓ بنوقُضاعہ کے باغیوں کی خبر لینے کے لیےحضرت عمرو بن عاصؓ سے جا ملے۔

چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت شُرَحْبِیلؓ اور حضرت عمرو بن عاصؓ قُضاعہ کے مرتد باغیوں پر حملہ کرنے لگے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے قبیلہ سعد اور بلق پر چڑھائی کی اور حضرت شُرَحْبِیلؓ نے قبیلہ کلب اور اس کے تابع قبائل پر چڑھائی کی۔(تاریخ ابن خلدون جلد2 صفحہ440 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2016ء)

چھٹی مہم

جو ہے یہ حضرت عمرو بن عاصؓ کی مرتد باغیوں کے خلاف مہم تھی۔ حضرت ابوبکرؓنے ایک جھنڈا حضرت عمرو بن عاصؓ کو دیا تھا اور ان کو تین قبائل قُضاعہ، ودیعہ اور حارث کے مقابلے پر جانے کا حکم دیا تھا۔(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 257 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

قُضاعہ بھی عرب کا ایک مشہور قبیلہ ہے جو مدینہ سے دس منزل پر وادی القُریٰ سے آگے مدائن صالح کے مغرب میں آباد ہے۔(فرہنگ سیرت صفحہ237 زوار اکیڈمی کراچی)

حضرت عمرو بن عاصؓ کا بھی مختصر تعارف

یہ ہے کہ آپ کا نام عمرو اور کنیت عبداللہ بن ابو عبد اللہ یا بعض کے نزدیک ابو محمد تھی۔ آپؓ کے والد کا نام عاص بن وائل، آپ کی والدہ کا نام نابغہ بنت حرملہ تھا۔ ایک روایت کے مطابق آپ کی والدہ کا اصل نام سلمیٰ تھا ۔ نابغہ ان کا لقب تھا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے آٹھ ہجری میں فتح مکہ سے چھ ماہ پہلے اسلام قبول کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ ہجری میں آپؓ کو عُمان کا عامل مقرر فرمایا اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اسی منصب پر رہے۔ اس کے بعد آپؓ شام کی فتوحات میں شامل ہوئے اور حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں فلسطین کے حاکم رہے۔ ان کے کارناموں میں سے ایک نمایاں کارنامہ مصر کی فتح بھی ہے۔ فتح مصر کے بعد حضرت عمرؓ نے ان کو مصر کا حاکم بنا دیا۔ حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں مصر کی حکومت سے معزول ہوئے اور فلسطین میں گوشہ نشینی اختیار کی۔ امیر معاویہ نے آپ کو دوبارہ مصر کا حاکم بنایا اور تاوقت وفات آپ اسی خدمت پر متعین رہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی وفات 43؍ہجری میں ہوئی، بعض کے نزدیک 47؍ہجری میں ہوئی، بعض 48؍کہتے ہیں، بعض 51؍ہجری میں کہتے ہیں لیکن 43؍ہجری میں وفات والا قول عموماً درست تسلیم کیا جاتا ہے۔( اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 232 تا 234 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2016ء)

حضرت عمرو بن عاصؓ بڑے خوش گفتار اور شیریں بیان خطیب تھے۔ قادر الکلام مدبر تھے، سیاست دان اور سپہ سالار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عسکری مہموں میں ان پر اعتماد فرماتے تھے۔ عمرو بن عاص، ان کے بیٹے عبداللہ اور اُمّ عبداللہ پر مشتمل خاندان کو بہترین گھرانہ قرار دیا گیا۔(اٹلس سیرت نبوی صفحہ 386دارالسلام پاکستان)

ایک مصنف لکھتا ہے کہ

حضرت ابوبکرؓنے جو گیارہ عَلم تیار کرائے تھے

ان میں سے ایک عَلم حضرت عمرو بن عاصؓ کے لیے بھی تھا۔

آپ نے انہیں قُضاعہ کے مرتدین سے جنگ کرنے کا کام سپرد کیا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی جنگ ذات السَّلاسِل میں قبیلہ قُضاعہ سے لڑ چکے تھے اور اس قبیلہ کے تمام حالات اور تمام راستوں سے بخوبی واقف تھے۔(فاتح اعظم حضرت عمرو بن العاصؓ از محمد فرج مصری مترجم صفحہ109مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن عاص کو ذوالحجہ 8؍ہجری میں عُمان کے دو رئیسوں جَیْفراورعَبَّادپسران جُلندی کے پاس ایک تبلیغی خط دے کر روانہ فرمایا تھا۔ یہ سفارت نہایت کامیاب رہی اور اہل عُمان حضرت عمرو بن عاصؓ کے ہاتھ پر اسلام لے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہارِ خوشنودی کے طور پر آپ کو عُمان ہی میں زکوٰۃ کی وصولی کے کام پر مقرر فرما دیا۔ آپؓ عُمان ہی میں مقیم تھے کہ آپؓ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خط کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی۔ آپؐ کی وفات کے بعد عرب کے بیشتر قبائل مرتد ہو گئے۔ ان کی سرکوبی کے لئے حضرت ابوبکرؓ نے عمرو بن عاص کو عُمان سے طلب فرمایا تو آپ حضرت ابوبکرؓ کے حکم کی تعمیل میں عُمان سے مدینہ آ گئے۔(ماخوذ از سیرت حضرت عمرو بن العاصؓ از ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن مترجم صفحہ49تا53مطبوعہ مکتبہ جدید لاہور)

جب فتنۂ ارتداد اور بغاوت کے سد باب کے لیے حضرت ابوبکرؓ نے گیارہ امراء مقرر فرمائے تھے تب حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت شُرَحْبِیل بن حسنہؓ کو حکم دیا تھا کہ جب یمامہ کی مہم سے تم بخیرو خوبی فارغ ہو جاؤ تو قبیلہ قُضاعہ کا رخ کرنا اور حضرت عمرو بن عاصؓ کے ساتھ ہو کر قُضاعہ کے ان باغیوں کی خبر لینا جو اسلام لانے سے انکار کریں اور اس کی مخالفت پر کمربستہ ہوں۔(حضرت ابو بکر کے سرکاری خطوط از خورشید احمد فارق ،کتاب میلہ مطبع جاوید بٹ پریس صفحہ 43)

چنانچہ حضرت عمرو بن عاصؓ اور حضرت شُرَحْبِیلؓ دونوں نے مل کر بنو قُضاعہ کے باغیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا اور ان پر چھاپے مارنے لگے۔ اس کی تفصیل میں ایک مصنف لکھتے ہیں کہ بنوقُضاعہ خوشی سے اسلام میں داخل نہ ہوئے تھے بلکہ دیگر قبائل کی طرح انہوں نے بھی خوف کے باعث یا مال و جاہ کی طمع میں اسلام قبول کیا تھا اور ان کے دل اسلام کی محبت سے خالی تھے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جونہی انہیں مسلمانوں کی کمزوری کا احساس ہوا انہوں نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا۔ بارگاہِ خلافت سے حکم ملتے ہی عمرو بن عاص اپنے لشکر کے ساتھ اسی رستے سے جُذام کی جانب روانہ ہوئے جس سے پہلے گئے تھے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ بنو قُضاعہ جنگ کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ مقابلہ شروع ہوا گھمسان کا رَن پڑا۔ پہلے کی طرح اب بھی قُضاعہ کو شکست کھانی پڑی اور حضرت عمرو بن عاصؓ ان سے زکوٰة لے کر اور انہیں دوبارہ حلقہ بگوش اسلام بنا کر مظفر و منصور مدینہ واپس آ گئے۔(فاتح اعظم حضرت عمرو بن العاصؓ از محمد فرج مصری مترجم صفحہ109مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)

باقی جو مہمات ہیں ان کا ذکر ان شاء اللہ آئندہ ہو گا۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 17؍ جون 2022ء شہ سرخیاں

    چونکہ نبی خدا تعالیٰ کا نام سن کر ادب کی روح سے بھر جاتا ہے اور اس کی عظمت کا متوالا ہو تا ہے اس [لیے اپنی نوبیاہتا بیوی کے ایک] فقرے پرآپؐ نے فوراً فرمایا کہ تُو نے ایک بڑی ہستی کا واسطہ دیا ہے اور اس کی پناہ مانگی ہے جو بڑا پناہ دینے والا ہے اس لیے مَیں تیری درخواست کو قبول کرتا ہوں چنانچہ آپؐ اسی وقت باہر تشریف لے آئے اور فرمایا کہ اے ابواُسَید! اسے دو چادریں دے دو اور اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو۔

    آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت دَور میں باغی مرتدین کے خلاف ہونے والی مہمات کا تذکرہ۔

    فرمودہ 17؍جون 2022ء بمطابق 17؍احسان 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے۔

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور