حضرت ابوبکر صدیقؓ

خطبہ جمعہ 15؍ جولائی 2022ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

مسلمانوں کی مرتدین باغیوں کے خلاف کارروائیوں کا ذکر

ہو رہا ہے۔ اس بارے میں

حضرت مُہَاجرؓاور حضرت عکرمہ ؓکی کِنْدَہ اور حَضْرمَوت کے علاقوں میں مرتدین کے خلاف جو کارروائیاں

تھیں اس میں مزید بیان ہوا ہے کہ جب صنعاء میں حضرت مُہَاجرؓ کو استقرار حاصل ہو گیا، پاؤں ٹک گئے تو آپؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو خط کے ذریعہ سے اپنی تمام کارروائیوں سے مطلع کیا اور جواب کا انتظار کرنے لگے اور اسی وقت مُعاذ بن جبلؓ اور یمن کے دیگر عُمال نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور سے چلے آ رہے تھے حضرت ابوبکرؓ کو خطوط ارسال کیے اور مدینہ واپس آنے کی اجازت طلب کی تو حضرت ابوبکرؓ نے مُعاذبن جبلؓ اور ان کے ساتھ دیگر عُمَّال کو اختیار دیا کہ چاہیں تو یمن میں رہیں اور چاہیں تو مدینہ واپس آ جائیں لیکن اپنی جگہ کسی کو مقرر کر کے آئیں۔ اختیار ملنے کے بعد تمام ہی لوگ مدینہ واپس آ گئے اور حضرت مُہَاجرؓ کو حکم ملا کہ عکرمہ سے جا ملو۔ پھر دونوں مل کر حَضْرمَوت پہنچو اور زِیاد بن لبید کا ساتھ دو اور ان کو ان کے عہدے پر باقی رکھتے ہوئے حکم فرمایا کہ تمہارے ساتھ مل کر جو لوگ مکہ اور یمن کے درمیان جہاد کرتے رہے ہیں انہیں لَوٹنے کی اجازت دے دو، واپس آنا چاہیں تو واپس آ جائیں مگر یہ کہ بذات خود جہاد میں شرکت کو ترجیح دیں۔(سیدنا ابوبکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹرعلی محمدصلابی صفحہ 305، الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ)سوائے اس کے کہ خود لوگ کہیں کہ ہم جہاد میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔

عکرمہ کو حضرت ابوبکرؓ کا خط موصول ہوا۔ اس میں انہیں حکم دیا گیا تھا کہ مُہَاجر بن ابو امیہ سے جا ملو جو صنعاء سے آ رہے ہیں اور پھر دونوں مل کر کِنْدَہ قبیلے کا رخ کرو۔ یہ خط پا کے عکرمہ مَھْرَہ سے نکلے اور اَبْیَنْ میں قیام پذیر ہو کر مُہَاجر بن ابو امیہ کا انتظار کرنے لگے۔ اَبْیَنْ بھی یمن کی ایک بستی کا نام ہے۔(سیدنا ابوبکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹرعلی محمدصلابی صفحہ 305 الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ)

کِنْدَہ قبیلہ کے مرتدین کے خلاف کارروائیوں کے متعلق

تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ ارتداد سے پہلے جب کِنْدَہ اور حَضْرمَوت کا سارا علاقہ اسلام لے آیا۔ ان سے زکوٰة وصول کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ حَضْرمَوت میں سے بعض لوگوں کی زکوٰۃ کِنْدَہ میں جمع کی جائے اور بعض اہلِ کِنْدَہ کی زکوٰة حَضْرمَوت میں جمع کی جائے یعنی ان کو وہاں بھجوا دی جائے، ایک دوسرے پر خرچ ہو اور اہلِ حَضْرمَوت میں سے بعض کی زکوٰة سَکُوْن میں جمع کی جائے اور بعض اہلِ سَکُوْن کی زکوٰة حَضْرمَوت میں جمع کی جائے۔ اس پر کِنْدَہ کے بعض لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! ہمارے پاس اونٹ نہیں ہیں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مناسب خیال فرمائیں تو یہ لوگ سواری پر ہمارے پاس اموالِ زکوٰة پہنچا دیا کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے کہا یعنی حَضْرمَوت والوں سے کہ اگر تم ایسا کر سکتے ہو تو اس پر عمل کرنا۔ انہوں نے کہا ہم دیکھیں گے۔ اگر ان کے پاس جانور نہ ہوئے تو ہم ایسا کریں گے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور زکوٰة وصول کرنے کا وقت آیا تو زِیادؓ نے لوگوں کو اپنے پاس بلایا۔ وہ آپ کے پاس حاضر ہوئے اور بَنُو وَلِیْعَہ یعنی اہلِ کِنْدَہ نے کہا کہ تم نے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا تھا اموالِ زکوٰة ہمارے پاس پہنچا دو تو انہوں نے کہا تمہارے پاس باربرداری کے جانور ہیں؟ اپنے جانور لاؤ اور اموالِ زکوٰة لے جاؤ۔ انہوں نے خود اموالِ زکوٰة پہنچانے سے انکار کر دیا اور کندی اپنے مطالبہ پر مصر رہے۔ پھر وہ لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ ان کا طرز عمل متذبذب ہو گیا۔ ایک قدم آگے بڑھاتے اور دوسرا پیچھے ہٹاتے اور زِیادؓ، مُہَاجِرؓ کے انتظار میں ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے رکے رہے یعنی جو زکوٰة دینے سے انکاری تھے ان سے کوئی کارروائی نہیں کی حتیٰ کہ حضرت مُہَاجرؓ آجائیں۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے مُہَاجر اور حضرت عکرمہ ؓ کو یہ خط بھیجا کہ تم دونوں حَضْرمَوت روانہ ہو جاؤ اور زِیاد کو ان کی ذمہ داری پر برقرار رکھنا، مکہ سے لے کر یمن تک کے درمیانی علاقے کے جو لوگ تمہارے ساتھ ہیں ان کو واپس جانے کی اجازت دے دو سوائے ان لوگوں کے جو اپنی خوشی سے جہاد میں شریک ہونا چاہیں اور عُبَیْدَہ بن سَعد کو زِیاد ؓکی مدد کے لیے روانہ کرو۔ چنانچہ حضرت مُہَاجرؓ نے اس ارشاد پر عمل کیا۔ وہ صنعاء سے حَضْرمَوت کے ارادے سے روانہ ہوئے اور عکرمہؓ اَبْیَنْ سے حَضْرمَوت کے ارادے سے روانہ ہوئے اور مَآرِب مقام پر دونوں مل گئے۔ ان دونوں نے صُہَیْد صحرا کو پار کیا یہاں تک کہ حَضْرمَوت پہنچ گئے۔ جب کِندی حضرت زِیادؓ سے خفا ہو کر واپس چلے گئے تو حضرت زِیادؓ نے بنو عمرو سے زکوٰة کی وصولی اپنے ذمہ لے لی۔ کِنْدَہ کے ایک نوجوان نے حضرت زِیادؓ کو غلطی سے اپنے بھائی کی اونٹنی زکوٰة کے لیے پیش کر دی۔ حضرت زِیادؓ نے اس کو آگ سے داغ کر زکوٰة کا نشان لگا دیا۔ مہر لگا دی کہ یہ بیت المال کی ہے اور زکوٰة کا مال ہے اور جب اس لڑکے نے اونٹنی بدلنے کاکہا کہ غلطی سے ہو گیا تھا تو حضرت زِیادؓ سمجھے کہ یہ بہانے بنا رہا ہے۔ اس لیے آپؓ راضی نہ ہوئے۔ اس پر انہوں نےیعنی اونٹنی دینے والوں نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو اور اَبُوسُمَیْط کو مدد کے لیے پکارا ۔ اَبُوسُمَیْط نے جب حضرت زِیادؓ سے اونٹنی بدلنے کا مطالبہ کیا تو حضرت زِیادؓ اپنے موقف پر مصر رہے۔ اَبُوسُمَیْط کو غصہ آیا۔ اس نے زبردستی اونٹنی کھول دی جس پر حضرت زِیادؓ کے ساتھیوں نے اَبُوسُمَیْط اور اس کے ساتھیوں کو قید کر لیا اور اونٹنی کو بھی قبضہ میں لے لیا۔ ان لوگوں نے ایک دوسرے کو مدد کے لیے پکارا۔ چنانچہ بنو مُعَاوِیہ اَبُوسُمَیْط کی مدد کے لیے آ گئے۔ بَنُو مُعَاوِیہ وہ لوگ ہیں جو بنو حارِث بن مُعَاوِیہ اور بنو عَمرو بن مُعَاوِیہ، قبیلہ کِنْدَہ کی شاخیں ہیں۔ انہوں نے حضرت زِیادؓ سے اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا لیکن حضرت زِیادؓ نے ان کے منتشر ہونے تک قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا اس طرح نہیں، تم لوگ چلے جاؤ پھر مَیں دیکھوں گا۔ جب یہ لوگ منتشر نہ ہوئے تو حضرت زِیادؓ نے ان پر حملہ کر کے ان کے بہت سے آدمیوں کو قتل کر دیا اور کچھ لوگ وہاں سے فرار ہو گئے۔ حضرت زِیادؓ نے واپس آ کر ان کے قیدی بھی رہا کر دیے مگر ان لوگوں نے واپس جا کر جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ چنانچہ بَنُو عَمرو، بَنُوحَارِث اور اَشْعَثْ بن قَیْس اور سِمْط بن اَسْوَد اپنے اپنے مورچوں میں چلے گئے اور انہوں نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا اور ارتداد اختیار کر لیا جس پر حضرت زِیادؓ نے فوج جمع کر کے بنو عمرو پر حملہ کر دیا اور ان کے بہت سے آدمی قتل ہوئے اور جو بھاگ سکتے تھے وہ بھاگ گئے اور ایک بڑی تعداد کو حضرت زِیادؓ نے قید کر کے مدینہ روانہ کر دیا۔ راستے میں اَشْعَثْ اور بَنُوحارِث کے لوگوں نے حملہ کر کے مسلمانوں سے اپنے قیدی چھڑوا لیے۔ اس واقعہ کے بعد اطراف کے کئی قبائل بھی ان لوگوں کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے بھی ارتداد کا اعلان کر دیا۔ اس پر حضرت زِیادؓ نے مدد کے لیے حضرت مُہَاجرؓ کی طرف خط لکھا۔ حضرت مُہَاجرؓ نے حضرت عکرمہ ؓکو اپنا نائب بنایا اور خود اپنے ساتھیوں کو لے کر کِنْدَہ پر حملہ آور ہوئے۔ کِنْدَہ کے لوگ بھاگ کر نُجَیْر نامی اپنے ایک قلعہ میں محصور ہو گئے۔ یہ بھی یمن کا ایک قلعہ تھا حَضْرمَوت کے قریب۔ اس قلعہ کے تین راستے تھے۔ ایک راستے پر حضرت زِیادؓ اتر گئے۔ دوسرے پر حضرت مُہَاجرؓ نے ڈیرہ ڈال لیا اور تیسرا راستہ کِنْدَہ ہی کے تصرف میں رہا یہاں تک کہ حضرت عکرمہؓ پہنچے اور اس راستے پر قابض ہو گئے۔ حضرت زِیادؓ اور حضرت مُہَاجرؓ کا لشکر پانچ ہزار مُہَاجرین اور انصار صحابہ اور دیگر قبائل پر مشتمل تھا۔ جب قلعہ نُجَیْر کے محصورین نے دیکھا کہ مسلمانوں کو برابر امداد پہنچ رہی ہے تو ان پر دہشت طاری ہو گئی۔ اس وجہ سے ان کا سردار اَشْعَثْ فوراً حضرت عکرمہ ؓکے پاس پہنچ کر امان کا طالب ہوا۔حضرت عکرمہؓ اَشْعَثْ کو لے کر حضرت مُہَاجرؓ کے پاس آئے۔ اَشْعَثْ نے اپنے لیے اور اپنے ساتھ نو افراد کے لیے اس شرط پر امان طلب کی کہ وہ مسلمانوں کے لیے قلعہ کا دروازہ کھول دیں گے۔ حضرت مُہَاجرؓ نے یہ شرط تسلیم کر لی۔ جب اَشْعَثْ نے نو افراد کے نام لکھے تو جلدبازی اور دہشت کی وجہ سے اپنا نام لکھنا بھول گیا۔ پھر حضرت مُہَاجرؓ کے پاس تحریر لے کر گیا جس پر انہوں نے مہر ثبت کر دی۔ پھر اَشْعَثْ واپس چلا گیا۔ جب اس نے قلعہ کا دروازہ کھول دیا تو مسلمان اس میں داخل ہو گئے۔ فریقین کی لڑائی میں سات سو کندی قتل کر دیے گئے۔ قلعہ والوں نے بھی آگے سے مقابلہ کیا اور لڑائی کی۔ بہرحال ان کے آدمی قتل کیے اور ایک ہزار عورتوں کو قید کر لیا گیا۔ اس کے بعد حضرت مُہَاجرؓ نے امان نامہ منگوایا اور اس میں درج تمام لوگوں کو معاف کر دیا مگر اس میں اَشْعَثْ کا نام نہ تھا۔ اس پر حضرت مُہَاجرؓ نے ان کے قتل کا ارادہ کر لیا مگر حضرت عکرمہ ؓکی درخواست پر اسے باقی قیدیوں کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں روانہ کر دیا کہ اس کے بارے میں بھی حضرت ابوبکرؓ ہی فیصلہ فرمائیں۔ جب مسلمان فتح کی خبر اور قیدیوں کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اَشْعَثْ کو طلب کیا اور فرمایا تم بنو وَلِیْعَہ کے فریب میں آگئے اور وہ ایسے نہیں کہ تم انہیں فریب دے سکو اور وہ بھی تمہیں اس کام کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔ وہ خود ہلاک ہوئے اور تمہیں بھی ہلاک کیا۔ کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کا ایک حصہ پہنچا۔ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کِنْدَہ قبیلے کے چار سرداروں پر لعنت کی تھی جنہوں نے اَشْعَثْ کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا پھر مرتد ہو گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ اَشْعَثْ نے کہا مجھے آپ کی رائے کا علم نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ میرے خیال میں تمہیں قتل کر دینا چاہیے۔ اس نے کہا مَیں وہ ہوں جس نے اپنی قوم کے دس آدمیوں کی جان بخشی کا تصفیہ کرایا ہے۔ میرا قتل کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ کیا مسلمانوں نے معاملہ تمہارے سپرد کیا تھا؟ اس نے کہا جی ہاں۔ تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: جب انہوں نے معاملہ تمہارے سپرد کیا اور پھر تم ان کے پاس آئے تو کیا انہوں نے اس پر مہر ثبت کی تھی۔ اس نے کہا جی ہاں۔ آپؓ نے فرمایا کہ تحریر پر مہر ثبت ہونے کے بعد صلح اس کے مطابق واجب ہو گئی جو اس میں تحریر تھا۔ اس سے پہلے تم صرف مصالحت کی گفتگو کر رہے تھے۔ جب اَشْعَثْ ڈرا کہ وہ مارا جائے گا تو اس نے عرض کیا کہ اگر آپ مجھ سے کسی بھلائی کی توقع رکھتے ہیں تو ان قیدیوں کو آزاد کر دیجیے اور میری لغزشیں معاف فرمائیے اور میرا اسلام قبول کر لیجیے اور میرے ساتھ وہی سلوک روا رکھیے جو مجھ جیسوں کے ساتھ آپ کیا کرتے ہیں اور میری بیوی میرے پاس واپس لَوٹا دیجیے۔ لکھا ہے کہ اس واقعہ سے قبل ایک مرتبہ اَشْعَثْ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ اس نے حضرت ابوبکرؓ کی بہن اُمِّ فَرْوَہ بنتِ اَبُوقُحَافَہکو پیغامِ نکاح دیا تھا۔ حضرت ابوقحافہ نے اپنی لڑکی اس کی زوجیت میں دے دی تھی اور رخصتی کو اَشْعَثْ کی دوبارہ آمد پر اٹھا رکھا تھا کہ دوبارہ آئے گا تو رخصتی ہو جائے گی۔ ایک مصنف نے اُمِّ فَرْوَہ کو حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی بھی قرار دیا ہے۔

بہرحال پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور اَشْعَثْ مرتد اور باغی ہو گیا۔ اس لیے اسے اندیشہ ہوا کہ اس کی بیوی اس کے حوالے نہ کی جائے گی۔ اَشْعَثْ نے حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا کہ آپؓ مجھے اللہ کے دین کے لیے اپنے علاقے کے بہترین لوگوں میں پائیں گے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے اس کی جان بخش دی اور اس کا اسلام قبول کر لیا اور اس کے گھر والے اس کے سپرد کر دیے۔ نیز فرمایا: جاؤ اور مجھے تمہارے متعلق خیر کی خبریں پہنچیں۔

اسی طرح حضرت ابوبکرؓ نے تمام قیدیوں کو بھی آزاد کر دیا اور وہ سب اپنے اپنے علاقوں میں چلے گئے۔(ماخوذ از تاریخ الطبری جلد2 صفحہ300تا 304 دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)(حضرت سیدنا ابوبکرصدیقؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ 240-241بک کارنر شو روم جہلم)(جمھرۃ انساب العرب صفحہ425 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2007ء)(سیدنا ابو بکر الصدیق از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 537-538الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ)(معجم البلدان جلد1 صفحہ109)(معجم البلدان جلد 5 صفحہ315 )(مسند احمد بن حنبل ،مسند عمرو بن عبسہ جلد 6 صفحہ575-576 روایت نمبر19675۔ عالم الکتب 1998ء)(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد5 صفحہ8-9دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

ایک روایت کے مطابق اپنی قوم سے بدعہدی کرنے کے باعث اَشْعَثْ اپنے قبیلے میں واپس جانے کی جرأت نہ کر سکا اور قید سے چھوٹنے کے بعد اُمِّ فَرْوَہ کے ساتھ مدینہ میں قیام پذیر رہا۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں جب عراق اور شام کی جنگیں پیش آئیں تو وہ بھی اسلامی فوجوں کے ہمراہ ایرانیوں اور رومیوں سے جنگ کرنے کے لیے باہر نکلا اور کارہائے نمایاں انجام دیے جس کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں اس کا وقار پھر بلند ہو گیا اور اس کی گم گشتہ عزت پھر واپس مل گئی۔ الغرض جب تک پوری طرح امن و امان قائم نہ ہو گیا اور اسلامی حکومت کی بنیادیں مستحکم نہ ہو گئیں حضرت مُہَاجرؓ اور حضرت عکرمہؓ اس وقت تک حَضْرمَوت اور کِنْدَہ میں ہی مقیم رہے۔

مرتد باغیوں کے ساتھ یہ آخری جنگیں تھیں۔ ان کے بعد عرب سے بغاوت کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا اور تمام قبائل حکومت اسلامیہ کے زیر نگیں آ گئے۔

حضرت مُہَاجرؓ نے اس علاقے میں امن و امان قائم رکھنے اور بغاوت اور سرکشی کے اسباب کے مکمل طور پر نابود کرنے کے لیے اسی سختی سے کام لیا جس سے وہ یمن میں کام لے چکے تھے۔(حضرت سیدنا ابوبکرصدیقؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ 241بک کارنر شو روم جہلم)

حضرت ابوبکرؓ نے حضرت مُہَاجرؓ کو یمن اور حَضْرمَوت میں سے کسی ایک علاقے کو اختیار کرنے کے بارے میں لکھا تو انہوں نے یمن کو اختیار کر لیا۔ اس طرح یمن پر دو امیر مقرر ہوئے۔

حضرت ابوبکرؓ نے مرتدین اور باغیوں کے خلاف کام کرنے والے عُمَّال کو تحریر فرمایا:اَمَّا بَعْد! میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ امر یہ ہے کہ آپ لوگ حکومت میں صرف انہی اشخاص کو شریک کریں جن کا دامن ارتداد اور بغاوت کے داغ سے پاک رہا ہو۔ بےشک وہ واپس آ گئے ہیں لیکن یہ دیکھو ان میں وہ شامل تو نہیں جو پہلے ارتداد اختیار کر چکے ہیں یا بغاوت کر چکے ہیں۔ پھر فرمایا کہ آپ سب اسی پر عمل کریں اور اسی پر کاربند رہیں۔ فوج میں جو لوگ واپسی کے خواہاں ہوں ان کو واپسی کی اجازت دے دو اور دشمن سے جہاد کرنے میں کسی مرتد باغی سے ہرگز مدد نہ لو۔(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ305مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

اکثر مصنفین اور خاص طور پر اس زمانے کے سیرت نگار عموماً حضرت ابوبکرؓ کی ان جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ گویا جن لوگوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا ان کے خلاف یہ سارا جہاد کیا گیا اور تلوار کے زور سے ان کا قلع قمع کیا گیا کیونکہ یہی ان کی شرعی سزا تھی لیکن تاریخ و سیرت کا مطالعہ کرنے والا ہرگز اس بات کی تائید نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ

قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طرز عمل اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں پہلے بیان ہو چکا ہے کہ نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی محض نبوت کا دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی فرمائی اور نہ ہی حضرت ابوبکرؓ کی یہ جنگی مہمات صرف اس وجہ سے تھیں کہ جھوٹے مدعیان نبوت کا قلع قمع کیا جاتا بلکہ اصل سوچ ان لوگوں کی باغیانہ روش تھی۔

چنانچہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ مدعیانِ نبوت سے صحابہ نے کیوں جنگیں کیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا ہے کہ

مولانا مودودی صاحب کا یہ لکھنا کہ صحابہ نے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا صحابہ کے اقوال کے خلاف ہے۔

مولانا مودودی صاحب کو یاد رکھنا چاہیے۔ (اس وقت ان کی زندگی کی بات ہے) کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جن لوگوں نے دعویٔ نبوت کیا اور جن سے صحابہ نے جنگ کی وہ سب کے سب ایسے تھے جنہوں نے اسلامی حکومت سے بغاوت کی تھی اور اسلامی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ مولانا کو اسلامی لٹریچر کے مطالعہ کا بہت بڑا دعویٰ ہے۔ کاش وہ اس امر کے متعلق رائے ظاہر کرنے سے پہلے اسلامی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ

مسیلمہ کَذَّاب، اَسْوَد عَنْسی، سَجَاح بنتِ حَارِث اور طُلَیحہ بن خُوَیْلِدْ اَسَدِی یہ سب کے سب ایسے لوگ تھے جنہوں نے مدینہ کی حکومت کی اتباع سے انکار کر دیا تھا اور اپنے اپنے علاقوں میں اپنی حکومتوں کا اعلان کر دیا تھا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ تاریخ ابنِ خلدون کو اگر غور سے پڑھتے تو یہ واضح ہو جاتا کہ مولانا صاحب کا جو نظریہ ہے وہ غلط ہے۔ چنانچہ وہاں لکھا ہے کہ تمام عرب خواہ وہ عام ہوں یا خاص ہوں ان کے ارتداد کی خبریں مدینہ میں پہنچیں۔ صرف قریش اور ثقیف دو قبیلے تھے جو ارتداد سے بچے اور مسیلمہ کا معاملہ بہت قوت پکڑ گیا اور طَے اور اَسَد قوم نے طُلَیْحَہ بن خُوَیلِد کی اطاعت قبول کر لی اور غَطَفَان نے بھی ارتداد قبول کر لیا اور ہَوَازِن نے بھی زکوٰة روک لی اور بنی سُلَیْم کے امرا ءبھی مرتد ہو گئے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ امراء یمن اور یَمَامہاور بنی اسد اور دوسرے ہر علاقہ اور شہر سے واپس لَوٹے اور انہوں نے کہا کہ عربوں کے بڑوں نے بھی اور چھوٹوں نے بھی سب کے سب نے اطاعت سے انکار کر دیا ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتظار کیا کہ اسامہؓ واپس آئے تو پھر ان کے ساتھ جنگ کی جائے لیکن عَبْس اور ذُبْیَان کے قبیلوں نے جلدی کی اور مدینہ کے پاس اَبْرَقْ مقام پر آکر ڈیرے ڈال دیے اور کچھ اَور لوگوں نے ذُوْالقَصَّہ میں آکر ڈیرے ڈال دیے۔ ان کے ساتھ بنی اسد کے معاہد بھی تھے اور بَنِی کِنَانَہ میں سے بھی کچھ لوگ ان سے مل گئے تھے۔ ان سب نے حضرت ابوبکرؓ کی طرف وفد بھیجا اور مطالبہ کیا کہ نماز تک تو ہم آپ کی بات ماننے کے لیے تیار ہیں۔ مدینہ کے ارد گرد جمع ہو گئے اور یہ بات کی کہ نماز تک تو بات ماننے کے لیے تیار ہیں لیکن زکوٰة ادا کرنے کے لیے ہم تیار نہیں لیکن حضرت ابوبکرؓ نے ان کی اس بات کو رد کر دیا۔

حضرت مصلح موعود ؓلکھتے ہیںاِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ

صحابہؓ نے جن لوگوں سے لڑائی کی تھی وہ حکومت کے باغی تھے۔انہوں نے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تھا اور انہوں نے مدینہ پر حملہ کر دیا تھا۔

مدینہ کے ارد گرد جمع ہو گئے تھے کہ اگر یہاں بات نہ مانی تو ہم حملہ کریں گے۔ مسیلمہ نے تو خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپؐ کو لکھا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آدھا ملک عرب کا ہمارے لیے ہے اور آدھا ملک قریش کے لیے ہے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس نے حجر اور یمامہ میں سے ان کے مقرر کردہ والی ثُمَامَہبن آثال کو نکال دیا اور خود اس علاقہ کا والی بن گیاتھا۔ اور اس نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ اسی طرح مدینہ کے دو صحابہ حبیب بن زیدؓ اور عبداللہ بن وہبؓ کو اس نے قید کر لیا اور ان سے زور کے ساتھ اپنی نبوت منوانی چاہی۔ جیساکہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ عبداللہ بن وہب نے تو ڈر کر اس کی بات مان لی مگر حبیب بن زید نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر مسیلمہ نے ان کا عضو عضو کاٹ کر آگ میں جلا دیا۔ اسی طرح یمن میں بھی جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افسر مقرر تھے ان میں سے بعض کو قید کر لیا اور بعض کو سخت سزائیں دی گئیں۔ اسی طرح طبری نے لکھا ہے کہ اسود عنسی نے بھی علم بغاوت بلند کیا تھا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو حکام مقرر تھے ان کو اس نے تنگ کیا تھا اور ان سے زکوٰة چھین لینے کا حکم دیا تھا۔ پھر اس نے صَنْعَاء میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ حاکم شَہْرِ بن بَاذَانپر حملہ کر دیا۔ بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا، لُوٹ مار کی، گورنر کو قتل کر دیا اور اس کو قتل کر دینے کے بعد اس کی مسلمان بیوی سے جبراً نکاح کر لیا۔ بنو نجران نے بھی بغاوت کی اور وہ بھی اسود عنسی کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے دو صحابہ عمرو بن حَزمؓ اور خالد بن سعیدؓ کو علاقہ سے نکال دیا۔

ان واقعات سے ظاہر ہے کہ مدعیانِ نبوت کا مقابلہ اس وجہ سے نہیں کیا گیا تھا کہ وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے نبی ہونے کے دعویدار تھے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کے مدعی تھے بلکہ صحابہ نے ان سے اس لیے جنگ کی تھی کہ وہ شریعتِ اسلامیہ کو منسوخ کر کے اپنے قانون جاری کرتے تھے اور اپنے علاقہ کی حکومت کے دعویدار تھے اور صرف علاقہ کی حکومت کے دعویدار ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے صحابہ کو قتل کیا، اسلامی ملکوں پر چڑھائیاں کیں، قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کی اور اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ ان واقعات کے ہوتے ہوئے آپؓ لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی صاحب کا یہ کہنا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہؓ نے مدعیانِ نبوت کا مقابلہ کیا، یہ جھوٹ نہیں تو اَور کیا ہے؟ اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ صحابہ کرامؓ انسانوں کے قتل کو جائز قرار دیتے تھے تو کیا یہ محض اس وجہ سے ٹھیک ہو جائے گا کہ مسیلمہ کذاب بھی انسان تھا اور اسود عنسی بھی انسان تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ

جو لوگ توڑ مروڑ کر اسلام کی تاریخ پیش کرتے ہیں وہ اسلام کی خدمت نہیں کر رہے۔ اگر ان کے مدِنظر اسلام کی خدمت ہے تو وہ سچ کو سب سے بڑا مقام دیں اور غلط بیانی اور واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے کُلّی طور پر احتراز کریں۔(ماخوذ از مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ’’قادیانی مسئلہ‘‘ کا جواب ، انوارالعلوم جلد 24صفحہ 11تا 14)

بہرحال سرزمین عرب سے ان سب کے ختم ہونے کی وجہ سے بغاوتوں کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ ایک تاریخ نگار نے لکھا ہے کہ اب عرب کی تمام بغاوتوں کا خاتمہ ہو چکا تھا اور تمام مرتدین کی سرکوبی کی جا چکی تھی۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ملک گیر فتنہ کا جس منصوبہ بندی اور سُرعت کے ساتھ قلع قمع کیا وہ آپ کی اعلیٰ صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ کس طرح قدم قدم پر آپ کو الٰہی تائید و نصرت حاصل تھی۔

ایک سال سے بھی کم مدت میں فتنۂ ارتداد اور بغاوت پر قابو پا لینا، سرزمین عرب پر اسلام کی حاکمیت کو دوبارہ قائم کر دینا ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسلام کے غلبہ سے بے حد خوشی تھی لیکن اس مسرت میں غرور اور تکبر کا نام تک نہیں تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سے ہوا۔ ان کی یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ مٹھی بھر مسلمانوں کے ذریعہ سے سارے عرب کے مرتدین کی جرار فوجوں کا مقابلہ کر کے انہیں شکست دے کر اسلام کا عَلَم نہایت شان و شوکت سے دوبارہ بلند کر سکتے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سامنے اب یہ مسئلہ تھا کہ وحدتِ دینی کو تقویت دینے اور اسلام کو بامِ عروج تک پہنچانے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے جائیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓکی سیاست کا محور صرف اور صرف رعبِ اسلام تھا اور یہی خواہش ہر لحظہ ان کے دل و دماغ میں رہتی تھی۔(حضرت سیدنا ابوبکرصدیقؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ 243-244مترجم انجم سلطان شہباز، بک کارنر شوروم جہلم)

ہرچند کہ مرتد باغیوں کا قلع قمع کرنے کے بعد ہر شخص کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ اب خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی فتنہ پرداز جم نہیں سکتا لیکن عام لوگوں کی طرح حضرت ابوبکرؓ کسی خوش فہمی کا شکار نہ تھے۔ آپؓ جانتے تھے کہ بیرونی طاقتیں ارتداد اور بغاوت کے فتنہ خوابیدہ کو پھر سے بیدار کر کے بدامنی پھیلانے کا موجب بن سکتی ہیں۔ یہ فتنہ عارضی طور پہ نہ سو گیا ہو۔ بیرونی طاقتیں جو مخالف ہیں اسلام کی وہ بڑی بڑی حکومتیں تھیں، وہ عرب کی سرحدوں پر دوبارہ بدامنی پھیلا سکتی ہیں اس لیے وہ کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں تھے۔ عرب قبائل کی اس متوقع شورش انگیزی سےبچنے کے لیے مناسب سمجھا گیا کہ عرب قبائل کی توجہ ایران اور شام کی طرف منعطف کی جائے تا کہ انہیں حکومت کے خلاف فساد برپا کرنے کا موقع نہ مل سکے اور اس طرح مسلمانوں کو اطمینان نصیب ہو اور وہ دلجمعی سے احکام دین پر عمل پیرا ہو سکیں۔(سیدنا صدیق اکبر از حکیم غلام نبی ایم اے صفحہ 178)

چنانچہ عرب کی سرحدوں کے دفاع اور اسلامی ریاست کو اپنے مضبوط حریفوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ ان طاقتور قوموں تک اسلام کا پیغام پہنچایا جائے تا کہ یہ قومیں اسلام کے عالمگیر پیغام کو تسلیم کر کے یا سمجھ کر خود بھی امن و سلامتی کے ساتھ اپنی زندگیاں بسر کریں اور دوسرے بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ اور مامون ہو کر امن اور سلامتی کے ساتھ آزادانہ طور پر اپنے اپنے دین و مذہب پر کاربند ہو سکیں۔ بہرحال اس کے لیے حضرت ابوبکرؓ نے کیا طریق اور حکمت عملی اختیار کی۔ اس بارے میں تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ مرتد باغیوں کی جنگوں اور مہمات کے ختم ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓآئندہ کے اقدامات کے متعلق غور و فکر میں مشغول تھے کہ عر ب اور اسلام کی دیرینہ دشمن ایران اور روم کی سلطنتوں سے مستقل طور پر محفوظ رہنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں بھی یہ دونوں طاقتیں عرب کو اپنے زیرِ نگیں رکھنا چاہتی تھیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور بہت سے علاقوں اور قبائل میں ارتداد اور بغاوت کی آگ نے ریاستِ مدینہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو بعض جگہوں پر اس کے پیچھے ایک ہاتھ انہی طاقتوں کا بھی تھا اور اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہِرَقْل کی فوجیں شام میں اور ایران کی فوجیں عراق میں جمع ہونے لگیں۔ اس لیے ممکن ہی نہ تھا کہ حضرت ابوبکرؓ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ مبارک کی تعمیل میں سب سے پہلے رومیوں کے خلاف پہلا لشکر حضرت اسامہؓ کی قیادت میں بھیج چکے تھے وہ ان غاصب اور جابر طاقتوں سے بے خوف ہو کر بے فکر رہ سکتے لیکن قبل اس کے کہ آپ ابھی کوئی لائحہ عمل سب کے سامنے رکھتے، آپ کو خبر ملی کہ

حضرت مُثَنّٰی بن حَارِثَہؓ جنہوں نے بحرین میں مرتد باغیوں کی بغاوت کو ختم کرنے میں مدد کی تھی انہوں نے اپنے ساتھیوں کو ہمراہ لیا اور خلیج فارس کے ساحل کے ساتھ ساتھ شمال کی جانب عراق کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔

آخر وہ ان عربی قبائل میں جا پہنچے جو دِجْلَہاور فُرَاتکے ڈیلٹائی علاقوں میں آباد تھے۔ حضرت مُثَنّٰیٰ بن حارثہؓ بحرین کے ایک قبیلہ بَکْرِ بنِ وَائِل سے تعلق رکھتے تھے۔ بحرین کا علاقہ یمامہ اور خلیج فارس کے درمیان واقع تھا اور اس میں موجودہ قطر اور امارت بحرین کے جزیرے بھی شامل تھے۔ اس کا دارالحکومت دَارِیْن تھا۔ بہرحال حضرت مُثَنّٰیٰ بن حارثہ ؓحضرت عَلَاء بن حضرمیؓ کے ساتھ مل کر باغیوں سے بھی جنگ کر چکے تھے اور بحرین اور اس کے نواح میں جو لوگ اسلام پر قائم رہے تھے اور جنہوں نے اسلامی فوجوں کے ساتھ مل کر باغیوں کی جنگوں میں حصہ لیا تھا حضرت مُثَنّٰیؓان کے سردار تھے۔ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ آئندہ اقدام کے متعلق ابھی فیصلہ کرنے نہ پائے تھے کہ حضرت مُثَنّٰیؓخود مدینہ آ گئے اور حضرت ابوبکرؓ کو عراق کے حالات سے متعلق آگاہ کیا کہ جو عرب قبائل دِجْلَہ اور فُرَات کے ڈیلٹائی علاقوں میں آباد ہیں وہ وہاں کے مقامی باشندوں کے ہاتھوں مصیبت میں ہیں، ان کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ عرب زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے ہیں اور جب فصل پک جاتی ہے تو مقامی لوگ لُوٹ لیتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مُثَنّٰیبن حارثہؓ نے عرض کی کہ اسلامی فوجیں روانہ کر کے ان لوگوں کو مصیبت سے نجات دلائی جائے ۔ حضرت ابوبکرؓ نے مدینہ کے اہل الرائے اصحاب سے مشورہ کیا اور حضرت مُثَنّٰی بن حارثہؓ کی تجویز سامنے رکھی۔ چونکہ مدینہ کے لوگ عراق کے حالات سے ناواقف تھے اس لیے مشورہ دیا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ کو بلا کر سارا معاملہ ان کے سامنے پیش کیا جائے، ان سے مشورہ لیا جائے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ ان دنوں یمامہ میں موجود تھے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں مدینہ طلب فرمایا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کے مدینہ پہنچنے پر جب حضرت ابوبکرؓ نے عراق پر فوج کشی کی، حضرت مُثَنّٰیکی تجویز ان کے سامنے رکھی ،تو حضرت خالد بن ولیدؓ کا بھی یہ خیال تھا کہ

حضرت مُثَنّٰیؓ نے حدودِ عراق میں ایرانیوں کے خلاف جو کارروائی شروع کی ہے اگر خدانخواستہ وہ ناکام ہو گئی اور حضرت مُثَنّٰیؓ کی فوج کو عرب کی جانب پسپا ہونا پڑا تو ایرانی حکام اَور دلیر ہو جائیں گے۔

وہ صرف حضرت مُثَنّٰیؓ کی فوج کو عراق کی حدود سے باہر نکالنے پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ بحرین اور اس کے ملحقہ علاقوں پر دوبارہ اثر و رسوخ قائم کرنے اور تسلط بٹھانے کی بھی کوشش کریں گے اور ایسی صورتحال میں اسلامی حکومت کو خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ لہٰذا انہوں نے بھی یہ کہا کہ اس خطرہ سے بچنے کے لیے حضرت مُثَنّٰیؓ کو قرار واقعی امداد مہیا کی جائے۔ وہاں فوج بھیجی جائے اور ایرانیوں کو عرب کی حدود میں اثر و رسوخ جمانے کی بجائے مزید پسپائی پر مجبور کیا جائے تاکہ ان کی جانب سے آئندہ کبھی عرب کو کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنی یہ رائے پیش کی تو آپ کی یہ رائے سن کے دیگر اصحاب نے بھی حضرت مُثَنّٰیؓ کی تجاویز قبول کر لیں اور حضرت ابوبکرؓ نے حضرت مُثَنّٰیؓکو ان لوگوں کا سردار مقرر کر دیا جنہیں ہمراہ لے کر انہوں نے عراقی حدود میں پیش قدمی کی تھی اور حکم دیا کہ

فی الحال وہاں کے عرب قبائل کو ساتھ ملانے اور اسلام قبول کرنے پر آمادہ کریں

اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جلد ہی مدینہ سے ایک لشکر بھی ان کی امداد کے لیے روانہ کر دیا جائے گا جس کی مدد سے وہ مزید پیش قدمی جاری رکھ سکیں گے۔

بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ نہ مُثَنّٰی امداد کی درخواست کرنے کے لیے مدینہ گئے اور نہ حضرت ابوبکرؓ سے ان کی ملاقات ہوئی بلکہ وہ اپنے لشکر کے ہمراہ ڈیلٹائی علاقے میں پیش قدمی کرتے ہوئے بہت دور نکل گئے اور آگے جا کر ایرانی سپہ سالار ہُرْمُزْ کی افواج کا سامنا کرنا پڑا۔ ہُرْمُزْ اس وقت سرحدی افواج کا افسر تھا اور کسریٰ کے نزدیک جو سب سے بڑا درجہ کسی شخص کو مل سکتا تھا ہُرْمُزْ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا۔ ابھی ہُرْمُزْ اور مُثَنّٰی کے درمیان جنگ جاری تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان واقعات کی خبر ہو گئی۔ وہ اس وقت مُثَنّٰی کے نام سے بالکل بے خبر تھے۔ ان خبروں کے پہنچنے پر جب انہوں نے تحقیقات کیں تو معلوم ہواکہ مُثَنّٰی نے ارتداد اور بغاوت کی جنگوں کے دوران بحرین کے اندر متعدد کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔

حضرت ابوبکرؓ نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ حضرت مُثَنّٰیؓ کی مدد کے لیے ایک لشکر کے ہمراہ عراق جائیں اور ہُرْمُزْ پر فتحیاب ہو کر حِیْرَہ کی جانب کوچ کریں۔

حِیْرَہبھی کوفہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک شہر ہے۔ بہرحال ساتھ ہی حضرت عِیاض بن غَنْم ؓکو حکم دیا کہ وہ دُوْمَۃُالْجَنْدَل جائیں۔ دومة الجندل شام اور مدینہ کے درمیان ایک قلعہ اور بستی ہے جو مدینہ سے اس زمانے کے طریقۂ سفر کےمطابق پندرہ سولہ دن کی مسافت پر تھا اور وہاں کے سرکش اور مرتد باشندوں کو مطیع کر کے حِیْرَہپہنچیں۔ حضرت عِیَاض بن غَنْمؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ آپؓ نے صلح حدیبیہ سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور اس میں شامل بھی ہوئے تھے۔ حضرت اَبُوعُبَیْدَہؓ نے اپنی وفات کے وقت انہیں شام میں اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے انہیں اس منصب پر قائم رکھا اور فرمایا کہ میں اس امیر کو تبدیل نہیں کروں گا جسے حضرت اَبُوعُبَیْدَہؓ نے امیر مقرر کیا ہے۔

بہرحال حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ حضرت خَالِد بن وَلیدؓ اور حضرت عِیَاضِ بن غَنْمؓ میں سے جو پہلے حِیْرَہ پہنچ جائے اسی کو اس علاقے میں جنگی کارروائی کرنے والی فوج کی قیادت حاصل ہو گی۔(ماخوذ از حضرت ابو بکرؓ، صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل مترجم ،صفحہ 261تا 266،اشاعت 2004ء)(اٹلس سیرت النبیﷺ صفحہ 68)(معجم البلدان جلد2 صفحہ 376 دارالکتب العلمیۃ ، بیروت)(فرہنگ سیرت صفحہ123)(اسدالغابہ جلد4 صفحہ315 دار الکتب العلمیۃ)

ایک روایت کے مطابق حضرت خالد بن ولیدؓ جب یمامہ سے فارغ ہو گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے انہیں لکھا کہ فَرْجُ الْہِنْد یعنی اُبُلَّہ سے آغاز کریں اور عراق کے بالائی علاقے سے عراق پہنچیں اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں اور انہیں اللہ کی طرف دعوت دیں۔ اگر وہ اسے قبول کر لیں تو ٹھیک ورنہ ان سے جزیہ وصول کریں اور اگر وہ جزیہ دینے سے انکار کریں تو پھر ان سے قتال کریں اور حکم فرمایا کہ کسی کو اپنے ساتھ قتال کے لیے نکلنے پر مجبور نہ کریں اور اسلام سے مرتد ہونے والے کسی بھی شخص سے مددنہ لیں خواہ وہ بعد میں اسلام میں واپس بھی آ چکا ہو اور جس مسلمان کے پاس سے گزریں تو اسے اپنے ساتھ ملا لیں۔ پھر حضرت ابوبکرؓ حضرت خالدؓ کی امداد کے لیے لشکر کی تیاری میں لگ گئے۔(البدایۃ والنہایۃ لابن اثیر، جلد 3، جزء 6 صفحہ 338 ، بعث خالد بن الولید الی العراق، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

حضرت خالد بن ولیدؓ نے یمامہ سے عراق کی طرف کوچ کے وقت اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا

اور سب کو ایک ہی راستے پر روانہ نہیں کیا تھا بلکہ حضرت مُثَنّٰیؓکو اپنی روانگی سے دو روز قبل روانہ کیا۔ ان کے بعد عَدِی بن حَاتِم اور عَاصِم بن عَمرو کو ایک ایک دن کے فاصلے سے روانہ کیا۔ سب کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ خود روانہ ہوئے۔ ان سب سے حَفِیْر پر جمع ہونے کا وعدہ کیا تا کہ وہاں سے ایک دم اپنے دشمن سے ٹکرائیں۔ حَفِیْر بصرہ سے مکہ کی طرف جاتے ہوئے پہلی منزل ہے۔ اور یہ لکھا ہے کہ یہ سرحد فارس کی تمام سرحدوں میں شان و شوکت کے لحاظ سے سب سے بڑی اور مضبوط سرحد تھی اور اس کا حاکم ہُرْمُزْ تھا۔ یہاں کا سپہ سالار ایک طرف خشکی میں عربوں سے نبرد آزما ہوتا تھا اور دوسری طرف سمندر میں اہل ہند سے۔(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 309 ، دار الکتب العلمیۃ،بیروت، 2012ء)(معجم البلدان جلد2 صفحہ319)(الکامل فی التاریخ جلد2 صفحہ239 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

بہرحال حضرت خالدؓ کے لشکر کی تعداد بہت کم تھی کیونکہ ایک تو اس کا بہت حصہ جنگ یمامہ میں کام آچکا تھا۔ دوسرے حضرت ابوبکرؓ نے انہیں ہدایت کی تھی کہ اگر کوئی شخص عراق نہ جانا چاہے تو اس پر زبردستی نہ کی جائے اور اس کے ساتھ ہی ایک نہایت ہی اہم ہدایت یہ بھی دی کہ اس کے علاوہ کسی سابق مرتد کو جو دوبارہ اسلام لے بھی آیا ہو اس وقت تک اسلامی لشکر میں شامل نہ کیا جائے جب تک خلیفہ سے خاص طور پر اجازت حاصل نہ کر لی جائے ۔ حضرت خالدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں مزید کمک بھیجنے کے لیے لکھا تو انہوں نے صرف ایک شخص قَعْقَاعْ بن عَمرو کو ان کی مدد کے لیے روانہ فرمایا۔ لوگوں کو بہت تعجب ہوا اور انہوں نے عرض کیا آپ خالد کی مدد کے لیے صرف ایک شخص کو روانہ کر رہے ہیں حالانکہ لشکر کا بیشتر حصہ اب ان سے علیحدہ ہو چکا ہے، الگ ہو چکا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا جس لشکر میں قَعْقَاعْ جیسا شخص شامل ہو وہ کبھی شکست نہیں کھا سکتا۔ پھر بھی قَعْقَاعْ کے ہاتھ آپؓ نے خالد کو ایک خط بھیجا جس میں لکھا کہ وہ ان لوگوں کو اپنے لشکر میں شامل ہونے کی ترغیب دیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بدستور اسلام پر قائم رہے اور جنہوں نے مرتدین کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا۔ یہ خط موصول ہونے پر حضرت خالدؓ نے اپنے لشکر کو ترتیب دینا شروع کر دیا۔( حضرت ابو بکرؓ، صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل مترجم ،صفحہ 268،اشاعت 2004ء)

عراق کے کاشتکاروں کے سلسلہ میں حضرت ابوبکرؓ نے جو وصیت کی تھی اور جو حکمتِ عملی تھی اس کے بارے میں

لکھا ہے کہ عرب عراق کی سرزمینوں میں بطور کاشتکار کام کرتے تھے۔ فصل تیار ہونے پر انہیں بٹائی کا بہت تھوڑا حصہ ملتا تھا۔ اکثر حصہ ان ایرانی زمینداروں کے پاس چلا جاتا تھا جو ان زمینوں کے مالک تھے۔ یہ زمیندار غریب عربوں پر بےحد ظلم توڑتے تھے اور ان کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓنے عراق میں اپنے سالاروں کو حکم دے دیا کہ جنگ کے دوران میں ان عرب کاشتکاروں کو کوئی تکلیف نہ دی جائے اور نہ انہیں قتل کیا جائے اور نہ قیدی بنایا جائے۔ غرض ان سے کسی قسم کی بدسلوکی نہ کی جائے کیونکہ وہ بھی ان کی طرح عرب ہیں اور ایرانیوں کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس دلانا چاہیے کہ یہاں عربوں کی حکومت قائم ہونے سے ان کی مظلومانہ زندگی کے دن ختم ہو جائیں گے اور اب وہ اپنے ہم قوم لوگوں کی بدولت حقیقی عدل و انصاف اور جائز آزادی اور مساوات سے بہرہ ور ہو سکیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ کی اس حکمت عملی نے مسلمانوں کوبےحد فائدہ پہنچایا۔ ان کی فتوحات کے راستے میں آسانیاں پیدا ہو گئیں اور انہیں یہ خدشہ نہ رہا کہ پیش قدمی کرتے وقت کہیں پیچھے سے حملہ ہو کر ان کا راستہ مسدود نہ ہو جائے۔( حضرت ابو بکرؓ، صدیق اکبر از محمد حسین ہیکل مترجم ،صفحہ 267-268،اشاعت 2004ء)

جب حضرت خالد بن ولیدؓ نے نِبَاجْ میں پڑاؤ ڈالا توحضرت مُثَنّٰیٰ اس وقت اپنی فوج کے ساتھ خَفَّانْ میں موجود تھے۔

نِبَاجْ بصرہ اور یمامہ کے درمیان ایک مقام ہے۔ خَفَّانْ کوفہ کے قریب ایک جگہ ہے۔ حضرت خالدؓ نے حضرت مُثَنّٰیٰ کی طرف ایک خط لکھا کہ وہ آپؓ کے پاس آئیں اور اس کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کا وہ خط بھی بھیجا جس میں حضرت ابوبکرؓ نے حضرت مُثَنّٰیٰ بن حَارِثہ ؓکو حضرت خالدؓ کی اطاعت کا حکم دیا تھا۔(تاریخ الطبری جلد 2صفحہ 308دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012 )(فرہنگ سیرت صفحہ296)(معجم البلدان جلد 2 صفحہ 434دارالکتب العلمیۃ بیروت)

یہ ساری تاریخ طبری کی روایت ہے۔ پہلے تو وہ تھی پھر یہ تھا کہ خالد ؓکو حضرت ابوبکرؓ نے خود بھیجا تھا۔ بہرحال پھر جنگیں ہوئیں۔ کون کون سی جنگیں ہیں؟ کیا ان کے نام تھے اور ان کی فتوحات کا تذکرہ ان شاء اللہ آئندہ ہو گا۔یہ جنگیں جو مسلمانوں نے ایرانیوں کے خلاف عراق کے علاقے میں لڑیں اور اللہ تعالیٰ نے ان میں مسلمانوں کو حضرت ابوبکرؓکے دورِ خلافت میں جو فتوحات عطا فرمائیں ان کا ذکر ہو گا۔ ان شاء اللہ۔(الکامل فی التاریخ لابن اثیرجلد2صفحہ201 ذکر اخبار الأسود العنسی بالیمن دارلکتب العلمیۃ بیروت2006ء)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 15؍ جولائی 2022ء شہ سرخیاں

    قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طرز عمل اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں پہلے بیان ہو چکا ہے کہ نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی محض نبوت کا دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی فرمائی اور نہ ہی حضرت ابوبکرؓ کی یہ جنگی مہمات صرف اس وجہ سے تھیں کہ جھوٹے مدعیان نبوت کا قلع قمع کیا جاتا بلکہ اصل سوچ ان لوگوں کی باغیانہ روش تھی۔

    آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت دَور میں باغی مرتدین کے خلاف ہونے والی مہمات کا تذکرہ۔

    فرمودہ 15؍جولائی 2022ء بمطابق 15؍وفا 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے۔

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور