حضرت ابوبکر صدیقؓ
خطبہ جمعہ 9؍ ستمبر 2022ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کے کچھ واقعات
ہیں جو بیان کروں گا۔ جب حضرت ابوبکرؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو بلایا اور فرمایا مجھے عمر کے متعلق بتاؤ تو انہوں نے یعنی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا۔ اے رسول اللہ کے خلیفہ! اللہ کی قَسم وہ یعنی حضرت عمرؓ آپؓ کی جو رائے ہے اس سے بھی افضل ہیں سوائے اس کے کہ ان کی طبیعت میں سختی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ سختی اس لیے ہے کہ وہ مجھ میں نرمی دیکھتے ہیں۔ اگر امارت ان کے سپرد ہو گئی تو وہ اپنی بہت سی باتیں جو اُن میں ہیں اس کو چھوڑ دیں گے کیونکہ میں نے ان کو دیکھا ہے کہ جب میں کسی شخص پر سختی کرتا تو وہ مجھے اس شخص سے راضی کرنے کی کوشش کرتے اور جب میں کسی شخص سے نرمی کا سلوک کرتا تو اس پر مجھے سختی کرنے کا کہتے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عثمان بن عفانؓ کو بلایا اور ان سے حضرت عمرؓ کے بارے میں دریافت فرمایا۔ حضرت عثمانؓ نے کہا ان کا باطن ان کے ظاہر سے بھی بہتر ہے اور ہم میں ان جیسا کوئی نہیں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے دونوں اصحاب سے فرمایا جو کچھ میں نے تم دونوں سے کہا ہے اس کا ذکر کسی اَور سے نہ کرنا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اگر میں حضرت عمرؓ کو چھوڑتا ہوں تو میں عثمانؓ سے آگے نہیں جاتا اور ان کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ تمہارے امور کے متعلق کوئی کمی نہ کریں۔ اب میری یہ خواہش ہے کہ میں تمہارے امور سے علیحدہ ہو جاؤں اور تمہارے اسلاف میں سے ہو جاؤں۔ حضرت ابوبکرؓ کی بیماری کے دنوں میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓحضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اور کہا کہ آپؓ نے حضرت عمرؓ کو لوگوں پر خلیفہ بنا دیا ہے حالانکہ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی موجودگی میں لوگوں سے کس طرح سلوک کرتے ہیں اور اس وقت کیا حال ہو گا جب وہ تنہا ہوں گے اور آپ اپنے رب سے ملاقات کریں گے اور وہ آپ سے رعیت کے بارے میں پوچھے گا یعنی اللہ تعالیٰ آپ سے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھے گا۔ حضرت ابوبکرؓ لیٹے ہوئے تھے۔آپؓ نے فرمایا مجھے بٹھا دو۔ جب اُن کو بٹھایا گیا اور وہ سہارا لے کر بیٹھے تو آپؓ نے کہا: کیا تم مجھے اللہ سے ڈراتے ہو؟
جب میں اپنے رب سے ملوں گا اور وہ مجھ سے پوچھے گا تو میں جواب دوں گا کہ میں نے تیرے بندوںمیں سے بہترین کو تیرے بندوں پر خلیفہ بنایا ہے۔(الکامل فی التاریخ لابن اثیر جلد 2 صفحہ 272 تا 273دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں تاریخ کی کتب کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کی وفات جب قریب آئی تو آپؓ نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ میں کس کو خلیفہ مقرر کروں۔ اکثرصحابہ نے اپنی رائے حضرت عمرؓ کی امارت کے متعلق ظاہر کی اور بعض نے صرف یہ اعتراض کیا کہ حضرت عمرؓ کی طبیعت میں سختی زیادہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ لوگوں پر تشدد کریں۔ آپؓ نے فرمایا یہ سختی اسی وقت تک تھی جب تک ان پر ذمہ داری نہیں پڑی تھی اب جبکہ ایک ذمہ داری ان پر پڑ جائے گی تو ان کی سختی کا مادہ بھی اعتدال کے اندر آجائے گا۔ چنانچہ تمام صحابہ حضرت عمرؓ کی خلافت پر راضی ہو گئے۔ آپ کی ، حضرت ابوبکرؓ کی صحت چونکہ بہت خراب ہو چکی تھی، اس لیے حضرت ابوبکرؓ نے اپنی بیوی اسماء کا سہارا لیا اور ایسی حالت میں جبکہ آپؓ کے پاؤں لڑ کھڑا رہے تھے، ہاتھ کانپ رہے تھے آپؓ مسجد میں آئے اور تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بہت دنوں تک متواتر اس امر پر غور کیا ہے کہ اگر میں وفات پا جاؤں تو تمہارا کون خلیفہ ہو۔ آخر
بہت کچھ غور کرنے اور دعاؤں سے کام لینے کے بعد میں نے یہی مناسب سمجھا ہے کہ عمر کو خلیفہ نامزد کر دوں۔ سو میری وفات کے بعد عمر تمہارے خلیفہ ہوں گے۔
سب صحابہؓ اور دوسرے لوگوں نے اس امارت کو تسلیم کیا اور حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ کی بیعت ہو گئی۔(ماخوذ از خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد 15صفحہ483-484)
پھر اس بارے میں مزید ایک جگہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہ نامزد کیوں کیا،حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اگر کہا جائے کہ جب قوم کے انتخاب سے ہی کوئی خلیفہ ہو سکتا ہے تو حضرت ابوبکرؓنے حضرت عمرؓ کو نامزد کیوں کیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے یونہی نامزد نہیں کر دیا بلکہ پہلے صحابہؓ سے آپ کا مشورہ لینا ثابت ہے۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ اَور خلفاء کو خلیفہ کی وفات کے بعد منتخب کیا گیا اور حضرت عمرؓ کوحضرت ابوبکرؓ کی موجودگی میں ہی منتخب کر لیا گیا۔ پھر آپؓ نے اسی پر بس نہیں کیا۔‘‘ یعنی حضرت ابوبکرؓ نے یہیں پر بس نہیں کیا، اس کو کافی نہیں سمجھا ’’کہ چند صحابہؓ سے مشورہ لینے کے بعد آپؓ نے حضرت عمرؓ کی خلافت کا اعلان کر دیا ہو بلکہ باوجود سخت نقاہت اور کمزوری کے آپؓ اپنی بیوی کا سہارا لے کر مسجد میں پہنچے اور لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! میں نے صحابہؓ سے مشورہ لینے کے بعد اپنے بعد خلافت کے لیے عمرؓ کو پسند کیا ہے کیا تمہیں بھی ان کی خلافت منظور ہے؟ اس پر تمام لوگوں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ پس
یہ بھی ایک رنگ میں انتخاب ہی تھا۔‘‘(خلافت راشدہ ، انوار العلوم جلد 15 صفحہ 555)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیماری اور وصیت کے بارے میں
تاریخ طبری میں مزید لکھا ہے حضرت ابوبکرؓ کی علالت اور وفات کا ذکر یوں بیان ہوا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی بیماری کا باعث یہ ہوا کہ سات جمادی الآخر سوموار کے دن آپؓ نے غسل کیا۔ اس روز خوب سردی تھی۔ اس وجہ سے آپؓ کو بخار ہو گیا جو پندرہ روز تک رہا۔ یہاں تک کہ آپؓ نماز کے لیے باہر آنے کے قابل نہ رہے۔ آپؓ نے حکم دے دیا کہ حضرت عمرؓ نماز پڑھاتے رہیں۔ لوگ آپؓ کی عیادت کے لیے آتے تھے مگر روز بروز آپؓ کی طبیعت خراب ہوتی گئی ۔ اس زمانے میں حضرت ابوبکرؓ اس مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے جو اُن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عنایت فرمایا تھا اور جو حضرت عثمان بن عفانؓ کے مکان کے سامنے واقع تھا۔ علالت کے زمانے میں زیادہ تر آپ کی تیمارداری حضرت عثمانؓ کرتے رہے۔(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ348دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2012ء)
آپؓ پندرہ روز تک بیمار رہے۔ کسی نے آپؓ سے کہا آپؓ طبیب کو بلا لیں تو اچھا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: وہ مجھے دیکھ چکا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ اس نے آپؓ سے کیا کہا ہے۔ آپؓ نے فرمایا اس نے یہ کہا ہے کہ اِنِّیْ اَفْعَلُ مَا اَشَاءُ، میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ347دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2012ء)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ بیمار ہوئے تو لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہم آپ کے لیے طبیب کو بلا لیں تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا اس نے مجھے دیکھ لیا ہے اور کہا ہے کہ إِنِّی فَعَّالٌ لِّمَا أُرِیدُکہ میں جو چاہوں گا ضرور کروں گا۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد المجلد الثالث صفحہ 148’ابوبکر الصدیق‘ذکر وصیۃ ابی بکر ۔دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
بہرحال آپ کی مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کا اب یہی ارادہ ہے کہ مجھے اپنے پاس بلا لے اور کسی طبیب کی ضرورت نہیں ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے منگل کی شام کو بتاریخ بائیس جمادی الآخر تیرہ ہجری کو تریسٹھ سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ آپؓ کا عہد خلافت دو سال تین مہینے دس روز رہا۔(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ لابن سعد المجلد الثالث صفحہ 151’ابوبکر الصدیق‘ذکر وصیۃ ابی بکر ۔دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے لبوں سے جو آخری الفاظ ادا ہوئے وہ قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ تھی کہ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَ(يوسف: 102)یعنی مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زمرے میں شمار کر۔(ابوبکر الصدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 478 اسلامی کتب خانہ لاہور)
حضرت ابوبکر صدیق کی انگوٹھی کا نقش نِعْمَ الْقَادِرُ اللّٰہ تھا یعنی کیا ہی قدرت رکھنے والا ہے اللہ تعالیٰ۔(طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 158 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا۔ میری تجہیز و تکفین سے فارغ ہو کر دیکھنا کہ کوئی اَور چیز تو نہیں رہ گئی۔ باقی چیزیں تو حضرت عمرؓ کو دے دی تھیں۔ اگر ہو تو اس کو بھی حضرت عمرؓ کے پاس بھیج دینا۔ تجہیز و تکفین کے متعلق فرمایا۔ اس وقت جو کپڑا بدن پر ہے اسی کو دھو کر دوسرے کپڑوں کے ساتھ کفن دینا۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یہ تو پرانا ہے۔ کفن کے لیے نیا ہونا چاہیے۔ فرمایا زندے مُردوں کی بہ نسبت نئے کپڑوں کے زیادہ حقدار ہیں۔(سیرالصحابہ جلد اول صفحہ 50 دار الاشاعت کراچی)جو نیا کپڑا ہے وہ کسی زندہ کو پہنا دو زیادہ بہتر ہے۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے وصیت کی تھی کہ آپؓ کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس آپؓ کو غسل دیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمٰن نے ان کے ساتھ معاونت کی۔ آپؓ کا کفن دو کپڑوں پر مشتمل تھا۔ ان میں سے ایک کپڑا غسل کے لیے استعمال ہونے والا تھا۔ یہ بھی روایت ہے کہ تین کپڑوں میں کفن دیا گیا۔ پھر آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی پر رکھا گیا۔ یہ وہ چارپائی تھی جس پر حضرت عائشہؓ سویا کرتی تھی۔ اسی چارپائی پر آپ کا جنازہ اٹھایا گیا اور
حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اور منبر کے درمیان آپؓ کا جنازہ پڑھایا اور آپؓ کو رات کے وقت اسی حجرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ دفن کیا گیا۔ آپؓ کا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے مقابل میں رکھا گیا۔(مستدرک حاکم ، الجزء الثالث صفحہ66 حدیث نمبر 4409 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
تدفین کے وقت حضرت عمر بن خطابؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت طلحہ بن عبداللہؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکرؓ قبر میں اترے اور تدفین کی۔ ابنِ شہاب سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو رات کے وقت دفن کیا۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 156 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت سالم بن عبداللہؓ اپنے والد کا یہ قول بیان کرتے ہیں کہ
حضرت ابوبکر صدیق ؓکی وفات کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا غم تھا کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپؓ کا جسم مسلسل کمزور سے کمزور تر ہوتا گیا یہاں تک کہ آپؓ کا انتقال ہو گیا۔(مستدرک حاکم ، الجزء الثالث صفحہ 66 حدیث نمبر 4410 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
بعض سیرت نگاروں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ آپؓ کی وفات کا باعث وہ کھانا تھا جس میں کسی یہودی نے زہر ملایا تھا لیکن عموما ًسیرت نگاروں نے اس روایت کی تردید بھی کی ہے۔(سیرت سیدنا صدیق اکبرؓ از عمر ابو النصر (مترجم) صفحہ726مشتاق بک کارنر لاہور)
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابوبکرؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے پوچھا یہ کون سا دن ہے؟ لوگوں نے کہا سوموار۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا اگر آج میں فوت ہو جاؤں تو کل کا انتظار نہ کرنا کیونکہ مجھے وہ دن یا رات زیادہ محبوب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب ہو۔(مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ88 مسند ابی بکر الصدیق حدیث 45۔ عالم الکتب بیروت 1998ء)یعنی تدفین وہاں ہو جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے اپنے ترکے کی بابت فرمایا کہ میرے بعد قرآنی احکام کے مطابق اسے تقسیم کر دیا جائے۔(سیرت خلفائے راشدین از محمد الیاس عادل صفحہ 152 مشتاق بک کارنر لاہور)
اسی طرح ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنے متروکہ مال میں سے رشتہ داروں کے لیے جو وارث نہیں تھے پانچویں حصہ کی وصیت کی تھی۔(ابوبکر الصدیق از محمد حسین ہیکل صفحہ 475 اسلامی کتب خانہ لاہور)
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ازواج اور اولاد کے بارے میں ذکر ہے کہ آپؓ کی چار بیویاں تھیں۔ نمبر ایک قُتَیلہ بنت عَبْدُالْعُزّٰی۔ ان کے اسلام لانے کے بارے میں اختلاف ہے۔ یہ حضرت عبداللہؓ اور حضرت اسماء ؓکی والدہ تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں زمانۂ جاہلیت میں طلاق دے دی تھی ۔ یہ ایک مرتبہ مدینہ میں حضرت اسماءؓ یعنی اپنی بیٹی کے پاس کچھ گھی اور پنیر بطور ہدیہ لے کر آئی تھیں مگر حضرت اسماءؓ نے وہ ہدیہ لینے سے انکار کر دیا اور انہیں گھر میں داخل بھی نہیں ہونے دیا اور حضرت عائشہؓ کو کہلا بھیجا کہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں۔ حضرت عائشہؓ سے کہا کہ ذرا پوچھ کے بتائیں کہ میری ماں اس طرح آئی ہے اور تحفہ لائی ہے۔میں نے تو انہیں گھر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ کیا ارشاد ہے؟ اس پر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو گھر میں آنے دو اور ان کا ہدیہ قبول کرو۔
نمبر دو جو اہلیہ تھیں وہ حضرت ام رُوْمَان بنت عامر ؓتھیں۔ آپ کا تعلق بنو کِنعَانہ بن خُزَیمہ سے تھا۔ آپ کے پہلے خاوند حارث بن سَخْبَرَہ مکہ میں فوت ہو گئے اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے عقد میں آگئیں۔ آپ ابتدا میں اسلام لے آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی اور مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ آپؓ کے بطن سے حضرت عبدالرحمٰنؓ اور حضرت عائشہؓ کی ولادت ہوئی۔ آپؓ کی وفات چھ ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی قبر میں اترے اور ان کی مغفرت کی دعا فرمائی۔
تیسری حضرت اَسماءؓ بنت عُمَیْس بن مَعْبَد بن حارِث تھیں۔ آپ کی کنیت ام عبداللہ ہے۔ آپ مسلمانوں کے دار ارقم میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسلام قبول کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر چکی تھیں۔ آپ ابتدائی ہجرت کرنے والی تھیں۔ آپ نے اپنے خاوند حضرت جعفر بن ابو طالبؓ کے ساتھ پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور وہاں سے سات ہجری میں مدینہ تشریف لائیں۔ آٹھ ہجری میں جنگ موتہ میں جب حضرت جعفر ؓشہید ہو گئے تو آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عقد میں آگئیں۔ آپ کے بطن سے محمد بن ابوبکر پیدا ہوئے۔
چوتھی بیوی حضرت حَبِیبہ بنت خَارِجہ بن زید بن ابوزُہَیر تھیں۔ ان کا تعلق انصار کی شاخ خزرج سے تھا۔ حضرت ابوبکرؓ مدینہ کے مضافاتی علاقے سُنْحْ میں آپ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ آپ کے بطن سے حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی امِ کلثوم پیدا ہوئیں جن کی ولادت حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہوئی۔
اولاد میں تین بیٹےاور تین بیٹیاں تھیں۔ پہلے بیٹے حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکرؓ۔ آپؓ حضرت ابوبکرؓ کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ آپؓ حدیبیہ کے دن مسلمان ہوئے اور پھر اسلام پر ثابت قدم رہے۔ آپؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل رہی۔ آپؓ شجاعت اور بہادری میں بہت مشہور تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپؓ کا قابل تعریف موقف رہا۔
دوسرے حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ تھے۔ آپؓ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے موقع پر اہم کردار تھا۔ آپ تمام دن مکہ میں گزارتے اور مکہ والوں کی خبریں جمع کرتے اور پھر رات کے وقت چپکے سے غار میں پہنچ کر وہ خبریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کو سناتے اور صبح کے وقت واپس مکہ میں آ جاتے۔ طائف کی جنگ میں آپ کو ایک تیر لگا جس کا زخم ٹھیک نہ ہوا اور آخر کار اسی کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کی خلافت میں آپؓ نے شہادت پائی۔
محمد بن ابوبکر تیسرے بیٹے تھے۔ آپ حضرت اسماء بنت عمیس کے بطن سے پیدا ہوئے۔ جحةالوداع کے موقع پر ذوالحلیفہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔ حضرت علی ؓکی گود میں آپ نے پرورش پائی اور حضرت علیؓ نے اپنے دَور میں آپ کو مصر کا گورنر مقرر فرمایا۔ آپ وہیں مارے گئے۔ بعض روایات میں حضرت عثمان ؓکو قتل کرنے والوں میں ان کا نام بھی لیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ان کو قتل کیا گیا۔ واللہ اعلم۔
آپ کے بچوں میں سے چوتھی حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ ہیں۔ آپؓ ذات النطاقین کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ حضرت عائشہؓ سے عمر میں بڑی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو ذات النطاقین کے لقب سے نوازا تھا کیونکہ ہجرت کے موقع پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے والد کے لیے توشہ تیار کیا اور پھر اس کو باندھنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو اپنے کمر بند کو پھاڑ کر توشہ باندھ دیا۔ کھانے کا جو انتظام کیا تھا وہ کھانا کمر کے کپڑے سے باندھ کر دے دیا۔ حضرت زبیر بن عوامؓ سے آپ کی شادی ہوئی اور بحالت حمل آپ نے مدینہ ہجرت کی۔ ہجرت کے بعد آپؓ کے بطن سے حضرت عبداللہ بن زُبیرؓ پیدا ہوئے جو ہجرت کے بعد پیدا ہونے والے سب سے پہلے بچے تھے۔ حضرت اسماءؓ نے سو سال عمر پائی۔ آپ کی وفات مکہ میں تہتر ہجری میں ہوئی۔
پانچواں بچہ ام المومنین حضرت عائشہ بنت ابوبکرؓ تھیں۔ آپؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں۔ آپؓ خواتین میں سب سے بڑی عالمہ تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو ام عبداللہ کی کنیت عطا فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؓ کے ساتھ مثالی محبت تھی۔ امام شعبیؒ بیان کرتے ہیں کہ
جب مسروق حضرت عائشہؓ سے کوئی روایت بیان کرتے تو کہتے مجھ سے صدیقہ بنت صدیق نے بیان کیا جو اللہ کے محبوب کی محبوبہ ہیں اور جن کی بریت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔
آپ کی وفات تریسٹھ سال کی عمر میں ستاون ہجری میں ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق آپؓ کی وفات اٹھاون ہجری میں ہوئی۔
چھٹی اولاد ام کلثوم بنت ابوبکر تھیں۔ آپ حضرت حبیبہ بنت خارجہ انصاریہ کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ وفات کے وقت حضرت ابوبکرؓنے حضرت عائشہؓ سے فرمایا یہ تمہارے دونوں بھائی اور دونوں بہنیں ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ یہ میری بہن اسماء ہیں انہیں تو میں جانتی ہوں مگر میری دوسری بہن کون ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا جو خارجہ کی بیٹی کے بطن میں ہے۔ یعنی ابھی پیدا نہیں ہوئی، جو پیدا ہونے والی ہے وہ بیٹی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ ان کے ہاں لڑکی ہو گی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد ام کلثوم کی ولادت ہوئی۔ ام کلثوم کی شادی حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ سے ہوئی جو جنگِ جمل میں شہید ہوئے۔(ماخوذازسیدنا ابوبکرؓ شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر صلابی مترجم صفحہ 48تا 52، الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان)(البدایۃ والنہایۃ جلد 8 صفحہ 99، 58ھ، ممن توفی فی ہذہ السنۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)(اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 98 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(اصابہ جلد 8 صفحہ 392 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
بعض روایات کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کی ایک بیٹی کی شادی حضرت بلالؓ سے ہوئی تھی اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہ بیٹی آپ کی چار بیویوں میں سے کسی بیوی کے پہلے خاوند سے تھی۔(سیرت سیدناصدیق اکبرؓ ، از عمر ابو النصر (مترجم) صفحہ647 مشتاق بک کارنر لاہور)
نظامِ حکومت کے بارے میں کہ کس طرح آپؓ نظام حکومت چلاتے تھے
لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ کو کوئی امر پیش آتا تو پھر جہاں مشورے کی ضرورت ہوتی اور اہل الرائے لوگوں کی ضرورت ہوتی، اہلِ فقہ کا مشورہ لینا چاہتے تو آپؓ مہاجرین و انصار میں سے حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ کو بھی بلاتے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 267 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)یا بعض اوقات زیادہ تعدا د میں مہاجرین اور انصار کو جمع فرماتے۔
حضرت مصلح موعودؓ شَاوِرْهُمْ(آل عمران: 160)کی تشریح کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ اس ایک لفظ پر غور کرو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشورہ لینے والا ایک ہے دو بھی نہیں اور جن سے مشورہ لینا ہے وہ بہرحال تین یا تین سے زیادہ ہوں۔ پھر وہ اس مشورے پر غور کرے۔ پھر حکم ہے فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ (آل عمران: 160) جس بات پر عزم کرے اس کو پورا کرے اور کسی کی پروا نہ کرے۔ یعنی مشورہ لینے والا مشورہ لے، اس کے بعد، مشورہ لینے کے بعد سارا تجزیہ کر کے اس پر عمل کرے اور پھر کسی کی پروا نہ کرے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں اس عزم کی خوب نظیر ملتی ہے۔ جب لوگ مرتد ہونے لگے تو مشورہ دیا گیا کہ آپؓ اس لشکر کو روک لیں جو اسامہؓ کے زیرِ کمان جانے والا تھا مگر انہوں نے جواب دیا کہ جو لشکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے میں اسے واپس نہیں کر سکتا۔ ابوقحافہ کے بیٹے کی طاقت نہیں کہ ایسا کر سکے۔ پھر بعض کو رکھ بھی لیا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ بھی اس لشکر میں جا رہے تھے ان کو روک لیا۔
پھر زکوٰة کے متعلق کہا گیا کہ مرتد ہونے سے بچانے کے لیے ان کو معاف کر دو۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ اگر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹ باندھنے کی ایک رسّی بھی دیتے تھے تو وہ بھی لوں گا اور اگر تم سب مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ اور مرتدین کے ساتھ جنگل کے درندے بھی مل جائیں تو میں اکیلا ان سب کے ساتھ جنگ کروں گا۔ یہ عزم کا نمونہ ہے۔ پھر کیا ہوا تم جانتے ہو۔ یہ عزم تھا حضرت ابوبکرؓ کا اور لوگوں کے مشورے اَور تھے لیکن کیا ہوا۔ جس عزم کا نمونہ آپؓ نے دکھایا خدا تعالیٰ نے آپؓ کے عزم کی وجہ سے فتوحات کا دروازہ کھول دیا۔
یاد رکھو! جب خدا سے انسان ڈرتا ہے تو پھر مخلوق کا رعب اس کے دل پر اثر نہیں کرتا۔(ماخوذ از منصب خلافت ،انوار العلوم جلد2صفحہ58)
یہ ہے منصبِ خلافت کی حقیقت۔
بیت المال کا قیام
رسول اکرمؐ کے عہدِ مبارک میں غنیمت، خُمُس، فَے، زکوٰة وغیرہ کے جو اموال آتے تھے آپؐ اسی وقت سب کے سامنے مسجد میں بیٹھ کر تقسیم کر دیتے تھے اور یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس رنگ میں بیت المال کا شعبہ عہدِ نبویؐ میں موجود تھا۔ البتہ حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں فتوحات کی وجہ سے دوسری مدات کے علاوہ غنیمت اور جزیہ کی آمدنی بھی کافی زیادہ آنی شروع ہو گئی، اس میں اضافہ ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ کو ایک بیت المال قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ تقسیم اور خرچ ہو جانے تک مال وہاں رکھا جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے اکابر صحابہؓ کے مشورہ سے ایک مکان اس کے لیے مختص کر دیا لیکن یہ بیت المال برائے نام ہی رہا کیونکہ حضرت ابوبکرؓ کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ نقد اور جنس آنے کے ساتھ ہی تقسیم کر دیا جائے۔
بعض روایات کے مطابق محکمہ مال کی ذمہ داری حضرت ابوعبیدہؓ کے سپرد ہوئی۔(عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 181 البدر پبلیکیشنز لاہور 2000ء)
آغاز میں حضرت ابوبکرؓ نے وادی سُنْح میں بیت المال بنایا ہوا تھا اس کے لیے کوئی محافظ مقرر نہ تھا۔ سُنْح مدینہ کے مضافات میں مسجد نبوی سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر ایک جگہ تھی۔ ایک مرتبہ کسی نے کہا آپؓ بیت المال کی حفاظت کے لیے کوئی محافظ کیوں مقرر نہیں فرماتے؟ آپؓ نے جواب دیا اس کی حفاظت کے لیے ایک قفل کافی ہے یعنی تالا لگا ہوا ہی کافی ہے کیونکہ جو کچھ بھی بیت المال میں جمع ہو تا تھا آپؓ اسے تقسیم فرما دیتے تھے، اکثر خالی ہی رہتا تھا یہاں تک کہ وہ بالکل خالی ہو جاتا۔ پھر جب آپؓ مدینہ منتقل ہو گئے تو بیت المال اپنے گھر میں ہی منتقل کر لیا۔ آپؓ کا طریق یہ تھا کہ جو مال بیت المال میں ہوتا لوگوں کو تقسیم کر دیا کرتے حتیٰ کہ وہ خالی ہو جاتا اور تقسیم کرنے میں ہر ایک کو برابر دیا کرتے تھے اور اسی مال سے آپؓ اونٹ، گھوڑے اور ہتھیار خرید کر اللہ کی راہ میں تقسیم کر دیتے۔ ایک دفعہ آپؓ نے بدوؤں سے چادریں خرید کر مدینہ کی بیواؤں میں تقسیم کیں۔(تاریخ الخلفاء از علامہ سیوطی صفحہ63-64دارالکتاب العربی بیروت1999ء)(فرہنگ سیرت صفحہ 157 زوار اکیڈمی کراچی)تقسیم تو کئی دفعہ کی ہوں گی لیکن بہرحال یہ ذکر روایت میں ایک دفعہ کا ریکارڈ ہواہے۔
حضرت ابوبکرؓ کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا جانا
اس کے بارے میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی بیت المال سے ہی وظیفے کا انتظام کیا گیا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ میری قوم کو علم ہی ہے کہ میرا پیشہ ایسا نہ تھا جس سے میں اپنے گھر والوں کی خوراک مہیا نہ کر سکتا۔ میری آمدنی اتنی تھی کہ آرام سے میں گھر چلا رہا تھا مگر اب میں مسلمانوں کے کاموں میں مشغول ہو گیا ہوں۔ سو ابوبکر کے اہل و عیال اب بیت المال سے کھائیں گے اور وہ یعنی ابوبکر مسلمانوں کے لیے اس مال میں کاروبار کرے گا اور تجارت سے ان کا مال بڑھاتا رہے گا۔(صحیح البخاری کتاب البیوع باب کسب الرجل و عملہ بیدہ حدیث نمبر2070)
چنانچہ مسلمانوں نے آپؓ کے لیے سالانہ چھ ہزار درہم مقرر کیے۔ بعض کہتے ہیں کہ آپؓ نے اتنا منظور کیا تھا جتنا آپؓ کی ضرورت کے لیے کافی ہو۔ آپ پہلے والی تھے یعنی حکومت کے سربراہ تھے جس کی رعایا نے آپؓ کے مصارف منظور کیے۔(ماخوذ از الکامل فی التاریخ لابن اثیرجلد2صفحہ272دارالکتب العلمیۃ بیروت2006ء)
ایک روایت میں اس طرح ذکر ملتا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ بنائے گئے تو ایک روز صبح کے وقت آپ بازار کی طرف جا رہے تھے۔ ان کے کندھے پر وہ کپڑے تھے جن کی وہ تجارت کیا کرتے تھے۔ آپؓ کو حضرت عمر بن خطابؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ ملے۔ انہوں نے کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ!کہاں کا ارادہ ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ بازار جا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا: یہ آپؓ کیا کرتے ہیں حالانکہ آپؓ مسلمانوں کے امور کے والی ہیں۔ آپؓ نے فرمایا تو میں اپنے عیال کو کہاں سے کھلاؤں گا۔ تو وہ آپؓ کو اپنے ساتھ یہ کہہ کر لے گئے کہ ہم آپؓ کا حصہ مقرر کرتے ہیں۔(ماخوذ از الطبقات الکبری جلد 3 صفحہ 137 ’ابوبکر الصدیق‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
چنانچہ سالانہ تین ہزار درہم وظیفہ مقرر ہوا۔ بعض روایات کے مطابق چھ ہزار درہم جیساکہ پہلے ذکر ہو چکا ہے وظیفہ مقرر ہوا اور بعض کے مطابق کل عہدِ خلافت میں چھ ہزار درہم دیے گئے۔ اسی طرح سیرت کی کتب میں تقریباً بالاتفاق یہ ملتا ہے کہ اگرچہ حضرت ابوبکرؓ نے بیت المال سے اپنی اور اہل و عیال کی ضروریات پوری کرنے کے لیے وظیفہ لیا مگر وفات کے وقت تمام رقمیں واپس کر دیں۔ چنانچہ ایک روایت ہے کہ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے وصیت فرمائی کہ آپؓ کی زمین فروخت کر کے اس کی قیمت سے وہ رقم ادا کی جائے جو آپؓ نے بیت المال سے اپنے ذاتی مصارف کے لیے لی تھی۔( الکامل فی التاریخ لابن اثیرجلد2صفحہ272دارالکتب العلمیۃ بیروت2006ء)(طبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 143 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
ایک اَور روایت میں اس طرح ذکر ملتا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ جب سے ہم خلیفہ ہوئے ہیں مَیں نے قوم کا کوئی دینار و درہم نہیں کھایا بلکہ معمولی کھانا اور موٹا لباس پہنتا رہا نیز مسلمانوںکے مالِ غنیمت میں صرف یہ چیزیں ہیں؛ غلام، اونٹ اور چادر۔ لہٰذا میرے مرنے کے بعد ان تمام چیزوںکو عمر کو بھجوا دینا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں جب آپؓ کی وفات ہوئی تو میں نے وہ چیزیں حضرت عمرؓ کے پاس بھیج دیں۔ حضرت عمرؓ چیزیں دیکھ کے رونے لگے یہاں تک کہ ان کے آنسو زمین پر گرنے لگے اورحضرت عمرؓ یہی فرما رہے تھے کہ اللہ ابوبکرؓ پر رحم فرمائے انہوں نے اپنے بعد کے لوگوں کو مشقت میں ڈال دیا۔(الکامل فی التاریخ لابن اثیر جلد2صفحہ271 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2006ء)
جب حضرت ابوبکرؓ نے وفات پائی تو حضرت عمرؓ نے چند صحابہ ؓکو بلا کر بیت المال کا جائزہ لیا تو حضرت عمرؓنے اس میں کوئی چیز نہ درہم نہ دینار پایا۔(تاریخ الخلفاء از علامہ سیوطی صفحہ64 دارالکتاب العربی بیروت1999ء)
کچھ بھی نہیں تھا، خالی تھا، سب تقسیم کر دیا تھا۔
محکمہ قضا کا نظام
آپؓ نے جاری کیا۔ حضرت ابوبکرؓکے دور میں اگرچہ محکمہ قضا کو باقاعدہ طور پر منظم نہیں کیا گیا تھا تاہم آپؓ نے قضا کا محکمہ حضرت عمرؓ کے سپرد کر رکھا تھا۔(سیدنا صدیق اکبر از ابوالنصرمترجم صفحہ699)
ایک روایت میں ذکر ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں آپؓ کی طرف سے عدالت کی خدمات انجام دوں گا۔ حضرت عمرؓ ایک سال تک منتظر رہے مگر اس عرصہ میں کوئی دو شخص بھی آپ کے پاس قضیہ لے کر نہیں آئے۔(تاریخ الطبری جلد2صفحہ351 دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
کوئی لڑائی جھگڑا ہی نہیں ہوتا تھا۔ کوئی مسائل نہیں پیدا ہوتے تھے۔ مقدمات کی تعداد بہت کم تھی۔اگر کوئی مقدمہ آ بھی جاتا تو حضرت ابوبکرؓ خود اس کے لیے وقت نکال لیتے تھے، خودہی حل کر دیا کرتے تھے۔محکمہ قضا کے سربراہ حضرت عمرؓ تھے اور آپ کی مدد کے لیے درج ذیل اصحاب مقرر تھے: حضرت علیؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ۔(سیدنا صدیق اکبرؓ از ابوالنصرمترجم صفحہ699-700)
حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت امن و امان اور دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ مہینہ مہینہ گزر جاتا اور دو آدمی بھی فیصلہ کرانے کے لیے میرے پاس نہ آتے تھے۔(الطبقات الکبری لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 137’ابوبکر الصدیق‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
محکمہ افتا
کے بارے میں لکھا ہے کہ نئے نئے قبائل اور آبادیاں حلقہ اسلام میں داخل ہو رہی تھیں اور حالات کے پیش نظر بعض نئے نئے فقہی مسائل بھی پیدا ہو رہے تھے۔ اس لیے حضرت ابوبکرؓ نے عام مسلمانوں کی سہولت اور راہنمائی کے لیے محکمہ افتا قائم کیا اور حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت ابی بن کعبؓ،حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ کو فتویٰ دینے پر مامور کیا کیونکہ یہ حضرات تفقہ فی الدین اور علم و اجتہاد کے لحاظ سے دوسروں سے ممتاز تھے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بھی فتویٰ دینے والے ان اصحاب میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ کسی دوسرے کو فتویٰ دینے کی اجازت نہ تھی۔(عشرہ مبشرہ از بشیر ساجدصفحہ 182البدر پبلیکیشنز لاہور2000ء)(سیدنا صدیق اکبرؓ از ابوالنصرمترجم صفحہ700)
ایک مؤرخ نے لکھا ہے
کتابت، لکھنے کا جو محکمہ تھا
اس کے بارے میں لکھنے والا لکھتا ہے کہ عہدِ جدید کی اصطلاح میں کاتب کو حکومت کا سیکرٹری کہنا چاہیے۔ یعنی سیکرٹری جو نوٹس لیتا ہے، میٹنگز کے مِنٹس (Minutes)سناتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں یہ نظامِ دیوان قائم نہ ہوا تھا لیکن سرکاری احکام کی تحریر، معاہدوں کی ترقیم، ان کو لکھنا اور دوسرے تحریری کاموں کے لیے کچھ حضرات مخصوص تھے۔ کتابت کی خدمت پر حضرت عبداللہ بن ارقمؓ عہدِ نبوی سے مامور تھے۔ چنانچہ عہد صدیقی میں بھی ان کے سپرد یہ خدمت تھی۔(الصدیقؓ از پروفیسر علی محسن صدیقی صفحہ194قرطاس کراچی2002ء)
ایک روایت کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں حضرت زید بن ثابتؓ نے محکمہ کتابت سنبھالا تھا اور بسا اوقات آپؓ کے پاس موجود دیگر صحابہؓ جیسے حضرت علیؓ یا حضرت عثمانؓ اس ذمہ داری کو نبھاتے تھے۔(ابوبکر الصدیقؓ از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 162مطبوعہ دارابن کثیر دمشق بیروت 2003ء)
پھر فوج کا محکمہ
ہے۔ اس بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے دَور میں کوئی باقاعدہ فوجی نظام نہ تھا۔ جہاد کے وقت ہر مسلمان مجاہد ہوتا تھا۔ فوج کی تقسیم قبائل کے مطابق ہوتی تھی۔ہر قبیلے کا امیر الگ الگ ہوتا تھا اور ان سب پر امیر الامراء کا عہدہ ہوتا تھا جو کہ حضرت ابوبکرؓ کی ایجاد تھی۔(سیدنا صدیق اکبرؓ از ابوالنصرمترجم صفحہ701)
حضرت ابوبکرؓ نے
سامانِ جنگ کی فراہمی کے لیے یہ انتظام
فرمایا تھا کہ مختلف ذرائع سے جو آمدنی ہوتی تھی اس کا ایک معقول حصہ فوجی اخراجات کے لیے علیحدہ نکال لیتے تھے جس سے اسلحہ اور باربرداری کے جانور خریدے جاتے تھے۔ مزید جہاد کے اونٹوں اور گھوڑوں کی پرورش کے لیے بعض چراگاہیں مخصوص کر دی تھیں۔(کمانڈر صحابہ از علامہ محمد شعیب چشتی صفحہ87-88مطبوعہ ممتاز اکیڈمی اردو بازار لاہور)
ایک سیرت نگار لکھتاہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی عسکری حکومت کا نظام اس بدوی طریق کے زیادہ قریب تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے بھی پہلے قبائل عرب میں رائج تھا۔ اس وقت حکومت کے پاس کوئی باقاعدہ منظم لشکر موجود نہ تھا بلکہ ہر شخص اپنے طور پر جنگی خدمات کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتا تھا۔ جب لڑائی کا اعلان کر دیا جاتا تو قبائل ہتھیار لے کر نکل پڑتے اور دشمن کی جانب کوچ کر دیتے۔ سامان رسد اور اسلحہ کے لیے قبائل مرکزی حکومت کی طرف نہ دیکھتے تھے بلکہ خود ہی ان چیزوں کا انتظام کرتے تھے۔ حکومت کی طرف سے انہیں تنخواہ بھی ادا نہ کی جاتی تھی بلکہ وہ مالِ غنیمت ہی کو اپنا حق الخدمت سمجھتے تھے۔ میدان جنگ میں جو مال غنیمت حاصل ہوتا تھا اس کا 5/4حصہ جنگ میں حصہ لینے والوں کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا تھا اور پانچواں حصہ خلیفہ کی خدمت میں دارالحکومت میں ارسال کر دیا جاتا تھا جسے وہ بیت المال میں جمع کر دیتا تھا۔ خمس کے ذریعہ سے سلطنت کے معمولی مصارف پورے کیے جاتے تھے۔(ماخوذاز ابوبکر الصدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ456-457مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)
جنگوں میں سپہ سالارانِ جنگ کو، جو جنگوں کے امیر الامراء بنائے جاتے تھے، ان کو حضرت ابوبکرؓ نے جنگ کے بارے میں جو ہدایات دیں ، ان کے متعلق لکھا ہے کہ
حضرت ابوبکرؓ جنگ پر جانے والے سپہ سالاروں اور کمانڈروں کو بھی ہدایات دیتے تھے۔
حضرت اسامہؓ کے لشکر کو خطاب فرماتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ
میں تم کو دس باتوں کی نصیحت کرتا ہوں۔
تم خیانت نہ کرنا اور مالِ غنیمت سے چوری نہ کرنا۔ تم بدعہدی نہ کرنا اور مُثلہ نہ کرنا اور کسی چھوٹے بچے کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی بوڑھے کو اور نہ ہی کسی عورت کو اور نہ کھجور کے درخت کاٹنا اور نہ اس کو جلانا اور نہ کسی پھل دار درخت کو کاٹنا۔ نہ تم کسی بکری گائے اور اونٹ کو ذبح کرنا سوائے کھانے کے لیے۔ جب ضرورت ہو کرو نہیں تو نہیں۔ اور تم کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے اپنے آپ کو گرجوں میں وقف کر رکھا ہے۔ پس تم انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا انہیں کچھ نہیں کہنا جو راہب ہیں۔ اور تم ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو تمہیں مختلف قسم کے کھانے برتنوں میں پیش کریں گے۔ تم ان پر اللہ کا نام لے کر کھانا۔ اور تمہیں ایسے لوگ ملیں گے جو اپنے سر کے بال درمیان سے صاف کیے ہوں گے اورچاروں طرف پٹیوں کی مانند بال چھوڑے ہوںگے تو تلوار سے ان کی خبر لینا کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے والے اور جنگیں کرنے والے لوگ ہیں۔ اللہ کے نام سے روانہ ہو جاؤ۔ اللہ تمہیں ہر قسم کے زخم سے اور ہر قسم کی بیماری اور طاعون سے محفوظ رکھے۔(تاریخ الطبری لابی جعفر محمد بن جریر طبری جلد2 صفحہ246 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
اسی طرح حضرت ابوبکرؓ نے حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کو شام کی جنگ کے لیے بھیجتے ہوئے فرمایا۔ اس کا ذکر میں پہلے بھی پچھلے خطبہ میں کر چکا ہوں۔ بعض اہم باتوں کا خلاصہ دوبارہ بیان کر دیتا ہوں۔
یہ بڑی ضروری باتیں ہیں۔ یاد رکھنے والی ہیں۔ ہر عہدیدار کے لیے یاد رکھنے والی ہیں۔
آپؓ نے کہا کہ مَیں نے تمہیں والی مقرر کیا تا کہ تمہیں آزماؤں۔ تمہارا تجربہ کروں اور تمہیں باہر نکال کر تمہاری تربیت کروں۔ اگر تم نے اپنے فرائض بحسن و خوبی ادا کیے تو تمہیں دوبارہ تمہارے کام پر مقرر کروں گا اور تمہیں مزید ترقی دوں گا اور اگر تم نے کوتاہی کی تو تمہیں معزول کر دوں گا۔ اللہ کے تقویٰ کو تم لازم پکڑووہ تمہارے باطن کو اسی طرح دیکھتا ہے جس طرح ظاہر کو دیکھتا ہے۔ لوگوں میں خدا کے زیادہ قریب وہ ہے جو اللہ سے دوستی کا سب سے بڑھ کر حق ادا کرنے والا ہے اور لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کے قریب وہ شخص ہے جو اپنے عمل کے ذریعہ سب سے زیادہ اس سے قربت حاصل کرے۔ پھر فرمایا۔جاہلی تعصب سے بچنا۔ اللہ کو یہ باتیں انتہائی ناپسند ہیں۔ پھر فرمایا تم اپنے لشکر کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔ ان کے ساتھ خیر سے پیش آنا۔ جب انہیں وعظ و نصیحت کرنا تو مختصر کرنا کیونکہ بہت زیادہ گفتگو بہت سی باتوں کو بھلا دیتی ہے۔ تم اپنے نفس کو درست رکھو لوگ تمہارے لیے درست ہو جائیں گے۔ لیڈر اپنے درست رکھیں ۔
عہدیدار اپنی حالت درست رکھیں تو لوگ خود بخود درست ہو جاتے ہیں۔
اور نمازوں کو ان کے اوقات پر رکوع اور سجود کو مکمل کرتے ہوئے ادا کرنا۔
نمازوں کی پابندی بڑی ضروری ہے۔
پھر فرمایا کہ جب دشمن کے سفیر تمہارے پاس آئیں تو ان کا اکرام کرنا، عزت کرنا۔ انہیں بہت کم ٹھہرانا۔ تمہارے پاس زیادہ دیر نہ ٹھہریں اور وہ تمہارے لشکر سے جلد نکل جائیں۔ لشکر میں زیادہ دیر نہ رہیں جلدی نکل جائیں تاکہ وہ اس لشکر کے بارے میں کچھ جان نہ سکیں۔ ان کو اپنے کاموں کے بارے میں مطلع نہ کرنا۔ بڑی مختصر باتیں بتانا۔ فرمایا کہ اپنے لوگوں کو ان سے بات کرنے سے روک دینا۔ ہر ایک کو ان سفیروں سے ملنے نہ دینا۔ یہ نہیں کہ جہاں چاہیں وہ چلے جائیں اور ملتے چلے جائیں۔ نہیں۔ یہ صرف جن سے ملنا ہے جن سے بات کرنی ہے ان سے بات کریں۔ وہ عوام میں نہ گھس جائیں۔ جب تم خود ان سے بات کرو تو اپنے بھید کو ظاہر نہ کرنا۔ خود بھی سفیروں سے بڑی احتیاط سے بات کرنا۔ پھر مشورہ کے بارے میں بتایا کہ جب تم کسی سے مشورہ لینا تو بات سچ کہنا ،صحیح مشورہ ملے گا۔ ساری بات بتا کے پھر مشورہ لینا۔ مشیر سے اپنی خبر مت چھپانا ورنہ تمہاری وجہ سے تمہیں نقصان پہنچے گا۔ سارے دن کی معلومات حاصل کرنے کے بارے میں کہ کس طرح معلومات حاصل کی جائیں۔ کس طرح عہدیدار کو، لیڈر کو ،کمانڈر کو انفارمیشن معلوم ہو تو فرمایا کہ رات کے وقت اپنے دوستوں سے باتیں کرو۔ شام کے وقت بیٹھو ان میں سے لوگ چنو ان سے باتیں کرو تمہیں خبریں مل جائیں گی۔ اکثربغیر اطلاع دیے ہی اچانک ان کی چوکیوں کا معائنہ کرنا۔نگرانی بھی ضروری ہے۔ جسے اپنی حفاظت گاہ سے غافل پاؤ اس کی اچھی طرح تادیب کرنا۔ پھر فرمایا کہ سزا دینے میں جلدی نہ کرنا اور نہ بالکل نظر انداز کرنا۔ دونوں چیزیں ضروری ہیں، نہ سزا دینے میں، فیصلہ کرنے میں جلد بازی کرنی ہے۔ نہ یہ کہ بالکل غافل ہوجاؤ کچھ کہو ہی نہ۔ اپنی فوج سے غافل نہ رہنا۔ ان کی جاسوسی کر کے ان کو رسوا نہ کرنا۔ ہر وقت جستجو، اپنے لوگوں کی جاسوسی نہ کرتے رہنا کیونکہ اس طرح ان کی رسوائی ہوتی ہے۔ ان کے راز کی باتیں لوگوں سے نہ بیان کرنا۔ جو راز تمہیں پتہ لگے کسی اَور سے نہ بیان کرنا۔ بیکار قسم کے لوگوں کے ساتھ مت بیٹھنا۔ سچے اور وفادار لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرنا۔ بزدل نہ بننا ورنہ لوگ بھی بزدل ہو جائیں گے۔ مالِ غنیمت میں خیانت سے بچنا یہ محتاجی سے قریب کرتی ہے اور فتح و نصرت کو روکتی ہے۔(الکامل فی التاریخ جلد2 صفحہ253-254 دارالکتب العلمیة بیروت 2003ء)
یہ بہت سی باتیں ہیں جو میں نے نئی بیان کیں۔ ان میں سے بعض باتیں جیساکہ میں نے پہلے کہا علاوہ فوجی افسروں کے ہمارے عہدے داروں کے لیے بھی ضروری ہیں جس کا انہیں خیال رکھنا چاہیے تبھی کام میں برکت پڑے گی۔ یہ خلاصہ میں دوبارہ جیساکہ پہلے کہا ہے اس لیے بیان کر رہا ہوں تاکہ عہدیداروں کو یاد رہے۔
اسلامی حکومت کی مختلف ریاستوں میں تقسیم کے بارے میں
لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں بلادِ اسلامیہ کو مختلف ریاستوں میں تقسیم کیا گیا۔ ان ریاستوںمیں آپ نے امراء اور گورنر مقرر کیے۔ مدینہ ان کا دارالخلافہ تھا۔ یہاں حضرت ابوبکرؓ بحیثیت خلیفہ تھے۔(خلاصہ از ابوبکر الصدیقؓ از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ181،180،176مطبوعہ دارابن کثیر دمشق بیروت 2003ء)
عُمال مقرر کرنے کے طریق
کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا طریق کار یہ تھا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کسی قوم پر گورنر مقرر کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھتے کہ
اگر اس قوم کے افراد میں نیک و صالح افراد ہوتے تو انہی میں سے گورنر مقرر فرماتے۔
طائف اور بعض دیگر قبائل پر انہی میں سے گورنر مقرر فرمایا اور جب آپ کسی شخص کو بحیثیت گورنر مقرر کرتے تو اس علاقے پر اس کی گورنری کا عہد نامہ تحریر کرا دیتے اور اکثر اوقات اس علاقے تک پہنچنے کا راستہ بھی اس کے لیے متعین فرما دیتے۔ اور اس میں ان مقامات کا ذکر کرتے جہاں سے ان کو گزرنا ہوتا تھا۔ خاص کر جب یہ تقرری ان علاقوں سے متعلق ہوتی جو ابھی فتح نہیں ہوئے ہوتے تھے اور اسلامی خلافت کے کنٹرول سے باہر ہوتے۔ فتوحات شام اور عراق اور مرتدین کے خلاف جنگوں میں یہ چیزیں بالکل نمایاں نظر آتیں اور بسا اوقات آپ بعض ریاستوں کو دوسروں کے ساتھ ضم کر دیتے، خاص کر مرتدین سے قتال کے بعد یہ عمل میں آیا۔ چنانچہ حضرت زیاد بن لبیدؓ جو حضرموت کے گورنر تھے ان کی نگرانی میں کِنْدَہ کو بھی شامل کر دیا اور اس کے بعد وہ حضرموت اور کِنْدَہ دونوں کے گورنر رہے۔(ابوبکر الصدیقؓ از ڈاکٹر علی محمد صلابی صفحہ 179مطبوعہ دارابن کثیر دمشق بیروت 2003ء)
حضرت ابوبکرؓ کے دور میں عاملین کے انتخاب میں اولیتِ اسلام کو دیکھا جاتا
نیز ایسے شخص کو مقرر کیا جاتا جو درسگاہِ نبوت سے تربیت یافتہ ہو۔ جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ملی ہو ان کو عامل مقرر کیا جاتا۔ پہلی preference وہ تھی، پہلی ترجیح وہ تھی۔ اس سلسلہ میں آپؓ کا معیار یہ تھا کہ جس شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس کام کے لیے مقرر فرما گئے تھے آپ اس میں ہرگز ردّ و بدل نہ فرماتے تھے۔ مثلاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ ؓکو لشکر کا امیر مقرر فرمایا تھا۔ بعد میں بعض لوگوں نے مصلحت کے پیش نظر کسی بزرگ صحابی کو اس عہدے پر متمکن کرنے کا مشورہ دیا لیکن آپ نے حضرت اسامہؓ کو ہی برقرار رکھا۔ اسی طرح آپؓ یہ بھی دیکھتے تھے کہ کس شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ فیض حاصل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اکثر و بیشتر مختلف ذمہ داریاں ان لوگوں کے سپردکیا کرتے تھے جو فتح مکہ سے قبل مسلمان ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میںآپؓ نے کبھی قبائلی عصبیت یا اقربا نوازی کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ اسی سخت اصول اور بلند معیاری کا نتیجہ تھا کہ آپؓ کے مقرر کردہ عمال و حکام نے ہمیشہ اپنی بہترین صلاحیتیں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے استعمال کیں۔(سیدنا صدیق اکبرؓ از ابوالنصرمترجم صفحہ693)
حضرت ابوبکر صدیقؓ عمال کی تقرری میں اہل علاقہ کی رائے کا بھی احترام کرتے تھے
چنانچہ حضرت علاء بن حضرمیؓ عہدِ نبوی میں بحرین کے گورنر رہے بعد میں کسی وجہ سے ان کو وہاں سے کہیں اَور بھجوا دیا گیا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کے دَورِ خلافت میں اہلِ بحرین نے حضرت ابوبکرؓ کو درخواست کی کہ حضرت علاءؓ کو ان کے پاس واپس بھجوا دیا جائے تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِی ؓکو بحرین کا گورنر بنا کر ان کے پاس بھجوا دیا۔(ماخوذ از فتوح البلدان لبلاذری صفحہ131 مترجم مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)
عاملین کو بھی آپؓ نے ہدایات دیں۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ
حضرت ابوبکرؓ حکام کے تقرر کے موقع پر خود ہدایات دیتے تھے
چنانچہ تاریخ طبری میں ہے کہ عمرو بن عاصؓ اور ولید بن عقبہؓ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ ظاہر و باطن میں خدا سے ڈرتے رہو۔ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے رہائی کا راستہ پیدا کر دیتا ہے اور اس کو ایسے ذریعہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے ملنے کا اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے یعنی اللہ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے اور اس کو بڑھا کر اجر دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا ان سب میں بہتر ہے جس کی خدا تعالیٰ کے بندے ایک دوسرے کو تلقین کرتے ہیں۔ تم خدا کے راستوں میں سے ایک راستے پر جا رہے ہو لہٰذا جو امر تمہارے دین کی قوت اور تمہاری حکومت کی حفاظت کا موجب ہو اس میں تمہارا کوتاہی کرنا ناقابلِ معافی جرم ہے۔ پس تمہاری طرف سے سستی اور غفلت ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ332 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مُسْتَورِد بن شدادؓ بیان کرتے ہیںکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص ہمارا عامل ہو وہ ایک بیوی رکھ لے اور اگر اس کے پاس خادم نہ ہو تو وہ ایک خادم رکھ لے۔ اگر اس کے پاس رہائش کے لیے مکان نہ ہو تو رہائش کے لیے ایک مکان رکھ لے۔ مستورد نے کہا حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا جو شخص ان اشیاء کے علاوہ کچھ بھی لے تو وہ خائن ہے یا فرمایا کہ وہ چور ہے۔(سنن ابی داؤد کتاب الخراج و الامارہ والفیٔ باب فی ارزاق العمال حدیث 2945)
عُمال کا محاسبہ
کس طرح ہوتا تھا؟ حضرت ابوبکرؓ عمال و حکام کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتے تھے۔ چونکہ یہ لوگ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض صحبت حاصل کر چکے تھے اس لیے حضرت عمرؓ کے برعکس حضرت ابوبکرؓ ان کی معمولی بھول چوک سے درگذر فرماتے تھے۔ نظر رکھتے تھے کہ کیا کر رہے ہیں لیکن معمولی باتوں کو درگذر فرماتے تھے۔ تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اپنے عُمال اور آدمیوں کو قید نہیں کرتے تھے لیکن جب کوئی سخت غلطی کرتا تو آپ اس کو مناسب تنبیہ ضرور فرماتے تھے خواہ وہ عہدے کے اعتبار سے کتنا بڑا کیوں نہ ہو۔ حضرت مہاجر بن امیہؓ کے بارے میں آپ کو معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک ایسی عورت کے دانت اکھڑوا دیے ہیں جو مسلمانوں کی ہجو کرتی ہے تو اس پر آپؓ نے فوراً حضرت مہاجر ؓکو سرزنش کا خط لکھا۔ حتی ٰکہ اگر آپؓ کو حضرت خالد بن ولیدؓ کی کسی کوتاہی کا علم ہوتا تو آپ ان کو بھی سرزنش کرنے میں تامل نہ فرماتے۔(سیدنا صدیق اکبرؓ از ابوالنصرمترجم صفحہ695)
امراء اور گورنروں کی ذمہ داریوں کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے مختلف علاقوں، شہروں اور قصبوں میں جو گورنر اور امراء مقرر کیے تھے ان کی مختلف ذمہ داریاں اور ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں۔ امراء اور ان کے نائبین کی مالی ذمہ داریاں بھی تھیں۔ وہ اپنے اپنے علاقے میں علاقے کے دولتمندوں سے زکوٰة وصول کر کے غرباء میں تقسیم کرتے تھے اور غیر مسلموں سے جزیہ لے کر بیت المال میں جمع کراتے تھے۔ ان کی یہ ذمہ داری عہدِ نبویؐ سے چلی آ رہی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہونے والے معاہدوں کی تجدید کی گئی۔ نجران کے والی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل نجران کے درمیان کیے گئے معاہدے کی تجدید کی تھی کیونکہ اہلِ نجران کے عیسائیوں نے اس کا مطالبہ کیا تھا۔ امراء اپنے اپنے علاقوں میں لوگوں کو دینی تعلیم دینے اور اسلام کی تبلیغ و دعوت اور نشر و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کرتے تھے۔ ان میں سے اکثر مساجد میں حلقہ بنا کر لوگوں کو قرآن اور اسلامی احکام اور آداب سکھاتے تھے۔ وہ ایسا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی میں کرتے تھے۔ یہ ذمہ داری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلیفہ حضرت ابوبکرؓ کی نظر میں سب سے اہم شمار ہوتی تھی۔ اس لیے حضرت ابوبکرؓ کے امراء اور گورنروں نے اس ذمہ داری کو خوب نبھایا اور اچھی طرح نبھایا حتی ٰکہ ایک مؤرخ حضرت ابوبکرؓ کے حضرموت میں مقرر کردہ امیر زِیَاد بن لبید کے بارے میں لکھتا ہے کہ جب صبح ہوتی تو زِیَاد لوگوں کو قرآن پڑھانے کے لیے تشریف لے آتے جیساکہ وہ امیر بننے سے پہلے قرآن پڑھانے آیا کرتے تھے۔ اسی طرح
تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے ان امراء نےاپنے علاقوں میں اسلام کی نشر و اشاعت میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
مفتوحہ علاقوں اور مرتد اور باغی ہو جانے والے علاقوں میں اسی تعلیم کی بدولت اسلام مضبوط ہوا۔ ایسے علاقے جہاں ان کے باسی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور دینی احکام سے بے خبر تھے ان علاقوں میں اس تعلیم کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا جبکہ اسلام کے مضبوط مراکز مثلا ًمکہ مکرمہ، طائف اور مدینہ منورہ میں بھی ایسے معلمین مقرر تھے جو لوگوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے تھے۔ یہ سب کچھ اس کے خلیفہ یا امیر کے حکم پر ہوتا تھا یا جنہیں خلیفہ خاص طور پر مختلف علاقوں میں تعلیم کے لیے متعین کرتا تھا وہ یہ فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ علاقے کا امیر یا گورنر اپنے صوبے کے انتظامی امور کا براہِ راست ذمہ دار ہوتا تھا۔ اگر اسے کسی سفر پہ جانا ہوتا تو وہ اپنا نائب مقرر کرتا تھا جو کہ اس کی واپسی تک انتظامی امور کی نگرانی کرتا تھا ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ حضرت مہاجر بن ابی امیہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کندہ کا گورنر مقرر فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓنے بھی انہیں اسی عہدے پر برقرار رکھا۔ مہاجر اپنی بیماری کی وجہ سے یمن نہیں جا سکے وہ مدینہ میں رک گئے اور اپنی جگہ زیاد بن لبید کو روانہ کیا کہ ان کی شفا یابی اور یمن تشریف آوری تک ان کے فرائض انجام دیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے بھی اس امرکی اجازت دے دی۔ اسی طرح عراق کی گورنری کے دوران حضرت خالد بن ولیدؓ حِیْرَہمیں اپنی واپسی تک اپنا نائب مقرر کر دیتے تھے۔(حضرت ابوبکرؓکی زندگی کے سنہرے واقعات ، ازعبدالمالک مجاہد، صفحہ 189،188 مکتبہ دارالسلام الریاض)
یہ ذکر چل رہا ہے ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی بیان ہو گا۔
حضرت ابوبکرؓ نے منگل کی شام کو بتاریخ بائیس جمادی الآخر تیرہ ہجری کو تریسٹھ سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ آپؓ کا عہد خلافت دو سال تین مہینے دس روز رہا… حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اور منبر کے درمیان آپؓ کا جنازہ پڑھایا اور آپؓ کو رات کے وقت اسی حجرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ دفن کیا گیا۔ آپؓ کا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے مقابل میں رکھا گیا۔
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےاوصافِ حمیدہ کا بیان۔
فرمودہ 09؍ستمبر 2022ء بمطابق 09؍تبوک1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔