حضرت ابوبکر صدیقؓ
خطبہ جمعہ 16؍ ستمبر 2022ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کے کارناموں کا ذکر
ہو رہا تھا۔ اس ضمن میں
ذِمیوں کے حقوق
کے بارے میں کچھ تفصیل ہے۔ ذمی وہ لوگ تھے جو اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کر کے اپنے مذہب پر قائم رہے اور اسلامی حکومت نے ان کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے برعکس فوجی خدمت سے بری تھے اور زکوٰة بھی ان پر عائد نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے ان کے جان و مال اور دوسرے انسانی حقوق کی حفاظت کے بدلے ان سے ایک معمولی ٹیکس وصول کیا جاتا تھا جسے عرف عام میں
جزیہ
کہتے ہیں۔ اس کی مقدار صرف چار درہم فی کس سالانہ تھی اور یہ صرف بالغ، تندرست اور قابلِ کار افراد سے وصول کیا جاتا تھا۔ بوڑھے، اپاہج، نادار، محتاج اور بچے اس سے بری تھے بلکہ معذوروں، محتاجوں کو اسلامی بیت المال سے مدد دی جاتی تھی۔ عراق اور شام کی فتوحات کے دوران میں متعدد قبائل اور آبادیاں جزیہ کی بنیاد پر اسلامی رعایا بن گئے۔ ان سے جو معاہدے ہوئے ان میں اس قسم کی شقیں بھی رکھی گئیں کہ ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہیں کیے جائیں گے اور نہ ان کا کوئی ایسا قلعہ گرایا جائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلے میں قلعہ بند ہوتے ہوں۔ ناقوس بجانے کی ممانعت نہ ہو گی اور نہ تہوار کے موقع پر صلیب نکالنے سے روکے جائیں گے۔(عشرہ مبشرہ از بشیر ساجدصفحہ 183البدر پبلیکیشنز لاہور2000ء)یعنی وہ صلیب کا جلوس بھی نکال سکتے ہیں۔
حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں اہلِ حیرہ کے ساتھ حضرت خالد بن ولیدؓ نے جو معاہدہ صلح کیا تھا اس میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی عہد کیا گیا تھا کہ ایسا بوڑھا آدمی جو کام سے معذور ہو جائے یا اس پر کوئی مرض یا مصیبت آن پڑے یا جو پہلے مالدار ہو اور پھر ایسا غریب ہو جائے کہ اس کے ہم مذہب اسے خیرات دینے لگیں تو اس کے سر سے جزیہ ساقط کر دیا جائے گا یعنی ختم کر دیا جائے گا اور جب تک وہ دارالہجرت اور دارالاسلام میں رہے گا، جہاں اسلامی حکومت ہے وہاں رہے گا اس کے اور اس کے اہل و عیال کے مصارف مسلمانوں کے بیت المال سے پورے کیے جائیں گے۔ البتہ اگر ایسے لوگ دارالہجرت اور دارالاسلام چھوڑ کر باہر چلے جائیں، دوسرے ملکوں میں چلے جائیں تو ان کے اہل و عیال کی کفالت مسلمانوں کے ذمہ نہیں ہو گی۔(کتاب الخراج لابی یوسف فصل فی الکنائس والبیع صفحہ148 مطبوعہ المکتبہ التوفیقیہ2013ء)
ایک روایت کے مطابق
اہلِ حیرہ کے ساتھ حضرت خالد بن ولیدؓ کے معاہدہ میں درج تھا کہ محتاجوں، اپاہجوں اور تارک الدنیا راہبوں کو جزیہ معاف ہو گا۔(ابوبکر الصدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ318مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)
پھر ایک
جمع قرآن کا بہت بڑا کام
ہے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ہوا۔ جمعِ قرآن حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد زریں کا بے مثال اور عظیم کارنامہ ہے۔ اس کا پس منظر مسیلمہ کذاب سے ہونے والی جنگِ یمامہ سے متصل ہے۔ جنگِ یمامہ میں بارہ سو مسلمان شہید ہو گئے اور ان میں کبار صحابہؓ اور حفّاظِ قرآن کی بھی ایک واضح اکثریت تھی اور ایک روایت کے مطابق حفاظ شہداء کی تعداد سات سو تک بیان ہوئی ہے۔(حضرت ابوبکرؓ از محمد حسین ہیکل ، مترجم انجم شہباز سلطان صفحہ 393بک کارنر جہلم پاکستان)(قرآن کیسے جمع ہوا؟ از مولانا محمد احمد مصباحی صفحہ58مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور)
چنانچہ اس صورتحال میں حضرت عمرؓ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے لیے انشراحِ صدر عطا فرمایا۔ آپؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے اس کا تذکرہ کیا جس کی تفصیل صحیح بخاری میں یوں بیان ہوئی ہے: عُبید بن سَبَّاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابتؓ نے بتایا کہ اہلِ یمامہ سے جنگ کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے انہیں بلایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عمر بن خطابؓ بھی آپؓ کے پاس بیٹھے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا عمرؓ میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ یمامہ کی جنگ میں قرآنِ کریم کے بہت سے حفاظ شہید ہو گئے ہیں اور میں ڈرتا ہوں کہ مختلف جنگوں میں بہت سے قاری یا حفاظِ قرآن شہید ہو جائیں گے جس کے نتیجہ میں قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے
حضرت عمرؓ نے کہا کہ میری رائے میں آپؓ جمعِ قرآن کا حکم دیں۔
حضرت ابوبکرؓ نے حضرت زیدؓ کو فرمایا کہ میں نے عمرؓ سے کہا ہے کہ تُو وہ کام کیسے کرے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تو عمرؓ نے کہا کہ اس کام میں بخدا خیر ہی خیر ہے۔ عمرؓ نے یہ بات مجھ سے اتنی بار کی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے مجھے انشراحِ صدر عطا فرما دی اور میری بھی عمر کی مانند رائے ہو گئی ہے۔ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا اے زید! یقیناً تُو ایک جوان اور عقلمند آدمی ہے اور ہم تجھے کسی الزام یا عیب سے پاک سمجھتے ہیں۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی بھی لکھا کرتے تھے۔ پس اب تم قرآن شریف کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اسے جمع کرو۔ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اگر وہ کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ذمہ داری میرے سپرد کرتے تو وہ میرے لیے قرآن کریم کے جمع کرنے کے حکم سے زیادہ گراں نہ ہوتی۔ یہ تو بہت بڑا کام تھا جو میرے سپرد کیا۔ میں نے عرض کیا
آپ لوگ وہ کام کیسے کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا بخدا! یہ کام سراسر خیر ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے اتنی بار یہ بات دہرائی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کام کے لیے انشراحِ صدر عطا فرما دیا جس کے لیے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو انشراحِ صدر عطا فرمایا تھا۔ پس مَیں نے قرآنِ کریم کی تلاش شروع کر دی اور اسے کھجوروں کی شاخوں اور سفید پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے اکٹھا کیا۔ یہاں تک کہ سورۂ توبہ کا آخری حصہ مجھے حضرت ابوخُزَیمہ انصاریؓ سے ملا جو اُن کے سوا کسی اَور سے نہیں ملا جو یہ ہے:لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ(التوبۃ:128) یہاں سے لے کر سورۂ توبہ کے آخر تک۔پھر قرآن کریم کے تحریری صحیفے حضرت ابوبکرؓ کی وفات تک انہی کے پاس رہے۔ پھر حضرت عمرؓ کی زندگی میں ان کے پاس رہے۔ اس کے بعد حضرت حفصہ بنت عمرؓ کے پاس رہے۔(صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن حدیث نمبر 4986)
امام بغوی اپنی کتاب شرح السنہ میں جمعِ قرآن کی احادیث پر حاشیہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس قرآن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا تھا اسے صحابہ کرام ؓنے من و عن بغیر کسی کمی بیشی کے مکمل جمع کر دیا تھا اور صحابہ کرام کا قرآن مجید کو جمع کرنے کا سبب حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ پہلے قرآن مجید کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلیٹوں، سلوں اور حفاظِ کرام کے سینوں میں بکھرا ہوا تھا۔ صحابہ کرام کو خدشہ ہوا کہ حفاظِ کرام کی شہادت سے قرآن مجید کا کچھ حصہ ضائع نہ ہو جائے اس لیے وہ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ کام سب صحابہ کرام کے اتفاق سے ہوا لہٰذا انہوں نے قرآن مجید کو بلا تقدیم و تاخیر جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ٹھیک ٹھیک اسی طرح مرتب کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو قرآن مجید سناتے تھے اور انہیں بالکل اسی ترتیب سے قرآن سکھاتے تھے جس طرح یہ اب ہمارے سامنے مصاحف میں موجود ہے۔ یہ ترتیب جبرئیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی تھی۔ وہ آپؐ کو ہر آیت کے نزول پر بتاتے تھے کہ اس آیت کو فلاں سورة میں فلاں آیت کے بعد لکھوائیے۔( شرح السنۃ کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن روایت 1232 جلد 2صفحہ 484-485 المکتبۃ التوفیقیۃ 2014ء)
قرآن کریم کے جمع کرنے کا کام حضرت ابوبکرؓ کے دور میں ہوا۔
حضرت علیؓ اس کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابوبکر صدیقؓ پر رحمت نازل فرمائے۔ وہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے قرآن مجید کو کتابی صورت میں محفوظ کیا تھا۔(مصنف ابن ابی شیبہ کتاب فضائل القرآن روایت نمبر 30856 مترجم جلد 8 صفحہ 827 مکتبہ رحمانیہ لاہور)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمع قرآن کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’جو بات اس وقت تک نہ ہوئی تھی وہ صرف یہ تھی کہ ایک جلد میں قرآن شریف جمع نہیں ہوا تھا۔ جب یہ پانچ سو قرآن کا حافظ اس لڑائی‘‘ یعنی جنگِ یمامہ ’’میں مارا گیا۔ تو حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓکے پاس گئے اور انہیں جا کے کہا کہ ایک لڑائی میں پانچ سو حافظِ قرآن شہید ہوا ہے اور ابھی تو بہت سی لڑائیاں ہمارے سامنے ہیں۔ اگر اَور حفاظ بھی شہید ہو گئے تو لوگوں کو قرآنِ کریم کے متعلق شبہ پیدا ہو جائے گا اس لیے قرآن کو ایک جلد میں جمع کر دینا چاہئے۔ حضرت ابوبکرؓنے پہلے تو اس بات سے انکار کیا لیکن آخر آپؓ کی بات مان لی۔
حضرت ابوبکرؓنے زید بن ثابتؓ کو اِس کام کے لیے مقرر کیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن کریم لکھا کرتے تھے اور کبار صحابہؓ ان کی مدد کے لیے مقرر کیے۔
گو ہزاروں صحابہؓ قرآن شریف کے حافظ تھے لیکن قرآن شریف کے لکھتے وقت ہزاروں صحابہ کو جمع کرنا تو ناممکن تھا اِس لیے حضرت ابوبکرؓنے حکم دے دیا کہ قرآنِ کریم کو تحریری نسخوں سے نقل کیا جائے اور ساتھ ہی یہ احتیاط کی جائے کہ کم سے کم دو حافظ قرآن کے اَور بھی اس کی تصدیق کرنے والے ہوں۔ چنانچہ متفرق چمڑوں اور ہڈیوں پر جو قرآنِ شریف لکھا ہوا تھا وہ ایک جگہ پر جمع کر دیا گیا اور قرآنِ شریف کے حافظوں نے اس کی تصدیق کی۔ اگر قرآنِ شریف کے متعلق کوئی شبہ ہو سکتا ہے تو محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور اس وقت کے درمیانی عرصہ کے متعلق ہو سکتا ہے مگر کیا کوئی عقلمند یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ جو کتاب روزانہ پڑھی جاتی تھی اور جو کتاب ہر رمضان میں اونچی آواز سے پڑھ کر دوسرے مسلمانوں کو حفاظ سناتے تھے اور جس ساری کی ساری کتاب کو ہزاروں آدمیوں نے شروع سے لے کرآخر تک حفظ کیا ہوا تھا اور جو کتاب گو ایک جلد میں اکٹھی نہیں کی گئی تھی لیکن بیسیوں صحابہؓ اس کو لکھا کرتے تھے اور ٹکڑوں کی صورت میں لکھی ہوئی وہ ساری کی ساری موجود تھی اسے ایک جلد میں جمع کرنے میں کسی کو دِقت محسوس ہو سکتی تھی۔ اور پھر کیاایسے شخص کو دقت ہو سکتی تھی جو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کی کتابت پر مقرر تھا اور اس کا حافظ تھا اور جب کہ قرآن روزانہ پڑھا جاتا تھا کیا یہ ہو سکتا تھا کہ اِس جلد میں کوئی غلطی ہو جاتی اور باقی حافظ اس کو پکڑ نہ لیتے۔ اگر اس قسم کی شہادت پر شبہ کیا جائے تو پھر تو دنیا میں کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔
حق یہ ہے کہ دنیا کی کوئی تحریر ایسے تواتر سے دنیا میں قائم نہیں جس تواتر سے قرآن شریف قائم ہے۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن ، انوار العلوم جلد20صفحہ 432-433)
بعد میں آپؓ یہ دلیل فرما رہے ہیں کہ قرآن کریم اصلی حالت میں ہے اور کوئی اس میں ردّ و بدل نہیں ہے جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ تبدیلی ہوئی، اور یہ تھا، اور وہ تھا۔ آج کل بھی اعتراض اٹھتے ہیں اس کا یہ جواب ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پورا قرآن نہ لکھا گیا تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست نہیں ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانہ میں یقیناً سارا قرآن لکھا گیا‘‘ تھا۔ یہ جو کہتے ہیں نہیں لکھا گیا یہ غلط ہے۔ لکھا گیا تھا۔ ’’جیساکہ حضرت عثمانؓ کی روایت ہے کہ جب کوئی حصہ نازل ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے والوں کو بلاتے اور فرماتے اسے فلاں جگہ داخل کرو۔ جب یہ تاریخی ثبوت موجود ہے تو پھر یہ کہنا کہ قرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت پورا نہ لکھا گیا تھا بے وقوفی ہے۔ رہا یہ سوال کہ پھر حضرت ابوبکرؓکے زمانہ میں کیوں لکھا گیا اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن اس طرح ایک جلد میں نہ تھا جس طرح اب ہے۔ حضرت عمرؓ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ قرآن محفوظ نہیں۔ اس لیے انہوں نے اس بارے میں حضرت ابوبکرؓسے جو الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ اِنِّیْ اَرٰی اَنْ تَاْمُرَ جَمْعَ الْقُرْاٰنِ۔ مَیں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کرنے کا حکم دیں۔ یہ نہیں کہا کہ آپ اس کی کتابت کرالیں۔ پھر حضرت ابوبکرؓنے زیدؓ کو بلا کر کہا کہ قرآن جمع کرو چنانچہ فرمایا اِجْمَعْہُ۔ اسے ایک جگہ جمع کر دو یہ نہیں کہا کہ اسے لکھ لو۔ غرض الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ اس وقت قرآن کے اوراق کو ایک جلد میں اکٹھا کرنے کا سوال تھا لکھنے کا سوال نہ تھا۔‘‘(فضائل القرآن(۱) ، انوار العلوم جلد 10 صفحہ 514-515)
حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں قرآن کریم ایک جلد میں جمع کر دیا گیا اور بعد میں حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں مزید پیش رفت یہ ہوئی کہ تمام عرب بلکہ تمام مسلم دنیا کو ایک قراءت پر جمع کر دیا گیا۔
چنانچہ حضرت عثمانؓ کے دور میں قرآن کریم کی اشاعت کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عثمانؓ کے زمانے میں شکایت آئی کہ مختلف قبائل کے لوگ مختلف قراءتوں کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھتے ہیں اور غیر مسلموں پر اس کا برا اثر پڑتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کے کئی نسخے ہیں۔ اس قراءت سے مراد یہ ہے کہ کوئی قبیلہ کسی حرف کو زبر سے پڑھتا ہے دوسرا زیر سے پڑھتا ہے تیسرا پیش سے پڑھتا ہے اور یہ بات سوائے عربی کے اَور کسی زبان میں نہیں پائی جاتی۔ اِس لیے عربی نہ جاننے والا آدمی جب یہ سنے گا تو وہ سمجھے گا کہ یہ کچھ کہہ رہا ہے اور وہ کچھ کہہ رہا ہے حالانکہ کہہ وہ ایک ہی بات رہے ہوں گے۔ پس اس فتنہ سے بچانے کے لیے حضرت عثمانؓ نے یہ تجویز فرمائی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں جو نسخہ لکھا گیا تھا اس کی کاپیاں کروالی جائیں اور مختلف ملکوں میں بھیج دی جائیں اور حکم دے دیا جائے کہ بس اِسی قراءت کے مطابق قرآن پڑھنا ہے اور کوئی قراءت نہیں پڑھنی۔ یہ بات جو حضرت عثمانؓ نے کی بالکل معیوب نہ تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عرب لوگ قبائلی زندگی بسر کرتے تھے یعنی ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ سے الگ رہتا تھا اس لیے وہ اپنی اپنی بولی کے عادی تھے۔ یعنی اپنا اپنا ان کا بولنے کا انداز تھا۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر جمع ہو کر عرب لوگ متمدن ہو گئے اور ایک عامی زبان کی بجائے عربی زبان ایک علمی زبان بن گئی۔ کثرت سے عرب کے لوگ پڑھنے اور لکھنے کے علم سے واقف ہو گئے جس کی وجہ سے ہر آدمی خواہ کسی قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اسی سہولت سے وہ لفظ ادا کر سکتا تھا جس طرح علمی زبان میں وہ لفظ بولا جاتا تھا جو درحقیقت ملک کی زبان تھی۔ پس کوئی وجہ نہ تھی کہ جب سارے لوگ ایک علمی زبان کے عادی ہو چکے تھے انہیں پھر بھی اجازت دی جاتی کہ وہ اپنے قبائلی تلفظ کے ساتھ ہی قرآن شریف کو پڑھتے چلے جائیں اور غیر قوموں کے لیے ٹھوکر کا موجب بنیں۔ اِس لیے حضرت عثمانؓ نے اِن حرکات کے ساتھ قرآن شریف کو لکھ کر جو مکہ کی زبان کے مطابق تھا سب ملکوں میں کاپیاں تقسیم کر دیں اور آئندہ کے متعلق حکم دے دیا کہ سوائے مکی لہجہ کے اَور کسی قبائلی لہجہ میں قرآن شریف نہ پڑھا جائے۔ اِس امر کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یورپ کے مصنف اور دوسری قوموں کے مصنف ہمیشہ یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے کوئی نیا قرآن بنا دیا تھا یا عثمان نے کوئی نئی تبدیلی قرآن کریم میں کر دی تھی لیکن حقیقت وہ ہے جو بیان کی گئی ہے۔(ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 433-434)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:
’’قرآن بلا شبہ وحی متلو ہے اور پورے کا پورا یہاں تک کہ نقطے اورحروف بھی قطعی متواتر ہیں اور اللہ نے اسے کمال اہتمام کے ساتھ فرشتوں کی حفاظت میں نازل فرمایا ہے۔ پھر اس کے بارے میں تمام قسم کےاہتمام کرنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا اور آپؐ نے اپنی آنکھوں کے سامنے ایک ایک آیت جیسے وہ (قرآن) نازل ہوتا رہا لکھنے پر مداومت فرمائی۔
یہاں تک کہ آپ نے اسے مکمل طور پر جمع فرمایا اور بنفس نفیس آیات کو ترتیب دیا اور انہیں جمع کیا اور نماز میں اور نماز سے باہر اس کی تلاوت پر مداومت فرمائی۔ یہاں تک کہ آپ دنیا سے رحلت فرما گئے اور اپنے رفیقِ اعلیٰ اور محبوب رب العالمین سے جا ملے۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’پھر اس کے بعد خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تمام سورتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ترتیب کے مطابق جمع کرنے کا اہتمام فرمایا۔ پھر (حضرت) ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد اللہ نے خلیفۂ ثالث (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) کو توفیق عطا فرمائی تو آپؓ نے لغتِ قریش کے مطابق قرآن کو ایک قراءت پر جمع کیا اور اسے تمام ملکوں میں پھیلا دیا۔‘‘(حمامۃ البشریٰ مترجم صفحہ101-102)
یہ سوال ہے کہ
صحیفہ صدیقی جو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لکھوایا تھا، کب تک محفوظ رہا
اس بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ کے ذریعہ جس قرآن کریم کو ایک جلد میں مرتب کروایا اس کوصحیفۂ صدیقی کہا جاتا ہے۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکے پاس آپؓ کی وفات تک رہا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ کے پاس آ گیا اور حضرت عمرؓ نے ام المومنین حضرت حفصہؓ کے سپرد کر دیا اور یہ ارشاد فرمایا کہ کسی شخص کو نہ دیاجائے۔ البتہ جس کو نقل کرنا یا اپنا نسخہ صحیح کرنا ہو وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں حضرت حفصہؓ سے عاریتاً لے کر چند نسخے نقل کروائے اور وہ نسخہ حضرت حفصہ کو واپس لوٹا دیا۔ جب مروان مدینہ کا حاکم ہوا تو اس نے اس نسخہ کو حضرت حفصہؓ سے لینا چاہا لیکن حضرت حفصہؓ نے انکار کر دیا ۔ حضرت حفصہ کے انتقال کے بعد مروان نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے لے کر اس کو ضائع کر دیا لیکن حضرت عثمانؓ اس کو پہلے محفوظ کروا چکے تھے۔(سیرالصحابہ جلد اول صفحہ 44دار الاشاعت کراچی 2004ء)( فتح الباری کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن…الخ جلد 8 صفحہ636-637 دار الریان للتراث القاھرہ 1887ء)
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سب سے پہلے جو کام سرانجام دیے یا جو کارنامے سب سے پہلے ان کی ذات کے ساتھ وابستہ ہیں انہیں
اوّلیاتِ ابوبکرؓ
کا نام دیا گیا ہے۔ مختلف باتیں ہیں جو اُن کے کام تھے جو سب سے پہلے انہوں نے انجام دیے۔ آپؓ سب سے پہلے اسلام لائے۔ دوسرے یہ کہ مکہ میں آپؓ نے اپنے گھر کے سامنے سب سے پہلے مسجد بنائی۔ پھر تیسرا یہ کہ مکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں سب سے پہلے قریش مکہ سے قتال کیا۔ چوتھا یہ کہ سب سے پہلے متعدّد غلاموں اور باندیوں کو جو اسلام لانے کی پاداش میں ظلم و ستم کا شکار تھے خرید کر آزاد کیا۔ پانچواں یہ کہ سب سے پہلے قرآن کریم کو ایک جلد میں جمع کیا۔ چھٹایہ کہ سب سے پہلے انہوں نے قرآن کا نام مُصْحَف رکھا۔ ساتواں یہ کہ سب سے پہلے خلیفۂ راشد قرار پائے۔ آٹھواں یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سب سے پہلے امیر الحج مقرر ہوئے۔ نواں یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سب سے پہلے نماز میں مسلمانوں کی امامت کی۔ دسواں یہ کہ اسلام میں سب سے پہلے بیت المال قائم کیا۔ گیارہ یہ کہ اسلام میں سب سے پہلے خلیفہ ہیں جن کا مسلمانوں نے وظیفہ مقرر کیا۔ بارھواں یہ کہ سب سے پہلے خلیفہ جنہوں نے اپنا جانشین نامزد کیا۔ حضرت عمرؓ کو آپ نے نامزد فرمایا تھا۔ تیرھواں یہ کہ وہ پہلے خلیفہ ہیں جن کی بیعتِ خلافت کے وقت ان کے والد حضرت ابوقحافہ زندہ تھے۔ چودھواں یہ کہ وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہیں اسلام میں کوئی لقب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا۔ پندرھواں یہ کہ سب سے پہلے شخص جن کی چار پشتوں کو شرفِ صحابیت حاصل ہے۔ ان کے والد صحابی حضرت ابو قحافہؓ، حضرت ابوبکرؓ خود صحابی ، ان کے بیٹے حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکرؓ اور ان کے پوتے حضرت محمد بن عبدالرحمٰن بن ابوبکرؓ یہ سب صحابہ تھے۔(الصدیق از پروفیسر علی محسن صدیقی، صفحہ 381-382)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب
کے بارے میں لکھا ہے
حلیہ مبارک
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں مروی ہے یعنی ان کے حوالے سے بات کی گئی ہے کہ انہوں نے ایک عربی شخص کو دیکھا جو پیدل چل رہا تھا اور آپ اس وقت اپنے ہودج میں تھیں۔ آپؓ نے فرمایا میں نے اس شخص سے زیادہ حضرت ابوبکرؓ سے مشابہ کوئی شخص نہیں دیکھا۔ راوی کہتے ہیں ہم نے کہا حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ آپؓ ہمارے لیے حضرت ابوبکرؓ کا حلیہ بیان کریں تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ گورے رنگ کے شخص تھے۔ دبلے پتلے تھے رخساروں پر گوشت کم تھا۔ کمر ذرا خمیدہ تھی، ذرا جھکی ہوئی تھی کہ آپؓ کا تہ بند بھی کمر پہ نہیں رکتا تھا اور نیچے سرک جاتا تھا۔ چہرہ کم گوشت والا تھا۔ چہرہ زیادہ بھرا ہوا نہیں تھا۔ آنکھیں اندر کی طرف تھیں اور پیشانی بلند تھی۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 140۔ ’ابوبکر الصدیقؓ ‘ ومن بنی تیم بن مرَّۃ بن کعب۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ابنِ سیرین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالکؓ سے پوچھا کہ حضرت ابوبکرؓ خضاب لگاتے تھے؟ تو انہوں نے کہا ہاں مہندی اور کَتَم سے رنگ لگاتے تھے اپنے بالوں پہ، داڑھی پہ۔ کتم ایک بوٹی کا نام ہے۔(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب شیبہ ﷺ حدیث4304۔ جلد 12 صفحہ 248۔249 مع حاشیہ ، نورؓ فاؤنڈیشن ربوہ)
خشیتِ الٰہی اور زہد و تقویٰ
کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ربیعہ بن جعفرؓ اور حضرت ابوبکرؓ کو کچھ زمین عطا فرمائی۔ دونوں میں ایک درخت کے لیے اختلاف ہو گیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے بحث کے دوران کوئی سخت بات کہہ دی لیکن بعد میں اس پر نادم ہوئے اور کہا ربیعہ تم بھی مجھے کوئی ایسی سخت بات کہہ دو تا کہ وہ اس کا قصاص ہو جائے۔ جس طرح میں نے سختی سے بات کی تم بھی مجھے بات کہہ دو لیکن حضرت ربیعہؓ نے انکار کر دیا۔ وہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے سارا واقعہ بیان کیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ربیعہ تم سخت جواب نہ دو لیکن یہ دعا دو غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا اَبَابَکْرٍ اے ابوبکر! اللہ تم سے درگذر فرمائے۔ اس پر انہوں نے ایسا ہی کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ بات جب سنی تو اس کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ زار و قطار روتے ہوئے واپس لَوٹے۔(فتح الباری شرح صحیح بخاری لابن حجر عسقلانی،جلد 7 صفحہ 31 حدیث3661قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک پرندہ دیکھا جو ایک درخت پر تھا۔ آپؓ نے کہا
اے پرندے! تجھے خوشخبری ہو۔ اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ میں تمہاری مانند ہوتا۔ تم درخت پر بیٹھتے ہو اور پھل کھاتے ہو اور پھر اڑ جاتے ہو۔تم پر کوئی حساب ہو گا اور نہ ہی کوئی عذاب۔
اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ میں راستے کے ایک جانب ایک درخت ہوتا اور اونٹ میرے پاس سے گزرتا اور مجھے پکڑتا اور اپنے منہ میں ڈال لیتا اور مجھے چبا ڈالتا پھر وہ مجھے جلدی سے نگل لیتا پھر اونٹ مجھے مینگنی کی صورت میں باہر نکالتا اور میں انسان نہ ہوتا۔(کنزالعمال جزء 12 صفحہ237 کتاب الفضائل باب فضائل الصحابہ حدیث: 35694 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورة النبا کی آیت نمبر 41 وَیَقُوْلُ الْکَافِرُ یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا اور کافر کہے گا اے کاش! میں خاک ہو چکا ہوتا، کی تفسیر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ ’’بعض مسلمان فرقے صحابہؓ کے بغض میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ موت کے وقت یہی فقرہ کہتے تھے پس ان کا کفر ثابت ہے۔‘‘ یعنی کیونکہ حضرت ابوبکرؓ یہ پڑھا کرتے تھے وَیَقُوْلُ الْکَافِرُ یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًاا تو اس لیے وہ کافر ہوئے نعوذ باللہ۔ حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں ’’حالانکہ اگر یہ روایت ثابت ہو‘‘ اگر یہ سچی بات ہے ’’اور یہ آیت حضرت ابوبکرؓکے متعلق ہو تو ابوبکرؓکے ایمان کے لحاظ سے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ کفّار کی باتوں کا منکر یعنی ابوبکرؓیہ کہے گا کہ کاش! میرے ساتھ خدا تعالیٰ کا معاملہ ایسا ہی ہوتا کہ نہ وہ میرے نیک اعمال کا بدلہ دیتا اورنہ میری غلطیوں کی سزا دیتا۔ اور یہ فقرہ ایک مومنِ کامل کا فقرہ ہے۔ حدیثوں میں تو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آتا ہے کہ آپؐ یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے اعمال کی وجہ سے بخشانہیں جاؤں گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخشا جاؤں گا۔ کافر کا لفظ اس جگہ طنزاً استعمال ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ یہ لوگ اسے کافر کہتے ہیں جو جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب ہوتا تھا اور جس نے اپنا سارا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا تھا اور گیارہ سال کی بیٹی آپؐ سے بیاہ دی تھی جبکہ آپؐ کی عمر چوّن پچپن سال کی تھی اور ہجرت میں آپؐ کے ساتھ تھا جبکہ سارے مکہ کے مقابلہ میں آپؐ صرف ابوبکرؓ کو ساتھ لے کر کھڑے ہو گئے تھے۔ قرآن کریم طنزاً کہتا ہے کہ یہ قربانیاں دینے والا شخص تو کافر ہے۔‘‘ اگر یہ سمجھا جائے کہ ابوبکر کے متعلق بھی یہ آیت ہے تو یہ طنزاً لفظ استعمال ہوا ہے کہ یہ قربانیاں دینے والا شخص تو کافر ہے ’’مگر وہ لوگ جنہوں نے اس کے اعمال کے مقابلہ میں کوئی نسبت بھی عمل کی نہیں دکھائی وہ مومن بنتے ہیں۔‘‘(تفسیر صغیر ، سورۃ النبا زیر آیت 41 صفحہ 798 حاشیہ )
حضرت ابوبکرؓ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا اے میری بیٹی! تُو جانتی ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اور عزیز مجھے تم ہو اور میں نے اپنی فلاں جگہ کی زمین تمہیں ہبہ کی تھی۔ اگر تم نے اس پر قبضہ کیا ہوتا اور اس کے نفع سے استفادہ کیا ہوتا تو وہ یقیناً تمہاری ملکیت میں تھی لیکن اب وہ میرے تمام وارثوں کی ملکیت ہے۔ میں پسند کرتا ہوں کہ تم وہ واپس لوٹا دو۔ وہ ہبہ واپس لوٹا دو کیونکہ اس پہ تم نے قبضہ نہیں کیا اور میری زندگی میں وہ زمین میرے استعمال میں ہی رہی تا کہ وہ میری ساری اولاد میں اللہ کی کتاب کے مطابق تقسیم ہو جائے اور میں اپنے رب سے اس حالت میں ملوں کہ میں نے اپنی اولاد میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں دی ہو گی۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے عرض کیا آپ کے حکم کی حرف بہ حرف تعمیل کی جائے گی۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 145-146۔ ذکر وصیۃ ابی بکر۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت)(تاریخ الخلفاء از علامہ سیوطی (مترجم) صفحہ 89 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی )
ذیل کا جو واقعہ میں بیان کرنے لگا ہوں یہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے لیکن آپ کے مناقب کے ضمن میں بھی یہاں دوبارہ ذکر کرتا ہوں۔
جب خلافت کی ردا آپ کو اللہ تعالیٰ نے پہنائی تو اس وقت کا ذکر ہے کہ اگلے دن حضرت ابوبکرؓ جو کپڑے کی تجارت کرتے تھے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد حسب معمول کندھے پر کپڑوں کے تھان رکھ کر بازار کی طرف روانہ ہوئے۔
راستے میں حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کہاں تشریف لے جا رہے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا بازار۔ انہوں نے کہا آپؓ مسلمانوں کے حاکم ہیں چلیے ہم آپؓ کے لیے کچھ وظیفہ مقرر کر دیں۔ آپؓ واپس چلیں، وظیفہ مقرر کر دیں گے۔ تجارت کی کوئی ضرورت نہیں۔(سیرالصحابہ جلد اول صفحہ 77)
علامہ ابنِ سعدؒ نے وظیفہ کی تفصیل یہ بیان کی ہے کہ ان کو دو چادریں ملتی تھیں۔ جب وہ پرانی ہو جاتی تھیں تو انہیں واپس کر کے دوسری لیتے تھے۔ سفر کے موقع پر سواری اور خلافت سے پہلے جو خرچ تھا اسی کے موافق اپنے اور اپنے متعلقین کے لیے خرچ لیتے تھے۔(سیرالصحابہ جلد اول صفحہ 82 )
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام عالمِ اسلامی کے بادشاہ تھے مگر ان کو کیا ملتا تھا۔ پبلک کے روپیہ کے وہ محافظ تو تھے مگر خود اس روپیہ پر کوئی تصرف نہیں رکھتے تھے۔ بے شک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بڑے تاجر تھے مگر چونکہ ان کو کثرت سے یہ عادت تھی کہ جونہی روپیہ آیا خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیااس لیے ایسا اتفاق ہوا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپؓ خلیفہ ہوئے تو اس وقت آپؓ کے پاس نقد روپیہ نہیں تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی دن آپؓ نے کپڑوں کی گٹھڑی اٹھائی اور اسے بیچنے کے لئے چل پڑے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رستہ میں ملے تو پوچھا کیا کرنے لگے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ آخر مَیں نے کچھ کھانا تو ہوا۔ اگرمیں کپڑے نہیں بیچوں گا تو کھاؤں گا کہاں سے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یہ تو نہیں ہو سکتا اگر آپؓ کپڑے بیچتے رہے تو خلافت کا کام کون کرے گا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اگرمیں یہ کام نہیں کروں گا تو پھر گزارہ کس طرح ہو گا؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آپؓ بیت المال سے وظیفہ لے لیں۔
حضرت ابوبکرؓنے جواب دیا کہ میں یہ تو برداشت نہیں کر سکتا، بیت المال پر میرا کیا حق ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا جب قرآن کریم نے اجازت دی ہے کہ دینی کام کرنے والوں پر بھی بیت المال کا روپیہ صرف ہو سکتا ہے تو آپؓ کیوں نہیں لے سکتے۔
چنانچہ اس کے بعد بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر ہو گیا مگر اس وقت کے لحاظ سے وہ وظیفہ صرف اتنا تھا جس سے روٹی کپڑے کی ضرورت پوری ہو سکے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ 468)
ابن ابی مُلَیکہبیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ سے اگر لگام چھوٹ کر گر جاتی تو آپ اپنی اونٹنی کو بٹھاتے اور وہ لگام اٹھاتے۔ ان سے کہا گیا کہ آپؓ نے ہمیں کیوں حکم نہیں دیا تا ہم آپؓ کو پکڑا دیتے۔ حضرت ابوبکرؓ فرماتے
میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس بات کا حکم دیا تھا کہ مَیں لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کروں۔(مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ92 مسند ابی بکر الصدیق حدیث 65۔ عالم الکتب بیروت 1998ء)
اس حد تک احتیاط کرتے تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک دفعہ مسجد میں بعض لوگوں کی آواز سنی کہ ابوبکرؓ کو ہم پر کون سی زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ جیسے نیکی کے کام وہ کرتے ہیں اسی طرح نیکی کے کام ہم کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا اے لوگو! ابوبکرؓ کو فضیلت نماز اور روزوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس نیکی کی وجہ سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔‘‘(خطبات محمود جلد 19 صفحہ 765)
یعنی جو اُن کے دل میں نیکی ہے اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت ہے اور اللہ تعالیٰ کا جو خوف ہے اور جو خشیت ہے وہ اس معیار کی ہے کہ تب ان کو تمہارے پہ فضیلت ہے اور اس کے مطابق پھر ان کا عمل بھی ہے۔ صرف دل میں نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک آیت قرآنی کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کا مقام و مرتبہ یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ تُو عبادت کرتا رہ جب تک کہ تجھے یقینِ کامل کا مرتبہ حاصل نہ ہو اور تمام حجاب اور ظلماتی پردے دُور ہو کر یہ سمجھ میں آ جاوے کہ اب میں وہ نہیں ہوں جو پہلے تھا بلکہ اب تونیا ملک، نئی زمین، نیاآسمان ہے اور میں بھی کوئی نئی مخلوق ہوں۔ یہ حیاتِ ثانی وہی ہے جس کو صوفی بقاء کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ جب انسان اس درجہ پر پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی روح کا نفخ اس میں ہوتا ہے۔ ملائکہ کا اس پر نزول ہوتا ہے۔ یہی وہ راز ہے جس پر
پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت فرمایا کہ اگر کوئی چاہے کہ مردہ میت کو زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو وہ ابوبکرؓ کو دیکھے اور ابوبکرؓ کا درجہ اس کے ظاہری اعمال سے ہی نہیں بلکہ
اس بات سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔‘‘(ملفوظات جلد2صفحہ98)
حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر پر روانہ ہوئے اور جب پڑاؤ کیا تو مختلف ٹولیوں میں تقسیم ہو گئے۔ کوئی کسی کے ساتھ کوئی کسی کے ساتھ۔ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکرؓ کی رفاقت میں پڑاؤ کیا۔ ہمارے ساتھ بادیہ نشینوں میں سے ایک دیہاتی آدمی بھی تھا۔ ہم بادیہ نشینوں کے جس گھر میں ٹھہرے ان کی ایک عورت امید سے تھی۔ اس بدوی نے اس عورت سے کہا کہ کیا تمہاری خواہش ہے کہ تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہو۔ اگر تُو مجھے ایک بکری دے دے تو تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہو گا۔ اس عورت نے اس کو بکری دے دی۔ اس بدوی نے ایک وزن کے کئی ہم قافیہ الفاظ اس کے سامنے پڑھے۔ کوئی اپنا جنتر منتر پڑھا اس کے سامنے۔ پھر اس نے بکری ذبح کی اور جب لوگ کھانے کے لیے بیٹھے تو ایک آدمی نے کہا کہ کیا آپ کو معلوم بھی ہے کہ یہ بکری کیسی ہے۔ پھر اس نے اس کا سارا قصہ سنایا۔ کس طرح اس عورت سے اس نے یہ کہہ کے بکری لی تھی کہ میں اس پہ دعا پڑھوں گا تو تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہو گا۔
راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکرؓ کو دیکھا آپ بھی وہاں تھے،کھانا کھانے والوں میں شامل۔ آپؓ سخت بیزاری کا اظہار کرتے ہوئےاپنے حلق میں انگلیاں ڈال کر اس کو نکال رہے تھے۔(مسند احمد بن حنبل جلد8 صفحہ19-20 مسند ابی سعید الخدریؓ حدیث نمبر11420 دار الحدیث القاہرہ2012ء)
یعنی قے کرکے کھانا نکال رہے تھے، ایسا کھانا جو شرک کا ذریعہ بنا ہو وہ میں نہیں کھا سکتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ کا ایک غلام تھا وہ انہیں کمائی لاکر دیتا تھا اور حضرت ابوبکرؓ اس کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔ ایک دن وہ کوئی چیز لایا حضرت ابوبکرؓ نے اس سے کھایا۔ غلام نے ان سے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا کیا ہے؟ اس نے کہا میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک شخص کے لیے کہانت کی تھی اور میں کہانت کا علم اچھی طرح نہیں جانتا سوائے اس کے کہ میں نے اس کو دھوکا دیا۔ وہ مجھ کو ملا تو اُس نے مجھے اس کے بدلے کچھ دیا تھا۔ سو یہ وہ ہے جس سے آپ نے کھایا ہے۔ تحفہ لے آیا تھا یا پکا کے کبھی کبھی چیز لے آیا کرتا تھا۔ تو حضرت ابوبکرؓ نے اپنا ہاتھ گلے میں داخل کیا اور جو کچھ پیٹ میں تھا سب قے کر دیا۔(صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب ایام الجاھلیۃ حدیث 3842)انہوں نے کہا ایسا حرام کھانا میں نہیں کھا سکتا۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو غرور سے اپنا کپڑا گھسیٹ کر چلا تو اللہ روز قیامت اس کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میرے کپڑے کی ایک طرف ڈھیلی رہتی ہے سوائے اس کے کہ میں اس کا خاص خیال رکھوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم تو غرور سے ایسا نہیں کرتے۔(صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ؐباب قول النبیؐ لو کنت متخذًا خلیلًا حدیث 3665)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:’’ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جن کا تہہ بند نیچے کو ڈھلکتا ہے وہ دوزخ میں جائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر رو پڑے کیونکہ ان کا تہہ بند بھی ویسا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تُو ان میں سے نہیں ہے۔ غرض نیت کو بہت بڑا دخل ہے اور حفظِ مراتب ضروری شئے ہے۔‘‘(ملفوظات جلد7صفحہ 25)
پھر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری اورعشق رسول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غیرت کا ذکر
ہے۔ ایک دن حضرت عائشہؓ گھر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا یعنی حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے۔ یہ حالت دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لیے آگے بڑھے کہ تم خدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھتے ہی باپ بیٹی کے درمیان حائل ہو گئے اور حضرت ابوبکرؓ کی متوقع سزا سے حضرت عائشہؓ کو بچا لیا۔ جب حضرت ابوبکرؓچلے گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے ازراہِ مذاق فرمایا۔ دیکھا! آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابوبکرؓ دوبارہ تشریف لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت عائشہؓ ہنسی خوشی باتیں کر رہی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ کہنے لگے کہ دیکھو تم نے اپنی لڑائی میں تو مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی شریک کر لو۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم نے شریک کیا۔(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب ماجاء فی المزاح ،حدیث 4999 )
حضرت عقبہ بن حارثؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکرؓ کو دیکھا انہوں نے حضرت حسن ؓکو اٹھایا اور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ
میرا باپ تجھ پر قربان۔ یہ تو نبی کی شکل و شباہت ہے،علیؓ کی شکل و شباہت نہیں ہے اور حضرت علیؓ یہ سن کر ہنس رہے تھے۔(بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ باب مناقب الحسن والحسین رضی اللّٰہ عنہما حدیث:3750)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطابؓ کی بیٹی حضرت حفصہ ؓحضرت خنیس بن حذافہ سہمیؓ کے فوت ہونے پر بیوہ ہو گئیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں سے تھے۔ جنگِ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ مدینہ میں انہوں نے وفات پائی تھی تو حضرت عمر بن خطابؓ کہتے تھے میں عثمان بن عفانؓ سے ملا، ان کے پاس حفصہ کا ذکر کیا اور کہا اگر آپؓ چاہیں تو حفصہؓ کا نکاح آپؓ سے کر دوں۔ انہوں نے کہا میں اس معاملے پر غور کروں گا چنانچہ میں کئی روز تک ٹھہرا رہا۔ پھر عثمانؓ نے کہا مجھے یہی مناسب معلوم ہوا ہے کہ میں ان دنوں شادی نہ کروں۔ حضرت عمرؓ کہتے تھے پھر میں حضرت ابوبکرؓ سے ملا اور کہا اگر آپؓ چاہیں تو میں حفصہؓ کا نکاح آپؓ سے کیے دیتا ہوں۔ حضرت ابوبکرؓ خاموش ہو گئے اور مجھے کچھ جواب نہ دیا۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ عثمانؓ کی نسبت میں ان سے زیادہ رنجیدۂ خاطر ہوا۔ پھر میں کچھ راتیں ٹھہرا رہا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ سے نکاح کا پیغام بھیجا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا نکاح کر دیا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ مجھ سے ملے اور کہا شاید آپؓ مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں۔ جب آپ نے حفصہؓ کا ذکر کیا اور میں نے کچھ جواب نہ دیا۔ میں نے کہا کہ ہاں اس طرح ہی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ دراصل جو بات آپ نے پیش کی تھی اس کی نسبت آپ کو جواب دینے سے نہیں روکا تھا مگر اس بات نے کہ مجھے علم ہو چکا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں اور میں ایسا نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشا ظاہر کرتا یعنی آپ کو بتاتا کہ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا ہے۔ اس لیے میں چپ ہو گیا یا انکار کر دیا اور آگے کہتے ہیں اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس رشتہ کو چھوڑ دیتے تو میں ضرورآپ کی بیٹی کا رشتہ قبول کر لیتا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی حدیث 4005)
حضرت علی ؓکا حضرت ابوبکرؓ کو خراج عقیدت پیش کرنا
اس کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جنہوں نے حضرت عمر بن خطابؓ کی وفات کے بعد ان کے لیے دعا کی جبکہ انہیں تختے پر رکھ دیا گیا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص نے میرے پیچھے سے آ کے اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھ دی۔ کہنے لگا اللہ تم پر رحم کرے۔ مجھے تو یہی امید تھی کہ اللہ تمہیں بھی ہمارے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی دفن کرے گا کیونکہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بہت سنا تھا کہ میں اور ابوبکر و عمر فلاں جگہ تھے اور میں نے اور ابوبکر و عمر نے یہ کیا۔ میں اور ابوبکر و عمر چلے گئے۔ اس لیے میں یہ امید رکھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی ان دونوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔ میں نے جو مڑ کر دیکھا تو حضرت علی بن ابی طالب تھے۔(صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب قول النبیؐ لو کنت متخذا خلیلا حدیث نمبر 3677)
باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوگا۔
’’پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت فرمایا کہ اگر کوئی چاہے کہ مردہ میت کو زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو وہ ابوبکرؓ کو دیکھے اور ابوبکرؓ کا درجہ اس کے ظاہری اعمال سے ہی نہیں بلکہ اس بات سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےبعض کارناموں، اوّلیات اور مناقبِ عالیہ کا ایمان افروز بیان۔
فرمودہ 16؍ستمبر 2022ء بمطابق 16؍تبوک1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔