اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ
خطبہ جمعہ 27؍ جنوری 2023ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج صحابہؓ کے ذکر میں سے ہی کچھ بیان کروں گا۔ پہلا جو ذکر ہے وہ
حضرت ابولُبَابَہ بن عبدالمنذرؓ
کا ہے۔ ان کے بارے میں بعض اَور روایات ملی ہیں وہ بھی پیش کر دیتا ہوں۔ تفصیل تو پہلے بھی آ چکی ہے۔
علامہ ابن عبدالْبَر اپنی تصنیف الاستیعاب میں لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن مجید کی آیت وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا (سورۃالتوبہ:102) کہ ’’اور کچھ دوسرے ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا انہوں نے اچھے اعمال اور دوسرے بداعمال ملا جلا لیے‘‘ میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت ابولُبَابَہ اور ان کے ساتھ سات آٹھ یا نو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ حضرات غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ بعد میں شرمسار ہوئے اور خدا کے حضور توبہ کی اور اپنے آپ کو ستونوں کے ساتھ باندھ لیا۔ ان کا اچھا عمل توبہ اور ان کا بُرا عمل جہاد سے پیچھے رہنا تھا۔(الاستيعاب في معرفة الأصحاب جلد 4 صفحہ1741 ابو لُبَابَہ بن عبد المنذردار الجیل بیروت)
مُجَمِّع بن جَارِیَہ سے روایت ہے کہ حضرت خَنْسَاء بنتِ خِدَام حضرت اُنیس بن قَتَادہؓکی زوجیت میں تھیں جب آپؓ غزوہ احد کے دن شہید ہوئے۔ پھر حضرت خَنْسَاء بنتِ خِدَامؓ کے والد نے آپ کی شادی مُزَیْنَہقبیلہ کے ایک آدمی سے کی جسے آپ ناپسند کرتی تھیں۔ حضرت خَنْسَاءؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح فسخ کر دیا تو حضرت خَنْسَاءؓ سے حضرت ابولُبَابَہ نے شادی کی جس سے حضرت سَائِب بن ابولُبَابَہپیدا ہوئے۔( معرفة الصحابۃ لأبي نُعَيْم جلد 1 صفحہ250، أُنَيْس بن قَتَادَۃؓ،دار الوطن للنشر)
عبدالجبار بن وَرْد سے روایت ہے کہ مَیں نے ابن ابی مُلَیْکَہسے سنا، وہ فرماتے تھے کہ عبداللہ بن ابی یزید کا کہنا ہے کہ حضرت ابولُبَابَہؓہمارے پاس سے گزرے ہم ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر میں گئے ان کے ساتھ ہم بھی گھر میں داخل ہوئے۔ ہم نے دیکھا کہ ایک شخص پھٹے پرانے کپڑے میں بیٹھا ہے۔ مَیں نے اُس سے سنا وہ کہتا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قرآن کو خوش آواز سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(سنن ابي داؤد،كتاب الوتر، باب اسْتِحْبَابِ التَّرْتِيلِ فِي الْقِرَاءَةِ حدیث نمبر: 1471)
پھر ذکر ہے
حضرت ابوالضَّیَّاحْ بن ثابِت بن نُعمانؓ
کا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوالضَّیَّاحؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بدر کے لیے نکلے تھے لیکن پنڈلی پر پتھر کی نوک لگنے سے زخم آیا جس کی وجہ سے وہ واپس لَوٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں اُن کا حصہ رکھا۔(البدایۃ و النہایۃ جزء 5 صفحہ 252کتاب المغازی فصل غزوہ بدر العظمیٰ دار الھجر بیروت 1997ء)
پھر
حضرت اَنَسَہ مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کا ذکرہے۔ حضرت اَنَسَہؓ کی کنیت ابو مَسْرُوح اور بعض کے نزدیک ابو مِسْرَحْ بیان ہوئی ہے۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 1 صفحہ 283، اَنَسَہ مولی النبیؐ، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1995ء)حضرت اَنَسَہؓ سَرَاۃْمیں پیدا ہوئے تھے۔ سَرَاۃْیمن اور حبشہ کے قریب ایک جگہ ہے۔(اُسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 1 صفحہ 301، اَنَسَہؓ، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)(روشن ستارے جلد 1 صفحہ 145)
ان کی ہجرت کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ جب آپؓ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ حضرت کلثوم بن ھِدْمؓکے ہاں ٹھہرے جبکہ بعض روایات کے مطابق آپ حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ کے ہاں ٹھہرے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 35، اَنَسَہ مولیٰ رسول اللّٰہﷺ، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
امام زُہریؒ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے بعد ملاقات کرنے والوں کو ملنے کی اجازت دے دیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لوگوں کے لیے حضرت اَنَسَہؓ اجازت لیا کرتے تھے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 36، اَنَسَہ مولیٰ رسول اللّٰہﷺ، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)اندر گھر ملاقاتیوں کی اطلاع دینی آپؓ کا کام تھا۔
پھر ذکر ہے
حضرت مَرْثَد بن ابی مَرْثَدؓ
کا۔ عمران بن مَنَّاحْکہتے ہیں کہ جب ابو مَرْثَد اور ان کے بیٹے مَرْثَدبن ابی مَرْثَد نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اس وقت آپ دونوں حضرت کلثوم بن ھِدْمؓ کے ہاں ٹھہرے۔ محمد بن عمر کہتے ہیں کہ آپؓ غزوۂ احد میں بھی شریک ہوئے اور سریۂ رجیع والے دن آپؓ کی شہادت ہوئی۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء3صفحہ35 دار الکتب العلمیۃ بیروت2017ء)
حضرت مَرْثَدؓکے ایک بیٹے اُنَیس بن ابی مَرْثَدالغنوی کا ذکر ملتا ہے۔ آپ کو انس بھی کہا جاتا ہے مگر اُنَیس اکثر ملتا ہے۔ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فتح مکہ اور غزوہ حنین میں شامل تھے۔(اَسَد الغابہ جلد 1 صفحہ 306 انیس بن مَرْثَد دار الکتب العلمیۃ بیروت 2008ء)
ابن حجر نے حضرت مَرْثَدؓ کی شہادت صفرچار ہجری بیان کی ہے۔(تہذیب التہذیب جلد 06 صفحہ 642 مَرْثَد بن ابی مَرْثَد۔ دار الحدیث قاھرہ 2010ء)
پھر ذکر ہے
حضرت ابومَرْثَدکَنَّازْ بن الْحُصَیْن الغَنَوِیؓ
کا۔ ان کا نام کَنَّاز تھا۔ ولدیت حُصَیْن بن یَرْبُوع۔آپؓ کے نام کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض کے نزدیک آپ کا نام کَنَّاز بن حُصَیْن جبکہ بعض کے نزدیک حُصَیْن بن کَنَّاز تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام ایمن تھا مگر زیادہ مشہور کَنَّازْ بن حُصَیْن ہی تھے۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ لابن حجر عسقلانی، باب الکنی۔ ابو مَرْثَد الغنوی، جزء 7 صفحہ 305 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت ابومَرْثَدؓ حضرت حمزہؓ کے ہم عمر اور ان کے حلیف تھے۔ آپؓ لمبے قد کے مالک تھے اور آپؓ کے سر کے بال گھنے تھے۔(الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 34، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت ابو مَرْثَدؓ اور ان کے بیٹے حضرت مَرْثَدرضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کو غزوۂ بدر میں شرکت کی توفیق ملی۔ آپؓ کے بیٹے حضرت مَرْثَدؓ واقعۂ رجیع میں شہید ہوئے۔( اَسَد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ لابن اثیر جزء 6 صفحہ 276-277، ابو مَرْثَد الغنوی، دارالکتب العلمیۃ بیروت)پہلے بیان ہو چکا ہے۔
حضرت ابومَرْثَدؓ کے ایک پوتے حضرت اُنَیْس بن مَرْثَدؓبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ وہ فتح مکہ اور غزوہ حنین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔(اَسَد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ لابن اثیر جزء 1 صفحہ 306، اُنَیْس بن مَرْثَد۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
بیان ہوا ہے کہ ربیع الاول دو ہجری کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس شتر سوار مہاجرین کا ایک دستہ اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ کی قیادت میں مدینہ سے مشرق کی جانب سیف البحر علاقہ عِیص کی طرف روانہ فرمایا۔ حضرت حمزہؓ اور ان کے ساتھی جلدی جلدی وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مکہ کا رئیسِ اعظم ابو جہل تین سو سواروں کا ایک لشکر لیے ان کے استقبال کو موجود ہے۔ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرائی کرنے لگ گئیں اور لڑائی شروع ہونے والی ہی تھی کہ اس علاقے کے رئیس مَجْدِی بن عَمرو اَلْجُہَنِّی نے جو دونوں فریقوں کے ساتھ تعلق رکھتا تھا درمیان میں پڑ کر بیچ بچاؤ کروایا اور لڑائی ہوتے ہوتے رک گئی۔ یہ مہم
سریہ حمزہ بن عبدالمطلب
کے نام سے مشہور ہے۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ ایم اے صفحہ329)حضرت ابومَرْثَدؓ بھی اس سریہ میں شامل تھے۔ روایت میں ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا لواء، جھنڈا حضرت حمزہؓ کو باندھا تھا اور اس سریہ میں حضرت حمزہؓ کا یہ جھنڈا حضرت ابو مَرْثَد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھائے ہوئے تھے۔(الطبقات الكبرى لابن سعد جزء 2 صفحہ 3-4 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
پھر ذکر ہے
حضرت سَلِیْط بن قیس بن عمروؓ
کا۔ حضرت سَلِیْطؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عدی بن نَجَّارسے تھا۔(اَسَد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 2 صفحہ 538، سَلِیْط بن قیس، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)حضرت سَلِیْطؓکی والدہ کا نام حضرت زُغیبہ بنت زُرَارَةؓ تھا جو حضرت اَسْعَد بن زُرارۃؓ کی ہمشیرہ تھیں۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 388، سَلِیْط بن قیس، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے بھائی ولید بن ولید کو غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت سَلِیْط بن قَیْسؓ نے قید کیا تھا۔(امتاع الاسماع جلد 6 صفحہ 248، اولاد عم ام سلمۃ، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1999ء)
فتح مکہ کے موقع پر انصار کے قبیلہ بَنُومَازِنکا جھنڈا حضرت سَلِیْط بن قیسؓ کے پاس تھا۔(امتاع الاسماع جلد 7 صفحہ۱۶۸ – 169، و اما اللواءات والرأیات، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1999ء)
اسی طرح غزوۂ حنین کے موقع پر بھی بنو مازن کا جھنڈا حضرت سَلِیْطؓکے پاس تھا۔(کتاب المغازی جلد 3 صفحہ 896، غزوہ حنین،مکتبہ عالم الکتب)
تیرہ ہجری میں جبکہ بعض کے مطابق چودہ ہجری کے آغاز میں حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جنگِ جسر کا واقعہ پیش آیا۔ یہ جنگ مسلمانوں اور فارسیوں کے درمیان موجودہ عراق کے علاقے میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت ابو عُبَید بن مسعود ثَقْفِیؓ تھے اس لیے اس جنگ کو جنگِ جِسْرَ ابِی عُبَیدبھی کہتے ہیں۔ اس جنگ کے مزید نام ہیں جنگِ مَرْوَحَہجو دریائے فرات کے مغربی کنارے پر واقع ایک جگہ کا نام ہے۔ جنگ قُسُّ النَّاطِفْ۔ یہ بھی دریائے فرات کے مشرقی کنارے پر کوفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ اس جنگ میں دو ہزار ایرانی تہ تیغ ہوئے جبکہ بعض روایات کے مطابق چھ ہزار ایرانی مارے گئے۔ مسلمانوں کی طرف سے بعض روایات کے مطابق اس جنگ میں اٹھارہ سو مسلمان شہید ہوئے جبکہ بعض کے مطابق چار ہزار مسلمان شہید ہوئے جن میں ستر انصار اور بائیس مہاجرین بھی شامل تھے۔ ان شہداء میں حضرت سَلِیْط بن قیسؓبھی شامل تھے۔ بعض کے نزدیک اس معرکہ میں سب سے آخر میں شہید ہونے والے حضرت سَلِیْط بن قیسؓ تھے۔(ماخوذ از الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہ والثلاثۃ الخلفاء جلد 2 جزء 2 صفحہ 124-129، عالم الکتب بیروت)(ماخوذ از البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر جلد 4 صفحہ 46، مکتبۃ المعارف بیروت)(ماخوذ از اٹلس فتوحات اسلامیہ از احمد عادل کمال حصہ دوم صفحہ 90، معرکہ جسر، مکتبہ دارالسلام)(البدایۃ والنہایۃ جلد 9 صفحہ 594 مطبوعہ دار ھجر بیروت )(معجم البلدان جلد 4 صفحہ 349، دارالصادر بیروت لبنان)(سیر اعلام النبلاء سیر الخلفاء الراشدون صفحہ 100 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1996ء)
بعض مؤرخین کے مطابق آپؓ کی نسل آگے نہیں چلی جبکہ بعض کے مطابق آپؓ کے بیٹے کا نام عبداللہ بن سَلِیْط تھا جس نے آپ سے ایک روایت بیان کی ہے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت سَلِیْطؓ کی ایک بیٹی تھی جس کا نام ثُبَیْتَہتھا جو حضرت سُخَیلہبنتِ صِمَّہؓکے بطن سے تھی۔ اَسَد الغابہ کے مؤلف لکھتے ہیں کہ آپؓ کی اولاد کی نسل آگے نہیں چلی۔
عبداللہ بن سَلِیْط بن قیس اپنے والد حضرت سَلِیْطبن قیسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص کا باغ تھا جس میں کسی دوسرے انصاری شخص کے کھجور کے درخت تھے اور وہ شخص اس باغ میں صبح و شام آیا کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حکم دیا کہ اس کے درختوں میں سے جو باغ کی دیوار کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ان کی کھجوریں اس انصاری کو دیا کریں جس کا باغ تھا۔(اُسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 2 صفحہ 538، سَلِیْط بن قیس، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 388، سَلِیْط بن قیس، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
پھر ذکر ہے
حضرت مُجَذَّرْ بن زِیَادؓ
کا۔ موسیٰ بن عُقْبہ نے بیان کیا ہے کہ لوگوں کا خیال ہے کہ ابویَسْر نے ابوبَخْتَرِیکو قتل کیا اور بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ مُجَذَّر نے اسے قتل کیا تھا۔ حضرت مُجَذَّرؓنے جاہلیت میں سُوَید بن صَامِت کو قتل کر دیا تھا اور اس قتل نے جنگِ بُعَاث کو برانگیختہ کیا تھا۔ بعد میں حضرت مُجَذَّرؓ اور حضرت حارث بن سُوَید بن صامتؓ نے اسلام قبول کر لیا لیکن حارِث بن سُوَید موقع کی تلاش میں رہے کہ اپنے والد کے بدلہ میں انہیں قتل کریں۔ غزوۂ احد میں جب قریش نے مڑ کر مسلمانوں پر حملہ کیا تو حارث بن سوید نے پیچھے سے ان کی گردن پر وار کر کے انہیں شہید کر دیا۔ غزوۂ حمراء الاَسَد سے واپسی پر حضرت جبرئیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو بتایا کہ حارِث بن سُوَید نے مُجَذَّربن زیاد کو دھوکے سے قتل کر دیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ حارِث بن سُوَید کو مُجَذَّربن زیاد کے بدلے میں قتل کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے دن تشریف لے گئے جب قبا میں سخت گرمی تھی۔ حضرت عُوَیم بن سَاعِدہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر مسجد قبا کے دروازے پر حارث بن سُوَید کو قتل کیا تھا۔ طبقات الکبریٰ کی یہ روایت ہےغالباً۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،الجزء الثالث صفحہ283، المُجَذَّر بن زیاد، داراحیاء التراث بیروت1996ء)(الاصابہ فی تمییزالصحابہ الجزء الخامس صفحہ 572-573، المُجَذَّر بن زیاد، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)(امتاع الاسماع جلد10صفحہ10،فصل فی ذکر من کان یقیم الحدود بین یدی رسول اللّٰہؐ، دارالکتب العلمیۃ بیروت1999ء)
پھر
حضرت رِفَاعَہ بن رَافِعبن مَالِک بن عجلانؓ
کا ذکرہے۔ لکھا ہے کہ حضرت رِفَاعَہ بن رَافِعؓکے قبولِ اسلام کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ مُعَاذ بنِ رِفَاعَہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت رِفَاعَہ بن رَافِع اور ان کے خالہ زاد بھائی حضرت معاذ بن عَفْراءؓنکلے اور مکہ مکرمہ پہنچے جب دونوں ثَنِیَّہپہاڑی سے نیچے اترے تو انہوں نے ایک شخص کو درخت کے نیچےبیٹھے دیکھا۔ راوی کے مطابق یہ واقعہ چھ انصاریوں کے نکلنے سے پہلے کا ہے یعنی بیعت عقبہ اولیٰ سے پہلے کا واقعہ ہے۔ کہتے ہیں کہ جب ہم نے، اُس شخص کو دیکھا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ تو ہم نے کہا کہ اس شخص کے پاس چلتے ہیں اور اپنا سامان اس کے پاس رکھوا دیتے ہیں یہاں تک کہ بیت اللہ کا طواف کر آئیں۔ کہتے ہیں کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہلیت کے رواج کے مطابق سلام کیا مگر آپؐ نے اسلامی طریق کے مطابق سلام کا جواب دیا اور ہم کہتے ہیں کہ ہم نبی کے بارے میں سن تو چکے تھے کہ مکہ میں کسی نے دعویٰ کیا ہے مگر ہم نے آپؐ کو نہ پہچانا۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپؐ نے کہا کہ نیچے اتر آؤ۔ پس ہم نیچے اتر آئے اور آپؐ سے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جو نبوت کا دعویدار ہے اور وہ کہتا ہے جو بھی وہ کہتا ہے یعنی جو بھی اس کا دعویٰ ہے وہ اپنے دعویٰ کے متعلق کہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ مَیں ہی ہوں۔ پھر کہتے ہیں میں نے کہا کہ مجھے اسلام کے بارے میں بتائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسلام کے بارے میں بتایا اور پوچھا کہ آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کو کس نے پیدا کیا ہے؟ ہم نے کہا انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہیں کس نے پید اکیا ہے؟ ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ بت کس نے پیدا کیے ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو؟ ہم نے کہا یہ ہم نے خود بنائے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا پھر پیدا کرنے والا عبادت کا زیادہ حق دار ہے یا وہ جن کو پیدا کیا گیا ہے۔ پھر تو تم زیادہ حقدار ہو کہ تمہاری عبادت کی جائے کیونکہ تم بتوں کے پیدا کرنے والے ہو اور پھر آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کی عبادت اور اس کی گواہی کی طرف بلاتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں اور آپس میں صلہ رحمی کرنے اور دشمنی کو چھوڑ دینے کی طرف بلاتا ہوں جو لوگوں کے ظلم کی وجہ سے ہو۔ ہم نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! جس چیز کی طرف آپؐ بلاتے ہیں اگر جھوٹی ہوئی تو بھی یہ عمدہ باتیں ہیں اور اَحسن اخلاق ہیں۔ آپؐ ہماری سواری کو سنبھالیں یہاں تک کہ ہم طواف کر آئیں۔ مُعَاذ بن عَفْرَاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی بیٹھے رہے۔
رِفَاعَہ بن رَافِع کہتے ہیں پس میں بیت اللہ کا طواف کرنے گیا۔ میں نے سات تیر نکالے اور ایک تیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مقرر کر لیا جو اُن کا طریقہ تھا۔ دل کی تسلی کے لیے یہ تیروں سے شگون لیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں پھر بیت اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور دعا مانگی۔ اے اللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جس چیز کی طرف بلاتے ہیں اگر وہ حق ہے تو ساتوں بار انہی کا تیر نکال۔ میں نے سات بار قرعہ ڈالا اور ساتوں بار آپؐ کا ہی تیر نکلا۔
میں زور سے بولا۔ اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ۔ پس لوگ میرے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے یہ شخص مجنون ہے، صابی ہو گیا ہے۔ میں نے کہا بلکہ مومن آدمی ہے۔ یعنی جس کی تم باتیں کر رہے ہو وہ تو مجنون ہے، صابی ہے لیکن میں نے کہا نہیں بلکہ مجھے تو لگتا ہے مومن آدمی ہے۔ پھر میں مکہ کے بالائی علاقے میں آ گیا۔ پس
جب مُعاذ نے مجھے دیکھا تو کہا رِفَاعَہ ایسے نورانی چہرے کے ساتھ آ رہا ہے جیساکہ جاتے وقت نہ تھا۔
یعنی کلمہ پڑھنے سے پہلے وہ نورانی چہرہ نہیں تھا جیساکہ اب ہے۔ پس میں آیا اور اسلام قبول کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سورۂ یوسف اور اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ پڑھائی۔ پھر ہم واپس آ گئے.(المستدرک علی الصحیحین جلد 4 صفحہ165-166 کتاب البرّوالصّلہ حدیث7241 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
حضرت رِفاعہ بن رَافِعؓ بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن میری آنکھ میں تیر لگا جس کی وجہ سے میری آنکھ پھوٹ گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میری آنکھ پر اپنا لعاب لگایا اور میرے لیے دعا کی تو مجھے اس سے کوئی تکلیف نہ ہوئی۔(سبل الھدیٰ والرشادجلد4صفحہ53باب ذکر برکۃ اثر ریقہ ویدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
ایک دوسری روایت کے مطابق جنگِ بدر کے دن تیر حضرت رِفَاعَہ بن رَافِعؓ کو نہیں بلکہ ان کے والد رَافِعبن مَالِک کی آنکھ میں لگا تھا۔(المستدرک علی الصحیحین کتاب البرّوالصّلہ صفحہ1876حدیث نمبر5024مکتبہ نزارمصطفی البار2000ء)بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے لیکن نتیجہ بہرحال وہی ہے کہ تکلیف دُور ہوئی۔
حضرت رِفَاعَہ بن رَافِعؓکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ہم بھی آپؐ کے ساتھ تھے۔ اسی دوران ایک شخص آپؐ کے پاس آیا جو بدوی لگ رہا تھا۔ اس نے آکر نماز پڑھی اور بہت ہلکی پڑھی۔ پھر مڑا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر بھی سلام ہو۔
واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔
وہ پھر گیا اور نماز پڑھی۔ پھر وہ آیا اور آ کر اس نے آپؐ کو سلام کیا۔ آپؐ نے پھر فرمایا تم پر بھی سلامتی ہو اور فرمایا کہ واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اس طرح اس نے دو بار یا تین بار کیا۔ ہر بار وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپؐ کو سلام کرتا اور آپؐ فرماتے تم پر بھی سلام ہو۔ واپس جاؤ پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ تو لوگ ڈرے اور ان پر یہ بات گراں گزری کہ جس نے ہلکی نماز پڑھی ہے اس نے نماز ہی نہیں پڑھی۔ وہاں جو لوگ، صحابہ ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے ان کو بڑا خوف محسوس ہوا کہ اس کا مطلب ہے کہ
ہلکی نمازیں تو پھر نماز ہی نہیں ہے۔
ہمیں بھی اس لحاظ سے اپنا جائزہ لینا چاہیے۔
آخر اس آدمی نے عرض کیا کہ ہمیں پڑھ کر دکھا دیں اور مجھے سکھا دیں۔ میں انسان ہی تو ہوں میںصحیح بھی کرتا ہوں اور مجھ سے غلطی بھی ہو جاتی ہے تو آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو پہلے وضو کرو جیسے اللہ نے تمہیں وضو کرنے کا حکم دیا ہے۔ پھر اگر تمہیں کچھ قرآن یاد ہو تو اسے پڑھو ورنہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ، اَللّٰهُ اَكْبَر اور لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهکہو۔ پھر رکوع میں جاؤ اور خوب اطمینان سے رکوع کرو۔ اس کے بعد بالکل سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر سجدہ کرو اور خوب اعتدال سے سجدہ کرو۔ پھر بیٹھو اور خوب اطمینان سے بیٹھو پھر اٹھو۔ جب تم نے ایسا کر لیا تو تمہاری نماز پوری ہو گئی اور اگر تم نے اس میں کچھ کمی کی تو تم نے اتنی ہی اپنی نماز میں سے کمی کی۔(سنن الترمذی کتاب الصلوٰۃ باب ما جاء فی وصف الصلوٰۃ حدیث: 302)
حضرت رِفَاعَہ بن رَافِعؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپؐ نے فرمایا کہ کسی کی نماز مکمل نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ پوری طرح وضو کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا ہے۔ اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوئے اور اپنے سر کا مسح کرے اور اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے۔(سنن ابن ماجہ کتاب الطہارۃ باب ما جاء فی الوضوء حدیث : 460)
ایک اَور روایت میں حضرت رِفَاعَہ بن رَافِعؓ سے اس واقعہ کی روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب تم کھڑے ہو اور تم نے قبلہ کی طرف رخ کیا تو اللہ اکبر کہو اور سورہ فاتحہ پڑھو اور اس کے ساتھ جتنا قرآن اللہ چاہے، جتنا تمہیں یاد ہے یا جو پڑھنا چاہتے ہو تم پڑھو جب تم رکوع کرو تو اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھو اور اپنی کمر سیدھی رکھو اور انہوں نے کہا جب تم سجدہ کرو تو اطمینان سے سجدہ کرو اور جب تم سر اٹھاؤ تو اپنے بائیں ران پر بیٹھو۔(سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب صلوٰۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود حدیث نمبر859)
پھر ذکر ہے
حضرت ابو اُسَید مَالِک بن رَبِیعہ
کا۔ عثمان بن عبیداللہ سے مروی ہے کہ میں نے ابو اُسَید کو دیکھا وہ اپنی داڑھی زرد رنگتے تھے۔(الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 421 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ اَبُو اُسَید مَالِک بن رَبِیعہغزوہ بدر میں شریک تھے جب ان کی اخیر عمر میں بینائی چلی گئی تو انہوں نے کہا کہ اگر آج میں بدر کے مقام پر ہوتا اور میری بینائی بھی ٹھیک ہوتی تو مَیں تم کو وہ گھاٹی دکھاتا جہاں سے فرشتے نکلے تھے۔ مجھے اس میں ذرا بھی شک اور وہم نہیں ہو گا۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 431 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
ابو اُسَید مَالِک بن رَبِیعہ سَاعِدی سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران بنو سَلَمہ کا ایک شخص آپؐ کے پاس آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہؐ! میرے ماں باپ کے مر جانے کے بعد بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی کوئی صورت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ ان کے لیے دعا کرنا اور ان کے لیے استغفار کرنا۔ ان کے بعد ان کے وعدوں کو پورا کرنا اور جو ان دونوں کے رشتہ دار ہیں ان سے صلہ رحمی کرنا، انہیں جوڑے رکھنا، ان کے دوستوں کی عزت کرنا۔(سنن ابو داؤد کتاب الادب باب فی بر الوالدین حدیث: 5142 )اس طرح ان کو بھی ثواب پہنچتا رہے گا۔ ان کی روح کو بھی ثواب پہنچتا رہے گا۔ ان کی مغفرت کے سامان ہوتے رہیں گے۔
مَالِک بن رَبِیعہ سے مروی ہے کہ مَیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا: اے اللہ !سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرما۔ تو ایک شخص نے کہا اور بال کتروانے والوں کی؟ تو آپؐ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا اور بال کتروانے والوں کی بھی۔ مَیں بھی اس روز سر منڈائے ہوئے تھا مجھے اس سے جو مسرت ہوئی وہ مجھے سرخ اونٹ یا بہت زیادہ مال ملنے پر بھی نہ ہوتی۔(الطبقات الکبری جزء 2 صفحہ 79-80 دارالکتب العلمیۃ بیروت )
عثمان بن اَرْقَم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن فرمایا: تمہارے پاس جو مالِ غنیمت ہے اسے چھوڑ دو تو حضرت ابو اُسَید السَّاعِدیؓ نے عَائِذ المرزبانکی تلوار رکھ دی تو حضرت ارقمؓ نے اسے اٹھا لیا۔ اور کہا یا رسول اللہؐ! یہ مجھے دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تلوار ان کو عطا کر دی۔(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم جلد 1صفحہ 295 حدیث 1022 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
پھر
حضرت عبداللہ بن عبدالاسدؓ
کا ذکرہے۔ ایک روایت میں ہے کہ محمد بن عُمَارہ کہتے ہیں کہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنے والوں میں سب سے پہلے ہمارے پاس حضرت ابو سَلَمَہ بن عَبدالْاَسَدؓ تشریف لائے۔ وہ دس محرم کو مدینہ آئے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاول کو مدینہ میں تشریف لائے۔ وہ مہاجرین جو سب سے پہلے آئے اوربنو عمرو بن عوف میں ٹھہرے اور جو مہاجرین آخر پر آئے ان کے درمیان دو مہینوں کا فرق ہے۔
حضرت ام سَلَمہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوسَلَمہؓ نے جب مدینہ ہجرت کی تو قبا میں حضرت مُبَشِّر بن عَبدِالمنذِرؓ کے ہاں ٹھہرے۔ ہجرت کی تو وہ قبا میں حضرت مُبَشِّر بن عَبدِالمنذِرؓ کے ہاں ٹھہرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سَلَمہ بن عبدالاَسَدؓ اور حضرت سَعْدِ بن خَیْثَمَہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جز 3 صفحہ 181ومن بنی مخزوم :ابو سَلَمہ بن عبد الاَسَد دار الکتب العلمیۃ بیروت )
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبیلہ بنو طے کے ایک شخص نے جو کہ اپنی بھتیجی سے ملنے کے لیے مدینہ آیا تھا یہ خبر دی کہ خُوَیلِد کے بیٹے طُلَیْحَہ اور سَلَمہ اپنی قوم اور اپنے حلیفوں میں گھوم رہے ہیں اور اپنی قوم اور ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھڑکا کر جنگ پر آمادہ کر رہے ہیں تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اَبُو سَلَمہ یعنی حضرت عَبدُاللہ بن عَبدُالاَسَدکو بلا کر بنواَسَد کی سرکوبی کے لیے ڈیڑھ سو مہاجرین اور انصار کی سرکردگی میں بھیجا اور ان کو لِوَاء یعنی ایک پرچم تیار کرکے دیا
اور جس شخص نے بنو اَسَد کے متعلق یہ اطلاع دی تھی اس کو بطور رہبر ساتھ بھیجا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوسَلَمہؓ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ تم آگے بڑھتے رہو یہاں تک کہ بنو اَسَد کے علاقے میں جا کر پڑاؤ ڈالو اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ تمہارا سامنا کریں تم ان پر حملہ کر دو۔ چنانچہ اس حکم پر حضرت ابوسَلَمہؓ نہایت تیزی کے ساتھ رات دن سفر کرتے ہوئے عام راستوں سے ہٹ کر چلے تا کہ بنو اَسَد کو ان کی پیش قدمی کی خبر ہونے سے پہلے وہ ان کے سر پر اچانک پہنچ جائیں۔ آخر چلتے چلتے وہ بنو اَسَد کے ایک چشمے پر پہنچ گئے اور انہوں نے مویشیوں کے باڑے پر حملہ کر دیا اور ان کے تین چرواہوں کو پکڑ لیا۔ باقی تمام لوگ جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ حضرت ابوسَلَمہؓ نے اپنے دستے کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور ایک حصہ اپنے پاس رکھ کر باقی دو کو اِدھر اُدھر روانہ کر دیا۔ یہ لوگ کچھ اَور اونٹ اور بکریاں پکڑ لائے مگر کسی آدمی کو نہ پکڑ سکے۔ اس کے بعد حضرت ابوسَلَمہؓ واپس مدینہ لوٹ آئے۔ یہ سیرت الحلبیہ کا حوالہ ہے۔(السیرۃ الحلبیہ جز ء ثالث صفحہ 231،باب سرایاہ و بعوثہ،دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
عمرو بن ابو سَلَمہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوسَلَمہؓ غزوہ بدر اور احد میں شریک ہوئے اور ابواُسَامہ جُشَمِی نے غزوہ احد میں انہیں زخمی کیا۔ اس نے حضرت ابوسَلَمہؓ کے بازو پر برچھی سے وار کیا۔ حضرت ابوسَلَمہؓ ایک ماہ تک اس زخم کا علاج کرتے رہے جو بظاہر اچھا بھی ہو گیا۔ زخم مندمل ہو گیا جس کی خرابی کو کوئی نہ پہچانتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے پینتیسویں مہینے محرم میں انہیں ایک سریہ میں قَطَن میں بنو اَسَد کی طرف بھیجا۔ قَطَنکے متعلق کہتے ہیں یہ عَنِیْزَہ(نجد) اور خیبر کے وسط میں ایک پہاڑی ہے جس کے شمال میں بنو اَسَد بن خزیمہ آباد تھے۔ بہرحال وہ دس سے زائد راتیں مدینہ سے باہر رہنے کے بعد واپس لوٹے تو ان کا زخم خراب ہو گیا اور وہ بیمار ہو گئے اور تین جمادی الآخر چار ہجری کو وفات پا گئے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جز 3 صفحہ182ومن بنی مخزوم :ابو سَلَمہ بن عبد الاَسَد دار الکتب العلمیۃ بیروت )(فرہنگ سیرت صفحہ 237 زوار اکیڈمی کراچی2003ء)
اَبُوقلَِابَہ سے مروی ہے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوسَلَمہ بن عبدالاَسَدؓ کے پاس عیادت کے لیے تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے ساتھ ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔
راوی کہتے ہیں کہ اس پر وہاں عورتوں نے کچھ کہا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رُک جاؤ۔ اپنی جانوں کے لیے خیر کے سوا اَور کوئی دعا نہ کیا کرو کیونکہ فرشتے میت کے پاس یا فرمایا میت کے اہل کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔ وہ ان کی دعا پر آمین کہتے ہیں۔ لہٰذا اپنے لیے سوائے خیر کے اَور کوئی دعا نہ کرو۔ یہ رونا پیٹنا جو ہے ناں جس کو ہمارے ہاں سیاپے کرنا بھی کہتے ہیں وہ نہیں ہونا چاہیے۔ پھر فرمایا: اے اللہ! ان کے لیے ان کی قبر کو کشادہ کر دے اور ان کے لیے اس میں روشنی کر دے۔ ان کے نور کو بڑھا دے اور ان کے گناہ کو معاف کر دے۔ اے اللہ! ان کا درجہ ہدایت یافتہ لوگوں میں بلند کر۔ اور ان کے پسماندگان میں تو ان کا قائمقام ہو جا۔ ہمیں اور ان کو بخش دے۔ اے رب العالمین! پھر فرمایا: جب روح نکلتی ہے تو نظر اس کے پیچھے ہوتی ہے۔ کیا تم اس کی آنکھیں کھلی نہیں دیکھتے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جز 3 صفحہ 183ومن بنی مخزوم :ابو سَلَمہ بن عبد الاَسَد دار الکتب العلمیۃ بیروت )
پھر ذکر ہے
حضرت خَلَّادْ بن رَافِع اَلزُّرَقِی ؓ
کا۔ یہ انصاری تھے۔ حضرت خَلَّادْ بن رَافِعؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو خزرج کی شاخ عَجْلَان سے تھا۔(سیرت ابن ہشام صفحہ472دارالکتب العلمیۃ بیروت مطبوعہ 2001ء)
ان کی والدہ کا نام ام مَالِک بنت اُبَی بن مَالِکتھا۔حضرت خَلَّادْ کے بیٹے کا نام یحییٰ تھا جو ام رَافِع بنت عثمان بن خَلْدَہ کے بطن سے تھے۔ یہی لکھا ہے کہ ان کے تمام بچے شروع میں ہی وفات پا گئے تھے۔(الطبقات الکبری،الجزء الثالث صفحہ 447 خَلَّادْ بن رَافِع دار الکتب العلمیۃ1990ء)
جیساکہ نماز پڑھنے کے بارے میں ایک روایت بیان ہو چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تین دفعہ ایک شخص کو فرمایا کہ دوبارہ پڑھو۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی۔ پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: واپس جاؤ اور نماز پڑھو اور اسی طرح اس کو دوبارہ لوٹا دیا۔ پھر اس کو لوٹایا اور یہی کہا کہ واپس جاؤ اور نماز پڑھو جیساکہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا اس لیے آپؐ مجھے سکھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ اکبر کہو۔ پھر قرآن میں سے جو میسر ہو پڑھو یعنی سورہ فاتحہ کے بعد جو میسر ہے۔ پھر رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع میں تمہیں اطمینان ہو جائے۔ پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ تمہیں سجدے میں اطمینان ہو جائے۔ پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ۔ الغرض اپنی ساری نماز میں اسی طرح کرو۔(صحیح بخاری کتاب الاذان حدیث 757)
علامہ ابن حجر عسقلانی ؒکہتے ہیں کہ وہ شخص جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا وہ حضرت خَلَّادْ بن رَافِعؓ تھے۔(مرقاۃالمفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جز 2صفحہ458باب صفۃالصلاۃ حدیث نمبر 790دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
پھر
حضرت عَبَّاد بن بِشْرؓ
کا ذکرہے۔ غزوہ خندق کے موقع پر بھی حضرت عَبَّاد بن بشرؓ کو بھرپور خدمت کی توفیق ملی۔ چنانچہ حضرت ام سَلَمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مَیں خندق میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی اور کسی جگہ بھی آپؐ سے الگ نہیں ہوئی۔ آپؐ خود بھی خندق کی نگرانی فرماتے تھے۔ ہم سخت سردی میں تھے میں آپؐ کو دیکھ رہی تھی کہ آپؐ اٹھے اور جس قدر اللہ نے چاہا آپؐ نے اپنے خیمے میں نماز پڑھی۔ پھر آپؐ باہر نکلے اور دیکھا۔ کچھ دیر کے لیے نظر دوڑائی پھر میں نے آپؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا یہ تو مشرکوں کے گھڑ سوار ہیں جو خندق کا چکر لگا رہے ہیں۔ انہیں کون دیکھے گا؟ پھرآپؐ نے آواز دی۔ اے عَبَّاد بن بِشْر!حضرت عَبَّادؓ نے عرض کی میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ کوئی اَور بھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ہوں۔ ہم آپؐ کے خیمے کے ارد گرد ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اپنے ساتھیوں کے ساتھ جاؤ اور خندق کا چکر لگاؤ۔ یہ ان مشرکین کے گھڑ سواروں میں سے کچھ گھڑ سوار ہیں جو تم پر چکر لگا رہے ہیں اور وہ خواہش رکھتے ہیں کہ تمہاری غفلت میں اچانک تم پر حملہ کر دیں۔ پھر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! ہم سے ان کے شر کو دُور کر دے اور ان کے خلاف ہماری مدد فرمااور ان کو مغلوب کر دے۔ تیرے علاوہ کوئی انہیں مغلوب نہیں کر سکتا۔
پھر حضرت عَبَّاد بن بِشْرؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکلے اور دیکھا کہ ابوسفیان مشرکین کے چند گھڑ سواروں کے ساتھ تھا اور وہ خندق کی تنگ جگہ کا چکر لگا رہا تھا اور مسلمان جو اس کنارے پر وہاں بیٹھے تھے، ان کے بارے میں آگاہ ہو چکے تھے۔ انہوں نے، مسلمانوں نے ان پر پتھر اور تیر برسائے۔ پھر ہم بھی ان کے ساتھ رک گئے اور ہم نے بھی ان پر تیر اندازی کی یہاں تک کہ ہم نے ان مشرکین کو تیراندازی کرتے ہوئے اپنی جگہ سے ہٹنے پر مجبور کر دیا اور وہ اپنے ٹھکانوں کی طرف لَوٹ گئے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آیا اور مَیں نے آپؐ کو نماز کی حالت میں پایا۔ پھر مَیں نے آپؐ کو اس واقعہ کے بارے میں آگاہ کیا۔ حضرت ام سَلَمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے یہاں تک کہ میں نے آپؐ کی سانس کی آواز سنی اور آپؐ اس وقت تک نہ اٹھے یہاں تک کہ مَیں نے حضرت بلالؓ کو صبح کی اذان دیتے ہوئے سنا اور فجر کی سفیدی نظر آ گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور مسلمانوں کو نماز پڑھائی۔ حضرت ام سَلَمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی تھیں کہ
اللہ تعالیٰ عَبَّاد بن بِشْر پر رحم فرمائے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں سے سب سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کے ساتھ چمٹے رہے اور ہمیشہ اس کی حفاظت کرتے رہے۔(کتاب المغازی للواقدی جزء1 صفحہ 396-397، غزوۃ الخندق، دارالکتب العلمیۃ بیروت مطبوعہ2013ء)
’’حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ انصار میں سے تین اشخاص اپنی افضلیت میں جواب نہیں رکھتے تھے یعنی ‘‘حضرت ’’اُسَید بن الْحُضَیر، ‘‘حضرت ’’سَعد بن مُعَاذ اور‘‘ حضرت ’’عَبَّاد بن بِشْر۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ صفحہ 229)
تحویلِ قبلہ کے متعلق روایت
ہے۔ اس میں حضرت عَبَّاد بن بِشْر کا نام بھی آتا ہے۔ چنانچہ حضرت تُوَیْلَہرضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم بنو حارِثہ میں ظہر یا عصر کی نمازپڑھ رہے تھے اور دو رکعت بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھی تھیں کہ ایک آدمی آیا اور اس نے آ کر ہمیں بتایا کہ قبلہ مسجد حرام کی طرف پھیر دیا گیا ہے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ پھر ہم نے جگہ تبدیل کر لی اور مرد عورتوں کی جگہ کی طرف منتقل ہو گئے اور عورتیں مردوں کی جگہ کی طرف۔ ایک روایت کے مطابق اس اطلاع دینے والے آدمی کا نام حضرت عَبَّاد بن بِشْر بن قَیْظِی تھا جو کہ قبیلہ بنو حَارِثہ سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ایک دوسرے قول کے مطابق یہ شخص عَبَّاد بن بِشْر بن وَقْشتھے جو بَنُو عَبدِ الاَشْہَل سے تعلق رکھتے تھے۔(اُسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء3 صفحہ 148-149۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت)(سیر اعلام النبلاء لامام الذھبی جزء 1 صفحہ 339، عَبَّاد بن بشر، الرسالۃ العالمیۃ الطبعۃ الثانیۃ 2014ء)
صلح حدیبیہ کے موقع پر
جب قریشِ مکہ کی طرف سے سُہَیل بن عمرو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بات چیت کی غرض سے آیا تو اس وقت بھی حضرت عَبَّاد بن بشر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوہے کی خَود پہنے کھڑےتھے اور آپ کے ساتھ ایک اَور صحابی حضرت سَلَمہ بن اسلم بھی تھے۔ دورانِ گفتگو جب سہیل کی آواز بلند ہوئی تو حضرت عَبَّاد بن بِشْر نے اسے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی آواز دھیمی رکھو۔(سبل الھدیٰ والرشاد جزء 5 صفحہ 52 باب ذکر الھدنۃ و کیف الصلح یوم الحدیبیۃ، دارالکتب العلمیۃ بیروت )
حضرت عَبَّاد بن بِشر ہر غزوے کے موقع پر پیش پیش رہے
چنانچہ جب عُیَیْنَہ بن حِصْن فَزَارِی، بنو غَطْفَانکے چند سواروں کے ساتھ غابہ پر حملہ آور ہوا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھیل اونٹنیاں چرا کرتی تھیں تو انہوں نے اونٹنیوں کی نگرانیوں پر متعین آدمی کو قتل کر دیا اور اس کی بیوی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کو ساتھ لے گئے۔ جب مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو گھڑ سوار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔ روایت میں ذکر ہے کہ انصار میں سے حضرت مِقْدَاد بنِ اَسْوَد رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے پہلے حضرت عَبَّاد بن بِشْر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جزء 3-4 صفحہ 174-175 غزوۃ ذی قرد، دارالکتاب العربی بیروت مطبوعہ 2008ء)
یہ مہم غزوہ ذی قرد کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی تفصیل صحیح بخاری میں بھی آئی ہے۔ یَزِید بنِ ابی عُبَیدسے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: مَیں نے حضرت سَلَمہ بن اکوعؓ سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نماز فجرکی اذان سے پہلے مدینہ سے نکل کر غابہ کی طرف گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھیل اونٹنیاں ذی قردمقام پر چَر رہی تھیں۔ کہتے تھے کہ عبدالرحمٰن بن عوف کا ایک لڑکا مجھے رستے میں ملا۔ کہنے لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں لے گئے ہیں۔ میں نے کہا کون لے گئے ہیں؟ اس نے کہا غَطْفَان کے لوگ۔ کہتے تھے کہ یہ سنتے ہی میں نے یا صَبَاحَاہ کی آواز تین بار بلند کی اور ان کو پہنچا دی جو مدینہ کے دو پتھریلے میدانوں میں تھے۔ پھر اپنے سامنے بےتحاشا دوڑ پڑا یہاں تک کہ ان لٹیروں کو جا لیا اور وہ جانوروں کو پانی پلانے لگے تھے۔ میں نے انہیں تیروں کا نشانہ بنایا اور میں اچھا تیر انداز تھا اور یہ رجز کہتا جاتا تھا۔ میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کا دن وہ ہے جس میں معلوم ہو جائے گا کہ دودھ پلانے والیوں نے کسے دودھ پلایا ہے اور میں گرجتے ہوئے یہ رجزیہ شعر پڑھتا تھا یہاں تک کہ ان سے تمام دودھیل اونٹنیاں چھڑا لیں اور ان سے تیس چادریں بھی چھین لیں۔ کہتے تھے کہ میں اسی حال میں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے لوگوں سمیت آ پہنچے۔ مَیں نے کہا نبی اللہ! میں نے ان لوگوں کو پانی نہیں پینے دیا اور وہ پیاسے تھے۔ آپ ان کی طرف اس وقت دستہ بھیجیے۔ آپؐ نے فرمایا:
اکوع کے بیٹے !تم نے ان پر قابو پا لیا ہے اس لیے نرمی کرو۔
حضرت اکوع ؓکہتے تھے پھر ہم لوٹ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے اپنی اونٹنی پر بٹھا لیا اور ہم اسی حالت میں مدینہ میں داخل ہوئے۔(صحیح البخاری کتاب المغازی بَاب غَزْوَةُ ذَاتِ الْقَرَدِ روایت نمبر4194)
پھر ذکر ہے
حضرت حَاطِبْ بن اَبِی بَلْتَعہؓ
کا۔ ان کی وفات تیس ہجری میں پینسٹھ سال کصی عمر میں مدینہ میں ہوئی۔ حضرت عثمانؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ 84 و من حلفاء بنی اسد۔دارالکتب العلمیۃ 1990ء)
ان کے بارے میں مزید لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے بھی آپ کو مُقَوقِسْ کے پاس مصر بھیجا اور ایک معاہدہ ترتیب دیا جو حضرت عَمروبن عاصؓکے حملہ مصر تک طرفین کے درمیان قائم رہا۔(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب۔ جلد1 صفحہ 314 حَاطِب بن اَبِی بَلْتَعہ اللخمی۔دارالجیل بیروت1992ء)
حضرت حَاطِبؓ خوبصورت جسم کے مالک تھے۔ ہلکی داڑھی تھی۔ گردن جھکی ہوئی تھی۔ پست قامت کی طرف مائل اور موٹی انگلیوں والے تھے۔ یعقوب بن عُتْبَہ سے مروی ہے کہ حضرت حَاطِب بن اَبِی بَلْتَعہؓنے اپنی وفات کے دن چار ہزار دینار اور دراہم چھوڑے۔ آپؓ غَلّہ وغیرہ کے تاجر تھے اور آپؓ نے اپنا ترکہ مدینہ میں چھوڑا۔(الطبقات الکبریٰ۔لا بن سعد الجزء الثالث صفحہ 85 و من حلفاء بنی اَسَد دارالکتب العلمیہ 1990ء)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حَاطِب کا غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپؓ کی شکایت لے کر آیا۔ غلام نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! حَاطِب ضرور جہنم میں داخل ہو گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تُو نے جھوٹ بولا۔ وہ اس میں ہرگز داخل نہیں ہو گا کیونکہ وہ غزوۂ بدر اور صلح حدیبیہ میں شامل ہوا تھا۔(سنن ترمذی۔ابواب المناقب باب فيمن سب أصحاب النبی ﷺ حدیث نمبر 3864)
حضرت سعید بن مسیّبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ حضرت حَاطِب بن اَبِی بَلْتَعہؓ کے پاس سے گزرے وہ بازار میں کشمش بیچ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یا تو اپنی قیمت زیادہ کریں یا پھر ہمارے بازار سے چلے جائیں۔ مزید لکھا ہے کہ حضرت امام شافعیؒ سے روایت ہے کہ قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ عید گاہ کے بازار میں حضرت حَاطِبؓ کے پاس سے گزرے۔ ان کے سامنے دو ٹوکریاں کشمش کی بھری پڑی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے ان سے ان کا نرخ پوچھا تو انہوں نے کہا دو مُدّ ایک درہم میں دے رہا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کہ مجھے طائف سے آنے والے قافلے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ آپؓ کے نرخ کا اعتبار کرتے ہیں۔ یا تو آپؓ نرخ زیادہ کریں یا پھر گھر میں بیٹھ کر جیسے چاہیں بیچیں۔ چنانچہ جب حضرت عمرؓ گھر آئے اور سوچ بچار کی تو پھر حضرت حَاطِبؓ کے گھر ان سے ملنے گئے اور ان سے کہا جو کچھ مَیں نے آپؓ سے کہا تھا وہ میری طرف سے کوئی زبردستی نہیں ہے اور نہ میری طرف سے وہ فیصلہ تھا۔ میں نے یہ بات صرف شہریوں کی بھلائی کے لیے کی تھی۔ آپؓ جہاں چاہیں بیچیں اور جتنے میں چاہیں بیچیں۔(السنن الکبری للبیہقی جزء6حدیث11146۔ جماع ابواب السلم۔ باب التسعیر۔صفحہ48- دارالکتب العلمیۃ 2003ء)
حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے مدینہ ٔمنورہ میں قیمتوں پر اسلامی حکومت تصرف رکھتی تھی۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ مدینہ کے بازار میں پھر رہے تھے کہ آپؓ نے دیکھا ایک شخص حَاطِب بن اَبِی بَلْتَعہ اَلْمُصَلَّینامی بازار میں دو بورے سوکھے انگوروں کے رکھے بیٹھے تھے۔ حضرت عمرؓنے ان سے بھاؤدریافت کیا تو انہوں نے ایک درہم کے دو مُدّ بتائے۔ یہ بھاؤبازار کے عام بھاؤ سے سستا تھا۔ اس پر آپؓ نے ان کو حکم دیا کہ اپنے گھر جاکر فروخت کریں مگر بازار میں وہ اِس قدر سستے نرخ پر فروخت نہیں کر نے دیں گے کیونکہ اِس سے بازار کا بھاؤ خراب ہوتا ہے اورلوگوں کو بازار والوں پربدظنی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’فقہاء نے اس پر بڑی بحثیں کی ہیں۔ بعض نے ایسی روایات بھی نقل کی ہیں کہ بعد میں حضرت عمرؓنے اپنے اس خیال سے رجوع کرلیا تھا مگر
بالعموم فقہاء نے حضرت عمرؓ کی رائے کو ایک قابلِ عمل اصل کے طور پر تسلیم کیا ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ریٹ مقرر کرے ورنہ قوم کے اخلاق اور دیانت میں فرق پڑ جائے گا
مگر یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ انہی اشیا ءکا ذکر ہے جو منڈی میں لائی جائیں۔ جو اشیاءمنڈی میں نہیں لائی جاتیں اور انفرادی حیثیت رکھتی ہیں ان کا یہاں ذکر نہیں۔ پس جو چیزیں منڈی میں لائی جاتی ہیں اور فروخت کی جاتی ہیں اُن کے متعلق اسلام کا یہ واضح حکم ہے کہ ایک ریٹ مقرر ہونا چاہئے تا کوئی دکاندار قیمت میں کمی بیشی نہ کرسکے۔ چنانچہ بعض آثار اور احادیث بھی فقہاء نے لکھی ہیں جن سے اس کی تائید ہوتی ہے۔‘‘(خطبات محمودؓ۔جلد19 صفحہ307-308 خطبہ 10؍جون 1938ء)
یہاں مقابلہ بازی میں پھر ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے ایک ریٹ ہو۔
غزوۂ بنو مصطلق پانچ ہجری سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نقیع کے مقام سے گزرے تو وہاں وسیع علاقہ اور گھاس دیکھی اور بہت سے کنویں دیکھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کنوؤں کے پانی کے متعلق پوچھا تو عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جب ہم ان کنوؤں کی تعریف کرتے ہیں تو ان کا پانی کم ہو جاتا ہے اور کنویں بیٹھ جاتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حَاطِب بن اَبِی بَلْتَعہؓکو حکم دیا کہ وہ ایک کنواں کھودیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نقیع کو چراگاہ بنانے کا حکم دیا۔ حضرت بلال بن حارث مُزْنِی ؓکو اس پر نگران مقرر فرمایا۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں اس زمین میں سے کتنے حصہ کو چراگاہ بناؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب طلوع فجر ہو جائے تو ایک بلند آواز شخص کو کھڑا کرو۔ رات کے اندھیرے میں تو دُور تک آوازیں جاتی ہیں اس لیے دن کے وقت جب دن چڑھ جائے تو اس وقت ایک شخص کو کھڑا کرو پھر اسے مُقَمَّلْ نامی پہاڑی پرکھڑاکر کے جہاں تک اس شخص کی آواز جائے اتنے حصہ کو مسلمانوں کے گھوڑوں اور اونٹوں کی چراگاہ بنا دو جس کے ذریعہ سے وہ جہاد کر سکیں۔ یعنی جہاد کے لیے مسلمانوں کے جو گھوڑے اور اونٹ ہیں وہ وہاں چریں۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مسلمانوں کے چرنے والے جانوروں کے بارے میں کیا رائے ہے۔ مسلمانوں کے جو دوسرے جانور ہیں ان کے بارے میں (کیا رائے ہے؟)۔ آپؐ نے فرمایا: وہ اس میں داخل نہیں ہوں گے صرف جہادی جو جہاد کے لیے استعمال ہونے والے ہیں وہی اس جگہ سے چر سکتے ہیں۔ باقی اپنی اپنی چراگاہوں پر جائیں۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! اس کمزورمرد یا کمزور عورت کے بارے میں آپؐ کا کیا خیال ہے جس کے پاس قلیل تعداد میں بھیڑ بکریاں ہوں اور وہ انہیں منتقل کرنے پر قدرت نہ رکھتے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں چھوڑ دو اور انہیں چرنے دو۔ جو غریبوں کا تھوڑا بہت مال ہے اسے بےشک چرنے دو۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 4 صفحہ 352-353 غزوہ بنی المصطلق۔مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان 1993ء)
یہ جو ایک روایت آئی ہے پہلے بھی بیان ہو چکی ہے کہ ایک انصاری تھا جس نے حضرت زبیرؓ سے حَرَّہ کی اس ندی کے بارے میں جھگڑا کیا جس سے لوگ کھجوروں کو پانی دیا کرتے تھے۔ انصاری نے حضرت زبیرؓ سے کہا کہ پانی بہنے دو اور حضرت زبیرؓ نے نہ مانا تو وہ دونوںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیرؓ سے فرمایا: زبیر! تم اپنے درختوں کو سیراب کر لو۔ پھر اپنے ہمسائے کے لیے پانی چھوڑ دو۔ انصاری کو غصہ آگیا اور اس نے کہا: آپؐ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ یہ آپؐ کی پھوپھی کا بیٹا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا اور آپؐ نے فرمایا: زبیر! اپنے درختوں کو پانی دو۔ پھر پانی کو روکے رکھو یہاں تک کہ وہ منڈیروں تک بھر آئے۔ حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوںکہ یہ آیت اسی وقت نازل ہوئی تھی کہ تیرے رب کی قسم! وہ ہرگز ہرگز مومن نہیں ہوں گے جب تک وہ تجھے ان باتوں میں حَکم نہ مانیں جو اُن کے درمیان اختلافی صورت اختیار کرتی ہے۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔(صحیح البخاری۔کتاب المساقاۃ و السیر باب سکر الانہار حدیث نمبر2359،2360)
اس حدیث میں جن انصاری کا ذکر ہے ان کے بارے میں تفاسیر میں اختلاف ہے۔ تفسیر قرطبی میں مکی وَالنُّہَاس کے قول کے مطابق لکھا ہے کہ وہ انصاری حضرت حَاطِب بن اَبِی بَلْتَعہؓ تھے۔(الجامع لاحکام القرآن لقرطبی جزو6صفحہ 441 مؤسسۃالرسالۃبیروت2006ء)
تو یہ ہیں جن کا مَیں نے آج بیان کرنا تھا۔ کچھ تھوڑے سے رہ گئے ہیں وہ ان شاء اللہ آئندہ کبھی بیان کر دوں گا۔
اے اللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جس چیز کی طرف بلاتے ہیں اگر وہ حق ہے تو ساتوں بار انہی کا تیر نکال۔ میں نے سات بار قرعہ ڈالا اور ساتوں بار آپؐ کا ہی تیر نکلا۔
اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابہ حضرت ابو لُبَابَہ بن عبد المنذرؓ، حضرت ابو الضَّیَّاح بن ثابت بن نعمانؓ، حضرت اَنَسَہْ مَوْلیٰ رسول اللہﷺ، حضرت ابو مَرْثَد بن ابی مَرْثَدؓ، حضرت ابو مَرْثَد کَنَّازؓ، حضرت سَلِیْطبن قیس بن عمروؓ، حضرت مُجَذَّربن زیادؓ، حضرت رِفَاعَہ بن رَافِع بن مَالِک بن عجلانؓ، حضرت ابو اُسَید بن مَالِک رَبِیعہؓ، حضرت عبداللہ بن عَبدالاَسَدؓ، حضرت خَلَّادْ بن رَافِعؓ، حضرت عَبَّادبن بشرؓ اور حضرت حَاطِب بن اَبِی بَلْتَعہؓ کی سیرت کے بعض پہلوؤں کا ایمان افروز تذکرہ۔
فرمودہ 27؍جنوری 2023ءبمطابق 27؍صلح 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔