اصحاب نبویؐ کی سِیرِ مبارکہ
خطبہ جمعہ 24؍ فروری 2023ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
بدری صحابہ جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ان کے حوالے سے بعض باتوں کا ذکر رہ گیا تھا جو میں بیان کر رہا تھا۔ اس حوالے سے آج بھی بیان کروں گا۔ جس کے بعد
بدری صحابہ کے بارے میں یہ سلسلہ یا جو مَیں بیان کرنا چاہتا تھا وہ ختم ہو جائے گا۔
حضرت عامر بن ربیعہؓ
کے بارے میں لکھا ہے کہ آپؓ کے والد کا نام ربیعہ بن کعب بن مالک بن ربیعہ تھا۔ آپؓ سے بعض روایات بھی ملتی ہیں۔ عبداللہ بن عامر بن ربیعہ اپنی والدہ حضرت ام عبداللہ لیلیٰ بنت ابو حَثمہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم حبشہ کی طرف کوچ کرنے والے تھے اور عامر بن ربیعہ ہمارے کسی کام کے سلسلہ میں کہیں گئے ہوئے تھے کہ حضرت عمرؓ جو کہ ابھی حالتِ شرک میں تھے وہاں آ نکلے اور میرے سامنے کھڑے ہو گئے اور ہمیں ان سے سخت تکلیف اور سختیاں پہنچی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے مجھ سے کہا۔ اے ام عبداللہ! کیا روانگی ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ اللہ کی قسم! ہم اللہ کی زمین میں جاتے ہیں یہاں تک کہ اللہ ہمارے لیے کشادگی پیدا کر دے۔ تم لوگوں نے ہمیں بہت دکھ دیا ہے اور ہم پر بہت سختیاں کی ہیں۔ اس پر
حضرت عمرؓ نے ان سے کہا۔ اللہ تمہارا نگہبان ہو!
وہ کہتی ہیں کہ میں نے اس دن حضرت عمرؓ کی آواز میں وہ رقّت دیکھی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ وہاں سے چلے گئے اور ان کو ہمارے کوچ کرنے نے غمگین کر دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اتنے میں حضرت عامرؓاپنے کام سے فارغ ہو کر واپس آ گئے تو میں نے ان سے کہا اے ابوعبداللہ! کیا آپ نے ابھی عمر اور ان کی رقّت اور دکھ کو دیکھا۔ بتایا ہو گا انہوں نے۔ حضرت عامرؓ نے جواب دیا کہ کیا تُو اس کے مسلمان ہونے کی خواہشمند ہے؟ وہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا ہاں۔ اس پر حضرت عامرؓ نے کہا۔ خطاب کا گدھا مسلمان ہو سکتا ہے مگر وہ شخص جس کو تُو نے ابھی دیکھا ہے یعنی حضرت عمرؓ وہ اسلام نہیں لاسکتا۔ حضرت لَیلیٰ کہتی ہیں کہ حضرت عامرؓ نے یہ بات اُس ناامیدی کی وجہ سے کہی تھی جو ان کو حضرت عمرؓ کے اسلام کی مخالفت اور سختی کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی۔(اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 118 عامر بن ربیعہ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)(فضائل الصحابة لامام احمد بن حنبل جزء 1 صفحہ 279، جامعہ ا لقریٰ 1983ء)(السیرة النبویة لابن ہشام جزء 1 صفحہ 370، دارالکتاب العربی بیروت لبنان، 1990ء)
حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سَرِیہ نخلہ جس کا نام سریہ عبداللہ بن جحش بھی ہے، یہ غزوۂ بدر سے پہلے کا ہے اس پر روانہ فرمایا اور ہمارے ساتھ حضرت عمرو بن سراقہ بھی تھے اور وہ ہلکے پیٹ والے اور لمبے قد والے تھے۔ راستے میں ان کو شدید بھوک لگی جس کی وجہ سے وہ دہرے ہو گئے اور ہمارے ساتھ چلنے کی استطاعت نہ رکھ سکے اور گر پڑے۔ بھوک کی یہ حالت تھی۔ ہم نے ایک پتھر کا ٹکڑا لے کر ان کے پیٹ پر رکھ کر ان کی کمر کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا۔پھر وہ ہمارے ساتھ چل پڑے۔ ہم ایک عرب قبیلے کے پاس پہنچے جنہوں نے ہماری ضیافت کی۔ اس کے بعد آپؓ چل پڑے اور کہا کہ
میں سمجھتا تھا کہ انسان کی ٹانگیں اس کے پیٹ کو اٹھائے ہوئے ہوتی ہیں حالانکہ اصل میں انسان کا پیٹ اس کی ٹانگوں کو اٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔(معرفة الصحابة از علامہ ابو نعیم جزء 1 صفحہ 2004-2005، عمرو بن سراقہ، دارالوطن للنشر)(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ صفحہ 330)
جب بھوک کی حالت ہو، فاقہ زدگی ہو، کمزوری ہو پھر انسان چل بھی نہیں سکتا۔
حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر حضرت عامر بن ربیعہؓ اور حضرت سَہْلِ بن حُنَیفؓ کو جاسوسی کے لیے روانہ فرمایا۔(ماخوذ از کنز العمال جزء 4 صفحہ 470 حدیث 11399، مؤسسة الرسالةبیروت لبنان، 1985ء)
8؍ہجری میں جنگِ ذاتُ السَّلَاسِل میں حضرت عامر بن ربیعہ ؓبھی شامل تھے اور اس میں آپؓ کے بازو پر تیر لگا جس کی وجہ سے آپؓ زخمی ہو گئے۔(سیر اعلام النبلاء سیرت النبی جزء 2 صفحہ 149، غزوہ ذات السلاسل، الرسالۃ العالمیۃ 1985ء)
عبداللہ بن عامر اپنے والد حضرت عامر بن ربیعہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے تو آپؐ نے استفسار فرمایا کہ یہ کس کی قبر ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ فلاں عورت کی قبر ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے مجھے کیوں اطلاع نہیں دی؟ لوگوں نے عرض کیا کہ آپؐ سو رہے تھے ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ آپؐ کو جگائیں۔ اس پر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ مجھے اپنے جنازوں کے لیے بلایا کرو۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں صفیں بنوائیں اور اس کی نماز جنازہ ادا کی۔(مسند احمد بن حنبل، جلد 24 صفحہ 443 حدیث 15673 مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)وہیں قبر کے اوپر۔
عبداللہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عامر بن ربیعہؓ نے بتایا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کسی سریہ میں روانہ فرماتے تھے تو ہمارے پاس زادِ راہ صرف کھجور کا ایک تھیلا ہوتا تھا۔ امیرِ لشکر ہمارے درمیان ایک مٹھی بھر کھجور تقسیم کر دیتے تھے اور آہستہ آہستہ ایک ایک کھجور کی نوبت آ جاتی تھی پھر آہستہ آہستہ وہ بھی ختم ہونے لگتی تھی تو سفر میں پھر ایک کھجور ایک آدمی کو ملا کرتی تھی۔ حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا۔ ابا جان! ایک کھجور کیا کفایت کرتی ہو گی؟ اس سے پیٹ کیا بھرتا ہوگا؟ انہوں نے کہا پیارے بیٹے! ایسا نہ کہو کیونکہ اس کی اہمیت ہمیں اس وقت معلوم ہوتی جب ہمارے پاس وہ بھی نہ ہوتی تھی۔(ماخوذ از حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء جزء 1 صفحہ 179، دارالفکر بیروت لبنان، 1996ء)یہ تو جو فاقے میں ہو اس سے پوچھو کہ ایک کھجور کی بھی کیا اہمیت ہے۔
جب حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں خیبر کے علاقے سے یہود کو نکال دیا تو وادیٔ قریٰ کی زمینیں آپؓ نے جن لوگوں میں تقسیم فرمائیں ان میں حضرت عامر بن ربیعہ بھی تھے۔(کتاب اخبار المدینة النبویة از ابو زید عمر بن شبة، جلد 1 صفحہ 181، امر خیبر مطبوعہ دار العلیان)
حضرت عمرؓ جب جَابِیَہتشریف لے گئے، یہ دمشق کے مضافات کی ایک بستی ہے، تو حضرت عامرؓ آپؓ کے ساتھ تھے۔ ایک روایت کے مطابق اس میں حضرت عمرؓ کا جھنڈا حضرت عامرؓ کے پاس تھا۔ اسی طرح حضرت عثمانؓ جب حج پر تشریف لے گئے تو انہوں نے حضرت عامرؓ کو مدینہ میں اپنا قائمقام مقرر فرمایا۔(الاصابة فی تمییز الصحابة جلد 3 صفحہ 469، عامر بن ربیعہ، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1995ء)(معجم البلدان جلد 2 صفحہ 91، زیر لفظ الجابیة، دارصادر بیروت لبنان)(سیر اعلام النبلاء جلد 2 صفحہ 334، عامر بن ربیعہ، الرسالۃ العالمیۃ، 1985ء)امیر مقامی مقرر فرمایا۔
حضرت عامر بن ربیعہؓ کی وفات
کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک آپؓ کی وفات حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی اور بعض کے مطابق 32؍ہجری میں ہوئی جبکہ بعض کے نزدیک 33؍ ہجری میں ہوئی۔ بعض کے نزدیک 36؍ ہجری میں اور بعض کے نزدیک 37؍ ہجری میں ہوئی۔ علامہ ابن عساکر کے نزدیک 32؍ ہجری والی روایت زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔(تاریخ دمشق الکبیر از ابن عساکر جزء 27 صفحہ 229، عامر بن ربیعہ، دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان، 2001ء)
آپؓ کی وفات کے بارے میں روایت میں یہ بھی بیان ہے کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد آپؓ اپنے گھر میں رہا کرتے تھے یہاں تک کہ لوگوں کو آپؓ کے بارے میں کوئی خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ جب آپؓ کا جنازہ گھر سے نکلا۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 296، عامر بن ربیعہ، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1990ء)
عبداللہ بن عامر اپنے والد حضرت عامر بن ربیعہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے بنو فزارہ کی ایک عورت سے دو جوتے حق مہر پر نکاح کر لیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو جائز قرار دیا۔ یعنی یہ معمولی سا جو حق مہر تھا وہ مقرر کیا تو وہ بھی جائز ہے۔(مسند احمد بن حنبل جلد 24 صفحہ 445 روایت نمبر 15676 مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)
عبداللہ بن عامر اپنے والد حضرت عامر بن ربیعہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاکہ آپؐ نے سفر میں اپنی اونٹنی کی پیٹھ پر رات کو نفل پڑھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف منہ کیے ہوئے تھے جس طرف اونٹنی آپؐ کو لیے جا رہی تھی۔(صحیح بخاری کتاب تقصیر الصلوٰة باب من تطوع فی السفر…… حدیث 1104)
سفر میں جدھر بھی سواری کا منہ ہو اس طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جائز ہے۔
حضرت عامر بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اندھیری رات میں سفر میں تھا۔ ہم ایک مقام پر اترے تو ایک شخص نے پتھر اکٹھے کیے اور نماز کے لیے جگہ بنائی اور اس میں نماز پڑھی۔ صبح معلوم ہوا کہ ہمارا رخ غیر قبلہ کی طرف تھا۔ قبلے سے الٹا تھا۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! ہم نے رات کو قبلے سے ہٹ کر نماز پڑھی ہے۔ اس پر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ۔(البقرہ:116) کہ اور اللہ ہی کا ہے مشرق بھی اور مغرب بھی۔ پس جس طرف بھی تم منہ پھیرو وہیں خدا کا جلوہ پاؤ گے۔(حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء جلد 1 صفحہ 179-180، دارالفکر بیروت لبنان، 1996ء)یعنی اگر غلط فہمی سے ہو گیا تو کوئی ہرج نہیں ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھانے کے لیے ویسے پڑھ کر سنائی ہو۔ ضروری نہیں ہے کہ اس وقت نازل ہوئی ہو۔ بہر حال یہ روایت حلیة الاولیاء کی ہے۔
حضرت عامر بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس مرتبہ سلامتی بھیجتا ہے۔ پس اب تمہاری مرضی ہے کہ مجھ پر کم درود بھیجو یا زیادہ درود بھیجو۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عامر بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی بندہ مجھ پر سلامتی کی دعا کرتا ہے تو جب تک وہ اسی حالت میں ہوتا ہے فرشتے اس پر سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔ پس بندے کے اختیار میں ہے چاہے تو زیادہ مرتبہ سلامتی کی دعا کرے اور چاہے تو کم۔ (حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء جلد 1 صفحہ 180، دارالفکر بیروت لبنان، 1996ء)
پھر اگلا ذکر ہے
حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ
کا۔ حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ کے بارے میں آیا ہے، ان کی نسل آگے نہیں چلی۔ (الطبقات الکبریٰ الجزء الثالث صفحہ 266حَرَام بن مِلْحَان مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
حضرت عبداللہ بن ابی طلحہؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ حضرت انسؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ماموں حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ کو جو اُمّ سُلَیم کے بھائی تھے ستّر سواروں کے ساتھ بنو عامر کی طرف بھیجا اور عامر بن طفیل مشرکوں کا سردار تھا۔ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تین باتوں میں سے ایک کا اختیار دیا تھا۔ اس نے کہا تھا قصباتی لوگ آپؐ کے ہوں گے اور دیہاتی میرے یا یہ کہ میں آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کا جانشین ہوں گا ورنہ میں دو ہزار غطفان کے آدمیوں کو لے کر آپؐ پر حملہ کر دوں گا۔ تو عامر کسی عورت کے گھر طاعون میں مبتلا ہوا۔ کہنے لگا یہ ویسے ہی گلٹیوں کی بیماری ہے جو آلِ سَلُول کی ایک عورت کے گھر میں جوان اونٹ کو ہوئی تھی۔ میرا گھوڑا لاؤ۔ وہ اس پر سوار ہوا اور اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر ہی مر گیا۔ آخر یہ اس کا انجام ہوا۔ اس کے بارے میں انہوں نے شروع میں ذکر کر دیا۔
پھر روایت میں اس کا بھی اور اس کےقبیلے کا بھی ذکر یہ ملتا ہے کہ حضرت اُمّ سلیمؓ کے بھائی حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ، ایک لنگڑے آدمی اور ایک اَور آدمی کو جو فلاں قبیلہ سے تھا اپنے ساتھ لے کر بنو عامر کے پاس گئے۔ حَرَام نے ان دونوں سے کہا۔ تم قریب ہی رہنا۔ میں ان کے پاس جاتا ہوں۔ اگر انہوں نے مجھے امن دیا تو تم آ جانا اور اگر مجھے قتل کر دیا تو تم اپنے ساتھیوں کے پاس جا کر انہیں بتانا۔ حضرت حَرَامؓ نے عامر کے پاس جا کر کہا کیا تم مجھے امن دیتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچا دوں۔ یہ کہہ کر وہ اس سے باتیں کرنے لگے۔ قبیلے کے لوگوں نے ایک شخص کو اشارہ کیا وہ ان کے پیچھے سے آیا اور ان کو تاک کر نیزہ مارا جو اُن کے جسم سے آر پار ہو گیا۔
حضرت حَرَام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زخموں سے نکلنے والا خون ہاتھ میں لیا اور اپنے منہ پر ملتے ہوئے کہا اللّٰہُ اَکْبَرُ! فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ۔ اللہ اکبر!کعبہ کے رب کی قسم! میں نے اپنی مراد پا لی۔
پھر وہ لوگ دوسرے آدمی کے پیچھے چلے اور اسے مار ڈالا اور پھر باقی قاریوں پر جا کر حملہ کر دیا اور وہ سارے کے سارے مارے گئے سوائے اس لنگڑے آدمی کے جو پہاڑ کی چوٹی پر چلا گیا تھا۔ اللہ نے ہم پر وہ بات نازل کی۔ پھر اس کا ذکر اذکار موقوف ہو گیا یعنی ہماری طرف سے ہماری قوم کو کہہ دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے ہیں۔ وہ ہم سے خوش ہوا اور ہمیں خوش کر دیا۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیس دن ہر صبح ان کے خلاف یعنی رِعْل، ذَکْوَان، بَنُو لَحْیَاناور عُصَیَّہ کے خلاف دعا کرتے رہے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کی تھی۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع و رِعْل و ذَکْوَان… حدیث 4091 )
بخاری کی ایک اَور روایت جو حضرت انسؓ سے ہے اس کے مطابق نیزے کے بجائے ان کو برچھا مارا گیا تھا۔(صحیح البخاری کتاب الجہاد باب من ینکب أو یطعن فی سبیل اللّٰہ حدیث 2801)
ایک اَور روایت کے مطابق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک صبح کی نماز میں ان یعنی بنی سُلیم کےدو قبیلوں رِعْل اور ذَکْوَان کے خلاف دعا کرتے رہے۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ
یہ قنوت کی ابتدا تھی۔ اس سے قبل ہم قنوت نہیں کیا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع ورِعْل وذَکْوَان … حدیث 4088)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حفاظ کی شہادت کے واقعے کو بیان فرماتے ہوئے صحابہ کی قربانیوں کے جذبہ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ جنگوں میں اس طرح جاتے تھے کہ ان کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جنگ میں شہید ہونا ان کے لئے عین راحت اور خوشی کا موجب ہے اور اگر ان کو لڑائی میں کوئی دکھ پہنچتا تھا تو وہ اس کو دکھ نہیں سمجھتے تھے بلکہ سکھ خیال کرتے تھے۔ چنانچہ صحابہؓ کے کثرت کے ساتھ اس قسم کے واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں کہ انہوں نے خدا کی راہ میں مارے جانے کو ہی اپنے لئے عین راحت محسوس کیا۔ مثلاً وہ حفاظ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وسط عرب کے ایک قبیلہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجے تھے ان میں سے حَرَام بن مِلْحَان اسلام کا پیغام لےکر قبیلۂ عامر کے رئیس عامر بن طفیل کے پاس گئے اور باقی صحابہؓ پیچھے رہے۔ شروع میں تو عامر بن طفیل اور اس کے ساتھیوں نے منافقانہ طور پر ان کی آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور تبلیغ کرنے لگے تو ان میں سے بعض شریروں نے ایک خبیث کو اشارہ کیا اور اس نے اشارہ پاتے ہی حَرَام بن مِلْحَان پر پیچھے سے نیزہ کا وار کیا اور وہ گر گئے، گرتے وقت ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ اَللّٰہُ اَکْبَرُفُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ یعنی مجھے کعبہ کے رب کی قسم! میں نجات پاگیا۔ پھر ان شریروں نے باقی صحابہؓ کا محاصرہ کیا اور ان پر حملہ آور ہو گئے۔ اس موقع پر حضرت ابو بکرؓ کے آزاد کردہ غلام عامر بن فُہَیْرہؓ جو ہجرت کے سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان کے متعلق ذکرآتا ہے بلکہ خود ان کا قاتل جو بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجہ ہی یہ بیان کرتا تھا کہ جب میں نے عامر بن فُہَیْرہؓکو شہید کیا تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا فُزْتُ وَاللّٰہِ۔ یعنی خدا کی قسم! میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ
صحابہؓ کے لئے موت بجائے رنج کے خوشی کا موجب ہوتی تھی۔‘‘(ایک آیت کی پُر معارف تفسیر،انوار العلوم جلد18صفحہ 612-613)
پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ نجد کے کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ اسے مَیں چھوڑتا ہوں۔ اور اس ضمن میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا حوالہ پیش کر دیتا ہوں۔ یہ ذرا زیادہ تفصیلی ہے۔ وہ اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ایک شخص اَبُوبَرَاء عَامِرِی جو وسط عرب کے قبیلہ بنوعامر کا ایک رئیس تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ آپؐ نے بڑی نرمی سے اور شفقت کے ساتھ اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی اوراس نے بھی بظاہر شوق اور توجہ کے ساتھ آپؐ کی تقریر کو سنا مگر مسلمان نہیں ہوا۔ البتہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا کہ آپؐ میرے ساتھ اپنے چند اصحاب نجد کی طرف روانہ فرمائیں جو وہاں جا کر اہلِ نجد میں اسلام کی تبلیغ کریں اور مجھے امید ہے کہ نجدی لوگ آپؐ کی دعوت کورد نہیں کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا: مجھے تو اہلِ نجد پر اعتماد نہیں ہے۔ ابوبَراء نے کہا کہ آپؐ ہرگز فکر نہ کریں۔ میں ان کی حفاظت کا ضامن ہوتا ہوں۔ چونکہ ابوبَراء ایک قبیلہ کا رئیس اورصاحبِ اثر آدمی تھا آپؐ نے اس کے اطمینان دلانے پر یقین کر لیا اورصحابہ کی ایک جماعت نجد کی طرف روانہ فرما دی۔
یہ تاریخ کی روایت ہے۔ بخاری میں آتا ہے کہ قبائل رِعْلاور ذَکْوَانوغیرہ (جو مشہور قبیلہ بنوسُلَیم کی شاخ تھے) ان کے چند لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کا اظہار کر کے درخواست کی کہ ہماری قوم میں سے جو لوگ اسلام کے دشمن ہیں ان کے خلاف ہماری امداد کے لئے (یہ تشریح نہیں کی کہ کس قسم کی امداد، آیا تبلیغی یا فوجی) چند آدمی روانہ کئے جائیں۔ جس پر آپؐ نے یہ دستہ روانہ فرمایا۔ ان دونوں روایتوں کی مطابقت کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ رِعْلاور ذَکْوانکے لوگوں کے ساتھ ابوبَراء عامری رئیس قبیلہ عامر بھی آیا ہو اور اس نے ان کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بات کی ہو۔ چنانچہ تاریخی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ مجھے اہلِ نجد کی طرف سے اطمینان نہیں ہے اورپھر اس کا یہ جواب دینا کہ آپؐ کوئی فکر نہ کریں۔ میں اس کا ضامن ہوتا ہوں کہ آپؐ کے صحابہ کوکوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ابوبَرَاء کے ساتھ رِعْل اورذَکْوَان کے لوگ بھی آئے تھے جن کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فکر مند تھے۔ واللہ اعلم۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صفر 4؍ہجری میں مُنذِر بن عَمرو انصاری کی امارت میں صحابہ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی۔ یہ لوگ عموماً انصار میں سے تھے اورتعداد میں ستر تھے اور قریباً سارے کے سارے قاری یعنی قرآن خوان تھے جو دن کے وقت جنگل سے لکڑیاں جمع کرکے ان کی قیمت پر اپنا پیٹ پالتے اور رات کا بہت سا حصہ عبادت میں گزار دیتے تھے۔ جب یہ لوگ اس مقام پر پہنچے جو ایک کنویں کی وجہ سے بئر معونہ کے نام سے مشہور تھا تواُن میں سے ایک شخص حَرَام بن مِلْحَان جو انس بن مالک کے ماموں تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوتِ اسلام کا پیغام لے کر قبیلہ عامر کے رئیس اور ابوبَرَاء عامری کے بھتیجے عامر بن طُفیل کے پاس آگے گئے اورباقی صحابہ پیچھے رہے۔ جب حَرَام بن مِلْحَان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کے طور پر عامر بن طُفیل اور اس کے ساتھیوں کے پاس پہنچے تو انہوں نے شروع میں تو منافقانہ طور پر آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اوراسلام کی تبلیغ کرنے لگے توان میں سے بعض شریروں نے کسی آدمی کو اشارہ کر کے اس بے گناہ ایلچی کو پیچھے کی طرف سے نیزہ کا وار کر کے وہیں ڈھیر کر دیا۔ اس وقت حَرَام بن مِلْحَان کی زبان پریہ الفاظ تھے۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ!فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔یعنی ‘‘اللہ اکبر!کعبہ کے رب کی قسم! میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا۔’’ عامر بن طُفَیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کے قتل پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ اس کے بعد اپنے قبیلہ بنو عامر کے لوگوں کو اکسایا کہ وہ مسلمانوں کی بقیہ جماعت پر حملہ آور ہو جائیں مگر انہوں نے اس بات سے انکار کیا اور کہا کہ ہم ابوبَرَاء کی ذمہ داری کے ہوتے ہوئے مسلمانوں پر حملہ نہیں کریں گے۔ اس پر عامر نے قبیلہ سُلَیم میں سے بنو رِعْلاور ذَکْوَاناور عُصَیَّہوغیرہ کو (وہی جو بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد بن کر آئے تھے) اپنے ساتھ لیا اوریہ سب لوگ مسلمانوں کی اس قلیل اوربے بس جماعت پرحملہ آور ہو گئے۔ مسلمانوں نے جب ان وحشی درندوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ان سے کہا کہ ہمیں تم سے کوئی تعرض نہیں ہے۔ ہم تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک کام کے لئے آئے ہیں اورہم تم سے لڑنے کے لئے نہیں آئے۔ مگرانہوں نے ایک نہ سنی اورسب کوتلوار کے گھاٹ اتار دیا۔ ان صحابیوں میں سے جو اس وقت وہاں موجود تھے صرف ایک شخص بچا جو پاؤں سے لنگڑا تھا اورپہاڑی کے اوپر چڑھ گیا ہوا تھا۔ اس صحابی کا نام کعب بن زید تھا اور بعض روایات سے پتہ لگتا ہے کہ کفار نے اس پر بھی حملہ کیا تھا جس سے وہ زخمی ہوا اور کفار اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے مگر دراصل اس میں جان باقی تھی اور وہ بچ گیا۔
صحابہ کی اس جماعت میں سے دو شخص یعنی عمرو بن اُمَیَّہ ضَمْری اور مُنذِر بن محمد اس وقت اونٹوں وغیرہ کے چرانے کے لئے اپنی جماعت سے الگ ہو کر ادھر ادھر گئے ہوئے تھے انہوں نے دُور سے اپنے ڈیرہ کی طرف نظر ڈالی توکیا دیکھتے ہیں کہ پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ وہ ان صحرائی اشاروں کو خوب سمجھتے تھے۔ فوراً تاڑ گئے کہ کوئی لڑائی ہوئی ہے۔ واپس آئے تو ظالم کفار کے کشت وخون کا کارنامہ آنکھوں کے سامنے تھا۔ دُور سے ہی یہ نظارہ دیکھ کر انہوں نے فوراً آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ایک نے کہا کہ ہمیں یہاں سے فوراً بھاگ نکلنا چاہئے اورمدینہ میں پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دینی چاہئے مگر دوسرے نے اس رائے کو قبول نہ کیا اور کہا کہ میں تو اس جگہ سے بھاگ کر نہیں جاؤں گا جہاں ہمارا امیر مُنذِر بن عمرو شہید ہوا ہے۔ چنانچہ وہ آگے بڑھ کر لڑا اور شہید ہوا اور دوسرے کو جس کا نام عمرو بن اُمَیَّہ ضَمْری تھا کفار نے پکڑ کر قید کر لیا اور غالباً اسے بھی قتل کر دیتے مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ قبیلہ مُضَر سے ہے تو عامر بن طفیل نے عرب کے دستور کے مطابق اس کے ماتھے کے چند بال کاٹ کر اسے رہا کر دیا اور کہا کہ میری ماں نے قبیلہ مُضَر کے ایک غلام کے آزاد کرنے کی منت مانی ہوئی ہے میں تجھے اس کے بدلے میں چھوڑتا ہوں۔ گویا ان سترصحابہ میں صرف دو شخص بچے۔ ایک یہی عمروبن اُمَیَّہ ضَمْری اور دوسرے کعب بن زید جسے کفار نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔
بئر معونہ کے موقعہ پر شہید ہونے والے صحابہ میں حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام اوراسلام کے دیرینہ فدائی عامر بن فُہَیْرہبھی تھے۔ انہیں ایک شخص جَبَّاربن سَلْمٰینے قتل کیا تھا۔ جَبَّار بعد میں مسلمان ہو گیا اور وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجہ یہ بیان کرتا تھا کہ جب میں نے عامر بن فُہَیْرہ کو شہید کیا تو ان کے منہ سے بےاختیار نکلا فُزْتُ وَاللّٰہِ۔ یعنی ’’خدا کی قسم میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوں۔‘‘ جَبَّار کہتے ہیں کہ
میں یہ الفاظ سن کر متعجب ہوا کہ میں نے تو اس شخص کو قتل کیا ہے اور وہ یہ کہہ رہا ہے کہ میں مراد کوپہنچ گیا ہوں۔ یہ کیا بات ہے۔ چنانچہ میں نے بعد میں لوگوں سے اس کی وجہ پوچھی تو مجھے معلوم ہوا کہ مسلمان لوگ خدا کے رستے میں جان دینے کو سب سے بڑی کامیابی خیال کرتے ہیں اور اس بات کامیری طبیعت پرایسا اثر ہوا کہ آخر اسی اثر کے ماتحت میں مسلمان ہو گیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کو واقعہ رجیع اور واقعہ بئر معونہ کی اطلاع قریباً ایک ہی وقت میں ملی اور آپؐ کو اس کا سخت صدمہ ہوا۔ حتی کہ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ ایسا صدمہ نہ اس سے پہلے آپؐ کو کبھی ہوا تھا اورنہ بعد میں کبھی ہوا۔ واقعی قریباً اسّی صحابیوں کااس طرح دھوکے کے ساتھ اچانک مارا جانا اورصحابی بھی وہ جو اکثر حفاظِ قرآن میں سے تھے اورایک غریب بے نفس طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ عرب کے وحشیانہ رسم ورواج کومدنظر رکھتے ہوئے بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اورخود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو یہ خبر گویا اسّی بیٹوں کی وفات کی خبر کے مترادف تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کیونکہ ایک روحانی انسان کے لئے روحانی رشتہ یقیناً اس سے بہت زیادہ عزیز ہوتاہے جتنا کہ ایک دنیا دار شخص کودنیاوی رشتہ عزیز ہوتا ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوان حادثات کاسخت صدمہ ہوا مگر اسلام میں بہرصورت صبرکاحکم ہے آپؐ نے یہ خبر سن کر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اورپھریہ الفاظ فرماتے ہوئے خاموش ہوگئے کہ ھٰذَا عَمَلُ اَبِیْ بَرَّاءَ وَقَدْ کُنْتُ لِھٰذَا کَارِھًا مُتَخَوِّفًا۔ یعنی ’’یہ ابو بَرَاء کے کام کا ثمرہ ہے ورنہ میں تو ان لوگوں کے بھجوانے کوپسند نہیں کرتا تھا اوراہل نجد کی طرف سے ڈرتا تھا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ۔صفحہ517تا521)
پھر ذکر ہے
حضرت سعد بن خَولہؓ
کا۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ بنو مالک بن حسل بن عامر بن لوئی سے تھا۔ بعض کے نزدیک آپ بنو عامر کے حلیف تھے۔ آپ اہل فارس میں سے ہیں جو کہ یمن میں آ کر آباد ہوئے۔(اسد الغابۃفی معرفۃ الصحابۃ۔ جزء 2 صفحہ427 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
عامر بن سعد اپنے والد سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر میری اس بیماری میں عیادت فرمائی جس میں مَیں موت کے کنارے پر پہنچ گیا تھا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میری تکلیف جس حد تک پہنچ چکی ہے وہ آپؐ دیکھ رہے ہیں۔ میں مالدار ہوں اور میرا وارث سوائے میری اکلوتی بیٹی کے کوئی نہیں ہے۔ کیا میں دو تہائی مال صدقہ کردوں؟ آپؐ نے فرمایا نہیں۔ وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا :کیا میں اس کا نصف صدقہ کردوں؟ آپؐ نے فرمایا : نہیں۔ تیسرا حصہ کر دو اور تیسرا حصہ بھی بہت ہے۔ پھر فرمایا کہ
تمہارا اپنے وارثوں کو اچھی حالت میں چھوڑنا انہیں محتاج چھوڑنے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم اللہ کی رضا چاہتے ہوئے جو بھی خرچ کرو گے تمہیں اس کا اجر دیا جائے گا یہاں تک کہ ایک لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو اس کا بھی اجر ہے۔
وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ!کیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے چھوڑا جاؤں گا؟ یہاں فوت ہو جاؤں گا مَیں؟ آپ نے فرمایا تم پیچھے چھوڑے نہ جاؤ گے مگر جو نیک عمل کرو گے جس کے ذریعہ تم اللہ کی رضا چاہو تو تم اس کے ذریعہ درجہ اور رفعت میں زیادہ ہو گے اور بعید نہیں کہ تم پیچھے چھوڑے جاؤ۔ یعنی لمبی عمر دیے جاؤ گے یہاں تک کہ قومیں تجھ سے فائدہ اٹھائیں اور کچھ دوسری نقصان بھی اٹھائیں۔ پھر فرمایا کہ اے اللہ! میرے اصحاب کی ہجرت پوری فرما اور انہیں ان کی ایڑھیوں کے بل نہ لوٹانا۔ لیکن بیچارہ سعد بن خَولہ۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دکھ کا اظہار فرمایا کیونکہ وہ ہجرت کے بعد مکےمیں فوت ہو گئے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن خولہ کے لیے افسوس کرتے تھے کہ وہ مکےمیں مر گئے۔ یہ اس لیے کہ جس نے مکےسے ہجرت کی اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند کرتے تھے کہ وہ وہاں واپس آئے یا اس میں حج اور عمرہ ادا کرنے سے زیادہ قیام کرے۔(صحیح مسلم کتاب الوصیۃ باب الوصیۃ بالثلث حدیث 4209)(الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 312 سعد بن خولہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
اسماعیل بن محمد بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائب بن عمیر القاری کو حکم فرمایا کہ اگر سعد بن خولہ مکہ میں وفات پا جائیں تو انہیں مکے میں دفن نہ کیا جائے۔(الاصابہ جلد 3 صفحہ 21 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
اور ایک روایت کے مطابق حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ مکے میں وفات پا جائیں تو انہیں مکےمیں دفن نہ کیا جائے۔(سبل الھدٰی والرشاد جزء 8 صفحہ 485دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
حضرت سعد بن خولہؓ جب حجة الوداع کے موقع پر فوت ہوئے تو ان کی زوجہ حاملہ تھیں۔ ان کی وفات پر زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ان کا وضع حمل ہو گیا۔ بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔ وفات سے کچھ عرصہ کے بعد بچہ کی پیدائش ہو گئی۔ روایات میں آتا ہے کہ پچیس راتوں یا اس سے بھی کم وقت کے بعد وضع حمل ہو گیا۔ جب وہ نفاس سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے نکاح کا پیغام دینے والوں کے لیے سنگھار کیا۔ ان کے پاس ابوسَنَابِلْ بن بَعْکَکْجو بنی عبدالدار کے ایک شخص تھے آئے۔ بَعْکَکْنے ان سے کہا کہ کیا بات ہے میں تمہیں بنا سنورا دیکھتا ہوں۔ شاید تمہارا ارادہ نکاح کرنے کا ہے۔ اللہ کی قسم! تم نکاح نہیں کر سکتی جب تک تم پر چار ماہ دس دن نہ گزر جائیں۔ سُبَیْعَہکہتی ہیں جب اس نے مجھ سے یہ کہا تو میں نے شام کے وقت کپڑے پہنے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپؐ سے اس بارے میں پوچھا۔ آپؐ نے مجھے فتویٰ دیا کہ
جب میں نے وضع حمل کیا تو حلال ہو گئی اور مجھے ارشاد فرمایا کہ اگر میں چاہوں تو شادی کر سکتی ہوں۔(صحیح مسلم کتاب الطلاق باب انقضاء عدۃ المتوفی عنھا …… حدیث 3722 )(استیعاب جلد 4 صفحہ 1859 مطبوعہ دار الجیل بیروت1992ء)
بعض مسائل کا بھی ان سے پتا لگ جاتاہے۔ پھر
حضرت اَبُوالْہَیْثَمْ بن اَلتَّیِّہَانْ ؓ
ہیں۔ ان کا ذکر یہ ہے کہ ان کے بھائی کا نام حضرت عُبَید بن عُبیدیا حضرت عَتِیک بن اَلتَّیِّہَانْ تھا۔ جو غزوۂ احد میںشہید ہوئے تھے۔(الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 341 تا 343 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوالہیثَمؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں سب سے پہلے بیعت کرنے والا ہوں۔ ہم کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میری اس بات پر بیعت کرو جس پر بنی اسرائیل نے موسیٰ کی بیعت کی۔(معرفة الصحابة لابی نعیم جلد4صفحہ 196 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوالہیثَمؓ اور حضرت اُسَید بن حُضَیرؓکو قبیلہ بنی عبدالاشْہَلْ پر نقیب مقرر فرمایا تھا۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جزء 7 صفحہ 365 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
آپؓ جنگ میں دو تلواریں لٹکایا کرتے تھے اس وجہ سے
آپؓ کو ذوالسیفین بھی کہا جاتا ہے۔(الاستیعاب جزء 2 صفحہ 477 دار الجیل بیروت 1992ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’جنگ صِفِّیْنمیں حضرت علیؓ کی طرف سے ہو کر لڑے اور شہادت پائی۔‘‘(سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمدصاحب ایم اے ؓصفحہ 230)
پھر ذکر ہے
حضرت عَاصِم بن ثابتؓ
کا۔ حضرت عاصمؓ کے ایک بیٹے محمد تھے جو کہ ہند بنتِ مالک کے بطن سے تھے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ352 عاصم ؓبن ثابت،دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
جنگِ احد میں جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھے ان کے بارے میں ایک آیت کی تشریح میں حضرت خلیفہ رابعؒ نے بھی بیان کیا ہے کہ حضرت امام رازی چودہ آدمیوں کے متعلق قطعی شہادت پیش کرتے ہیں کہ نام بنام وہ لوگ موجود تھے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ کسی حالت میں نہیں چھوڑا۔ ان کے ناموں میں جو نام درج ہیں ان میں مہاجرین میں سے حضرت ابوبکرؓ، حضرت علیؓ… شیعہ یہی کہتے ہیں صرف حضرت علیؓ تھے لیکن حضرت ابوبکرؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ اور حضرت زبیر بن عوامؓ تھے۔ انصار میں سے خباب بن منذرؓ، حضرت ابودُجانہؓ، حضرت عاصم بن ثابتؓ، حضرت حارث بن صِمَّہؓ، ہیں شاید حضرت سَہْلِ بن حُنَیفؓ اور اسی طرح اُسَید بن حُضَیرؓ بھی۔ حضرت سعد بن معاذؓ وغیرہ بھی تھے۔ یہ بھی ذکر آتا ہے کہ آٹھ وہ تھے جنہوں نے موت پر قسم کھائی تھی۔ تین مہاجرین میں سے تھے اور پانچ انصار میں سے تھے اور یہ عجیب بات ہے کہ اس وقت چونکہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے خدام کی ضرورت تھی اس لئے آٹھ کے آٹھ جنہوں نے موت پر قسم کھائی تھی ان میں سے ایک بھی شہید نہیں ہوا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ان کی غیر معمولی طور پر حفاظت کا نظارہ تھا۔(ماخوذ از درس القرآن حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ 20؍فروری 1994ء زیر آیت انما استزلھم الشیطان)
پھر اگلا ذکر ہے
حضرت سَہْلِ بنِ حُنَیف انصاریؓ
کا۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ جنگِ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سو اونٹ اور اونٹنیاں اور دو گھوڑے تھے ان میں سے ایک پر حضرت مقداد بن اسودؓ سوار تھے اور دوسرے پر حضرت مصعب بن عمیرؓ اور حضرت سَہْلِ بن حُنَیفؓ تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ راستے میں ان اونٹنیوں پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ اور حضرت مَرْثَد بن ابی مَرْثَد غنویؓ جو حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ کے حلیف تھے یہ سب باری باری ایک اونٹ پر سوار ہوتے تھے۔(معجم الاوسط للطبرانی جزء 5 صفحہ 324 حدیث 5438 دار الحرمین بیروت1995ء)
احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہنے والوں میں حضرت سَہْلِ بنِ حُنَیفؓ کا بھی ذکر ملتا ہے۔
یُسَیر بن عَمْرو سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں حضرت سَہْلِ بن حُنَیفؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جو فرقہ حَرُوْرِیَّہیعنی خارجی کے متعلق آپؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ انہوں نے فرمایا کہ میں تم سے صرف اتنا بیان کرتا ہوں کہ جو میں نے سنا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کروں گا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک قوم کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جو یہاں سے نکلے گی اور انہوں نے عراق کی طرف اشارہ کیا۔ وہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ راوی کہتے ہیں میں نے اس سے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کوئی علامت بھی ذکر فرمائی ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا میں نے جو سنا تھا وہ یہی ہے۔ میں نے اس سے زیادہ تمہیں کچھ نہیں بتا سکتا۔(مسند احمد جلد 25 صفحہ 351 حدیث سَہْلِ بن حُنَیف روایت 15977مؤسسة الرسالة بیروت)جو بات سنی تھی وہ بتا دی اب خود اندازہ لگا لو۔
عُمَیر بن سعید سے مروی ہے کہ حضرت علیؓ نے حضرت سَہْلِ بن حُنَیفؓکی نماز جنازہ پڑھی اور اس پر پانچ تکبیریں کہیں۔ لوگوں نے کہاکہ یہ کیسی تکبیر ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ یہ سَہْلِ بن حُنَیف ہیں جو اہلِ بدر میں سے ہیں اور
اہلِ بدر کو غیر اہلِ بدر پر فضیلت ہے۔
میں نے چاہا کہ تمہیں ان کی فضیلت سے آگاہ کر دوں۔(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ 360 و من بنی حنش بن عوف…سَہْلِ بن حُنَیف، دار الکتب العلمیة بیروت 1990ء)زائد تکبیریں پڑھ کے۔
پھر
حضرت جَبَّار بن صخرؓ
کا ذکر ہے۔ سریہ حضرت علیؓ بطرف بنو طَئِّجو ربیع الآخر نو ہجری میں ہوا تھا، اس کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو ڈیڑھ سو افراد کے ہمراہ بنو طَئِّکے بت فُلْس کو گرانے کے لیے روانہ فرمایا۔ بنو طَئِّکا علاقہ مدینہ کے شمال مشرق میں واقع تھا۔ آپ نے اس سَریّےکے لیے حضرت علیؓ کو ایک کالے رنگ کا بڑا جھنڈا دیا اور سفید رنگ کا چھوٹا پرچم عطا فرمایا۔ حضرت علیؓ صبح کے وقت آلِ حاتم پر حملہ آور ہوئے اور ان کے بت فُلْسکو منہدم کر دیا۔ حضرت علیؓ بنو طَئِّسے بہت سارا مال غنیمت اور قیدی لے کر مدینہ واپس آئے۔(الطبقات الکبریٰ جزء 2 صفحہ 124سریہ علی بن ابی طالب الی الفلس صنم طیّء لیھدمہ، دارا لکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)(موسوعۃ کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم جلد 1 صفحہ 19 مکتبۃ لبنان ناشرون بیروت۔ از مکتبۃ الشاملۃ)
اس سَریّےمیں لواء حضرت جَبَّار بن صَخْرؓ کے پاس تھا۔ اس سریےمیںحضرت علیؓ نے اپنے ساتھیوں سے رائے مانگی توحضرت جبار بن صخرؓ نے کہا کہ رات ہم اپنی سواریوں پر سفر کرتے ہوئے گزاریں اور صبح ہوتے ہی ان پر حملہ کر دیں۔ حضرت علی ؓکو آپ کی یہ بات پسند آئی۔(تاریخ دمشق الکبیر جلد 73صفحہ146،سفانہ بنت حاتم الطائیہ۔دار احیاءالتراث العربی،بیروت2001ء)(امتاع الاسماع جزء 2 صفحہ 45-46 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1999ء)
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑا ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمجھے پکڑ کے اپنے دائیں جانب کھڑا کر دیا۔ پھر حضرت جبار بن صخر ؓآئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کو اپنے پیچھے کھڑا کر دیا۔(الاستيعاب في معرفة الأصحاب جلد 2صفحہ 302۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت2010ء)
ایک روایت میں ہے کہ
حضرت عُمَیر بن ابی وقاصؓ
کو عمرو بن عبد ودّ نے شہید کیا تھا۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 110-111 دارالکتب العلمیۃ بیروت1990ء)
ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عمیر بن ابی وقاص ؓکوعاص بن سعید نے شہید کیا تھا۔(البدایہ والنھایہ جزء 5 صفحہ252 مطبوعہ دار ھجر بیروت 1997ء)
ہاں یہ ذکر جو ہو گیا حضرت عمیر بن ابی وقاصؓ کا ذکر ہے۔ صَخْر کا تو ختم ہو گیا تھا۔ ان کے بارے میں یہ روایت ہے جو رہ گئی تھی کہ ان کو عمرو بن عبد ودّ نے شہید کیا اور دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمیر بن ابی وقاص ؓکوعاص بن سعید نے شہید کیا تھا۔
پھر
حضرت قُطْبَہؓ
ہیں۔ایک روایت یہ ہے کہ صفر 9؍ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بیس آدمیوں کے ہمراہ قبیلہ خَثْعَم کی ایک شاخ کی طرف بھیجا جو تَبَالَہ کے نواح میں تھے۔ آپؐ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ایک دم سے ان پہ حملہ کریں۔ یہ اصحاب دس اونٹوں پر سوار ہو کر روانہ ہوئے جنہیں باری باری استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے ایک آدمی کو پکڑ کر اس سے پوچھ گچھ کی تو وہ ان کے سامنے گونگا بن گیا اور پھر موقع پا کر چیخ چیخ کر اپنے قبیلہ والوں کو متنبہ کرنے لگا۔ اس پر انہوں نے اس کو قتل کر دیا۔ پھر حضرت قُطْبَہؓ اور آپؓ کے ساتھیوں نے انتظار کیا اور جب وہ لوگ، قبیلہ والے سو گئے تو ان پر بھرپور حملہ کیا۔ شدید لڑائی ہوئی۔ دونوں فریقوں میں سے کئی افراد زخمی ہو گئے۔ حضرت قطبہؓ نے کئی لوگوں کو قتل کیا۔ پھر ان کے چوپائے، بکریاں اور عورتیں مدینہ لے آئے۔ خُمس نکالنے کے بعد ہرایک کے حصہ میں چار چار اونٹ آئے اور تب ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر ہوتا تھا۔(الطبقات الکبرٰی جلد2 صفحہ 122-123 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
امام بغوی کہتے ہیں کہ حضرت قُطْبَہ بن عامرؓ سے کوئی حدیث مروی نہیں ہے۔(معجم الصحابہ للبغوی جلد5 صفحہ 66، مکتبة دار البیان کویت)
بہرحال صحابہ کا یہ ذکرجو مَیں کرنا چاہتا تھا وہ یہاں ختم ہوا۔
اس کے ساتھ ہی میں ایک تو یہ ہے کہ
پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعا کے لیے کہنا چاہتا ہوں۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ان پہ جو سخت حالات ہیں وہاں آسانیاں پیدا کرے اور انصاف کرنے والوں، قانون نافذ کرنے والوں اور خدا اور اس کے رسولؐ کے نام پر ظلم کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ عقل دے یا ان پر پکڑ کے سامان کرے۔
دوسرے
برکینا فاسو کے لیے بھی دعا کریں وہاں بھی ابھی سختیاں ہیں اور جو دہشت گرد ہیں، شدّت پسند ہیں ان کے وہی عمل ہیں کہ اللہ اور رسولؐ کے نام پر ظلم کر رہے ہیں۔
پھر
الجزائر کے لوگوں کے لیے بھی، وہاں بھی بعض حکومتی کارندے یا عدالتیں جو ہیں احمدیوں سے غلط قسم کے ظلم روا رکھ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ خاص طور پر دعاؤں اور صدقات پر بہت زیادہ زور دیں۔ اللہ تعالیٰ مخالفین کے شر سے ہر ایک کو بچائے۔
مَیں جمعہ کی نماز کے بعد
بعض جنازے
غائب بھی پڑھاؤں گا۔ اس کے بعد ان کا ذکر کر دیتا ہوں۔
پہلا ذکر ہے
مکرم محمد رشید صاحب شہید
کا جو چودھری بشارت احمد صاحب گوٹریالہ ضلع گجرات کے بیٹے تھے۔ ان کو دو معاندین احمدیت نے ان کے گھر آ کر 19؍فروری کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔بوقت شہادت مرحوم کی عمر 70سال سے زائد تھی۔
تفصیلات
کے مطابق مکرم محمد رشید صاحب اپنے گھرگوٹریالہ ضلع گجرات میں اکیلے رہائش پذیر تھے جہاں انہوں نے علاقے کے لوگوں کی سہولت کے لیے فری ہومیو پیتھک ڈسپنسری بنا رکھی تھی جس سے گاؤں اور ارد گرد کے لوگ استفادہ کرتے تھے۔ گاؤں کے دو مقامی نوجوان دوائی لینے کے بہانے ان کے گھر میں قائم ڈسپنسری میں داخل ہوئے اور فائرنگ کر دی۔ بتایا جاتا ہے گولی چلانے والا حملہ آور حافظ قرآن بھی تھا جس کی ایک گولی شہید مرحوم کے ماتھے پر لگی جس سے مکرم محمد رشید صاحب کی موقع پر ہی وفات ہو گئی۔ وقوعہ کے بعد حملہ آور فرار ہو گئے۔ شہید مرحوم کے ایک ملازم کے چند منٹ بعد موقع پر پہنچنے پر وقوعہ کا علم ہوا۔ وقوعہ کا مقدمہ متعلقہ پولیس سٹیشن میں درج کیا گیا۔ بعد میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ان دوحملہ آوروں میں سے ایک کی نعش قریبی کھیتوں سے ملی جو حافظ قرآن تھا جس کی موت کے بارے میں پولیس الگ سے تحقیق کر رہی ہے جبکہ دوسرے حملہ آور کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔ یہاں کم از کم یہ ہوا ہے کہ پولیس نے حراست میں لےلیا ہے۔
شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ حضرت منشی سلطان عالم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے سے ہوا جو گوٹریالہ ضلع گجرات کے ہی رہنے والے تھے اور مقامی سکول میں بطور مدرس تعینات تھے۔ آپ نے گوٹریالہ سے 1906ء میں قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت پائی تھی۔ شہید مرحوم میٹرک کے بعد آرمی میں چلے گئے۔ چند سال بعد آرمی چھوڑ دی اور کچھ عرصہ بعد 84ء، 85ء میں فیملی سمیت ناروے منتقل ہو گئے۔ ناروے کی سٹیزن شپ (citizenship)کے باوجود 2008ء میں ناروے سے واپس آبائی گاؤں میں چلے گئے اور ناروے آنا جانا رہتا تھا۔ آبائی گاؤں میں زمیندارہ کے ساتھ علاقے کے لوگوں کی خدمت کے لیے فری ہومیو پیتھک ڈسپنسری شروع کی تھی۔ یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا۔ شہید مرحوم اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ بوقتِ شہادت بحیثیت سیکرٹری اصلاح و ارشادگوٹریالہ خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ نہایت ملنسار، محبت کرنے والے تھے۔ ہر ایک سے اپنائیت اور دوستی کا تعلق تھا۔ خدمتِ خلق کا جذبہ نمایاں تھا۔ بلا تمیز مذہب ضرورت مندوں کی مالی اور اخلاقی معاونت کرتے تھے۔ خلافت سے عشق تھا۔ مہمان نوازی نمایاں وصف تھا۔ بالخصوص مرکزی مہمانان کی خدمت میں پیش پیش رہتے۔ نمازوں کے پابند اور گاہے بگاہے علاقے میں فری میڈیکل کیمپ کا انتظام کرتے تھے۔
ان کے بھتیجے رافع احمد صاحب مربی آئیوری کوسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شہید مرحوم ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہونے کے علاوہ اچھے داعی الی اللہ اور نہایت غریب پرور تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی۔ خطباتِ جمعہ باقاعدگی سے سنتے اور سیکیورٹی کے حوالے سے بڑے محتاط بھی تھے۔ کچھ عرصہ قبل شہید مرحوم کی اہلیہ پروین اختر صاحبہ نے ناروے میں ایک خواب دیکھی کہ شہید مرحوم پر حملہ ہوا ہے اور کوئی جان لینے کی کوشش کرتا ہے۔ تو انہوں نے بہرحال ان کو احتیاط کرنے کے لیے کہا تھا۔ شہید مرحوم کے پسماندگان میں اہلیہ پروین اختر صاحبہ حال مقیم ناروے اور دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں جن میں سے ایک بیٹی پاکستان میں ہے اور باقی مختلف ملکوں میں مقیم ہیں۔
مبلغ انچارج ناروے شاہد محمود کاہلوں صاحب لکھتے ہیں کہ انتہائی شریف النفس اور سادہ انسان تھے۔ ناروے میں ہومیو پیتھک دوائیوں کے ساتھ لوگوں کی خدمت کرتے رہے اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد تقریباً بارہ تیرہ سال سے پاکستان میں اپنے گاؤں میں مقیم تھے۔ لوگوں کی خدمت کر رہے تھے۔ اس دوران وقتاً فوقتاً ناروے بھی آتے رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی۔ مریضوں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے اور گھر جا کر بھی دوائی دے آتے تھے۔ ان کی اہلیہ آپ کے عزیزوں میں سے تھیں۔ انہوں نے پہلے بیعت نہیں کی تھی لیکن اپنے میاں کی مخالفت بھی نہیں کی بلکہ سب بچوں کی شادیاں احمدی گھروں میں کیں۔ آخری مرتبہ جب اکتوبر 2018ء میں ناروے آئے تو اہلیہ کی بیعت بھی کروائی اور کہتے تھے کہ میں اسی غرض سے آیا ہوں تا کہ اہلیہ کی بیعت کروا سکوں۔ کہتے کہ وہاں پاکستان میں مخالفت بہت زیادہ ہے۔ دھمکیاں بھی ملتی ہیں لیکن وہاں غربت بہت ہے اور لوگ دوائیاں نہیں خرید سکتے۔ میری وجہ سے غریبوں کو فری علاج میسر ہے اور ان کی مدد ہو رہی ہے اور مجھے موت کا ڈر نہیں وہ تو ایک دن آنی ہے۔ احمدی تو پھر بھی خدمت کر رہے ہیں (اور چاہتے ہیں)کہ انسانیت کی خدمت کرتے رہیں اور بے دھڑک ہو کے کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مکرم محمد رشید صاحب شہید سے مغفرت کا اور رحمت کا سلوک فرمائے اور شہید مرحوم کے پسماندگان کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
دوسرا جو ذکر ہے بلکہ دو لوگ ہیں اس میں
مکرمہ اَمانی بَسَّام مَجْلاوِی صاحبہ اور عزیزم صلاح عبدالمعین قُطَیْش
اسکندرون ترکی سے ہیں۔
مربی سلسلہ و صدر جماعت صادق صاحب لکھتے ہیں کہ 6؍فروری 2023ء کو ترکی میں جو دو بڑے زلزلے آئے تھے ان میں دو احمدیوں کی بھی وفات ہوئی ہے جو کہ ماں بیٹا تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اس کے علاوہ زلزلے سے عمومی طور پر سب احمدی اللہ کے فضل سے محفوظ رہے ہیں تاہم بعضوں کو چھوٹی موٹی چوٹیں لگی ہیں۔
وفات پانے والوں میں سے ایک تیئس سالہ Syrian احمدی خاتون مکرمہ اَمانی بسام مجْلَاوِی صاحبہ کا تعلق جماعت اسکندرون سے تھا۔ یہ عبدالمعین قُطَیْش صاحب کی اہلیہ اور اسکندرون جماعت کے صدر جماعت مکرم صلاح قُطَیْشابوخالد صاحب کی بہو تھیں۔ امانی صاحبہ نے عرصہ تقریباً دو ماہ قبل اپنے خاوند کے ساتھ بیعت کی تھی۔ ان کے سسر مکرم صلاح قُطَیْشصاحب نے بتایا کہ زلزلے سے ایک دن پہلے ہی انہوں نے اَمانی سے پوچھا کہ کیا تم نے اپنے گھر والوں کو بتا دیا ہے کہ تم نے بیعت کر لی ہے؟ تو امانی صاحبہ نے کہا کہ جی ہاں! اب میں نے اپنی امی ابا کو اپنے احمدی ہونے کی اطلاع دے دی ہے۔ صلاح صاحب کا کہنا ہے کہ امانی صاحبہ اس بات پر بہت خوش تھیں کہ ان کے والدین نے ان کے احمدیت قبول کرنے پر کوئی شدید ردّعمل نہیں دکھایا اور مخالفت نہیں کی۔ ان کے ساتھ تین سالہ بیٹا عزیزم صلاح بھی وفات پا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔یہ دونوں ملبے کے نیچے دب گئے تھے اور انہیں دو دن بعد نکالا جا سکا۔ تب تک ان کی وفات ہو چکی تھی۔ اَمانی صاحبہ نےاپنے پیچھے خاوند مکرم عبدالمعین قُطَیْشصاحب کے علاوہ چھ سالہ بیٹی عبیرہ بھی یاد گار چھوڑے ہیں۔
شمس الدین مالا باری صاحب مربی سلسلہ کبابیر ہیں، کہتے ہیں کہ امانی صاحبہ اور ان کے میاں عبد المعین قُطَیْشصاحب کی فیملی سیریا سے ہجرت کر کے ترکی آئی تھی۔ امانی صاحبہ نہایت مخلص خدمت گزار اور قناعت پسند خاتون تھیں۔ بیعت کی اہمیت پر آگاہی حاصل کرنے کے بعد بیعت کرنے میں تاخیر نہیں کی بلکہ اپنے خاوند اور بھائیوں کو بھی حوصلہ دیتی رہیں۔ کہتے ہیں کہ میری اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے یہ خاص طور پر نوٹ کیا کہ مرحومہ اپنے سسرال کے تمام افراد کو ساتھ لے کر چلتی تھیں اور سب کے ساتھ ان کا نہایت پیار اور محبت کا سلوک تھا۔ بیعت والے دن بہت خوش تھیں اور ہمیں انہوں نے بہت اخلاص کے ساتھ الوداع کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
تیسرا جو ذکر ہے جن کا جنازہ پڑھوں گا وہ ہیں
مقصود احمد منیب صاحب مربی سلسلہ
جو 15؍فروری کو ہارٹ اٹیک سے 53سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے والد مکرم چودھری جان محمد صاحب نے 1974ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ 1991ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ سے مبشر کی ڈگری لے کر فارغ التحصیل ہوئے۔ اس کے بعد نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ کے تحت پاکستان کے مختلف شہروں میں یہ خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 1998ء سے 2006ء تک مشرقی افریقہ کینیا میں خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ اس کے بعد پھر پاکستان میں ہی آ گئے اور آجکل مربی ضلع کوئٹہ کے طور پر خدمت بجا لا رہے تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ ناظر اصلاح و ارشاد صاحب نے بھی لکھا ہے کہ بڑے مخلص اور وفا سے کام کرنے والے بڑی محنت سے کام کرنے والے مربی تھے۔
مربی سلسلہ کوئٹہ عبدالوکیل صاحب لکھتے ہیں کہ واقفین کا بہت احترام کرنے والے تھے۔ مرحوم کو جس بات کا علم نہیں ہوتا تھا بلا ہچکچاہٹ میرے سے پوچھ لیتے تھے جبکہ خاکسار ان سے عمر میں کافی چھوٹا تھا۔ مرحوم نے ایک عرصہ کینیا میں گزارا اور ہمیشہ ان کی باتوں میں کینیا کا ذکر ضرور ہوتا اور کینیا اور کینیا کے لوگ گویا کہ ان کے دل میں گھر کر گئے تھے۔ مرحوم اکثر کہا کرتے تھے کہ کینیا کے لوگ اخلاص میں بہت آگے ہیں اور بہت محبت کرنے والے ہیں۔
فرید مبارک صاحب قائد مجلس ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ انتہائی نفیس، پاکباز، دین کے فدائی، جماعت کی خاطر اپنے آپ کو قربان کرنے والے، خلافت سے بے انتہا محبت کرنے والے انسان تھے۔ کہتے ہیں جب مجھے معلوم ہوا کہ بہت سینئر مربی کا یہاں کوئٹے میں تبادلہ ہو گیا ہے تو میں بڑا خوش ہوا کہ کوئٹہ کی جماعت کو اس کی ضرورت تھی۔ کہتے ہیں پہلی ملاقات میں ہی انہوں نے خاکسار کا دل موہ لیا۔ جس دن انہوں نے ضلع کوئٹہ کی مسجد میں پہلا خطبہ دیا تو ہر سننے والے نے ان کی تعریف کی۔ بہت مہمان نواز تھے۔ ہر ایک کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتے۔ بھرپور خدمت کرتے۔ ان کے دل میں جماعت کے لیے جو درد تھا وہ ان کی آنکھوں سے عیاں تھا۔ جب تقریر کرتے تو ایسا جوش ،ولولہ ان کے انداز میں ہوتا تھا کہ سننے والے کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے۔ اجلاسات اور دورہ جات میں شامل ہوتے اور ہر ملنے والے کے دل میں جماعت کے لیے فکر پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے۔ ان کے پاس جماعتی علم کا بھی بے پناہ خزانہ تھا۔ عاجزی اس قدر تھی کہ ایسا عاجز انسان کہتے ہیں میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ پھر کہتے ہیں کہ گذشتہ جمعہ جس سے اگلے دن ان کی وفات ہوئی ہے ان کے چہرے پر ایک الگ طرح کا نور تھا۔ جب میری ان پر نظر پڑی تو میں نے ناظم عمومی صاحب کے سامنے مربی صاحب سے اظہار کیا کہ آج تو وہ بہت خوبصورت لگ رہے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ ان کا آخری جمعہ ہے۔ اس کے بعد ان کی وفات ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان سب کے جنازے ان شاء اللہ ابھی پڑھاؤں گا۔
اہلِ بدر کو غیر اہلِ بدر پر فضیلت ہے (حضرت علیؓ)
اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابہ حضرت عامر بن ربیعہؓ ، حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ، حضرت سعد بن خولہؓ، حضرت ابوالہیثم بن التیہانؓ، حضرت عاصم بن ثابتؓ ، حضرت سَہْلِ بن حُنَیف انصاریؓ، حضرت عمیر بن ابی وقاصؓ اور حضرت قُطبہ بن عامرؓ کے بارے میں بعض روایات کا بیان
حضرت حَرَام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زخموں سے نکلنے والا خون ہاتھ میں لیا اور اپنے منہ پر ملتے ہوئے کہا اللّٰہُ اَکْبَرُ! فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ اللہ اکبر!کعبہ کے رب کی قسم! میں نے اپنی مراد پا لی
اس (خطبہ) کے بعد بدری صحابہ کے بارہ میں یہ سلسلہ یا جو مَیں بیان کرنا چاہتا تھا وہ ختم ہوجائے گا
مخالفانہ حالات کے پیش نظرپاکستان، برکینا فاسو اور الجزائر میں بسنے والے احمدیوں کے لیے دعائیں کرنے اور صدقات پر زور دینے کی تحریک
مکرم محمد رشید صاحب شہید ضلع گجرات،مکرمہ امانی بسام مَجْلَاوِی صاحبہ اور عزیزم صلاح عبد المعین قُظَیْش آف اسکندرون( ترکی) اور مکرم مقصود احمد منیب صاحب(مربی سلسلہ،کوئٹہ ،پاکستان) کی وفات پر مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
فرمودہ 24؍فروری 2023ءبمطابق 24؍تبلیغ 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔