حضرت مسیح موعودؑ: قرآن کریم کی شان اور اعلیٰ مقام
خطبہ جمعہ 3؍ مارچ 2023ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے قرآن کریم کی جو معرفت ہمیں عطا فرمائی ہے یا اپنی کتب اور ارشادات میں اس معرفت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے جس انداز میں اسے پیش فرمایا ہے اس حوالےسے میں نے گذشتہ جمعوں میں دو خطبات دیے ہیں۔
قرآن کریم جو معرفت کا خزانہ ہمیں دیتا ہے
حقیقت میں یہی ہے جو بندے کو خدا تعالیٰ سے ملاتا ہے۔
اس کے بغیر خداتعالیٰ کو پانے کا، اس کا قرب حاصل کرنے کا کوئی اَور ذریعہ نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں۔
’’قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے
بے اُس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے‘‘ (نصرۃ الحق براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21صفحہ12)
پس یہ وہ نقطہ ہے جسے ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔
اگر ہم خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا چاہتے ہیں، اگر ہم اپنی دنیا و عاقبت کو سنوارنا چاہتے ہیں تو یہ چیزیں یاد رکھنی چاہئیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن کریم ہی وہ ذریعہ ہے لیکن
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس معرفت کو سمجھنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے اور مقرر کردہ کسی راہنما کی ضرورت ہے جو اس زمانےمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہیں۔
آپؑ نے قرآنِ کریم کے مختلف پہلوؤں پر جس طرح گہرائی میں جا کر روشنی ڈالی ہے اور اس کے حسن سے آگاہ فرمایا ہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ وہ گذشتہ دو خطبات میں مَیں نے بیان کیا تھا۔ آپ علیہ السلام کے بیان کردہ علم و معرفت کے اس خزانے اور قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھنے کا یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی کافی مواد اس بارے میں بیان کرنے والا ہے۔ آج بھی اس سلسلےکو جاری رکھتے ہوئے مَیں
قرآن کریم کی خصوصیات اور مقام اور اہمیت کا ذکرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشادات و تحریرات کی روشنی میں
کروں گا۔
جس گہرائی سے آپؑ نے ہمیں قرآن کریم کے مقام اوراہمیت سے آگاہی دی ہےوہی ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور قرآنی تعلیم پر عمل کرنے کا فہم و ادراک دیتی ہے۔
پس بڑے غور سے ہمیں ان باتوں کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں۔
اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ
قرآن خدا کا کلام ہے
لالہ بھیم سین کے نام ایک خط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ابھی تھوڑے دن کی بات ہے کہ لیکھرام نامی ایک برہمن جو آریہ تھا، قادیان میں میرے پاس آیا اور کہا کہ وید خدا کا کلام ہے۔ قرآنِ شریف خدا کا کلام نہیں ہے۔ میں نے اُس کو کہا کہ چونکہ تمہارا دعویٰ ہے کہ وید خدا کا کلام ہے مگر میں اُس کو اُس کی موجودہ حیثیت کے لحاظ سے خدا کا کلام نہیں جانتا کیونکہ اُس میں شرک کی تعلیم ہے۔‘‘ جس میں شرک کی تعلیم ہو وہ خدا کا کلام کس طرح ہو سکتا ہے! اور اس کے علاوہ ’’اور کئی اَور ناپاک تعلیمیں ہیں۔ مگر میں قرآنِ شریف کو خدا کا کلام جانتا ہوں کیونکہ نہ اس میں شرک کی تعلیم ہے اور نہ کوئی اَور ناپاک تعلیم ہے۔ اور اُس کی پیروی سے زندہ خدا کا چہرہ نظر آ جاتا ہے اور معجزات ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘ (مکتوباتِ احمدؑ جلد1صفحہ90)
پس
خدا تعالیٰ کے کلام ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ شرک سے پاک ہو
اور اس پر عمل کرنے سے خدا تعالیٰ کا چہرہ نظر آئے۔
قرآنِ کریم نے کس طرح خدا تعالیٰ کا چہرہ دکھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس بات کو صحابہؓ کی زندگیوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ’’قرآنی تعلیم کا صحابہ کرامؓ پر اثر‘‘ کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ جو صدرِ اسلام کا وقت تھا اس زمانہ پر ایک وسیع نظر ڈال کر ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم نے کیونکر ایمان لانے والوں کو مذکورہ بالا ادنیٰ درجہ سے اعلیٰ درجہ تک پہنچا دیا کیونکہ ایمان لانے والے اپنی ابتدائی حالت میں اکثر ایسے تھے کہ جس حالت کو وہ ساتھ لے کر آئے تھے وہ حالت جنگلی وحشیوں سے بدتر تھی اور درندوں کی طرح اُن کی زندگی تھی اور اس قدر بد اعمال اور بد اخلاق میں وہ مبتلا تھے کہ انسانیت سے باہر ہوچکے تھے اور ایسے بےشعور ہو چکے تھے کہ نہیں سمجھتے تھے کہ ہم بداعمال ہیں یعنی نیکی اور بدی کی شناخت کی حس بھی جاتی رہی تھی۔ پس قرآنی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے جو پہلا اثر اُن پر کیا تووہ یہ تھا کہ اُن کو محسوس ہو گیا کہ ہم پاکیزگی کے جامہ سے بالکل برہنہ اور بداعمالی کے گند میں گرفتار ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ اُن کی پہلی حالت کی نسبت فرماتا ہے اُولٰئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ (الاعراف:180) یعنی یہ لوگ چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک صحبت اور فرقانِ حمید کی دلکش تاثیر سے اُن کو محسوس ہو گیا کہ جس حالت میں ہم نے زندگی بسر کی ہے وہ ایک وحشیانہ زندگی ہے اور سراسر بد اعمالیوں سے ملوث ہے تو انہوں نے رُوح القدس سے قوت پا کر نیک اعمال کی طرف حرکت کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ ان کے حق میں فرماتا ہے وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ(المجادلۃ:23) یعنی خدا نے ایک پاک رُوح کے ساتھ ان کی تائید کی۔ وہ وہی غیبی طاقت تھی جو ایمان لانے کے بعد اور کسی قدر صبرکرنے کے بعد انسان کو ملتی ہے۔ پھر وہ لوگ اس طاقت کے حاصل ہونے کے بعد نہ صرف اس درجہ پر رہے کہ اپنے عیبوں اور گناہوں کو محسوس کرتے ہوں اور ان کی بدبو سے بیزار ہوں بلکہ اَب وہ نیکی کی طرف اس قدر قدم اٹھانے لگے کہ صلاحیت کے کمال کو نصف تک طے کر لیا اور کمزوریوں کے مقابل پر نیک اعمال کی بجاآوری میں طاقت بھی پیدا ہو گئی۔‘‘نہ صرف کمزوریاں دُور کیں بلکہ نیکیوں میںقدم بڑھتے گئے۔ ’’اور اس طرح پر درمیانی حالت اُن کو حاصل ہوگئی اور پھر وہ لوگ رُوح القدس کی طاقت سے بہرہ وَر ہوکر اُن مجاہدات میں لگے کہ اپنے پاک اعمال کے ساتھ شیطان پر غالب آ جائیں۔ تب اُنہوں نے خدا کے راضی کرنے کے لئے اُن مجاہدات کو اختیار کیا کہ جن سے بڑھ کر انسان کے لئے متصور نہیں۔ انہوں نے خدا کی راہ میں اپنی جانوں کا خس و خاشاک کی طرح بھی قدر نہ کیا۔ آخر وہ قبول کئے گئے اور خدا نے اُن کے دلوں کو گناہ سے بکلی بیزار کر دیا اور نیکی کی محبت ڈال دی۔‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 424-425)
پس یہ ہے قرآن کریم کا اُن پر اثر کہ وہ زمین سے اٹھے اور آسمان کے چمکدار ستارے بن گئے جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان میں سے ہر ایک تمہارے لیے راہنما ہے۔(المشکاۃ المصابیح جلد3 صفحہ1696 کتاب المناقب باب مناقب الصحابۃؓ حدیث 6009 مطبوعہ مکتب الاسلامی بیروت 1979ء)
قرآنِ کریم کی پیروی سے انسان خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہے۔
یہ بات بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:جو شخص قرآنِ شریف کا پیرو ہو کر محبت اور صدق کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے وہ ظِلّی طور پر خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہے۔ صرف پیرو ہونا شرط نہیں بلکہ محبت اور صدق کو انتہا تک پہنچانا شرط ہے یعنی اس کے احکامات پر مکمل عمل ہو تب وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہوتا ہے۔
پھر فرمایا:یہ سب نتیجہ اُس زبردست طاقت اور خاصیت کا ہوتا ہے جو خدا کے کلام قرآن شریف میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ زبردست طاقت اور خاصیت کسی اَور کتاب میں نہیں جو کسی قوم کے نزدیک الہامی سمجھی جاتی ہے۔ شاید اس کا یہ سبب ہو کہ وہ کتابیں بوجہ دُور دراز زمانوں کے محرف و مبدل ہوچکی ہیں یا شاید یہ سبب ہو کہ اگر چہ لفظ اُن کے محرف و مبدل نہیں ہوئے مگر معنے بگاڑ دیے گئے ہیں یا شاید یہ سبب ہو کہ خدانے اس آخری زمانےمیں تفرقہ دُور کرنے کے لیے اوردنیا کے تمام لوگوں کو صرف ایک کتاب پر جمع کرنے کے لیے ان تمام پہلی کتابوں کی برکتیں مسلوب کرلی ہیں ورنہ اس کا سبب کیا ہے کہ جس طرح قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی سے انسان جماعتِ اولیاء اللہ میں داخل ہوسکتا ہے، اُن کتابوں میں یہ خاصیت پائی نہیں جاتی اور یہی وجہ ہے کہ اُن کتابوں کے پیرو اُن کمالات سے منکر ہیں جو انسان کو قرب کے مکان میں حاصل ہوسکتے ہیں بلکہ وہ کرامات اور خرق عادات پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں۔ معجزات کو نہ صرف مانتے نہیں بلکہ ان پر ہنسی ٹھٹھا بھی کرتے ہیں اوریہی آج وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے دُور ہو گئے ہیں، مذہب سے دُور ہو گئے ہیں۔ پھر فرمایا :مگر ہم ان پرکوئی ہنسی ٹھٹھا نہیں کرتے۔ کسی پر ہم ہنسی ٹھٹھا نہیں کرتے ہاں ان کی محرومی کو دیکھ کر رونا ضرور آتا ہے۔
اُن کی ہمدردی ہے ہمارے دل میں کہ اللہ تعالیٰ سے دُور جا کر، اُس کی صفات کو بھول کر نئے زمانے کی روشنی کا اپنے غلط رویوں کو نام دے کر دوبارہ جانوروں والی حرکتیں کرنے لگ گئے ہیں اور یہی کچھ ہمیں آج کل مادیت پرستوں میں نظر آتا ہے۔
بہرحال اپنی بات کے تسلسل میں آپؑ آگے فرماتے ہیں کہ میں اس جگہ کچھ گذشتہ قصوں کو بیان نہیں کرتا بلکہ میں وہی باتیں کرتا ہوں جن کا مجھے ذاتی علم ہے۔ مَیں نے قرآن شریف میں ایک زبردست طاقت پائی ہے۔ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ایک عجیب خاصیت دیکھی ہے جو کسی مذہب میں وہ خاصیت اور طاقت نہیں اور وہ یہ کہ سچا پیرو اس کا مقامات ولایت تک پہنچ جاتا ہے۔ خدا اس کو نہ صرف اپنے قول سے مشرف کرتا ہے بلکہ اپنے فعل سے اس کو دکھلاتا ہے کہ مَیں وہی خدا ہوں جس نے زمین و آسمان پیدا کیا تب اس کا ایمان بلندی میں دُور دُور کے ستاروں سے بھی آگے گذر جاتا ہے۔ چنانچہ میں اس امر میں صاحبِ مشاہدہ ہوں۔ خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور ایک لاکھ سے بھی زیادہ میرے ہاتھ پراس نے نشان دکھلائے ہیں۔ سو
اگرچہ میں دنیا کے تمام نبیوں کا ادب کرتاہوں اور ان کی کتابوں کا بھی ادب کرتا ہوں مگر زندہ دین صرف اسلام کو ہی مانتا ہوں کیونکہ اس کے ذریعہ سے میرے پر خدا ظاہر ہوا۔
پھر آپؑ نے فرمایا کہ جس شخص کو میرے اس بیان میں شک ہو اس کو چاہیے کہ ان باتوں کی تحقیق کے لیے میرے پاس آ کے دو ماہ کے لیے ٹھہرے۔ میں اس کے تمام اخراجات کا جو اس کے لیے کافی ہوسکتے ہیں اس مدت تک متکفل رہوں گا۔ اور فرمایا کہ
میرے نزدیک مذہب وہی ہے جو زندہ مذہب ہے اور زندہ اور تازہ قدرتوں کے نظارے سے خدا کو دکھلاوے ورنہ صرف دعویٰ صحت مذہب ہیچ اور بلا دلیل ہے۔(ماخوذ ازچشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 427-428)
جنہوں نے آپؑ کی اس دعوت سے فیض پانا تھا انہوں نے فیض پایا اور کامیاب ہو گئے۔ آپؑ کے پاس رہے اور قبول کیا۔
آج بھی آپؑ کا علمِ کلام جو ہے اور خزائن جو ہیں بہت سوں کو خدا نما بنا رہا ہے۔ پس اس سے جہاں ہم غیروں کو آگاہ کریں ہمیں خود بھی پوری کوشش کرنی چاہیے اور آپؑ کے کلام سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ تبھی ہم اپنی بیعت کے مقصد کو بھی پورا کر سکتے ہیں۔
پھر قرآن کریم کی خوبیاں بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں،
قرآن کریم کی چار اعجازی خوبیاں
ہیں جن کی تفصیل یہ فرمائی کہ ’’قرآن شریف کی اعجازی خوبیوں میں سے ایک بلاغت فصاحت بھی ہے جو انسانی بلاغت فصاحت سے بالکل ممتاز اور الگ ہے کیونکہ انسانی بلاغت فصاحت کا میدان نہایت تنگ ہے اور جب تک کسی کلام میں مبالغہ یا جھوٹ یا غیر ضروری باتیں نہ ملائی جائیں تب تک کوئی انسان بلاغت فصاحت کے اعلیٰ درجہ پر قادر نہیں ہو سکتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا کلام اس سے بالکل پاک ہے، کوئی ملونی نہیں۔ ’’دوسرے قرآن شریف کی ایک معجزانہ خوبی یہ ہے کہ جس قدر اس نے قصے بیان کئے ہیں درحقیقت وہ تمام پیشگوئیاں ہیں جن کی طرف جابجا اشارہ بھی کیا ہے۔‘‘ یہ بھی قرآن کریم میں نظر آتا ہے۔ ’’تیسرے قرآنِ شریف میں یہ معجزانہ خوبی ہے کہ اس کی تعلیم انسانی فطرت کو اس کے کمال تک پہنچانے کے لئے پورا پورا سامان اپنے اندر رکھتی ہے اور مرتبہ یقین حاصل کرنے کے لئے جن دلائل اور نشانوں کی انسان کو ضرورت ہے سب اس میں موجود ہیں۔ چوتھے ایک بڑی خوبی اس میں یہ ہے کہ وہ کامل پیروی کرنے والے کو خدا سے ایسا نزدیک کر دیتا ہے کہ وہ مکالمہ الٰہیہ کا شرف پالیتا ہے اور کھلے کھلے نشان اس سے ظاہر ہوتے ہیں اور تزکیہ نفس اور ایمانی استقامت اس کو حاصل ہوتی ہے اور قرآن شریف کا یہ نکتہ نہایت ہی یادداشت کے لائق ہے کہ مومن کامل پر جو فیضان آسمانی نشانوں کا ہوتا ہے۔ وہ تو ایک خدا کا فعل ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی اپنی خوبی قرار نہیں دے سکتا۔ مومن کامل کی اپنی ذاتی خوبی تقویٰ طہارت اور قوت ایمان اور استقامت ہے مثلاً جیسے اگر کسی دیوار پر آفتاب کی روشنی پڑے تو وہ روشنی اس دیوار کی خوبیوں میں داخل نہیں کیونکہ وہ اس سے الگ بھی ہو سکتی ہے بلکہ دیوار کی خوبی یہ ہے کہ اس کی بنیاد ایک مضبوط پتھر پر ہو اور ایسی پختہ اور ریختہ کی عمارت ہو کہ گو کیسے ہی سیلاب آویں اور تُند ہوائیں چلیں اور طوفان کی طرح مینہ برسیں اس دیوارمیں جنبش نہ آوے۔‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 268 حاشیہ)
پس ایمان کی بھی ایسی حالت ہونی چاہیے۔
قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا مقدس کلام سمجھ کر اس پر عمل کی بھی ایسی حالت ہونی چاہیے کہ یہی ہے جو ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرتا ہے، ہمیں خدا سے ملاتا ہے کہ کوئی آندھی کوئی طوفان کوئی مخالفت انسان کو اپنے ایمان سے ہلا نہ سکے۔
یہ ہے انسان کی خوبی کہ ہمیشہ اس پر خدا تعالیٰ کے کلام کی روشنی پڑتی رہے اور اس کو سمجھنے کی وہ کوشش کرتا رہے۔
پھر فرمایا کہ
قرآنِ کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کی پیروی کے نتیجہ میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
تفصیل بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف کی معجزانہ تاثیرات سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی کامل پیروی کرنے والے درجہ قبولیت کا پاتے ہیں اور ان کی دعائیں قبول ہو کر خدا تعالیٰ اپنی کلامِ لذیذ اور پُررُعب کے ذریعہ سے ان کو اطلاع دیتا ہے اور خاص طور پر دشمنوں کے مقابل پر ان کی مدد کرتا ہے اور تائید کے طور پر اپنے غیبِ خاص پر ان کو مطلع فرماتا ہے۔‘‘(چشمہ معرفت ، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 271حاشیہ)
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ
قرآن کریم میں سب ہدایتیں ہیں
آپؑ فرماتے ہیں کہ’’عرب کے مشرکوں کی طرح اس ملک کے اہل کتاب بھی جرائم پیشہ ہوگئے تھے عیسائیوں نے تو کفارہ کے مسئلہ پر زور دے کر اور اس پر بھروسہ کر کے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم پر سب جرائم حلال ہیں اور یہودی کہتے تھے کہ ہم ارتکاب جرائم کی وجہ سے صرف چند روز دوزخ میں پڑیں گے اس سے زیادہ نہیں جیساکہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ وَّ غَرَّهُمْ فِيْ دِيْنِهِمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ (آل عمران:25)…یہ دلیری اورجرأت اِ س سے اُن کو پیدا ہوئی کہ ان کا یہ قول ہے کہ دوزخ کی آگ‘‘ جو حرکتیں وہ کر رہے ہیں اس کی جرأت کیوں پیدا ہوئی؟ اس وجہ سے جیسا کہ یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے انہوں نے کہا کہ ’’دوزخ کی آگ اگر ہمیں چھوئے گی بھی تو صرف چند روز تک رہے گی اور جو افترا پردازیاں وہ کرتے ہیں انہیں پر مغرور ہوکر اُن کے یہ خیالات ہیں۔ پس جب کہ اہلِ کتاب اور مشرکین عرب نہایت درجہ بدچلن ہوچکے تھے اور بدی کر کے سمجھتے تھے کہ ہم نے نیکی کا کام کیا ہے اور جرائم سے باز نہیں آتے تھے اور امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے توخداتعالیٰ نے اپنے نبی کے ہاتھ میں عنانِ حکومت دے کر اُن کے ہاتھ سے غریبوں کو بچانا چاہا اور چونکہ عرب کا ملک مطلق العنان تھا اور وہ لوگ کسی بادشاہ کی حکومت کے ماتحت نہیں تھے اِس لئے ہر ایک فرقہ نہایت بے قیدی اور دلیری سے زندگی بسرکرتا تھا اور چونکہ اُن کے لئے کوئی سزا کا قانون نہ تھا اِس لئے وہ لوگ روز بروز جرائم میں بڑھتے جاتے تھے۔ پس خدا نے اس ملک پر رحم کر کے …آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ملک کے لئے نہ صرف رسول کر کے بھیجا بلکہ اس ملک کا بادشاہ بھی بنا دیا اور قرآنِ شریف کوایک ایسے قانون کی طرح مکمل کیا جس میں دیوانی فوجداری مالی سب ہدایتیں ہیں۔ سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک بادشاہ ہونے کے تمام فرقوں کے حاکم تھے اور ہر ایک مذہب کے لوگ اپنے مقدمات آپ سے فیصلہ کراتے تھے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آنجناب کی عدالت میں مقدمہ آیا تو آنجناب نے تحقیقات کے بعد یہودی کو سچا کیا اور مسلمان پر اُس کے دعوے کی ڈگری کی۔ پس بعض نادان مخالف جو غور سے قرآن شریف نہیں پڑھتے وہ ہر ایک مقام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے نیچے لے آتے ہیں حالانکہ ایسی سزائیں خلافت یعنی بادشاہت کی حیثیت سے دی جاتی تھیں۔‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 242-243)
پھر
قرآنِ کریم کے ذریعہ پاکیزہ زندگی کے حصول
کے مضمون کو بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’یہ تو ظاہر ہے کہ ہر ایک چیز کی بڑی خوبی یہی سمجھی جائے گی کہ جس غرض کے پورا کرنے کے لئے وہ وضع کی گئی ہے اُس غرض کو بوجہ احسن پوری کر سکے۔ مثلاً اگر کسی بیل کو قُلْبَہ رَانِی کے لئے خریدا گیا ہے تو اُس بیل کی یہی خوبی دیکھی جائے گی وہ قُلْبہ رانی کے کام کو بوجہ احسن ادا کر سکے۔‘‘ بیل ہل چلانے کے لیے لیتے ہیں تو اس کو ہل چلانے کے لیے ہی استعمال کیا جائے گا اور اچھا چلانے والے بیل کو اچھا سمجھا جائے گا۔ ’’اسی طرح ظاہر ہے کہ اصلی غرض آسمانی کتاب کی یہی ہونی چاہئے کہ اپنے پیروی کرنے والے کو اپنی تعلیم اور تاثیر اور قوتِ اصلاح اور اپنی روحانی خاصیت سے ہر ایک گناہ اور گندی زندگی سے چھڑا کر ایک پاک زندگی عطا فرماوے اور پھر پاک کرنے کے بعدخدا کی شناخت کے لئے ایک کامل بصیرت عطا کرے اور اُس ذاتِ بے مثل کے ساتھ جو تمام خوشیوں کا سرچشمہ ہے محبت اور عشق کا تعلق بخشے کیونکہ درحقیقت یہی محبت نجات کی جڑھ ہے اور یہی وہ بہشت ہے جس میں داخل ہونے کے بعد تمام کوفت اور تلخی اور رنج و عذاب دُور ہو جاتا ہے اور بلاشبہ زندہ اور کامل کتاب الہامی وہی ہے جو طالبِ خدا کو اِس مقصود تک پہنچاوے اور اُس کو سفلی زندگی سے نجات دے کر اس محبوب حقیقی سے ملاوے جس کا وصال عین نجات ہے اور تمام شکوک و شبہات سے مخلصی بخش کر ایسی کامل معرفت اس کو عطا کرے کہ گویا وہ اپنے خدا کو دیکھ لے اور خدا کے ساتھ ایسے مستحکم تعلقات اس کو بخش دے کہ وہ خدا کا وفادار بندہ بن جائے اور خدا اس پر ایسا لطف و احسان کرے کہ اپنی انواع و اقسام کی نصرت اور مدد اور حمایت سے اس میں اور اس کے غیر میں فرق کرکےدکھلائے اور اپنی معرفت کے دروازے اس پر کھول دے اور اگرکوئی کتاب اپنے اس فرض کو ادا نہ کرے جو اس کا اصلی فرض ہے اور دوسرے بیہودہ دعووں سے اپنی خوبی ثابت کرنی چاہے تو اس کی یہی مثال ہے کہ ایک شخص مثلاً طبیبِ حاذق ہونے کا دعویٰ کرے اور جب کوئی بیمار اس کے سامنے پیش کیاجائے کہ اس کو اچھا کرکے دکھلاؤ تو وہ یہ جواب دے کہ میں اس کو اچھا تو نہیں کر سکتا لیکن میں کُشتی کرنا خوب جانتا ہوں یا یہ کہے کہ علم ہیئت اور فلسفہ میں مجھے بہت دخل ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا آدمی مسخرہ کہلائے گا اور عقلمندوں کے نزدیک قابل سرزنش ہو گا۔ خدا کی کتاب اور خدا کے رسول جو دنیا میں آتے ہیں بڑی غرض ان کی یہی ہوتی ہے جو دنیا کو پاپ اور گناہ کی زندگی سے چھڑاویں اور خدا سے پاک تعلقات قائم کریں۔ ان کی یہ غرض تو نہیں ہوتی کہ دنیا کے علوم ان کو سکھاویں اور دنیا کی ایجادوں سے ان کو آگاہ کریں۔
غرض ایک عقلمند اور منصف مزاج آدمی کے نزدیک اس بات کا سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ خدا کی کتاب کا فرض یہی ہے کہ وہ خدا کو ملاوے اور خدا کی ہستی کے بارہ میں یقین کے درجہ تک پہنچاوےاورخدا کی عظمت اور ہیبت دل میں بٹھا کر گناہ کے ارتکاب سے روک دے ورنہ ہم ایسی کتاب کو کیا کریں جو نہ دل کا گند دور کرسکتی ہے اور نہ ایسی پاک اور کامل معرفت بخش سکتی ہے جو گناہ سے نفرت کرنے کا موجب ہو سکے۔ یاد رہے کہ گناہ کی رغبت کا جذام نہایت خطرناک جذام ہے اور یہ جذام کسی طر ح دور ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ خدا کی زندہ معرفت کی تجلیات اور اس کی ہیبت اورعظمت اور قدرت کے نشان بارش کی طرح وارد نہ ہوں اور جب تک کہ انسان خدا کو اس کی مہیب طاقتوں کے ساتھ ایسا نزدیک نہ دیکھے جیسے وہ بکری کہ جب شیر کو دیکھتی ہے کہ صرف وہ اس سے دو قدم کے فاصلہ پر ہے۔ انسان کو یہ ضرورت ہے کہ وہ گناہ کے مہلک جذبات سے پاک ہو اور اس قدر خدا کی عظمت اس کے دل میں بیٹھ جائے کہ وہ بے اختیار کرنے والی نفسانی شہوات کی خواہش کہ جو بجلی کی طرح اس پر گرتی اور اس کے تقویٰ کے سرمایہ کو ایک دم میں جلا دیتی ہے وہ دور ہو جاوے مگر کیا وہ ناپاک جذبات کہ جو مرگی کی طرح باربار پڑتے ہیں اور پرہیز گاری کے ہوش و حواس کو کھو دیتے ہیں وہ صرف اپنے ہی خودتراشیدہ پرمیشر کے تصوّر سے دور ہو سکتے ہیں یا صرف اپنے ہی تجویز کردہ خیالات سے دب سکتے ہیں اور یا کسی ایسے کفارہ سے رک سکتے ہیں جس کا دکھ اپنے نفس کو چھوا بھی نہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ بات معمولی نہیں بلکہ سب باتوں سے بڑھ کر عقلمند کے نزدیک غور کرنے کے لائق یہی بات ہے کہ وہ تباہی جو اس بیباکی اور بے تعلقی کی وجہ سے پیش آنے والی ہے جس کی اصلی جڑھ گناہ اور معصیت ہے اس سے کیونکر محفوظ رہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ انسان یقینی لذّات کو محض ظنّی خیالات سے چھوڑ نہیں سکتا۔‘‘ لذتیں جو ملتی ہیں ان میں بعض یقینی لذات ہیں اس کو اس بات سے صرف ظن کر کے یہ کہنا کہ ہوگا، یہ ہمیں انشاء اللہ ملے گا، بعد میں ملے گا،کب ملے گا ؟کس طرح ہو گا؟ اس کو چھوڑ نہیں سکتا۔ ’’ہاں‘‘ فرمایا کہ لیکن ’’ایک یقین دوسرے یقینی امر سے دستبردار کرا سکتا ہے۔ مثلاً ایک بَن کے متعلق ایک ‘‘ یعنی جنگل ہے اس کے متعلق ’’یقین ہے کہ اس جگہ سے کئی ہرن ہم بآسانی پکڑ سکتے ہیں اور ہم اس یقین کی تحریک پر قدم اُٹھانے کے لئے مستعد ہیں مگر جب یہ دوسرا یقین ہو جائے گا کہ وہاں پچاس شیرببر موجود ہیں اور ہزارہا خونخوار اژدہا بھی ہیں جو منہ کھولے بیٹھے ہیں تب ہم اس ارادہ سے دستکش ہو جائیں گے۔ اسی طرح بغیر اس درجہ یقین کے گناہ بھی دور نہیں ہو سکتا۔‘‘ گناہ دور کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ یہ یقین ہو کہ اگر ہم یہ گناہ کریں گے تو ہمیں ذاتی وقتی لذات تو ہیں لیکن اس کو کرنے سے اسی طرح ہے جس طرح ہم نے ایک جنگل میں جہاں ہم شکارکوچلے جائیں اور وہاں شیر ببر بھی ہو اور اژدھا بھی ہوں اور ان کا خوف ہمیں وہاں شکار نہ کرنے دے تو
اسی طرح گناہوں سے بچا جا سکتا ہے کہ اگر یہ یقین پیدا ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ اور اگر ہم گناہ کریں گے تو اس کی پکڑ میں آ سکتے ہیں۔
فرمایا کہ ’’لوہا لوہے سے ہی ٹوٹتا ہے۔ خدا کی عظمت اور ہیبت کا وہ یقین چاہئے جو غفلت کے پردوں کو پاش پاش کردے اور بدن پر ایک لرزہ ڈال دے اور موت کو قریب کرکےدکھلادے اور ایسا خوف دل پر غالب کرے جس سے تمام تا ر و پود نفسِ امّارہ کے ٹوٹ جائیں اور انسان ایک غیبی ہاتھ سے خدا کی طرف کھینچا جائے اور اُس کا دل اس یقین سے بھر جائے کہ درحقیقت خدا موجود ہے جو بے باک مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑتا۔ پس ایک حقیقی پاکیزگی کا طالب ایسی کتاب کو کیاکرے جس کے ذریعہ سے یہ ضرورت رفع نہ ہوسکے؟اِس لئے میں ہر ایک پر یہ بات ظاہر کرتاہوں کہ وہ کتاب جو ان ضرورتوں کو پوراکرتی ہے وہ قرآن شریف ہے اُس کے ذریعہ سے خدا کی طرف انسان کو ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے اور دنیا کی محبت سرد ہو جاتی ہے اور وہ خدا جو نہایت نہاں در نہاں ہے اس کی پیروی سے آخر کار اپنے تئیں ظاہر کرتاہے اور وہ قادر جس کی قدرتوں کو غیر قومیں نہیں جانتیں قرآن کی پیروی کرنے والے انسان کو خدا خود دکھا دیتا ہے۔‘‘ اور یہ فقرہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کی پیروی کرنے والے انسان کو خدا خود دکھا دیتا ہے ’’اور عالم ملکوت کا اس کو سیر کراتا ہے اور اپنے اَنَا الْمَوْجُوْد ہونے کی آواز سے آپ اپنی ہستی کی اس کو خبر دیتا ہے۔‘‘
پس یہ ہے وہ فہم و ادراک جو قرآن شریف کے بارے میں ہونا چاہیے۔ یہ اس تعلیم کا عملی پہلو ہے جس کا ہم سے اظہار ہونا چاہیے ورنہ دوسرے مذاہب کی طرح ہمارا ایمان کا دعویٰ صرف دعویٰ ہو گا۔ اب یہاں فرمایا کہ یہ کتاب اصلاح کرتی ہے دوسری کتابیں نہیں کرتیں۔ ان میں کیونکہ ان کی تعلیم کامل نہیں ہے۔ اس لیے نہیں کرتیں۔ اور
اگر ہم قرآن کریم کو مانتے ہیں اور پھر اصلاح نہیں ہوتی تو اس میں ہمارا قصور ہے کیونکہ جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کامل پیروی ضروری ہے۔ کامل پیروی اگر نہیں کریں گے تو کس طرح اصلاح ہو گی۔ اس پر عمل نہیں کریں گے تو کس طرح اصلاح ہو گی۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم کامل پیروی کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ’’…ہمارا مشاہدہ اور تجربہ اور ان سب کا جو ہم سے پہلے گذر چکے ہیں اس بات کا گواہ ہے کہ قرآن شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے سچے پیرو کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کے دل کومنور کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے نشان دکھلا کر خدا سے ایسے تعلقات مستحکم بخش دیتا ہے کہ وہ ایسی تلوار سے بھی ٹوٹ نہیں سکتے جو ٹکڑ ہ ٹکڑہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ دل کی آنکھ کھولتا ہے اور گناہ کے گندے چشمہ کو بند کرتا ہے اور خدا کے لذیذ مکالمہ مخاطبہ سے شرف بخشتا ہے اور علوم غیب عطا فرماتا ہے اور دعا قبول کرنے پر اپنے کلام سے اطلاع دیتاہے اور ہرایک جواس شخص سے مقابلہ کرے جو قرآن شریف کا سچا پیرو ہے خدا اپنے ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اس پر ظاہر کردیتا ہے کہ وہ اس بندہ کے ساتھ ہے جو اس کے کلام کی پیروی کرتا ہے۔‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 305تا309)
تو
سچا پیرو ہونا بنیادی شرط ہے۔
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ
قرآن کریم شرک سے نجات کا ذریعہ ہے
آپؑ فرماتے ہیں:’’جو کچھ قرآن شریف نے توحید کا تخم بلاد عرب، فارس، مصر، شام، ہند، چین، افغانستان ،کشمیر وغیرہ بلاد میں بو دیا ہے اور اکثر بلاد سے بُت پرستی اور دیگر اقسام کی مخلوق پرستی کا تخم جڑھ سے اُکھاڑ دیا ہے یہ ایک ایسی کارروائی ہے کہ اس کی نظیر کسی زمانہ میں نہیں پائی جاتی۔‘‘(چشمہ معرفت ، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 77)
یہ جو اسلام شروع میں پھیلا ہے اور ان ملکوں میں شرک ختم ہوا ہے تو یہ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کی وجہ سے تھا اور اسی لیے ہمارے آباؤ اجداد نے اسلام قبول کیا لیکن اگر ہم اس پر عمل نہیں کر رہے تو پھر ہم واپس اسی جہالت میں جا رہے ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیم اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے۔ اس کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں:
’’جو کتاب ابتدائےآفرینش کے وقت آئی ہو گی اس کی نسبت عقل قطعی طور پر تجویز کرتی ہے کہ وہ کامل کتاب نہیں ہو گی۔‘‘ جو کتابیں شروع میں آئی ہیں عقل تسلیم کرتی ہے کہ وہ کامل نہیں ہو سکتیں ’’بلکہ وہ صرف اس استاد کی طرح ہو گی جو ابجد خواں بچوں کو تعلیم دیتا ہے۔‘‘بچوں کو ا ب پ سکھاتا ہے ۔ ’’صاف ظاہر ہے کہ ایسی ابتدائی تعلیم میں بہت لیاقت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ‘‘پرائمری تعلیم بچوں کو دینی ہے، ABCسکھانی ہے، الف بے جیم سکھانی ہے تو بہت زیادہ لیاقت کی ضرورت نہیں ہے۔ ’’ہاں جس زمانہ میں انسانی تجربہ نے ترقی کی اور نیز نوع انسان کئی قسم کی غلطیوں میں پڑ گئی تب باریک تعلیم کی حاجت پڑی۔ بالخصوص جب گمراہی کی تاریکی دنیا میں پھیل گئی اور انسانی نفوس کئی قسم کی علمی اور عملی ضلالت میں مبتلا ہو گئے تب ایک اعلیٰ اور اکمل تعلیم کی حاجت پڑی اور وہ قرآن شریف ہے۔ لیکن ابتدائے زمانہ کی کتاب کے لئے اعلیٰ درجہ کی تعلیم کی ضرورت نہ تھی کیونکہ ابھی انسانی نفوس سادہ تھے اور ہنوز ان میں کوئی ظلمت اور ضلالت جاگزیں نہیں ہوئی تھی۔ ہاں اس کتاب کے لئے اعلیٰ تعلیم کی ضرورت تھی جو انتہائی درجہ کی ضلالت کے وقت ظاہر ہوئی اور ان لوگوں کی اصلاح کے لئے آئی جن کے دلوں میں عقائد فاسدہ راسخ ہو چکے تھے اور اعمال قبیحہ ایک عادت کے حکم میں ہو گئے تھے۔‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ70حاشیہ)
قرآن شریف کی تعلیم اس وقت آئی جب انسان کا دماغ matureہو گیا تھا، سمجھنے لگ گیا تھا۔ برائیاں بھی انتہا کو پہنچ گئی تھیں اور انسان ان میں ڈوب رہا تھا۔ اس وقت اس کے دماغ کے مطابق تعلیم بھی آگئی۔ پھر
قرآن کریم کے عالمگیر کتاب ہونے کے بارے میں
فرمایا کہ یا د رکھو کہ ’’یہ بات فی الواقعہ صحیح اور درست ہے کہ ابتدائے آفرینش میں بھی ایک الہامی کتاب نوع انسان کو ملی تھی۔‘‘ پھر فرمایا کہ ’’…اس جگہ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ابتدائے زمانہ میں صرف ایک الہامی کتاب انسانوں کو کیوں دی گئی؟ ہر ایک قوم کے لئے جدا جدا کتابیں کیوں نہ دی گئیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ابتدائے زمانہ میں انسان تھوڑے تھے اور اس تعداد سے بھی کمتر تھے جو ا ن کو ایک قوم کہا جائے۔ اس لئے ان کے لئے صرف ایک کتاب کافی تھی۔ پھر بعد اس کے جب دنیا میں انسان پھیل گئے اور ہر ایک حصہ زمین کے باشندوں کا ایک قوم بن گئی اور بباعث دُور دراز مسافتوں کے ایک قوم دوسری قوم کے حالات سے بالکل بے خبر ہو گئی ایسے زمانوں میں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نے تقاضا فرمایا کہ ہر ایک قوم کے لئے جداجدا رسول اور الہامی کتابیں دی جائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور پھر جب نوع انسان نے دنیا کی آبادی میں ترقی کی اور ملاقات کے لئے راہ کھل گئی اور ایک ملک کے لوگوں کو دوسرے ملک کے لوگوں کے ساتھ ملاقات کرنے کے لئے سامان میسر آگئے اور اس بات کا علم ہوگیا کہ فلاں فلاں حصہ زمین پر نوع انسان رہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ ان سب کو پھر دوبارہ ایک قوم کی طرح بنا دیا جائے اور بعد تفرقہ کے پھر ان کو جمع کیا جاوے تب خدا نے تمام ملکوں کے لئے ایک کتاب بھیجی اور اس کتاب میں حکم فرمایا کہ جس جس زمانہ میں یہ کتاب مختلف ممالک میں پہنچے ان کا فرض ہوگا کہ ان کو قبول کرلیں اور اس پر ایمان لاویں اور وہ کتاب قرآن شریف ہے جو تمام ملکوں کا باہمی رشتہ قائم کرنے کے لئے آئی ہے۔ قرآن سے پہلی سب کتابیں مختص القوم کہلاتی تھیں یعنی صرف ایک قوم کے لئے ہی آتی تھیں۔ چنانچہ شامی، فارسی، ہندی، چینی، مصری، رومی یہ سب قومیں تھیں جن کے لئے جو کتابیں یا رسول آئے وہ صرف اپنی قوم تک محدود تھے۔ دوسری قوم سے ان کو کچھ تعلق اور واسطہ نہ تھا۔ مگر سب کے بعد قرآن شریف آیا جو ایک عالمگیر کتاب ہے اور کسی خاص قوم کے لئے نہیں بلکہ تمام قوموں کے لئے ہے۔ ایسا ہی قرآن شریف ایک ایسی امت کے لئے آیا جو آہستہ آہستہ ایک ہی قوم بننا چاہتی تھی۔ سو اب زمانہ کے لئے ایسے سامان میسر آ گئے ہیں جو مختلف قوموں کو وحدت کارنگ بخشتے جاتے ہیں۔ باہمی ملاقات جو اصل جڑھ ایک قوم بننے کی ہے ایسی سہل ہو گئی ہے کہ برسوں کی راہ چند دنوں میں طے ہو سکتی ہے او ر پیغام رسانی کے لئے وہ سبیلیں پیدا ہوگئی ہیں کہ جو ایک برس میں بھی کسی دور دراز ملک کی خبر نہیں آ سکتی تھی وہ اب ایک ساعت میں آسکتی ہے۔ زمانہ میں ایک ایسا انقلاب عظیم پیدا ہو رہا ہے اور تمدنی دریا کی دھار نے ایک ایسی طرف رخ کر لیا ہے جس سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ اب خدا تعالیٰ کا یہی ارادہ ہے کہ تمام قوموں کو جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ایک قوم بنا دے اور ہزارہا برسوں کے بچھڑے ہوؤں کو پھر باہم ملادے اور یہ خبر قرآن شریف میں موجود ہے اور قرآن شریف نے ہی کھلے طور پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کے لئے آیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا(الاعراف:159) یعنی تمام لوگوں کو کہہ دے کہ میں تم سب کے لئے رسول ہوکر آیا ہوں۔اور پھر فرماتاہے وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ(الانبیاء:108) یعنی میں نے تمام عالموں کے لئے تجھے رحمت کرکے بھیجا ہے۔ اور پھر فرماتا ہے۔ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا (الفرقان:2) یعنی ہم نے اس لئے بھیجا ہے کہ تمام دنیا کو ڈراوے لیکن ہم بڑے زور سے کہتے ہیں کہ قرآن شریف سے پہلے دنیا کی کسی الہامی کتاب نے یہ دعویٰ نہیں کیا بلکہ ہر ایک نے اپنی رسالت کو اپنی قوم تک ہی محدود رکھا یہاں تک کہ جس نبی کو عیسائیوں نے خدا قرار دیا اس کے منہ سے بھی یہی نکلا کہ ’’میں اسرائیل کی بھیڑوں کے سوا اور کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا۔‘‘ حضرت عیسیٰ نے یہی کہا تھا بائبل میں۔ ’’اور زمانہ کے حالات نے بھی گواہی دی کہ قرآن شریف کا یہ دعویٰ تبلیغ عام کا عین موقعہ پر ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت تبلیغ عام کا دروازہ کھل گیا تھا۔‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ74تا77)
پھر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ
قرآن کریم کی چار وجوہات، اسباب ہیں۔ عللِ اربعہ ہیں۔
آپؑ فرماتے ہیں:’’ہر شے کی چار علتیں ہوتی ہیں‘‘ یعنی اسباب یا وجوہات ہوتے ہیں ’’…اور وہ علل اربعہ یہ ہوتی ہیں۔‘‘ یہ کون سی عللِ اربعہ ہیں یعنی ’’علّتِ فاعلی۔‘‘ یعنی اس کو کرنے والا کون ہے اور اس کی وجوہات۔ ’’علّت صُوری۔‘‘ ظاہری اور عملی وجوہات اس کی کیاہیں۔ ’’علّتِ مادی۔‘‘ اس کا مادی فائدہ بھی کیا ہے۔ ’’علّتِ غائی۔‘‘ اس کی اصل وجہ اور ان سب چیزوں کی بنیادی اور مجموعی وجہ کیا ہے؟ ’’اس مقام پر قرآنِ شریف کی چار علتوں کا ذکر کیا۔‘‘ فرمایا کہ ’’علّتِ فاعلی تو اس کتاب کی الٓمّٓہے۔ اور الٓمّٓ کے معنے میرے نزدیک اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ یعنی میں اللہ وہ ہوں جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے ’’اور علّتِ مادی ذٰلِكَ الْكِتٰبُ ہے یعنی یہ کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔‘‘ اس پر عمل کر کے اس سے بڑے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ’’اور علّتِ صُورِی لَا رَيْبَ فِيْهِ ہے یعنی اس کتاب کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ ہی نہیں۔‘‘ ایسی خوبصورت تعلیم ہے کہ اس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ ’’جو بات ہے مستحکم اور جو دعویٰ ہے وہ مدلل اور روشن اور علّتِ غائی اس کتاب کی هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَہے یعنی اس کتاب کے نزول کی غرض و غایت یہ ہے کہ متقیوں کو ہدایت کرتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد8صفحہ 306-307 ایڈیشن 1984ء)اور یہی ایک حقیقی کتاب کا، دینی کتاب کا مقصد ہونا چاہیے۔
پھر آپؑ سورۂ بقرہ کی پہلی دوسری اور تیسری آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’تقویٰ ایسی اعلیٰ درجہ کی ضروری شئے قرار دیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی علّت غائی اسی کو ٹھیرایا ہے۔ چنانچہ دوسری سورۃ کو جب شروع کیا ہے تو یُوں ہی فرمایا ہے۔ الٓمّٓ۔ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ (البقرۃ:2-3)میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن کریم کی یہ ترتیب بڑا مرتبہ رکھتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے اس میں علل اربعہ کا ذکر فرمایا ہے۔‘‘ یعنی چار اسباب اور وجوہات کا۔ ’’علت فاعلی، مادی، صوری، غائی۔ ہر ایک چیز کے ساتھ یہ چار ہی علل ہوتی ہیں۔ قرآن کریم نہایت اکمل طور پر ان کو دکھاتا ہے۔ المّ۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بہت جاننے والا ہے۔ اس کلام کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے۔ یعنی خدا اس کا فاعل ہے۔ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ یہ مادہ بتایا۔‘‘ یعنی قرآن کریم ’’یا یہ کہو کہ یہ علت مادی ہے۔‘‘ یعنی مادی حالت میں جو ہمارے پاس کتاب ہے وہ بھی ایک کتاب ہے جس پر عمل کر کے انسان اپنے مقصد کو پا سکتا ہے۔ ’’علتِ صُوری لَا رَيْبَ فِيْهِ ہر ایک چیز میں شک وشبہ اور ظنون فاسدہ پیدا ہو سکتے ہیں مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے کہ اس میں کوئی رَیب نہیں ہے۔‘‘ کوئی شک نہیں۔ ’’لَا رَيْبَ اسی کے لئے ہے۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی شان یہ بتائی کہ لَا رَيْبَ فِيْهِ تو طبعاً ہر ایک سلیم الفطرت اور سعادت مند انسان کی روح اچھلے گی اور خواہش کرے گی کہ اس کی ہدایتوں پر عمل کرے۔ ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ قرآنِ شریف کی اجلیٰ اور اصفیٰ شان کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا ورنہ
قرآن شریف کی خوبیاں اور اس کے کمالات، اس کا حسن اپنے اندر ایک ایسی کشش اور جذب رکھتا ہے کہ بے اختیار ہو ہو کر دل اس کی طرف چلے آئیں۔
مثلاً اگر ایک خوشنما باغ کی تعریف کی جاوے اور اس کے خوشبودار درختوں اور دل کو تروتازہ کرنے والی بوٹیوں اور روشوں اور مصفّا پانی کی بہتی ہوئی ندیوں اور نہروں کا تذکرہ کیا جاوے تو ہر ایک شخص دل سے چاہے گا کہ اس کی سیر کرے اور اس سے حظ اٹھاوے۔ اور اگر یہ بھی بتایاجاوے کہ اس میں بعض چشمے ایسے جاری ہیں جو امراض مزمنہ اور مہلکہ کو شفا دیتے ہیں تو اور بھی زیادہ جوش اور طلب کے ساتھ لوگ وہاں جائیں گے۔ اسی طرح پر قرآن شریف کی خوبیوں اور کمالات کو اگرنہایت ہی خوبصورت اور مؤثر الفاظ میں بیان کیا جاوے تو روح پورے جوش کے ساتھ اس کی طرف دوڑتی ہے اور
حقیقت میں روح کی تسلی اور سیری کا سامان اور وہ بات جس سے روح کی حقیقی احتیاج پوری ہوتی ہے قرآن کریم ہی میں ہے۔
اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ ’’اور دوسری جگہ کہا لَا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ(الواقعۃ:80)‘‘ کوئی اسے نہیں چھو سکتا سوائے پاک کیےہوئے لوگوں کے۔ فرمایا کہ ’’اس سے مراد وہی متّقین ہیں جو هُدًی لِّلْمُتَّقِيْنَ میں بیان ہوئے ہیں۔ اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ قرآنی علوم کے انکشاف کے لئے تقویٰ شرط ہے۔‘‘(ملفوظات جلد1صفحہ424-425،ایڈیشن1984ء)
لیکن آج کل کے نام نہادعلماء نے جو تقویٰ سے عاری ہیں اس کی تعلیم کو ایسے رنگ میں پیش کیا ہے کہ مخالفینِ اسلام کو اس کی تعلیم پر مزید اعتراض کرنےکا موقع مل گیا ہے۔ لیکن
آج یہ ہم احمدیوں کا کام ہے کہ ہم اپنے اندر تقویٰ پیدا کرتے ہوئے اس تعلیم کی خوبیوں کو اپنے قول و فعل سے کر کے دکھائیں، عمل کر کے دکھائیں۔ دنیا کو بتائیں کہ قرآن کریم ہی ہے جو ہر قسم کی بیماریوں کا علاج ہے اور اس کو بھیجنے والا وہ خدا ہے جس نے اسے بامقصد بنا کر دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ پر چلتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بہت گہرے مضامین ہیں۔ بہت غور سے سننے والے ہیں۔ بہت غور سے اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کو بڑے غور سے ہمیں پڑھنا چاہیے۔
اب میں
دعا کی تحریک
بھی کرنا چاہتا ہوں۔
بنگلہ دیش
میں آج کل جلسہ سالانہ ہو رہا ہے۔ آج ہی ان کا پہلا دن تھا لیکن وہاں مخالفین نے حملہ کیا۔ جلسہ گاہ پر بھی حملہ کیا۔ کئی لوگ وہاں زخمی بھی ہوئے۔ میرا خیال ہے باہر سے کچھ اس طرح انہوں نے حملہ کیا کہ کچھ زخمی ہوئے ہیں۔ بعض شدید زخمی بھی ہیں۔ پھر کچھ لوگوں کےجو وہاں اس علاقے میں احمدی تھے ان کے گھروں کو بھی جلا رہے ہیں۔ ابھی تک کی جو خبر آئی ہے یہ اس کے مطابق ہے۔ اور کتنا نقصان ہوا ہے ابھی پورا اندازہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں کو ان کے شر سے بھی محفوظ رکھے اور ان کی پکڑ کے بھی سامان کرے۔ اب تو اِن کے لیے کوئی ہدایت کی دعا نہیں ہو سکتی۔ اَللّٰھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَسَحِّقْہُمْ تَسْحِیْقًاوالی دعا ہی ہے جو ان کے لیے ہمارے منہ سے نکلتی ہے، دل سے نکلتی ہے۔
اسی طرح
پاکستان کے حالات کے لیے بھی دعا کریں
اللہ تعالیٰ وہاں بھی احمدیوں کے حالات ٹھیک رکھے۔
برکینافاسو میں بھی خطرات ابھی منڈلا رہے ہیں
وہاں کے لیے دعا کریں۔
اسی طرح
الجزائر میں بھی احمدیوں پہ بعض مقدمات ہیں
ان کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ احمدیوں کو محفوظ رکھے۔
بنگلہ دیش میں جیسا کہ میں نے کہا انتظامیہ نے ہمیں یہی کہا تھا کہ فکر نہ کرو۔ جلسہ کرو اور ہم پوری حفاظت کریں گے لیکن جب بلوائی اور دہشت گرد، شدت پسند ملاں اپنے ٹولوں کو لے کے آئے ہیں تو پولیس وہاں تماشائی بن کے بیٹھی ہوئی ہے اور کوئی اقدام نہیں کر رہی۔ بہرحال ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف جھکناچاہیے، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ان بھائیوں کی مشکلات کو جلد دُور فرمائے۔
قرآنِ کریم کی پیروی سے انسان خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہے
جس گہرائی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں قرآن کریم کے مقام اوراہمیت سے آگاہی دی ہے وہی ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور قرآنی تعلیم پر عمل کرنے کا فہم و ادراک دیتی ہے
’’اگرچہ میں دنیا کے تمام نبیوں کا ادب کرتاہوں اور ان کی کتابوں کا بھی ادب کرتا ہوں مگر زندہ دین صرف اسلام کو ہی مانتا ہوں کیونکہ اس کے ذریعہ سے میرے پر خدا ظاہر ہوا ‘‘(حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
’’میرے نزدیک مذہب وہی ہے جو زندہ مذہب ہے اورزندہ اور تازہ قدرتوں کے نظارے سے خدا کو دکھلاوے ورنہ صرف دعویٰ صحت مذہب ہیچ اور بلا دلیل ہے‘‘(حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
اگر ہم قرآن کریم کو مانتے ہیں اور پھر اصلاح نہیں ہوتی تو اس میں ہمارا قصور ہے کیونکہ جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کامل پیروی ضروری ہے۔ کامل پیروی اگر نہیں کریں گے تو کس طرح اصلاح ہو گی۔ اس پر عمل نہیں کریں گے تو کس طرح اصلاح ہو گی۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم کامل پیروی کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔
حقیقت میں روح کی تسلی اور سیری کا سامان اوروہ بات جس سے روح کی حقیقی احتیاج پوری ہوتی ہے قرآن کریم ہی میں ہے۔
آج یہ ہم احمدیوں کا کام ہے کہ ہم اپنے اندر تقویٰ پیدا کرتے ہوئے اس تعلیم کی خوبیوں کو اپنے قول و فعل سے کر کے دکھائیں، عمل کر کے دکھائیں۔ دنیا کو بتائیں کہ قرآن کریم ہی ہے جو ہر قسم کی بیماریوں کا علاج ہے اور اس کو بھیجنے والا وہ خدا ہے جس نے اسے بامقصد بنا کر دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ پر چلتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشادات و تحریرات کی روشنی میں قرآن کریم کی خصوصیات، مقام اور اہمیت کا ذکر
مخالفانہ حالات کے پیش نظربنگلہ دیش، پاکستان، برکینا فاسو اور الجزائر میں بسنے والے احمدیوں کے لیے دعاؤں کی تحریک
اللہ تعالیٰ احمدیوں کو اُن کے شر سے بھی محفوظ رکھے اور ان کی پکڑ کے بھی سامان کرے۔ اب تو اِن کے لیے کوئی ہدایت کی دعا نہیں ہو سکتی۔ اَللّٰھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَسَحِّقْہُمْ تَسْحِیْقًا والی دعا ہی ہے جو ان کے لیے ہمارے منہ سے نکلتی ہے، دل سے نکلتی ہے
فرمودہ03؍مارچ2023ء بمطابق 03؍امان1402ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔