خلافت: انعامِ الٰہی اور برکات
خطبہ جمعہ 26؍ مئی 2023ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب یہ خبر دی کہ آپ کا اس دنیا سے رخصت ہونے کا وقت قریب ہے تو آپؑ نے جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:اللہ تعالیٰ ’’دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ (۱) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲)دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں۔ تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا(النور:56) یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے۔ ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جب کہ حضرت موسیٰؑ مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اِس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا دیں فوت ہوگئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا جیساکہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بیوقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰؑ کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے۔‘‘ فرمایا ’’…سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو مَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ
تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا۔
اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیساکہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیساکہ خدا فرماتا ہے کہ میں اِس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔
میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اَور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے۔‘‘
فرمایا کہ ’’…خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304 تا 307)
پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق جماعت کو حضرت حکیم مولانا نورالدین خلیفة المسیح اوّلؓ کے ہاتھ پر جمع کیا۔ گو بعض لوگ چاہتے تھے کہ انجمن کے ہاتھ میں انتظام رہے لیکن حضرت خلیفة المسیح اوّلؓ نے آہنی ہاتھوں سے اس فتنے کا خاتمہ فرمایا۔
پھر حضرت خلیفة المسیح اوّلؓ کے وصال کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح ثانیؓ خلافت پر متمکن ہوئے۔ آپ کے خلیفہ منتخب ہونے کے وقت بھی بعض لوگ جو اپنے آپ کو علمی اور عقلی لحاظ سے بہت بڑا سمجھتے تھے انہوں نے فتنہ اٹھانے کی کوشش کی اور ان کی یہ کوشش تھی کہ انتخابِ خلافت کو اگر مکمل طور پر نہیں روکا جا سکتا تو چند ماہ کے لیے ملتوی کر دیا جائے تا کہ انہیں جماعت میں تفرقہ ڈالنے کا موقع مل جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر اپنے وعدےکے موافق مومنین کی جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع کر دیا اور مخالفینِ خلافت اور منافقین ناکام و نامراد ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپؓ کی خلافت تقریباً باون سال کے عرصے پر محیط ہوئی اور دنیا میں مشن کھلے۔ جماعت کا انتظامی ڈھانچہ مضبوط ہوا۔ یہ سب آپؓ کے دَور میں ہوا۔
پھر آپؓ کے وصال کے بعد خلافت ثالثہ کا دَور شروع ہوا اور حضرت مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح ثالثؒ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے خلافت کے مقام پر فائز ہوئے۔
پھر جب خدائی تقدیر کے مطابق آپؒ کا وصال ہوا تو حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابعؒ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے چوتھے خلیفہ کے مقام پر فائز فرمایا اور پھر آپؒ کی وفات پر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مقام پر متمکن فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے باوجود میری کمزوریوں اور کمیوں کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے کیے ہوئے وعدے کے مطابق جماعت کو ترقی کی راہوں پر گامزن رکھا۔ اس عرصے میں دشمن نے جماعت میں تفرقہ ڈالنے، اسے ختم کرنے، خوفزدہ کرنے کی بےشمار کوششیں کیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں احمدیوں کو شہید کیا گیا، دنیاوی لالچ دیے گئے لیکن اللہ تعالیٰ احمدیوں کو خلافت سے تعلق اور ایمان اوریقین میں بڑھاتا چلا گیا۔ چاہے وہ ایشیا کے احمدی ہیں یا یورپ و امریکہ کے یا افریقہ کے، ہر ایک کا خلافت سے جو تعلق ہے وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی پیدا فرما سکتا ہے۔ کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ایسی محبت اور اخلاص کا تعلق پیدا کرے جو افراد جماعت کو خلافت سے ہے اور خلیفۂ وقت کو جماعت سے ہے۔ میں جس ملک میں بھی جاتا ہوں وہاں یہ نظارے دیکھنے میں نظر آتے ہیں اور یہ صرف کہنے کی باتیں نہیں ہیں بلکہ آج کل تو کیمرے کی آنکھ ان کو محفوظ کر لیتی ہے۔ ایم ٹی اے یہ نظارے دکھاتا رہتا ہے اور ان کو دیکھ کر
مخالف بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ ہے۔
اور پھر ہزاروں خطوط ہیں جو ہر مہینے مجھے آتے ہیں۔ اس بات کے اظہار کے لیے کہ لکھنے والوں کا کس قدر جماعت سے اخلاص و وفا کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ خود لوگوں کو کس طرح خلافت کے ساتھ جوڑتا ہے اور کس طرح ان کے دلوں میں خلافت سے محبت اور تعلق پیدا کر دیتا ہے۔
اس وقت میں بعض خطوط کے نمونے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی سچائی کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے اور پھر یہ بات بھی لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کی خلافت کا جو جاری نظام ہے یہ خدا تعالیٰ کی خاص تائید لیے ہوئے ہے۔
تنزانیہ
میں ایک مونزے (Mwanza) ریجن ہے۔ معلم نے وہاں سے رپورٹ دی اور لکھا کہ ایک دن نماز فجر کے بعد مبلغ کے ساتھ احبابِ جماعت سے ہم ملاقات کی غرض سے گئے۔ نماز ظہر سے قبل جب ہم مسجد واپس پہنچے تو مسجد میں سیڑھیوں پر ایک خاتون کو دیکھا۔ خیریت معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ دعا کروانے آئی ہے۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ جیسے غیر از جماعت مسلمانوں میں دم درود وغیرہ کا طریق رائج ہے ویسے ہی ہم بھی کرتے ہیں۔ افریقنوں میں بڑا رواج ہے یہ دم درود کا۔ چنانچہ مربی صاحب نے انہیں جماعتی تعلیمات سے آگاہ کیا اور ان کے لیے وہاں دعا بھی بہرحال کروائی۔ اس خاتون نے بتایا کہ مجھے خواب آتے ہیں جن میں ایک لمبی داڑھی والے گندمی رنگ کے آدمی مجھے ایسے ہی دین سمجھاتے ہیں جیسے یہ مربی صاحب نے سمجھایاہے۔ اس پر اس کو جماعتِ احمدیہ کا تعارف کرایا گیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی تصاویر دکھائی گئیں۔ اس کا کہنا تھا کہ جو بزرگ انہیں خواب میں آ کر سمجھاتے ہیں ان کی شکل حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفة المسیح ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتی ہے۔ اس کے بعد اس خاتون نے اپنے تین بچوں سمیت بیعت بھی کر لی۔ اس زمانے میں بھی خلیفۃالمسیح الثانی ؓکی شکل بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دکھائی گئی۔
پھر
انڈونیشیا
کا صوبہ مغربی کالمنتان ہے۔ وہاں کے ایک علاقے کے رہائشی ہیں۔ ان کا نام عبداللہ ہے۔ انہوں نے اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ بیعت کی۔ ان کا جماعت سے رابطہ 2019ء سے تھا اور مبلغ کی باتوں سے وہ کافی متاثر تھے اس لیے ان کا مسجد آنا جانا تھا۔ کیونکہ ان کو یہ خیال تھا کہ یہ دوسرے مولویوں سے بہت مختلف ہیں۔ بہرحال ان کے اس طرح ہمارے مشنری کے قریب ہونے کی وجہ سے اس علاقے کے مولوی اور محلے والوں نے ان پہ الزام تراشیاں شروع کر دیں، بے دخل کر دیا، ان کو اپنی مسجد بھی نہیں آنے دیتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ ایک ایسے بھنور میں پھنس گیاہوں جو مجھے غرق کر دے گا لیکن ایک بزرگ مجھے بچانے آئے جنہوں نے جبہ پہنا ہوا تھا اور لاٹھی پکڑی ہوئی تھی۔ اس پر ہمارے مبلغ نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تصویر دکھائی جس میں حضور علیہ السلام ایک چھڑی پکڑے ہوئے تھے۔ اس نے لرزتے ہوئے کہا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے خواب میں مجھے اپنی لاٹھی سے بھنور سے بچایا تھا۔ اسی طرح ان کے بیٹے نے بھی خواب دیکھی اب صرف باپ نے نہیں دیکھی بلکہ بیٹے نے بھی دیکھی۔ اس نے کئی لوگوں کو اس طرح جبہ پہنا ہوا دیکھا۔ اس پر ہمارے مبلغ نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خلفاء کی تصاویر بھی دکھائیں تو اس لڑکے نے حیرت کے ساتھ کہا کہ جو لوگ اس نے دیکھے تھے ان میں حضرت خلیفة المسیح ثالثؒ بھی تھے، خلیفة المسیح رابعؒ بھی تھے اور مَیں بھی تھا۔ اس نے کہا یہ تو سارے وہی لوگ ہیں جو مَیں نے دیکھے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اکٹھا کر کے بھی دکھا دیا کہ خلافت کا نظام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ہے ایک ایسا نظام ہے جو تسلسل قائم کیے ہوئے ہے۔ بہرحال ان خوابوں کے بعد اس فیملی نے بیعت کر لی۔ اگر سچی تڑپ ہو تو پھر اس طرح اللہ تعالیٰ راہنمائی بھی فرماتا ہے۔
پھر
انڈونیشیا
کا جنوبی صوبہ ہے وہاں ایک جگہ بارو (Barru) ہے۔ امیر صاحب نے یہ لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہمارے مبلغ فجر کی نماز مسجد میں پڑھا رہے تھے کہ ایک شخص جماعت میں شامل ہونے کے لیے آیا۔ اس نے بتایا کہ وہ دوسری جگہ سے یہاں اپنی بیوی کے رشتہ دار سے ملنے آیا تھا۔ گفتگو کے دوران اس نے اپنی ماضی کی زندگی کے بارے میں بتایا جو مشکلات سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے کہا کہ ایک دفعہ مشکل حالات میں اس نے خواب میں دیکھا کہ سفید پگڑی اور داڑھی والے بزرگ سے ملاقات ہوئی ہے۔ خواب میں پگڑی والے بزرگ نے اسے بتایا کہ چالیس دنوں تک ہر فجر کی نماز میں صدقےکے خانےمیں صدقہ ڈالتے رہو تو مشکلات دُور ہو جائیں گی۔ اس نے اسی طرح کیا جیسا کہ خواب میں بتایا گیا تھا۔ کہتا ہے بیسویں دن اس کی پریشانیاں ختم ہونے لگیں۔ طرح طرح کی نوکریاں اور سہولتیں بھی مل گئیں۔ اس نے بتایا کہ تقریباً تین ماہ قبل سفید پگڑی اور داڑھی والے شخص ایک بار پھر خواب میں آئے اور پھل لینے کے لیے اسے پہاڑ پر لے گئے اور کہا کہ یہ خواب صرف ان لوگوں کو بتایا جائے جو اپنے اندر تقویٰ کی علامت ظاہر کرتے ہوں۔ اس کے بعد مبلغ نے اسے خلفاء کی تصاویر دکھائیں تو اس شخص نے حیرانی کے ساتھ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص کو میں نے دیکھا ہے۔ چنانچہ یہ شخص بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوا۔
پھر ایک خاتون جو ملک
مالی
کی رہنے والی ہیں، سراجی ان کا نام ہے۔ ان کے بارے میں مقامی مبلغ بیان کرتے ہیں کہ بہت مخلص ہیں۔ ارد گرد کے گاؤں میں جہاں بھی تبلیغ کے پروگرام کا سنتی ہیں اپنے بچوں کو کہتی ہیں کہ مجھے سائیکل پر بٹھا کر وہاں لے کر جاؤ۔ وہ کہتی ہیں کہ احمدی ہونے سے قبل وہ خواب میں دو آوازیں سنتی تھیں۔ ایک تو میرے خطبے کے ساتھ جو تشہد اور سورة فاتحہ مَیں پڑھتا ہوں اس کی تلاوت کی آواز اور دوسری وہاں کے مبلغ جو ہیں معاذ صاحب ان کی تبلیغ کی آواز۔ کہتی ہیں میں پریشان ہوتی تھی یہ کس کی آوازیں ہیں جو مجھے خواب میں آتی ہیں۔ اب جب جماعت کا ریڈیو پروگرام شروع ہوا اور انہوں نے ریڈیو پر میرا خطبہ سنا، تلاوت سنی، دوسرے تبلیغی پروگرام دیکھے تو تب کہنے لگیں یہ تو وہی آوازیں ہیںجو میں سنتی تھی چنانچہ یہی بات ان کی احمدیت کی قبولیت کا سبب بنی۔
کیمرون
ایک اَور ملک ہے وہاں کی بھی رپورٹ ہے۔ ایک نوجوان عبدالرحمٰن بیلا نے اپنے احمدی ہونے کا واقعہ بیان کیا۔ کہتے ہیں چند سال قبل میں نے خواب میں دو بزرگان کو دیکھا۔ ان میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا کہ تم کیا کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں شہر میں موٹر سائیکل چلا کر سواریاں اٹھاتا ہوں اور اس طرح اپنا گزارا کرتا ہوں۔ اس پر دوسرے نے مجھے فرمایا کہ موٹر سائیکل کو چھوڑیں اور ادھر آ کر نمازیں پڑھائیں۔ چنانچہ میں نے نماز پڑھائی اور اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ یہ کہتے ہیں کہ چند دنوں کے بعد میں نے بازار میں ایک نوجوان کو دیکھا جو پمفلٹ تقسیم کر رہا تھا اور وہ پمفلٹ جماعت احمدیہ کے تھے۔ میں نے گھر آ کر غور سے اس پمفلٹ کو دیکھا اور پڑھا تو اس پمفلٹ پر میں نے ایک بزرگ کی تصویر دیکھی اور یہ تصویر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تھی جو میں نے خواب میں دیکھی تھی اس کے بعد جماعت کے ساتھ رابطے کی کوشش کی اور معلم کے ساتھ ان کا مزید رابطہ بڑھا۔ انہوں نے لٹریچر مزید حاصل کیا اور دوسرا شخص جو تھا جو پہلے انہوں نے خواب میں دیکھا تھا ،کہتے ہیں وہ تصویر بھی مجھے باقی لٹریچر میں نظر آ گئی اور وہ تصویر میری تھی۔ کہتے ہیں دوسری موجودہ خلیفہ کی تھی۔ کہتے ہیں میں نے نام تو سنا ہوا تھا لیکن زیادہ علم نہیں تھا لیکن خواب میں جس شخص نے مجھے نماز پڑھانے کے لیے کہا تھا وہ جماعت کے موجودہ خلیفہ تھے اور ان کا خواب میں نماز کے لیے بلانا اور نماز پڑھانے کی برکت تھی کہ پچھلے سال ہمارے گاؤں کے چیف فوت ہوئے اور کہتے ہیں یہ اتفاق ہوا کہ ان کی اولاد نہیں تھی اور اس وجہ سے مجھے پھر ان کی وصیت کے مطابق گاؤں کا چیف بھی بنا لیا گیا اور یہ عزت بخشی گئی اور کہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ عزت مجھے جماعت کی وجہ سے ہی ملی ہے۔
پھر
گنی بساؤ
ایک اَور ملک ہے۔ مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ یہاں ایک علاقہ ہے وہاں کی ایک خاتون ہیں ماریہ صاحبہ۔ عائشہ ماریہ نام ہے ان کا۔ ان کے دو بیٹوں نے احمدیت قبول کی تو عائشہ صاحبہ کے بڑے بھائی جو کہ جماعت کے بہت مخالف ہیں اور وہی عائشہ اور اس کی فیملی کو سنبھالتے ہیں اور کھانے وغیرہ کی اشیاء بھی لے کر دیتے ہیں انہوں نے اپنی بہن کو فون کیا اور تنبیہ کی کہ اگر تمہارے بیٹوں نے احمدیت نہیں چھوڑی تو میں تم لوگوں کی مدد کرنا چھوڑ دوں گا اور میرا تم لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ یہ بات سن کر عائشہ بہت پریشان ہو گئیں۔ بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ احمدیت چھوڑ دو لیکن ان بیٹوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے لیے کافی ہے اور ہم کبھی بھی احمدیت نہیں چھوڑیں گے۔ بیٹوں کا یہ جواب سن کے عائشہ اَور زیادہ پریشان ہو گئیں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں ۔دو دن کے بعد کہتی ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ خواب میں بہت پریشان ہیں اور زور زور سے رو رہی ہیں۔ اتنے میں سفید لباس میں ملبوس ایک سفید داڑھی والے شخص نے انہیں بلایا اور رونے کی وجہ پوچھی جس پر انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا تو انہوں نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کرو تمہارے بیٹے ان سب کے اوپر رہیں گے۔ یہ بات سن کے ان کی آنکھ کھل گئی۔ ان کا دل خواب کے بعد مطمئن تھا۔ صبح ہوتے ہی انہوں نے خواب ہمارے مشنری کو سنائی اور جب ان کو مشنری صاحب نے میری تصویر دکھائی تو انہوں نے کہا یہ تو وہی شخص تھے جو مجھے خواب میں آئے تھے اور انہوں نے مجھے تسلی دلائی تھی۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نہایت مخلص احمدی ہیں اور لجنہ کے ہر کام میں صف اول میں شامل ہوتی ہیں۔
کینیا
کا بھی ایک واقعہ ہے۔ نکورو (Nakuru)ریجن کے علاقہ ’’بھاٹی‘‘ (Bahati)میں وہاں ہماری جماعت ہے اور یہ علاقہ عیسائی اکثریت کا علاقہ ہے۔ چھوٹا سا قصبہ ہے اور کہتے ہیں اس قصبے میں بھی بےشمار پانچ سو پچاس کے قریب چرچ ہیں اور واحد احمدی مسلمانوں کا ایک سینٹر ہے۔ ایک دن ایک شخص جو مسلمان تھا ہمارے سینٹر آیا اور نماز میں شامل ہوا۔ جب نماز سے فارغ ہوا تو اس نے بتایا کہ اس کا نام محمد عبدی ہے اور وہ یہاں کا مقامی ہے۔ کہنے لگا کہ کچھ دن پہلے مجھے معلوم ہوا کہ یہاں ایک نماز سینٹر ہے تو میں نماز کے لیے چلا آیا۔ جس پر اس کو جماعت کا تعارف کروایا جس پر اس نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ جس سے معلوم ہوا کہ یہ جماعت مخالف رویہ رکھتا ہے۔ ایک دن راستے میں دوبارہ ملا تو معلم صاحب نےاسے کہا کہ مسلمان بھائی ہو تو ٹھیک ہے۔ اختلاف تمہیں ہے لیکن کوئی بات نہیں تم نماز پڑھنے ہمارے سینٹر آ جایا کرو۔ اگر کچھ تحفظات ہیں تمہارے یا سوالات ہیں تو بغیر جھجک کے تم پوچھ سکتے ہو ہم جواب دیں گے۔ کہتے ہیں میں دعا بھی کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھولے۔ کہتا ہے چند دن کے بعد وہ شخص محمد عبدی نام میری رہائش پر آیا۔ جب وہ آیا تو اس وقت گھر میں ایم ٹی اے چل رہا تھا اور وہاں ایم ٹی اے پر میرا خطبہ لگا ہوا تھا۔ کافی دیر وہ غور سے سنتا رہا۔ جب خطبہ ختم ہوا تو کہنے لگا میں بیعت کرنا چاہتا ہوں جس پر کہتے ہیں مجھے بڑی حیرانگی ہوئی کہ بظاہر تو یہ مخالف شخص تھا اچانک یہ کیا تبدیلی پیدا ہو گئی۔تو جب بیعت کی تو اس سے وجہ پوچھی۔ اس نے بتایا کہ گذشتہ رات کے پچھلے پہر میری آنکھ کھلی تو میں باہر صحن میں نکلا تو اچانک میری نظر آسمان کی طرف پڑی تو کوئی روشن چیز مجھے نظر آئی جس کا میرے دل پر بہت گہرارعب اور اثر تھا اور اب جب آپ کے پاس آیا ہوں اور یہاں جب میں نے خلیفہ کا خطبہ دیکھا ہے رات والی تصویر جو تھی وہ میرے ذہن میں مکمل ہو گئی۔ اب میں اس وقت پوری فیملی کے ساتھ بیعت کرتا ہوں اور جماعت میں داخل ہوتا ہوں۔
اب کس طرح اللہ تعالیٰ ایک مخالف پر نہ صرف احمدیت کی سچائی ظاہر فرماتا ہے بلکہ خلافت سے تعلق بھی اس کے دل میں پیدا فرماتا ہے۔ یہ کسی انسانی کوشش سے نہیں ہو سکتا۔
کیمرون
ایک اَور ملک ہے، وہاں ایک شہر مروہ ہے۔ وہاں سلیمان صاحب سکول ٹیچر ہیں۔ کہتے ہیں میں نے کیبل پر ایم ٹی اے کا ایک پروگرام دیکھا جس میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ بچوں کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔ ایک بچے نے یوکرین اور رشیا کی جنگ کے متعلق سوال کیا تو امام جماعت احمدیہ نے بڑے اچھے انداز میں سادہ طریقے سے جواب دیا اور یہ بھی کہا کہ میں نے دنیا کی طاقتوں کے بہت طاقتور ملکوں کے صدروں کو خط لکھے ہیں۔ ان کو متنبہ بھی کیا ہے کہ اگر اس وقت دنیا میں امن قائم نہ کیا اور دنیا میں انصاف قائم نہ کیا تو بہت خطرناک حالات ہو جائیں گے۔ کہتے ہیں یہ باتیں سن کے میں سوچ رہا تھا کہ میں جماعت کے کسی شخص سے رابطہ کروں تو ایک دن مروہ شہر کے لوکل ٹی وی پر وہاں کی مقامی زبان میں امام جماعت احمدیہ کے خطبہ کا ترجمہ آ رہا تھا۔ ٹی وی سکرین پر صدر جماعت کا فون نمبر آیا تو میں نے جماعت سے رابطہ کیا۔ اس کے بعد جماعت کا لٹریچر پڑھا، خلیفة المسیح کی ورلڈ کرائسز والی کتاب پڑھی۔ اس کے بعد میرا دل مطمئن ہوا اور میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا۔ معلم صاحب کہتے ہیں کہ اب جماعت کے بڑے فعال ممبر ہیں۔
پھر
سیرالیون
سے مبلغ لکھتے ہیں ابراہیم نامی ایک شخص جو کہ جماعت کے مخالف تو نہیں تھے لیکن وہ احمدی نہیں تھے، اس نے ایم ٹی اے پر میرے خطبات سنے اور کھلے عام کہنا شروع کردیاکہ مولوی احباب جو جماعت احمدیہ کے خلاف تعلیم دے رہے ہیں وہ جھوٹ پر مبنی ہے۔ میں نے خود امام جماعت کو سنا ہے کہ انہوں نے قرآن کریم سے حوالے دیے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتے ہیں اور احادیث بیان کرتے ہیں۔ احمدیوں کا کلمہ بھی وہی ہے۔ تمام باتیں اسلام کے مطابق کرتے ہیں اس لیے احمدیہ مسلم جماعت جھوٹی کس طرح ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد اس نے احمدیت قبول کر لی اور چندوں میں بھی شامل ہوا اور بڑے مخلص احمدی ہیں۔
ٹرینی ڈاڈ
کے امیر صاحب لکھتے ہیں ایک نومبائعہ شریدہ (Sherida) صاحبہ نے گذشتہ سال خاوند کے ساتھ بیعت کی تھی۔ انہوں نے اپنی دو غیر مسلم بہنوں اور ہمسایوں کو اپنے گھرٹی وی پہ جلسہ یوکے دیکھنے کی دعوت دی۔ یہ لوگ جلسےکے تمام انتظامات سے بہت متاثر ہوئے اور خاص طور پر جو میرے خطابات تھے کہتے ہیں وہ ہمیں بہت پسند آئے۔ کہنے لگیں کہ جماعت احمدیہ ہی حقیقی اسلام ہے اور اگر تمام اسلامی فرقے اسی طرح بن جائیں تو اسلام دنیا پر غالب آ سکتا ہے۔ موصوفہ کہتی ہیں کہ میں نے خلیفة المسیح کو دیکھ کے رونا شروع کر دیا اور ایسا محسوس کر رہی تھی کہ میں ان کے قدموں میں بیٹھی ہوں اور گو کچھ عرصے بعد ان کے خاوند تو فوت ہو گئے ہیں لیکن موصوفہ نے اپنا گھر جماعت کو بطور وصیت دیا ہے اور جماعت کے نام کر دیا ہے تو کارروائی بھی ہو رہی ہے۔
قرغیزستان
کے ایک مقامی سلطان عطا خانوو احمدی ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے بیٹے اور اہلیہ کو بیعت کرنے کی توفیق مل چکی تھی۔ میں نے 2017ء میں ہر جمعے کو جماعتی مشن ہاؤس جانا شروع کیا۔ جب میں اور میری اہلیہ گاڑی پر نماز جمعہ کے لیے اپنی جماعت کے مشن جاتے تو تقریباً بارہ کلو میٹر کے سفر میں ہم ہمیشہ خلیفة المسیح کے خطبہ کی ریکارڈنگ سنتے رہتے۔ میں نے جب بھی ان خطبات کو سنا اس کے بعد میرے احساسات بہت مضبوط ہو جاتے تھے۔ چنانچہ اس سال 2مئی رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے اختتام پر عید کے دن میں نے بیعت کی۔ یہ پچھلے سال کی بات ہے۔ کہتے ہیں میں یہ پہلے بیان کرنا چاہتا تھا لیکن کسی نہ کسی طرح یہ کام رہ جاتا تھا۔ میں نے مختصر لکھا ہے لیکن جو کچھ میرے اندر روح میں ہو رہا ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں ہر نماز میں اللہ سے اسلام کے بارے میں علم میں اضافہ کی دعا کرتا ہوں اور ہر جمعے کی نماز میرے لیے مسلسل کچھ نہ کچھ نیا کھول رہی ہے۔
پیراگوئے
کی ایک خاتون لیزا (Liza) ہیں وہ کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو ہدایت دینے کے مختلف راستے بنائے ہوئے ہیں۔ میرا اسلام احمدیت کی طرف سفر کورونا وبا کے دوران شروع ہوا۔ میں نے سوچا کہ فارغ اوقات میں کوئی زبان سیکھنی چاہیے۔ چنانچہ میں نے آن لائن عربی سیکھنی شروع کر دی۔ عربی کے ذریعہ ہی مجھے اسلام کے متعلق بھی کافی باتوں کا علم ہوا اور میں نے مطالعہ شروع کر دیا۔ ایک دن فیس بک کا اکاؤنٹ کھولا تو وہاں ’’کافی ،کیک اینڈ اسلام‘‘ کے عنوان سے مسجد میں ایک پروگرام میں شمولیت کا دعوت نامہ آیا ہوا تھا۔ میں نے خود کو رجسٹرڈ کر لیا اور وقت پر حاضر ہو گئی جہاں میری ملاقات مربی سے ہوئی، ان کی اہلیہ سے ہوئی۔ پہلے تومیرے ذہن میں شکوک و شبہات تھے کہ مسجد میں شاید صرف عرب لوگ ہی داخل ہو سکتے ہیں لیکن وہاں جا کر اسلام کے بارے میں جن باتوں کا پتا چلا وہ میرے لیے بالکل نئی تھیں۔ مجھے پتا چلا کہ اسلام میں دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے اور اسلام صرف امن اور سلامتی کا مذہب ہے۔ اس رات مَیں جب مسجد سے باہر آئی تو میرے ہاتھ میں قرآن کریم تھا۔ اس کے بعد میرا مربی صاحب کی اہلیہ کے ساتھ مستقل رابطہ رہا۔ میں نے ان سے بہت سے سوالات کیے۔ ان کی ہفتہ وار کلاسوں میں شامل ہونا شروع کر دیا۔ اپنے لیے ایک ہدف مقرر کیا کہ میں نے پوری نماز یاد کرنی ہے اور سیکھنی ہے۔ اس طرح دو مہینے گزر گئے۔ میں ہر روز اٹھتے بیٹھتے اسلام کے متعلق سوچتی رہتی۔ ایک دن میرے خاوند مجھے مسجد سے لینے آئے اور واپسی پر میں اس کو بتا رہی تھی کہ آج میں نے یہ یہ چیزیں سیکھی ہیں۔ اس پر وہ، خاوند مجھے کہنے لگا کہ تم مسلمان کیوں نہیں ہو جاتی؟ یہ سن کر میں بالکل خاموش ہو گئی اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے کیونکہ اس وقت مَیں اپنی زندگی میں صرف یہی چاہتی تھی کہ مسلمان ہو جاؤں لیکن میرے لیے یہ بہت بڑا فیصلہ تھا۔ بہرحال اس کے بعد میں نے احمدی مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا۔ میں نے جماعت کے متعلق مزید معلومات لیں، تحقیق کی اور سوالات پوچھے۔ باقاعدگی سے خلیفہ وقت کے خطبات سنے اور پھر مجھے یقین ہو گیا کہ میں صحیح راستے پر ہوں۔ ہمارے پاس ہدایت ہے۔ ہمارے پاس ایک امام ہے جو ہمارا خیال رکھتا ہے، ہماری راہنمائی کرتا ہے، ہمارے لیے دعائیں کرتا ہے۔ گو کہ میں نے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے لیکن جماعت احمدیہ کے متعلق میرا دل مطمئن ہو چکا ہے۔ موصوفہ کی بیعت کے چند ماہ بعد ان کے خاوند نے بھی بیعت کر لی اور اب یہ وہاں پیراگوئے جماعت کے بڑے مخلص اور فعال ممبر ہیں۔
پھر
کونگو کنشاسا
ایک جگہ ہے وہاں بُکَاوُو (Bukavu) شہر کے قریب ہی ایک چھوٹا قصبہ یا گاؤں ہے۔ ایک شخص وہاں احمد بٹاٹو صاحب ہیں۔ اپنے آٹھ افراد کی فیملی سمیت بیعت کی بلکہ اس کے بعد انہوں نے تبلیغ بھی شروع کر دی اور ان کی تبلیغ کے نتیجےمیں باسٹھ اور افراد جماعت میں شامل ہوئے۔ ان دوست کا کہنا ہے کہ میری جماعتِ احمدیہ میں شمولیت کی سب سے بڑی وجہ خلیفۂ وقت کا وجود بنا ہے اور نظامِ خلافت ہے۔ امیر صاحب کہتے ہیں کہ میں ان کو آن لائن قرآن پڑھا رہا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ جماعتِ احمدیہ میں شامل ہونے سے پہلے سنی مسلم تھے مگر ان سالوں میں اپنے آپ سے یہ سوال کرتے تھے کہ سنی مسلمان نفرت کیوں پھیلاتے ہیں؟ دوسرے یہ کہ ان میں اتنا اختلاف کیوں ہے اور اگر یہ حق پر ہیں تو کیوں ان کا کوئی ایک امام نہیں ہے جس کی یہ پیروی کرتے؟ اس ساری کشمکش کے دوران ایم ٹی اے پر خلیفة المسیح کے خطبات سے میرا تعلق جڑا۔ میرے اندر ایک آواز نے کہا حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام سچے ہیں مگر دوسری آواز کہتی تھی کہ سارے مسلمان احمدیوں کو کافر کیوں کہتے ہیں؟ آخر میرا رابطہ تنزانیہ میں ایک احمدی دوست سے ہوا اور پھر فرانس میں ایک احمدی دوست سے رابطہ ہوا اور بالآخر مَیں اس علاقے کے مبلغ مزمل کے رابطے میں آیا۔ ان سب دوستوں نے مجھے جماعتی کتب پڑھنے کو دیں اور ان کو پڑھنے کے بعد اور تحقیق کے بعد میں نے بیعت کر لی اور اس کے بعد انہوں نے وہاں اپنے علاقے میں بھی تبلیغ کی اور وہاں بھی ان کی تبلیغ سے جماعت بڑھی۔
کونگو کنشاسا
کے امیر صاحب کہتے ہیں کہ وہاں مادام وانی تیبو (Mwani Teebo) صاحبہ ہیں۔ ان کا تعلق جماعت اویرا (Uvira) سے ہے۔ بیاسی سال ان کی عمر ہے۔ کہتی ہیں کہ میں مسلمان تھی مگر بیالیس سال کی عمر میں عیسائی ہو گئی تھی کیونکہ میرا بیٹا ایک چرچ میں پادری تھا۔ ایک دن ریڈیو پر خلیفة المسیح کے ایک خطبےکا فرنچ ترجمہ سنا۔ سنتے ہی انہوں نے مشن ہاؤس فون کیا کہ میں زمانے کے امام کی بیعت میں آنا چاہتی ہوں اور اپنے بیٹے کو کہا کہ جب میں فوت ہوں تو میرا جنازہ جماعت احمدیہ پڑھائے۔
کیمرون
کے مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ وہاں مَرُوَہ (Maroua)سے ایک دوست عمر زبیر صاحب ہیں۔ جلسہ سالانہ کیمرون 2022ء میں شمولیت کے لیے آئے۔ انہوں نے معلم صاحب کو اپنے احمدی ہونے کی تفصیلات بتائیں۔ عمر صاحب نے بتایا کہ ایم ٹی اے افریقہ کے ذریعہ مجھے جماعت سے واقفیت ہوئی اور میں بڑی دلچسپی سے خلیفة المسیح کے خطبات جمعہ سنا کرتا تھا اور ہر خطبےکے ساتھ مجھے جماعت کے ساتھ لگاؤ بڑھتا گیا اور میرے علم میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ نومبر 2021ء کے پہلے خطبہ جمعہ میں خلیفة المسیح نے تحریک جدید کے واقعات اور قربانیوں کا ذکر کیا تو خداتعالیٰ نے مجھ پر واضح کر دیا کہ یہ جماعت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے جہاں لوگ اس قدر اسلام کے لیے قربانی کر رہے ہیں۔ اس بات سے میرے دل کو پوری تسلی ہو گئی اور میں نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی اس کے بعد میں بہت مطمئن اور خوش ہوں۔
واٹرلُو۔ سیرالیون
کے مربی کہتے ہیں کہ وہاں کے الفا صاحب کو گذشتہ سال میرا خطبہ ایم ٹی اے کے ذریعےسننے کی دعوت دی گئی۔ الفا صاحب اپنی فیملی کے ساتھ خطبہ سننے کے لیے آئے۔ خطبہ سن کر بہت متاثر ہوئے اور تمام فیملی جس میں آٹھ افراد شامل تھے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔ خدا کے فضل سے احمدیت میں داخل ہونے کے بعد بڑے اخلاص کے ساتھ جماعتی خدمات میں حصہ لیتے ہیں اور وہاں مسجد کی رینوویشن کی گئی تو سارا وقت انہوں نے وقار عمل کیا اور مزدوروں کی طرح کام کیا اور نفلی روزے بھی یہ رکھتے ہیں اور افطاری کا انتظام بھی لوگوں کے لیے کرواتے ہیں۔
امیر صاحب
بنگلہ دیش
لکھتے ہیں کہ جماعت کے سیکرٹری تبلیغ کا یہاں اپنا ایک چھاپہ خانہ ہے جس میں بلال نامی لڑکا کام کرتا ہے۔ اس لڑکے کو جب جماعت کا تعارف ہوا تو اس نے ہماری مرکزی مسجد میں آنا شروع کر دیا جہاں اس کو میرے خطابات سننے کا موقع ملا۔ کچھ عرصےبعد موصوف نے بیعت کر لی لیکن اس کی اہلیہ نے بیعت نہیں کی تھی۔ ان کی شادی کو سات سال کا عرصہ گزر چکا تھا کوئی اولاد نہیں تھی۔ اپنی اہلیہ سے انہوں نے کہا کہ خلیفة المسیح کو دعا کے لیے لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اولاد دے۔لوگ لکھتے ہیں ہم بھی لکھ کے آزماتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی کو جب اس پہ قائل کر لیا کہ چلو ہم بھی اس طرح دعا کے لیے درخواست کر کے آزماتے ہیں۔ دعا کے لیے انہوں نے درخواست کی۔ کچھ مہینے بعد ان کی اہلیہ امید سے ہو گئیں اور ان کی اہلیہ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ خلیفة المسیح کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے چنانچہ اس نے بھی بیعت کر لی۔
امیر صاحب
بیلجیم
کہتے ہیں کہ مراکش کےایک دوست وہاں رہتے ہیں۔ انہوں نے ایک لمبا عرصہ احمدیت کے بارے میں تحقیق کر کے پھر بیعت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے بچپن سے ہی بہت سے علماء کی صحبت میں وقت گزارا ہے لیکن
خلیفة المسیح کے خطبات نہ صرف قرآن کریم کی تفسیر ہیں بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب لے جاتے ہیں اور ان کے خطبات سننے کے بعد مجھے نمازوں کا مزہ آنے لگا ہے۔
خدا تعالیٰ نے مجھے سچی خوابیں بھی دکھائی ہیں۔ احمدیت نے میری زندگی بدل دی ہے اور موصوف جب یہ ذکر کرتے ہیں تو آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔
کینیما (Kenema)، سیرالیون
کے مربی کہتے ہیں۔ ایک جگہ پانچ سو سے زیادہ غیر احمدی احباب جمع تھے۔ وہاں ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ احمدی ہی اسلام کے سچے رستےپر ہیں۔ ہم ان سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سچ کہتے ہیں۔ اگر کوئی چیز سفیدہوتی ہے تو وہ اس کو سفید ہی کہتے ہیں لیکن جب کوئی چیز کالی ہوتی ہے تو ہم اسے سفید کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم میں سچائی اور اتحاد نہیں ۔ اسی علاقے کے ایک امام صاحب بھی کھڑے ہوئے۔ کہنے لگے کہ اگر آپ احمدیوں کے خلیفہ کے خطبات سنو تو تمہیں اسلام کی درست تعلیم کا علم ہو گا۔
میں نے احمدیت تو قبول نہیں کی لیکن ہر جمعہ کے روز میں ان کے خلیفہ کا خطبہ سنتا ہوں۔ اگر آپ سنو گے تو آپ کو اسلامی تعلیمات کا علم ہو گا اور آپ کا دل نہیں کرے گا کہ خطبہ ختم ہو۔
پھر مشاکا ریجن کے مبلغ کہتے ہیں کہ مَیں ایک کام کے سلسلہ میں بینک گیا۔ کام ختم ہونے پر بھوک لگی تو ایک ہوٹل میں کھانا کھانے چلا گیا۔ وہاں دیکھا تو ہوٹل میں لگے ٹی وی پر ایم ٹی اے کی نشریات آ رہی تھیں اور وہ لوگ ،ریکارڈ شدہ میرا خطبہ اس پہ لگا ہوا تھا، وہ سن رہے تھے۔ وہاں کی انتظامیہ سے میں نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہم اکثر یہ چینل دیکھتے ہیں اور اس چینل پر بہت اچھی اچھی باتیں بتائی جاتی ہیں جو ہمارے لیے فائدہ مند ہیں اور ہمیں یہ چینل دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کی تبلیغ کے بھی سامان فرما رہا ہے اور غیروں پر خلافت کی اہمیت بھی واضح فرما رہا ہے۔
مالی
کے مبلغ عمر معاذ صاحب لکھتے ہیں کہ یہاں کے جِجْنِی ریجن کے ایک ممبر جالا صاحب ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ان کی ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ انہوں نے اس کا کافی علاج کروایا۔ دیسی علاج کے علاوہ ڈاکٹرز کو بھی چیک کروایا۔ کئی مہینے گزرنے کے بعد بھی ہڈیاں جڑ نہیں رہی تھیں تو ان کو اور ان کے رشتہ داروں کو کافی مایوسی ہو گئی تھی کہ اب ان کی ہڈی نہیں جڑے گی۔ کہتے ہیں کہ ایک دن انہوں نے خواب میں دیکھا کہ خلیفة المسیح الخامس نے ان کے لیے دعا کی اور وہ کہتے ہیں کہ میں رؤیا میں ہی ان کی دعا کے ساتھ ساتھ آمین کہتا رہا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب میں ہوش میں آیا تو میں نے آمین کہہ کر اپنے ہاتھوں کو اپنی ٹانگوں پر پھیرا۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد مجھ پر فضل فرمایا اور وہ جو مایوسی پیدا ہو گئی تھی کہ ہڈیاں نہیں جڑ رہی تھیں وہ آہستہ آہستہ جڑناشروع ہو گئیں اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کبھی میری ٹانگ کی ہڈیاں ٹوٹی تھیں۔ تو اس طرح بھی اللہ تعالیٰ خلافت کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنے کے سامان پیدا فرماتا ہے۔
غیروں پر کیا اثر ہوتا ہے؟
امیر صاحب
کونگو کنشاسا
لکھتے ہیں: کونگو میں اللہ کے فضل سے جماعتی ریڈیو سٹیشن کے علاوہ تیئس مقامی ایف ایم ریڈیو کے ذریعہ ہفتہ وار تبلیغی اور تربیتی پروگرام اور میرا خطبہ جمعہ جو ہے باقاعدہ نشر کیا جاتا ہے۔ باندوندو (Bandundu) کے دو مقامی ٹی وی سٹیشنوں پر براہ راست نشر ہوتا ہے اور خطبہ کا بہت ہی اچھا فیڈ بیک مل رہا ہے۔ ایک مقامی عیسائی ڈاکٹر صاحب سے ایک دن سر راہ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ میں آپ کے امام کا خطبہ سنتا ہوں جو کہ بہت ہی مؤثر انداز میں پیش کرتے ہیں۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ مقامی زبان میں بھی اس کا ترجمہ کیا کریں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔
تو اللہ تعالیٰ اس طرح بھی اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کے سامان پیدا فرما رہا ہے۔ غیر اس بات کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ خلیفہ وقت کی آواز کو لوگوں تک پہنچاؤ۔ اس طرح زمین ہموار ہو رہی ہے اور ایک وقت آئے گا جب ان کے سینے بھی کھلیں گے ا ن شاء اللہ اور یہ احمدیت اور حقیقی اسلام کو پہچان لیں گے۔ پس خلافت کے ساتھ برکات کے جاری رہنے کا جو اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے وعدہ ہے وہ ایسے عجیب عجیب رنگ میں پورا ہو رہا ہے کہ انسانی سوچ اس کا احاطہ بھی نہیں کر سکتی۔ اپنوں اور غیروں کے یہ واقعات اور اللہ تعالیٰ کے نشانات خلافت احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آکر دنیا کو امت واحدہ بنانا تھا اس کی سچائی کا ثبوت نہیں ہے تو اَور کیا ہے! یہ صرف جماعت احمدیہ ہے جو خلافت کے نظام کے تحت آج ساری دنیا میں اسلام کی ترقی اور تبلیغ کا کام کر رہی ہے اور جو ترقیات ہم نامساعد حالات کے باوجود دیکھ رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کا ثبوت ہی تو ہیں۔ اگر نہیں تو اَور کیا ہے! لیکن جس کی آنکھیں اندھی ہیں اس کو نظر نہیں آتا اور نہ آ سکتا ہے۔
ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق کہ خلافت علیٰ منہاج نبوت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے شروع ہو گی اور تا قیامت چلے گی۔ ہمیشہ قائم رہے گی اور کوئی دشمن اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔
پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے ایمانوں میں مزید جلا پیدا کریں اور خلافت احمدیہ سے اپنے آپ کو جوڑے رکھیں اور اس کے قائم رکھنے کے لیے کسی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 16؍جون2023ءصفحہ2تا6)
’’تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
’’میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اَور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
مخالف بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ ہے
خلافت حقہ اسلامیہ کی تائید کی عکاسی کرنے والے بعض ایمان افروز واقعات کا تذکرہ
فرمودہ 26؍مئی2023ء بمطابق 26؍ہجرت1402ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔