حضرت محمد رسول اللہﷺ: اُسوۂ حسنہ

خطبہ جمعہ 29؍ دسمبر 2023ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج بھی

جنگِ اُحد کی کچھ مزید تفصیلات

بیان کروں گا۔ جیساکہ ذکر ہوا تھا کہ درّہ خالی کرنے کی وجہ سے کفار نے پیچھے سے حملہ کیا اور جنگ کا پانسہ پلٹا۔ دشمن کا حملہ انتہائی خوفناک تھا۔ اس وقت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت قدمی اور جرأت اور بہادری کا نمونہ

کیا تھا؟ اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے کہ جب لڑائی کا پانسہ پلٹنے کے بعد صحابہؓ بدحواسی میں اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے اور افراتفری کا شکار ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس افراتفری میں اور اپنے چاروں طرف دشمنوں کے جمگھٹے کے باوجود اپنی جگہ ثابت قدم اور جمے رہے۔ صحابہؓ کو گھبراہٹ میں اِدھر اُدھر بھاگتے دیکھ کران کو پکارتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جاتے تھے۔ اے فلاں! میری طرف آؤ۔ اے فلاں! میری طرف آؤ۔ میں خدا کا رسول ہوں۔ جبکہ ہر طرف سے آپؐ پر تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ بلند آواز میں فرما رہے تھے۔

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِب

اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب

اَنَا ابْنُ الْعَوَاتِکْ

میں نبی ہوں اس میں جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں میں عواتک یعنی عاتکاؤں کا بیٹا ہوں۔ عام طور پر روایات اور سیرت کی کتابوں میں ہے کہ یہ کلمات آپؐ نے غزوہ حنین میں فرمائے تھے لیکن بہرحال بعید نہیں کہ یہی کلمات آپؐ نے اُحد میں بھی فرمائے ہوں اور حنین میں بھی فرمائے ہوں۔(سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ 310 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

عَوَاتِککا یہاں ذکر ہوا ہے۔ عَوَاتِک: عاتکہ کی جمع ہیں اور عاتکہ نام کی ایک سے زائد خواتین تھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدّات یعنی نانیاں دادیاں تھیں۔ ایک تو عَاتِکَہبنتِ ہِلَال جو عبدمناف کی والدہ تھیں، دوسری عاتکہ بنت مُرَّة جو ہاشم بن عَبدِمَنَاف کی والدہ تھیں، تیسری عاتکہ بنت اَوْقَص جو وَہْب یعنی حضرت آمنہ کے والد کی ماں تھیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ نو عورتیں تھیں۔ تین بنو سُلَیم میں سے اور چھ اَور لوگوں میں سے تھیں اور سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدّات تھیں۔(لغات الحدیث جلد 3 صفحہ 97 نعمانی کتب خانہ لاہور)

اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ ’’جب عبداللہ بن جُبیرؓ کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اب تو فتح ہوچکی ہے تو انہوں نے اپنے امیر عبداللہ سے کہا کہ اب تو فتح ہو چکی ہے اور مسلمان غنیمت کا مال جمع کر رہے ہیں آپ ہم کو اجازت دیں کہ ہم بھی لشکر کے ساتھ جا کر شامل ہو جائیں۔ عبداللہ نے انہیں روکا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکیدی ہدایت یاد دلائی مگر وہ فتح کی خوشی میں غافل ہورہے تھے‘‘ یہ لوگ ’’اس لئے وہ باز نہ آئے اوریہ کہتے ہوئے نیچے اترگئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاصرف یہ مطلب تھا کہ جب تک پورا اطمینان نہ ہو لے درّہ خالی نہ چھوڑا جاوے اوراب چونکہ فتح ہوچکی ہے اس لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور سوائے عبداللہ بن جُبیرؓ اوران کے پانچ سات ساتھیوں کے درّہ کی حفاظت کے لئے کوئی نہ رہا۔ خالد بن ولید کی تیز آنکھ نے دور سے درّہ کی طرف دیکھا تو میدان صاف پایا جس پر اس نے اپنے سواروں کوجلدی جلدی جمع کرکے فوراً درّہ کا رخ کیا اور اس کے پیچھے پیچھے عکرمہ بن ابوجہل بھی رہے سہے دستہ کو ساتھ لے کر تیزی کے ساتھ وہاں پہنچا اور یہ دونوں دستے عبداللہ بن جُبیرؓ اوران کے چند ساتھیوں کوایک آن کی آن میں شہید کر کے اسلامی لشکر کے عقب میں اچانک حملہ آور ہوگئے۔ مسلمان جو فتح کے اطمینان میں غافل اور منتشر ہو رہے تھے اس بلائے ناگہانی سے گھبرا گئے مگرپھر بھی سنبھلے اور پلٹ کر کفار کے حملہ کوروکنا چاہا۔ اس وقت کسی چالاک معاند نے یہ آواز دی کہ اے مسلمانو! دوسری طرف سے بھی کفار کا دھاوا ہو گیا ہے۔‘‘ یعنی اس طرف سے حملہ ہو گیا ہے۔ ’’مسلمانوں نے سراسیمہ ہوکر پھرپلٹا کھایا اور گھبراہٹ میں بےدیکھے سمجھے اپنے آدمیوں پرہی تلوار چلانی شروع کر دی۔ دوسری طرف مکہ کی ایک بہادر عورت عَمْرَہ بنت عَلْقَمَہ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو جھٹ آگے بڑھ کر قریش کاعَلَم جو ابھی تک خاک میں پڑا تھا اٹھا کربلند کردیا جسے دیکھتے ہی قریش کامنتشر لشکر پھر جمع ہو گیا۔ اوراس طرح مسلمان حقیقتاً چاروں طرف سے دشمن کے نرغہ میں گھر گئے اور اسلامی فوج میں ایک خطرناک کھلبلی کی صورت پیدا ہو گئی۔‘‘اتنا تو پہلے بھی بیان ہو چکا ہے گذشتہ خطبہ میں کہ کس طرح یہ اکٹھے ہوئے تھے۔ کس طرح حملہ ہوا تھا، جھنڈا کس نے اٹھایا۔ بہرحال آگے جو ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک بلند جگہ پر کھڑے ہوئے یہ سب نظارہ دیکھ رہے تھے مسلمانوں کو آواز پر آواز دی مگر اس شور شرابے میں آپؐ کی آواز دب دب کر رہ جاتی تھی۔

مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اتنے قلیل عرصہ میں ہو گیا کہ اکثر مسلمان بالکل بدحواس ہو گئے۔ حتی کہ اس بدحواسی میں بعض مسلمان ایک دوسرے پر وار کرنے لگ گئے اور اپنے پرائے میں امتیاز نہ رہا۔

چنانچہ خود مسلمانوں کے ہاتھ سے بعض مسلمان زخمی ہو گئے‘‘ اور جیسا کہ گذشتہ خطبہ میں ذکر ہوا تھا کہ ’’اور حذیفہ کے والد یَمَان کو تو مسلمانوں نے غلطی سے شہید ہی کر دیا۔ حُذَیفہ اس وقت قریب ہی تھے وہ چلّاتے رہ گئے کہ اے مسلمانو! یہ میرے والد ہیں مگر اس وقت کون سنتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں مسلمانوں کی طرف سے یَمَان کا خون بہا ادا کرنا چاہا مگر حُذَیفہ نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں اپنے باپ کا خون مسلمانوں کو معاف کرتا ہوں۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ491-492 )

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ایک تاریک گھڑی وہ تھی جبکہ اُحد میں آپؐ زخمی ہوئے اور اس قسم کے واقعات جمع ہو گئے کہ اسلامی لشکر کی فتح شکست کی صورت میں تبدیل ہو گئی۔ ا س جنگ میں ایک درّہ ایسا تھا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض آدمی چن کر کھڑے کئے تھے اور انہیں حکم دیا تھا کہ جنگ کی خواہ کوئی حالت ہو تم نے اس درّہ کو نہیں چھوڑنا۔ جب کفار کا لشکر منتشر ہو گیا تو انہوں نے غلطی سے اجتہاد کیا کہ اب یہاں ٹھہرنے کا کیا فائدہ ہے ہم بھی چلیں اور لڑائی میں کچھ حصہ لیں۔ ان کے سردار نے انہیں کہا بھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ ہم یہ درّہ چھوڑ کر نہ جائیں مگر انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب تو نہ تھا کہ فتح ہو جائے تب بھی یہیں کھڑے رہو۔ آپؐ کے ارشاد کا تو یہ مطلب تھا کہ جب تک جنگ ہوتی رہے اس درّہ کو نہ چھوڑنا۔ اب چونکہ فتح ہو چکی ہے دشمن بھاگ رہا ہے ہمیں بھی تو کچھ ثواب جہاد کا حاصل کرنا چاہئے۔ چنانچہ وہ درّہ خالی ہو گیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ جو اس وقت تک ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، نوجوان تھے اور ان کی نگاہ بہت تیز تھی۔ وہ جب اپنے لشکر سمیت بھاگے جارہے تھے انہوں نے اتفاقاً پیچھے کی طرف نظر ڈالی تو درّہ کو خالی پایا۔ یہ دیکھتے ہی وہ واپس لوٹے اور مسلمانوں کی پشت پر حملہ کر دیا۔ مسلمانوں کے لئے یہ حملہ چونکہ بالکل غیر متوقع تھا اس لئے ان پر سخت گھبراہٹ طاری ہو گئی۔ اور بوجہ بکھرے ہوئے ہونے کے دشمن کا مقابلہ نہ کر سکے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 76 تا77)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ سورۂ نور کی آیت 64کی تفسیر میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جو لوگ اس رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آفت نہ پہنچ جائے۔‘‘ یہ ترجمہ ہے اس آیت کا ’’یا وہ کسی دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں ’’چنانچہ

دیکھ لو جنگِ اُحد میں اس حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے اسلامی لشکر کو کتنا نقصان پہنچا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پہاڑی درّہ کی حفاظت کے لئے پچاس سپاہی مقرر فرمائے تھے اور یہ درّہ اتنا اہم تھا کہ آپؐ نے ان کے افسر عبداللہ بن جُبیر انصاری کو بلا کر فرمایا کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم نے اس درّہ کو نہیں چھوڑنا مگر جب کفار کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے ان کا تعاقب شروع کر دیا تو اس درّہ پر جو سپاہی مقرر تھے۔ انہوں نے اپنے افسر سے کہا کہ اب تو فتح ہوچکی ہے۔ اب ہمارا یہاں ٹھہرنا بےکار ہے۔ ہمیں اجازت دیں کہ ہم بھی جہاد میں شامل ہونے کا ثواب لے لیں۔ان کے افسر نے انہیں سمجھایا کہ

دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خواہ فتح ہو یا شکست تم نے اس درّہ کو نہیں چھوڑ نا اس لئے میں تمہیں جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔

انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ خواہ فتح ہو جائے پھر بھی تم نے نہیں ہلنا۔ آپؐ کا مقصد تو صرف تاکید کرنا تھا۔ اب جبکہ فتح ہو چکی ہے ہمارا یہاں کیا کام ہے؟ چنانچہ انہوں نے خدا کے رسول کے حکم پر اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہوئے اس درّہ کو چھوڑ دیا۔ صرف ان کا افسر اور چند سپاہی باقی رہ گئے۔ جب کفار کا لشکر مکہ کی طرف بھاگتا چلا جارہا تھا تو اچانک خالد بن ولیدنے پیچھے کی طرف مڑکر دیکھا تو درّہ کو خالی پایا۔ انہوں نے عَمرو بن العاص کو آواز دی۔ یہ دونوں ابھی تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے اور کہا دیکھو! کیسا اچھا موقعہ ہے آؤ ہم مڑ کر مسلمانوں پر حملہ کریں۔ چنانچہ دونوں جرنیلوں نے اپنے بھاگتے ہوئے دستوں کو سنبھالا اور اسلامی لشکر کا بازو کاٹتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے۔ چند مسلمان جو وہاں موجود تھے اور جو دشمن کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ان کو انہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اسلامی لشکر پر پشت پر سے حملہ کر دیا۔ کفار کا یہ حملہ ایسا اچانک تھا کہ مسلمان جو فتح کی خوشی میں ادھر ادھر پھیل چکے تھے ان کے قدم جم نہ سکے۔ صرف چند صحابہؓ دوڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ بیس تھی۔ مگر یہ چند لوگ کب تک دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ آخر کفار کے ایک ریلے کی وجہ سے مسلمان سپاہی بھی پیچھے کی طرف دھکیلے گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں تن تنہا رہ گئے۔ اسی حالت میں آپؐ کے خَود پر ایک پتھر لگا جس کی وجہ سے خَود کے کیل آپؐ کے سر میں چبھ گئے اور آپؐ بے ہوش ہوکر ایک گڑھے میں گر گئے جو بعض شریروں نے اسلامی لشکر کو نقصان پہنچانے کے لئے کھود کر ڈھانپ رکھے تھے۔ اس کے بعد کچھ اَور صحابہؓ شہید ہوئے اور ان کی لاشیں آپؐ کے جسم مبارک پر جاگریں اور لوگوں میں یہ مشہور ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ مگر وہ صحابہؓ جو کفار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دیئے گئے تھے کفار کے پیچھے ہٹتے ہی پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور انہوں نے آپؐ کو گڑھے میں سے باہر نکالا۔ تھوڑی دیر کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آ گیا اور آپؐ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دیئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہوجائیں اور آپؐ انہیں ساتھ لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے۔

اسلامی لشکر کو کفار پر فتح حاصل کرنے کے بعد ایک عارضی شکست کا چر کہ اس لئے لگا کہ ان میں سے چند آدمیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی خلاف ورزی کی اور آپؐ کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے اپنے اجتہاد سے کام لینا شروع کر دیا۔

اگر وہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اسی طرح چلتے جس طرح نبض حرکتِ قلب کے پیچھے چلتی ہے۔ اگر وہ سمجھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کے نتیجہ میں اگر ساری دنیا کو بھی اپنی جانیں قربان کرنی پڑتی ہیں تو وہ ایک بے حقیقت شے ہے۔ اگر وہ ذاتی اجتہاد سے کام لے کر اس پہاڑی درّہ کو نہ چھوڑتے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس ہدایت کے ساتھ کھڑا کیا تھا کہ خواہ ہم فتح حاصل کریں یا مارے جائیں تم نے اس مقام سے نہیں ہلنا تو نہ دشمن کو دوبارہ حملہ کرنے کا موقع ملتا اور نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کو کوئی نقصان پہنچتا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6صفحہ 410۔411)

پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے حکم عدولی کی تو نقصان اٹھایا۔ یہ اس کا نتیجہ تھا۔

پھر ایک اَور جگہ بھی حضرت مصلح موعودؓ نے بڑی لطیف تفسیر فرمائی ہے۔ سورۂ کوثر کی بڑی تفصیلی تفسیر ہے جو آپؓ نے فرمائی۔ اس میں بھی اس واقعہ کا ذکر فرمایا کہ ’’جنگ اُحد کے موقعہ پر مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے فتح دی اور کفار بھاگ گئے۔ خالدبن ولید اور عمروبن عاص جو اسلام کے عظیم الشان جرنیل گذرے ہیں ابھی اسلام نہیں لائے تھے اور اس جنگ میں کفار کی طرف سے شامل تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کے ایک گروہ کو ایک درّہ میں کھڑا کیا اور انہیں تاکیدی حکم دیا کہ تم نے اس جگہ سے نہیں ہلنا خواہ ہمیں فتح ہو یا شکست۔ ہم مارے جائیں یا زندہ رہیں تم نے اس جگہ کو نہیں چھوڑ نا۔ مسلمانوں میں جہاد کا بڑا جوش تھا اور اب بھی ہے۔ جب اسلام کو فتح حاصل ہوئی تو جو لوگ اس درّے پر کھڑے تھے انہوں نے اپنے افسر سے کہا کہ ہمیں بھی تھوڑا بہت جہاد میں حصہ لینے کی اجازت دیں۔ اسلام کو فتح حاصل ہو گئی ہے اور اب کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔ اس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ خواہ فتح ہو یا شکست۔ ہم مارے جائیں یا زندہ رہیں اس جگہ سے نہ ہلیں۔ اس لئے ہمیں یہیں رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ خواہ فتح ہو جائے تب بھی یہاں سے نہیں ہٹنا۔ آپؐ نے تو ہمیں احتیاطاً یہاں کھڑا کر دیا تھا۔ دشمن اب بھاگ گیا ہے اور اسلام کو فتح حاصل ہوگئی ہے۔ اب اس میں کوئی حرج نہیں کہ ہم اس جگہ کو چھوڑ دیں اور جہاد میں تھوڑا بہت حصہ لے لیں۔ افسر نے کہا‘‘ اور بڑی حکمت کی بات کی افسر نے۔ کہتے ہیں ’’افسر نے کہا کہ جب حاکم حکم دے دیتا ہے تو ماتحت کا یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ اپنی عقل کو دوڑائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا تھا کہ یہاں سے نہیں ہلنا۔ خواہ فتح ہو یا شکست۔ ہم مارے جائیں یا زندہ رہیں اور تاکید فرمائی تھی کہ اس جگہ کو نہ چھوڑا جائے۔ اس لئے آپؐ کی ہدایت کے مطابق ہمیں یہیں ٹھہرنا چاہئے۔ مگر انہوں نے یہ بات نہ مانی اور اپنی غلطی پر انہوں نے اس قدر اصرار کیا کہ اپنے افسر سے کہا۔ آپ ٹھہرے رہیں ہم تو جاتے ہیں۔ چنانچہ اکثر ان میں سے چلے گئے۔ صرف افسر اور اس کے چند ساتھی باقی رہ گئے۔ جب کفار کا لشکر بھاگا۔ خالد بن ولید بڑے ذہین اور ہوشیار تھے۔ اسلام میں بھی آپ نے شاندار کام کئے ہیں اور کفار میں بھی آپ بڑے پایہ کے جرنیل تھے۔ آپ جب اپنے لشکر کے ساتھ بھاگے جارہے تھے تو اچانک ان کی نگاہ اس درّہ پر پڑی اور وہ خالی نظر آیا۔ آپ کے ساتھ عمرو بن العاص بھی تھے۔ آپ نے عمروسے کہا ہمیں اعلیٰ درجہ کا موقعہ مل گیا ہے۔ عمرو نے بھی اس طرف دیکھا اور دونوں اپنا اپنا دستہ لے کر واپس لوٹے۔ خالدبن ولید نے ایک طرف سے چکر لگا کر درّہ پر حملہ کیا اور عمروبن عاص نے دوسری طرف سے۔ اور درّہ پر جو چند آدمی موجود تھے ان کو مار کر انہوں نے مسلمانوں پر پشت کی طرف سے حملہ کر دیا۔ مسلمان اس درّہ کی طرف سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے اور تتر بتر ہو چکے تھے۔صفیں ٹوٹ چکی تھیں اور بچے کھچے دشمن کا پیچھا کر رہے تھے جب خالدبن ولید اور عمروبن عاص نے ان کی پیٹھ پر حملہ کیا تو اکیلا اکیلا مسلمان پورے دستہ کے سامنے آ گیا۔ کچھ مسلمان مارے گئے اور کچھ زخمی ہو گئے اور باقیوں کے پاؤں اکھڑ گئے خصوصاً جب حملہ کرتے کرتے دشمن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپؐ کے پاس اس وقت صرف بارہ آدمی تھے۔ ان دونوں جرنیلوں یعنی خالدبن ولید اور عمروبن عاص نے اپنے دوسرے افسروں کو بھی اطلاع کر دی تھی کہ تم بھی حملہ کردو۔ چنانچہ تین ہزار کا لشکر ریلا کرتے ہوئے آ گیا۔ اس وقت دشمن کی طرف سے پتھراؤ ہو رہا تھا۔ تیر برس رہے تھے۔ تلواریں چل رہیں تھیں اور تمام اسلامی لشکر میں ایک بھاگڑ اور کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ ایسی حالت میں

صحابہؓ نے بے نظیر قربانیاں کیں مگر تین ہزار کے تازہ دم لشکر کے سامنے وہ تاب نہ لا سکے۔

اس حملہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو دانت بھی ٹوٹے اور آپؐ کی خَود میں بھی ایک پتھر لگا جس کی وجہ سے خَود کا ایک کیل آپؐ کے سر میں دھنس گیا جس سے آپؐ بے ہوش ہوکر ایک گڑھے میں گرگئے۔ آپؐ کے پاس جو صحابہؓ کھڑے تھے ان کی لاشیں آپؐ کے اوپر آ پڑیں اور آپؐ کا جسمِ اطہر نیچے چھپ گیا اور مسلمانوں میں شور مچ گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ مسلمانوں کے قدم پہلے ہی اکھڑے ہوئے تھے اس خبر نے ان کے رہے سہے اوسان بھی خطا کر دیئے مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت کہ جب کفار میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مارے جاچکے ہیں تو اس کے بعد انہوں نے مزید حملہ نہ کیا بلکہ یہی مناسب سمجھا کہ اب جلدی مکہ کو لوٹ چلیں اور لوگوں کو یہ خوشخبری سنائیں کہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مارے جا چکے ہیں۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 10صفحہ 340تا 341زیرا ٓیت الکوثر 2)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری اور ثابت قدمی

کے بارے میں روایات میں یوں ذکر ہے۔ مِقْداد بن عَمرو نے اُحد کے دن کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ اللہ کی قسم !مشرکین نے قتل کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زخم پہنچائے۔

سُن لو! اس ذات کی قسم! جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بالشت بھی پیچھے نہیں ہٹے اور وہ دشمن کے مدّمقابل رہے

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی ایک جماعت ایک مرتبہ آپ کی طرف لوٹتی اور پھر حملہ کے زور سے جدا ہو جاتی۔ یعنی کفار کا جب حملہ ہوتا تو صحابہؓ تتر بتر ہو جاتے اور پھر لَوٹتے۔ پس کبھی آپ کھڑے ہو کر اپنی کمان سے تیر پھینکتے اور پتھر پھینکتے یہاں تک کہ مشرکین کو دور کر دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کی ایک جماعت کے ساتھ ثابت قدم رہے۔

ایک روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ ثابت قدم رہے۔ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے بلکہ دشمن کے دُو بدُو مقابلہ کرتے رہے اور اپنی کمان سے اُن پر تیر برساتے رہے یہاں تک کہ اس کا تانت ٹوٹ گیا اور اس کا ایک ٹکڑہ آپؐ کے ہاتھ میں رہ گیا جو ایک بالشت کا ہوگا۔ جس میں تیر پھنسا کر کھینچتے ہیں وہ ٹوٹ گیا۔ تو عُکاشہ بن مِحْصِن نے آپؐ سے کمان لی تا کہ اس کی تانت لگا دیں تو اس نے کہا

یا رسول اللہؐ! تانت پورا نہیں ہو رہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو کھینچو پورا ہو جائے گا۔ عکاشہ کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے اس کو کھینچا تو وہ پورا ہو گیا اور میں نے کمان کی لکڑی پر اس کے دو یا تین بل دیے۔ یا تو پورا نہیں ہو رہا تھا یا پھر ایک معجزہ سا ہو گیا کہ پورا بھی ہو گیا۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمان تھام لی اور تیر برساتے رہے اور ابو طلحہ آپؐ پر ڈھال بن کر آپؐ کو ڈھانپے ہوئے تھے یہاں تک کہ کمان ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور اس کے تیر ختم ہو گئے تو کمان قَتَادہ بن نُعمان نے لے لی اور وہ کمان ہمیشہ ان کے پاس رہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر پھینکنے لگے۔

نافع بن جُبیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے مہاجرین میں سے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں اُحد میں شریک ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ہر جانب سے تیر آ رہے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان میں ہیں۔ سارے تیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور ہو جاتے تھے اور میں نے عبداللہ بن شِہَاب زُہْرِی کو دیکھا کہ وہ اس دن کہہ رہا تھا کہ تم میری محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف راہنمائی کرو اگر وہ بچ گئے تو میں نہیں بچوں گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پہلو میں تھے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی نہ تھا۔ جب وہ آگے نکل گیا تو

صَفْوَان بن امیہ نے اس کو ملامت کی۔ اس نے کہا اللہ کی قسم! میں نے تو اُن کو نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ بھی اس طرح حفاظت فرما رہا تھا۔ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ وہ ہم سے محفوظ کر دیے گئے۔ اللہ کی قسم! ہم چار لوگ مکہ سے نکلے تھے اور ان کے قتل پر آپس میں عہد و پیمان کیے لیکن ہم ان تک نہیں پہنچ سکے۔

ابن سعد کہتے ہیں کہ ابو نَمِر کنانی نے کہا میں مشرکین کے ساتھ اُحد میں شریک ہوا اور میں نے اس دن پانچ نشانے بنا رکھے تھے ان پر اپنے تیر برساتا تھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتا رہا کہ آپؐ کے صحابہ کرامؓ آپؐ کو گھیرے ہوئے تھے اور تیر آپؐ کے دائیں بائیں گر رہے تھے۔ کچھ تیر آپؐ کے سامنے گر جاتے تھے کچھ پیچھے گر جاتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی ہدایت دی۔ بعد میں یہ مسلمان ہو گئے۔ (ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد4صفحہ196-197 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی ایک عجیب نمونہ ہے۔‘‘ آپؐ کی بہادری کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرما رہے ہیں ’’اور ایک پہلو سے ساری زندگی ہی تکلیفات میں گزری۔ جنگ اُحد میں آپؐ اکیلے ہی تھے۔ لڑائی میں حضور علیہ الصلوٰة والسلام کا اپنی نسبت رسول اللہ ظاہر کرنا آپؐ کی کس درجہ کی شوکت،جرأت اور استقامت کو بتاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلددوم صفحہ 309۔ایڈیشن 1984ء)

ایسے دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے تب بھی آپؐ نے یہ نہیں چھپایا کہ میں نہیں ہوں بلکہ اعلان کردیا۔ لوگوں کو پتہ لگ گیا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’انبیاء اور اولیاء اللہ کے لئے تکلیف اس قسم کی نہیں ہوتی جیسی کہ یہود کو لعنت اور ذلّت ہو رہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے بلکہ

انبیاء شجاعت کا ایک نمونہ قائم کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو اسلام کے ساتھ کوئی دشمنی نہ تھی مگر دیکھو! جنگ اُحد میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے۔ اس میں یہی بھید تھا کہ آنحضرتؐ کی شجاعت ظاہر ہو جبکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کے مقابل میں اکیلے کھڑے ہو گئے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ ایسا نمونہ دکھانے کا کسی نبی کو موقع نہیں ملا۔‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ 172-173۔ایڈیشن 2022ء)

یہ اخبار کے لکھنے والے نے لکھا ہے۔ کیونکہ یہاں اُحد میں تو تین ہزار کی تعداد تھی۔ ہو سکتا ہے کہ آپؐ نے دو جنگوں کا ذکر کیا ہو۔ جنگِ احزاب میں بھی دس ہزار لوگ کفار تھے اور دوسری جنگوں میں بھی دشمنوں کی کافی تعداد تھی۔ بہرحال اصل چیز جو آپؑ ثابت فرما رہے ہیں وہ ہے آپؐ کی بہادری اور نمونہ جب کفار کے سامنے بھی اکیلے کھڑے ہو گئے۔ ایسا نمونہ دکھانے کا کسی نبی کو موقع نہیں ملا۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ قادر ہے کہ جس شے میں چاہے طاقت بھر دیوے۔ پس اپنے دیدار والی طاقت اس نے اپنی گفتار میں بھر دی ہے۔ انبیاء نے اسی گفتار پر ہی تو اپنی جا نیں دے دی ہیں۔ کیا کو ئی مجازی عاشق اس طرح کر سکتا ہے؟ اس گفتار کی وجہ سے کو ئی نبی اس میدان میں قدم رکھ کر پھر پیچھے نہیں ہٹا اور نہ کو ئی نبی کبھی بے وفا ہوا ہے۔‘‘ یعنی کہ جب دعویٰ کیا ہے تو دعویٰ پر پھر قائم رہتے ہیں۔

’’جنگ ِاُحد کے واقعہ کی نسبت لوگوں نے تاویلیں کی ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ خدا کی اس وقت جلالی تجلّی تھی اور سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اَور کسی کو برداشت کی طاقت نہ تھی اس لئے آپؐ وہاں ہی کھڑے رہے اور با قی اصحاب کا قدم اکھڑ گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جیسے اس صدق وصفا کی نظیر نہیں ملتی جو آپؐ کو خدا سے تھا ایسا ہی ان الٰہی تائیدات کی نظیر بھی کہیں نہیں ملتی جو آپؐ کے شاملِ حال ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 268۔ایڈیشن 2022ء)

یہ ان شاء اللہ باقی آئندہ بیان کروں گا۔ اس وقت میں پہلے تو

ایک ذکرِ خیر

ہمارے دیرینہ خادم سلسلہ، مربی سلسلہ، مبلغ سلسلہ ڈاکٹر محمدجلال شمس

کاکرنا چاہتا ہوں۔ ان کا جنازہ تو میں نے کل پڑھا دیا تھا لیکن ذکر میں چاہتا تھا کہ جمعہ پہ بھی کر دوں۔ ایک قابل، لائق اور سادہ اور وفا دار واقفِ زندگی تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی اناسی79سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

1969ء میں جامعہ سے شاہد کی ڈگری انہوں نے اچھے نمبروں سے حاصل کی اور کچھ عرصہ پاکستان میں مختلف جگہوں پہ کام کیا۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے ارشاد پر ترکی زبان سیکھنے کے لیے پاکستان میںاسلام آباد بھجوا دیے گئے ۔ پھر ترکی زبان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے 1974ء میں ان کو ترکی بھجوایا گیا جہاں سے انہوں نے ترکی زبان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری اچھے نمبروں میں حاصل کی اور پھر حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر یوکے (UK)آئے۔ یہاں آپ کو برطانیہ اور پھر جرمنی میں بطور مبلغ سلسلہ خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ اس لیے آپ کو جاننے والے جو مختلف لوگ لکھ رہے ہیں وہ ترکی سے بھی ہیں اور جرمنی سے بھی، یوکے سے بھی ہیں۔ کافی وسیع ان کا حلقۂ احباب تھا اور واقفیت تھی۔ بہرحال بعد ازاں برطانیہ میں ان کو انچارج ترکی ڈیسک مقرر کیا گیا اور تادم وفات اس عہدہ پر نہایت اخلاص اور محنت سے خدمت بجا لاتے رہے۔ کمال درجہ کی ذہانت اور فطانت اور زیرکی سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا۔ ترکی میں آپ نےجب ترکش زبان کی ڈگری حاصل کی تو استنبول یونیورسٹی نے آپ کو پروفیسر کے طور پر جاب کی آفرکی اور اچھی جاب تھی، تنخواہ بھی غیر معمولی تھی۔ آپ نے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے اس سلسلہ میں راہنمائی چاہی تو حضور نے یہ نہیں کہا کہ کر لو یا نہ کرو بلکہ انہوں نے فرمایا کہ آپ ہی دعاؤں کے ساتھ فیصلہ کرو اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کروکہ تم کیا چاہتے ہو۔ تب آپ نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے وقف کو فوقیت دی اور اس جاب کا انکار کر دیا۔ 2002ء میں ترکی کے ایک دورے کے دوران ترکی میں آپ کو دو ساتھیوں کے ساتھ اسلام احمدیت کی تبلیغ کے جرم میں قید کر لیا گیا اور ساڑھے چار ماہ آپ کو اسیری کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔

آپ کے اہم کارناموں میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قرآن کریم کا ترکی زبان میں ترجمہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ترجمہ کرنے اور دیگر بہت سے تربیتی، تبلیغی پمفلٹس، ٹریکٹ اور کتب ترکش زبان میں لکھنے اور شائع کرنے کی بھی توفیق ملی۔ آپ علمی شخصیت تھے، مطالعہ کتب کا شوق تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی کتب اور خطابات کا بہت باریک بینی سے مطالعہ کرتے۔ کتب پر ہی نوٹس لیتے رہتے تھے۔ جماعتی کتب کے علاوہ غیر جماعتی مختلف علوم و فنون کی کتب پڑھنے کا بھی شوق رکھتے تھے۔ بہت نکتہ رس شخصیت تھے اور دوستوں اور عزیزوں سے بھی جو علمی گفتگو کرتے تو اس میںبڑی باریکی سے نکتے بیان کرتے۔ جہاں مشکل پیش آتی یا جب ان کو سمجھ نہیں آتی تھی تو یہ نہیں تھا کہ کسی قسم کا تکبر ہو بلکہ جونیئر مربیان سے بھی راہنمائی لیتے تھے۔

زبانیں سیکھنے کی خداداد صلاحیت تھی اور ملکہ حاصل تھا۔ اردو پنجابی تو مادری زبانیں تھیں اس کے علاوہ ترکی زبان میں بھی آپ نے پی ایچ ڈی کی اور غیر معمولی مہارت حاصل کی۔ پھر اسی طرح انگلش، عربی، جرمن اور فارسی بھی بول لیتے تھے بلکہ بعض جگہ انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکی مجالس میں عربی جاننے والا جب کوئی نہیں تھا تو عربی میں ترجمہ بھی کیا۔ سرائیکی بھی بول لیتے تھے۔ خطبہ کا شروع میں خطبہ کے فوراً بعد ترجمہ کیا کرتے تھے اور ترکی کے جو اہلِ زبان تھے وہ بھی آپ کی ترک زبان اور vocabularyکی بڑی تعریف کرتے تھے۔ تقریر و تحریر کا ملکہ بھی آپ کو بہت اچھا تھا۔ بہرحال مرحوم بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی کمال حد تک بجا لاتے تھے۔ رشتہ دار ہوںیا غیررشتہ دار ہوں سب سے یکساں محبت کرنے والے۔ بہت سے لوگوں نے مجھےخط لکھے ہیں۔ ہمدرد اور بے تکلف وجود تھے۔ ملاقات کے بعد یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے تھے۔ متوکل علی اللہ انسان تھے۔ غرباء، مساکین اور قابلِ امداد افراد کی خاموشی سے مدد کرتے تھے۔ خلافت سے بہت پیار اور والہانہ عشق رکھتے تھے۔ سچی خوابیں دیکھنے والے صاحبِ رؤیا تھے۔ ذکر الٰہی بہت زیادہ کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے بچوں کو، ان کی اہلیہ کو سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

دوسرے ذکر جو میں نے کرنے ہیں جن کے جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا وہ

تین جنازہ غائب

ہیں جو مَیں بعد میں پڑھاؤں گا۔ ان میں

پہلا ذکر محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب کا ہے۔

یہ گذشتہ دنوں ایک سو چھ106سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔کاغذات میں بعض جگہ سے ان کی عمر106ثابت ہوتی ہے بعض جگہ109۔ 106سال تو کم از کم ان کی عمر بہرحال تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد چودھری عبدالکریم صاحب کے ذریعہ ہوا جنہوں نے 19-1918ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔

ابراہیم بھامبڑی صاحب اپنے والد کی بیعت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خاندان میں احمدیت اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے والد صاحب کے ذریعہ آئی۔ میرے والد صاحب پہلے اہلِ حدیث فرقہ سے منسلک تھے۔ 1918ء میں ان کی نظر کافی کمزور ہو گئی۔ موتیا کی بیماری ہوگئی۔ علاج کی خاطر قادیان میں نور ہسپتال میں آ گئے۔ چونکہ میرے والد مشہور تھے۔جب لوگوں کو پتہ لگا کہ چودھری عبدالکریم صاحب ہسپتال میں داخل ہیں تو تیمار داری کرنے والے لوگ بھی آنے لگے۔ ماسٹر عبدالرحمٰن صاحب مہر سنگھ اور اَور دوسرے بزرگ بھی آتے رہے اور چودھری صاحب کی، ان کی خاطر تواضع بھی کرتے رہے۔ اور ان بزرگوں نے ان لوگوں کو تبلیغ بھی شروع کر دی۔ تو بھامبڑی صاحب لکھتے ہیں کہ والد صاحب کے ذہن میں اچھی طرح یہ مسئلہ حل ہو گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں ا ور دل میں بیٹھ گیا کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ نہیں ہیں بلکہ وفات یافتہ ہیں۔ جب ان کے دل نے یہ یقین کر لیا کہ مسیح موعودؑ بالکل برحق ہیں، سچ ہیں کیونکہ جب عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے تو پھر مسیح موعودؑ زمانے کی ضرورت تھی اور مسیح موعودؑ کے آنے کا یہی زمانہ تھا۔ اگر اب نہیں آنا تو پھر کب آنا ہے؟ انہوں نے قادیان میں اپنی بیماری کے دوران ہی بیعت کرلی۔ جب واپس اپنے گاؤں بھامبڑی آئے اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ انہوں نے احمدیت قبول کر لی ہے تو لوگوں نے آ کے ان سے بڑا افسوس کیا۔ انہوں نے کہا کہ میاں عبدالکریم صاحب اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ آپ نے قادیان جا کر مرزائی ہو جانا ہے تو خواہ آپ اندھے کیوں نہ ہو جاتے ہم آپ کو قادیان نہ جانے دیتے۔ تو ان کے والد صاحب اس کا جواب دیتے تھے کہ میری جسمانی بینائی کے ساتھ روحانی بینائی بھی تیز ہو گئی ہے اور کہتے تھے کہ روحانی بینائی جسمانی بینائی سے زیادہ ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا میں شکر ادا نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے راہ راست پر چلایا ہے اور میں علیٰ وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں۔ بہرحال گاؤں کے لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اتنا بغض تھا، مولویوں نے اتنا زہر دماغوں میں پیدا کیا ہوا تھا کہ کہا کرتے تھے کہ اگر آپ دعویٰ کریں مہدی ہونے کا تو ہم آپ کو مہدی مان لیں گے لیکن مرزا غلام احمد کو نہیں مانیں گے۔ اس پر ان کے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ یہی دیکھ لو یہی صداقت کی نشانی ہے کہ میں نے ان کو مان لیا اور برحق سمجھ کے مانا اس لیے تم لوگ بھی مان لو۔

بہرحال ان کے والد صاحب نے بھامبڑی صاحب کو اور بھامبڑی صاحب کے چھوٹے بھائی کو 1926ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل کروا دیا اور پانچ میل کا سفر روزانہ طے کر کے یہ سکول پڑھنے کے لیے آتے تھے۔ ان کے والد صاحب 1931ء میں فوت ہو گئے تو ان کے بھائیوں نے کوشش کی اور والدہ کو کہا کہ ان دونوں بھائیوں کو (ابراہیم بھامبڑی صاحب کو اور ان کے چھوٹے بھائی کو)وہاں قادیان نہ بھیجا کریں بہت دُور جانا پڑتا ہے۔ قریب کا سکول ہے یہاں داخل کروا دیتے ہیں لیکن والدہ نے یہی کہا کہ میں یہ نہیں کر سکتی۔ ان کے والد صاحب نے جو مدرسہ احمدیہ میں داخل کروایا ہے تو اب یہ مدرسہ احمدیہ میں ہی پڑھیں گے۔ اور اس طرح کہتے ہیں ہم وہاں قادیان جاتے رہے۔ پھر قادیان مدرسہ سے ساتویں جماعت پاس کر کے جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی۔ اس وقت ساتویں کے بعد جامعہ میں داخل ہوا جاتا تھا ۔ پھر 1941ء میں پرائیویٹ طور پر میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1939ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قصیدہ پورا ان کو یاد تھا۔ بہت ساری نظمیں کلام محمود کی، درثمین کی یاد تھیں۔ اقتباسات بہت سارے ان کو یاد تھے اور بڑے جلدی یہ حوالے دے دیا کرتے تھے۔

1939ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے زندگی وقف کر دی۔ جب حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؓ نے فرمایا۔ دفتری کام سیکھیں۔ یکم جنوری 1944ء میں مدرسہ احمدیہ میں دینیات اور عربی ٹیچر کے طور پر تقرری ہوئی۔ 1941ء سے 1947ء تک جماعتی خدمات سرانجام دیں۔1941ءتا 44ء تین سال حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے پرسنل سیکرٹری کے طور پر کام کیا۔ پھر نظارت بیت المال میں بھی آپ نے کام کیا کیونکہ حضرت مصلح موعودؓ نے دفتری کام سیکھنے کی تلقین فرمائی تھی۔ پھر 1947ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں بطور استادتقرری ہوئی اور پارٹیشن کے بعد تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں خدمت کی توفیق پائی۔ 1974ء تک یہ خدمات سرانجام دیتےرہے۔ 1974ء میں یہ سکول سے ریٹائرڈ ہوئے اور پھر 1975ء تا 1994ء وقف جدید میں بطور انسپکٹر وقف جدید ناظم ارشاد کا کام کیا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ حضرت مرزا طاہر احمد کے ساتھ بھی کام کرتے تھے اور ان کے ارشاد پر مختلف جگہوں کے دورے کرتے تھے اور معاملات نپٹاتے تھے۔معلمین کو پڑھانے کا بھی انہوں نے فریضہ انجام دیا۔ پچاس سال سے زائد عرصہ ان کو صدر محلہ دارالنصر کی خدمت کی بھی توفیق ملی۔ امام الصلوٰة تھے تو تراویح بھی پڑھایا کرتے تھے۔ قرآن کریم بھی ان کو کافی حفظ تھا۔

ان کی ایک بیٹی کہتی ہیں کہ رشتہ داروں سے آپ کا سلوک مثالی تھا۔ جتنے رشتہ دار بھی ربوہ سے باہر مقیم تھے ان کے بچوں نے ہمارے گھر میں رہ کر تعلیم حاصل کی۔ آپ کی طویل اور بابرکت فعال زندگی کا راز صبح سویرے فجر پر اٹھنا، ذکر الٰہی کثرت سے کرنا، پیدل چلنا اور سائیکل پر سکول اور دفتر آنا تھا۔ انتہائی سادہ خوراک لیتے تھے اور ہمیشہ قانع اور صابر رہتے تھے۔ خلفائے کرام سے بےانتہا اور سچی محبت رکھتے تھے۔ کہتی ہیں ہم سب بچے باہر تھے۔ جب ان کو کہتے کہ آپ باہر آ جائیں تو یہ کہا کرتے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ کی گور پر میں نے روزانہ دعا کے لیے جانا ہوتا ہے تو میں اب باہر نہیں آ سکتا۔ حضرت مصلح موعودؓ سے بھی ان کو ایک خاص محبت اور لگاؤ تھا۔ جب بھی کوئی آپ کے پاس دعا کے لیے آتا تو سب سے پہلے کہتے کہ خلیفۂ وقت کو خط لکھو پھر دعا کروں گا۔ پھر ہاتھ اٹھا کر اس کے لیے دعا بھی کیا کرتے تھے اور سونے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قصیدہ یا عین فیض اللّٰہ والعرفان والا پورا قصیدہ، سب اشعار پورے سونے سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔

پھر یہ لکھتی ہیں کہ میرے ابا جان ایک خواب کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے جو اُن کے والد یعنی ان کے دادا نے، بیٹی کے دادا نے دیکھی تھی کہ ابراہیم کھجور کے درخت کے اوپر چڑھ رہا ہے اور وہ ڈر رہے ہیں کہ میں کہیں نیچے نہ گر جاؤں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے کھجور کے درخت کے آخری حصہ تک پہنچ جاتا ہوں تو آپ یعنی میرے والد صاحب اس خواب کی تعبیر اپنی طویل عمری اور علم کی لیتے تھے۔

شیخ مبارک احمد صاحب ناظر دیوان پاکستان لکھتے ہیں کہ میں ان کا شاگرد بھی رہا۔ پھر پانچ سال ان کے ساتھ ٹیچر کے طور پہ سکول میں پڑھایا بھی۔ بورڈنگ میں بھامبڑی صاحب ٹیوٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔ بڑا لمبا عرصہ انہوں نے کام کیا ہے۔ بورڈنگ کے لڑکوں کے ساتھ احمدی اور غیراحمدی سب بچوں کے ساتھ پیار اور محبت اور شفقت کا سلوک روا رکھتے تھے۔ ہر لڑکے کی طبیعت اور مزاج کے مطابق تربیت کا الگ الگ طریقہ اختیار کرتے۔ لڑکے بھی آپ سے بہت جلد مانوس ہو جاتے اور باپ ہی کی طرح عزت اور سلوک رکھتے تھے۔ اکثر وقت بورڈنگ میں گزارتے۔ نماز کی امامت کرواتے۔ سب لڑکوں کی نماز میں خاص نگرانی کرتے اور بڑے پیار اور محبت کرنے والے، شفقت کرنے والے تھے۔

میں بھی ان کا شاگرد رہا ہوں ۔اور سختی بھی انہوں نے کی مجھ پر بلکہ میں جب ناظر اعلیٰ تھا تو ان کو ان کی سختی یاد کرایا کرتا تھا تو ہنس دیا کرتے تھے لیکن ساتھ ہمدردی ہوتی تھی۔ اصلاح کی غرض ہوتی تھی۔

صدارت کے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیے اور یہ کہا کرتے تھے کہ مجھے ان سب گھروں کاپتہ ہے جن میں کوئی مرد نہیں ہوتا جہاں عورتیں اکیلی رہتی ہیں۔ مرد باہر سفر پہ گئے ہوتے ہیں تو میں بازار جاتے ہوئے ان گھروں سے رابطہ کر کے آتا ہوں تا کہ شہر میں کوئی کام ہو تو بتا دیں۔ اور پھر ایک تھیلا ہوتا تھا، قلم ہوتی تھی، کاغذ ہوتا تھا اس پر لکھ لیتے تھے کہ کیا چیزیں لا کے دینی ہیں۔ پھر ہر گھر میں ان کا سودا پہنچا بھی دیا کرتے تھے۔ ڈاکخانہ میں خط پوسٹ کر دیتے اگر لکھنے والے ہوتے۔ اور اگر وہاں سے خط آئے ہوتے تو وہ ڈاکخانہ سے لے آتے اور ان کو گھروں میں پہنچا دیتے۔ پھر اگر کوئی کہتا خط پڑھ کے سنا دیں، کوئی اَن پڑھ ہوتا تو اس کو پڑھ کے سنا بھی دیا کرتے تھے۔ زبردست امین تھے کبھی کسی کی کوئی بات کسی دوسرے سے نہیں کرتے تھے۔ صدر محلہ ہونے کی وجہ سے ان کے پاس بعض معاملات بیویاں لے کے آتی تھیں، خاوندوں کی کمزوریاں بیان کرتی تھیں تو آپ خاوندوں کو بغیر احساس دلائے اچھا موقع دیکھ کے نصیحت کر دیا کرتے تھے اور معاملہ سلجھادیا کرتے تھے۔ الغرض محلے کے افراد مرد اور عورتیں اور بچے ان کو باپ کی طرح مہربان پاتے تھے۔

یہ ہے اصل طریقہ عہدیداروں کا کہ کس طرح ان کو لوگوں سے مل جل کے رہنا چاہیے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔

اور مربیان کو بھی نصیحت کیا کرتے تھے کہ کچھ نظمیں بھی یاد کرو ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شعری کلام بھی پڑھو۔ اس میں بھی نصیحتیں ہوتی ہیں اور خود انہوں نے بتایا کہ میں روزانہ قصیدے پڑھتا ہوں اور پھر سوتا ہوں۔ پس یہ مربیان کے لیے بھی نصیحت ہے۔

ان کی زندگی میں ان کی ایک بیٹی کو گاؤں سے ربوہ آتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ بڑے صبر اور سکون سے انہوں نے اس صدمہ کو برداشت کیا۔ پھر ایک دوسری بیٹی لندن میں فوت ہو گئیں۔ اس وقت یہ بیمار بھی تھے جنازہ ربوہ لایا گیا۔ اس وقت بھی بڑے حوصلے سے اس صدمہ کو برداشت کیا بلکہ دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرتے تھے۔ بہرحال انہوں نے ہر انداز سے ایک کامیاب زندگی گزاری اور لمبی زندگی گزاری اور اکثر کہا کرتے تھے کہ دوسرا جہان اس جہان سے بہت خوبصورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

میں نے اگلا جنازہ جس کا پڑھانا ہے وہ ہیں

یوسف جارے صاحب۔

گھانا کے رہنے والے ہیں۔ ان کی گذشتہ دنوں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

امیر مشنری انچارج گھانا لکھتے ہیں۔ مرحوم موصی تھے۔ مخلص احمدی دوست تھے۔ مختلف عہدوں پر فائز رہے اور بھرپور جماعتی خدمات کی توفیق پائی۔ وفات کے وقت دو احمدیہ سینیئر ہائی سکولوں کے چیئرمین بورڈ کے طور پر بھی خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ تعلیم کے شعبہ سے منسلک تھے۔ ریٹائرمنٹ سے قبل پورٹسن اور پھر کماسی کے احمدیہ سینیئر سکولوں کے ہیڈ ماسٹرکے طور پر خدمت انجام دیتے رہے۔ یوسف صاحب نے بطور صدر مجلس خدام الاحمدیہ گھانا بھی خدمت کی توفیق پائی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے 1988ء کے دورے کے دوران آپ بطور صدر مجلس خدام الاحمدیہ خدمت سرانجام دے رہے تھے اور سیکیورٹی کے سلسلہ میں بہت خدمت کی۔ مرحوم تعلیم کے شعبہ کے ساتھ منسلک تھے اور احمدی نوجوانوں کی تعلیم کے بارے میں ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ ان کے ایک پوتے اس وقت مربی سلسلہ ہیں اور خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا ذکر

الحاج عثمان بن آدم صاحب گھانا

کا ہے۔ یہ بھی اکیاسی سال کی عمر میں گذشتہ دنوں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کے بارے میں امیر مشنری انچارج لکھتے ہیں۔ وصیت کے نظام سے منسلک تھے۔ نہایت مخلص احمدی تھے۔ نمازوں کے پابند چندوں کی ادائیگی میں باقاعدہ، جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے، خلافت کے سچے وفادار اور یہی جذبہ انہوں نے اپنی اولاد میں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اپنے بچوں کی دینی اور دنیاوی تعلیم پر خوب توجہ دیا کرتے تھے۔ قرآن کریم کے فانٹی زبان کے ترجمہ میں بھی ان کا بڑا کردار ہے۔ ان کی بیگم کا کہنا ہے کہ مرحوم انتہائی تحمل مزاج اور محبت کرنےو الے انسان تھے۔ 2012ء میں اللہ کے فضل سے حج کی سعادت پائی۔ جماعت کے بہت سے افراد کو انہوں نے قرآن پڑھایا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 29؍ دسمبر 2023ء شہ سرخیاں

    ’’اسلامی لشکر کو کفار پر فتح حاصل کرنے کے بعد ایک عارضی شکست کا چر کہ اس لئے لگا کہ ان میں سے چند آدمیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی خلاف ورزی کی اور آپؐ کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے اپنے اجتہاد سے کام لینا شروع کر دیا۔ اگر وہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اسی طرح چلتے جس طرح نبض حرکت قلب کے پیچھے چلتی ہے۔ اگر وہ سمجھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کے نتیجہ میں اگر ساری دنیا کو بھی اپنی جانیں قربان کرنی پڑتی ہیں تو وہ ایک بے حقیقت شے ہے۔ اگر وہ ذاتی اجتہاد سے کام لے کر اس پہاڑی درّہ کو نہ چھوڑتے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس ہدایت کے ساتھ کھڑا کیا تھا کہ خواہ ہم فتح حاصل کریں یا مارے جائیں تم نے اس مقام سے نہیں ہلنا تو نہ دشمن کو دوبارہ حملہ کرنے کا موقع ملتا اور نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کو کوئی نقصان پہنچتا۔‘‘ (حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ)
    سُن لو! اس ذات کی قسم! جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بالشت بھی پیچھے نہیں ہٹے اور وہ دشمن کے مدّمقابل رہے
    اللہ تعالیٰ بھی اس طرح حفاظت فرما رہا تھا کہ صفوان بن امیہ نے کہا کہ مَیں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ وہ ہم سے محفوظ کر دیے گئے۔ اللہ کی قسم! ہم چار لوگ مکہ سے نکلے تھے اوران کے قتل پر آپس میں عہد و پیمان کیے لیکن ہم ان تک نہیں پہنچ سکے
    ’’انبیاء شجاعت کا ایک نمونہ قائم کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو اسلام کے ساتھ کوئی دشمنی نہ تھی مگر دیکھو! جنگ اُحد میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے۔ اس میں یہی بھید تھا کہ آنحضرتؐ کی شجاعت ظاہر ہو جبکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کے مقابل میں اکیلے کھڑے ہو گئے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ ایسا نمونہ دکھانے کا کسی نبی کو موقع نہیں ملا۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
    ’’جنگ ِاُحد کے واقعہ کی نسبت لوگوں نے تاویلیں کی ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ خدا کی اس وقت جلالی تجلّی تھی اور سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اَور کسی کو برداشت کی طاقت نہ تھی۔ اس لئے آپؐ وہاں ہی کھڑے رہے اور با قی اصحاب کا قدم اکھڑ گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جیسے اس صدق وصفا کی نظیر نہیں ملتی جو آپؐ کو خدا سے تھا ایسا ہی ان الٰہی تائیدات کی نظیر بھی کہیں نہیں ملتی جو آپؐ کے شاملِ حال ہیں۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
    غزوۂ اُحدکے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال شجاعت، ثابت قدمی اور جرأت کا تذکرہ
    مکرم ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب مربی سلسلہ و انچارج ٹرکش ڈیسک کا ذکر خیرنیز تین مرحومین مکرم ماسٹر محمد ابراہیم صاحب بھامبڑی (ربوہ)،مکرم یوسف اجارےصاحب (گھانا) اور مکرم الحاج عثمان بن آدم صاحب (گھانا) کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
    فرمودہ 29؍ دسمبر2023ء بمطابق 29؍ فتح 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور