حضرت محمد رسول اللہﷺ: اُسوۂ حسنہ
خطبہ جمعہ 26؍ جنوری 2024ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ میں جو زخم پہنچے تھےاس کی تفصیل میں بعض روایات اس طرح ہیں۔
حضرت ابن عباسؓ کی روایت کے مطابق اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰهِ عَلٰى مَنْ قَتَلَهُ النَّبِيُّ فِي سَبِيْلِ اللّٰهِ، اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰهِ عَلٰى قَوْمٍ دَمَّوْا وَجْهَ نَبِيِّ اللّٰهِ۔ اللہ تعالیٰ کا غضب اس شخص پر سخت ہو جاتا ہے جسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے راستے میں قتل کیا ہو اور اللہ تعالیٰ کا غضب اس قوم پر سخت ہو جاتا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خون آلود کر دیا ہو۔
طبرانی کی روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے تو فرمایا: اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰهِ عَلٰى قَوْمٍ كَلَّمُوْا وَجْهَ رَسُوْلِ اللّٰهِ۔اس قوم پر اللہ کا غضب انتہائی سخت ہو جاتا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کو زخمی کیا۔ پھر تھوڑی دیر رک کر فرمایا: اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِيْ فَاِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۔اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نادان ہیں۔
صحیحین کی روایت میں بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار فرما رہے تھے: اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِيْ فَاِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۔اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نادان ہیں۔(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد6صفحہ252-253 دار السلام ریاض)
پس آپؐ کی رحمت جو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں کامل طور پر رنگی ہوئی تھی اس حالت میں بھی غالب آئی جبکہ آپؐ زخمی تھے ،خون بہ رہا تھا اور آپؐ نے پھر یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے جب لوگ اس کے نبی پر ظلم کرتے ہیں ،اس کے پیارے پر ظلم کرتے ہیں ۔لیکن اے اللہ! یہ ظلم جو کر رہے ہیں یہ لاعلمی اور بیوقوفی کی وجہ سے کر رہے ہیں۔ ان کو بخش دے۔ ان پر ان کی غلطیوں کی وجہ سے عذاب نازل نہ کرنا۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ۔کیا شفقت اور رحمت کا مظاہرہ ہے!
صحیح بخاری میں یہ روایت اس طرح ہے۔قَالَ عَبْدُ اللّٰهِ كَاَنِّيْ أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ، يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ ضَرَبَهٗ قَوْمُهٗ فَأَدْمَوْهُ، وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهٖ وَيَقُوْلُ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَاِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۔(بخاری کتاب احادیث الانبیاء، حدیث 3477)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ گویا مَیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ نبیوں میں سے ایک نبی کا حال آپؐ سنا رہے ہیں جس کو اس کی قوم نے مار مار کر لہولہان کر دیا تھا۔ وہ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔
اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی سیرت خاتم النبیینؐ میں تفصیل لکھی ہے کہ ’’درّہ میں پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کی مدد سے اپنے زخم دھوئے اور جو دو کڑیاں آپؐ کے رخسار میں چبھ کر رہ گئی تھیں وہ ابوعبیدہ بن الجراح ؓنے بڑی مشکل سے اپنے دانتوں کے ساتھ کھینچ کھینچ کرباہر نکالیں حتیٰ کہ اس کوشش میں ان کے دو دانت بھی ٹوٹ گئے۔ اس وقت آپؐ کے زخموں سے بہت خون بہ رہا تھا اور آپؐ اس خون کو دیکھ کر حسرت کے ساتھ فرماتے تھے۔ کَیْفَ یَفْلَحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بِالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ۔ ’’کس طرح نجات پائے گی وہ قوم جس نے اپنے نبی کے منہ کو اس کے خون سے رنگ دیا۔اس جرم میں کہ وہ انہیں خدا کی طرف بلاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد آپؐ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوگئے اور پھر فرمایا۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَایَعْلَمُوْنَ۔ یعنی ’’اے میرے اللہ! تُو میری قوم کومعاف کر دے۔ کیونکہ ان سے یہ قصور جہالت اور لاعلمی میں ہوا ہے۔‘‘ روایت آتی ہے کہ اسی موقعہ پر یہ قرآنی آیت نازل ہوئی کہ لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِشَیْئٌ۔ یعنی عذاب وعفو کامعاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس سے تمہیں کوئی سروکار نہیں۔ خدا جسے چاہے گا معاف کرے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا۔ پھر لکھتے ہیں کہ ’’فاطمة الزہراؓ جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وحشتناک خبریں سن کر مدینہ سے نکل آئی تھیں وہ بھی تھوڑی دیر کے بعد اُحد میں پہنچ گئیں اورآتے ہی آپؐ کے زخموں کودھونا شروع کر دیا، مگر خون کسی طرح بندہونے میں ہی نہیں آتا تھا۔ آخر حضرت فاطمہؓ نے چٹائی کاایک ٹکڑا جلا کر اس کی خاک آپؐ کے زخم پرباندھی تب جاکر کہیں خون تھما۔ دوسری خواتین نے بھی اس موقعہ پرزخمی صحابیوں کی خدمت کر کے ثواب حاصل کیا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ497-498)
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کو اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ’’غزوہ اُحد کے موقعہ پر ایک پتھر آپؐ کے خَود پرآلگا اور اس کے کیل آپؐ کے سر میں گھس گئےاور آپؐ بے ہوش ہوکر ان صحابہؓ کی لاشوں پر جاپڑے جو آپؐ کے ارد گر د لڑتے ہوئے شہید ہوچکے تھے اوراس کے بعد کچھ اَور صحابہؓ کی لاشیں آپؐ کے جسم اطہر پر جا گریں اور لوگوں نے یہ سمجھا کہ آپؐ مارے جا چکے ہیں۔ مگر
جب آپؐ کو گڑھے سے نکالا گیا اور آپؐ کو ہوش آیا تو آپؐ نے یہ خیال ہی نہ کیا کہ دشمن نے مجھے زخمی کیا ہے۔ میرے دانت توڑدیئے ہیں اورمیرے عزیزوں اوررشتہ داروں اور دوستوں کو شہید کر دیا ہے بلکہ آپؐ نے ہوش میں آتے ہی دعاکی کہ رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ اے میرے ربّ! یہ لو گ میرے مقام کو شناخت نہیں کرسکے اس لئے تُوان کو بخش دے اوران کے گناہوں کو معاف فرما دے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 7صفحہ 67۔68 ایڈیشن2004ء)
اُحد میں فرشتوں کا حاضر ہونا اور ان کی لڑائی کرنے کے بارے میں بھی ذکر ملتا ہے۔
سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں اور بائیں دو آدمی دیکھے۔ اُن پر سفید لباس تھا۔ بڑی سخت لڑائی کر رہے تھے۔ مَیں نے ان دونوں کو نہ اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ اس کے بعد دیکھا۔ یعنی جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام اور اس کو بیہقی نے روایت کیا ہے۔
پھر مجاہد نے روایت کیا ہے۔ فرماتے ہیں: فرشتوں نے صرف بدر کے دن لڑائی کی تھی۔بیہقی کہتے ہیں کہ ان کی مراد یہ ہے کہ جب مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے گئے حکم پر صبر نہیں کیا تو اس وقت فرشتوں نے لڑائی نہیں کی۔ یہ اشارہ درّے والوں کی طرف ہے کہ جب انہوں نے اطاعت کا نمونہ دکھایا اور صبر کیا تو فرشتے حفاظت کر رہے تھے۔ جب انہوں نے بے صبری دکھائی تو فرشتوں نے اپنا سایہ اٹھا لیا۔ واللہ اعلم۔
اس بارے میں محمد بن عمر نے اپنے شیوخ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان بَلٰی اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا کے بارے میں روایت کیا ہے کہ انہوں نے صبر نہیں کیا اور بھاگ گئے تو ان کی مدد نہیں کی گئی اور ان سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ ان کے شیوخ نے کہا کہ مصعب بن عمیرؓ شہید ہو گئے تو مصعب بن عمیرؓ کی شکل میں ایک فرشتے نے جھنڈا پکڑ لیا اور اس دن فرشتے حاضر ہوئے تھے لیکن انہوں نے قتال نہیں کیا۔
حارث بن صِمَّہؓ ان حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے بارے میں پوچھا تو مَیں نے عرض کیا کہ مَیں نے ان کو پہاڑ کی جانب دیکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بیشک فرشتے ان کے ساتھ قتال کر رہے ہیں۔ حارثؓ کہتے ہیں پھر مَیں عبدالرحمٰن ؓکی طرف لوٹا تو مَیں نے ان کے سامنے سات کفار کو مرے ہوئے دیکھا تو مَیں نے کہا تیرا دایاں ہاتھ کامیاب ہو گیا۔ ان سب کو آپؓ نے قتل کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اس اور اس کو میں نے قتل کیا ہے اور ان لوگوں کو ایسے شخص نے قتل کیا ہے جس کو مَیں نے نہیں دیکھا۔تو مَیں نے کہا اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم سے سچ کہا تھا۔ یعنی فرشتے ان کے ساتھ مل کر قتال کر رہے تھے۔
ابن سعد نے عبداللہ بن فضل بن عباسؓ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں:اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمیرؓ کو جھنڈا دیا تو مصعب ؓشہید ہو گئے تو اس جھنڈے کو ایک فرشتے نے مصعب کی صورت میں پکڑ لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: اے مصعب! آگے بڑھو تو فرشتے نے آپؐ کی طرف متوجہ ہو کر کہا مَیں مصعب نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہچان گئے کہ یہ فرشتہ ہے اس کے ذریعہ آپؐ کی مدد کی گئی ہے۔
محمد بن ثابتؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے دن فرمایا:اے مصعب! تُو آگے بڑھ۔تو عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! مصعب تو شہید نہیں کر دیے گئے؟ آپؐ نے فرمایا:بالکل لیکن ایک فرشتہ ان کا قائمقام بنا ہے اور ان کا نام اس کو دے دیا گیا ہے۔
علامہ ابن عساکرؒ نے سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ اُحد کے دن مَیں نے خود کو دیکھا کہ مَیں تیر چلاتا ہوں اور ان تیروں کو میرے پاس سفید کپڑوں والا خوبصورت شخص واپس لے آتا تھا۔ مَیں اس کو نہیں جانتا تھا حتی کہ اس کے بعد مَیں گمان کرتا تھا کہ وہ فرشتہ تھا۔
عمیر بن اسحاق سے روایت ہے کہ اُحد کے دن لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور ہو گئے اور سعدؓ آپؐ کے سامنے تیر اندازی کرتے رہے اور ایک نوجوان ان کو تیر اٹھا کر دیتا۔ جب بھی تیر پھینکتے وہ اس کو اٹھا کر لے آتا۔ آپؐ نے فرمایا:اے ابواسحاق! تیر چلا۔ جب جنگ سے فارغ ہوئے تو نوجوان کو کہیں نہیں دیکھا اور نہ اس کو کوئی جانتا تھا۔
علامہ بیہقیؒ نے عروہ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗ(آل عمران:153) کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے صبر اور تقویٰ پر وعدہ کیا تھا کہ پانچ ہزار لگاتار فرشتوں کے ذریعہ ان کی مدد کریں گے اور اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی کیا لیکن جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کی اور صفوں کو چھوڑ دیا اور تیر اندازوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کو کہ اپنی جگہوں سے نہ ہٹنا کو چھوڑ دیا اور دنیا کا ارادہ کیا تو ان سے فرشتوں کی مدد اٹھا لی اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی کہ وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗ إِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖ(آل عمران: 153)اور یقیناً اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایاجب تم اس کے حکم سے ان کی بیخ کنی کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ان کو فتح دکھائی لیکن جب انہوں نے حکم عدولی کی تو ان کو آزمائش میں مبتلا کیا۔(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 205-206 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے بھی اپنے ایک خطبہ میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ’’صحابہ رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں جو فرشتے دیکھے گئے ان کے سروں پر سیاہ پگڑیاں تھیں اور ان کی ایک یونیفارم تھی۔ صحابہؓ نے جب ان فرشتوں کو مختلف حالتوں میں دیکھا تو اسی طرح سیاہ پگڑیاں انہوں نے پہنی ہوئی تھیں۔ جب روایتیں اکٹھی ہوئیں تو وہ تعجب میں پڑ گئے۔ مگر جیساکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مُسَوِّمِیْنَکی تفسیر فرمائی تھی ویسا ہی مقدر تھا اور بعینہٖ ایسا ہوا۔ اسی طرح جنگ اُحد میں جو فرشتے دکھائی دیے ان کے سروں پر بطور نشان سرخ پگڑیاں تھیں۔ (الدرالمنثور زیر آیت بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا … آل عمران 126)
سرخ رنگ میں کچھ غم کا پیغام بھی تھا کیونکہ جتنا دکھ صحابہؓ کو جنگ اُحد میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زخموں کی وجہ سے پہنچا ویسا دکھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ساری زندگی میں کبھی صحابہؓ کو نہیں پہنچا۔ ایک غم کے بعد دوسرے غم کی خبر ان کو ملی اور وہ غموں سے نڈھال ہو گئے۔ پس اس غزوہ میں فرشتوں کی علامت کے لئے بھی ایک ایسا رنگ چنا گیا جس میں غم اور خون اور دکھ کا پہلو شامل ہے۔‘‘
(خطبات طاہر جلد 2صفحہ 76خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 11؍فروری 1983ء)
یعنی سرخ رنگ۔
صحابہؓ کی ثابت قدمی اور جاںنثاری کے واقعات بھی بہت ہیں ۔کس طرح انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کیں۔
حضرت انس بن نضر انصاریؓ کے بارے میں ذکر ملتا ہے۔ حضرت انسؓ نے بیان کیا میرے چچا حضرت انس بن نضرؓ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہو سکے تھے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ !صلی اللہ علیہ وسلم میں پہلی جنگ میں غیر موجود تھا جو آپؐ نے مشرکوں سے لڑی۔ اگر اللہ نے مشرکوں سے جنگ میں مجھے شریک کیا تو پھر اللہ بھی ضرور دیکھ لے گا جو مَیں کروں گا۔ پس جب اُحد کا دن ہوا اور مسلمان میدان جنگ سے ہٹ گئے تو انہوں نے عرض کی اے اللہ! جو انہوں نے کیا ہے میں تیرے حضور اس کی معذرت کرتا ہوں۔ ان کی مراد ان کے ساتھی تھے۔یعنی جو مسلمان تتر بتر ہو گئے تھے۔اور پھر کہا کہ مَیں تیرے حضور براءت کا اظہار کرتا ہوں اس سے جو انہوں نے کیا۔ ان کی مراد مشرکین سے تھی۔ پھر وہ آگے بڑھے تو حضرت سعد بن معاذؓ ان کو سامنے سے ملے۔ انہوں نے کہا
اے سعد بن معاذؓ! جنت۔ پھر کہا کہ نضر کے ربّ کی قسم! مَیں تو اُحد کی طرف سے اس کی خوشبو پا رہا ہوں۔
حضرت سعدؓنے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! پھر جو کچھ انہوں نے کیا مَیں نہ کر سکا۔ جب یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کر رہے تھےتو کہتے ہیں پھر جس طرح وہ بےدھڑک، بے خوف ہوکر لڑے کہتے ہیں میں وہ نہیں کر سکا۔
حضرت انسؓ نے بیان کیا ہم نے ان پر اسّی سے کچھ زائد تلوار کے زخم پائے یا نیزے کے زخم اور تیروں کے زخم اور ہم نے آپؓ کو پایا آپؓ شہید ہو چکے تھے اور مشرکوں نے آپؓ کا مُثلہ کیا تھا۔ ان کو کوئی نہ پہچان سکا سوائے ان کی ہمشیرہ کے۔ ان کی انگلی کے پورے سے انہوں نے ان کو پہچانا۔
حضرت انسؓ نے بیان کیا ہم سمجھتے تھے یا یہ کہا کہ ہم خیال کرتے تھے کہ یہ آیت ان کے بارے میں اور ان جیسے دوسروں کے بارے میں اتری کہ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ(الاحزاب:24) ان مومنوں میںسے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس وعدے کو جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا سچا کر دکھایا۔(صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب قول اللّٰہ تعالیٰ من المؤمنین رجال صدقوا …حدیث2805)
ابنِ اسحاق کہتے ہیں۔ انس بن مالکؓ کے چچا انس بن نضرؓ کا گزر طلحہ بن عبید اللہؓ اور عمر بن خطابؓ وغیرہ مہاجرین اور انصار کے چند لوگوں کے پاس ہوا۔ یہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ انسؓ نے ان سے کہا تم لوگ کیوں بیٹھے ہوئے ہو؟ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو قتل ہو گئے۔ انسؓ نے کہا پھر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہ کر کیا کرو گے؟ جس طرح ان کا انتقال ہوا تم بھی اسی طرح مر جاؤ۔ پھر انسؓ کفار کی طرف متوجہ ہوئے اور اس قدر لڑے کہ آخر شہید ہو گئے۔ انہی کے نام پر انس بن مالکؓ کا نام رکھا گیا۔
انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں اس روز ہم نے انس بن نضرؓ کو اس حال میں پایا کہ ان کے جسم پر ستّر زخموں کے نشان تھے اور ان کی لاش کو کوئی نہ پہچان سکا سوائے ان کی بہن کے۔ انہوں نے انگلیوں کے پوروں سے ان کو پہچانا۔(سیرۃ النبیؐ لابن ہشام صفحہ 535دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ یوں لکھتے ہیں کہ
’’اس وقت نہایت خطرناک لڑائی ہو رہی تھی اور مسلمانوں کے واسطے ایک سخت ابتلاء اور امتحان کاوقت تھا اور… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر بہت سے صحابہ ؓہمت ہار چکے تھے اور ہتھیار پھینک کرمیدان سے ایک طرف ہوگئے تھے۔ انہی میں حضرت عمرؓ بھی تھے۔ چنانچہ یہ لوگ اسی طرح میدان جنگ کے ایک طرف بیٹھے تھے کہ اوپر سے ایک صحابی انس بن نضر انصاری ؓآگئے اور اُن کو دیکھ کر کہنے لگے۔ ’’تم لوگ یہاں کیا کرتے ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا۔ ’’رسول اللہؐ نے شہادت پائی۔ اب لڑنے سے کیا حاصل ہے؟‘‘
انسؓ نے کہا۔یہی تو لڑنے کا وقت ہے تا جو موت رسول اللہؐ نے پائی وہ ہمیں بھی نصیب ہو اور پھر آپؐ کے بعد زندگی کا بھی کیا لطف ہے؟
پھر ان کے سامنے سعد بن معاذؓ آئے تو انہوں نے کہا۔ ’’سعد! مجھے تو اس پہاڑی سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انس دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔ جنگ کے بعد دیکھا گیا توان کے بدن پر اسّی سے زیادہ زخم تھے اور کوئی پہچان نہ سکتا تھا کہ یہ کس کی لاش ہے۔ آخر ان کی بہن نے ان کی انگلی دیکھ کر شناخت کیا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ494-495)
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے بھی اس بارے میں بیان فرمایا ہے کہ
’’حضرت انسؓ کے چچا… جب جنگ اُحد ہوئی وہ بھی اس لڑائی میں شامل ہوئے اور انہوں نے خوب دادِ شجاعت دی۔ خوب لڑے اور خوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے حملوں سے بچایا۔ آخر فتح ہوئی اور فتح کے بعد مسلمان دشمن کو قیدی بنانے اور اس کا مال و اسباب جمع کرنے میں مشغول ہو گئے۔ نادان دشمن اس کا نام لوٹ مار رکھتا ہے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ جنگ ختم ہو گئی، مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے تو دشمن اس کا نام لوٹ مار رکھتا ہے۔ ’’حالانکہ یہ لوٹ مار نہیں ہوتی بلکہ دشمن کو کمزور کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ بہرحال انہوں نے سمجھا کہ اب میرا فرض پورا ہو گیا ہے۔ انہیں بھوک لگی ہوئی تھی اور چند کھجوریں ان کے پاس تھیں، وہ میدان جنگ سے کچھ پیچھے ہٹ کر فتح کی خوشی میں ٹہلنے لگ گئے اور کھجوریں کھانے لگے، کھجوریں کھاتے اور ٹہلتے ٹہلتے وہ ایک طرف آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک پتھر ہے جس پر حضرت عمر ؓبیٹھے ہوئے رو رہے ہیں۔ وہ ان کو دیکھ کر حیران ہو گئے کہ آج تو ہنسنے کا دن ہے، خوش ہو نے کا دن ہے، مبارکبادیوں کا دن ہے۔ ایسے موقع پر یہ رو کیوں رہے ہیں؟ چنانچہ وہ حضرت عمر ؓسے مخاطب ہوئے اور انہیں کہا کہ ارے میاں! آج تو خوشی کا دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی اور تم اس وقت رو رہے ہو۔ حضرت عمر ؓنے کہا شاید تمہیں پتہ نہیں کہ فتح کے بعد کیا ہوا۔ انہوں نے کہا کیا ہوا؟ حضرت عمر ؓنے کہا۔ دشمن کا لشکر پیچھے سے آیا اور اس نے دوبارہ حملہ کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی لشکر تتر بتر ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے۔ اس انصاری نے کہا عمرؓ تو پھر بھی یہ رونے کا کونسا مقام ہے۔ ایک کھجور ان کے ہاتھ میں رہ گئی تھی۔ وہ انہوں نے اسی وقت پھینک دی اور اسے کہا۔‘‘ یعنی کھجور کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’تیرے اورمیرے خدا کے درمیان ‘‘اور بہرحال اس وقت حضرت عمرؓ کو یا کھجور کو ہی کہاہو گا کہ تیرے اور میرے خدا کے درمیان ’’سوائے ایک کھجور کے اَور ہے کیا؟ پھر انہوں نے حضرت عمرؓ کی طرف دیکھا اور کہا عمرؓ ! اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو پھر اس دنیا میں ہمارا کیا کام ہے۔ پھر جہاں وہ گئے ہیں وہیں ہم بھی جائیں گے۔ یہ کہہ کر تلوار لی اور اکیلے ہی دشمن کے لشکر پر جو ہزاروں کی تعداد میں تھا، حملہ آور ہو گئے۔ ایک آدمی کی ہزاروں کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہوتی ہے۔ چاروں طرف سے ان پر حملے شروع ہو گئے اور وہ وہیں شہید ہو گئے۔ جنگ کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاش تلاش کرائی تو ان کے جسم کے ستر ٹکڑے ملے بلکہ بعض روایات میں آتا ہے کہ ان کی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی۔ آخر انگلی کے ایک نشان کے ذریعہ ان کی ایک بہن نے یا کسی اَور رشتہ دار نے ان کو شناخت کیا۔‘‘(خطبات محمود جلد 23صفحہ 442 – 443، خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 9؍ اکتوبر 1942ء )
پھر دوبارہ ایک جگہ اس واقعہ کو آپؓ نے یوں بیان فرمایا کہ
’’اُحد کی جنگ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو انہوں نے‘‘ یعنی حضرت انسؓ کے چچا نے ’’حضرت عمرؓ کو ایک ٹیلے پر بیٹھے اور روتے ہوئے دیکھا تو دریافت کیا کہ عمر رونے کی کیا بات ہے جبکہ مسلمانوں کو فتح ہو گئی ہے؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ تمہیں پتہ نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں؟
حضرت انسؓ کے چچا نے جب یہ بات سنی تو اس وقت وہ کھجوریں کھا رہے تھے اور صرف ایک کھجور ہاتھ میں تھی اسے اٹھا کر پھینک دیا اور کہا کہ میرے اور خدا کے درمیان اس کے سوا اَور کونسی روک ہے
اور اپنے عشق کے لحاظ سے حضرت عمرؓ کی طرف حقارت سے دیکھا اور کہا عمر! جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگلے جہان چلے گئے تو تم یہاں بیٹھے کیوں روتے ہو؟ جہاں آپؐ گئے وہیں ہم چلتے ہیں اور اکیلے ہی دشمن کے تین ہزار کے لشکر پر حملہ کر دیا۔ کفار بھی آپ کو شاید پاگل سمجھتے ہوں گے۔ آپ نے لڑتے لڑتے شہادت پائی اورجب جنگ کے بعد آپ کی لاش تلاش کروائی گئی تو ستّر ٹکڑے ملے۔ جوڑ جوڑ الگ ہو چکا تھا۔ ‘‘(خطبات محمود جلد 23 صفحہ 373،خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 4؍ستمبر 1942ء)
ان کی شہادت کے واقعات کو حضرت مصلح موعودؓ نے مختلف جگہوں پر تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ بعض جگہ زیادہ لمبی تفصیل سے ہے بعض جگہ کم۔ ایک جگہ آپؓ فرماتے ہیں کہ
’’ایک حدیث میں آتاہے کہ حضرت انسؓ بن نضر ایک انصاری صحابی جو غلطی کی وجہ سے جنگِ بدر میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے جب انہوں نے بدری صحابہؓ سے بدر کی جنگ کے کارنامے سنے تو جوش سے اٹھ کر ٹہلنے لگ گئے اورکہنے لگے یہ کیابات ہے۔ جب مجھے موقعہ ملا تو میں بتاؤں گا کہ مومن کیسی قربانیاں کرتا ہے۔ چنانچہ اُحد کی لڑائی میں وہ شامل ہوئے اور جب پیچھے کی طرف سے یک دم حملہ کی وجہ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اوروہ میدان جنگ سے ہٹ کر کچھ فاصلہ تک آگئے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے اورکفار کے پتھراؤ کی وجہ سے زخمی ہو کر دوسرے زخمیوں کے جسموں پر گر گئے اوراتنے میں کچھ اَور لوگ زخمی ہوکر آپؐ پر گر گئے اورچند منٹ کے بعد لوگوں نے آپ کوغائب دیکھ کرسمجھ لیا کہ آپؐ شہید ہوگئے ہیں توبعض لوگوں نے دوڑ کرمدینہ میں جواُحد کے قریب ہی تھا یہ مشہور کردیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں۔ یہ خبراُن لوگوں پربھی جو میدان جنگ سے صرف تھوڑے فاصلہ پر پیچھے تھے بجلی کی طرح گری۔ ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے۔ وہ ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے رو رہے تھے کہ انسؓ بن نضر جنہوں نے جنگ سے پہلے کھانانہیں کھایاتھا دوتین کھجوریں کھاتے ہوئے ان کے پاس سے گذرے۔اورچونکہ وہ اس وقت میدان جنگ سے آئے تھے جبکہ مسلمان فاتح ہوچکے تھے اور کفار شکست کھاچکے تھے اورحضرت عمرؓ اس وقت میدان جنگ سے آئے تھے جبکہ پیچھے کی طرف سے دشمن نے دوبارہ حملہ کیاتھا اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوکر گر گئے تھے اوربعض صحابہ ؓنے سمجھ لیاتھا کہ آپ شہید ہوگئے ہیں اس لئے آپؓ رورہے تھے‘‘ یعنی حضرت عمرؓ اس وقت رو رہے تھے۔ ’’اور انسؓ خوش تھے کہ ہم کو فتح نصیب ہوچکی ہے۔ پس ان کارونا انسؓ کوعجیب معلوم ہوا اور وہ حیرت سے حضرت عمرؓ کودیکھنے لگے اور کہنے لگے۔ عمرؓ ! یہ خوشی کاموقعہ ہے یارونے کا؟ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی ہے ہمیں توخوشی منانی چاہئے۔ حضرت عمرؓ نے سراٹھاکر ان کی طرف دیکھا اورکہا انسؓ! شاید تمہیں معلوم نہیں کہ بعد میں جنگ کانقشہ بدل گیا۔ دشمن نے پہاڑی کے پیچھے سے آکر دوبارہ حملہ کر دیا اور اچانک حملہ کی تاب نہ لا کر اسلامی لشکر بکھر گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے۔
اس وقت انس ؓکے ہاتھ میں آخری کھجور تھی۔ انہوں نے کھجور اٹھا کر زمین پر پھینک دی اور کہا میرے اور میرے محبوب کے درمیان سوائے اس کھجور کے اَور کیا حائل ہے۔
پھر حضرت عمرؓ کو دیکھا اور کہا
جو کچھ تم کہتے ہو اگر وہ سچ ہے توپھر بھی رونے کا موقعہ نہیں۔ ہمیں بھی ادھر جانے کی تیاری کرنی چاہئے جدھر ہمارا محبوب گیا ہے۔ یہ کہہ کر تلوار میان سے نکال لی اور دشمن کے جم غفیر پر جا پڑے۔
اکیلا آدمی سینکڑوں آدمیوں کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں ٹکڑے ٹکڑے ہوکر ان کاجسم زمین پر بکھر گیا۔اورجب خدا تعالیٰ نے پھر مسلمانوں کو غلبہ دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انس ؓبن نضر کو تلاش کرو۔ وہ کہاں ہیں؟تو لوگوں نے آکر خبر دی کہ ان کا تو کہیں پتہ نہیں لگتا آپؐ نے پھر ان کی تلاش کاحکم دیا۔ اتنے میں ان کی بہن مدینہ سے یہ وحشتناک خبر سن کر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں دوڑتی ہوئی میدان جنگ میں پہنچی اور آخر ایک جگہ پراُس نے ایک لاش کے ٹکڑے دیکھے۔ جن ٹکڑوں میں سے ایک انگلی کے ذریعہ اس نے پہچان لیا کہ یہ میرے بھائی انس ؓکی نعش ہے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 7صفحہ 585۔586 ایڈیشن2004ء)
[نوٹ:۔ تفسیر کبیر کے اس حوالہ میں مالک بن انس ؓنام لکھا ہوا ہے جبکہ احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں ان کا نام حضرت انس بن نضرؓ مذکور ہے۔ اس لیے یہاں اصل نام ہی درج کیا جارہا ہے۔]
یہ تھا صحابۂ رسولؐ کا عشق رسولؐ۔
یہ ذکر ابھی چل رہا ہے ۔ان شاء اللہ آئندہ بھی ہو گا۔
آج کل دعاؤں میں یمن کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں وہ آج کل کافی مشکلات میں گرفتار ہیں۔ اسی طرح مسلم اُمہ کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان میں بھی اکائی اور وحدت پیدا کرے اور عقل اور سمجھ دے۔ دنیا کے عمومی حالات کے لیے بھی دعا کریں۔ بڑی تیزی سے جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
نماز کے بعد مَیں
دو جنازے غائب
بھی پڑھاؤں گا۔
پہلا جنازہ
جس کا ذکر کروں گا وہ
مکرم حافظ ڈاکٹر عبدالحمید گامانگا صاحب نائب امیر سیرالیون ہیں۔
یہ 13؍جنوری کو مختصر علالت کے بعد پینتالیس سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔
موسیٰ میوہ صاحب امیر جماعت سیرالیون لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر گامانگا صاحب سیرالیون میں سب سے زیادہ چندہ وصیت ادا کرنے والے تھے۔ کہتے ہیں جب خاکسار نے لوگوں کو نئی جلسہ گاہ کے لیے جگہ خریدنے اور اس کے لیے مالی مدد کی اپیل کی تو ڈاکٹر صاحب نے سب سے زیادہ رقم کا وعدہ کیا اور اپنی وفات سے پہلے دس ہزار امریکی ڈالر بطور ڈونیشن ادا کیے۔ ڈاکٹر صاحب نے نصرت جہاں سکیم کے تحت پانچ سال کا وقف کیا تھا۔ نائیجیریا میں ان کی تقرری ہوئی تھی لیکن ابھی کارروائی ہو رہی تھی۔ کاغذات مکمل نہیں ہوئے تھے۔ اس عرصہ میں ان کو ہمارے ایک پاکستانی ڈاکٹر کے جانے کی وجہ سے فری ٹاؤن کے ہسپتال میں ہی خدمت کی توفیق ملی اور بہت محنت سے انہوں نے وہاں کام کیا۔ اور اس عرصہ کے دوران ان کو ہسپتال سے اپنی حصے کی جتنی بھی رقم ملی وہ انہوں نے ہسپتال کو عطیہ کر دی اور ہسپتال کی تزئین و مرمت کا کام کروایا۔ یہ رقم لوکل کرنسی میں دو لاکھ لیون بنتے ہیں۔ خلافت سے بہت محبت تھی۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا افسوس جس کی وجہ سے وہ افسوس کرتے تھے یہی تھا کہ خلیفہ وقت سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ میرے سے ملاقات کی دو دفعہ بہت کوشش کی لیکن ان کو ویزہ نہیں ملا۔ میڈیکل سروس کے دوران ضرورتمند مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ کئی احمدی طلبہ جن کے والدین ان کی کالج کی فیس نہیں ادا کر سکتے تھے ڈاکٹر صاحب ان کی مدد کرتے تھے۔ نہایت ایماندار،محنتی اور دوسروں کی مدد کرنے والے تھے۔ ان کی شادی ہمارے یہاں جو ٹومی کالون صاحب ہیں ان کی چھوٹی بہن قادیاتا گمانگا (Kadie Yatta Gamanga) سے ہوئی تھی۔ ان کے دو چھوٹے بچے ہیں۔ بیٹی تقریباً چار سال اور ایک بیٹا دو سال کاہے۔
وہاں کے مربی سعید الحسن شاہ کہتے ہیں کہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے جو مَیں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ جب موسیٰ میوہ صاحب نئے امیر بنے تو ان کی ٹیم کی نمایاں شخصیت ڈاکٹر گامانگا صاحب تھے۔ کینیا میں گائناکالوجسٹ کی سپیشل ڈگری لے کر سیرالیون میں آئے تھے۔ ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ انتھک محنت کرتے تھے۔دن رات محنت کرتے اور بھول جاتےتھےکہ ان کے بیوی بچے بھی ان کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ حافظ قرآن بھی تھے اور بہت خوبصورت آوا زمیں تلاوت کیا کرتے تھے۔ گذشتہ رمضان میں یہ کہتے ہیں کہ ہیڈکوارٹر میں نماز تراویح بھی انہوں نے پڑھائی اور لوگوں نے خوب لطف اٹھایا۔ عاجزی بھی ڈاکٹر صاحب کا ایک نمایاں وصف تھا۔ ہمیشہ مسکراتے چہرے سے ملتے اور اپنی بیماری اور تکلیف کو چھپا کر رکھتے تھے۔
سفیر احمد صاحب مربی ہیں، کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے۔علاقے میں اچھی شہرت کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں شفا رکھی ہوئی تھی۔ لوگ ان سے علاج کرانےکی غرض سے آتے۔ جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ آپ ان کا روحانی علاج بھی کرتے اور انہیں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تعلیمات سے آگاہ کرتے۔ مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند، تہجد گزار تھے۔ چندہ جات کی ادائیگی بروقت کرتے۔ جماعتی کاموں کے لیے اپنے دنیاوی کام ترک کر کے سلسلہ کی آواز پر فوری لبیک کہتے۔ جماعتی عہدیداران اور مربیان کا بہت احترام کرتے۔ نماز جمعہ کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے اور تمام مصروفیات چھوڑ کر پورٹ لوکو کی مسجد میں جمعہ کی ادائیگی کے لیے آتے۔
عبدالحئی کروما (Koroma) صاحب نائب امیر ثانی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر گامانگا صاحب سیرالیون کی لوکل زبان مینڈے (Mende) کی ترجمہ قرآن کمیٹی کے ممبر بھی تھے۔ پنجوقتہ نماز کے پابند،تہجد گزار۔ کہتے ہیں صحیح معنوں میں یہ وقف زندگی تھے۔ سرکاری ڈیوٹی کرنے کے بعد احمدیہ ہسپتال جاتے۔ مغرب کے وقت تک وہاں کام کرتے اور اس کے بعد مشن ہاؤس تشریف لے آتے۔ رات دیر تک کام کرتے اور پھر گھر جاتے۔ اکثر ان کو سچی خوابیں آتیں اور ان کی سچائی بھی ظاہر ہو جاتی۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے خلیفہ وقت کی ہدایت کے مطابق جماعت کے لیے دس سالہ تعلیمی پلان بنایا تا کہ مستقبل میں جماعت کے لیے بہت سارے کام کرنے والے میسر آسکیں۔ یہ کہتے ہیں خاکسار کو بطور نائب امیر ان سے گہرا تعلق تھا۔ جماعت سے محبت اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی، سخاوت، عاجزی، مالی قربانی بہت سی اچھی عادات ان میں تھیں۔
المامی سیسے صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے 1989ء میں جامعة المبشرین سیرالیون میں داخلہ لیا۔ 91ء میں پڑھائی مکمل کی۔ پڑھائی میں بہت اچھے نمبر لیے۔ ہمیشہ اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوتے تھے۔ جہاں پہلی تقرری ہوئی تو وہیں انہوں نے قرآن کریم حفظ کرنا شروع کر دیا۔ خود اپنے طور پر قرآن کریم حفظ کیا۔ پھر سول وار(civil war) ہو گئی۔ سیرالیون میں متعین تمام پاکستانی مبلغین کو وہاں سے جانا پڑا۔ ڈاکٹر صاحب پھر فری ٹاؤن آ گئے۔ مشنری کام کرتے رہے۔ اس عرصہ میں قائمقام امیر بھی رہے۔ یہاں مرکز کی طر ف سے سیرالیون کی جماعت کے لیے کچھ سامان بھیجا گیا۔ باغیوں کو پتہ چلا تو انہوں نے مشن ہاؤس پہ حملہ کیا۔ بہرحال یہ لوگ چھت کے اوپر اندر سیلنگ میں چھپ گئے۔لیکن ایک یہ جو بیان کرنے والے ہیں یہ ان باغیوں کے قابو آ گئے۔ انہوں نے ان کے سر پہ بندوق رکھ کے کہا ہم تمہیں مار دیں گے، سٹور کی چابیاں دو۔ تو جب یہ حالت دیکھی کہ واقعی خطرناک صورت ہے تو ڈاکٹر گامانگا صاحب کے پاس چابیاں تھیں وہ فوراً نیچے آئے اور چابیاں دے دیں۔ بہرحال انہوں نے اس میں سے تھوڑا سا سامان لیا اور چلے گئے۔
خالد محمود صاحب ہیں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب خلافت سے بہت ہی محبت اور اخلاص کا تعلق رکھنے والے تھے ۔مخلص انسان تھے۔ سب کی بہت عزت کرتے تھے۔ جماعت کا درد رکھنے والے۔ ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ بہت عزت سے پیش آتے۔ جماعت کی ترقی کے لیے کوئی بھی مشورہ دیتا تو فوراً مان جاتے۔ کہتے کہ جماعت میں ایسے مخلص ہونے چاہئیں جو ہر پل جماعت کی ترقی کی کوشش میں لگے رہیں۔ اور پھر کہتے ہیں کہ بہت کم ایسے انسان دیکھے ہیں جو غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے والے ہوں۔ ڈاکٹر صاحب ایک نڈر اور بہادر انسان تھے۔ بات کرنے کا انداز بڑا خوبصورت تھا۔ نرم لہجے میں ہر کسی سے بات کرتے۔ سب کام چھوڑ کر نماز کی ادائیگی کرتے۔ کوئی سخت بات بھی کرتا تو بہت نرم لہجے میں جواب دیتے اور ساتھ یہ بھی کہتے کہ احمدی کو ایسے سخت انداز میں بات نہیں کرنی چاہیے۔
لجنہ اماء اللہ یوکے سیرالیون میں اپنا ایک میٹرنٹی ہسپتال بنا رہی ہے۔ اللہ کے فضل سےبہت بڑا پراجیکٹ ہے۔ سابق صدر لجنہ ڈاکٹر فریحہ دیکھنے کے لیے گئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مَیں نے دیکھا کہ انتہائی نافع الناس وجود تھے۔ جب لجنہ کا میٹرنٹی ہسپتال دیکھنے گئی تو ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ لجنہ کے ہسپتال کے سلسلہ میں بہت قیمتی مشوروں سے نوازا۔ اس کے بعد اپنے گورنمنٹ ہسپتال کا ٹور کروایا۔ ان کے خدمت انسانیت کے جذبہ نے مجھے بہت متاثر کیا۔ باوجود نامساعد حالات کے بے شمار مریض ان کے پاس آتے تھے لیکن شکل پر سوائے مسکراہٹ اور ہمدردی کے کچھ نہیں ہوتا تھا۔عجیب لگن تھی کہ میں نے اپنے غریب ملک کے غریب شہریوں کی مدد کرنی ہے۔اور بہرحال ان کا یہ خیال تھا کہ میٹرنٹی ہسپتال جب بن جائے گا تو وہاں ان کو لگایا جائے گا مگراللہ تعالیٰ کے اپنے کام ہوتے ہیں۔
ان کی اہلیہ قادیاتا (Kadieyatha)کہتی ہیں کہ میرے خاوند ایک نیک انسان تھے جو مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ ہمیشہ جماعت کو اپنے ذاتی معاملات پر ترجیح دیتے تھے۔علاج کے لیے سینیگال گئے تھے۔توسینیگال جانے سے قبل انہوں نے مجھے کہا کہ ہمارا ایمان اور توکّل اللہ تعالیٰ پر ہے اور یہی سب کچھ ہمارا ہے۔ اس لیے جو کچھ بھی ہو تم نے پریشان نہیں ہونا۔ کہتی ہیں کہ اپنے مریضوں کا اور خاص طور پر احمدیوں کا مفت علاج کرتے، بہت خیال رکھتے۔ اَور کہتی ہیں کہ میرے خاوند کی وفات کے بعد مجھے بہت ساری خوبیاں پتہ لگیں۔ لوگوں نے بتایا۔ کہتی ہیں میں گواہی دیتی ہوں کہ پنجوقتہ نماز باقاعدگی سے ادا کرنے والے، تہجد گزار اور بلا ناغہ اپنی وصیت کی جو بھی آمد ہوتی تھی حساب کر کے چندہ ادا کرنے والے تھے۔ ہر سال رمضان کے مہینے میں قرآن کریم کا کم از کم ایک دَور مکمل کرتے اور مجھے بھی اس کی تلقین کیا کرتے تھے۔ بہت اچھے خاوند اور باپ تھے اور ہمیں خوش رکھنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ ان کے بیوی بچوں کا بھی حافظ و ناصر ہو۔
دوسرا ذکر ہے
طاہرہ نذیر بیگم صاحبہ جو طاہرہ رشید الدین کہلاتی ہیں۔
چودھری رشید الدین صاحب مربی سلسلہ کی اہلیہ ہیں۔ گذشتہ دنوں ان کی بھی وفات ہوئی ہے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا حضرت چودھری غلام حسین صاحبؓ کے ذریعہ ہوا تھا۔ اسی طرح ان کے نانا حضرت چودھری غلام حیدر صاحب دھاریوالؓ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ جیساکہ میں نے کہا چودھری رشید الدین صاحب کی اہلیہ تھیں۔ ان کا نکاح دسمبر 58ء میں مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں پڑھا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے دعا کروائی تھی۔
یہ اپنی ایک خواب کا بھی ذکر کرتی ہیں ۔کہتی ہیں 1980ء میں مجلس مشاورت میں مجھے جانے کے لیے ٹکٹ مل گیا۔ نمائندہ بن گئی۔ حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ بھی مشاورت میں شامل تھے۔ مجلس میں صحابہؓ پر یہ بحث ہو رہی تھی کہ عمر کے لحاظ سےکون صحابی میں شامل ہو اور کون نہیں۔ کہتی ہیں گھر آ کر مَیں نے بڑی حسرت سے کہا کہ اللہ میاں!کبھی مَیں بھی اس وقت ہوتی تو مَیں بھی صحابیات میں شامل ہوتی۔ کہتی ہیں اس دوران میں مَیں نے خواب دیکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت ہوئی۔ حضور پُرنورؑ میرے گھر میں دائیں کروٹ پر لیٹے ہوئے ہیں۔ مَیں سرہانے کی طرف جا کر کھڑی ہو جاتی ہوں۔ حضور علیہ السلام نے بڑی محبت سے میری طرف دیکھا اور پوچھا کہ کس طرح آئی ہو؟ مَیں نے عرض کیا کہ حضور مَیں آپؑ کو دبانا چاہتی ہوں۔ حضورؑ نے اپنا دایاں ہاتھ مجھے دیا اور مَیں کافی دیر تک دباتی رہی۔ اس کے بعد حضورؑمغرب کی نماز کے لیے صحن میں تشریف لے گئے۔ مَیں بھی باہر صحن میں جاتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ بہت ہجوم ہے اور لوگ کھڑکیوں اور روشندانوں پر حضورؑ کی زیارت کے لیے چڑھے ہوئے ہیں۔ ان سے پوچھتی ہوں کہ آپ کو کیسے پتہ لگا حضورؑ میرے گھر ہیں؟ انہوں نے کہا بس۔ تمہارے گھر آئیں اور ہمیں پتہ نہ لگے یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ کہتی ہیں چک سینتیس37والی بے جی ہیں وہ روٹی پکا رہی تھیں تو ان کو مَیں نے آواز دے کے کہا کہ روٹی پکانی چھوڑیں، حضورؑ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے گھر آئے ہیں۔ انہیں آ کے دیکھیں اور اس کے بعد مَیں کہتی ہوں کہ شوریٰ میں تو کہتے تھے کہ حضورؑ کو دیکھنے سے صحابہؓ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ میرے گھر تو حضور دو دن اور ایک رات ٹھہرے ہیں۔ مَیں تو صحابہؓ میں شامل ہو گئی ہوں۔ تو کہتی ہیں اللہ تعالیٰ کا بےانتہا شکر کس طرح ادا کروں۔
ان کے بیٹے ڈاکٹر علیم الدین ہیں، یہیں رہتے ہیں۔ آئر لینڈ میں نیشنل صدر بھی رہے ہیں۔ آج کل یہاں ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری والدہ کو بےشمار خوبیوں سے نواز اتھا۔ ان میں نمایاں طور پر تعلق باللہ۔اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت اور عشق کا تعلق تھا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ قبولیت دعا کی صفات کافی نمایاں تھیں۔ گویا صاحب رؤیا و کشوف تھیں۔ خلافت احمدیہ کے ساتھ ذاتی عشق و محبت تھا جو ساری زندگی نمایاں رہا اور اس کو اپنی اولاد میں بھی انہوں نے جاری رکھنے کی کوشش کی ۔ پھر کہتے ہیں کہ بچپن میں ہمارے گھر میں جن جن بزرگ ہستیوں کا ذکر ہوتا تھا، والدہ جو ذکر کرتی تھیں ان کی دنیاوی لحاظ سے نمایاں حیثیت نہیں ہوتی تھی بلکہ خلفاء ہوتے تھے یا بزرگ خواتین کے نام بچپن سے ہمارے کانوں میں گونجتے رہے۔اور ان سب بزرگوں کو والدہ صاحبہ دعا کے لیے مسلسل کہتی رہتی تھیں۔ یہ نہیں کہ خود دعا گو ہیں تو دوسروں کو نہیں کہنا۔ خود بھی لوگوں کو جا کےکہتی تھیں۔
اسی طرح کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ والدہ صاحبہ کی شخصیت میں جو بات سب سے نمایاں طور پر نظر آتی ہے وہ جماعت کے لیے غیرت تھی۔ ایک دفعہ ہمارے گھر میں عزیزوں میں سے دُور کے ایک عزیز نے جماعت کے بارے میں کوئی نامناسب الفاظ استعمال کیے۔عام طور پہ لوگ باتیں سن کے چپ ہو جاتے ہیں لیکن والدہ صاحبہ نے فورًا سخت جواب دیا۔ پہلے اُن کو روکا۔ پھر اس کی تصحیح کی۔ اور خاندان میں یہ بڑا مشہور تھا کہ کسی بھی عزیز سے لڑائی بھی مول لے لیں گی لیکن جماعت کی غیرت پر آنچ نہیں آنے دیں گی۔
ان کے خاوند چودھری رشید الدین صاحب وقف تھے، مربی تھے۔ دو مرتبہ تبلیغ کی غرض سے افریقہ گئے۔ یہ پاکستان میں رہیں اور اپنے بچوں کی پوری تربیت کی طرف کوشش کرتی رہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں یاد ہے کہ ہم جو لڑکے تھے، ہم بھائیوں کے ذاتی دوستوں کا بھی ان کو پتہ ہوتا تھا کہ کون لوگ ہیں؟ اور کیسے لڑکے ہیں؟ ہمیشہ یہ کہتی تھیں کہ محلے کے نیک اور اچھے پڑھنے لکھنے والے لڑکے سے دوستی ہونی چاہیے، ہر ایرے غیرے سے نہیں۔ پھر کہتے ہیں ایک بات جس کا میں نے مشاہدہ کیا اکثر آپ کی دوستی ان خواتین سے ہوتی تھی جن کا اللہ تعالیٰ سے محبت کا تعلق ہوتا تھا اور خود فرمایا کرتی تھیں کہ دنیاداروں کی مجلس میں مجھے مزہ نہیں آتا بلکہ ایسے لوگوں کی معیّت میں مزہ آتا ہے جو سادہ ہوں اور دین سے دلچسپی رکھتے ہوں۔
ان کی بیٹی زبدہ صاحبہ بلکہ تینوں بیٹیاں عابدہ، طیّبہ اور زبدہ کہتی ہیں کہ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا امی کو نہایت عبادت گزار، دعا گو، ملنسار اور خوش اخلاق پایا۔ عبادت بہت خشوع سے کرتیں۔نوافل اور تہجد شوق سے ادا کرتیں۔ جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو اپنے کمرے میں بند کر کے کتنی دیر تک سجدہ ریز رہتیں اور وقف زندگی میں بعض دفعہ تنگدستی وغیرہ کے بھی حالات آئے لیکن بڑے صبر اور حوصلے اور جانفشانی سے اللہ تعالیٰ پہ توکّل کرتے ہوئے ان کو برداشت کیا اور اللہ سے مانگتی رہیں۔حج پر جانے کی بھی ان کو سعادت حاصل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش بھی ان کی پوری کی۔ گیارہ اعتکاف انہوں نے کیے۔ ان کی یہ لڑکیاں کہتی ہیں کہ جو لوگ آنے والے تھے، خاص طور پر عورتوں نے ان کی شفقت، خوش اخلاقی اور ملنساری کا ذکر کیا۔ دینی کتب خاص طور پر پڑھتی تھیں اور خاص طور پر سیرت کی کتابیں بہت شوق سے پڑھا کرتی تھیں۔ جمعہ کے دن عبادت کا خاص اہتمام کرتیں ۔کئی گھنٹے پہلے مسجد میں چلی جاتیں، نوافل ادا کرتیں۔
ان کے ایک بیٹے سلیم الدین صاحب جو ہیں مربی ہیں اور آج کل ربوہ میں ناظر امور عامہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ والدہ واقف زندگی کی اہلیہ تھیں اور نکاح جیساکہ میں نے بتایا جلال الدین صاحب شمسؓ نے پڑھایا اور حضرت مصلح موعودؓ نے دعا کرائی۔ اس کا بھی واقعہ والد صاحب نے ان کو بتایا کہ ان کے والد کا یعنی طاہرہ صاحبہ کے خاوند کا نکاح کہیں اَور ہو رہا تھا اور سب تیاریاں مکمل تھیں۔ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے مسجد نصرت ربوہ میں یہ نکاح پڑھانا تھا۔ سب لوگ آئے ہوئے تھے۔ حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب نے سب کا نکاح تو پڑھا دیا لیکن ان کا نہیں پڑھایا اور کہا کہ تم واقف زندگی ہو تمہارا [نکاح] حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھائیں گے یا ان کی موجودگی میں ہو گا۔تو بہرحال کچھ یوں ہوا کہ کچھ عرصہ بعد جہاں رشتہ ہوا تھا اور نکاح ہونا تھا وہاں سے، لڑکی والوں کی طرف سے انکار ہو گیا اور پھر ان کا نکاح طاہرہ صاحبہ سے ہوا اور یہ شادی بڑی بابرکت ہوئی۔
چندوں میں بڑی باقاعدہ تھیں ۔کینیڈا کی سیکرٹری مال کہتی ہیں کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ رجسٹر کھول کے چندے کا حساب کر رہی ہوں۔اسی دوران یہ طاہرہ رشید الدین صاحبہ پاس آ کر بیٹھ جاتی ہیں۔ مَیں کہتی ہوں اگر آپ اس وقت چندہ تحریک جدید میں پانچ ہزار ڈالر ادا کر دیں تو آپ کا نام پانچ ہزاری رجسٹر میں شامل ہو جائے گا اور یہ خواب میں مجھے آمادگی کا اظہار کرتی ہیں۔ اس وقت یہ پاکستان گئی ہوئی تھیں۔ پاکستان سے واپس آئیں تو انہوں نے ان کو خواب سنائی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے امید تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے ان کو کشائش بھی دے دی تھی کہ یہ اس طرح ہی کریں گی۔ جب خواب سنائی تو انہوں نے فوری طور پر پانچ ہزار ڈالر ادا کر دیے۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے ۔ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپؐ کی رحمت جو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں کامل طور پر رنگی ہوئی تھی اس حالت میں بھی غالب آئی جبکہ آپؐ زخمی تھے ،خون بہ رہا تھا اور آپؐ نے پھر یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے جب لوگ اس کے نبی پر ظلم کرتے ہیں ،اس کے پیارے پر ظلم کرتے ہیں ۔لیکن اے اللہ! یہ ظلم جو کر رہے ہیں یہ لاعلمی اور بیوقوفی کی وجہ سے کر رہے ہیں۔ ان کو بخش دے۔ ان پر ان کی غلطیوں کی وجہ سے عذاب نازل نہ کرنا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ۔ کیا شفقت اور رحمت کا مظاہرہ ہے!
جب آپؐ کو گڑھے سے نکالا گیا اور آپؐ کو ہوش آیا تو آپؐ نے یہ خیال ہی نہ کیا کہ دشمن نے مجھے زخمی کیا ہے۔ میرے دانت توڑدیئے ہیں اورمیرے عزیزوں اوررشتہ داروں اور دوستوں کو شہید کر دیا ہے بلکہ آپؐ نے ہوش میں آتے ہی دعاکی کہ رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ اے میرے ربّ! یہ لو گ میرے مقام کو شناخت نہیں کرسکے اس لئے تُوان کو بخش دے اوران کے گناہوں کو معاف فرما دے
جنگ اُحد میں جو فرشتے دکھائی دیے ان کے سروں پر بطور نشان سرخ پگڑیاں تھیں۔سرخ رنگ میں کچھ غم کا پیغام بھی تھا کیونکہ جتنا دکھ صحابہؓ کو جنگ اُحد میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زخموں کی وجہ سے پہنچا ویسا دکھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ساری زندگی میں کبھی صحابہؓ کو نہیں پہنچا۔ ایک غم کے بعد دوسرے غم کی خبر ان کو ملی اور وہ غموں سے نڈھال ہو گئے۔ پس اس غزوہ میں فرشتوں کی علامت کے لئے بھی ایک ایسا رنگ چنا گیا جس میں غم اور خون اور دکھ کا پہلو شامل ہے
اس روز ہم نے انس بن نضرؓ کو اس حال میں پایا کہ ان کے جسم پر ستّر زخموں کے نشان تھے اور ان کی لاش کو کوئی نہ پہچان سکا سوائے ان کی بہن کے۔ انہوں نے انگلیوں کے پوروں سے ان کو پہچانا
جنگِ اُحد میں آنحضورﷺکو پہنچنے والی تکالیف، فرشتوں کا نزول اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی جاںنثاری کا ایمان افروز تذکرہ
یمن کے احمدیوں، امّتِ مسلمہ نیزدنیا کے عمومی حالات کے لیے دعا کی تحریک
آج کل یمن کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں وہ آج کل کافی مشکلات میں گرفتار ہیں۔ اسی طرح مسلم اُمہ کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان میں بھی اکائی اور وحدت پیدا کرے اور عقل اور سمجھ دے۔ دنیا کے عمومی حالات کے لیے بھی دعا کریں۔ بڑی تیزی سے جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے
مکرم حافظ ڈاکٹر عبدالحمید گامانگا صاحب نائب امیر جماعت سیرالیون اورمکرمہ طاہرہ نذیر بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم چودھری رشید الدین صاحب مربی سلسلہ کا ذکرخیر اور نمازجنازہ غائب
فرمودہ 26؍جنوری2024ء بمطابق 26؍ صلح 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔