حضرت محمد رسول اللہﷺ: اُسوۂ حسنہ
خطبہ جمعہ یکم مارچ 2024ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ
جنگ اُحد کے حالات
کے ضمن میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمیوں اور شہداء کو جمع کیا۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کی گئی اور شہداء کے دفنانے کا انتظام کیا گیا۔ اس وقت آپؐ کو معلوم ہوا کہ ظالم کفارِ مکہ نے بعض مسلمان شہداء کے ناک کان بھی کاٹ دئیے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ جن کے ناک کان کاٹے گئے ہیں ان میں خود آپؐ کے چچا حمزہؓ بھی تھے۔ آپؐ کو یہ نظارہ دیکھ کر افسوس ہوا اور آپؐ نے فرمایا کفّار نے خود اپنے عمل سے اپنے لئے اس بدلہ کو جائز بنا دیا ہے جس کو ہم ناجائز سمجھتے تھے۔ مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اس وقت آپؐ کو وحی ہوئی کہ کفّار جو کچھ کرتے ہیں ان کوکرنے دو۔ تم رحم اور انصاف کادامن ہمیشہ تھامے رکھو۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20صفحہ254-255)یہ ہے اسلام کی تعلیم۔
حضرت حمزہؓ کی تدفین اور تکفین کے بارے میں
آتا ہے کہ حضرت حمزہؓ کو ایک ہی کپڑے میں کفن دیا گیا، کچھ پہلے مَیں مختصر بیان کر چکا ہوں بلکہ تفصیلی بیان کر چکا ہوں۔ بعض باتیں نہیں آئی تھیں۔ جب ان کا سر ڈھانکا جاتا تو دونوں پاؤں سے کپڑا ہٹ جاتا اور جب چادر پاؤں کی طرف کھینچ دی جاتی تو ان کے چہرے سے کپڑا ہٹ جاتا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپؓ کا چہرہ ڈھانک دیا جائے اور پاؤں پر حَرمل یا اذخر گھاس رکھ دی جائے۔ حضرت حمزہؓ اورحضرت عبداللہ بن جحشؓ کو جو کہ آپؓ کے بھانجے تھے ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے حضرت حمزہؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ الطبقات الکبریٰ کا یہ حوالہ ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 6-7 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)(مسند احمد جلد 7صفحہ 72 حدیث 21387 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
اور ان شہداء کی نماز جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کے بارے میں بحث مَیں گذشتہ خطبہ میں بیان کر چکا ہوں۔
نَوحہ اور بَین جو مُردوں پہ، فوت شدگان پہ کیا جاتا ہے
اس کی کس پُرحکمت انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی۔
ایک روایت میں آتا ہے اور یہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اُحد سے واپس لَوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ انصار کی عورتیں اپنے خاوندوں پر روتی اور بین کرتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا بات ہے حمزہؓ کو کوئی رونے والا نہیں؟ انصار کی عورتوں کو پتہ چلا تو پھر وہ حضرت حمزہؓ کی شہادت پر بَین کے لیے اکٹھی ہو گئیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ لگ گئی۔ میرے خیال میں مسجد میں ہی کچھ فاصلے پہ تھے۔ اور جب بیدار ہوئے تو وہ خواتین اسی طرح رو رہی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج یہ لوگ حمزہ کا نام لے کر روتی ہی رہیں گی؟ بند نہیں کریں گی۔ انہیں کہہ دو کہ واپس چلی جائیں۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ اپنے گھروں کو واپس لَوٹ جائیں اور آج کے بعد کسی مرنے والے کا ماتم اور بَین نہ کریں۔ (مسند احمد جلد 2 صفحہ 418-419 حدیث 5563 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
تو اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مُردوں پر نوحہ کرنا ناجائز قرار دیا اور کسی بھی قسم کا نوحہ اور بین ختم کر دیا۔ یوں بڑی حکمت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں کے جذبات کا خیال رکھا۔ انہیں اپنے خاوندوں اور بھائیوں کی جدائی پر ماتم سے روکنے کی بجائے حضرت حمزہؓ کا ذکر کیا۔ ان پر رونے والا کوئی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حمزہؓ کی شہادت پر پھر لاش کی بے حرمتی دیکھ کر شدید غم تھا لیکن جب دیکھا کہ انصار عورتیں اب یہ نوحہ بند ہی نہیں کر رہیں۔ یہ ایک رسم ہی تھی تو پھر اس پر اس رسم کو ختم کرنے کے لیے اپنا نمونہ پیش کر دیا اور انہیں صبر کی تلقین کی۔ ایسی تلقین جو پُراثر تھی۔
جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حمزہؓ کی جدائی کے غم کا تعلق ہے وہ آخر تک آپؐ کو رہا۔ ہمیشہ اس کا ذکر کرتے تھے۔
حضرت کعب بن مالکؓ نے حضرت حمزہؓ کی شہادت پر اپنے مرثیہ میں کہا تھا کہ میری آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور حمزہ کی موت پر انہیں رونے کا بجا طور پر حق بھی ہے۔ مگر خدا کے شیر کی موت پر رونے دھونے اور چیخ و پکار سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ وہ خدا کا شیر حمزہ کہ جس صبح وہ شہید ہوا دنیا کہہ اٹھی کہ شہید تو یہ جوانمرد ہوا ہے۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 69 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
حضرت مُصعبؓ کی تدفین کے بارے میں
آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت مصعبؓ کی نعش کے پاس پہنچے۔ ان کی نعش چہرے کے بل پڑی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس کھڑے ہو کر یہ آیت تلاوت فرمائی کہ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَابَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا۔(الاحزاب:24) کہ مومنوں میں سے ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا اسے سچا کر دکھایا۔ پس ان میں سے وہ بھی ہے جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہے جو ابھی انتظار کر رہا ہے اور انہوں نے ہرگز اپنے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ يَشْهَدُ أَنَّكُمُ الشُّهَدَاءُ عِنْدَ اللّٰهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کہ خدا کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بھی اللہ کے ہاں شہداء ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ان کی زیارت کر لو اور ان پر سلام بھیجو۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روز قیامت تک جو بھی ان پر سلام کرے گا یہ اس کے سلام کا جواب دیں گے۔ حضرت مصعبؓ کے بھائی حضرت ابو رُوم بن عُمیرؓ حضرت سُوَیْبِطبن سعدؓ اور حضرت عامر بن رَبِیعہ ؓنے حضرت مصعبؓ کو قبر میں اتارا۔ (الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ89-90 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سیرت خاتم النبیینؐ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اُحد کے شہداء میں ایک صاحب مصعب بن عمیرؓ تھے۔ یہ وہ سب سے پہلے مہاجر تھے جو مدینہ میں اسلام کے مبلغ بن کر آئے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں مصعبؓ مکہ کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ خوش پوش اور بانکے سمجھے جاتے تھے‘‘ بڑے اچھے لباس پہننے والے اور بڑے رکھ رکھاؤ والے تھے۔ ’’اوربڑے نازونعمت میں رہتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ان کی حالت بالکل بدل گئی۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ان کے بدن پر ایک کپڑا دیکھا جس پر کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔ آپؐ کو ان کا وہ پہلازمانہ یاد آگیا تو آپؐ چشم پُرآب ہو گئے۔‘‘ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ’’اُحد میں جب مصعب شہید ہوئے تو ان کے پاس اتنا کپڑا بھی نہیں تھا کہ جس سے ان کے بدن کو چھپایا جا سکتا ہو۔ پاؤں ڈھانکتے تھے توسرننگا ہوجاتا تھا اور سر ڈھانکتے تھے توپاؤں کھل جاتے تھے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سر کو کپڑے سے ڈھانک کر پاؤں کو گھاس سے چھپا دیا گیا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ501)
اُحد کے دن جنگ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا بھی کی۔ اس کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ حضرت رِفَاعَہ بن رَافِع زُرَقِیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کے دفن سے فارغ ہونے کے بعد اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور مسلمان آپؐ کے ارد گرد تھے۔ اکثر زخمی تھے اور بنو سلمہ اور بنو عبد الْاَشْھَل کے زخمی زیادہ تھے اور آپؐ کے ساتھ چودہ خواتین تھیں۔ جب اُحد کے نیچے پہنچے تو آپؐ نے فرمایا تم سب صف بناؤ تاکہ مَیں اپنے رب تعالیٰ کی ثنا کروں تو آپؐ کے پیچھے مَردوں نے صف بنائی۔ اور ان کے پیچھے عورتوں نے تو آپؐ نے یہ کلمات کہے۔ اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهٗ، اَللّٰهُمَّ لَا قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلَا بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ، وَلَا هَادِيَ لِمَنْ أَضْلَلْتَ، وَلَا مُضِلَّ لِمَنْ هَدَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُقَرِّبَ لِمَابَاعَدْتَ وَلَا مُبْعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، اَللّٰهُمَّ ابْسُطْ عَلَيْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ وَرَحْمَتِكَ وَفَضْلِكَ وَرِزْقِكَ اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ النَّعِيْمَ الْمُقِيْمَ الَّذِي لَا يَحُوْلُ وَلَا يَزُوْلُ، اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ النَّعِيْمَ يَوْمَ الْعَيْلَةِ۔ اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ الْأَمْنَ يَوْمَ الْخَوْفِ وَالْغِنٰی یَوْمَ الفَاقَۃِ اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَائِذٌ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أَعْطَيْتَنَا وَمِنْ شَرِّ مَا مَنَعْتَنَا اَللّٰهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْإِيْمَانَ وَزَيِّنْهُ فِي قُلُوبِنَا، وَكَرِّه إِلَيْنَا الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِينَ، اَللّٰهُمَّ تَوفَّنَا مُسْلِمِيْنَ وَأَحْيِنَا مُسْلِمِيْنَ، وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِيْنَ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا مَفْتُونِيْنَ، اَللّٰهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِيْنَ يُكَذِّبُوْنَ رُسُلَكَ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِكَ، وَاجْعَلْ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، اَللّٰهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِيْنَ أُوْتُوا الْكِتَابَ، إِلٰهَ الْحَقِّ۔ [آمین]۔
اے اللہ! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ اے اللہ! جس چیز کو تُو کشادہ کر دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو تُو قبض کر لے اس کو کوئی کشادہ نہیں کر سکتا اور جس کو تُو گمراہ کر دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جس کو تُو ہدایت دے دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جو چیز تُو روک لے اس کا کوئی عطا کرنے والا نہیں اور جو تُو عطا کرے اس سے کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو تُو دُور کر دے اس کو کوئی قریب کرنے والا نہیں ہے اور جس کو تُو قریب کر دے اس کو کوئی دُور کرنے والا نہیں ہے۔ اے اللہ! ہم پر اپنی برکات اور رحمت اور اپنے فضل اور رزق میں سے کشادگی کر۔ اے اللہ! ہم تجھ سے تیری ایسی قائم ہونے والی نعمتوں کا سوال کرتے ہیں جو نہ پھریں اور نہ زائل ہوں۔ اے اللہ! ہم فقر کے دن تجھ سے نعمتوں کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تجھ سے خوف کے دن امن کا سوال کرتے ہیں اور فاقے کے دن غنیٰ کا۔ اے اللہ! مَیں تجھ سے ان چیزوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو تُو نے ہمیں عطا کیں اور اس کے شر سے جس سے تُو نے ہمیں منع کیا۔ اے اللہ! ایمان کو ہماری طرف محبوب کر دے اور اس کو ہمارے دلوں میں مزیّن کر دے اور ہماری طرف کفر، فسق اور نافرمانی کو ناپسند کر دے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلنے والوں میں سے بنا دے۔ اے اللہ! ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں زندہ کر اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ اس طرح لاحق کر دے کہ نہ ہم رسوا ہوں اور نہ فتنے میں پڑیں۔ اے اللہ! ان کافروں کو ہلاک کر دے جو تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیرے راستے سے روکتے ہیں اور ان پر اپنی سزا اور عذاب نازل کر۔ اے اللہ! اے معبودِ حق!! اہل کتاب کافروں کو ہلاک کر۔ آمین۔(سبل الہدی والرشاد۔جلد 4۔صفحہ نمبر 227۔دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)یہ دعا تھی جو آپؐ نے وہاں اس وقت سب لوگوں کو اکٹھا کر کے پڑھی۔
غزوۂ اُحد میں صحابیات کے کردار کا مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا، مزید ذکر کرتا ہوں۔
غزوۂ اُحد میں جہاں مَردوں نے جاںنثاری کی تاریخ رقم کی وہاں خواتین نے بھی اسلامی لشکر کے شانہ بشانہ خدمت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ حضرت ام سَلَمہؓ کے بارے میں روایت میں ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے غزوۂ اُحد میں شرکت کی تھی۔
چنانچہ حضرت مُطَّلِب بن عبداللہ بن حَنْطَبؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس روز اُحد کی جانب روانہ ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں مدینہ کے قریب ایک جگہ ’’شیخین‘‘ کے پاس رات قیام کیا جہاں حضرت ام سلمہؓ ایک بھنی ہوئی دستی لائیں جس میں سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا۔ اسی طرح نبیذ لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبیذ پی۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 67 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ حریرہ کی طرح کی کوئی چیز تھی۔
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ اُحد کے دن مَیں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ اور اپنی والدہ امّ سُلَیم کو دیکھا۔ وہ مشک میں پانی بھر بھر کر لاتی تھیں اور پیاسوں کو پلاتی تھیں۔ بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت انسؓ نے بیان کیا جب اُحد کا دن ہوا تو لوگ شکست کھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ گئے یعنی پرے چلے گئے۔ پھر راوی کہتے ہیں کہ اَور مَیں نے حضرت عائشہ بنت ابوبکر کو دیکھا اور حضرت امّ سُلَیمؓ کو اور انہوں نے اپنے کپڑے مضبوطی سے باندھے ہوئے تھے مَیں ان دونوں کی پنڈلیوں کی پازیبیں دیکھ رہا تھا۔ وہ دونوں تیزی سے مشکیں لے جا رہی تھیں اور اس کے علاوہ کسی دوسرے نے کہا، دوسری روایت یہ ہے کہ وہ دونوں اپنی کمروں پر مشکیں اٹھا کر لا رہی تھیں۔ پھر وہ دونوں لوگوں کے منہ میں ان کو انڈیلتی تھیں یعنی پانی پلا رہی تھیں۔ پھر وہ دونوں واپس ہوتیں اور انہیں بھر کے لاتیں۔ پھر وہ دونوں آتیں اور وہ ان کو لوگوں کے منہ میں انڈیلتیں۔ (صحیح بخاری کتاب الجھاد باب غزو النساء وقتالهن مع الرجال حدیث2880)
حضرت ابوسعید خُدْرِیؓ کی والدہ امّ سَلِیطؓ بھی دُور سے پانی کے مشکیزے بھر بھر کے لاتیں اور دوسری طرف زخمیوں اور پیاسوں کو پانی پلاتیں۔ حضرت امّ عطیہؓ نے بھی یہی خدمات سرانجام دیں مگر کچھ دیگر مسلم خواتین باقاعدہ نیزہ اور تلوار ہاتھ میں لے کر دشمنوں سے دُو بدو جنگ بھی کرتی رہی ہیں۔ ان میں سے ایک حضرت امّ عمارہؓ ہیں جیساکہ مَیں گذشتہ خطبہ میں بیان کر چکا ہوں کہ جب انہوں نے ابن قمئہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوتے دیکھا تو بلا خوف و خطر عرب کے اس شہ سوار کے سامنے مقابلہ کے لیے ڈٹ گئیں اور اس پر متعدد حملے کر کے اسے پسپائی پر مجبور کر دیا۔ (غزوات و سرایا از محمد اظہر فرید صفحہ 198 فریدیہ پبلشرز ساہیوال 2018ء)
ابن ابی شَیْبَہ اور امام احمد بن حنبل نے عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے کہ اُحُد کے دن عورتیں مسلمانوں کے پیچھے مشرکین کے زخمی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارتی تھیں۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 203 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
بعض صحابیات اُحد کے میدان میں جنگ کے بعد آئیں۔
چنانچہ بیان ہوا ہے کہ جب مشرکین چلے گئے تو عورتیں صحابہ کرامؓ کے پاس آئیں ان میں آپؐ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابھی تھیں۔ وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملیں تو ان کو چمٹ گئیں اور آپؐ کے زخم دھونے لگیں اور علیؓ ڈھال کے ذریعہ پانی بہاتے تھے لیکن خون زیادہ بہ رہا تھا۔ حضرت فاطمہؓ نے چٹائی کا کچھ حصہ جلا کر راکھ بنا لی اور اس سے زخم کی ٹکور کی، یہاں تک کہ وہ زخم کے ساتھ مل گئی اور خون رک گیا۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ 209۔210دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
حضرت عائشہ ؓغزوۂ اُحد کے بارے میں خبر لینے کے لیے مدینہ کی عورتوں کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں۔ اس وقت تک پردے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ جب حضرت عائشہؓ حَرَّہ کے مقام پر پہنچیں تو آپؓ کی ملاقات ھِند بنت عَمروؓ سے ہوئی جو حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی ہمشیرہ تھیں۔ حضرت ھِندؓ اپنی اونٹنی کو ہانک رہی تھیں۔ اس اونٹنی پر آپؓ کے شوہر حضرت عَمرو بن جَمُوحؓ، بیٹے حضرت خَلَّاد بن عمروؓ اور بھائی حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی نعشیں تھیں۔ تینوں کی نعشیں اونٹ پہ تھیں۔ جب حضرت عائشہؓ نے میدانِ جنگ کی خبر لینے کی کوشش کی تو حضرت عائشہؓ نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں کچھ خبر ہے کہ تم لوگوں کو کس حال میں پیچھے چھوڑ آئی ہو؟ اس پر
حضرت ھِندؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخیریت ہیں
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر مصیبت آسان ہے۔
اب اپنے تین قریبی رشتہ داروں کی، خاوند بیٹا اور بھائی کی لاشیں اٹھائی ہوئی ہیں لیکن پوچھنے پر یہ کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ٹھیک ہیں تو سب ٹھیک ہے۔ ان کو تو مَیں دفنا ہی دوں گی اب۔ جب آپؐ خیریت سے ہیں تو پھر کوئی ایسی بات ہی نہیں۔ (کتاب المغازی جلد1صفحہ 232-233 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت ام عُمارہؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ اُحد کے دن مَیں یہ دیکھنے کے لیے روانہ ہوئی کہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ میرے پاس پانی کا بھرا ہوا مشکیزہ تھا جو مَیں نے زخمیوں کو پلانے کے لیے ساتھ لیا تھا یہاں تک کہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کے درمیان میں تھے اور مسلمانوں کا پلڑا بھاری تھا۔ پھر اچانک مسلمانوں کو شکست ہو گئی۔ مَیں جلدی سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچی اور کھڑی ہو کر جنگ کرنے لگی۔ مَیں تلوار کے ذریعہ دشمنوں کو آپؐ کے قریب آنے سے روک رہی تھی۔ ساتھ ہی مَیں کمان سے تیر بھی چلا رہی تھی یہاں تک کہ اسی میں خود بھی زخمی ہو گئی۔ (سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ313 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ایک سیرت نگارنے بیان کیا ہے کہ جس عورت نے جنگِ اُحد میں جنگ کی اور شکست کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے بہادری کی حد تک پہنچی ہوئی تیر اندازی کی وہ حضرت امّ عمارہؓ تھیں، اُمّ عُمَارَہ نُسَیْبَہ مَازِنِیَہتھیں۔ (غزوہ احد از محمد احمد باشمیل صفحہ 171 نفیس اکیڈمی کراچی)
نُسَیْبَہ مَازِنِیَہ یعنی حضرت ام عُمَارہؓ کے سوا کسی عورت کے متعلق ثابت نہیں کہ اس نے اُحد کے روز جنگ میں شرکت کی ہے۔
ہاں مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ مسلمانوں کی کچھ عورتیں مشرکین کے ہٹ جانے کے بعد مدینہ سے میدانِ کارزار کی طرف گئیں اور انہوں نے زخمیوں کی امداد کرنے اور پانی پلانے وغیرہ میں حصہ لیا۔ ان عورتوں میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہؓ اور آپ کی بیٹی فاطمة الزہراءؓ شامل تھیں۔ بخاری نے ایک راوی کو روایت کیا ہے کہ مَیں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سُلَیمؓ کو دیکھا۔ یہ دونوں تیزی سے پانی کے مشکیزوں کو اپنی پشت پر اچھالتیں اور لوگوں کے مونہوں میں پانی ڈالتیں۔ پھر واپس آ کر انہیں بھرتیں، پھر آتیںاور لوگوں کے مونہوں میں پانی ڈالتیں۔(غزوہ احد از محمد احمدباشمیل صفحہ 175 نفیس اکیڈمی کراچی)
ایک مصنف لکھتا ہے کہ گھمسان کے رَن کے وقت مسلمانوں کی کچھ عورتیں امدادی کارروائی کے لیے تیار ہوئیں۔ ان عورتوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ حضرت امّ ایمنؓ بھی شامل تھیں۔ مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ جب مسلمانوں کی شکست خوردہ پارٹی نے مدینہ میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو حضرت امّ ایمنؓ انہیں ملیں اور آپؓ ان کے چہرے پر مٹھیوں سے مٹی ڈالنے لگیں اور بعض کو زجرو توبیخ کے طور پر کہنے لگیں۔ بڑی ڈانٹ ڈپٹ ان سے کی کہ تم لڑ نہیں سکتے تو
یہ تکلا لو یعنی تکلا وہ جس سے عورتیں سوت کاتتی ہیں۔ دھاگے بناتی ہیں اور اپنی تلوار لاؤ
یعنی تلواریں ہمیں دے دو اور تم ہمارے عورتوں والے کام کرو۔ اس کے بعد تیزی سے میدانِ جنگ پہنچ گئیں۔ حضرت ام ایمنؓ زخمیوں کی امداد کے لیے تیار ہوتی تھیں جبکہ لڑائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیزی سے ہو رہی ہوتی تھی حتی کہ انہیں امدادی کارروائی کے دوران مشرکین کے تیر بھی لگتے تھے۔ ابن اثیر کی کتاب الکامل فی التاریخ میں ہے کہ حضرت ام ایمنؓ فوج میں زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں کہ حِبّان بن عَرِقَہ نے آپ کو تیر مارا تو آپؓ گر پڑیں اور برہنہ ہو گئیں تویہ دشمنِ خدا اس پہ بہت ہنسا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بڑی گراں گزری۔ آپؐ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو ایک تیر دیا جس کا پھل نہ تھا اور فرمایا: اسے مارو! حضرت سعدؓ نے اسے مارا تو وہ تیر حِبّان کے سینے میں جا لگا اور وہ چِت ہو کر گر پڑاحتی کہ برہنہ ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مسکرائے۔ آپؐ نے فرمایا: سعد نے امّ ایمن کا قصاص لے لیا ہے۔
ایک سیرت نگار نے لکھا ہے کہ خاتمہ جنگ پر کچھ مومن عورتیں میدان جہاد میں پہنچیں۔ چنانچہ ایک سیرت نگار نے لکھا ہے کہ یہ جلیل القدر خواتین اس وقت میدانِ جنگ میں گئیں جب مسلمانوں نے مشرکوں کا تعاقب شروع کر دیا تھا اور انہیں فتح کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔(غزوہ احد از محمد احمد باشمیل صفحہ 176۔177 نفیس اکیڈمی کراچی)(الرحیق الختوم مترجم صفحہ377 المکتبۃ السلفیہ لاہور)(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد 6صفحہ 393مکتبہ دار السلام ریاض)
مختصر یہ کہ مسلم خواتین میدان اُحد کی طرف اس وقت گئی ہوں گی۔ یہ امکانات ہی ہیں۔ وہ مسلمانوں کی فوج میں تو باقاعدہ شامل نہیں تھیں۔ نمبر ایک کہ جب مسلمانوں کی ابتدائی فتح کی خبر مدینہ پہنچی تو یہ خبر سن کر وہ اُحد کی طرف آئی ہوں گی لیکن تب تک جنگ کا نقشہ بدل چکا تھا۔ لہٰذا مسلمان عورتوں نے بھی میدان جنگ میں حصہ لیا۔
دوسرے یہ بھی قرینِ قیاس ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پہنچی ہو گی تو یہ جاںنثار خواتین بھی بےقرار ہو کر اُحد کی طرف چلی آئی ہوں گی اور پھر وہ جنگ کے اس آخری مرحلے میں شامل ہوئی ہوں گی جس میں ایک طرف دفاعی حملہ جاری تھا اور دوسری طرف زخمیوں کی مرہم پٹی کا کام شروع تھا۔ بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے۔
غزوۂ اُحد کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ اُحد کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنے والدین کو اکٹھا کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی تھا جس نے مسلمانوں میں آگ لگا رکھی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یعنی حضرت سعدؓ سے فرمایا تم تیر چلاؤ تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ یعنی ماں باپ، والدین کو اکٹھا کیا۔ مراد یہ ہے کہ آپ نے کہا تم پہ میرے ماں باپ قربان۔حضرت سعدؓ کہتے ہیں: مَیں نے وہ تیر جس کا پھل نہیں تھا اس کے پہلو میں مارا جس کی وجہ سے وہ مر گیا اور اس کا ستر کھل گیا اور مَیں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فی فضل سعد بن ابی وقاصؓ حدیث 6237)
ایک دوسری روایت میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ اس مشرک نے، اس کا نام بعض تاریخ کی کتابوں میں حِبّان بتایا جاتا ہے، ایک تیر چلایا جو حضرت ام ایمنؓ کے دامن میں جا لگا جبکہ وہ زخمیوں کو پانی پلانے میں مصروف تھیں۔ اس پر حِبّان ہنسنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓکو ایک تیر پیش کیا۔ وہ تیر حِبّان کے حلق میں جا لگا اور وہ پیچھے گر پڑا جس سے اس کا ننگ ظاہر ہو گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔ (الاصابہ جلد 3 صفحہ 64 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خوشی اور مسکراہٹ اللہ کے اس احسان پر تھی کہ اس نے ایک خطرناک دشمن کو ایک ایسے تیر سے راستے سے ہٹایا جس کا پھل بھی نہیں تھا۔(ماخوذ از صحیح مسلم جلد 13 صفحہ 41 حاشیہ، نورفاؤنڈیشن)سیدھا سیدھا ایک سوٹی تھی جس نے اس کو مار دیا۔
ایک مصنف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت اور فراست کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب خالد بن ولید کی قیادت میں قریشی شہسوار عبداللہ بن جُبَیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کرتے ہوئے جو درّے پہ کھڑے تھے یہ لوگ اسلامی لشکر کی پشت پر نمودار ہو گئے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صرف نو صحابہؓ کی نفری موجود تھی۔ دیگر مجاہدین تو دشمن کا تعاقب کرتے ہوئے میدان میں بہت دُور پہنچ گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جونہی خالد بن ولید اور قریشی شہسواروں کو دیکھا تو فوری طور پر ایک دلیرانہ فیصلہ کیا۔ ورنہ بہت آسان تھا کہ آپؐ پر ابھی شہسواروں کی نگاہ نہیں پڑی تھی اور آپؐ پہلے خود کو محفوظ پناہ گاہ کی طرف لے جاتے لیکن ایسے میں اسلامی لشکر کا بےشمار نقصان ہونا لازمی تھا۔ اپنے آپ کو محفوظ کر سکتے تھےلیکن اپنی حفاظت میں اسلامی لشکر کا نقصان ہو سکتا تھا، اس لیے آپؐ نے فیصلہ یہ کیا۔ آپؐ نے فرار کا راستہ اپنانے کی بجائے بلند آواز میں نعرہ لگایا تاکہ اسلامی لشکر سن کر پشت کو دیکھے تو ایسے میں جبکہ اسلامی لشکر میدان میں بہت آگے تھا ان سے پہلے قریشی شہسواروں تک آپؐ کی آواز کا پہنچنا بھی لازم تھا۔ آزمائش کی اس گھڑی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبقریت اور بے مثال شجاعت یعنی عجیب و غریب قسم کی اور بے مثال شجاعت نمایاں ہوئی کیونکہ آپؐ نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر صحابہ کرامؓ کی جان بچانے کا فیصلہ فرمایا تھا اور نہایت بلند آواز سے صحابہؓ کو پکارا۔ اللہ کے بندو! ادھر۔ آپؐ کی آواز پورے میدان میں گونج گئی تھی۔ صحابہ کرامؓ کو بھی حالات کی نزاکت کا احساس ہو گیا تھا چونکہ وہ کافی فاصلے پر موجود تھے لہٰذا ان سے پہلے قریشی شہسواروں کے ایک دستے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کردیا اور باقی شہسواروں نے تیزی کے ساتھ مسلمانوں کو گھیرنا شروع کر دیا۔(غزوات و سرایا صفحہ 183-184 مطبوعہ فریدیہ پرنٹنگ پریس ساہیوال)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زخمی حالت میں بھی حواس قائم رکھنا اور صحابہؓ کی راہنمائی کرنا، ان کی حوصلہ افزائی فرمانے کا ذکر
بھی ملتا ہے۔ عُتبہ بن ابی وقاص نے جو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا بھائی تھا اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک پتھر کھینچ کر مارا جو آپؐ کے منہ پر لگا اور آپؐ کا نچلا رباعی دانت یعنی سامنے والے دو دانتوں اور نوکیلے دانت کے درمیان والا دانت ٹوٹ گیا۔ ساتھ ہی اس سے نچلا ہونٹ پھٹ گیا۔ شارع بخاری علامہ ابن حجر عسقلانیؒ بیان کرتے ہیں کہ دانت کا ایک ٹکڑا ٹوٹا تھا جڑ سے نہیں اکھڑا تھا۔(فتح الباری جلد7صفحہ464 حدیث4070 قدیمی کتب خانہ کراچی)
بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ بن ابی وقاص کے خلاف یہ دعا کی۔ اَللّٰهُمَّ لَا يَحُوْلُ عَلَيْهِ الْحَوْلُ حَتّٰى يَمُوْتَ كَافِرًا۔ اے اللہ! ایک سال گزرنے سے پہلے ہی اس کو کافر کی حیثیت سے موت دے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی یہ دعا قبول فرمائی اور اس کو اسی دن حاطب بن ابی بلتعہؓ نے قتل کردیا۔ حضرت حاطبؓ کہتے ہیں کہ جب مَیں نے عتبہ بن ابی وقاص کی یہ شرمناک جسارت دیکھی تو مَیں نے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ عتبہ کدھر گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سمت اشارہ کیا جس طرف وہ گیا تھا۔ مَیں فوراً ہی اس کے تعاقب میں روانہ ہوا۔ یہاں تک کہ ایک جگہ مَیں اس کو پانے میں کامیاب ہو گیا۔ مَیں نے فوراً ہی اس پر تلوار کا وار کیا جس سے اس کی گردن کٹ کر دُور جاگری۔ مَیں نے بڑھ کر اس کی تلوار اور گھوڑے پر قبضہ کیا اور اسے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپؐ نے یہ خبر سن کر دو مرتبہ فرمایا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْکَ۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْکَ۔ یعنی اللہ تم سے راضی ہو گیا۔ اللہ تم سے راضی ہو گیا۔(سیرۃ الحلبیۃ جلد2 صفحہ 317 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
غزوۂ اُحد کے موقع پر حضرت امّ عمارہ یعنی نُسَیْبَہ رضی اللہ عنہا، ان کے شوہر حضرت زید بن عاصمؓ اور ان کے دونوں بیٹے خُبیبؓ اور عبداللہ ؓسب کے سب جنگ کے لیے گئے تھے۔ پہلے بھی مَیں نے ذکر کیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو فرمایا تھا کہ اللہ تم گھر والوں پر رحمتیں نازل فرمائے۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تمہارے گھرانے میں برکت عطا فرمائے۔ اس پر
حضرت امّ عمارہؓ نے آپؐ سے عرض کیا: ہمارے لیے اللہ سے دعا فرمائیں کہ
ہم جنت میں آپؐ کے ساتھ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا۔ اےاللہ! ان کو جنت میں میرا رفیق اور ساتھی بنا۔ اسی وقت حضرت ام عمارہؓ نے کہا مجھے اس کی پروا نہیں ہے کہ دنیا میں مجھ پر کیا گزرتی ہے۔(سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ314دارالکتب العلمیۃ بیروت)
یہ تھی ان مخلص صحابیاتؓ کی جرأت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور وفا کی مثال۔ اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے دین کی خاطر قربانی کرنے کے مقابلے پر دنیا حقیر چیز تھی۔ بعض دفعہ دنیاوی عورتوں کو بڑا ہوتا ہے لیکن یہ دین پہ قربان ہونے والی عورتیں تھیں۔
اس سے باقی ان شاء اللہ مَیں آئندہ بیان کروں گا۔نماز کے بعد کچھ مرحومین کی
نماز جنازہ
بھی ہے۔ ان کا ذکر بھی کر دیتا ہوں۔
پہلا ذکر ہے
مکرم غسان خالد النقیب صاحب۔
یہ سیریا کے ہیں۔ گذشتہ دنوں اٹھہتر78 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے زمانے میں خود بیعت کی تھی۔ پھر ان کی تبلیغ سے ان کے بیٹے نے بھی بیعت کرلی۔ بیٹی اور بیوی نے ابھی بیعت نہیں کی۔
مرحوم کے بیٹے حسام النقیب صاحب لکھتے ہیں۔ میرے والد میرے دوست اور ساتھی تھے۔ انہوں نے ہی مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا راستہ دکھایا۔ نوّے کی دہائی میں والد صاحب کا جماعت سے تعارف حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کے پروگرام لقاء مع العرب کے ذریعہ ہوا۔ اس سے قبل والد صاحب کا دین کے بارے میں صرف یہی نظریہ تھا کہ دین محض حسنِ سلوک کا نام ہے لیکن جب انہوں نے پروگرام ’’لقاء مع العرب‘‘ دیکھا تو کہا کہ اگر کہیں کوئی نیک عالم دین ہے تو وہ یہ شخص یعنی حضرت خلیفةالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں اور اگر صحیح دین اسلام کہیں ہے تو وہ یہی ہے جو یہ لوگ بتا رہے ہیں۔ اس وقت والد صاحب کی عمر تقریباً پچاس سال تھی۔ اس وقت انہوں نے نماز پڑھنا سیکھی کیونکہ اس وقت سے پہلے انہوں نے کبھی نماز نہیں پڑھی تھی اور پھر ایسے اس پر کاربند ہوئے کہ مجھے نہیں یاد کہ کبھی انہوں نے نمازِ تہجد بھی چھوڑی ہو۔ کہتے ہیں کہ والد صاحب نے 2003ء میں بیعت کی پھر ایک ماہ بعد انہوں نے مجھے بھی قائل کر لیا۔ پھر لکھتے ہیں کہ حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکی زندگی کے آخری دنوں کی یہ بات ہے کہ جب والد صاحب نےعبدالحئی بھٹی صاحب مربی سلسلہ کے ذریعہ نظامِ وصیت کے بارے میں سنا تو فوراً نظام وصیت میں شامل ہو گئے۔ اس وقت انہیں کہا گیا کہ پہلے رسالہ الوصیت پڑھ لیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ مَیں وہ تو لازمی پڑھوں گا اور اسے سمجھنے کی کوشش بھی کروں گا لیکن اس سے میری اس نظام سے محبت اور اس سے منسلک ہونے کے جوش میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ اس کا مطالعہ مجھے اس پر یقین میں مزید بڑھائے گا۔ مجھے یقین تو پہلے ہی ہے اس کے حق ہونے پر۔ جب سے والد صاحب کا جماعت سے تعارف ہوا، جماعت کے لٹریچر میں سے جو کچھ بھی انہیں ملتا اس کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرتے اور پھر اسے سمجھ کر کمپیوٹر پر اپنے طریق سے اس کے بارے میں لکھ لیتے، اپنے نوٹس بناتے۔ کہتے ہیں مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اتنی عمر دے دے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے تمام لٹریچر کو پڑھ سکوں تا جو کچھ مَیں نے گذشتہ زندگی میں کھویا ہے اس کا تدارک کر سکوں۔ مرحوم کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر کبیر سے عشق تھا اور اسے انہوں نے متعدد بار پڑھا۔ یہ بیٹا کہتا ہے کہ جب کبھی مجھے کسی مضمون کے بارے میں کوئی ضرورت پیش آتی تو والد صاحب اس مضمون کو مکمل تفصیل کے ساتھ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خلفائے کرام کی کتب سے نکال کر دے دیتے۔ یہاں سے جو میرا لائیو خطبہ جاتا ہےمرحوم خطبہ جمعہ کے ترجمہ کی نظرِ ثانی کا کام بھی کیا کرتے تھے۔ اسی طرح عربک ڈیسک کی طرف سے دیے گئے نظر ثانی کے کاموں میں بسا اوقات گھنٹوں بیٹھے رہتے۔ کہتے ہیں کبھی مَیں کہتا کہ آرام کریں تو جواب دیتے کہ مجھے تو جماعت کے کام میں ہی آرام ملتاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی کتب کے ترجمہ کی نظر ثانی کے دوران اکثر ان کی آنکھیں بھر آتی تھیں۔ جب بیعت کی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی کا واقعہ سنایا کہ وہ بیعت کر کے اپنے گاؤں آئے تو ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور سب کو مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی خبر دی۔ اس کے بعد والد صاحب کا بھی یہی طریق تھا کہ جو شخص بھی ان سے ملتا چاہے پانچ منٹ کے لیے ہی کیوں نہ ملا ہو وہ اس کو مسیح موعودعلیہ السلام کے آنے کے بارے میں ضرور بتا دیتے تھے۔ کہتے تھے کہ میرا کام مسیح موعودؓ کی آمد کی خوشخبری سنانا ہے۔ اگر کسی کو سمجھ آ گئی تو ٹھیک ہے۔ نہ آئی تو کم ازکم مَیں نے بیج تو پھینک دیا ہے اس کا اُگانا خدا تعالیٰ کا کام ہے، خدائے ہادی کا کام ہے۔
سیریا کے وسیم محمد صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جمعہ کے بعد مرحوم دل موہ لینے والے اسلوب سے درس دیا کرتے تھے۔ 2019ء سے 2022ء تک انہوں نے سیکرٹری اشاعت کے طور پر خدمت کی۔ مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کا بےحد شوق تھا بلکہ وہ خود ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں آنے والے مشکل الفاظ کے معانی اور شرح لکھتے رہتے تھے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیرِ کبیر کے ترجمہ کا مطالعہ کر کے اس میں سے قصص الانبیاء کو الگ نکال کر قدرے اختصار کے ساتھ ایک کتابی شکل میں پیش کیا جو جماعت کی عربی ویب سائٹ پر موجود ہے اور افراد جماعت احمدیہ اور خصوصاً بچے اس سے بہت استفادہ کرتے ہیں۔
عبادہ بربوش صاحب رسالہ التقویٰ کے ایڈیٹر ہیں، کہتے ہیں کہ مرحوم بےشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ خلافت کے ساتھ غیر معمولی محبت اور وفا کا تعلق تھا۔ بڑھاپا اور اپنی ملازمت ہونے کے باوجود مرحوم رضاکارانہ طور پر رسالہ التقویٰ میں خدمت بجا لاتے اور جب بھی کوئی ذمہ داری دی جاتی تو اسے اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔ سات سال مرحوم نے رسالہ التقویٰ کے پرانے شمارے ٹائپ کرنے اور ان کو کمپیوٹرائز کرنے میں ہماری بہت مدد کی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ ان کے بچوں کے حق میں ان کی دعائیں قبول فرمائے۔
دوسرا ذکر ہے
عزیزہ نوشابہ مبارک اہلیہ عزیزم جلیس احمد مربی سلسلہ
جو یہیں شعبہ آرکائیو میں اور الحکم میں ہیں، ان کی اہلیہ تھیں۔ گذشتہ دنوں پاکستان سے واپس آتے ہوئے ربوہ اور لاہور کے درمیان ایک حادثے کا شکار ہو گئیں اور ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے پسماندگان میں میاں اور والدین کے علاوہ چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ مرحومہ کی وصیت کی کارروائی ہو رہی تھی کہ اچانک وفات ہو گئی ہے۔ بہرحال وہ کارروائی تو ہو رہی ہے، ان شاء اللہ وصیت تو ان کی ہو جائے گی۔اس لحاظ سے موصیہ ہیں۔
ان کے میاں عزیزم جلیس احمد لکھتے ہیں کہ خاکسار اللہ کا شکر گزار ہے کہ اللہ نے خاکسار کو ایک ایسی بیوی سے نوازا جو بہت سی خوبیوں کی مالک تھی۔ اس نے واقف زندگی سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہمیشہ مذہب کو ترجیح دی۔ ایک بار بھی مجھ سے کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ہمیشہ دوسروں کے لیے خوشی کا باعث بنتی تھی۔ جماعت میں مختلف عہدوں پر کام کیا۔ اسسٹنٹ سیکرٹری مال اور اسسٹنٹ سیکرٹری وصیت کے طور پر معاونت کی۔ بہت محنتی اور لگن سے کام کرتی تھی۔کہتے ہیں کہ میرے کام میںبھی میری مدد کی۔ کبھی میرے جماعتی کام میں اعتراض نہیں کیا۔ اس نے کبھی مطالبہ نہیں کیا۔ درحقیقت وہ وقف کی روح کو صحیح معنوں میں سمجھتی تھی۔ ہر رمضان میں کم از کم تین بار اور کبھی کبھی چار بار قرآن پاک کا دَور ترجمہ کے ساتھ مکمل کرتی تھی۔خلافت کے لیے گہری عزت اور محبت رکھتی تھی۔
ان کی والدہ زیب النساء صاحبہ کہتی ہیں۔ مرحومہ میری سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔سب سے بہت پیار کرنے والی اور ملنسار بچی تھی۔ ہم سب کو بہت پیار دیا۔ میرے سب بچوں میں زیادہ سمجھدار تھی۔ صوم و صلوٰة کی پابند تھی۔ جماعتی کاموں میں سب سے آگے آگے رہتی تھی۔ حافظ آباد کے گاؤں پیر کوٹ ثانی میں مَیں صدر لجنہ تھی تو کام میں بہت مدد کرتی تھی۔ ربوہ آ کر بھی جماعتی کاموں میں مدد کی۔
کامران شاہد بھائی ہیں، کہتے ہیں مرحومہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت میاں نظام الدین صاحب بافندہ کی پڑپوتی تھی۔ بڑوں اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنے والی اور سب سے پیار کرنے والی تھی۔ اور خلافت کے ساتھ انتہائی اخلاص و وفا کا تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے۔ سب کو، ان کے والدین کو بھی اور خاوند کو بھی اور عزیزوں کوبھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
اگلا ذکر
مکرمہ رضیہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ عبدالحمید خان صاحب مرحوم ربوہ
کا ہے جو عبدالقیوم پاشا صاحب امیر و مشنری انچارج آئیوری کوسٹ کی والدہ تھیں۔ ان کی گذشتہ دنوں بانوے92 سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔
قیوم پاشا صاحب لکھتے ہیں کہ آپ مکرم چودھری حمیداللہ صاحب مرحوم سابق وکیل اعلیٰ تحریک جدید کی بڑی ہمشیرہ تھیں۔ والدین نے 1929ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ شروع سے ہی روحانی خزائن کے مطالعہ کا بےحد شوق تھا۔ چنانچہ آپ نے زندگی میں متعدد بار روحانی خزائن کا مطالعہ مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ تفسیر کبیر اور دیگر جماعتی لٹریچر کا بھی مطالعہ کیا۔ اپنے محلے دارالعلوم وسطی میں صدر لجنہ اور سیکرٹری مال کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ کہتے ہیں کہ خاکسار کے بعض رشتہ داروں نے والدہ کو کہا کہ آپ کا ایک ہی بیٹا ہے، خاوند آپ کے فوت ہو گئے ہیں، اس کو جامعہ میں مربی بنانے کے بجائے جس کو صرف گزارہ الاؤنس ملتا ہے، کسی اَور فیلڈ میں بھیجیں۔ اس پر والدہ نے جواب دیا کہ یہ جامعہ میں داخل ہو گا۔ اور جہاں تک رزق کا تعلق ہے تو خدا تعالیٰ رازق ہے۔ مجھے اس پر بھروسہ ہے۔ کہتے ہیں کہ جونہی والدہ کو پنشن ملتی یا کسی اَور ذریعہ سے آمدن ہوتی تو فوراً سیکرٹری مال کے گھر میں اپنا چندہ وصیت ادا کر کے آتیں اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سیکرٹری مال کو چندہ کے لیے ہمارے گھر آناپڑا ہو۔ ان کے پسماندگان میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ عبدالقیوم پاشا ان کے بیٹے جیسا کہ مَیں نے بتایا آئیوری کوسٹ کے مشنری انچارج ہیں اور میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے والدہ کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ ان کی والدہ کے درجات بلند فرمائے۔
اگلا ذکر
مکرمہ بشریٰ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹر محمد سلیم صاحب لاہور
کا ہے۔ یہ محمد نعیم اظہر صاحب مبلغ انچارج سیرالیون کی والدہ تھیں۔ گذشتہ دنوں اٹھہتر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔اللہ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے بیٹے نعیم اظہر صاحب میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے والدہ کی نماز جنازہ میں شامل نہیں ہو سکے۔ تدفین میں شامل نہیں ہو سکے۔ نعیم اظہر صاحب لکھتے ہیں کہ والدہ پیدائشی احمدی نہیں تھیں لیکن رشتہ داروں میں احمدیت تھی اور ان کو سچائی کی تلاش کی تڑپ تھی۔ اللہ کے حضور بہت دعائیں کرتی تھیں جس کے بعد انہیں اطمینان قلب نصیب ہوا اور بالآخر 1964ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ساری عمر یہ رشتہ بڑی وفا سے نبھایا اور احمدیت کے لیے ہر قربانی کے لیے ہمیشہ تیار رہتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت دعا گو، پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ تہجد گزار، باہمت اور بلند حوصلہ بہادر خاتون تھیں۔ خاموشی سے تکلیف کو برداشت کر لیتی تھیں مگر زبان پر شکوہ نہیں لاتی تھیں۔ خلیفہ وقت کی ہر مالی قربانی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ جماعتی چندہ باقاعدگی سے اوّل وقت میں ادا کر دیتی تھیں اور بعد میں اضافی چندے بھی دیا کرتی تھیں۔ ہر ضرورت مند کی حسب استطاعت مدد کرتیں اور کبھی بھی کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی دعائیں بھی ان کے بچوں کے حق میں قبول فرمائے۔
اگلا ذکر
مکرم رشید احمد چودھری صاحب
کا ہے۔ یہ ناروے کے تھے۔ چودھری غلام حسین صاحب اوورسیئر کے یہ بیٹے تھے۔ ان کی گذشتہ دنوں بیاسی سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔اپنی بیماری کا بڑی ہمت اور بہادری اور صبر سے مقابلہ کیا۔ کچھ عرصہ سے کافی بیمار تھے۔ ان کے والد چودھری غلام حسین صاحب اوورسیئر نے 1926ء میں خود قادیان جا کر حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کیاتھا اور بعدازاں زندگی وقف کر دی۔ ان کو دارالقضاء قادیان اور ربوہ میں قاضی کے طور پر خدمت بجا لانے کی توفیق ملی۔ اسی طرح مرکزی عمارات کی تعمیر و نگہداشت کے سلسلہ میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ چودھری رشید صاحب کو بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ ربوہ میں ابتدائی دنوں میں کام کرنے کا بہت موقع ملا۔ خلافتِ ثانیہ اور خلافتِ ثالثہ کے ادوار میں بھی قصرِ خلافت اور دیگر جماعتی عمارتوں میں الیکٹریشن کے طور پر انہوں نے بہت کام کیا۔ 1970ء میں ناروے چلے گئے۔ وہاں جماعتی خدمات میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ ان کی بےلوث خدمات شامل ہیں۔ ناروے کے پہلے مرکز میں بھی آپ کی بے لوث خدمات شامل ہیں۔ جماعت کی کثیر رقم انہوں نے وہاں کام کرکے بچائی۔ لمبے عرصہ تک جماعت ناروے کے سیکرٹری امور عامہ کے طور پرخدمت کی توفیق پائی۔
ان کے بیٹے مظفر چودھری اور منور چودھری لکھتے ہیں کہ خلافت سے گہری اور بے پناہ محبت تھی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ناروے کے دورہ جات کی تمام تر ذمہ داری آپ کے سپرد ہوا کرتی تھی۔ حضور رحمہ اللہ آپ کو اپنا ناروے کا گائیڈ کہا کرتے تھے اور خطبہ جمعہ میں بھی آپ کی خدمت کا ذکر فرما چکے ہیں۔ مجھ سے بھی خلافت کے بعد انتہائی وفا کا تعلق تھا۔ پہلے بھی ان کی واقفیت تھی لیکن وہ تعلق بعد میں بہت بڑھ گیا۔ ان کے والد صاحب بھی میرے والد کے بڑے قریبی تھے اور تعلق والے تھے۔ بچپن سے چودھری غلام حسین صاحب کو ہم نے دیکھا ہے کہ ہمیشہ مسکراتے رہنے والے تھےاور بڑی اچھی طبیعت تھی اور چودھری رشید صاحب کی بھی عادتیں اپنے والد سے کافی ملتی تھیں۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ بلا امتیاز مذہب و ملت مخلوقِ خدا کی ہمدردی کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور چار بیٹیاں شامل ہیں اور یہ مکرم انعام الحق کوثر صاحب امیر جماعت آسٹریلیا اور مشنری انچارج آسٹریلیا کے بہنوئی تھے۔ اللہ تعالیٰ سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ نماز کے بعد جیساکہ مَیں نے کہا ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا۔
حضرت ھندؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخیریت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر مصیبت آسان ہے
جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حمزہؓ کی جدائی کے غم کا تعلق ہے وہ آخر تک آپؐ کو رہا ۔ہمیشہ اس کا ذکر کرتے تھے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پُرحکمت انداز میں مسلمان خواتین کو فوت شدگان پر نوحہ کرنے کی ممانعت فرمائی
نُسَیْبَہ مَازِنِیَہ یعنی حضرت ام عمارہؓ کے سوا کسی عورت کے متعلق ثابت نہیں کہ اس نے اُحد کے روز جنگ میں شرکت کی ہو
حضرت امّ عمارہؓ نے آپؐ سے عرض کیا: ہمارے لیے اللہ سے دعا فرمائیں کہ ہم جنت میں آپؐ کے ساتھ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا۔ اے اللہ! ان کو جنت میں میرا رفیق اور ساتھی بنا۔ اسی وقت حضرت ام عمارہؓ نے کہا مجھے اس کی پروا نہیں ہے کہ دنیا میں مجھ پر کیا گزرتی ہے
جنگ اُحد کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تدفین نیز جنگ احد میں صحابیاتؓ کی جرأت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور وفاکا ایمان افروز تذکرہ
مکرم غسان خالد النقیب صاحب،مکرمہ نوشابہ مبارک اہلیہ مکرم جلیس احمد مربی سلسلہ،مکرمہ رضیہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ مکرم عبدالحمید خان صاحب، مکرمہ بشریٰ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹر محمد سلیم صاحب اور مکرم رشید احمد چودھری صاحب آف ناروےکا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
فرمودہ یکم مارچ2024ء بمطابق یکم امان 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔