حضرت محمد رسول اللہﷺ: اُسوۂ حسنہ
خطبہ جمعہ 8؍ مارچ 2024ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
اُحد کی جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی قبولیت
جو آپؐ نے اپنے صحابی حضرت سعدؓ کی دعا کی قبولیت کے لیے کی تھی۔ اس کے واقعہ کا یوں ذکر ملتا ہے۔ عائشہ بنت سعدؓ نے اپنے والد حضرت سعدؓ سے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں جب لوگوں نے پلٹ کر حملہ کیا تو مَیں ایک طرف ہو گیا۔ مَیں نے کہا ان کو خود سے ہٹا دوں گا۔ یا تو میں خود نجات پا جاؤں گا اور یا میں شہید ہو جاؤںگا تو اچانک مَیں نے ایک سرخ چہرے والے شخص کو دیکھا۔ کہتے ہیں قریب تھا کہ مشرکین ان پر غالب ہو جائیں تو اس شخص نے اپنا ہاتھ کنکریوں سے بھر کر ان کو مارا تو اچانک میرے اور اس شخص کے درمیان مقداد آگئے۔ مَیں نے مقداد سے پوچھنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ اے سعد! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور پھر کہا کہ تجھے بلا رہے تھے۔ میں کھڑا ہوا اور مجھے ایسا لگا گویا کہ مجھے کوئی تکلیف ہی نہیں پہنچی۔ پہلے زخمی حالت میں تھے یا تکلیف تھی۔ کہتے ہیں اس کے بعد میں اس آواز کو سن کر ایک دم کھڑا ہوا اور مجھے لگا جیسے مجھے کوئی تکلیف نہیں۔ کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا۔ اور میں تیر مارنے لگا تو مَیں کہتا اے اللہ! تیرا تیر ہے، تُو اس کو اپنے دشمن کو مار دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے اے اللہ! تو سعد کی دعا قبول کر لے۔ اے اللہ! سعد کے نشانے کو درست کر دے۔ اے سعد! تجھ پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں۔ پس میں نے جو تیر بھی چلایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ یہ فرماتے تھے۔ اے اللہ! اس کے نشانے کو درست کر دے اور اس کی دعا کو قبول کر لے۔ حتیٰ کہ جب میں اپنے ترکش کے تیر چلا کر فارغ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش کے تیر پھیلا دیے اور مجھے ایک بغیر پیکان اور بغیر پَر کے تیر دیا اور نہ اس کا کوئی سرا تھا نہ پیچھے سے صحیح طرح اس کی بناوٹ تھی۔ کہتے ہیں وہ تیر دیا اور وہ تیر دوسرے تیروں سے زیادہ تیز نکلا۔ علامہ زہریؒ نے لکھا ہے کہ اس دن سعد نے ایک ہزار تیر چلائے تھے۔ (سبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 200-201 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارے میں یوں لکھا ہے کہ سعد بن وقاص کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تیرپکڑاتے جاتے تھے اور حضرت سعدؓ یہ تیر دشمن پربے تحاشا چلاتے جاتے تھے۔
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد ؓسے فرمایا: تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں! برابر تیرچلاتے جاؤ۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی آخری عمر تک ان الفاظ کونہایت فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 495)
ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ اُحد کے دن اپنے ترکش سے تیر نکال کر میرے لیے بکھیر دیے اور آپؐ نے فرمایا: تیر چلاؤ۔ تجھ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب اذ ھمت طائفتان منکم … حدیث:4055)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے
حضرت عمر ؓنے خالد بن ولید کی کمان میں پہاڑ پر حملے کو کس طرح ناکام بنایا۔
اس بارے میں یوں ذکر ملتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کی جماعت کے ساتھ اس چٹان پر قیام فرما تھے۔ اچانک قریش کی ایک جماعت پہاڑ کے اوپر پہنچ گئی۔ اس جماعت میں خالد بن ولید بھی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کو اوپر دیکھ کر دعا کی کہ اَللّٰهُمَّ إنَّهٗ لَا يَنْبَغِي لَهُمْ أَنْ يَعْلُوْنَا، اَللّٰهُمَّ لَا قُوَّةَ لَنَا إلَّا بِكَ۔ اے اللہ! ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ ہم پر غالب آئیں۔ اے اللہ! ہماری طاقت وقوت نہیں ہے مگر صرف تیرے ہی ذریعہ۔ اسی وقت حضرت عمر فاروقؓ نے مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ ان لوگوں کا مقابلہ کیا اور انہیں پیچھے دھکیل کر پہاڑی سے نیچے اترنے پر مجبور کر دیا۔ اس واقعہ کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نازل ہوا وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ(آل عمران: 140)۔اور کمزوری نہ دکھاؤ اور غم نہ کرو جبکہ یقیناً تم ہی غالب آنے والے ہو اگر تم مومن ہو۔(سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ 323 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درّہ میں پہنچ گئے توقریش کے ایک دستے نے خالد بن ولید کی کمان میں پہاڑ پرچڑھ کر حملہ کرنا چاہا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عمرؓنے چند مہاجرین کوساتھ لے کر اس کا مقابلہ کیا اور اسے پسپا کر دیا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ497)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کے باوجود صحابہؓ کی فکر کرنے کے بارے میں
ایک روایت میں ہے حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ جب یومِ اُحد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے۔ وہ دن سارے کا سارا طلحہ کا تھا۔ پھر اس کی تفصیل بتاتے کہ مَیں ان لوگوں میں سے تھا جو اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس لوٹے تھے تو مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپؐ کی حفاظت کرتے ہوئے لڑ رہا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ یعنی حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بچا رہا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کاش! طلحہ ہو۔ مجھ سے جو موقع رہ گیا سو رَہ گیا اور میں نے دل میں کہا کہ میری قوم میں سے کوئی شخص ہو تو یہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک شخص تھا جس کو مَیں نہیں پہچان سکا حالانکہ میں اس شخص کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب تھا اور وہ اتنا تیز چل رہا تھا کہ میں اتنا تیز نہ چل سکتا تھا۔ تو دیکھا کہ وہ شخص ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ تھے۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپؐ کا نچلا رَبَاعی دانت یعنی سامنے والے دو دانتوں اور نوکیلے دانت کے درمیان والا دانت ٹوٹ چکا تھا اور چہرہ زخمی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسارِ مبارک میں خَود کی کڑیاں دھنس چکی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں اپنے ساتھی کی مدد کرو۔ اس سے آپؐ کی مراد طلحہ تھی اور ان کا خون بہت بہ رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے یہ کہ مجھے دیکھو، فرمایا کہ طلحہ کو جا کے دیکھو۔(سبل الہدیٰ جلد 4 صفحہ 199 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)ان کا کیا حال ہے ان کی خاطرکرو دیکھو ان کے زخموں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زِیاد بن سَکَن سے محبت و شفقت کا سلوک اور اُن کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ذکر
بھی ملتا ہے۔ اس بارے میں ابنِ اسحاقؒ نے لکھا ہے۔ جب کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مَنْ رَجُلٌ يَّشْرِيْ لَنَا نَفْسَهٗ۔ کون شخص ہے جو ہمارے لیے خود کو بیچ دے؟ تو زِیَاد بن سکَن پانچ انصاری صحابہ کے ساتھ کھڑے ہوئے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ عُمَارہ بن یزید بن سکن تھے۔ تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دادِشجاعت دیتے دیتے ایک ایک کر کے شہید ہوتے رہے حتی کہ ان میں سے آخری زیاد یا عمارہ تھے۔ یہ لڑتے رہے یہاں تک کہ ان کو کئی زخم لگے پھر مسلمانوں کی ایک جماعت لوٹ آئی اور مشرکین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دھکیل دیا تو اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ زِیَاد بن سکَن کو میرے قریب کرو تو صحابہ کرامؓ نے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کر دیا۔ آپؐ نے اپنا قدم مبارک ان کا تکیہ بنا دیا اور ان کی موت اس حال میں ہوئی کہ ان کا رخسار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پر تھا اور ان کے جسم پر چودہ زخم آئےتھے۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ203 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
یہ واقعات پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔ بعض میں کوئی نئی باتیں ہوتی ہیں، چند ایک نئے فقرے ہوتے ہیں۔ کچھ اَور انداز ہوتا ہے اس لیے دوبارہ بیان کر دیتا ہوں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُحد سے مدینہ واپسی کے متعلق
روایات میں مذکور ہے کہ غزوہ اُحد کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہدائے اُحد کی تکفین و تدفین کے بعد مدینہ واپس تشریف لے آئے۔(ماخوذ ازدائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد7صفحہ55 ناشر بزم اقبال لاہور)(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ227 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اور یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ مغرب کی نماز مدینہ میں اد اکی گئی۔ چنانچہ ایک مصنف نے لکھا ہے کہ میدان اُحد سے مدینہ واپسی ہوئی تو نماز مغرب کا وقت ہونے پر حضرت بلالؓ نے اذان دی۔ نماز کی ادائیگی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن عُبادہؓ اور سعد بن معاذؓ کے سہارے مسجد تشریف لائے۔ نماز ادا کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر گھر تشریف لے گئے۔ نماز عشاء کا وقت ہونے پر حضرت بلالؓ نے پھر اذان کہی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے۔ آرام فرما رہے تھے، نیند لے رہے تھے تو اس اذان کے بعد جو نماز کا وقت تھا وہ اس پہ تشریف نہیں لا سکے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ یہ نہیں کہ واپس آ کے نماز پڑھا دی بلکہ ان کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ رات کا کافی حصہ گزر جانے پر حضرت بلالؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے آواز دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت اب پہلے سے قدرے بہتر تھی۔ عشاء کی نماز پڑھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے۔ نماز کی جگہ سے گھر تک اصحابِ رسول صفیں بنائے کھڑے تھے۔ ان کے درمیان میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہی گھر کو چلے گئے۔ اب کی بار کسی سہارے کی ضرورت نہیں پڑی۔ پہلے مغرب کی نماز پہ آئے تھے تو سہارے سے آئے تھے پھر آرام فرمایا۔ عشاء کی نماز لیٹ پڑھی اور پھر نہ آتے نہ جاتے سہارے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اس دوران میں کچھ عورتوں کو حضرت حمزہؓ کے لیے آہ و بکا کرتے پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس عمل سے روک دیا جیساکہ پچھلے خطبہ میں اس کا ذکر بھی ہو چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لے جانے پر سوائے پہرے داروں کے تمام مرد و خواتین اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔(ماخوذ از دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد7صفحہ 63 ناشر بزم اقبال لاہور)پھر وہ جو ڈیوٹی پر موجود تھے وہ وہاں رہے۔
اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ یوں لکھتے ہیں کہ ’’سارے انتظامات سے فارغ ہوکرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شام کے قریب مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔‘‘( سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ502)یعنی کہ سارے کام ہوئے۔ یہ نہیں کہ زخمی تھے تو فوری طور پر آ گئے بلکہ تمام کام سرانجام دیے۔
مدینہ کی عورتوں کا صبر اور رضا کا نمونہ۔
اس بارے میں پہلے بھی مَیں عورتوں کی مثالیں دے چکا ہوں۔ بعض اَور مثالیں ہیں۔
حضرت حَمْنَہبنت جحشؓ کے جذبات
کیا تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ اُحد کے بعد مدینہ لوٹے تو آپؐ کو حضرت مصعب بن عمیرؓ کی بیوی حضرت حمنہ بنت جحشؓ ملیں۔ لوگوں نے انہیں ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن جحش ؓکی شہادت کی خبر دی۔ اس پر انہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنپڑھا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ پھر لوگوں نے انہیں ان کے ماموں حضرت حمزہؓ کی شہادت کی خبر دی۔ اس پر انہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ پھران لوگوں نے ان کے خاوند حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شہادت کی اطلاع دی اس پر وہ رونے لگیں اور بے چین ہو گئیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
عورت کے لیے اس کے خاوند کا ایک خاص مقام و مرتبہ ہوتا ہے۔(سیرت ابن ہشام صفحہ 396 مطبوعہ دار ابن حزم بیروت)
ایک دوسری روایت میں حضرت حَمنہ بنت جحشؓ کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ جب ان سے کہا گیا کہ تمہارا بھائی شہید کر دیا گیا ہے تو انہوں نے کہا اللہ اس پر رحم کرے اور کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ لوگوں نے کہا تمہارے خاوند بھی شہید کر دیے گئے ہیں۔ کہنے لگیں کہ ہائے افسوس۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کو خاوند سے ایسا تعلق ہے جو کسی اَور سے نہیں۔(سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی البکاء علی المیت حدیث 1590)
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے بھی ایک خطاب میں حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شہادت کے اس واقعہ کا اپنے انداز میں ذکر کیا ہے۔ جس میں حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شہادت کا واقعہ اور ان کی شہادت پر ان کی بیوی کے جو جذبات تھے ان کا ذکر کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ صحابہؓ یا صحابیاتؓ جن کے اقرباء کی تعداد ایک سے زیادہ ہوتی ان کو ٹھہر ٹھہر کر اس انداز میں خبر دیتے کہ صدمہ یکلخت دل کو مغلوب نہ کر لے یعنی ان شہداء کی تعداد جن کے قریبی رشتے دار تھے اگر ایک سے زیادہ ہوتی تو یہ نہیں کہ ساروں کے بارے میں ایک دم بتا دیا بلکہ آہستہ آہستہ بتاتے تھے۔ پہلے ایک کے بارہ میںبتایا۔ پھر دوسرے کا۔ پھر تیسرے کا۔ اس لیے کہ زیادہ صدمہ نہ پہنچے۔ چنانچہ جس وقت حضورؐ کی خدمت میں حضرت عبداللہ ؓکی بہن حمنہ بنت جحشؓ حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے حمنہ!تو صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ!کس کے ثواب کی؟ آپؐ نے فرمایا اپنے ماموں حمزہ کی۔ تب حضرت حمنہؓ نے کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ غَفَرَ لَہٗ وَ رَحِمَہٗ ھَنِیْئًا لَہُ الشَّھَادَةَ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے حمنہ! صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ۔ اس نے عرض کی کہ یہ کس کے ثواب کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی عبداللہ کی۔ اس پر حمنہ نے پھر یہی کہا کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ غَفَرَ لَہٗ وَ رَحِمَہٗ ھَنِیْئًا لَہُ الشَّھَادَةَ۔ پھر آپؐ نے فرمایا اے حمنہ!صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ۔ انہوں نے عرض کیا حضور یہ کس کے لیے؟ فرمایا مصعب بن عمیر کے لیے۔ اس پر حمنہ نے کہا ہائے افسوس۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واقعی شوہر کا بیوی پر بڑا حق ہے جوکسی اَور کا نہیں۔ حضرت حمنہؓ سے پوچھا گیا کہ تُو نےصرف خاوند کے لیے ایسا کلمہ کیوں کہا؟ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! مجھے اس کے بچوں کی یتیمی یاد آ گئی تھی جس سے میں پریشان ہو گئی اور پریشانی کی حالت میں یہ کلمہ میرے منہ سے نکل گیا۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب کی اولاد کے حق میں دعا کی کہ اے اللہ! ان کے سر پرست اور بزرگ ان پر شفقت اور مہربانی کریں اور ان کے ساتھ سلوک سے پیش آویں۔(ماخوذ از خطابات طاہر قبل از خلافت صفحہ 363)
حضرت ہندؓ
جن کا ذکر مَیں گذشتہ کسی خطبہ میں کر چکا ہوں ان کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے بارے میں یوں ذکر ملتا ہے کہ ان کے خاوند بھائی اور بیٹے کی شہادت کا جب انہیں پتہ چلا کہ تینوں شہید ہو گئے تھے جیسا کہ ذکر پہلے بھی ہوا تھا تو یہ تینوں کو پہلے مدینہ لانے کے لیے لے کر آرہی تھیں لیکن پھر واپس لے گئیں۔ اور اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ
خدا تعالیٰ کی مرضی تھی کہ اُحد کے شہداء اُحدمیں ہی دفن ہوں۔
یہاں تک تو پہلے بھی مَیں بتا چکا ہوں۔ حضرت عائشہؓ جو اُحد کی خبر لینے کے لیے نکلی تھیں انہوں نے حضرت ہندؓ سے جو اُحد سے آ رہی تھیں خیر معلوم کی تو اس پر حضرت ہندؓ نے جو جواب دیا اس کا جیساکہ میں نے کہا گذشتہ خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں مزید اس کی تفصیل یوں ہے کہ حضرت ہندؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخیریت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر مصیبت آسان ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں تو پھر کوئی ایسی بات نہیں۔ اس کے بعد حضرت ہند نے یہ آیت پڑھی وَ رَدَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوْا خَيْرًا۔ وَ كَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَ۔ وَ كَانَ اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيْزًا(الاحزاب:26)۔یعنی اور اللہ نے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا ان کے غیظ سمیت اس طرح لوٹا دیا کہ وہ کوئی بھلائی حاصل نہ کر سکے اور اللہ مومنوں کے حق میں قتال میں کافی ہو گیا اور اللہ بہت قوی اور کامل غلبہ والا ہے۔
حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا کہ اونٹنی پر کون کون ہیں؟ تب حضرت ہندؓ نے بتایا کہ میرا بھائی ہے، میرا بیٹا خلاد ہے اور میرے شوہر عَمرو بن جَمُوح ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا کہ تم انہیں کہاں لے جاتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ انہیں مدینہ میں دفن کرنے کے لیے لے جا رہی ہوں۔ پھر وہ اپنے اونٹ کو ہانکنے لگیں تو اونٹ وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ اس پر وزن زیادہ ہے؟ جس پر حضرت ہندؓ کہنے لگیں کہ یہ تو دو اونٹوں جتنا وزن اٹھا لیتا ہے لیکن اس وقت یہ اس کے بالکل الٹ کر رہا ہے۔ پھر انہوں نے اونٹ کو ڈانٹا تو وہ کھڑا ہو گیا۔ جب انہوں نے اس کا رخ مدینہ کی طرف کیا تو وہ پھر بیٹھ گیا پھر جب انہوں نے اس کا رخ اُحد کی طرف پھیرا تو اونٹ جلدی جلدی چلنے لگا۔ پھر حضرت ہندؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اونٹ مامور کیا گیا ہے یعنی اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی کام پر لگایا گیا تھا کہ یہ مدینہ کی طرف نہ جائے بلکہ اُحد کی طرف ہی رہے۔ فرمایا کہ کیا تمہارے شوہر نے جنگ پر جانے سے پہلے کچھ کہا تھا؟ کہنے لگیں جب عمرو اُحد کی جانب روانہ ہونے لگے تھے تو انہوں نے قبلہ رخ ہو کر یہ کہا تھا کہ اے اللہ! مجھے میرے اہل کی طرف شرمندہ کر کے نہ لوٹانا اور مجھے شہادت نصیب کرنا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی وجہ سے اونٹ نہیں چل رہا تھا۔ فرمایا کہ اے انصار کے گروہ! تم میں سے بعض ایسے نیکو کارلوگ ہیں کہ اگر وہ خدا کی قسم کھا کر کوئی بات کریں تو خدا تعالیٰ ان کی وہ بات ضرور پوری کرتا ہے اور عمرو بن جموح بھی ان میں سے ایک ہیں۔ پھر آپؐ نے عمرو بن جموح کی بیوی کو فرمایا۔ اے ہند! جس وقت سے تیرا بھائی شہید ہوا ہے اس وقت سے فرشتے اس پر سایہ کیے ہوئے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ اسے کہاں دفن کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان شہداء کی تدفین تک وہیں رُکے رہے۔ پھر فرمایااے ہند! عمرو بن جموح، تیرا بیٹا خلاد اور تیرا بھائی عبداللہ جنت میں باہم دوست ہیں۔ اس پر ہند نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان کی رفاقت میں پہنچا دے۔(کتاب المغازی جلد1صفحہ 232-233 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو دینار کی ایک عورت کے پاس سے گزرے جس کا خاوند، بھائی اور باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ اُحد میں شریک ہوئے تھے اور وہ سب شہید ہو گئے تھے۔ جب ان کی تعزیت اس عورت سے کی گئی تو اس نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟تو لوگوں نے کہاکہ اے ام فلاں! آپؐ ٹھیک ہیں اور الحمدللہ ایسے ہی ہیں جیسے کہ تو پسند کرتی ہے۔ تو اس عورت نے جواب دیا کہ مجھے دکھاؤ۔ میں آپؐ کو دیکھنا چاہتی ہوں تو پھر اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے دکھایا گیا۔ جب اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہنے لگی کہ
ہر مصیبت آپؐ کے بعد معمولی ہے۔(سیرت ابن ہشام صفحہ 545 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ایک اَور روایت میں اس عورت کے بیٹے کے شہید ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ جنگِ اُحد کے موقع پر جب اہلِ مدینہ بہت گھبراہٹ کا شکار ہو گئے کیونکہ یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ حضر ت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا گیا ہے حتیٰ کہ مدینہ کے گلی کوچوں میں چیخ و پکار مچ گئی تھی تو ایک انصاری خاتون پریشان ہو کر گھر سے نکلی۔ اس نے آگے اپنے بھائی، بیٹے اور شوہر کی لاش دیکھی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ پہلے اس نے کس کو دیکھا تھا مگر جب وہ آخری کے پاس سے گزری تو اس نے پوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ تیرا بھائی، تیرا شوہر اور تیرا بیٹا ہے۔ اس نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے کہا وہ آگےہیں۔ وہ عورت چلتی ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام لیا اور پھر کہا کہ
یا رسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔
جب آپؐ سلامت ہیں تو مجھے کسی نقصان کی کوئی پروا نہیں۔(معجم الاوسط جلد 5 صفحہ 329-330حدیث7499 دار الفکر بیروت)
ایک قول کے مطابق اس عورت کا نام سُمیراءبنت قیس تھا جو نعمان بن عَبدِ عَمرو کی والدہ تھیں۔(کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 251 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر اس واقعہ کا ذکر اس طرح کیا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ میں اس بہادری کی مثالیں بہت کثرت سے ملتی ہیں۔ دنیوی لوگوں میں تو کروڑوں لوگوں اور سینکڑوں ملکوں میں سے ایک آدھ مثال ایسی مل سکے گی مگر صحابہؓ میں، چند ہزار صحابہؓ میں سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں۔ ٹھیک ہے دوسروں میں مل جاتی ہیں لیکن کروڑوں میں ایک آدھ مثال لیکن یہاں ہزاروں میں سینکڑوں مثالیں۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی یہ مثال ہے جو ایک عورت سے تعلق رکھتی ہے۔
پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں کئی دفعہ اسے بیان کر چکا ہوں اور جو اس قابل ہے کہ ہر مجلس میں سنائی جائے اور اس کی یاد کو تازہ رکھا جائے۔ بعض واقعات ایسے شاندار ہوتے ہیں کہ بار بار سنائے جانے کے باوجود پرانے نہیں ہوتے۔ ایسا ہی واقعہ اس عورت کا ہے جس نے جنگ اُحد کے موقع پر مدینہ میں یہ خبرسنی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں وہ مدینہ کی دوسری عورتوں کے ساتھ گھبرا کر باہر نکلی اور جب پہلا سوار اُحد سے واپس آتے ہوئےاسے نظر آیا تو اس نے اس سے دریافت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہاکہ تمہارا خاوند مارا گیا ہے۔ اس نے کہا میں نے تم سے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیا ہے اور تم میرے خاوند کی خبر سنا رہے ہو۔ اس نے پھر کہا کہ تمہارا باپ بھی مارا گیا ہے مگر اس عورت نے کہا میں تمہیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتی ہوں اور تم باپ کا حال بتا رہے ہو۔ اس سوار نے کہا کہ تمہارے دونوں بھائی بھی مارے گئے مگر اس عورت نے پھر یہی کہا کہ تم میرے سوال کا جواب جلد دو۔ میں رشتہ داروں کے متعلق نہیں پوچھتی۔ میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتی ہوں۔ اس صحابیؓ کا دل چونکہ مطمئن تھا اور جانتا تھا کہ آپؐ بخیریت ہیں۔ اس لیے اس کے نزدیک اس عورت کے لیے سب سے اہم سوال یہی تھا کہ اس کے متعلقین کی موت سے اسے آگاہ کیا جائے مگر اس عورت کے نزدیک سب سے پیاری چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی۔ اس لیے اس نے جھڑک کر کہا کہ تم میرے سوال کا جواب دو۔ اس پر اس نے کہا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خیریت سے ہیں۔ یہ سن کراس عورت نے کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو پھر مجھے کوئی غم نہیں، خواہ کوئی مارا جائے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اور ظاہر ہے کہ اس مثال کے سامنے اس بڑھیا کی مثال کی کوئی حقیقت نہیں جس کے متعلق خود نامہ نگار کو اعتراف ہے۔ یعنی اس بڑھیا کا ذکر جو آپؓ مثال دے رہے ہیں۔ وہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی ایک بوڑھی عورت ہے جس کا بیٹا ایک جنگ میں مارا گیا تھا اور اس نے ایک مصنوعی قہقہہ لگا کر اس خبر پر رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ یہ خبر ان دنوں اخباروں میں آئی تھی کہ یہ دیکھو اس عورت نے کتنے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کا بیٹا مارا گیا لیکن اس نے کوئی غم نہیں کیا اور بڑا قہقہہ لگا کر اس پر صبر کا اظہار کیا،ردّعمل ظاہر کیا۔ اس کا ذکر آپؓ فرما رہے تھے۔ تو فرماتے ہیں یہ اظہار بوجھ سے دبا ہوا معلوم ہوتا ہے گو اس عورت نے قہقہہ تو لگایا لیکن یہ اظہار جو ہےیہ بوجھ سے دبا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیںکہ وہ دل میں رو رہی تھی یعنی وہ جرمن عورت دل میں تو رو رہی تھی لیکن ظاہری طور پر اس نے جرأت کا اظہار کیا کہ کوئی بات نہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مگر صحابیہ کا واقعہ یہ نہیں ہے،یہ نہیں ہے کہ اس نے ضبط کیا ہوا تھا اور دل میں رو رہی تھی اور ظاہر نہیں کر رہی تھی بلکہ وہ صحابیہ ؓتو دل میں بھی خوش تھی کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں لیکن اس عورت کے دل پر صدمہ ضرور تھا گو وہ اسے ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ یعنی وہ جرمن عورت کے دل میں تو بہرحال صدمہ تھا مگر اس صحابیہؓ کے دل پر تو کوئی صدمہ بھی نہیں تھا اور
یہ ایسی شاندار مثال ہے کہ دنیا کی تاریخ اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کر سکتی اور بتاؤ کہ اگر ایسے لوگوں کے متعلق یہ نہ فرمایا جاتا کہ مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ تو دنیا میں اَور کونسی قوم تھی جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جاتے۔
حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ میں جب اس عورت کا واقعہ پڑھتا ہوں تو میرا دل اس کے متعلق ادب اور احترام سے بھر جاتا ہے اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس مقدس عورت کے دامن کو چھوؤں اور پھر اپنے ہاتھ آنکھوں سے لگاؤں کہ اس نے میرے محبوبؐ کے لیے اپنی محبت کی ایک بے مثل یادگار چھوڑی ہے۔(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد20صفحہ542-543)
پھر اسی عشق و محبت کا ذکربیان کرتے ہوئے ایک اَور جگہ آپؓ نے اس طرح بیان فرمایا: ’’دیکھو! اس عورت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر عشق تھا۔ لوگ اسے یکے بعد دیگرے باپ، بھائی اور خاوند کی وفات کی خبر دیتے چلے گئے لیکن وہ جواب میں ہر دفعہ یہی کہتی چلی گئی کہ مجھے بتاؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ غرض یہ بھی ایک عورت ہی تھی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر عشق کا مظاہرہ کیا۔‘‘(قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ، انوار العلوم جلد نمبر 25صفحہ 440)
پھر ایک دوسری جگہ آپؓ اس بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ ذرا اس حالت کا نقشہ اپنے ذہنوں میں اب کھینچو۔ تم میں سے ہر ایک نے مرنے والےکو دیکھا ہو گا۔ کوئی نہ کوئی قریبی مرتا ہے کسی نے اپنی ماں کو، کسی نے باپ کو،کسی نے بھائی کو، بہن کو مرتے دیکھا ہو گا۔ ذرا وہ نظارہ تو یاد کرو کہ کس طرح اپنے عزیزوں کے ہاتھوں میں اور گھروں میں اچھے سے اچھے کھانے پکوا کر اور کھا کر، علاج کروا کر اور خدمت کرا کر مرنے والوں کی حالت کیا ہوتی ہے اور کس طرح گھر میں قیامت برپاہوتی ہے اور مرنے والوں کو سوائے اپنی موت کے کسی دوسری چیز کا خیال تک بھی نہیں ہوتا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کے دلوں میں ایسا عشق پیدا کر دیا تھا کہ انہیں آپؐ کے مقابلہ میں کسی اَور چیز کی پروا ہی نہ تھی۔ مگر یہ عشق صرف اس وجہ سے تھا کہ آپؐ خدا تعالیٰ کے پیارے تھے۔ آپﷺکے محمد ہونے کی وجہ سے یہ عشق نہیں تھا بلکہ آپؐ کے رسول اللہ ہونے کی وجہ سے یہ عشق تھا۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ
وہ لوگ دراصل خدا تعالیٰ کے عاشق تھے اور چونکہ خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرتا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ آپؐ سے پیار کرتےتھے
اور صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتوں کو بھی دیکھ لو ان کے دلوں میں بھی آپؐ کی ذات کے ساتھ کیا محبت اور کیا عشق تھا۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ یہ محبت تھی جو خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی تھی مگر باوجود اس کے وہ خدا تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے اور یہی توحید تھی جس نے ان کو دنیا میں ہر جگہ غالب کر دیا تھا۔ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں وہ نہ ماں باپ کی پروا کرتے تھے اورنہ بہن بھائیوں کی اور نہ بیویوں کی اور خاوندوں کی۔ ان کے سامنے ایک ہی چیز تھی اور وہ یہ کہ ان کا خدا ان سے راضی ہو جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ فرما دیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو مقدم کیا۔ مگر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ بعد میں مسلمانوں کی یہ حالت نہ رہی اور اب اگر ان کو اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو محض دماغی ہے۔ دماغی طور پر ہم کہتے ہیں بڑا تعلق ہے۔ دماغ میں ضرور ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں۔ توحید کے قائل ہیں۔ دل میں یہ نہیں ہے۔ دل کہیں اَور طرف لگا ہوا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اگر ان کے سامنے کیا جائے تو ان کے دلوں میں محبت کی تاریں ہلنے لگتی ہیں۔(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 23صفحہ 46-47)یہ سب کچھ ہے لیکن توحید کی جو اصل صورت ہونی چاہیے وہ نہیں ہے۔
ایک سیرت نگار لکھتا ہے۔ بلا شبہ مدینہ کی مصیبت بڑی دردمند مصیبت تھی لیکن مکہ اور مدینہ کے درمیان اپنی مصیبت کے وصول کرنے میں دُور دراز کا فرق تھا۔ بڑی مصیبت تھی۔ مدینہ میں حالات بڑے خراب تھے لیکن اگر مکہ اور مدینہ کا مقابلہ کیا جائے۔ وہاں بھی مصیبت تھی۔ مکہ والوں کو بھی خطرہ رہتا تھا لیکن بڑا دُور دراز کا فرق تھا اور فرق کیا تھا؟ مشرکین مکہ نے اپنی بدر کی مصیبت کو کچھ کمزوری، اضطراب اور گھبراہٹ سے وصول کیا۔
مکہ والوں کو بدر میں جو شکست ملی اس کو کمزوری، اضطراب اور گھبراہٹ سے وصول کیا اور مدینہ نے اپنی اُحد کی مصیبت کو بے نظیر صبر و ایمان اور صبر، ثبات و شجاعت سے وصول کیا۔
اب اُحد میں مسلمانوں کو بھی کافی نقصان پہنچا لیکن ان کا یہ بے نظیر صبر تھا اور ایمان تھا اور ثبات و شجاعت تھی جس سے انہوں نے اس کو وصول کیا۔
مدینہ کی فوج کو اُحد میں جو نقصان پہنچا اس کی وجہ سے مدینہ کے باشندوں میں سے کسی پر گھبراہٹ، اضطراب اور کمزوری کا کوئی نشان نہ تھا
اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ایک مسلمان عورت نے معرکہ اُحد میں اپنے بیٹے، خاوند، بھائی اور باپ کو کھو دیا اور وہ حیران نہ ہوئی اور نہ ہی اس مصیبت نے اسے اعتدال کی حدود سے باہر کیا اور وہ بنو دینار کی عورت تھی جو میدانِ کارزار کی طرف گئی اور اس نے اپنے بیٹے، خاوند، بھائی اور باپ کو خون میں لتھڑے ہوئے مقتول دیکھا تو اس نے توازن کھونا تو کجا پروا ہی نہیں کی اور وہ صرف اس انسان کے متعلق پوچھتی رہی جو ان چاروں سے بڑھ کر اسے محبوب تھا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ جب اس نے آپؐ کو سلامت دیکھا تو اس نے کہا ہر مصیبت خواہ وہ کتنی ہی بڑی ہو آپؐ کی سلامتی کے مقابلے میں ہیچ ہے۔(غزوۂ اُحد از محمد احمد باشمیل صفحہ237-238 نفیس اکیڈمی کراچی)
باقی ان شاء اللہ آئندہ۔
فلسطین کے لوگوں کے لیے دعا کریں
اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔ دشمن تو اپنی تمام تر گھٹیا سوچوں اور حرکتوں کے ذریعہ انہیں تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ بڑی طاقتیں جنگ کو روکنے کی بجائے اسے ہوا دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ امریکہ کے صدر نے پہلے گذشتہ پیر کے دن جنگ بندی کے لیے کہا تھا۔ اب کہتے ہیں رمضان سے پہلے جنگ بندی ہو گی اور وہ بھی عارضی صرف چھ ہفتے کے لیے۔ یہ تو صرف اسرائیل کو موقع دینے کا ایک حربہ ہے کہ اس دوران ان کو آرام بھی مل جائے گا اور وہ تازہ دم ہو کر پھر ظلم شروع کر دیں گے۔ پس
اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان کے ہاتھوں کو روک سکتا ہے۔ اس لیے بہت دعا کریں۔
اسی طرح جس چیریٹی تنظیم کے ذریعہ سے ان کو خوراک یا دوائیاں وغیرہ یا کسی طرح کی مدد مل سکتی ہے وہ احمدیوں کو کرنی چاہیے۔ اپنے حلقہ میں ان کے حق میں ظلم کے ختم کرنے کے بارے میں کوشش بھی کرنی چاہیے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا سیاستدانوں کو خطوط لکھیں اور یہ لکھتے رہیں، ہمیں تھکنا نہیں چاہیے۔ سیاستدانوں کو سمجھائیں کہ جو بھی تم لوگ کر رہے ہو بڑا غلط کر رہے ہو۔ فلسطینیوں کو بھی اللہ تعالیٰ دعاؤں اور اپنی روحانی حالتوں کو بہتر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یوکرائن اور روس کی جنگ میں بھی جس میں یورپ اور امریکہ کے براہ راست شامل ہونے کی خبریں آ رہی ہیں اس سے بھی عالمی جنگ کے خطرات مزید بڑھ رہے ہیں۔ اس کے لیے بھی جہاںدعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو تباہی سے بچائے۔ وہاں احتیاطی تدابیر کے طور پر جیساکہ پہلے بھی میں نے کہا تھا اور پہلے حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ بھی ایک نسخہ ایٹمی اثرات سے بچنے کا دے چکے ہیں جماعت میں کافی معروف ہے۔ ہومیو پیتھک کا جو ہمارا شعبہ ہے وہ بتا بھی دے گا۔ اس کا بھی کم از کم ایک کورس تین تین خوراکوں کا دوبارہ کر لینا چاہیے۔ اسی طرح
احمدیوں کو دو تین مہینے کا راشن بھی گھروں میں رکھنا چاہیے اور خاص طور پہ جہاں براہ راست جنگ کا خطرہ ہے۔
جنگ نہ بھی ہو تب بھی اس کا فائدہ ہی ہے۔ پرانا راشن بھی جو لوگوں نے جمع کیا تھا مختلف آفات آتی رہیں اس میں وہ استعمال ہوتا رہا اور انہوں نے یہی کہاکہ ہمیں فائدہ ہی ہوا۔
یمن کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں
کہ اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے جلد سامان پیدا فرمائے اور وہ جو یمنی فوجوں کو یاجو ایک گروپ ہے اس کو یہ شک ہے کہ جماعت احمدیہ ملک کے خلاف سازشیں کرنے والی ہے ان کے شکوک دُور ہوں اور ان کی رہائی جلدی ہو۔
اللہ تعالیٰ دنیا کو یہ بھی عقل دے کہ وہ ترقی کے نام پر دنیا کی غلاظتوں میں پڑنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی پہچان کریں۔ مسلمان ملکوں کو بھی اللہ تعالیٰ انصاف پر قائم کر کے ایک ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے پیغام کو ہر شخص تک پہنچانے والے ہوں۔
ایک افسوسناک اطلاع
بھی ہے۔
مکرم طاہر اقبال چیمہ صاحب ابن خضر حیات چیمہ صاحب صدر جماعت احمدیہ چک84 فتح ضلع بہاولپور کو گذشتہ دنوں شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
طاہر اقبال چیمہ صاحب کی شہادت کا واقعہ یوں ہے کہ دو نامعلوم افراد نے 4؍مارچ کو فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔ بوقت شہادت مرحوم کی عمر ساٹھ سال تھی۔ مزید تفصیلات اس طرح ہیں کہ طاہر اقبال چیمہ صاحب صدر جماعت چک 84فتح ضلع بہاولپور نماز فجر کی ادائیگی کے بعد حسبِ معمول سیر کے لیے روانہ ہوئے۔ دو نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے تعاقب کر کے فائرنگ کر دی۔ آپ کے سر میں دو گولیاں لگیں جس کے نتیجہ میں آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ وقوعہ کے بعد حملہ آور موقع سے فرار ہوگئے۔ پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے لیکن وہاں اس کے بارے میں تحقیق تو ہوتی کچھ نہیں۔ بہرحال مقدمہ درج ہوا ہے۔ شہید مرحوم کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی یا ذاتی رنجش نہیں تھی۔ اپنے گاؤں اور ارد گرد کے دیہات میں بھی یہ نیک نامی کے حامل اور بڑے شریف النفس مشہور تھے۔ سوائے مذہبی عنصر کے ان کی شہادت کی اَور کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا مکرم محین خان صاحب کے بھائی حضرت حکم دین صاحب ؓصحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہوا جنہوں نے 1905ء میں چک 46؍شمالی سرگودھا سے قادیان جا کر بیعت کی تھی اور قادیان میں ہی قیام پذیر ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے بھائیوں اور خاندان کے دیگر افراد کو بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کرنے کی تحریک کی جس کی وجہ سے شہید مرحوم کے پڑدادا محین خان صاحب نے سب بھائیوں سمیت بذریعہ خط بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی۔ بعد میں یہ خاندان چک 84بہاولپور منتقل ہو گیا۔ شہید مرحوم 64ء میں چک 84 بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ وہیں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ زمیندارے کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ بفضل خدا نظام وصیت میں شامل تھے۔ بوقتِ شہادت بحیثیت صدر جماعت خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ اس سے پہلے بحیثیت سیکرٹری مال اور زعیم انصار اللہ بھی خدمت کی توفیق ان کو ملتی رہی۔ چندہ جات کی ادائیگی میں باقاعدہ، صوم و صلوٰة کے علاوہ نمازِ تہجد کی ادائیگی کا بہت خیال رکھتے۔ سفر کے دوران بھی نماز کی ادائیگی کا خصوصی انتظام کرتے۔ خلافت سے عشق تھا۔ میرے خطبات باقاعدگی سے سنتے اور جائزہ لیتے کہ کیا گھر کے سب افراد نے خطبہ سن لیا ہے۔ بوقتِ شہادت تمام لازمی چندہ جات اور حصہ جائیداد کا حساب مکمل تھا۔ جماعتی مہمانان کا خصوصی خیال رکھتے اور کوشش کرتے کہ ان کی مہمان نوازی اپنے گھر میں کی جائے۔ جماعتی طور پر نہ ہو بلکہ ذاتی طور پہ ہو۔ وہاں کےقبرستان کا بھی مرحوم نے انتظام کیا۔ پاکستان میں قبروں کا بھی اور قبرستان کا بھی بڑا مسئلہ رہتا ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی شریر انسان یا گروپ ہماری قبروں کے کتبے توڑ جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے قبرستان کا بھی انتظام کیا۔ قبروں کا جائزہ بھی لیتے رہتے تھے۔ ان کو maintain بھی رکھتے تھے۔ یہ بھی آج کل وہاں کافی کام ہے۔ گاؤں کے اکثر لوگ اپنی امانتیں ان کے پاس رکھواتے تھے جن میں غیرازجماعت بھی شامل تھے۔ اگر اعتبار تھا تو صرف احمدی پر کہ یہی ہماری امانتوں کو صحیح طرح رکھ سکتا ہے اور ساتھ دشمنی بھی۔ ان لوگوں کا یہ بھی عجیب طریق ہے۔ لیکن بہرحال جو امانتیں رکھواتے تھے وہ شریف النفس لوگ ہی ہیں لیکن دوسروں کو پھر بھی سمجھ نہیں آتی۔
ان کی اہلیہ کشور ناہید صاحبہ کہتی ہیں کہ میرے خاوند مرحوم کا رویہ میرے ساتھ نہایت مشفقانہ رہا۔ گھر میں نماز کی ادائیگی اور خلیفہ وقت کے خطبات کے سننے کا جائزہ لیتے۔ میرے عزیزوں سے ہمیشہ اپنائیت کا اور دوستانہ تعلق کا سلوک رکھتے۔
شہید مرحوم کی بیٹی مدیحہ طاہر کہتی ہیں کہ جماعتی خدمت میں پیش پیش رہتے۔ اطاعت کا وصف نمایاں تھا۔ خلافت سے بے حد احترام اور عقیدت کا تعلق تھا۔ نڈر اور بہادر احمدی تھے۔ بچوں سے ہمیشہ دوستانہ تعلق رکھا۔
امیر صاحب ضلع بہاولپور، مربی ضلع بہاولپور اور دیگر عہدیداران نے بھی شہید مرحوم کی بڑی تعریف کی ہے۔ بڑی ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار تھے۔ مہمان نوازی نمایاں وصف تھا۔ مرکزی نمائندگان اور واقفینِ زندگی سے اپنائیت کا تعلق رکھتے تھے۔
شہید مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی یادگار چھوڑے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے لقمان احمد اپنی فیملی کے ساتھ جرمنی میں ہیں۔ بیٹی مدیحہ طاہر یہاں یوکے میں رہتی ہیں۔ ایک بیٹے سلمان طاہر ان کے ساتھ ہی وہاں زمیندارہ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور سب پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں جاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ نماز کے بعد ان شاء اللہ ان کی نماز جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔
یا رسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ جب آپؐ سلامت ہیں تو مجھے کسی نقصان کی کوئی پروا نہیں
جنگِ اُحد کے دوران ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ سے فرمایا: تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں! برابر تیرچلاتے جاؤ۔
سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی آخری عمر تک ان الفاظ کونہایت فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے
خدا تعالیٰ کی مرضی تھی کہ اُحد کے شہداء اُحدمیں ہی دفن ہوں
بتاؤ کہ اگر ایسے لوگوں کے متعلق یہ نہ فرمایا جاتا کہ مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ تو دنیا میں اَور کونسی قوم تھی جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جاتے
وہ لوگ دراصل خدا تعالیٰ کے عاشق تھے اور چونکہ خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرتا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ آپؐ سے پیار کرتےتھے
مکہ والوں کو جو بدر میں شکست ملی اس کو کمزوری، اضطراب اور گھبراہٹ سے وصول کیا اور مدینہ نے اپنی اُحد کی مصیبت کو بے نظیر صبر و ایمان اور صبر، ثبات و شجاعت سے وصول کیا۔ …مدینہ کی فوج کو اُحد میں جو نقصان پہنچا اس کی وجہ سے مدینہ کے باشندوں میں سے کسی کو گھبراہٹ،اضطراب اور کمزوری کا کوئی نشان نہ تھا
جنگ اُحدمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبولیتِ دعا اور صحابہؓ اور صحابیاتؓ کی قربانیوں اور عشقِ رسولﷺ کا ایمان افروز تذکرہ
مکرم طاہراقبال چیمہ صاحب ابن خضر حیات چیمہ صاحب صدر جماعت احمدیہ چک چوراسی (۸۴) فتح ضلع بہاولپور کی شہادت۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نمازجنازہ غائب
فرمودہ 8؍ مارچ2024ء بمطابق 8؍ امان 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔