رمضان اور قرآن کریم
خطبہ جمعہ 22؍ مارچ 2024ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَالۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَمَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَلَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَلِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ وَلَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (البقرہ:186)
اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لیے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اِس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہوگا۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم (سہولت سے) گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینے کی اہمیت اس حوالے سے بیان فرمائی ہے کہ
اس مہینے میں قرآن اتارا گیا جو انسانوں کے لیے ایک عظیم ہدایت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کتاب میں تمام امور کا احاطہ کرکے، تمام ہدایات دے کر، انسان کے اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کے تمام راستے دکھا کر، شیطان کے تمام راستوں سے ہوشیار کرکے، موجودہ اور آئندہ آنے والے امور کی طرف راہنمائی کرکے، ان کے خطرات سےآگاہ کرکے، ان سے بچنے کے راستے دکھا کر، دہریت کا مقابلہ کرنے کے راستے دکھا کر، شرک سے ہوشیار کرنے اور اس سے بچنے کے طریقے سکھا کر غرضیکہ تمام امور جو موجودہ ہیں یا پرانے زمانے میں تھے یا آئندہ ہوں گے ان سب کو قرآن مجید میں بیان کر کے خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنے اور ہدایت پر قائم رہنے کے تمام راستے اس آخری کامل اور مکمل شریعت میں بیان کر دیے ہیں۔ پس
خوش قسمت ہیں وہ جو اس عظیم کتاب کو اپنا لائحہ عمل بنا کر اس پر عمل کریں اور اپنی دنیا و عاقبت سنوار لیں۔ سچائی کو پکڑلیںاور سچائی پر قائم ہو جائیں تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندے سے پیار کے سلوک کے نظارے بھی دیکھیں گے۔
پس یہ ہے رمضان کے مہینے کی اہمیت کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے کامل شریعت ہم پر اتاری ہے اور اس کتاب میں ہمیں روزوں کی فرضیت اور عبادتوں کے طریقے بھی سکھائے ہیں۔
اگر ہم صرف یہ سمجھیں کہ رمضان کے مہینے کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ اس میں روزے فرض کر دیے اور قرآن کریم نازل کر دیا تو کافی نہیں ہے جب تک کہ ہم اس کامل ہدایت کے بارے میں ادراک حاصل نہ کریں اور پھر اسے اپنی زندگی کا لائحہ عمل نہ بنائیں۔
ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اس بات کا ادراک ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور مسیح موعود اور مہدی معہود نے عطا فرمایا۔ پس اس کے لیے ہمیں آپؑ کی کتب اور تفاسیر بھی پڑھنے کی ضرورت ہے تا کہ اس عظیم کلام اور ہدایت کو سمجھ کر ہم اس پر عمل کر سکیں۔
کَل یومِ مسیح موعود بھی ہے جس میں ہم بڑی باقاعدگی سے جلسے وغیرہ بھی کرتے ہیں، اسے مناتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق مسیح موعودؑ کی آمد کے بارے میں بیان کرتے ہیں اور تقاریر کرتے ہیں
لیکن صرف اس حد تک ایمان کی ترقی کافی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں قرآن کریم کے حوالے سے جو خزانہ عطا فرمایا ہے اسے پڑھنا اور اس پر عمل کرنا، اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا بھی انتہائی اہم ہے جس کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں اس بات کا ادراک عطا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ رحمانیت کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم جیسی عظیم کتاب اتار کر ہم پر احسان کیا۔ اب اس سے فیض پانا اور اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہمارا کام ہے۔ پس اس کی طرف ہمیں خاص توجہ کرنی چاہیے۔
رمضان میں روزے رکھنے یا فرض نمازیں باقاعدگی سے ادا کرنے یا کچھ نوافل پڑھ لینے سے رمضان کا حق ادا نہیں ہوتا بلکہ قرآن کریم کو پڑھنا اور اس کے احکامات تلاش کر کے اس پر عمل کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔
اس کے احکامات تلاش کرنے کی بھی بہت ضرورت ہے اور یہ بہت اہم بات ہے اور یہی بات ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے جلوےسے صفت رحیمیت کے جلوے کا بھی فیض اٹھانے والا بنائے گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کا ادراک حاصل کرنے اور اس سے فیض پاتے ہوئے اس کی برکات حاصل کرنے کے راستے دکھانے کے لیے بےشمار ارشادات اور تحریرات ہمارے لیے چھوڑی ہیں جن کو پڑھ کر اور عمل کر کے ہم حقیقی رنگ میں قرآن کریم سے فیض اٹھانے والے بن سکتے ہیں۔
ان میں سے آپؑ کے چند ایک اقتباسات مَیں اس وقت پیش بھی کروں گا لیکن اس سے پہلے
قرآن کریم کی تلاوت کی اہمیت کے بارے میں بتا دوں کہ یہ بھی انتہائی ضروری چیز ہے جسے رمضان میں خاص طور پر ہر ایک کو ضرور کرنا چاہیے اور کم از کم ایک سیپارہ روزانہ تلاوت کرنی چاہیے تا کہ رمضان رمضان میں قرآن کریم کا ایک دَور مکمل ہو جائے۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان میں نازل شدہ قرآن کریم کا ایک دَور مکمل کروایا کرتے تھے اور آخری سال میں مکمل قرآن کریم کا دو مرتبہ دَور مکمل کیا۔(صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب کان جبرائیل یعرض القرآن علی النبیؐ حدیث 4998)پس ہر ایک کو قرآن کریم کی تلاوت کی اہمیت کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کے حوالے سے کہ ’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرہ:186)‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’یہی ایک فقرہ ہے جس سے ماہِ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے‘‘ یعنی ایسا بابرکت مہینہ ہے جس میںیہ ایسی عظیم کتاب نازل ہوئی۔ فرماتے ہیں کہ ’’صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویرِ قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔‘‘ دل کو روشن کرنے کے لیے، اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کے لیے ایک بڑا عمدہ مہینہ ہے۔ ’’کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلوٰة تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم (روزہ) تجلی قلب کرتا ہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفسِ امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جاوے۔‘‘ دل کے اندر جو بیہودہ خیالات آتے رہتے ہیں، گناہ کے خیالات آتے رہتے ہیں ان سے دُوری پیدا ہو ’’اور تجلی قلب سے یہ مراد ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لیوے۔‘‘ خدا تعالیٰ کا قرب اس سے حاصل ہوتا ہے۔ فرمایا ’’پس اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ میں یہی اشارہ ہے اس میں شک و شبہ کوئی نہیں ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 424۔ایڈیشن 2022ء)
یعنی قرآن کریم پر عمل کرنے کی برکت سے عبادتوں کے ساتھ یہ مقام ملتا ہے۔ پھر
قرآن کریم کے پڑھنے اور سمجھنے کی طرف توجہ
دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’مَیں نے قرآن کے لفظ میں غور کی۔ تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبر دست پیش گوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اَور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے قابل کتاب ہو گی جبکہ اَور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی۔‘‘ فرمایا ’’اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہو گی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی۔ (اور فرمایا) فرقان کے بھی یہی معنی ہیں۔ یعنی یہی ایک کتاب حق وباطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی اور کوئی حدیث کی یا اَو ر کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہو گی۔‘‘ فرمایا ’’…اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو … بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی دن رات جھکا رہے…
ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبّر میں جان ودل سے مصروف ہو جائیں
اور حدیثوں کے شغل کو ترک کر دیں… بڑے تاسف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ اعتنا اور تدارس نہیں کیا جاتا جو احادیث کا کیا جاتا ہے…
اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے۔ اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی۔
مَیں کہتا ہوں درحقیقت یہی ایک ہتھیار ہے جو اَب بھی کارگر ہے اور ہمیشہ کے لئے کارگر ہو گا اور پہلے بھی قرنِ اوّل میں یہی ایک حربہ تھا جو خود حضور سرور عالم علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صحابہؓ کے ہاتھ میں تھا۔ مبارکی اور صدہزار مبارکی ہے اس قوم کو جو اس کے اختیار کرنے اور اسی یگانہ کتاب کو اپنا مایہ ایمان قرار دینے میں ذرا بھی تردّد اور تذبذب میں نہیں پڑی۔ بڑے جوش اور خوشی سے آگے بڑھ کر اس فرقان اور نور کو لبیک کہا۔‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اوّل صفحہ 647-648)
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ
قرآن کا نزول ضرورت حَقّہ کے وقت ہوا
آپؑ فرماتے ہیں:’’وہ زمانہ کہ جس میں آنحضرتؐ مبعوث ہوئے حقیقت میں ایسا زمانہ تھا کہ جس کی حالت موجودہ ‘‘ جس کی حالت یعنی اس زمانے کی حالت، جو اس وقت حالت تھی ’’ایک بزرگ اور عظیم القدر مصلح ربانی اور ہادیٔ آسمانی کی اشد محتاج تھی اور جو جو تعلیم دی گئی وہ بھی واقعہ میں سچی اور ایسی تھی کہ جس کی نہایت ضرورت تھی۔ اور ان تمام امور کی جامع تھی کہ جس سے تمام ضرورتیں زمانہ کی پوری ہوتی تھیں۔ اور پھر اس تعلیم نے اثر بھی ایسا کر دکھایا کہ لاکھوں دلوں کو حق اور راستی کی طرف کھینچ لائی اور لاکھوں سینوں پر لا الٰہ الّا اللّٰہ کا نقش جما دیا اور جو نبوت کی علّت غائی ہوتی ہے۔‘‘ جو بنیاد ہوتی ہے نبوت کی ’’یعنی تعلیم اصول نجات کے اس کو ایسا کمال تک پہنچایا جو کسی دوسرے نبی کے ہاتھ سے وہ کمال کسی زمانہ میں بہم نہیں پہنچا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 112-113)
پس یہ آخری شرعی کتاب ایسے وقت میں آئی جب حالات اس کے آنے کا تقاضا کرتے تھے اور پھر لاکھوں دلوں کو پاک کیا اور آج تک کرتی چلی جا رہی ہے۔ پس جس نے فیض اٹھانا ہے اس سے فیض اٹھانے کی کوشش کرے۔
قرآن کریم علم و عمل میں بھی کمال تک پہنچاتا ہے
یہ صرف باتیں نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کے، جو نیک مسلمان ہیں آج تک کے عمل اس بات کے گواہ ہیں۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یاد رہے کہ اکیلی عقل کو ماننے والے جیسے علم اور معرفت اور یقین میں ناقص ہیں ویسا ہی عمل اور وفاداری اور صدقِ قدم میں بھی ناقص اور قاصر ہیں اور ان کی جماعت نے کوئی ایسا نمونہ قائم نہیں کیا جس سے یہ ثبوت مل سکے کہ وہ بھی ان کروڑہا مقدس لوگوں کی طرح خدا کے وفادار اور مقبول بندے ہیں کہ جن کی برکتیں ایسی دنیا میں ظاہر ہوئیں کہ ان کے وعظ اور نصیحت اور دعا اور توجہ اور تاثیر صحبت سے صدہا لوگ پاک روش اور باخدا ہوکر ایسے اپنے مولیٰ کی طرف جھک گئے کہ دنیا و مافیہا کی کچھ پرواہ نہ رکھ کر اور اس جہان کی لذتوں اور راحتوں اور خوشیوں اور شہرتوں اور فخروں اور مالوں اور ملکوں سے بالکل قطع نظر کرکے اس سچائی کے راستہ پر قدم مارا جس پر قدم مارنے سے ان میں سے سینکڑوں کی جانیں تلف ہوئیں۔‘‘ دین کی خاطر قربانی کا جذبہ ان میں پیدا ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر اللہ سے وفاکرنے کا جذبہ پیدا ہو کے قربانی کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ فرمایا ’’جانیں تلف ہوئیں۔ ہزارہا سرکاٹے گئے۔ لاکھوں مقدسوں کے خون سے زمین تر ہوگئی۔ پر باوجود ان سب آفتوں کے انہوں نے ایسا صدق دکھایا کہ عاشقِ دلدادہ کی طرح پابزنجیر ہوکر ہنستے رہے اور دکھ اٹھا کر خوش ہوتے رہے اور بلاؤں میں پڑ کر شکر کرتے رہے اور اسی ایک کی محبت میں وطنوں سے بے وطن ہو گئے اور عزت سے ذلّت اختیار کی اور آرام سے مصیبت کو سرپر لے لیا اور تونگری سے مفلسی قبول کر لی اور ہریک پیوند و رابطہ اور خویشی سے غریبی اور تنہائی اور بے کسی پر قناعت کی اور اپنے خون کے بہانے سے اور اپنے سروں کے کٹانے سے اور اپنی جانوں کے دینے سے خدا کی ہستی پر مہریں لگا دیں اور کلام الٰہی کی سچی متابعت کی برکت سے وہ انوار خاصہ ان میں پیدا ہو گئے کہ جو ان کے غیر میں کبھی نہیں پائے گئے اور ایسے لوگ نہ صرف پہلے زمانوں میں موجود تھے بلکہ یہ برگزیدہ جماعت ہمیشہ اہلِ اسلام میں پیدا ہوتی رہتی ہے اور ہمیشہ اپنے نورانی وجود سے اپنے مخالفین کو ملزم و لاجواب کرتی آئی ہے۔ لہٰذا
منکرین پر ہماری یہ حجت بھی تمام ہے کہ قرآن شریف جیسے مراتبِ علمیہ میں اعلیٰ درجہ کمال تک پہونچاتا ہے ویسا ہی مراتبِ عملیہ کے کمالات بھی اسی کے ذریعہ سے ملتے ہیں اور آثار و انوار قبولیت حضرت احدیت انہیں لوگوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ظاہر ہوتے ہیں جنہوں نے اس پاک کلام کی متابعت اختیار کی ہے۔‘‘
اگر حقیقی رنگ میں اس کی پیروی کرو گے تو یہ معیار حاصل ہوں گے۔ ’’دوسروں میں ہرگز ظاہر نہیں ہوتے۔ پس طالب حق کے لئے یہی دلیل جس کو وہ بچشم خود معائنہ کرسکتا ہے کافی ہے یعنی یہ کہ آسمانی برکتیں اور ربانی نشان صرف قرآن شریف کے کامل تابعین میں پائے جاتے ہیں۔‘‘ نشانات اگر دیکھنے ہیں تو وہ صرف قرآن کریم کے کامل اتباع کرنے والوں میں پائے جاتے ہیں۔ ’’اور دوسرے تمام فرقے کہ جو حقیقی اور پاک الہام سے روگردان ہیں کیا برہمو اور کیا آریا اور کیا عیسائی وہ اس نورِ صداقت سے بے نصیب اور بے بہرہ ہیں چنانچہ
ہریک منکر کی تسلی کرنے کے لئے ہم ہی ذمہ اٹھاتے ہیں بشرطیکہ وہ سچے دل سے اسلام قبول کرنے پر مستعد ہو کر پوری پوری ارادت اور استقامت اور صبر اور صداقت سے طلبِ حق کے لئے اس طرف تکلیف کُش ہو۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 350تا 352 حاشیہ)
پس جو کوئی بھی سچے دل سے اس ہدایت کی طرف بڑھے گا اس کی علمی اور عملی طاقتیں بڑھیں گی۔ یہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے اور یہ دعویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ آؤ میں تمہیں بتاتا ہوں۔ اس کو سمجھو اور میرے سے سیکھو کہ کس طرح مَیں تمہیں سکھاتا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں:’’کس قدر ظلم ہے کہ اسلام کے اصولوں کو چھوڑ کر،قرآن کو چھوڑ کر جس نے ایک وحشی دنیا کو انسان اور انسان سے باخدا انسان بنایا ایک دنیا پرست قوم کی پیروی کی جائے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’جو لوگ اسلام کی بہتری اور زندگی مغربی دنیا کو قبلہ بنا کر چاہتے ہیں۔‘‘ سمجھتے ہیں کہ مغربی دنیا نے بڑی ترقی کر لی ہے۔ اس کواپنا راہنما بنانا چاہتے ہیں ’’مغربی دنیا کو قبلہ بنا کرچاہتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔
کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں۔‘‘
اور یہ دنیا کی کامیابی بھی ہے اور دین کی کامیابی بھی ہے اور آخرت کی کامیابی بھی ہے۔ دنیادار تو صرف دنیاوی کامیابیوں پہ انحصار کرتے ہیں۔ اگر ہر قسم کی کامیابی لینی چاہیے،تو قرآن کریم میں ملے گی۔ فرمایا ’’قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے۔ اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں۔ صحابہؓ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو۔ دیکھو! انہوں نے جب پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے پورے ہو گئے۔ ابتدا میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں۔‘‘ حال تو یہ ہے کہ چھپ کے عبادتیں کر رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں ہم بادشاہ بنیں گے۔’’لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جو صدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا۔ وہ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے اور انہی کی اطاعت اور پیروی میں دن رات کوشاں تھے۔ ان لوگوں کی پیروی کسی رسم و رواج تک میں بھی نہ کرتے تھے جن کو کفار کہتے تھے۔‘‘ کفار کے کسی رسم و رواج کی پیروی بھی نہیں کرتے تھے، سب کچھ چھوڑ دیا۔ ’’جب تک اسلام اس حالت میں رہا وہ زمانہ اقبال اور عروج کا رہا۔ اس میں سرّ یہ تھا۔ ؎
خدا داری چہ غم داری‘‘
فرمایا کہ
’’مسلمانوں کی فتوحات اور کامیابیوں کی کلید بھی ایمان تھا۔‘‘
آج ایمان کے وہ معیار نہیں ہیں صرف باتیں ہیں لیکن اگر یہ سب کچھ حاصل کرنا ہے تو ایمان کو بڑھانا پڑنا ہے۔ فرمایا کہ ’’صلاح الدین کے مقابلہ پر کس قدر ہجوم ہوا تھا۔‘‘ بادشاہ صلاح الدین کی مثال دے رہے ہیں کہ اس کے مقابلے پر کئی فوجیں اکٹھی ہوئیں ’’لیکن آخر اس پر کوئی قابو نہ پا سکا۔ اس کی نیّت اسلام کی خدمت تھی۔ غرض ایک مدت تک ایسا ہی رہا۔ جب بادشاہوں نے فسق وفجور اختیار کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا غضب ٹوٹ پڑا اور رفتہ رفتہ ایسا زوال آیا جس کو اب تم دیکھ رہے ہو۔ اب اس مرض‘‘ یعنی اسلام کی کمزور حالت ’’کی جو تشخیص کی جاتی ہے ہم اس کے مخالف ہیں۔ ہمارے نزدیک اس تشخیص پر جو علاج کیا جاوے گا وہ زیادہ خطر ناک اور مضر ثابت ہو گا۔‘‘ تشخیص یہ کرتے ہیں کہ جی مغربی دنیا کی تقلید کرو۔ ترقی کرنی ہے تو یہ نئے مغربی علوم حاصل کرو۔ ہاں حاصل کرو لیکن قرآن کو اپنا راہنما بناؤ۔ فرمایا
’’جب تک مسلمانوں کا رجوع قرآن شریف کی طرف نہ ہو گا ان میں وہ ایمان پیدا نہ ہو گا، یہ تندرست نہ ہوں گے۔ عزت اور عروج اسی راہ سے آئے گا جس راہ سے پہلے آیا۔‘‘ (ملفوظات جلد2صفحہ 157-158 ایڈیشن 1984ء)
پس ایمان اور عمل میں ترقی بھی دنیا داروں کی پیروی سے نہیں ہو گی بلکہ قرآن کریم کی پیروی سے ہو گی۔
پھر
مسلمانوں کے قرآن شریف سے بے توجہگی اور اسے پڑھنے میں سستی
کا بڑے درد سے ذکر فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپؐ نے آ کر دنیا کے سامنے وہ خدا پیش کیا جو انسانی کانشس اور فطرت چاہتی ہے اور اس کا پورا پورا بیان خدا تعالیٰ کی سچی کتاب قرآن مجید میں ہے۔‘‘ فرمایا ’’مَیں اس وقت دوسرے لوگوں کو جو مسلمان نہیں ہیں الگ رکھ کر صرف ان لوگوں کے متعلق کچھ کہوں گا جو مسلمان ہیں اور انہی سے خطاب کروں گا۔ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا(الفرقان:31)‘‘ کہ اے میرے ربّ! یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے۔ فرمایا
’’یاد رکھو قرآنِ شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے۔
یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآنِ شریف پر عمل نہیں کرتے۔ عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ تو بہت دُور پڑے ہوئے ہیں لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ خداتعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفابخش نسخہ ہے۔ اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے۔ ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں۔ پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کی کلام سے ایسے غافل اور لاپروا ہیں ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت مصفیٰ اور شیریں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفاء ہے۔ یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے، اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا۔‘‘ ایک ایسے پانی کا چشمہ ہے جو پیاس بھی بجھاتا ہے اور علاج بھی ہے اس کے پاس تو جاتا نہیں۔ بڑا بدقسمت ہے وہ۔ فرمایا ’’تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی ہے اور جہالت ہے۔ اسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمہ پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظ اٹھاتا مگر وہ باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دُور ہے جیسا کہ ایک بے خبر۔‘‘ فرمایا کہ ’’اور اس وقت تک اس سے دُور رہتا ہے جو موت آ کر خاتمہ کر دیتی ہے۔‘‘ بعضوں کو موت آجاتی ہے لیکن قرآن کریم کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ’’اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے۔ مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآنِ شریف ہے۔ جس پر ہم کو عمل کرنا چاہیے مگر نہیں اس کی پروا بھی نہیں کی جاتی۔ ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خد اتعالیٰ کے حکم اور ایما سے اس طرف بلاوے تو اسے کذّاب اور دجال کہا جاتا ہے۔اس سے بڑھ کر اَور کیا قابل رحم حالت اس قوم کی ہو گی۔‘‘
یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو خدا نے قرآن کریم کی تعلیم پھیلانے کے لیے اس زمانے میں بھیجا ہے انہیں کذّاب کہا جاتا ہے، جھوٹا کہا جاتا ہے، مفتری کہا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں۔ مخالفت میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اب ایسی حالت سے اَور قابل رحم حالت ان لوگوں کی اَور کیا ہوگی۔ فرمایا کہ ’’مسلمانوں کو چاہئے تھا اور اب بھی ان کے لئے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔ اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح ان کی مصیبتوں اور مشکلات کو دُور کر دیتا ہے۔ کاش! مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے یہ ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے اور وہ اس پر چل کر فائدہ اٹھائیں۔‘‘ فرمایا
’’یقیناً یاد رکھو کہ جو شخص سچے دل سے اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اس کی پاک کتاب پر عمل کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو لاانتہا برکات سے حصہ دیتاہے۔ ایسی برکات اسے دی جاتی ہیں جو اس دنیا کی نعمتوں سے بہت ہی بڑھ کر ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک عفوِ گناہ بھی ہے۔‘‘
یعنی گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ’’کہ جب وہ رجوع کرتا اور توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔ دوسرے لوگ اس نعمت سے بالکل بے بہرہ ہیں اس لئے کہ وہ اس پرا عتقاد ہی نہیں رکھتے کہ توبہ سے گناہ بھی بخشے جایا کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ہم کو جُونوں میں جانا پڑے گا۔‘‘ جو بعض ہندوؤں کا عقیدہ ہے ’’اور معافی نہیں مل سکتی۔ عیسائیوں کے اصول کے موافق مسیح کے خون پر ایک بار ایمان لا کر اگر گناہ ہو جاوے تو پھر صلیبِ مسیح کوئی فائدہ نہیں دے سکتی کیونکہ مسیح دو مرتبہ صلیب پر نہیں چڑھے گا تو کیا یہ بات صاف نہیں ہے کہ ان دونو کے لئے بخشے جانے اور نجات کی راہ بند ہے کیونکہ صدورِ گناہ تو رک نہیں سکتا۔‘‘ یہ تو ہوتا رہتا ہے انسان بعض لغزشیں کرتا رہتا ہے۔ ’’اگر خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کا شکر نہ کرے تو یہ بھی گناہ ہے اور غفلت کرے تو یہ بھی گناہ ہے اور ان گناہوں پر بھی جُونوں میں جانا پڑے گا یا مسیح کو دوبارہ صلیب نہیں دیا جائے گا۔ اس لئے کلّی طور پر مایوس ہونا پڑے گا۔‘‘ باقی مذاہب میں تو اگر گناہ سرزد ہوتے جاتے ہیں تو پھر مایوسی ہے، کوئی بخشنے کا ذریعہ نہیں ہے ’’مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ تعلیم نہیں دی۔ ان کے لئے ہر وقت توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ جب انسان اس کی طرف رجوع کرے اور اپنے پچھلے گناہوں کا اقرار کرکے اس سے خواستگارِ معافی ہو اور آئندہ کے لئے نیکیوں کا عزم کرے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دیتا ہے۔
اس لئے مَیں کہتا ہوں کہ میری باتوں کو متوجہ ہو کر سنو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ باتیں صرف تمہارے کان تک ہی رہ جائیں اور تم ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھاؤ اور یہ تمہارے دل تک نہ پہنچیں۔‘‘پس یہ باتیں سنو اور اپنے دل تک پہنچاؤ، ساری صرف کانوں تک نہ رکھو۔ فرمایا ’’نہیں۔ بلکہ پوری توجہ سے سنو اور ان کو دل میں جگہ دو اور اپنے عمل سے دکھاؤ کہ تم نے ان کو سرسری طور پر نہیں سنا اور ان کا اثر اسی آن تک نہیں بلکہ گہرا اثر ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد7صفحہ 181تا 183۔ایڈیشن 1984ء)
یہاں بیٹھ کے خطبہ سننے تک ہی اثر نہیں ہے بلکہ بعد میں بھی اس پر عمل ہو اور عمل یہی ہے کہ ہم قرآن کریم کو پڑھیں۔ رمضان میں اس کی عادت ڈالیں۔ پھر مستقل زندگی کا حصہ بنائیں اور پھر اس کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں۔
احمدیوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ ہم قرآن کریم میں تحریف کرنے والے ہیں۔
پاکستان میں آج کل اسی قانون کے پیچھے احمدیوں پر مولویوں کی طرف سے مقدمے قائم کیے جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں بیان کر دیتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’قرآنِ شریف قانونِ آسمانی اور نجات کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم اس میں تبدیلی کریں تو یہ بہت ہی سخت گناہ ہے۔ تعجب ہوگا کہ ہم یہودیوں اور عیسائیوں پر بھی اعتراض کرتے ہیں اور پھر قرآنِ شریف کے لیے وہی روارکھتے ہیں۔ مجھے اَور بھی افسوس اور تعجب آتا ہے کہ وہ عیسائی جن کی کتابیں فی الواقعہ محرّف مبدّل ہیں وہ تو کوشش کریں کہ تحریف ثابت نہ ہو اور ہم خود تحریف کرنے کی فکر میں!!!‘‘ یعنی جن کی پرانی شریعتوں کی کتابیں تحریف شدہ ہیں وہ تو کہتے ہیں نہیں تحریف ہوئیں لیکن ہمارے بعض عمل ایسے ہیں اور بعض باتیں ایسی ہیں کہ خود ہم تحریف کر رہے ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’دیکھو! افترا کرنے والا خبیث اور موذی ہوتاہے۔‘‘ آپؑ نے اپنا نکتہ نظر بیان فرمایا کہ تم کہتے ہو کہ قرآن کریم میں تحریف ہو گئی۔ افترا ءکرنے والا خبیث اور موذی ہوتا ہے ’’اور خد اتعالیٰ کے کلام میں تحریف کرنا یہ بھی افتراء ہے اس سے بچو۔‘‘ (ملفوظات جلد7صفحہ 168-169۔ایڈیشن 1984ء)
پس ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہر قسم کی تحریف سے بچنا ہے کیونکہ تحریف کرنے والا خبیث اور موذی ہے۔ آپؑ نے یہ فرمایا۔ پس ہم پر یہ الزام لگانے والوں کو عقل کرنی چاہیے کہ کیا تحریف کر کے ہم اپنے آپ کو خبیثوں اور موذیوں میں شمار کرنے والے ہو جائیں گے یا بننا چاہیں گے؟
قرآن کریم کے کامل کتاب ہونے پر
آپؑ نے کیا ارشاد فرمایا۔ فرمایا:’’مَیں قرآن اور احکام قرآنی کی خدمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک مذہب کی خدمت کے واسطے کمربستہ ہوں اور جان تک مَیں نے اپنی اس راہ میں لگادی ہے۔ اور
میرا یقین کامل ہے کہ قرآن کے سواجو کامل اکمل اورمکمل کتاب ہے اوراس کی پوری اطاعت اور بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے نجات ممکن ہی نہیں اورقرآن میں کمی بیشی کرنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جؤا اپنی گردن سے اتارنے والے کو کافر اورمرتد یقین کرتا ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد10صفحہ 309 ایڈیشن 1984ء)
پس یہ ان سارے سوالوں کا جواب ہے جو ہم پر الزام لگائے جاتے ہیں۔
پھر فرمایا
قرآن کریم کی تعلیم سے نجات کی راہ اور نور ملتا ہے۔
اس بات کو واضح فرمایا کہ اس کے علاوہ اَور کوئی کتاب ہے ہی نہیں جو یہ نور دے سکے اور ہدایت دے سکے۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’سچا رہنما قرآن شریف ہے اور اس کی پیروی اسی جہان میں نجات کے انوار دکھلاتی ہے اور سعادت عظمی تک پہنچاتی ہے۔ وَ مَنْ كَانَ فِيْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰى فَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا۔(بنی اسرائیل:73) ‘‘ جو اس دنیا میں اندھا ہو وہ آخرت میں بھی اندھا ہے اور راہ کے اعتبار سے سب سے زیادہ بھٹکا ہوا ہے۔ وَمَنْ كَانَ فِيْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰى فَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا۔ فرمایا کہ ’’جو شخص معارف حقہ کے حصول کے لئے پوری پوری کوشش کرے اور صرف قیل و قال میں نہ پھنس رہے اس پر بخوبی واضح ہو جائے گا کہ باطنی نعمتوں کے حاصل کرنے کے لئے صرف ایک ہی راہ ہے یعنی یہ کہ متابعت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اختیار کی جائے۔ اور تعلیم قرآنی کو اپنا مرشد اور رہبر بنایا جاوے۔‘‘ آپؑ نے یہاں الفاظ عربی کے استعمال کیے ہیں۔ فرمایا: پوری کوشش کرے اور صرف قیل و قالَ میں نہ پھنسا رہے یعنی حدیثوں کے حوالے نہ دیتا رہے۔ اس پر بخوبی واضح ہو جائے گا کہ باقی باطنی نعمتوں کے حاصل کرنے کے لیے صرف ایک ہی راہ ہے یعنی یہ کہ متابعت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اختیار کی جائے اور تعلیم قرآنی کو اپنا مرشد اور راہبر بنایا جاوے۔ ’’یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ہندوؤں اور عیسائیوں میں کئی لوگ ریاضت اور جوگ میں وہ محنت کرتے ہیں کہ جس سے ان کا جسم خشک ہو جاتا ہے اور برسوں جنگلوں میں کاٹتے ہیں اور ریاضاتِ شدیدہ بجا لاتے ہیں۔‘‘ بڑی سخت ریاضتیں کرتے ہیں۔ ’’لذّات سے بکلّی کنارہ کش ہو جاتے ہیں مگر پھر بھی وہ انوارِ خاصہ ان کو نصیب نہیں ہوتے کہ جو مسلمانوں کو باوجود قلتِ ریاضت و ترکِ رہبانیت کے نصیب ہوتے ہیں۔‘‘وہ خصوصیات ان کو نہیں مل سکتیں لیکن اگر قرآن کریم پر عمل کریں تو تب یہ ہوتے ہیں۔ فرمایا ’’پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ صراط مستقیم وہی ہے جس کی تعلیم قرآن شریف کرتا ہے۔
بلا شبہ یہ سچ بات ہے کہ اگر کوئی توبہ نصوح اختیار کر کے دس روز بھی قرآنی منشا کے بموجب مشغولی اختیار کرے تو اپنے قلب پر نور نازل ہوتا دیکھے گا۔ یہ خصوصیت دینِ اسلام کی بلاامتحان نہیں۔‘‘ یہ نہیں کہ صرف بات کردی، اس کا کوئی امتحان نہیں بلکہ ’’صدہا پاک باطنوں نے اس راہ سے فیض پایا ہے۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ 549۔ایڈیشن دوم)
اس کی سینکڑوں مثالیں ایسی ہیں کہ جنہوں نے اس پر عمل کیا اور فیض پایا۔ زبانی دعویٰ نہیں ہے بلکہ جنہوں نے عمل کیا انہوں نے فیض پایا ہے اور سینکڑوں ہزاروں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ پس ہمیں بھی چاہیے کہ اس طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ کریں اور اپنی نسلوں میں بھی اس کی اہمیت پیدا کریں۔
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ
انسانوں کو خدا تعالیٰ پر حقیقی ایمان نہیں ہے
بلکہ ان لوگوں کی حالت ابھی کمزور ہے جو بظاہر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں۔
آپؑ نے انسان کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا اور یہ ثبوت قرآنی تعلیم کی روشنی میںدیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ’’اے دوستو! گناہ سے بے خوف ہونے کی یہی وجہ ہے کہ غافل انسان کو نہ خدا پر یقینی ایمان ہے نہ اس کی سزا پر۔ ورنہ انسان اپنی ذات میں بزدل ہے۔‘‘ انسان اپنی ذات میں بڑا بزدل ہے۔ ’’اگر ایک گھر میں کسی چھت کے نیچے‘‘ مثال دی ہے آپؑ نے کہ دیکھو ’’اگر ایک گھر میں کسی چھت کے نیچے چند آدمی بیٹھے ہوں اور یکدفعہ سخت زلزلہ آوے تو وہ سب کے سب باہر کی طرف دوڑتے ہیں۔ اس کا یہی سبب ہے کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر چند منٹ اَور چھت کے نیچے بیٹھے رہے تو موت کا شکار ہوجائیں گے‘‘ چھت نیچے آ پڑے گی۔ ’’مگر چونکہ گناہ کرنے والوں کو خدا پر یقین نہیں، نہ اس کی سزا پر یقین ہے اس لئے وہ لوگ دلیری سے گناہ کرتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’جو لوگ جھوٹے اور بناوٹی ذریعے نجات کے لئے ڈھونڈھتے ہیں وہ اَور بھی گناہ پر دلیر ہو جاتے ہیں کیونکہ جھوٹا ذریعہ کوئی یقین نہیں بخشتا مگر جس شخص کو یہ علم یقینی حاصل ہوجاتا ہے کہ درحقیقت خدا ہے اور درحقیقت گناہ گاربے سزا نہیں رہے گا بشرطیکہ یقینی علم ہو نہ محض رسمی۔ وہ بلاشبہ اپنے تئیں گناہ کی راہوں سے بچائے گا۔ سچی فلاسفی نجات کی یہی ہے جو قرآن شریف نے ہم پر ظاہر کی اگر چاہو تو قبول کرو۔‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 422-423)
پس اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کریں۔ اس پر ایمان میں کامل ہونے کی کوشش کریں تو نجات ہے ورنہ بہت مشکل ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’مبارک وہ جو خدا کے لئے اپنے نفس سے جنگ کرتے ہیں اور بدبخت وہ جو اپنے نفس کے لئے خدا سے جنگ کر رہے ہیں اور اس سے موافقت نہیں کرتے جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہرگز داخل نہیں ہوگا ‘‘ یعنی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکے گا۔ ’’سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے تاتم اسی کے لئے پکڑے نہ جاؤ کیونکہ ایک ذرّہ بدی کا بھی قابلِ پاداش ہے۔ وقت تھوڑا ہے اور کار عمر ناپیدا۔ تیز قدم اٹھاؤ جو شام نزدیک ہے جو کچھ پیش کرنا ہے وہ بار بار دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ کچھ رہ جائے اور زیان کاری کا موجب ہو یا سب گندی اور کھوٹی متاع ہو جو شاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ 25-26)
اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کاشکر کرنے والے اور جو ہدایت اس نے دی ہے اس سے فائدہ اٹھانے والے ہوں۔ ہمیں ایمان اور یقین اور اللہ تعالیٰ کی خشیت میں اللہ تعالیٰ بڑھائے۔ ہم صرف رمضان میں نہیں بلکہ ہمیشہ قرآنی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں۔ جب یہ ہو گا تبھی ہم کہہ سکیں گے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اسلام کی نشأة ثانیہ کے لیے بھیجے گئے تھے۔ قرآن کریم کی حکومت کا جواہماری گردنوںمیں ڈالنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس رمضان میں اور پھر بعد میں بھی ہمیشہ ہمیں قرآنی تعلیم سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔
دعاؤں میں فلسطینیوں کو بھی یاد رکھیں
جنگ کے علاوہ بھوک اور بیماری سے اب بچوں اور معصوموں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اب تو یو این (UN)کے ادارے بھی یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ یہ انسان کا پیدا کردہ قحط اور بھوک ہے، آفت ہے جو اسرائیلی حکومت کی سختی اور ڈھٹائی کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔ اگر رستے کھل جائیں اور امداد جلد پہنچ جائے تو ابھی بھی بہتری آ سکتی ہے۔
اسی طرح سوڈان کی عوام کے لیے بھی دعا کریں۔
اللہ تعالیٰ ان کے لیڈروں اور صاحبِ اقتدار لوگوں کو عقل دے۔ وہاں بھی بھوک اور بیماری سے لوگ مر رہے ہیں اور اپنے ہی لوگ اپنے ہم وطنوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ یہ سب اس لیے کہ ہوا و ہوس ہے اور قرآنی تعلیم کو بھول گئے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس زمانے میں بھیجا گیا ہے اسے ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔
اسی طرح بہت سے دوسرے مسلمان ممالک کی حالت ہے وہاں بھی کافی تکلیف دہ صورتحال ہے۔
حکومتیں اپنے عوام پر ظلم کر رہی ہیں۔ آپس میں لوگ لڑ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے۔
پاکستان کے ہمارے احمدی اسیران ہیں ان کے لیے دعا کریں،
یمن کے اسیران ہیں ان کے لیے بھی دعا کرتے رہیں۔
پاکستان میں عمومی حالات کے لیے بھی دعا کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں کو محفوظ رکھے۔
نماز کے بعد میں کچھ
جنازے غائب
بھی پڑھاؤں گا ان کا ذکر کردیتا ہوں۔
پہلا ذکر ہے
ڈاکٹر ظہیر الدین منصور احمد صاحب امریکہ
کا جو گذشتہ دنوں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔یہ صاحبزادی امة الرشید بیگم اور میاں عبدالرحیم احمد صاحب کے بیٹے تھے۔ ننھیال کی طرف سے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑنواسے اور حضرت مصلح موعودؓ کے نواسے تھے۔ ددھیال کی طرف سےحضرت پروفیسر علی احمد صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے تھے۔ انہوں نے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد فوج میں بھی کام کرتے رہے۔ پھر ربوہ میں میڈیکل کلینک اپنا کلینک کھولا اور ارد گرد کے غریبوں کی کافی مدد کرتے رہے۔ لوگوں نے ان کے کلینک سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ میں بھی ان کو مہتمم اور قائد کے طور پر خدمات کی توفیق ملتی رہی۔ جب سے امریکہ میں گئے ہیں وہاں ان کو نیشنل سیکرٹری تعلیم القرآن کی خدمت ملی۔
خلافت سے بھی ان کا بے مثال تعلق تھا۔ اطاعت اور عشق کا تعلق تھا۔ مَیں نے بھی دیکھا ہے کہ خلافت کے بعد میرے ساتھ انہوں نے بہت زیادہ تعلق کا اظہار کیا۔ ہمیشہ دعا کے لیے لکھتے رہتے تھے۔ ہر کام سےپہلے دعا کے لیے کہتے تھے۔ شعبہ تعلیم القرآن کے لیے بھی انہوں نے بڑی محنت اور لگن سے کام کیا ہے۔
ان کی اہلیہ رضوانہ صاحبہ کہتی ہیں کہ قرآن کریم سے بے پناہ محبت تھی اور تلاوت کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ کار میں بھی اور سفر کے دوران یا خود تلاوت کرتے یا کوئی ساتھ ہوتا تو بچوں سے کہتے تلاوت کرو اور مجھے سناؤ۔ پھر درستگی بھی کرتے رہتے تھے۔
ان کی بیٹی سلمانہ کہتی ہیں کہ شادی کے بعد بھی آپ مجھے باقاعدگی سے فون کر کے قرآن مجید کا ترجمہ سکھاتے اور چھٹیوں میں اپنے نواسوں کو بھی خود قرآن کریم پڑھاتے تھے اور پھر ایک خوبی یہ تھی کہ کسی بھی چھوٹی بڑی غلطی پر فوری معافی مانگتے تھے۔ نومبائعین کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کا خاص اہتمام کرتے۔ بچوں کو اس کی تلقین کرتے۔
ان کے داماد مرزا نبیل احمد کہتے ہیں کہ ہر ایک کو بڑے پیار اور محبت سے ملتے۔ باجماعت نماز کے پابند، قرآن مجید کی تلاوت خود بھی کرتے اور ہمیں بھی اس کی تلقین کرتے۔ کووڈ کے دنوں میں اپنے گھر میں سب کو اکٹھا کر کے نماز پڑھاتے رہے اور ہمیشہ یہ کہتے تھے کوئی مسئلہ ہو خلیفۂ وقت کو خط لکھو۔ ان کی بیٹی مفلحہ نے لکھا ہے کہ ہمیشہ ہمیں کہا کہ سوچ مثبت رکھنی چاہیے۔ اللہ پر یقین رکھو۔ حسنِ ظن لوگوں پر کیا کرو اور عاجزی کا مظاہرہ کرو۔ غلطیوں کو تسلیم کر لو۔ اسی طرح ان کی بھانجی نے بھی ان کی انہی خصوصیات کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ ہر شخص جو افسوس کے لیے آ رہا ہے ان کے بارے میں یہی کہتا ہے کہ بڑی نرم زبان تھی اور بڑی مہربان فطرت تھی۔
فرہاد رانا صاحب مربی ہیں۔ یہ کہتے ہیں پندرہ سال کی عمر سے ان سے تعلق پیدا ہوا اور انہوں نے مجھے جماعت کے ساتھ جوڑا بلکہ انہی کی وجہ سے مَیں نے وقف بھی کیا۔ چودھری وسیم احمد صاحب لکھتے ہیں کہ 1974ء میں ایک دفعہ خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ہمیں کسی پراجیکٹ پہ کام دیا تو یہ بڑی محنت سے اور عاجزی سے یہ کام کرتے تھے اور بعض دفعہ ساری ساری رات کام میں لگے رہتے تھے۔ مریضوں کی بڑی خدمت کرنے والے، ان کا خیال رکھنے والے، علاج کے علاوہ اپنی جیب سے ان کو دوائیاں خریدنے کے لیے پیسے بھی دے دیا کرتے تھے۔ یہ میرے خالہ زاد بھی تھے۔ غریب پروری اور مہمان نوازی میں خاص طور پہ مَیں نے ان کے گھر جا کے بھی دیکھا ہے۔ جلسے کے دنوں میں بھی ان کی والدہ اور ان کے والد دونوں کا مہمان نوازی بہت خاص وصف تھا۔ میاں بیوی نیک ہوں تبھی آگے بچوں پہ بھی نیکی کا اثر ہوتا ہے۔ جلسے کے دنوں میں اپنا گھر خالی کر دیتے تھے اور خود باہر ٹینٹ لگا کے رہا کرتے تھے اور سارا گھر مہمانوں سے بھرا ہوتا تھا تو یہی نیک فطرت ان میں بھی آئی ہے۔
دوسرا ذکر ہے
مکرم حسن عابدین آغا صاحب
یہ سیرین (Syrian)تھے۔ آج کل کینیڈا میں تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی اسّی سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
ان کے بیٹے عبدالقادر عابدین لکھتے ہیں کہ میرے والد سنی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ پھر اس کے بعد شیعہ مذہب اختیار کر لیا پھر بڑے بھائی (ان کے جو بڑے بھائی تھے) بشیر عابدین کو ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جماعت سے تعارف ہوا۔ مختلف امور کے بارے میں جماعت کی تفسیرات اور تشریحات سے متاثر ہوئے اور احمدیت کی صداقت کے قائل ہو گئے۔ پھر انہوں نے گھر میں بات شروع کی۔ کہتے ہیں میرے اور میرے والد صاحب اور میرے بھائی کے درمیان دو مہینے بحث مباحثہ چلتا رہا یہاں تک کہ ہم بھی مطمئن ہو گئے اور ایک روز بیعت فارم فل (fill)کر دیا۔ کہتے ہیں میرے والد کا بہنوں پر بھی اثر تھا ان کی وجہ سے بہنوں نے بھی احمدیت قبول کر لی اور تمام خاندان احمدی ہو گیا۔ پھر ان کا گھر مرکز جماعت بن گیا جہاں احمدیت کی تبلیغ بھی ہوتی تھی، نمازیں بھی پڑھی جاتی تھیں، جمعہ بھی پڑھا جاتا تھا۔ شام میں حلب کی جماعت میں بطور صدر خدمت کی توفیق بھی ملی۔ نمازِ تہجد باقاعدگی سے ادا کرنے والے، جماعتی کتب کا بڑی باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والے تھے۔ اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے خلافت سے بڑا پیار کا تعلق تھا۔ مبلغین کی قدر اور احترام کرتے تھے۔ نہایت سادہ زندگی گزاری۔ مہمان نوازی بہت کرتے تھے۔
ان کی اہلیہ زبیدہ صاحبہ کہتی ہیں اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ بڑے اچھے شوہر تھے۔ گھر میں میرے کاموں میں مدد کرتے تھے۔ میرے بہن بھائیوں اور رحمی رشتوں سے بھی بڑا پیار کا تعلق رکھتے تھے۔ بچوں کو سچ بولنے، ایماندار ہونے کی ہمیشہ تلقین کی۔ لوگوں سے پیار کرنے کی تلقین کی۔ مہمان نوازی کرنے کی تلقین کی۔ بڑے تہجد گزار بھی تھے اور چندوں میں ہمیشہ بڑی باقاعدگی تھی۔
ایک پوتے ان کے جامعہ احمدیہ میں پڑھتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں میرے دادا بڑے عاجز، صابر اور قناعت پسند انسان تھے۔ تہجد کی باقاعدگی بھی مَیں نے ان میں دیکھی ہے۔ قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرنے والے اور تمام لوگوں سے محبت کرتے تھے۔ عفو و درگزرکی خصوصیت بھی ان میں تھی۔
مصلح شنبور صاحب مربی کہتے ہیں۔ قناعت کی صفت ان میں نمایاں تھی۔ مالی مشکلات میں ہوتے تو بھی کسی سے مدد نہیں مانگتے تھے بلکہ اگر تھوڑے بہت پیسے ہوتے تو وہ بھی چندے میں دے دیتےتھے۔ کسی کے محتاج ہونا نہیں چاہتے تھے۔ کہیں دکان پہ چیز لینے کے لیے جانا ہوتا تو ہم نے کئی دفعہ کہا کہ ہم آپ کو گاڑی میں لے جاتے ہیں لیکن وہ سردیوں میںبھی پیدل چل کے جایا کرتے تھے بلکہ کہتے ہیں کہ آخری ایام میں بھی جبکہ پیدل چلنا ان کے لیے مشکل تھا ان کو سردی میں مَیں نے پیدل دکان سے آتے ہوئے دیکھا ہے۔ کسی پر انحصار کرنا نہیں چاہتے تھے اور بڑے شکر گزار انسان تھے۔
حافظ عبدالحئی بھٹی صاحب کہتے ہیں کہ حسن عابدین صاحب کے وجود میں خاکسار کو ہمیشہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ یَدْعُوْنَ لَکَ صُلَحَاءُ الْعَرَبِ وَاَبْدَالُ الشَّامِپورا ہوتا نظر آتا ہے۔ جب گلے ملتے تو کہتے کہ مجھے آپ سے محبت ہے کیونکہ آپ مہدی علیہ السلام کی قوم میں سے ہیں اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر آتا تو بے ساختہ بار بار علیہ الصلوٰة والسلام دہراتے۔ ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں اور یہ فرماتے کہ اس زمانے میں جہاں ہر طرف دھواں پھیلا ہوا ہے حقیقی اسلام سے اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں روشناس کرایا۔ خلافت سے بےانتہا محبت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔
اگلا ذکر ہے
عثمان حسین محمد خیر صاحب۔
ان کی گذشتہ دنوں ساٹھ سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ یہ سعودی عرب میں مقیم تھے۔ ویسے یہ سوڈانی تھے۔ 2007ء میں وہاں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے انہوں نے جماعت سے تعارف حاصل کیا اور پھر بیعت کرلی۔ پھر واپس سوڈان آ گئے۔ گھر میں ڈش لگوائی اور اپنے اہل خانہ کو اور بہن بھائیوں کو تبلیغ شروع کی۔ ان کے خاندان کے باقی لوگ تین بھائی، ایک بہن اور بیوی بچے بھی احمدی ہوگئے۔ اور پھر کیونکہ پہلے ان کو بیعت کی قبولیت کے خط کا جواب نہیں ملا تھا تو پھر انہوں نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ دوبارہ بیعت کا خط لکھا اور جب بیعت کا خط مل گیا تو پھر ان کو تسلی ہوئی۔ سوڈان میں جماعت کا سینٹر ان کے گھر میں تھا اور وہیں جمعہ ادا کرتے تھے اور ایم ٹی اے دیکھتے۔ درس و تدریس ہوتی۔ تفسیر کبیر پڑھنے کا سلسلہ جاری رہتا۔ جماعت کے لیے خرچ کرنے میں بڑے سخی تھے۔ احمدیوں کے آنے پر بہت خوش ہوتے۔ کبھی انہوں نے جماعت سے کسی خرچ کے لیے مطالبہ نہیں کیا اپنی جیب سے خرچ کیا کرتے تھے۔ اسی طرح کبھی جماعت میں کوئی عہدہ بھی نہیں لیا۔ جب کہا جاتا کہ یہ کام آپ لے لیں یا عہدہ لے لیں تو کہتے کہ نوجوانوں کو دیں تا کہ وہ زیادہ کام سیکھیں۔ مرحوم کے بیوی بچے بھی انہی کی طرح خدمت کرنے والے ہیں۔ ایک بیٹی ڈاکٹر ہے اور بیٹا بھی شعبہ مال میں ڈیوٹی دے رہا ہے۔ اب تک ان کا گھر مرکز کے طور پر استعمال ہو رہا تھا لیکن خانہ جنگی کے بعد اب لوگ مختلف علاقوں میں چلے گئے ہیں۔ رابطے کٹ گئے ہیں۔ پہلے بھی مَیں نے کہا تھا دعا کریں ان کے حالات بھی ٹھیک ہوں اور دوبارہ یہ جماعت اکٹھی ہو کے رہ سکے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور بیٹیاں شامل ہیں۔
اگلا ذکر
محمد زہراوی صاحب الجزائر
کا ہے۔ ان کی گذشتہ دنوں اڑتالیس سال کی عمر میں وفات ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔صدر جماعت لکھتے ہیں کہ مرحوم کینسر کے مریض تھے۔ جماعت سے بہت محبت رکھتے تھے۔ بڑے مہمان نواز اور خلافت کے مطیع تھے۔ فوج میں ملازم تھے اور دوستوں کے آپ کے گھر جانے پہ بہت خوش ہوتے تھے اور غربت کے باوجود ان کی مہمان نوازی بہت کرتے تھے۔ عدالتی کارروائی کا بھی ان کو سامنا کرنا پڑا۔ جج نے ان سے پوچھا کہ آپ جیسا الجزائری ایک انڈین شخص کی اتباع کیسے کر سکتا ہے؟ تو آپ نے کہا کہ الجزائر جیسا ملک انڈین شخص سے کیسے ڈر سکتا ہے؟ یعنی اگر حضرت امام مہدی علیہ السلام کو حقیر جانتے ہو تو اس قدر ڈرنے کی ضرورت کیا ہے۔ یہی آج کل ملاؤں کا حال ہے۔ ان کو اگر خوف نہیں ہے تو پھر کھل کے ہمیں ہماری بات کرنے کیوں نہیں دیتے۔ تبلیغ میں روکیں کیوں ڈالتے ہیں۔ صرف خوف ہے کہ ہماری باتیں کیونکہ سچ ہیں لوگ اس کوقبول کریں گے اس لیے جھوٹ اور غلط سلط باتیں جماعت کی طرف منسوب کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کرو۔
خلافت سے تعلق کے بارے میں یہ لکھتے ہیں کہ الجزائر میں جب مَیں نے ان کو کہا کہ چیریٹی کے طور پر رجسٹرڈ کروا لیں تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ نہیں۔ نہیں کرنی چاہیے تو انہوں نے کہا کہ جب خلیفۂ وقت کا حکم آ گیا تو پھر بحثیں بند کرو اور کام کرو اور پھر صدر جماعت کو کہا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ قدم بڑھائیں۔
پھر اگلا ذکر ہے
سعید احمد وڑائچ صاحب ابن عبدالحئی وڑائچ صاحب ربوہ
کا۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ ان کے پڑدادا کے ذریعہ ان کے گھر احمدیت آئی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ نظارت امور عامہ کی رپورٹ کے مطابق ان پر مقدمات بھی ہوئے۔ توہین رسالت کا بےبنیاد الزام تھا اور گرفتاری عمل میں آئی اور پھر بہرحال مقدمہ چلا اور باعزت بریت بھی ہو گئی۔ تین سال دو ماہ ان کو اسیری میں رہنے کی توفیق ملی لیکن دشمنی اتنی زیادہ تھی کہ بریت کے باوجود پھر اپنے گھر نہیں جا سکتے تھے۔ پھر ربوہ میں ہی رہے۔
اگلا ذکر ہے
شہباز گوندل صاحب
کا جو احمد خان گوندل صاحب کے بیٹے تھے۔ یہ بھی ربوہ کے تھے آج کل ہالینڈ میں تھے۔ ان کی گذشتہ دنوں میں ہالینڈ میں ہی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
ان کے خاندان میں بھی احمدیت کا نفوذ ان کے دادا خوشی محمد صاحب آف نوابشاہ کے ذریعہ سے ہواجنہوں نے خلافت ثانیہ میں بیعت کی تھی۔ 1992ء میں ان کو اسیر راہ مولیٰ ہونے کا بھی اعزاز ملا اور کوٹری سے ان کو گرفتار کیا گیا۔ توہین رسالت اور تبلیغ کے بےبنیاد الزام لگائے گئے اور دس سال تک ان کا مقدمہ چلتا رہا۔ دو تین ماہ اسیری میں رہے۔ بعد میں ضمانت تو ہو گئی لیکن مقدمہ بہرحال دس سال تک چلتا رہا۔ پنجگانہ نمازوں کے پابند تہجدگزار بھی تھے۔ جماعتی کاموں میں پیش پیش رہتے جو کام بھی سپرد کیا جاتا بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے۔
اللہ تعالیٰ ان سب مرحومین سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے ۔ نماز کے بعد ان سب کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔
اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے۔اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام )
خوش قسمت ہیں وہ جو اس عظیم کتاب کو اپنا لائحہ عمل بنا کر اس پر عمل کریں اور اپنی دنیا و عاقبت سنوار لیں۔ سچائی کو پکڑلیںاور سچائی پر قائم ہو جائیں تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندے سے پیار کے سلوک کے نظارے بھی دیکھیں گے
رمضان میں روزے رکھنے یا فرض نمازیں باقاعدگی سے ادا کرنے یا کچھ نوافل پڑھ لینے سے رمضان کا حق ادا نہیں ہوتا بلکہ قرآن کریم کو پڑھنا اور اس کے احکامات تلاش کر کے اس پر عمل کرنا بھی انتہائی ضروری ہے
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کا ادراک حاصل کرنے اور اس سے فیض پاتے ہوئے اس کی برکات حاصل کرنے کے راستے دکھانے کے لیے بےشمار ارشادات اور تحریرات ہمارے لیے چھوڑی ہیں جن کو پڑھ کر اور عمل کر کے ہم حقیقی رنگ میں قرآن کریم سے فیض اٹھانے والے بن سکتے ہیں
’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبّر میں جان ودل سے مصروف ہو جائیں ‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
’’منکرین پر ہماری یہ حجت بھی تمام ہے کہ قرآن شریف جیسے مراتبِ علمیہ میں اعلیٰ درجہ کمال تک پہونچاتا ہے ویسا ہی مراتبِ عملیہ کے کمالات بھی اسی کے ذریعہ سے ملتے ہیں اور آثار و انوار قبولیت حضرت احدیت انہیں لوگوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ظاہر ہوتے ہیں جنہوں نے اس پاک کلام کی متابعت اختیار کی ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
’’کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
’’جب تک مسلمانوں کا رجوع قرآن شریف کی طرف نہ ہو گا ان میں وہ ایمان پیدا نہ ہو گا، یہ تندرست نہ ہوں گے۔ عزت اور عروج اسی راہ سے آئے گا جس راہ سے پہلے آیا۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
’’یاد رکھو قرآنِ شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
’’یقیناً یاد رکھو کہ جو شخص سچے دل سے اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اس کی پاک کتاب پر عمل کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو لا انتہا برکات سے حصہ دیتاہے۔ ایسی برکات اسے دی جاتی ہیں جو اس دنیا کی نعمتوں سے بہت ہی بڑھ کر ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک عفو گناہ بھی ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
قرآن کریم کو پڑھیں۔ رمضان میں اس کی عادت ڈالیں۔ پھر مستقل زندگی کا حصہ بنائیں اور پھر اس کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میں قرآن کریم کے فضائل، مقام و مرتبہ اور عظمت کا بیان
رمضان المبارک کے دوران روزانہ کم از کم ایک سیپارہ تلاوتِ قرآن کرنے کی تحریک
فلسطین اور سوڈان میں جنگ کے بداثرات سے بچنے، دیگر مسلمان ممالک کے لیے عموماً نیز پاکستان اور یمن میں پابندِ سلاسل احمدی اسیرانِ راہِ مولیٰ کی رہائی کے لیے دعا کی تحریک
مکرم ڈاکٹر ظہير الدين منصور احمد صاحب آف امریکہ،مکرم حسن عابدين آغا صاحب آف کینیڈا، مکرم عثمان حسين محمد خير صاحب آف سوڈان،مکرم محمد زَہْرَاوي صاحب آف الجزائر، مکرم سعيد احمد وڑائچ صاحب آف ربوہ اور مکرم شہباز گوندل صاحب آف ہالینڈکا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
فرمودہ 22؍ مارچ2024ء بمطابق 22؍ امان 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔