رمضان اور دعائیں
خطبہ جمعہ 29؍ مارچ 2024ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ (البقرۃ:187)
اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً مَیں قریب ہوں۔ مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
اللہ تعالیٰ نے یہ آیت روزوں کے احکام کے ساتھ رکھی ہے بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ بیچ میں رکھی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ دعاؤں کا رمضان اور روزوں کے ساتھ بھی خاص تعلق ہے۔ ہر مسلمان اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ
رمضان اور دعاؤں کا ایک خاص تعلق
ہے۔ تبھی تو رمضان میں خاص طور پر نمازوں، نوافل، تہجد، تراویح وغیرہ کی طرف خاص توجہ پیدا ہوتی ہے۔ ہر حقیقی مسلمان کو یہ احساس ہے کہ ان دنوں میں خدا تعالیٰ کے خاص پیار کی نظر اپنے بندوں پر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تو عام دنوں میں بھی اپنے بندوں پر پیار کی نظر ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں ۔ جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے مَیں اس وقت اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو مَیں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میرا ذکر محفل میں کرے تو مَیں اس کا ذکر محفل میں کروں گا۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت بھر آئے تو مَیں اس کی طرف ایک ہاتھ جاؤں گا ۔اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ آئے گا تو مَیں اس کی طرف دو ہاتھ جاؤں گا۔ اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو مَیں اس کی طرف دوڑ کر آؤں گا۔(صحیح البخاری کتاب التوحید باب ما یذکر فی الذات والنعوت…حدیث 7405)
پس اللہ تعالیٰ تو عام حالات میں بھی بندے سے یہ سلوک فرماتا ہے اور جب رمضان کا مہینہ ہو جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کا مہینہ ہے، پورا ماحول ہی انسان کو اس حالت میں کرنے والا ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرے تو پھر اللہ تعالیٰ کس قدر مہربان ہوگا! اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ سب باتیں دل کی گہرائی سے ہوں۔ ایمان پر مضبوط ہوتے ہوئے ہوں نہ کہ سطحی طور پر۔
پھر اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر مہربانی کی مثال دیتے ہوئے ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا ہے۔ بڑا کریم اور سخی ہے۔ جب بندہ اس کے حضور دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے۔
صدق دل سے مانگی ہوئی دعا کو ردّ نہیں کرتا۔ قبول کر لیتا ہے۔(سنن ابو داؤد باب تفریع ابواب الوتر باب الدعاء حدیث 1488)پس یہ حالت اس وقت میسّر ہوتی ہے جب ہاتھ بلند ہوں۔ جب صدق دل سے انسان مانگے اور صدق دل سے مانگنے کے لیے ضروری ہے کہ گذشتہ گناہوں سے مکمل بچنے اور حقیقی توبہ کا عہد کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف آئے۔ پس ہم بعض دفعہ جلد بازی میں کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے دعا کی اور قبول نہیں ہوئی لیکن اپنی حالت کو نہیں دیکھتے کہ کتنا صدقِ دل ہے، کتنی سچائی سے اللہ تعالیٰ کی محبت میں ہم بڑھ رہے ہیں ۔ کتنی سچائی سے ہم پچھلے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے آئندہ گناہوں سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چلنے کا عہد کر رہے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کو دھوکانہیں دیا جا سکتا۔ وہ تو ہمارے دل کا حال جانتا ہے۔ ہماری پاتال تک سے واقف ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لیے اس کے کھلے دَر میں داخل ہونے کے لیے اس کے لوازمات بھی پورے کرنے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور شفقت بندوں پر اس قدر ہے کہ ہر سال خاص طور پر رمضان میں ہمیں لا کر یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ اگر عام دنوں میں بھول چُوک ہو گئی ہے تو اب اس مہینے کی برکات سے فائدہ اٹھا کر میری طرف آؤ اور میرے بندوں میں شامل ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ خاص طور پر ان دنوں میں اپنے بندوں پر پیار کی نظر ڈالنا چاہتا ہے۔ بھولے بھٹکوں کو راہِ راست پر لانا چاہتا ہے۔ خاص ماحول کی وجہ سے بندوں کے عبادت کے معیار بلند کرنا چاہتا ہے۔
اس آیت میں جب اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ ’’میرے بندے‘‘ تو ان بندوں سے مراد ہے جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا عبد بننا چاہتے ہیں۔ حقیقی توبہ کرنا چاہتے ہیں اور کرتے ہیں۔
پس یہ حقیقی بندے بننے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے اور رمضان میں اس کا قرب پانے اور حقیقی بندے بننے کا خاص ماحول میسر ہے۔اللہ تعالیٰ کی محبت میں ہم بڑھنے کی کوشش کریں گے تبھی ہم اس کے حقیقی بندے بن سکتے ہیں اور جب یہ حالت ہوگی تو پھر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے ایسے بندوں اور میرے سے عشق کرنے والوں کو کہہ دو کہ میں ان کی دعاؤں کو سنتا بھی ہوں اور جواب بھی دیتا ہوں۔
پس ہماری دعائیں صرف اپنی ذاتی اغراض کے لیے نہیں ہونی چاہئیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور اس کی محبت حاصل کرنے کے لیے ہونی چاہئیں ۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لیے ہم اس کی طرف ایک بالشت، ایک ہاتھ اور تیز چل کر جانے والے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ ہماری طرف اس سے بڑھ کر توجہ فرمائے گا اور دَوڑ کر ہماری مدد کو آئے گا، دعاؤں کو سنے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ یہ زبانی محبت کے دعوے نہیں ہیں جو تمہیں یہ مقام عطا کر دیں گے۔ نہیں، بلکہ تمہیں میری باتوں کو ماننا پڑے گا۔ میرے احکام پر عمل کرنا پڑے گا۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے پڑیں گے پھر اس کے ساتھ ایمان میں مضبوطی بھی پیدا کرنی ہوگی۔ ایسا ایمان جو کبھی متزلزل نہ ہو۔ جب یہ ہوگا تو پھر ہی میرے بندوں میں، حقیقی بندوں میں شمار ہو سکتے ہو۔اب
وہ لوگ خود اپنا جائزہ لے لیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے بڑی دعا کی، بہت سجدے کیے، بہت نفل پڑھے لیکن ہمارے مقصد حاصل نہیں ہوئے۔ کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر لیا؟ کیا انہوں نے اپنی ایمانی حالت کو اس معیار پر پہنچا دیا کہ کوئی طوفان انہیں ہلا نہ سکے؟
اکثر ایسے لوگوں کا یہ حال ہے کہ بجائے اس کے کہ اپنے محبوب کی خواہشات کو پورا کریں، اپنی ضروریات کی فہرست پیش کر کے پھر کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ پورا نہ کیا تو دعاؤں کا کیا فائدہ۔
پھر خدا تعالیٰ کے وجود پر، دعاؤں کی حکمت پر، دعاؤں کی قبولیت پر سوال کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے بندوں کی نشانی نہیں ہوتی۔ یہ تو اُن لوگوں کی نشانی نہیں ہے جن کے ہاتھ کو اللہ تعالیٰ خالی واپس لوٹانے سے شرماتا ہے۔ پس
ہمیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوال کرنے سے پہلے اپنی حالت کا جائزہ لینا چاہیے کہ کس حد تک ہم اللہ تعالیٰ کی باتوں کو مان کر اس پر عمل کر رہے ہیں۔ کس حد تک ہم اپنے ایمان میں مضبوط ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےاس بارے میں اپنے لٹریچر میں مختلف کتابوں میں ارشادات فرمائے ہیں۔
دعا کی حکمت، اس کی قبولیت کی حکمت اور فلاسفی
بڑی تفصیل سے بیان کی ہے اور وہ معیار بتائے ہیں جب دعا کوحقیقی دعا کہا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے میں آپ علیہ السلام کے کچھ حوالے بھی پیش کروں گا کہ
اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے کون ہیں؟
آپؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں کہ خدا کے وجود پر دلیل کیا ہے؟ اس کا یہ جواب ہے کہ مَیں بہت نزدیک ہوں یعنی کچھ بڑے دلائل کی حاجت نہیں۔ میرا وجود نہایت اقرب طریق سے سمجھ آ سکتا ہے اور نہایت آسانی سے میری ہستی پر دلیل پیدا ہوتی ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارے تو مَیں اس کی سنتا ہوں اور اپنے الہام سے اس کی کامیابی کی بشارت دیتا ہوں جس سے نہ صرف میری ہستی پر یقین آتا ہے بلکہ میرا قادر ہونا بھی بپایہ یقین پہنچتا ہے لیکن چاہئے کہ لوگ ایسی حالت تقویٰ اور خدا ترسی کی پیدا کریں کہ میں ان کی آواز سنوں۔‘‘یہ بڑی اہم شرط ہے۔ سنتا ہوں لیکن پہلے تقویٰ کی حالت پیدا کرو، خدا ترسی کی پیدا کرو پھر مَیں آواز سنوں گا اور فرمایا کہ ’’نیز چاہئے کہ وہ مجھ پر ایمان لاویں اور قبل اس کے جو ان کو معرفتِ تامہ ملے اس بات کا اقرار کریں کہ خدا موجود ہے اور تمام طاقتیں اورقدرتیں رکھتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ مکمل معرفت مل جائے۔ دعاؤں کی قبولیت سے اس کے نشانات بھی مل جائیں لیکن اس سے پہلے اس بات پہ یقین اور ایمان ہونا چاہیے کہ خدا موجود ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ پر ایمان مضبوط کرو۔ ایمان بالغیب ہو اور پھر یہ ہے کہ ’’وہ تمام طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے
کیونکہ جو شخص ایمان لاتا ہے اسی کو عرفان دیا جاتا ہے۔‘‘ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 260-261)
ایمان پہلے ہوگا تو پھر عرفان بھی ملے گا۔ پس ایمان کا اعلیٰ معیار ہوگا تو پھر ہی قبولیت دعا کے نظارے بھی ہوں گے۔ یہ نہیں کہ کسی ابتلا سے انسان ڈانواں ڈول ہو جائے۔ یہ دلیل اللہ تعالیٰ نے اپنے ہونے کی بتائی ہے کہ دعا سنتا ہوں ۔ پس اگر دعا سنی نہیں گئی تو اس تعلق میں کمی ہے جو دو دوستوں میں ہوتا ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کا طریق بھی بتا دیا کہ تقویٰ کی حالت پیدا کرو۔ اس بات پر کامل یقین ہو اور اس کا اقرار کرو کہ خدا موجود ہے۔ اس کے وجود پر ایمان بالغیب ہو اور تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر کامل یقین ہو کہ وہ تمام طاقتیں اور قوتیں رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اَور کوئی نہیں جو تمام طاقتیں رکھتا ہو۔پس یہ معیار دعا کی قبولیت کےکم از کم معیار ہیں۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اگر میرے بندے میرے وجود سے سوال کریں کہ کیونکر اس کی ہستی ثابت ہے اور کیونکر سمجھا جائے کہ خدا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مَیں بہت ہی نزدیک ہوں۔ مَیں اپنے پکارنے والے کو جواب دیتا ہوں اور جب وہ مجھے پکارتا ہے تو مَیں اس کی آواز سنتا ہوں اور اس سے ہمکلام ہوتا ہوں۔ پس چاہئے کہ اپنے تئیں ایسے بناویں کہ مَیں ان سے ہمکلام ہو سکوں ۔‘‘ یعنی اپنی حالتوں کو پہلے ٹھیک کرے جو اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہو۔’’اور مجھ پر کامل ایمان لاویں تا ان کو میری راہ ملے۔‘‘(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 159)ہدایت کی راہ تبھی ملے گی۔
پس یہ یقینِ کامل پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طریق پر عمل کرنے اور ان شرائط پہ چلنے کی ضرورت ہے جو پہلے بیان ہوئی ہیں۔ مَیں نےابھی بیان کی ہیں یعنی
نمبر ایک: حالتِ تقویٰ ہو اور خدا ترسی پیدا ہو۔ نمبر دو: اس بات پر کامل ایمان ہو کہ خدا ہے۔ تجربہ ہے یا نہیں ایمان بالغیب ہے۔کامل ایمان ہے کہ خدا ہے اور نمبر تین: اس بات پر کامل یقین کہ وہ کامل طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے۔
یہ نہیں کہ کوئی کام نہیں ہوا تو کہہ دیا اس کی طاقت نہیں ہے اور شکوہ شروع ہو گیا۔ اس بات پریقین ہو کہ وہ کامل طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے۔
پس دعاؤں کے قبول نہ ہونے سے مایوسی کی باتیں کرنے والے اور خدا تعالیٰ کی ذات پر شک کرنے والے پہلے اپنے جائزے لیں کہ کیا یہ تین حالتیں ان میں ہیں اور جو بھی حالات ہوں وہ اس پر قائم رہیں گے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایمان کی یہ حالت ہو اور پھر اللہ تعالیٰ کی ذات پر شک بھی ہو۔
پھر ایک جگہ آپؑ نے فرمایا:’’وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ (البقرہ:187)کے یہی معنے ہیں کہ اگر سوال ہو کہ خدا کا علم کیونکر ہوا تو جواب یہ ہے کہ اسلام کا خدا بہت قریب ہے۔ اگر کوئی اسے سچے دل سے بلاتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے۔ دوسرے فرقوں کے خدا قریب نہیں ہیں‘‘ یعنی دوسرے مذاہب کے ’’بلکہ اس قدر دُور ہیں کہ ان کا پتہ ہی ندارد۔ اعلیٰ سے اعلیٰ غرض عابد اور پرستار کی یہی ہے کہ اس کا قرب حاصل ہو اور یہی ذریعہ ہے‘‘ ایک صحیح عابد کی اعلیٰ غرض یہی ہونی چاہیے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ اس کی محبت دل میں پیدا ہو ’’جس سے اس کی ہستی پر یقین حاصل ہوتا ہے۔ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ:187) کے بھی یہی معنے ہیں کہ وہ جواب دیتا ہے گونگا نہیں ہے۔ دوسرے تمام دلائل اس کے آگے ہیچ ہیں ۔ کلام ایک ایسی شے ہے جو کہ دیدار کے قائم مقام ہے۔‘‘(ملفوظات جلد7صفحہ107۔ایڈیشن 1984ء)پس سچے دل سے بلانا ضروری ہے اور سچے دل سے بلانا کیا ہےکہ اس کی بات مانی جائے اور اس پر ایمان مضبوط ہو۔
پھر آپؑ نے فرمایا:’’جب میرا بندہ میری بابت سوال کرے پس مَیں بہت ہی قریب ہوں۔ مَیں پکارنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب وہ پکارتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’بعض لوگ اس کی ذات پر شک کرتے ہیں۔ پس میری ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکارو اور مجھ سے مانگو۔ مَیں تمہیں پکاروں گا اور جواب دوں گا اور تمہیں یاد کروں گا۔‘‘ جیسا کہ حدیث میں بھی آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے مَیں تمہیں یاد کرتا ہوں اور تم مجھے یاد کرتے ہو۔ دل میں یامحفل میں ۔ فرمایا کہ ’’اگر یہ کہو کہ ہم پکارتے ہیں پر وہ جواب نہیں دیتا۔‘‘ یہ سوال اٹھتا ہے پہلے بھی ذکر ہو چکا کہ ہم پکارتے ہیں جواب نہیں دیتا ’’تو دیکھو‘‘ فرمایا کہ ’’تو دیکھو کہ تم ایک جگہ کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دُور ہے پکارتے ہو اور تمہارے اپنے کانوں میں کچھ نقص ہے۔‘‘
پس پہلی بات یہ ہے کہ دُور کھڑے ہونےسے تو فائدہ کوئی نہیں۔ قریب آؤ اور محبت سے قربت ملے گی۔ وہ محبت اللہ تعالیٰ کی دل میں پیدا کرو۔ اپنے کانوں میں کچھ نقص ہے۔ کمزوریٔ ایمان بھی کانوں میں نقص ڈالنا ہی ہے۔ اس کمزوریٔ ایمان کو دُور کر کے ایمان کو مضبوط کرو پھر قربت ملے گی۔’’ وہ شخص تو تمہاری آواز سن کر تم کو جواب دے گا‘‘ آپؑ نے مثال دی کہ دُور سے آوازیں دے رہے ہو، تمہاری ہلکی سی آواز بھی اس کو پہنچ گئی یا واضح بھی پہنچ گئی تو وہ تمہیں جواب دے گا ’’مگر جب وہ دُور سے جواب دے گا‘‘ اور وہ دُور سے جواب دے گا ’’تو تم بباعث بہرا پن کے سن نہیں سکو گے۔‘‘
اللہ تعالیٰ جواب دے بھی دے تو کیونکہ تمہارے ایمان میں مضبوطی نہیں ہے، تمہاری محبت میں کمی ہے، اس کی باتوں پرعمل نہیں کر رہے تو یہ تمہارے کانوں کا بہرا پن ہے جس کی وجہ سے تم اس کی آواز کو سن نہیں سکتے۔ اب اللہ تعالیٰ جواب دے بھی دے تو تم یہی کہو گے اس نے جواب نہیں دیا حالانکہ اس نے جواب دیا تھا کہ تم نے اگر اونچی آواز سننی ہے تو اپنی حالت کو بہتر کرو۔ لیکن تم بہرا پن کی وجہ سے وہ آواز بھی نہیں سن رہے۔
فرمایا کہ ’’پس جوں جوں تمہارے درمیانی پردے اور حجاب اور دُوری دُور ہوتی جائے گی تو تم ضرور آواز کو سنو گے۔‘‘ تقویٰ میں بڑھتے جائیں گے تو آواز کو سننے کی طرف توجہ پیدا ہوتی جائے گی۔ فرمایا کہ
’’جب سے دنیا کی پیدائش ہوئی ہے اس بات کا ثبوت چلا آتا ہے کہ وہ اپنے خاص بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو رفتہ رفتہ بالکل یہ بات نابود ہو جاتی کہ اس کی کوئی ہستی ہے بھی۔
پس خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کا سب سے زبردست ذریعہ یہی ہے کہ ہم اس کی آواز کو سن لیں یا دیدار یا گفتار۔‘‘ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ دکھا دیتا ہے اور بعض دفعہ صرف آواز سناتا ہے۔ ’’پس آج کل کا گفتار قائم مقام ہے دیدار کا‘‘ آج کل کے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارے مل جائیں وہی اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے قائم مقام ہیں ’’ہاں جب تک خدا کے اور اس کے سائل کے درمیان کوئی حجاب ہے اس وقت تک ہم سن نہیں سکتے۔‘‘ گفتار بھی اگر ہے تو سن نہیں سکتے کیونکہ حجاب ہے، پردے ہیں ’’جب درمیانی پردہ اٹھ جاوے گا تو اس کی آواز سنائی دے گی۔‘‘(ملفوظات جلد7صفحہ227۔ایڈیشن 1984ء)پس قریب آؤ۔ خالص محبت پیدا کرو تو یہ قربت ملے گی۔ حجاب دُور ہوگا۔ جواب تو دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے مَیں دیتا ہوں تم سن نہیں سکتے اور پہلا جواب یہ ہے کہ محبت میں بڑھو۔ محبت میں بڑھو گے تو بہراپن بھی دُور ہو جائے گا۔
پھر آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے
چنانچہ خداتعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ۔ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرۃ:187) یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہہ دو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو مَیں اسے جواب دیتا ہوں یہ جواب کبھی رؤیا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے۔‘‘ سچی خوابیں آجاتی ہیں۔ ان کے ذریعے جواب مل جاتا ہے ’’اور کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے اور علاوہ بریں دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ بھی خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کااظہار دعاؤں کے ذریعہ سے ہو جاتا ہے۔ خود بخود پتہ لگ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری آواز سن لی، ہماری دعا سن لی اور اس کے نتیجے میں یہ باتیں پیدا ہو رہی ہیں ۔ فرمایا ’’اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے کہ مشکلات کو حل کر دیتا ہے۔ غرض دعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جا بجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی۔ انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کااصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے۔ پس میں نصیحت کرتا ہوں‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو۔ دعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہو گی جو خدا تعالیٰ کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد7صفحہ268-269۔ایڈیشن 1984ء)
یہ پرانی باتیں نہیں ہیں۔ آج کے زمانے میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو اپنی دعاؤں کی قبولیت کے واقعات لکھتے ہیں۔ مختلف وقتوں میں مَیں واقعات بتاتا بھی رہتا ہوں۔خدا کے وجود پر ریویو آف ریلیجنز نے پروگرام کیا تھا اس میں بھی کئی لوگوں نے دعا کی قبولیت کے واقعات بیان کیے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اس قدر نوازتا ہے کہ بعض دفعہ ایمان کی مضبوطی کے لیے ہی دعاؤں کو قبول کرکے، ان کو قبولیت کا درجہ دے کے پکارنے والے کی آواز سن کر پھر اپنی قدرت کا جلوہ دکھا دیتا ہے۔ جو کمزور ایمان پہ ہیں ان کو بھی بعض دفعہ ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے کے لیے دکھا دیتا ہے۔ ایسے بھی سینکڑوں لوگ ہیں جو مجھے خط لکھتے رہتے ہیں۔ میرے پاس مجھے آ کے بتاتے بھی ہیں۔
دعا کی معرفت کی حقیقت
بیان فرماتے ہوئے آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں :’’معرفت فضل کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے اور پھر فضل کے ذریعہ سے ہی باقی رہتی ہے۔ فضل معرفت کو نہایت مصفیٰ اور روشن کر دیتا ہے اور حجابوں کو درمیان سے اٹھا دیتا ہے اور نفسِ امارہ کے لئے گرد و غبار کو دُور کر دیتا ہے اور روح کو قوّت اور زندگی بخشتا ہے اور نفسِ امارہ کو امارگی کے زندان سے نکالتا ہے۔‘‘ یعنی نفس امارہ کو جو گناہوں کی طرف ابھارنے والا نفس ہے اس کو اس قید سے نکالتا ہے، اپنے نفس کی قید سے نکالتا ہے ’’اور بد خواہشوں کی پلیدی سے پاک کرتا ہے اور نفسانی جذبات کے تند سیلاب سے باہر لاتا ہے۔‘‘ جس طرح پانی کا سیلاب آتا ہے اس طرح نفسانی جذبات کا ایک سیلاب ہے، گناہوں کا سیلاب ہے اس سے انسان کو باہر نکالتا ہے۔ ’’تب انسان میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی گندی زندگی سے طبعاً بیزار ہو جاتا ہے کہ بعد اس کے پہلی حرکت جو فضل کے ذریعہ سے روح میں پیدا ہوتی ہے وہ دعا ہے۔ یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دعا کرتے ہیں اور تمام نماز دعا ہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں کیونکہ وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اَور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔‘‘ یہ ظاہری نمازیں ہم نے پڑھ لیں، آئے اور جلدی جلدی پانچ منٹ میں نماز پڑھ لی۔ فارغ ہو گئے۔ یہ نمازیں نہیں۔ یہ دعائیں نہیں۔ اس کے لیے معرفت چاہیے اور وہ
جو معرفت پیدا ہو تو پھر اس دعا کا مزہ ہی اَور ہوتا ہے۔ اس نماز کا مزہ ہی اَور ہوتا ہے۔
فرمایا پیدا ہوتی ہے اور وہ اَور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔ ’’وہ فنا کرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے۔ وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔ وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے۔‘‘ ایک سیلاب ہے لیکن وہ سیلاب بھی کشتی بن جاتا ہے اور منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔ ’’ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 222)پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جواس معرفت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پھر آپؑ نے فرمایا:
’’دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔
دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے۔ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے‘‘
اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ کس طرح پتہ چلے کہ دعا قبول ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ راضی ہوا ہے؟ ان کو یہ جواب ہے کہ پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے تعلق میں انسان اس وقت بڑھے گا جب پاک تبدیلی پیدا ہوگی ۔ جب پاک تبدیلی پیدا ہو گی تو دعاؤں کی قبولیت کے نشان بھی ملیں گے۔ فرمایا کہ ’’انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنے صفات میں تبدیلی کرتا ہے اور اس کے صفات غیر متبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اس کی ایک الگ تجلی ہے جس کو دنیا نہیں جانتی ۔‘‘ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی صفات تبدیل ہو جاتی ہیں۔ وہ نہیں بدلی جا سکتیں لیکن ایسے تبدیلی پیدا کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ اس کو لگتا ہے کہ جس طرح صفات میں کوئی تبدیلی ہو گئی حالانکہ صفات وہی ہیں لیکن اس کا اظہار اب شروع ہو گیا۔ فرمایا کہ ‘‘گویا وہ اَور خدا ہے حالانکہ اَور کوئی خدا نہیں مگر نئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے تب اس خاص تجلی کی شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا۔ یہی وہ خوارق ہے۔‘‘ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 223)
پھر آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں :’’اللہ جل شانہ نے جو دروازہ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لئے کھولا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دعا۔ جب کوئی شخص بکاء و زاری سے اس دروازہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ مولائے کریم اس کو پاکیزگی و طہارت کی چادر پہنا دیتا ہے اور اپنی عظمت کا غلبہ اس پر اس قدر کر دیتا ہے کہ بے جا کاموں اور ناکارہ حرکتوں سے وہ کوسوں بھاگ جاتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد5صفحہ 438۔ایڈیشن 1984ء)بہت زیادہ دُور، میلوں دُور ہو جاتا ہے۔ پس حقیقی دعا کی یہ خصوصیت ہے کہ فضول کاموں اور لغویات سے وہ دُور ہو جاتا ہے۔ پاکیزگی اس کی فطرت میں آ جاتی ہے۔ وہ صرف دنیاوی مقاصد کے لیے دعا نہیں کرتا بلکہ اپنے دین اور تقویٰ میں بڑھنے کے لیے بھی دعا کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی محبت مانگنے کے لیے دعا کرتا ہے اور یہی ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے۔ یہی ایمان میں کامل ہونے کی نشانی ہے ایمان میں بڑھنے کی نشانی ہے۔
پھر دعا کی گہرائی کو مزید کھولتے ہوئے آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’حصولِ فضل کا اقرب طریق دعا ہے اور دعا کامل کے لوازمات یہ ہیں کہ اس میں رِقّت ہو، اضطراب اور گدازش ہو۔ جو دعا عاجزی، اضطراب اور شکستہ دلی سے بھری ہوئی ہو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے۔‘‘
انتہائی عاجزی سے رقّت پیدا ہو۔رو رو کے انسان دعا کرے ۔’’اور قبول ہو کر اصل مقصد تک پہنچاتی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی‘‘ اس کے لیے بھی، اس حالت کو پیدا کرنے کے لیے بھی اللہ کا فضل مانگنا پڑے گا ’’اور پھر اس کا علاج یہی ہے کہ دعا کرتا رہے خواہ کیسی ہی بے دلی اور بے ذوقی ہو لیکن یہ سیر نہ ہو۔ تکلف اور تصنّع سے کرتا ہی رہے۔ اصلی اور حقیقی دعا کے واسطے بھی دعا ہی کی ضرورت ہے۔‘‘
مسلسل اللہ تعالیٰ سے لگا رہے، اللہ تعالیٰ کا پیچھا نہ چھوڑے کہ جب تک وہ حالت پیدا نہیں ہوگی مَیں نے نہیں اٹھناتب یہ حالت پیدا ہو جائے گی اور پھر اس کے فضل نازل ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔
’’بہت سے لوگ دعا کرتے ہیں اور ان کا دل سیر ہو جاتا ہے‘‘کچھ دیر دعا کرنے کے بعد دل بھر جاتا ہے۔’’وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ کچھ نہیں بنتا مگر ہماری نصیحت یہ ہے کہ اس خاک پیزی ہی میں برکت ہے۔‘‘ بظاہر یہ لگتا ہے کہ خاک چھان رہے ہو لیکن خاک چھاننے میں ہی برکت ہے۔ آخر اس میں برکت پڑ جاتی ہے ’’کیونکہ آخر گوہرِ مقصود اسی سے نکل آتا ہے اور ایک دن آ جاتا ہے کہ جب اس کا وہ دل زبان کے ساتھ متفق ہو جاتا ہے۔‘‘ وہ مقصد جو حاصل ہونا ہوتا ہے وہ آخر اس کو مل جاتا ہے یا جو حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے وہ مقصد اس کو مل جاتا ہے۔ فرمایا: ’’ جب اس کا وہ دل زبان کے ساتھ متفق ہو جاتا ہے اور پھر خود ہی وہ عاجزی اور رقّت جو دعا کے لوازمات ہیں پیدا ہو جاتے ہیں‘‘ یعنی جو زبان سے کہہ رہا ہے وہ دل کی حالت ہو جاتی ہے۔ جب وہ ایک ہو جاتے ہیں تو پھر دعا کے لوازمات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ ’’جو رات کو اٹھتا ہے خواہ کتنی ہی عدم حضوری اور بے صبری ہو لیکن اگر وہ اس حالت میں بھی دعا کرتا ہے کہ الٰہی! دل تیرے ہی قبضہ اور تصرف میں ہے تُو اس کو صاف کر دے اور عین قبض کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے بسط چاہے۔‘‘ بڑا دل گھٹا ہوا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی حالت میں ایک کشائش پیدا ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف رجحان پیدا ہو، رغبت پیدا ہو، اس کی محبت بڑھے ’’تو اس قبض میں سے بسط نکل آئے گی۔‘‘ یہ دل کی جو بظاہر تنگی ہوتی ہے اس میں سے بھی انسان کا دل کھل جاتا ہے ’’اور رقّت پیدا ہو جائے گی۔‘‘ دل کھلنا کیا ہے پھر دعاؤں میں رقّت پیدا ہو جائے گی۔ انسان کو رونا آئے گا ’’یہی وہ وقت ہوتا ہے جو قبولیت کی گھڑی کہلاتا ہے۔‘‘ جب ایسی حالت پیدا ہو جائے تو سمجھو کہ یہ قبولیت کی گھڑی ہو گئی ’’وہ دیکھے گا کہ اس وقت روح آستانہ الوہیت پر پانی کی طرح بہتی ہے اور گویا ایک قطرہ ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف گرتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 6 صفحہ 93-94۔ ایڈیشن 1984ء)
جب یہ حالت ہوتی ہے تو انسان کو خود بخود محسوس ہوتا ہے کہ اب قبولیتِ دعا کا وقت ہے اور پھر اس بات پر بھی یقین ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اب جو میرے لیے کرے گا وہی میرے لیے بہتر ہوگا۔ یہ نہیں ہے کہ جو مَیں نے کہا ہے وہی ہو بلکہ پھررقّت کے بعد یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے،تسلی ہوتی ہے کہ اب خداتعالیٰ اس دعا کے بعد اس کے نتیجے میں جو بھی میرے لیے کرے گا وہی میرے لیے بہتر ہے۔ یہ ایمان بڑھ جاتا ہے،کوئی شکوہ دل میں نہیں رہتا۔ پس یہ وہ حالت ہے جو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے لیے ہمیں اپنے جائزے بھی لینے چاہئیں۔
پھر اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ آپؑ نے فرمایا:’’دعا تو ایک ایسی چیز ہے جو ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہے۔ دعا کے ساتھ مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہو جاتا ہے‘‘ فرمایا ’’ لوگوں کودعا کی قدر و قیمت معلوم نہیں وہ بہت جلد ملول ہو جاتے ہیں اور ہمت ہار کرچھوڑ بیٹھتے ہیں حالانکہ
دعا ایک استقلال اور مداومت کو چاہتی ہے۔
جب انسان پوری ہمت سے لگا رہتا ہے تو پھر ایک بد خلقی کیا ہزاروں بدخلقیوں کو اللہ تعالیٰ دُور کر دیتا ہے اور اسے کامل مومن بنا دیتا ہے لیکن اس کے واسطے اخلاص اور مجاہدہ شرط ہے جو دعا ہی سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد6صفحہ404۔ایڈیشن 1984ء)کہ اخلاص ہو، ایک مجاہدہ ہو، لگاتار کوشش ہو۔ پس یہ شرط ہے جو پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے دل کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ اخلاص اور مجاہدہ کی حالت ہم میں پیدا ہو گئی ہے یاہم پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟ مجاہدہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ مسلسل کوشش کرتے چلے جانا اور تھکنا نہیں ۔ دنیاوی کاموں میں ہم کوشش کرتے نہیں تھکتے تو خدا کا قرب پانے میں کیوں تھکیں۔
پھر اس کی فلاسفی کو بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’انسان کو چاہئے کہ اس زندگی کو اس قدر قبیح خیال کر کے اس سے نکلنے کے لئے کوشش کرے اور دعا سے کام لے کیونکہ جب وہ حق تدبیر کا ادا کرتا ہے اور پھر سچی دعاؤں سے کام لیتا ہے تو آخر اللہ تعالیٰ اس کو نجات دے دیتا ہے اور وہ گناہ کی زندگی سے نکل آتا ہے کیونکہ دعا بھی کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ وہ بھی ایک موت ہی ہے جب اس موت کو انسان قبول کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو مجرمانہ زندگی سے جو موت کا موجب ہے بچا لیتا ہے اور اس کو ایک پاک زندگی عطا کرتا ہے۔‘‘مجرمانہ زندگی بھی ایک موت ہی ہے۔ اگلے جہان میں جا کے جو سزائیں ملنی ہیں یا اس دنیا میں بعض دفعہ مل جاتی ہیں پس اس سے اللہ تعالیٰ بچا لیتا ہے۔ فرمایا کہ ’’بہت سے لوگ دعا کو ایک معمولی چیز سمجھتے ہیں۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ دعا یہی نہیں کہ معمولی طور پر نماز پڑھ کر ہاتھ اٹھا کر بیٹھ گئے اور جو کچھ آیا منہ سے کہہ دیا اس دعا سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ دعا نری ایک مَنْتَرکی طرح ہوتی ہے۔‘‘ جس طرح بعض مذہب والے منتر پڑھ لیتے ہیں۔ یہ تو منترہی ہے ’’نہ اس میں دل شریک ہوتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں پر کوئی ایمان ہوتا ہے۔‘‘ دل سے تو آواز نکل نہیں رہی ہوتی نہ یہ اظہار ہو رہا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب قدرتوں اور طاقتوں کا مالک ہے۔
’’یاد رکھو! دعا ایک موت ہے اور جیسے موت کے وقت اضطراب اور بے قراری ہوتی ہے اسی طرح پردعا کے لئے بھی ویسا ہی اضطراب اور جوش ہونا ضروری ہے۔
اس لئے دعا کے واسطے پورا پورا اضطراب اور گدازش جب تک نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔ پس چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نہایت تضرع اور زاری و ابتہال کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی مشکلات کو پیش کرے اور اس دعا کو اس حد تک پہنچاوے کہ ایک موت کی سی صورت واقع ہو جاوے۔ اس وقت دعا قبولیت کے درجہ تک پہنچتی ہے۔‘‘ فرمایا ’’یہ بھی یاد رکھو کہ
سب سے اوّل اور ضروری دعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کی دعا کرے۔‘‘
بڑی اہم بات ہے۔ پہلی دعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کی دعا کرے۔
ساری دعاؤں کا اصل اور جزو یہی ہے۔
فرمایا ’’ساری دعاؤں کا اصل اور جزو یہی دعا ہے‘‘ جڑ دعاؤں کی یہی ہے ’’کیونکہ جب یہ دعا قبول ہو جاوے اور انسان ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ہو کر خدا تعالیٰ کی نظر میں مطہر ہو جاوے۔‘‘ یہ بھی بڑی اہم بات ہے۔ یہ نہیں کہ ہم نے سمجھ لیا ہم پاک ہو گئےتو خدا تعالیٰ کی نظر میں مطہر ہو جائے گا۔ اس وقت تک دعا کرتا چلا جائے جب تک تسلی نہ ہو جائے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے پاک کر دیا ہے اور اس کی نظر میں پاک ہو جاؤں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر دوبارہ برائی کا خیال نہ آئے ’’تو پھر دوسری دعائیں جو اس کی حاجاتِ ضروریہ کے متعلق ہوتی ہیں وہ اس کو مانگنی بھی نہیں پڑتیں وہ خود بخود قبول ہوتی چلی جاتی ہیں ۔‘‘ جب یہ حالت ہو جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی دوستی کا حق ادا کرتا ہے اور پھر اس کی حاجات کو پورا کرتا رہتا ہے۔ فرمایا کہ ’’بڑی مشقت اور محنت طلب یہی دعا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاوے‘‘ گناہوں سے پاک ہونے کی یہ دعا کوئی معمولی نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی دعا ہے۔ ’’اور خدا تعالیٰ کی نظر میں متقی اور راستباز ٹھہرایا جاوے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی نظر میں متقی اور راستباز ہوں۔ اپنے آپ کو نہ سمجھ لیں یا صرف لوگ نہ ہمیں سمجھیں ۔ ’’یعنی اوّل اوّل جو حجاب انسان کے دل پر ہوتے ہیں ان کا دُور ہونا ضروری ہے۔ جب وہ دُور ہو گئے تو دوسرے حجابوں کے دُور کرنے کے واسطے اس قدر محنت اور مشقت کرنی نہیں پڑے گی کیونکہ خدا تعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال ہو کر ہزاروں خرابیاں خود بخود دُور ہونے لگتی ہیں اور جب اندر پاکیزگی اور طہارت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اس کا متکفل اور متولی ہوتا ہے اور اس سے پہلے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی کسی حاجت کو مانگے اللہ تعالیٰ خود اس کو پورا کر دیتا ہے۔‘‘ چاہے وہ دنیاوی حاجات ہوں ۔ وہ بھی پوری ہو جاتی ہیں ۔ ’’یہ ایک باریک سر ہے‘‘ بڑا باریک راز ہے ’’جو اس وقت کھلتا ہے جب انسان اس مقام پر پہنچتا ہے۔ اس سے پہلے اس کی سمجھ میں آنا بھی مشکل ہوتا ہے لیکن یہ ایک عظیم الشان مجاہدہ کا کام ہے کیونکہ دعا بھی ایک مجاہدہ کو چاہتی ہے جو شخص دعا سے لاپرواہی کرتا ہے اور اس سے دُور رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا اور اس سے دُور ہو جاتا ہے۔ جلدی اور شتاب کاری یہاں کام نہیں دیتی۔‘‘ جلد بازی کام نہیں آئے گی۔ ’’خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے جو چاہے عطا کرے اور جب چاہے عنایت فرمائے۔‘‘ جو چاہے دے اور جب چاہے دے یہ ہمیشہ ذہن میں رہنا چاہیے۔
’’سائل کا کام نہیں ہے کہ وہ فی الفور عطا نہ کیے جانے پر شکایت کرے اور بدظنی کرے بلکہ استقلال اور صبر سے مانگتا چلا جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد6صفحہ 406-407 ایڈیشن 1984ء)
پس مستقل مزاجی شرط ہے اور سب سے اہم دعا اپنے آپ کو پاک کرنے کی ہے۔ ایسی پاکیزگی جو خداتعالیٰ کی نظر میں پاکیزگی ہے۔
دعا کی قبولیت کے لیے کیا حالت ہونی چاہیے
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجہ کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے۔
جب انتہائی درجہ اضطرار کا پیدا ہو جاتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت کے آثار اور سامان بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھاتے ہیں ۔ یہ چھوٹی سی بات نہیں‘‘ اللہ تعالیٰ دعا کو قبول کرتا ہے تو وہاں سے اس کا حکم جاری ہو جاتا ہے اور پھر اس کے اثرات زمین پہ آنے شروع ہو جاتے ہیں ۔ یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے ’’بلکہ ایک عظیم الشان حقیقت ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہو اسے چاہئے کہ دعا کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد6صفحہ408-409۔ایڈیشن 1984ء)
بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا ہے وہ ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ یہ ہوگا تو پھر دعا کی کیا ضرورت ہے؟ یہ بھی سوال اٹھتے ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہ
دعا کیوں ضروری ہے؟
آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’اگر دعا اپنے اختیار میں ہوتی تو انسان جو چاہتا کر لیتا۔ اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ فلاں دوست یا رشتہ دار کے حق میں ضرور فلاں بات ہو ہی جاوے گی‘‘ دعا کے لیے بعض لوگ کہتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ ضرور قبول ہو جائے۔ ہمارے اختیار میں تو نہیں ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ کس طرح اس نے قبول کرنی ہے۔ ’’بعض وقت باوجود سخت ضرورت محسوس کرنے کے دعا نہیں ہوتی۔‘‘ دعا کے لیے کہا بھی جاتا ہے اور سخت ضرورت بھی محسوس ہو رہی ہوتی ہے لیکن وہ دل کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی ’’اور دل سخت ہو جاتا ہے چونکہ اس کے سِر سے لوگ واقف نہیں ہوتے‘‘ اس راز سے لوگ واقف نہیں ’’اس لئے گمراہ ہو جاتے ہیں۔‘‘ کہتے ہیں حالت نہیں پیدا ہوئی تو دعا کرنے کا فائدہ کیا۔ فرمایا کہ ’’اس پر ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر جَفّ القلم والی بات (یعنی مسئلہ تقدیر جس رنگ میں سمجھا گیا ہے) ٹھیک ہے۔‘‘ یعنی پھر تو یہی ہوا ناں کہ جو تقدیر ہے ہمارے لیے جو مقدر ہے وہی ہونا ہے تو دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا ’’لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کے علم میں سب ضرور ہے‘‘ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ تو ضرور ہے کہ یہ ہوگا ’’لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ خدا تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ فلاں کام ضرور ہی کر دیوے۔‘‘ علم میں ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طاقتوں سے باہر چلا گیا کہ وہ بات ضرور اسی طرح ہوگی ’’اگر ان لوگوں کا یہی اعتقاد ہے کہ جو کچھ ہونا تھا وہ سب ہو چکا اور ہماری محنت اور کوشش بے سود ہے تو‘‘ پھر دنیاوی مثال آپؑ نے دی ہے کہ سر میں درد ہو ’’درد سر کے وقت علاج کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں ۔‘‘ کچھ وقت کے بعد دردِ سرآپ ہی ہٹ جائے گی یا ہونی ہے تو ہونی ہے پھر دوائی کھانے کی ضرورت کیا ہے۔ ’’پیاس کے لئے ٹھنڈا پانی کیوں پیتے ہیں؟‘‘ ایسے لوگ بھی ہیں جو پانی نہیں پیتے تو ایک وقت آتا ہے پیاس خود بخود مر جاتی ہے لیکن فوری طور پر پانی پیا جاتا ہے لیکن اس سے ضروری نہیں کہ ہر ایک کی پیاس مرے۔پیاس سے لوگ مر بھی جاتے ہیں۔اس لئے پیاس کے لئے ٹھنڈا پانی کیوں پیتے ہو؟ اس لئے کہ پیاس بجھے۔ ’’بات یہ ہے کہ انسان کے تردّد پر بھی کچھ نہ کچھ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے۔‘‘ جب انسان کوشش کرتا ہے، محنت کرتا ہے، دعا کرتا ہے تو پھر اس کا نتیجہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ ہے، یہ ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر کو دعاؤں کے ذریعے سے بدل نہیں دیتا۔ ایک بیمار ہے، اس کی موت کو ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ اب مرنے والا ہے لیکن دعاؤں کی وجہ سے اس کو نو سال، چار سال، دس سال کی زندگی مل جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے وہ تقدیر بدل دی۔ یہ تو ٹھیک ہے ہر انسان کی فنا ہے لیکن اس کو لمبی زندگی اللہ تعالیٰ عطا فرما دیتا ہے اور صحت مند زندگی عطا فرما دیتا ہے۔ فرمایا کہ
’’دعا عمدہ شئے ہے۔ اگر توفیق ہو تو ذریعہ مغفرت کا ہو جاتی ہے‘‘
اگر اَور کچھ بھی نہیں ہوتا تو یہ دعا مغفرت کا ذریعہ ہی بن جاتی ہے۔ اگر وہ مقصد پورا نہ بھی ہو جس کے لیے دعا کی جاتی ہے تب بھی اللہ تعالیٰ اس دعا کو سنبھال لیتا ہے۔ اور وہ اس دنیا میں یا اگلے جہان میں اس کے لیے مغفرت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس کے لیے بخشش کا ذریعہ بن جاتی ہے ’’اور اسی کے ذریعہ سے رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ مہربان ہو جاتا ہے‘‘ اور پھر خدا تعالیٰ کی مہربانیاںبھی شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر اس زندگی میں مغفرت کا انعام ملنا شروع ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ کی مہربانی کے جلوے بھی انسان دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ فرمایا کہ ’’دعا کے نہ کرنے سے اوّل زنگ دل پر چڑھتا ہے‘‘ نہ کرنے سے دل پہ زنگ چڑھ جاتا ہے ’’پھر قساوت پیدا ہوتی ہے‘‘ دل میں سختی پیدا ہو جاتی ہے کہ کیا ضرورت ہے دعا کی اور انسان دُور ہٹتا جاتا ہے۔ ’’پھر خدا سے اجنبیت‘‘ پیدا ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُوری پیدا ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو غیر سمجھنے لگ جاتا ہے ’’پھر عداوت‘‘ پیدا ہوتی ہے ’’پھر نتیجہ سلبِ ایمان ہوتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد6صفحہ422-423۔ایڈیشن 1984ء)اور آخر میں پھر اللہ تعالیٰ پہ ایمان ہی اٹھ جاتا ہے۔
تو یہ مختلف حالتیں ہیں جو دعا نہ کرنے کی وجہ سے پھر بتدریج ہوتی ہیں ۔ آدمی کو پہلے زنگ لگتا ہے۔ پھر سختی پیدا ہوتی ہے۔ پھر دہریت پیدا ہوتی ہے۔ پھر انسان عداوت اور دشمنی میں بڑھنے لگ جاتا ہے۔ ایسے خیالات آنے لگ جاتے ہیں۔ پھر ایمان ضائع ہو جاتا ہے۔ پھر انسان دہریہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے دعا کی طرف ضرور آؤ۔ اور نہیں تو پھر جو ایمان ضائع ہو جائے تو پھر انسان کی دنیا و عاقبت دونوں برباد ہو گئیں۔
پھر یہ بات بیان فرماتے ہوئے کہ
کس قسم کی دعا اسلام کا فخر ہے
آپؑ فرماتے ہیں:’’دعا اسلام کا خاص فخر ہے اور مسلمانوں کو اس پر بڑا ناز ہے مگر یہ یاد رکھو کہ یہ دعا زبانی بَک بَک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دعا کرنے والے کی روح پانی کی طرح بہہ کر آستانۂ الوہیت پر گرتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لئے قوی اور مقتدر خدا سے طاقت اور قوت اور مغفرت چاہتی ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ دوسرے الفاظ میں اس کو موت کہہ سکتے ہیں۔ جب یہ حالت میسر آ جاوے تو یقینا ًسمجھو کہ بابِ اجابت اس کے لئے کھولا جاتا ہے۔‘‘ اب دعا کی قبولیت کا دروازہ کھل گیا ’’اور خاص قوت اور فضل اور استقامت بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پراستقلال کے لئے عطا ہوتی ہے۔ یہ ذریعہ سب سے بڑھ کر زبردست ہے۔ مگر
بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت اور حالت سے محض ناواقف ہیں اور اسی وجہ سے اس زمانہ میں بہت سے لوگ اس سے منکر ہو گئے ہیں کیونکہ وہ ان تاثیرات کو نہیں پاتے
اور منکر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے‘‘ وہی تقدیر والی بات۔ ’’پھر دعا کی کیا حاجت ہے مگر مَیں خوب جانتا ہوں کہ یہ تو نرا بہانہ ہے۔ انہیں چونکہ دعا کا تجربہ نہیں، اس کی تاثیرات پر اطلاع نہیں اس لئے اس طرح کہہ دیتے ہیں ورنہ اگر وہ ایسے ہی متوکل ہیں تو پھر بیمار ہو کر علاج کیوں کرتے ہیں؟…
جبکہ دوسرے اشیاء میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ باطنی دنیا میں تاثیرات نہ ہوں‘‘
یعنی کہ جو روحانی اور اندرونی ہے اس میں تاثیرات نہ ہوں ’’جن میں سے دعا ایک زبردست چیز ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد7صفحہ263-264۔ایڈیشن 1984ء)
پس دعا میں تاثیرات ہیں لیکن اُن کی دعاؤں میں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنے کا حق ادا کرنے والے ہیں اور مستقل مزاجی سے کرتے چلے جانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کو کرنے کا حکم دیا ہے انہیں کرنے والے ہیں اور جن سے روکا ہے ان سے رکنے والے ہیں اور پھر ان کے ایمان میں ذرا بھی لغزش نہ آئے بلکہ ایمان میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں۔پھر یہ حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔
پھر
دعا کو مستقل مزاجی سے کرتے چلے جانے کے بارے میں
آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’دعا کرتے وقت بے دلی اور گھبراہٹ سے کام نہیں لینا چاہئے اور جلدی ہی تھک کر نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ اس وقت تک ہٹنا نہیں چاہئے جب تک دعا اپنا پورا اثر نہ دکھائے۔ جو لوگ تھک جاتے اور گھبرا جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں کیونکہ یہ محروم رہ جانے کی نشانی ہے۔ میرے نزدیک دعا بہت عمدہ چیز ہے اور میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں، خیالی بات نہیں
جو مشکل کسی تدبیر سے حل نہ ہوتی ہو اللہ تعالیٰ دعا کے ذریعہ اسے آسان کر دیتا ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ دعا بڑی زبردست اثر والی چیز ہے۔
بیماری سے شفااس کے ذریعہ ملتی ہے۔ دنیا کی تنگیاں مشکلات اس سے دُور ہوتی ہیں۔‘‘ دنیا کی تنگیاں اور مشکلات بھی اس سے دُور ہوتی ہیں ’’دشمنوں کے منصوبے سے یہ بچا لیتی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو دعا سے حاصل نہیں ہوتی؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو پاک یہ کرتی ہے۔‘‘ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان کو پاک کرتی ہے اور یہی انسان کا ایک مومن کا ایک عابد کا اصل مقصود ہونا چاہیے ’’اور خدا تعالیٰ پر زندہ ایمان یہ بخشتی ہے ۔گناہ سے نجات دیتی ہے اور نیکیوں پر استقامت اس کے ذریعہ سے آتی ہے۔
بڑا ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جس کو دعا پر ایمان ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کو دیکھتا ہے اور خدا تعالیٰ کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے کہ وہ قادر کریم خدا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد7صفحہ 265-266۔ایڈیشن 1984ء)
دعا کی قبولیت کے نہ ہونے پر شکوہ کرنے والوں کے جواب
میں آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’بہت سے لوگ ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ پر الزام لگاتے ہیں اور اپنے آپ کو بَری خیال کر کے کہتے ہیں کہ ہم نے تو نماز بھی پڑھی اور دعا بھی کی ہے مگر قبول نہیں ہوتی۔ یہ ان لوگوں کا اپنا قصور ہوتا ہے۔
نماز اور دعا جب تک انسان غفلت اور کسل سے خالی نہ ہو تو وہ قبولیت کے قابل نہیں ہوا کرتی۔
اگر انسان ایک ایسا کھانا کھائے جو کہ بظاہر تو میٹھا ہے مگر اس کے اندر زہر ملی ہوئی ہے تو مٹھاس سے وہ زہر معلوم تو نہ ہوگا مگر پیشتر اس کے کہ مٹھاس اپنا اثر کرے زہر پہلے ہی اثر کر کے کام تمام کر دے گا‘‘ انسان کو مار دے گا۔ ’’یہی وجہ ہے کہ غفلت سے بھری ہوئی دعائیں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ غفلت اپنا اثر پہلے کر جاتی ہے۔
یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا بالکل مطیع ہو اور پھر اس کی دعا قبول نہ ہو۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ اس کے مقررہ شرائط کو کامل طور پر ادا کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد5صفحہ 318-319۔ایڈیشن 1984ء)
پس اللہ تعالیٰ کی شرائط میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات مکمل طور پر مانی جائے، لبیک کہا جائے اور اس پر ایمان مضبوط ہو۔ کچھ ہو جائے مگر انسان اللہ تعالیٰ کا دَر نہ چھوڑے۔
اللہ تعالیٰ نے اسباب پیدا کیے، ان کا استعمال کرنا بھی دعا کے ساتھ ضروری ہے۔
اس بارے میں آپؑ نے فرمایا :’’یہ سچی بات ہے کہ جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا وہ دعا نہیں کرتا بلکہ خدا تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے اس لئے دعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے اور یہی معنی اس دعا ’’ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ‘‘کے ہیں۔ پہلے لازم ہے کہ انسان اپنے اعتقاد، اعمال میں نظر کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ اصلاح اسباب کے پیرایہ میں ہوتی ہے۔‘‘ اصلاح ہونے کے لیے بہرحال کوئی اسباب مہیا ہوتے ہیں ۔ ’’وہ کوئی نہ کوئی ایسا سبب پیدا کر دیتا ہے کہ جو اصلاح کا موجب ہو جاتا ہے
وہ لوگ اس مقام پر ذرا خاص غور کریں جو کہتے ہیں کہ جب دعا ہوئی تو اسباب کی کیا ضرورت ہے۔ وہ نادان سوچیں کہ دعا بجائے خود ایک مخفی سبب ہے۔‘‘ دعا بھی تو ایک سبب ہی ہے کہ ’’جو دوسرے اسباب کو پیدا کر دیتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ 124 ایڈیشن 1984ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’اسلام سے سچی مراد یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کر لے مگر سچ یہ ہے کہ یہ مقام انسان کی اپنی قوت سے نہیں مل سکتا۔ ہاں اس میں کلام نہیں کہ انسان کا فرض ہے کہ وہ مجاہدات کرے لیکن اس مقام کے حصول کا اصل اور سچا ذریعہ دعا ہے۔ انسان کمزور ہے جب تک دعا سے قوت اور تائید نہیں پاتا اس دشوار گزار منزل کو طے نہیں کر سکتا۔ خود اللہ تعالیٰ نے انسان کی کمزوری اور اس کے ضعف حال کے متعلق ارشاد فرماتا ہے۔خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا یعنی انسان ضعیف اور کمزور بنایا گیا ہے۔ پھر باوجود اس کی کمزوری کے اپنی ہی طاقت سے ایسے عالی درجہ اور ارفع مقام کے حاصل کرنے کا دعویٰ کرنا سراسر خام خیالی ہے۔ اس کے لئے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ دعا ایک زبردست طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہو جاتے ہیں اور دشوار گزار منزلوں کو انسان بڑی آسانی سے طے کر لیتا ہے کیونکہ دعا اس فیض اور قوت کے جذب کرنے والی نالی ہے جو اللہ تعالیٰ سے آتا ہے۔ جو شخص کثرت سے دعاؤں میں لگا رہتا ہے وہ آخر اس فیض کو کھینچ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو کر اپنے مقاصد کو پا لیتا ہے۔ ہاں نری دعا خدا تعالیٰ کا منشا نہیں ہے بلکہ اوّل تمام مساعی اور مجاہدات کو کام میں لائے اور اس کے ساتھ دعا سے کام لے، اسباب سے کام لے۔
اسباب سے کام نہ لینا اور نری دعا سے کام لینا یہ آداب الدعا سے ناواقفی ہے اور خدا تعالیٰ کو آزمانا ہے اور نرے اسباب پر گر رہنا اور دعا کو لاشیٔ محض سمجھنا یہ دہریت ہے۔
یقینا ًسمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے۔ جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا اس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی۔ وہ ایک ایسے قلعے میں محفوظ ہے جس کے ارد گرد مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں لیکن جو دعاؤں سے لاپروا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں اور موذی جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی خیر ہرگز نہیں ہے۔ ایک لمحہ میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہو جائے گا اور اس کی ہڈی بوٹی نظر نہ آئے گی۔ اس لئے یاد رکھو کہ انسان کی بڑی سعادت اور اس کی حفاظت کا اصل ذریعہ یہی دعا ہے۔ یہی دعا اس کے لئے پناہ ہے اگر وہ ہر وقت اس میں لگا رہے۔‘‘ (ملفوظات جلد7صفحہ 192-193۔ایڈیشن 1984ء)
پھر فرمایا:’’خدا تعالیٰ ایک تعلق چاہتا ہے اور اس کے حضور میں دعا کرنے کے لئے تعلق کی ضرورت ہے۔ بغیر تعلق کے دعا نہیں ہو سکتی۔ پہلے بزرگوں کی بھی اس قسم کی باتیں چلی آتی ہیں کہ جن سے دعا کرنے والوں کو دعا کرانے سے پہلے تعلق ثابت کرنے کی تاکید کی۔خوانخواہ بازار میں چلتے ہوئے کسی بے تعلق کو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تُو میرا دوست ہے اور نہ ہی اس کے لئے درد دل پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی جوشِ دعا پیدا ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اس طرح نہیں ہو سکتا کہ انسان غفلت کاریوں میں بھی مبتلا رہے اور صرف منہ سے دم بھرتا رہے کہ مَیں نے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لیا ہے۔‘‘ فرمایا ’’…اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے۔ ہم بار بار اپنی جماعت کو اس بات پر قائم ہونے کے لئے کہتے ہیں‘‘ فرمایا کہ ’’ہم بار بار اپنی جماعت کو اس بات پر قائم ہونے کے لیے کہتے ہیں کیونکہ جب تک دنیا کی طرف سے انقطاع اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہو کر اللہ تعالیٰ کے لئے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ثبات میسر نہیں آ سکتا۔‘‘ (ملفوظات جلد7صفحہ42-43۔ایڈیشن 1984ء)
پس ہمیں ان دنوں میں جب کہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر یہ برکت کامہینہ ہمارے لیے مہیا فرمایا ہے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ یہی ہماری دنیا و عاقبت سنوارنے کا ذریعہ ہے۔
رمضان کا اب آخری عشرہ شروع ہو رہا ہے اس میں خاص طور پر ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں کو اپنا لائحہ عمل بناتے ہوئے، ایمان میں مضبوط ہوتے ہوئے راتوں کو اٹھ کر اس کے حضور جھکتے ہوئے اس کے قرب کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اس ہدایت کو پانے والے ہوں جس پر اللہ تعالیٰ ہمیں چلانا چاہتا ہے۔
رمضان کی دعاؤں میں خاص طور پر
جماعت کی ترقی کے لیے دعائیں کریں۔ اسیران کے لیے دعائیں کریں
اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے سامان جلد پیدا فرمائے۔
یمن کے اسیران کے لیے دعائیں کریں
خاص طور پر ایک خاتون وہاں ہیں۔ ان کو قید میں ظالمانہ طور پر ایک تنگ سی کوٹھڑی میں رکھا ہوا ہے جو باقی اسیران سے علیحدہ ہیں لیکن وہ بڑے صبر اور ایمان کی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں رہ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے بھی سامان جلد پیدا فرمائے۔ جو بدظنیاں جماعت کے بارے میں ان لوگوں کے دل میں ہیں یعنی مخالفین کے، اللہ تعالیٰ انہیں دُور فرمائے۔
فلسطینیوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں
بظاہر تو یہ کہتے ہیں جی بڑی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں لیکن حالات تو بدتر ہی ہو رہے ہیں۔ یو این کا ریزولیوشن جو پاس ہوا ہے اس کے باوجود یہ ظلم اسی طرح جاری ہے اور یہاں مغربی بڑی طاقتوں کے دوہرے معیار کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یہی ظلم جب ان کے پسندیدہ لوگوں پر ہو، ملکوں پر ہو تو فوری دوسرے ملک پر پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں لیکن اسرائیل پر پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی بلکہ امریکہ نے گذشتہ دنوں کئی بلین ڈالر کی غیر مشروط امداد ان کے لیے منظور کی ہے لیکن فلسطینیوں کے لیے چند ملین کی امداد منظور کی ہے پھر شرط یہ لگا دی کہ وہ اسرائیل کے خلاف عدالتِ انصاف میں نہیں جائیں گے یا کسی فورم پہ نہیں جائیں گے جہاں ان کو اس کے خلاف کچھ کہنے کا موقع ملے۔ تو ان جیسے لوگوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ پس دعا ہی ہے
اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان مظلوموں کو ان ظالموں سے نجات دے اور ہمیں بھی ان مظلوموں کے لیے دعا کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا ہے بڑا کریم اور سخی ہے۔ جب بندہ اس کے حضور دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے (الحدیث)
اس آیت میں جب اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ ’’میرے بندے‘‘ تو ان بندوں سے مراد ہے جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا عبد بننا چاہتے ہیں، حقیقی توبہ کرنا چاہتے ہیں اور کرتے ہیں
وہ لوگ خود اپنا جائزہ لے لیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے بڑی دعا کی، بہت سجدے کیے،بہت نفل پڑھے لیکن ہمارے مقصد حاصل نہیں ہوئے۔ کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر لیا؟ کیا انہوں نے اپنی ایمانی حالت کو اس معیار پر پہنچا دیا کہ کوئی طوفان انہیں ہلا نہ سکے؟
’’جو شخص ایمان لاتا ہے اسی کو عرفان دیا جاتا ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
’’دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
’’دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔ ‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ کس طرح پتہ چلے کہ دعا قبول ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ راضی ہوا ہے؟ ان کو یہ جواب ہے کہ پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے
’’حصولِ فضل کا اقرب طریق دعا ہے اور دعا کامل کے لوازمات یہ ہیں کہ اس میں رِقّت ہو، اضطراب اور گدازش ہو۔ جو دعا عاجزی، اضطراب اور شکستہ دلی سے بھری ہوئی ہو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
’’دعا ایک استقلال اور مداومت کو چاہتی ہے۔ ‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
’’سب سے اوّل اور ضروری دعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کی دعا کرے۔ ساری دعاؤں کا اصل اور جزو یہی ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
’’سائل کا کام نہیں ہے کہ وہ فی الفور عطا نہ کیے جانے پر شکایت کرے اور بدظنی کرے بلکہ استقلال اور صبر سے مانگتا چلا جاوے۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
’’دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجہ کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
رمضان کا اب آخری عشرہ شروع ہو رہا ہے اس میں خاص طور پر ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں کو اپنا لائحہ عمل بناتے ہوئے، ایمان میں مضبوط ہوتے ہوئے، راتوں کو اٹھ کر اس کے حضور جھکتے ہوئے اس کے قرب کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اس ہدایت کو پانے والے ہوں جس پر اللہ تعالیٰ ہمیں چلانا چاہتا ہے
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میں دعا اور اس کی قبولیت کی حکمت اور فلاسفی کا بیان
جماعت کی ترقی، یمن اور پاکستان میں پابندِ سلاسل اسیرانِ راہِ مولیٰ اور مظلوم فلسطینیوں کے لیے دعاؤں کی تحریک
اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان مظلوموں کو ان ظالموں سے نجات دے اور ہمیں بھی ان مظلوموں کے لیے دعا کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے
فرمودہ 29؍ مارچ2024ء بمطابق 29؍ امان 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔