حضرت محمد رسول اللہﷺ: اُسوۂ حسنہ
خطبہ جمعہ 10؍ مئی 2024ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعض سرایا کا ذکر
کروں گا۔ اس ضمن میں پہلے
قبیلہ بنو اسد کی شرارت اور سریہ ابو سلمہ
کا ذکر ہو گا۔
سریہ اس کو کہتے ہیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود شریک نہیں ہوتے تھے لیکن آپؐ دوسروں کو مہم کے لیے بھیجا کرتے تھے۔
ان میں بھی آپؐ کی سیرت کے پہلوؤں پرروشنی پڑتی ہے۔
ان سرایا سے آپؐ کی حکمت اورآپؐ کے اس اُسوہ پر بھی روشنی پڑتی ہےکہ کس طرح آپؐ نےمسلمانوں کا دفاع کرنا ہے اور پھر دوسروں یعنی دشمن کے لیے بھی کتنی ہمدردی کا اظہار ہے۔
بہرحال یہ سریہ محرم 4ہجری میں ہوا اس کی قیادت حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد مخزومیؓ نے کی۔(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد6صفحہ424مطبوعہ دار السلام ریاض 1434ھ)
ابو سلمہؓ کا نام عبداللہ تھا اور کنیت ابوسلمہ تھی۔ ان کی والدہ برّہ بنت عبدالمطلب تھیں اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور حضرت حمزہؓ کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ انہوں نے ابولہب کی لونڈی ثُوَیْبَہکا دودھ پیا تھا۔ حضرت ام المومنین ام سلمہؓ پہلے انہی کے نکاح میں تھیں۔(اسدالغابہ جلد 3صفحہ295 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت ابو سلمہ ؓغزوۂ بدراور اُحد میں شامل ہوئے۔ غزوۂ اُحد میں یہ زخمی ہوئے۔ ایک ماہ تک اس کا علاج کرتے رہے بظاہر وہ زخم اچھا ہو گیا اور وہ زخم ایسا مندمل ہو گیا کہ اسے کوئی پہچانتا نہ تھا۔(الطبقات الکبری جلد3 صفحہ182 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اس سریہ کا پس منظر
کچھ یوں ہے کہ مدینہ میں رہنے والے منافقین اور یہود جنگِ اُحد کے حالات و واقعات کی وجہ سے خوشیاں منانے لگے اور ایک بار پھر ان کے دل میں یہ خیالات آنے لگے کہ مسلمانوں کو جلد ختم کرنے کے لیے پلاننگ کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح مدینہ کے ارد گرد رہنے والے وہ قبائل جو جنگِ بدر میں مسلمانوں کی عظیم الشان فتح کی وجہ سے خوفزدہ ہو گئے تھے ان کے دلوں میں بھی یہ خیال انگڑائیاںلینے لگا کہ اُحد میں مسلمانوں کو کافی نقصان ہو چکا ہے اس لیے موقع ہے کہ مسلمانوں پر حملہ کر کے ان کو مزید نقصان پہنچایا جائے اور لُوٹ مار کے نتیجہ میں ان کے اموال اور دولت حاصل کیے جائیں۔ چنانچہ جنگِ اُحد کو گزرے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ ان قبیلوں میں سے جس قبیلے نے سب سے پہلے مسلمانوں پر حملے کا پروگرام بنایا وہ بنو اسد بن خُزَیْمَہتھا۔ یہ لوگ نجد میں رہتے تھے۔ اس قبیلے کے رئیس طُلَیْحَہ بن خُوَیْلَد اور اس کے بھائی سلمہ بن خویلد نے لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک لشکر تیار کر لیا۔
بنو اسد کے ایک آدمی قیس بن حارث بن عمیر نے اپنی قوم کو مسلمانوں پر حملہ نہ کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے میری قوم! یہ عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ ہمیں مسلمانوں کی طرف سے کسی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
مسلمان ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے اور نہ ہی ہم پہ مسلمانوں نے لوٹ مار کے لیے حملہ کیا ہے۔ ہمارا علاقہ یثرب سے دُور ہے یعنی مدینہ سے دُور بھی ہے۔ ہمارے پاس قریش جیسا لشکر بھی نہیں ہے۔ قریش خود ایک عرصہ تک اہلِ عرب سے ان کے خلاف مدد مانگتے رہے۔ انہیں تو ان سے بدلہ بھی لینا تھا پھر وہ اونٹوں پر سوار ہو کر گھوڑوں کی باگ ڈور سنبھال کر نکلے تھے۔ وہ تین ہزار جنگجوؤں اور اپنے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد کو ساتھ لے کر گئے تھے۔ بہت سا اسلحہ بھی لیا تھا۔ اس کے مقابلے میں تمہاری کیا حیثیت ہے؟ صرف یہ ہے کہ تم بمشکل تین سو افراد لے کر نکلو گے اس طرح تم لوگ اپنے آپ کو فریب میں ڈال دو گے اپنے علاقے سے دُور نکل جاؤ گے اور مجھے ڈر ہے کہ تم مصیبت میں پھنس جاؤ گے لیکن انہوں نے قیس کی نصیحت نہ مانی۔ ادھر بنو اسد کے مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے منصوبہ کی اطلاع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اس طرح پہنچ گئی کہ قبیلہ طَے کا ایک شخص ولید بن زُھیر مدینہ آیا۔ وہ اپنی بھتیجی زینب سے ملاقات کے لیے آیا تھا جو طُلَیب بن عُمَیر بن وَہْب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی تھیں۔ اس نے بنو اسد کے مذکورہ بالا منصوبے کی اطلاع دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے کہ بنو اسد مدینہ پر حملہ کریں خود مسلمان اپنے تحفظ کے لیے ان کے علاقے پر چڑھائی کریں۔ چنانچہ آپؐ نے حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسدؓ کو طلب فرمایا اور انہیں ارشاد فرمایا کہ اس مہم پر روانہ ہو جاؤ۔ مَیں نے تمہیں اس کا نگران مقرر کیا ہے۔ اس کے بعد
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے جھنڈا باندھا اور یہ ہدایت فرمائی کہ بنو اسد کے علاقے تک اپنا سفر جاری رکھو اس سے پہلے کہ ان کے لشکر تمہارے خلاف اکٹھے ہو جائیں۔ وہاں پہنچ کر ان پر حملہ کر دو۔
ایک سو پچاس اصحابِ کرامؓ پر مشتمل لشکر ابوسلمہ ؓکی قیادت میں ان قبائل کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا۔ قبیلہ طے کا وہ شخص یعنی ولید بن زُھیربطور گائیڈ ان کے ساتھ تھا، رہبر ان کے ساتھ تھا۔(ماخوذ از سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد 6 صفحہ 422تا425 مطبوعہ دار السلام ریاض 1434ھ)(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 6 صفحہ 34 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اس سریہ میں شامل ہونے والے چند صحابہ کرامؓ کے اسماء یہ ہیں۔
اَبُوسَبْرَہ بن ابی رُھْم، عبداللہ بن سُہَیل بن عمرو، عبداللّٰہ بن مَخْرَمَہعامری، مُعَتِّبْ بن فضل، ارقم بن ابی ارقم، ابوعبیدہ بن جرّاح، سہیل بن بَیْضَاء، اُسَید بن حُضَیر انصاری ، عَبَّاد بن بِشْر انصاری، ابونائلہ انصاری، ابوعَبْس، قتادہ بن نعمان ، نَضِْر بن حارث، ابوقتادہ انصاری ، ابو عَیَّاش زُرَقِی، عبداللہ بن زید انصاری، خُبَیْب بن یَسَافْ، سعد بن ابی وقاص ، ابوحذیفہ بن عُتْبہ، سالم مولیٰ ابوحذیفہ۔(کتاب المغازی للواقدی جلد 1 صفحہ 341 عالم الکتب بیروت 1984ء)(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد6 صفحہ424مطبوعہ دار السلام ریاض 1434ھ)
صحابہ کرامؓ اپنی اس مہم کو خفیہ رکھتے ہوئے تیز رفتاری سے عام رستے سے ہٹ کر چلے تا کہ جلدازجلد دشمن تک پہنچ جائیں۔ انہوں نے دن رات مسلسل یہ سفر کیا۔ ایک روایت کے مطابق دن کا ایک حصہ یہ چھپ جاتے اور رات کو سفر کرتے۔ یوں چار دن کے سفر کے بعد وہ قَطَن پہاڑ کے قریب پہنچ گئے۔ قَطن کے متعلق لکھا ہے کہ یہ فید کے قریب ایک پہاڑ کا نام ہے اور فَیْد کوفہ کے رستے پر ایک منزل کا نام ہے جہاں بنو اسد بن خُزیمہ کا چشمہ تھا۔ مسلمانوں نے وہاں پہنچتے ہی حملہ کرکے ان کے مویشیوں پر قبضہ کر لیا اور ان کے چرواہوں میں سے تین کو پکڑ لیا اور باقی بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان بھاگنے والوں نے بنو اسد کے پڑاؤ میں پہنچ کر مسلمانوں کے لشکر کے پہنچ جانے اور ان کے حملے کی خبر دی اور ابوسلمہؓ کے لشکر کی تعداد بہت بڑھا چڑھا کر بیان کی۔
ان چرواہوں نے بھی بہت مبالغے سے کام لیا کہ اتنا بڑا لشکر ہے جس سے ان میںاَور خوف پیدا ہو گیا۔ جس سے بنو اسد خوفزدہ ہو گئے اور مسلمانوں کے اچانک پہنچ جانے کی وجہ سے ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ وہ ڈر کے مارے اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔
حضرت ابوسلمہؓ جب بنو اسد کے پڑاؤ کے مقام پر پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ دشمن بھاگ گیا ہے تو انہوں نے ان کی تلاش میں اپنے ساتھیوں کو بھیجا۔ حضرت ابوسلمہؓ نے انہیں تین حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصہ ان کے ساتھ ٹھہرا۔ باقی دونوں کو دو مختلف اطراف میں بھیجا اور ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے زیادہ دُور تک نہ جائیں اور اگر دشمن سے تصادم نہیں ہوتا تو واپس آ کر رات انہی کے پاس قیام کریں اور یہ بھی تاکید کی کہ منتشر نہ ہوں، اکٹھے ہی رہیں لیکن دشمن سراسیمہ ہو کر اتنی تیزی سے بھاگا تھا کہ مسلمانوں کا کسی سے بھی سامنا نہ ہوا۔ حضرت ابوسلمہؓ نے تمام مالِ غنیمت کے ساتھ مدینہ کی طرف واپسی کا سفر شروع کیا۔ جو شخص بطور راہنما ساتھ گیا تھا وہ ساتھ ہی واپس لوٹا۔ ایک رات کا سفر طے کرنے کے بعد حضرت ابوسلمہؓ نے مالِ غنیمت تقسیم کیا۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خمس علیحدہ کیا۔ رہبر شخص کو اس کی خوشی کے مطابق مال دیا اور بقیہ مالِ غنیمت صحابہ کرامؓ میں تقسیم کر دیا۔ ہر صحابی کو سات سات اونٹ اور کئی کئی بکریاں ملیں اور یوں باقی سفر طے کرتے ہوئے یہ لوگ خوشی کے ساتھ قریباً دس دن کے بعد واپس مدینہ پہنچ گئے۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 6 صفحہ 34 دارالکتب العلمیۃ بیروت)( سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد6صفحہ 425-428مطبوعہ دار السلام ریاض 1434ھ)( سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 511-512)(اٹلس سیرت نبویؐ صفحہ 253مطبوعہ دار السلام ریاض 1424ھ)
یہ جو مَیں نے بتایا ہے اور اس میں جو حوالہ دیا تھا یہ بیان مختلف تاریخوں سے اخذ کیا گیا ہے، سیرت خاتم النبیینؐ کا بھی کچھ حصہ اس میں شامل ہے۔ بہرحال
حضرت ابوسلمہؓ کی وفات کے بارے میں
لکھا ہے کہ حضرت ابوسلمہؓ اس سریہ کے لیے مدینہ سے دس سے کچھ زائد راتیں باہر رہے۔ جب مدینہ واپس آئے تو ان کا وہ زخم جو غزوۂ اُحد میں ان کو لگا تھا دوبارہ تازہ ہو گیا جس سے وہ بیمار پڑ گئے اور اسی سال تین جمادی الآخر کو انتقال کر گئے۔(الطبقات الکبری جلد3 صفحہ182 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
بنو اسد کے جس رئیس طُلَیحہ بن خُوَیلَدکا ذکر ہوا ہے یہ انتہائی بہادر انسان تھا اور مشہور تھا کہ ملک عرب میں اسے ایک ہزار شہسوار کے برابر سمجھا جاتا ہے اور یہ بہت فصیح اللسان تھا۔ نو ہجری میں بنواسد کے وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے اسلام قبول کیا تھا لیکن پھر مرتد ہو گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نبوت کا جھوٹا مدعی بن کر فتنہ و فساد کا موجب بنا تھا اور آخر کار شکست کھا کر عرب سے بھاگ گیا تھا۔ پھر کچھ عرصہ بعد مدینہ آ کر حضرت عمرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور آخر دم تک اسلام پر ثابت قدمی دکھائی۔ جنگِ قادسیہ اور دوسری کئی اسلامی جنگوں میں حصہ لے کر اپنی بہادری کے جوہر دکھائے اور اکیس ہجری میں ایک جنگ میں شہادت کا مقام پایا۔( سیرت انسائیکلوپیڈیا،جلد6صفحہ 430-431مطبوعہ دار السلام ریاض 1434ھ)(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 511-512)
اللہ تعالیٰ نے اس کا انجام بخیر کرنا تھا تو آخر اس کو توفیق ملی اور اسلام قبول کر لیا۔
پھر
سریہ حضرت عبداللہ بن اُنیسؓ کا ذکر
ہے۔ حضرت عبداللہ بن اُنیس جُہَنِیؓ انصار میں سے بنو سلمہ کے حلیف تھے۔ یہ بیعت عَقَبَہ ثانیہ، بدر، اُحد اور دیگر غزوات میں شامل ہوئے۔ ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے بنو سلمہؓ کے بُت توڑے تھے۔(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 178 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2008ء)( السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ412،419 دارالمعرفہ بیروت)
حضرت عبداللہ بن اُنیسؓ نے شام میں 54 ہجری یا بعض روایات کے مطابق 74 ہجری میں وفات پائی۔(اصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ 14دارالکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 178 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2008ء)
جنگِ اُحد کے واقعات جب مدینہ کے ارد گرد قبائل کے لوگوں کو معلوم ہوئے تو جن لوگوں نے مسلمانوں کو کمزور سمجھ کر ان پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا ان میں سے قبیلہ بَنُو لَحْیَانکا سردار خالد بن سفیان ھُذَلِیْ لَحْیَانِی بھی تھا۔ بعض روایات میں اس کا نام سفیان بن خالد ہے۔ بہرحال اس نے سوچا کہ مسلمانوں کو اُحد میں تازہ تازہ نقصان پہنچا ہے تو کیوں نہ ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ان پر چڑھائی کر دی جائے اور مدینہ میں لُوٹ مار کر کے ان پر اپنی دھاک بٹھائی جائے۔ اس شخص کے دل میں اسلام دشمنی کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی اور بےحد متکبر تھا۔ یہ مقام نخلہ یا عرفات کے قریب وادی عُرَنَہمیں لشکر تیار کر رہا تھا۔ اس نے اپنی قوم کے جنگجوؤں اور ارد گرد کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف اکٹھا کرنے کی مہم چلا رکھی تھی اور مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ اس کے پاس اکٹھے بھی ہو چکے تھے۔(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 6 صفحہ 433 مطبوعہ دار السلام ریاض 1434ھ)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ سفیان بن خالد نے مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے لشکر جمع کیا ہے تو آپؐ نے ایک منفرد حکیمانہ عسکری فیصلہ فرمایا کہ بجائے اس کے کہ ایک فوج تیار کر کے سفیان کے مقابلے کے لیے بھیجی جائے اور دونوں طرف خون بہے زیادہ مناسب معلوم ہو گا کہ حکمتِ عملی سے اس باغیانہ لشکر تیار کرنے والے بانی مبانی کو ہی ختم کر دیا جائے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطرناک لیکن اہم کارروائی کے لیے اپنے ایک بہادر صحابی حضرت عبداللہ بن انیسؓ کا انتخاب فرمایا۔(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد6صفحہ433-434مطبوعہ دار السلام ریاض 1434ھ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن انیس ؓکو بلا کر سفیان بن خالد کے سارے منصوبے کی تفصیل بتائی اور فرمایا کہ خاموشی سے جاؤ اور اس کو قتل کر دو۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺجلد7صفحہ135 بزم اقبال لاہور 2022ء)
عبداللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہؐ! مجھے اس کا حلیہ بتائیے۔ آپؐ نے فرمایا جب تم اس کودیکھو گے تو تم پر ہیبت چھا جائے گی اور اس کو دیکھتے ہی شیطان یاد آ جائے گا۔عبداللہؓ نے عرض کیا کہ اے رسول اللہؐ! میں تو کبھی کسی سے نہیں ڈرا۔ آپؐ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے لیکن اسے دیکھ کر تمہارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ چنانچہ پانچ محرم چار ہجری کو یہ اکیلے اس مہم پر روانہ ہو گئے۔ عبداللہؓ کہتے ہیں جب مَیں عُرَنَہ کے مقام پر پہنچا جو کہ عرفات کے قریب ایک وادی ہے تو مَیں نے سفیان کو لاٹھی کے سہارے چلتا ہوا دیکھا اور اس کے پیچھے پیچھے مختلف قبیلوں کے وہ لوگ تھے جو اس سے وابستہ ہو گئے تھے۔ یہ لاٹھی بڑھاپے کی وجہ سے لے کرنہیں چل رہا تھا بلکہ ا س زمانے میں رواج تھا کہ ہاتھ میں لاٹھی رکھا کرتے تھے۔ تو بہرحال عبداللہ بیان کرتے تھے کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق مجھے جو کچھ بتایا تھا اس کی وجہ سے مَیں اسے فوراً پہچان گیا کیونکہ اسے دیکھتے ہی مجھ پر ہیبت طاری ہو گئی جبکہ مَیں کبھی کسی سے نہیں ڈرتا تھا۔ چنانچہ مَیں نے دل میں کہا اللہ اور اس کے رسولؐ نے سچ کہا تھا۔
تب عصر کی نماز کا وقت تھا اس لیے مجھے ڈر ہوا کہ اگر ابھی میرا اس سے سامنا ہو گیا تو کہیں میری عصر کی نماز نہ رہ جائے۔ اس لیے مَیں نے اس حال میں نماز ادا کر لی کہ مَیں اس کی طرف چل رہا تھا اور ساتھ ہی اپنے سر سے اشارہ بھی کرتا جاتا تھا یعنی اشارے سے نماز ادا کی۔ جب مَیں اس کے پاس پہنچا تو اُس نے پوچھا تم کون ہو؟ مَیں نے کہا مَیں بنو خُزَاعہ میں سے ہوں۔ مَیں نے سنا تھا کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کے لیے لشکر اکٹھا کر رہے ہو۔ اس لیے مَیں بھی تمہارے ساتھ شامل ہونے کے واسطے آیا ہوں۔ اس نے کہا بےشک مَیں محمدؐ کے مقابلے کے لیے لشکر جمع کر رہا ہوں۔ چنانچہ میں کچھ دیر تک اس کے ساتھ چلتا رہا۔ پھر مَیں نے اس سے باتیں شروع کیں تو اس نے میری باتوں میں بہت زیادہ دلچسپی لی۔ سفیان بن خالد نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ابھی تک دراصل کوئی مجھ جیسا نہیں ملا۔اب تک ایسے ہی لوگ ملے جو جنگ کے ماہر نہیں ہیں۔ آخر جب وہ اپنے خیمہ میں پہنچ گیا اور اس کے ساتھی اِدھر اُدھر چلے گئے تو وہ مجھ سے کہنے لگا اے خزاعی بھائی! ذرا یہاں آ جاؤ۔ مَیں اس کے قریب آیا تو وہ بولا بیٹھ جاؤ۔
مَیں اس کے پاس ہی بیٹھ گیا یہاں تک کہ جب ہر طرف رات کا سناٹا چھا گیا اور لوگ سو گئے تو مَیں نے اچانک اٹھ کر اس کو قتل کر ڈالا
اور اس کا سر لے لیا۔ مَیں وہاں سے نکل کر ایک قریبی پہاڑی کے غار میں جا چھپا۔ کچھ لوگ تلاش کرتے ہوئے اس غار تک آئے مگر انہیں کچھ نہ ملا۔ اس لیے مایوس ہو کر وہ لوگ وہاں سے واپس چلے گئے۔ اس کے بعد مَیں غار سے نکل کر روانہ ہوا۔ مَیں رات کو سفر کرتا اور دن میں کہیں چھپ جاتا۔ آخر مدینہ پہنچا تو مجھے دیکھتے ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بےساختہ فرمایا: اَفْلَحَ الْوَجْہُ۔ یعنی یہ چہرہ کامیاب رہا۔ اب دیکھیں انہوں نے بڑی عاجزی سے یہ فرمایا اور بڑی دانائی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عرض کیا اور فوراً یہ فقرہ فرمایاکہ اَفْلَحَ وَجْھُکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ کا چہرہ کامیاب رہا۔ یعنی یہ ساری کامیابی آپؐ کی ہی ہے، آپؐ کی دعاؤں کی برکت سے ہی ہے۔ اس کے بعد حضرت عبداللہؓ نے ساری تفصیل بتائی اور اس باغی سردار کا سر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن انیسؓ کے آنے سے پہلے ہی سفیان بن خالد کے قتل کی خبر دے دی تھی۔
حضرت عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ اس کامیابی پر آپؐ نے خوش ہو کر ایک عصا مجھے دیا اور فرمایا یہ میرے اور تمہارے درمیان جنت میں نشانی ہو گی۔ تم جنت میں اس کے ساتھ ٹیک لگاؤ گے۔ چنانچہ اس کے بعد یہ عصا ہمیشہ عبداللہ بن اُنیسؓ کے پاس رہا۔ یہاں تک کہ جب ان کا آخری وقت آیا تو انہوں نے اپنے گھر والوں کو اس کے متعلق وصیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ عصا میرے کفن کے اندر اس طرح رکھ دینا کہ یہ میرے جسم اور کفن کے درمیان رہے۔ چنانچہ گھر والوں نے اس وصیت کی تعمیل کی۔ عبداللہ بن انیسؓ کو ذُو الْمِخْصَرَہ یعنی عصا والا بھی کہا جاتا ہے۔(سیرۃ الحلبیہ جلد3 صفحہ231-232 دارالکتب العلمیۃ بیروت)(شرح علامہ زرقانی جلد 2 صفحہ 474 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت عبداللہ بن انیسؓ مدینہ سے اٹھارہ روز باہر رہے اور ہفتہ کے روز جبکہ محرم کے سات دن باقی تھے واپس آئے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 39 دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے محرم چار ہجری میں اس مہم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’قریش کی اشتعال انگیزی اور اُحد میں مسلمانوں کی وقتی ہزیمت اب نہایت سُرعت کے ساتھ اپنے خطرناک نتائج ظاہر کر رہی تھی۔ چنانچہ انہی ایام میں جن میں بنواَسَد نے مدینہ پر چھاپہ مارنے کی تیاری کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قبیلہ بَنُولَحْیَانکے لوگ اپنے سردار سفیان بن خالد کی انگیخت پر اپنے وطن عُرَنَہمیں جو مکہ سے قریب ایک مقام تھا ایک بہت بڑا لشکر جمع کر رہے ہیں اور ان کا ارادہ مدینہ پرحملہ آور ہونے کا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نہایت موقع شناس اور مختلف قبائل عرب کی حالت اوران کے رؤساء کی طاقت واثر سے خوب واقف تھے اس خبر کے موصول ہوتے ہی سمجھ لیا کہ یہ ساری شرارت اور فتنہ انگیزی بنولحیان کے رئیس سفیان بن خالد کی ہے اور اگر اس کا وجود درمیان میں نہ رہے تو بنولحیان مدینہ پرحملہ آور ہونے کی جرأت نہیں کر سکتے
اور یہ بھی آپؐ جانتے تھے کہ سفیان کے بغیر اس قبیلہ میں فی الحال کوئی ایسا صاحب اثر شخص نہیں ہے جو اس قسم کی تحریک کا لیڈر بن سکے۔ لہٰذا یہ خیال کرتے ہوئے کہ اگر بنولحیان کے خلاف کوئی فوجی دستہ روانہ کیا گیا توغریب مسلمانوں کے واسطے موجب تکلیف ہونے کے علاوہ ممکن ہے کہ یہ طریق ملک میں زیادہ کشت وخون کا دروازہ کھول دے۔ آپؐ نے یہ تجویز فرمائی کہ کوئی ایک شخص چلا جائے اور موقعہ پاکر اس فتنہ کے بانی مبانی اوراس شرارت کی جڑ سفیان بن خالد کوقتل کر دے۔ چنانچہ آپؐ نے اس غرض سے عبداللہ بن انیس انصاری ؓکوروانہ فرمایا۔ اور چونکہ عبداللہؓ نے کبھی سفیان کودیکھا نہیں تھا اس لئے آپؐ نے خود ان کو سفیان کا سارا حلیہ وغیرہ سمجھا دیا اور آخر میں فرمایا کہ ہوشیار رہنا۔ سفیان ایک مجسم شیطان ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن اُنَیسؓ نہایت ہوشیاری کے ساتھ بنو لحیان کے کیمپ میں پہنچے (جو واقعی مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری میں بڑی سرگرمی سے مصروف تھے) اور رات کے وقت موقعہ پاکر سفیان کا خاتمہ کر دیا۔ بنولحیان کو اس کاعلم ہوا تو انہوں نے عبداللہ کا تعاقب کیا مگر وہ چھپتے چھپاتے ہوئے بچ کرنکل آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب عبداللہ بن انیسؓ آئے تو آپؐ نے ان کی شکل دیکھتے ہی پہچان لیا کہ وہ کامیاب ہو کر آئے ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا: اَفْلَحَ الْوَجْہُ۔ یہ چہرہ توبامراد نظرآتا ہے۔ عبداللہؓ نے عرض کیا اور کیا خوب عرض کیا ’’اَفْلَحَ وَجْھُکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ۔‘‘ یارسول اللہ ؐ! سب کامیابی آپؐ کی ہے۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کاعصا عبداللہ کو بطور انعام کے عطا فرمایا اور فرمایا ’’یہ عصا تمہیں جنت میں ٹیک لگانے کا کام دے گا۔‘‘ عبداللہ نے یہ مبارک عصا نہایت محبت واخلاص کے ساتھ اپنے پاس رکھا اور مرتے ہوئے وصیت کی کہ اسے ان کے ساتھ دفن کر دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوشی سے جس کا اظہار آپؐ نے عبداللہ کی بامراد واپسی پر فرمایا اوراس انعام سے جوا نہیں غیر معمولی طور پر عطا فرمایا پتہ لگتا ہے کہ آپؐ سفیان بن خالد کی فتنہ انگیزی کونہایت خطرناک خیال فرماتے تھے اوراس کے قتل کو امن عامہ کے لئے ایک موجب رحمت سمجھتے تھے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 512-513)
اسلام کے مخالف دشمنان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپؐ نے امن برباد کیا اور انسانی جانوں کا خون کروایا۔ آپؐ کی انسانی جان کی قدر کا تو یہ حال ہے کہ دشمن قبیلے کے لوگوں کی جان بچانے کے لیے یہ ایک ترکیب نکالی کہ ایک جان کو قتل کرنا بہتر ہے تا کہ ان کے باقی لوگ بچ جائیں۔ یہ انسانی ہمدردی کی معراج ہے۔ آج کل کی نام نہاد دنیا چند لوگوں کو قتل کرنے کے بہانے معصوم بچوں اور عورتوں اور بوڑھوں کا خون کر رہے ہیں اور کہتے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ تو جنگ میں ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو باقاعدہ جنگوں میں بھی یہ حکم فرماتے تھے کسی بچے، بوڑھے ، عورت اور مذہبی شخص کو جو براہ راست جنگ میں ملوث نہیں ہے قتل نہیں کرنا۔(سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب فی دعا المشرکین حدیث 2614)(مسند احمد بن حنبل جلد اوّل صفحہ 768 حدیث 2728 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پس یہ ہے اسوۂ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی تعلیم۔
اب
سَرِیَّہرَجِیع کا ذکر
کروں گاکیونکہ اس کی تفصیل لمبی ہے۔ اس لیے کچھ حصہ آج پیش کروں گا ۔اس سریہ کو اس کے امیر مَرثَد بن ابی مَرثدکی وجہ سے سریہ مَرثد بن ابی مرثدبھی کہا جاتا ہے لیکن زیادہ معروف رجیع کا نام ہی ہے۔(طبقات الکبری جلد2 صفحہ42 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
رجیع بنو ھُذَیل کا ایک چشمہ تھا جو حجاز میں واقع ہے۔ اس کا موجودہ نام وَطِیَّہ ہے جو مکہ مکرمہ سے ستر کلو میٹر کی مسافت پر شمال میں واقع ہے۔(دائرہ معارف سیرت النبی رسول اللہؐ جلد 7،صفحہ 139،138 بزم اقبال لاہور 2022ء)
یہ سریہ صفر چار ہجری کے شروع میں رجیع کی جانب پیش آیا۔(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد6صفحہ447 مطبوعہ دار السلام ریاض 1434ھ)
ابنِ اسحاقؒ اور ابنِ ہشامؒ کے مطابق یہ سریہ جنگِ اُحد کے بعد تیسرے سال میں ہوا۔ بخاری کی شرح فتح الباری اور مَوَاہِب میں لکھا ہے کہ تیسرے سال کے آخر میں یہ ہوا۔(سیرت ابن اسحاق صفحہ 371 ذکر یوم الرجیع فی سنۃ ثلاث مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)(ابن ہشام صفحہ 591 ذکر یوم الرجیع فی سنۃ ثلاث مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)(فتح الباری جلد7 صفحہ 483 باب غزوۃ الرجیع قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)(المواہب اللدنیہ جلد 1 صفحہ 416 ، یوم الرجیع، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت 2004ء)
ہمارے ریسرچ سیل نے سریہ رجیع کے ضمن میں ایک نوٹ دیا ہے اور جو اس حوالے سے توجہ طلب ہے کہ اس میں بعض تاریخوں کا فرق پڑتا ہے۔ بہرحال جو تحقیق کرنے والے ہیں ہو سکتا ہے ان کے لیے فائدہ مند ہو اس لیے مَیں یہ بھی پڑھ دیتا ہوں کہ تاریخ و سیرت کی کتب میں یہاں تک کہ بخاری میں بھی سریہ رجیع اور بئر معونہ کے واقعات آپس میں خلط ملط ہو گئے ہیں اور بعض سیرت نگاروں نے اس کی طرف توجہ بھی دلائی ہے اور اس میں ایک سہو یہ بھی ہوا ہے کہ اکثر سیرت نگار سریہ رجیع کی تاریخ صفرچار ہجری لکھتے ہیں اور اس کی تفصیل اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ حضرت خُبَیبؓ اور حضرت زیدؓ کو مکہ میں فروخت کر دیا گیا لیکن حرمت والے مہینے شروع ہونے کی وجہ سے مکہ والوں نے انہیں قید میں رکھا اور جب حرمت والے مہینے ختم ہو گئے تو ان دونوں کو قتل کر دیا۔ یہ اکثر سیرت نگار بیان کرتے ہیں لیکن جب غور کیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حرمت والے مہینے چار ہیں۔ تین مسلسل ہیں یعنی ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم جبکہ چوتھا مہینہ محرم کے پانچ ماہ بعد رجب کا ہے۔ اب جب صفر میں یہ سریہ ہوا تھا تو حرمت والے تین مہینے تو پہلے گزر چکے تھے اب صفر کے چار ماہ بعد حرمت والا چوتھا مہینہ آنا تھا اس لیے اگر یہ سریہ صفر چار ہجری کا تسلیم کیا جائے تو پھر یہ کہنا کہ حرمت والے مہینے شروع ہو چکے تھے یہ خلافِ عقل ہے اور پھر اسی طرح جب حرمت والے مہینے تھے ہی نہیں تو ان دونوں کو دیر تک قید رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ مکہ والے جو کہ ان کو جلد از جلد قتل کر کے اپنی انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنا چاہتے تھے انہیں کیا ضرورت تھی کہ خواہ مخواہ ان کو لمبا عرصہ قید رکھتے اور کھانے پینے اور حفاظت کی ذمے داری کا بوجھ اپنے سر پر لیتے۔ جو سیرت نگار اور مؤرخ یہ سریہ صفر چار ہجری میں بیان کرتے ہیں انہوں نے ان سوالوں کو نہیں اٹھایا۔ ہمارے سامنے دو میں سے ایک راستہ ہے کہ یا تو یہ کہا جائے کہ حرمت والے مہینوں کی بات اور ان دونوں کا ایک عرصہ تک قید رہنے والی بات درست نہیں یا ہم یہ کہیں کہ یہ ساری روایات تو درست ہیں کہ حرمت والے مہینے بھی شروع ہو چکے تھے اور ایک عرصہ تک قید بھی رہے البتہ اس صور ت میں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اکثر مؤرخین اور سیرت نگاروں کو اس سریہ کی تاریخ محفوظ کرنے میں سہو ہوا ہے اور ان مؤرخین کی جو بہت تھوڑے ہیں بات قابلِ ترجیح ہے کہ جو یہ بیان کرتے ہیں کہ جب ان کو مکہ میں فروخت کیا گیا تو اس وقت حرمت والے مہینے یعنی ذی قعدہ کا آغاز ہو چکا تھا۔ چنانچہ سیرت ابنِ اسحاق جو سیرت کی سب سے اوّلین کتب میں سے ایک ہے اور ابنِ ہشام ان دونوں نے سریہ رجیع کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ سریہ جنگِ اُحد کے بعد تین ہجری میں ہوا اور بخاری کے ایک مشہور اور مستند شارح ابن حجر فتح الباری میں اس حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ یہ واقعہ تین ہجری کے آخر میں ہوا اور اس کے حوالہ سے سیرت کی ایک اور مستند کتاب مواہب اللُّدُنِّیَّہنے بھی یہ لکھا ہے۔
اس لیے زیادہ درست یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سریہ تین ہجری شوال کے آخری دنوں میں ہوا اور چونکہ صفر چار ہجری میں حضرت خبیبؓ اور حضرت زید ؓکو شہید کیا گیا تھا اور جب ان کی شہادت کی خبر مدینہ پہنچی تو روایات میں یہ تاریخ آہستہ آہستہ زیادہ غالب آ گئی۔
بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے۔
اس سریہ کا پس منظر
یہ ہے۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ گذشتہ سریہ یعنی سریہ عبداللہ بن انیسؓ میں ذکر ہوا ہے کہ بنو لحیان کے سردار سفیان بن خالد کو قتل کروا دیا گیا جس کی وجہ سے یہ قبیلہ انتقام کی آگ میں بھڑک رہا تھا اور دن رات اس سوچ میں غرق رہنے لگا کہ کیا طریق ہو کہ مسلمانوں سے اس کا بدلہ لے سکیں۔ چنانچہ اس قبیلے کے کچھ لوگ قبیلہ عَضَل اور قَارَہ کے پاس آئے۔ یہ لوگ تیر اندازی میں بہت ماہر تھے۔ عَضَلقبیلہ بَنُو ہَوْنِ بنِ خُزَیمہ کی ایک شاخ تھی جو عَضَل بن دَیْش کی طرف منسوب ہوتا تھا۔ قارہ قبیلہ بھی ہون کی ایک شاخ تھی جو دیش کی طرف منسوب ہوتا تھا۔ بَنُو لَحْیَاننے ان کو کہا کہ تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ جاؤ اور ان سے درخواست کرو کہ وہ اپنے کچھ لوگ تمہارے ساتھ روانہ کریں تا کہ تمہارے قبیلہ میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام کر سکیں اور پوری امید ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ ساتھی تم لوگوں کے ساتھ روانہ کر دیں۔ اور جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تمہارے ساتھ آئیں تو ہم ان کو قریش مکہ کے ہاتھ فروخت کر دیں گے جس کے عوض ہمیں بھاری قیمت مل جائے گی اور مکہ والے ان کو قتل کر ڈالیں گے جس سے ہمارا بدلہ بھی پورا ہو جائے گا اور اس مال و دولت میں سے تم لوگوں کو بھی ہم ایک حصہ دیں گے۔ چنانچہ اس باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ عَضَل اور قَارَہ قبیلہ کے سات افراد ایک وفد کی صورت میں مدینہ آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہنے لگے کہ ہمارے قبیلہ میں اسلام کی بڑی شہرت ہے۔ لہٰذا آپ اپنے کچھ لوگ ہمارے ساتھ روانہ کر دیں جو کہ وہاں دعوت اسلام کا کام کریں۔ اسی دوران رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس افراد پر مشتمل ایک پارٹی تیار کی تھی جو مکہ کے ارد گرد جاسوسی کرتے ہوئے سارے حالات کا جائزہ لے سکے۔ اب جب یہ وفد آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس افراد کی اسی جماعت کو ان کے ساتھ روانہ فرما دیا۔(ماخوذ از سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 6 صفحہ448-449مطبوعہ دار السلام ریاض 1434ھ)
ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ سات آدمی بھیجے تھے۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6،صفحہ40، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ آپؐ نے چھ صحابہؓ ان لوگوں کے ساتھ روانہ کیے تھے۔ جبکہ ابنِ سعد نے بیان کیا ہے کہ وہ دس تھے اور ان میں سے سات کے نام بیان کیے ہیں۔(سیرت ابن ہشام صفحہ 432 دار ابن حزم بیروت)(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6،صفحہ39، دارالکتب العلمیۃ بیروت،لبنان)
صحیح بخاری میں دس افراد کا ذکر ہے۔ سیرت کی اکثر کتب میں بھی دس صحابہؓ کا ذکر ہے البتہ نام صرف سات صحابہ کے ملتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عَاصِم بن ثابِت کو اور بعض نے کہا کہ مَرثد بن ابی مَرثد غَنَوِی کو امیر بنایا۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب فضل من شھد بدراً حدیث 3989)(ماخوذازالطبقات الکبریٰ جلد2صفحہ42دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہجرت کے چوتھے سال عرب کے دو قبائل عَضَل اور قَارَۃ نے اپنے نمائندے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج کر عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اِسلام کی طرف مائل ہیں اور درخواست کی کہ کچھ آدمی جو تعلیم اِسلام سے پوری طرح سے واقف ہوں، بھیج دئیے جائیں تاکہ وہ ان کے درمیان رہ کر ان کو اِس نئے مذہب کی تعلیم دیں۔ دراصل یہ ایک سازش تھی جو اِسلام کے پکے دشمن بنولَحْیَان نے کی تھی اور ان کا مقصد یہ تھا کہ جب یہ نمائندے مسلمانوں کو لے کر آئیں گے۔‘‘ یہ نمائندے، یہ جو وفد انہوں نے بھیجا تھا یہ مسلمانوں کو لے کر جب آئیں گے ’’تو وہ ان کو قتل کر کے اپنے رئیس سفیان بن خالد کا بدلہ لیں گے۔ چنانچہ انہوں نے عَضَل اور قَارَۃ کے نمائندوں کو اِس غرض سے کہ وہ چند مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے آئیں، انعام کے بڑے بڑے وعدے دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ جب عَضَل اور قَارَۃ کے لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر درخواست کی تو آپؐ نے ان کی بات پر اعتبار کر کے دس مسلمانوں کو ان کے ساتھ کر دیا کہ ان کو اِسلام کے عقائد اور اصولوں کی تعلیم دیں۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن ،انوار العلوم جلد 20 صفحہ 260)
چنانچہ یہ لوگ گئے اور پھر آگے جو واقعات ہیں ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
آج مَیں پھر
یمن کے اسیران کے لیے خاص طور پر دعا
کے لیے کہنا چاہتا ہوں۔ خاص طور پہ ان خاتون کے لیے جو وہاں کی صدر لجنہ بھی ہیں، ان کو بڑی مشکل میں رکھا ہوا ہے، قید میں رکھا ہوا ہے اور چند ایک اَور بھی جو اُن کی بات ماننے کو تیار نہیں ان کو بھی اسیر بنایا ہوا ہے، ان کے لیے خاص دعا کریں
اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔
پاکستان کے اسیران کے لیے بھی رہائی کے لیے دعا کریں۔
فلسطین کے لوگ، ان کے لیے بھی دعا کرتے رہیں۔
وہاں بھی لگتا ہے کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں لیکن پھر خراب ہو جاتے ہیں۔ یہ جو اسرائیلی حکومت ہے، ڈھٹائی سے کام لے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے ظلم سے جلدی نجات دلوائے اور مسلمانوں کو بھی اپنا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپؐ کی انسانی جان کی قدر کا تو یہ حال ہے کہ دشمن قبیلے کے لوگوں کی جان بچانے کے لیے یہ ایک ترکیب نکالی کہ ایک جان کو قتل کرنا بہتر ہے تا کہ ان کے باقی لوگ بچ جائیں۔ یہ انسانی ہمدردی کی معراج ہے
سریہ اس کو کہتے ہیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود شریک نہیں ہوتے تھے لیکن آپؐ دوسروں کو مہم کے لیے بھیجا کرتے تھے
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ سفیان بن خالد نے مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے لشکر جمع کیا ہے تو آپؐ نے ایک منفرد حکیمانہ عسکری فیصلہ فرمایا کہ بجائے اس کے کہ ایک فوج تیار کر کے سفیان کے مقابلے کے لیے بھیجی جائے اور دونوں طرف خون بہے زیادہ مناسب معلوم ہو گا کہ حکمتِ عملی سے اس باغیانہ لشکر تیار کرنے والے بانی مبانی کو ہی ختم کر دیا جائے
حضرت عبداللہ بن اُنَیْس بیان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سفیان بن خالد کے متعلق مجھے جو کچھ بتایا تھا اس کی وجہ سے مَیں اسے فوراً پہچان گیا کیونکہ اسے دیکھتے ہی مجھ پر ہیبت طاری ہو گئی جبکہ مَیں کبھی کسی سے نہیں ڈرتا تھا۔ چنانچہ مَیں نے دل میں کہا اللہ اور اس کے رسولؐ نے سچ کہا تھا
سریہ حضرت ابو سلمہؓ، سریہ حضرت عبداللہ بن انیسؓ اور سریہ رجیع کی روشنی میں آنحضورﷺکی سیرتِ مبارکہ کا ایمان افروز تذکرہ
یمن اور پاکستان کے اسیران راہ مولیٰ اور فلسطین کے مظلومین کے لیے دعا کی تحریک
فرمودہ 10؍ مئی 2024ء بمطابق 10؍ ہجرت 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔