حضرت محمد رسول اللہﷺ: اُسوۂ حسنہ

خطبہ جمعہ 17؍ مئی 2024ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

سریۂ رجیع کا ذکر

ہو رہا تھا۔ اس کی مزید تفصیل احادیث اور تاریخ میں جو بیان ہوئی ہے وہ اس طرح ہے۔ صحیح بخاری میں واقعہ رجیع کی بابت تفصیلات اس طرح بیان ہوئی ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمی سریہ کے طور پر حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجے اور ان پر حضرت عاصم بن ثابت انصاریؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ وہ روانہ ہوئے یہاں تک کہ جب وہ ھَدَأہ میں تھے اور وہ عُسْفَان اور مکہ کے درمیان ہے تو ھُذَیل کی شاخ جنہیں بنو لَحْیَان کہتے تھے، سے ان کا ذکر کیا گیا تو اس مخالف قبیلے سے ان مسلمانوں کے لیے تقریباً دو سو آدمی نکل کھڑے ہوئے۔ وہ سب تیر انداز تھے۔ وہ لوگ مسلمانوں کے نشانوں کے پیچھے گئے یہاں تک کہ انہوں نے ان کی کھجوریں کھانے کی جگہ کو پالیا اور صحابہؓ نے یہ کھجوریں مدینہ سے زادِ راہ کے طور پر لی تھیں۔ بنو لَحْیَان نے پہچان کےکہا یہ یثرب کی کھجوریں ہیں۔ وہ ان کے نشانات کے پیچھے گئے۔ جب حضرت عاصمؓ اور ان کے ساتھیوں نے ان کو دیکھا تو انہوں نے ایک ٹیلے پر پناہ لی۔ ان لوگوں نے ان کو گھیر لیا اور انہوں نے ان سے کہا نیچے اتر آؤ یعنی مخالفین نے کہا نیچے اتر آؤ۔ تم اپنے آپ کو ہمارے سپرد کردو۔ تمہارے لیے عہد و پیمان ہے۔ ہم تم میں سے کسی کو قتل نہیں کریں گے۔

سریہ کے امیر حضرت عاصم بن ثابتؓ نے کہا: جہاں تک میرا تعلق ہے بخدا! میں ایک کافر کی پناہ میں نہیں اتروں گا۔ پھر آپؓ نے دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے متعلق اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرما دے۔

ان لوگوں نے، دشمنوں نے پھر ان لوگوں پر جو یہ صحابہؓ تھے ان پر تیر چلائے اور انہوں نے حضرت عاصم ؓکو سات صحابہ ؓسمیت قتل کر دیا۔ تین آدمی عہد و پیمان پر ان کے پاس اتر آئے۔ ان میں خُبیب انصاریؓ اور ابنِ دَثِنَہؓ اور ایک اَور شخص تھے ان کا نام عبداللہ بن طارق تھا۔ مخالفین نے تینوں کو قابو کر لیا۔ انہوں نے اپنے کمانوں کے تانت کھولے اور ان کو باندھ لیا۔ اس پر تیسرے شخص نے کہا یہ پہلی غداری ہے۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ یقیناً ان لوگوں میں اسوہ ہے۔ ان کی مراد شہداء سے تھی۔ انہوں نے اس صحابی کو کھینچا اور انہیں اس پر مجبور کیا کہ وہ ان کے ساتھ چلیں۔ انہوں نے انکار کر دیا تو انہوں نے ان کوبھی شہید کر دیا اور وہ حضرت خُبیبؓ اور حضرت ابن دَثِنَہؓکو لے گئے یہاں تک کہ ان کو مکہ میں فروخت کر دیا۔ حضرت خُبیبؓ کو بنو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد ِمَنَاف نے خرید لیا اور حضرت خُبیبؓ ہی تھے جنہوں نے حارث بن عامر کو بدر کے دن قتل کیا تھا۔ حضرت خُبیبؓ ان کے پاس قیدی رہے۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔(صحیح بخاری کتاب الجھاد والسیر باب ھل یستاسر الرجل؟ ومن لم یستاسر… حدیث 3045 )

گوبخاری کی روایت کے مطابق تو دس صحابہؓ کی یہ پارٹی جاسوسی کے لیے ہی تھی اورچھپتے چھپاتے جا رہی تھی کہ یثرب کی گٹھلیوں کو پہچان کر ایک عورت نے شور مچا دیا اور دشمن نے ان پر حملہ کر دیا لیکن زیادہ تر سیرت نگار یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ پارٹی ارد گرد کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے تیار ہی تھی۔ ابھی گئی نہیں تھی کہ اس آنے والے وفد کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پارٹی کو روانہ کر دیا۔

اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی تاریخ کی مختلف کتابوں سے جو اخذ کیا ہے اس میں یہی بیان فرمایا ہے کہ اس پارٹی کے ساتھ گئے تھے، لوگوں کے ساتھ گئے تھے اس لیے بخاری یا جن کتب سیرت میں ان کے چھپ کر سفر کرنے کا ذکر ہے وہ راویوں کا سہو معلوم ہوتا ہے کیونکہ اب اس پارٹی کو چھپنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اب تو یہ عَضَل اور قَارَہ کے لوگوں کے ساتھ جا رہے تھے۔ ہاں یہ ضرورقیاس کیا جا سکتا ہے کہ جب یہ عُسفان اور مکہ کے درمیان پہنچے ہیں تو عَضَل اور قَارَہ کے لوگوں نے جو دراصل ایک سازش کے تحت ان لوگوں کو لے کر آئے تھے یہاں پہنچ کر بدعہدی کرتے ہوئے اور پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت بنولَحْیَان کو اطلاع کر دی ہو گی اور وہ دو سو حملہ آوروں کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔ واللہ اعلم

بہرحال بنو لَحْیَان کے دو سو لوگ جن میں ایک سو ماہر تیر انداز تھے وہ حملہ آور ہوئے اور انہوں نے صحابہ ؓکو گھیر لیا۔ جب امیر لشکر حضرت عاصمؓ اور ان کے ساتھیوں کو ان لوگوں کے بارے میں علم ہوا تو وہ لوگ ایک فَدْ فَدْ نامی پہاڑی پر چڑھ گئے۔ ایک روایت میں اس کا نام قَردَدْ بیان ہوا ہے۔ مشرکین نے صحابہ ؓکو گھیر لیا اور کہنے لگے کہ اگر تم ہماری طرف نیچے اتر آؤ تو ہم تم سے عہد و پیمان کرتے ہیں ہم کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے۔ اللہ کی قسم! یقیناً ہم تمہیں قتل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ بس ہمارا صرف یہ ارادہ ہے کہ مکہ والوں سے تمہاری وجہ سے کچھ حاصل کریں۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6،صفحہ40، دارالکتب العلمیۃ بیروت،لبنان)

اس پر

حضرت عاصمؓ نے کہا کہ خدا کی قسم! میں کسی کافر کی پناہ لینے کے لیے نہیں اتروں گا۔ مَیں نے نذر مان رکھی ہے کہ زندگی بھر کسی مشرک کی پناہ قبول نہیں کروں گا۔

ان کے دوسرے دونوں ساتھیوں کا جواب بھی یہی تھا کہ ہم ہرگز مشرک کا عہد و پیمان قبول نہیں کریں گے۔ اس موقع پر حضرت عاصمؓ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ ’’اَللّٰہُمَّ اَخْبِرْعَنَّا نَبِیَّکَ‘‘۔ اے خدا! اپنے نبی ؐکو تُو ہمارے حالات سے باخبر کردے۔ بہرحال پھر دونوں کی باقاعدہ لڑائی شروع ہو گئی۔(ماخوذاز سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد6صفحہ453مطبوعہ دار السلام ریاض 1434ھ)

لشکر کے امیر حضرت عاصمؓ اپنی جوانمردی اور بہادری کے جوہر دکھا رہے تھے اور ساتھ ساتھ یہ اشعار پڑھ رہے تھے جن کا ترجمہ یہ ہے کہ میں کس وجہ سے ہتھیار ڈالوں؟ حالانکہ میں بہادر اور ماہر تیرانداز ہوں اور میری کمان میں بڑی مضبوط تانت لگی ہوئی ہے۔ اس کمان کے پہلو سے لمبے چوڑے تیز دھار تیر تیزی سے نکلتے ہیں۔ موت برحق ہے اور زندگی کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مقدر کر دیا ہے وہ آدمی پر نازل ہو کر رہے گا۔ انسان کو اللہ ہی کی طرف لَوٹ کر جانا ہے۔ اگر میں تم سے نہ لڑوں تو میری ماں مجھے گم پائے۔ یہ ان شعروں کا ترجمہ ہے۔

تمام صحابہ کرامؓ بڑی بہادری اور دلیری سے دشمن کے سامنے ڈٹ گئے، ان کا مقابلہ کرتے رہے۔

حضرت عاصمؓ دشمنوں پر تیر برسانے لگے حتی کہ سارے تیر ختم ہو گئے۔ پھر نیزہ تھام کر مقابلہ کرتے رہے۔ نیزہ بھی ٹوٹ گیا اور صرف تلوار باقی رہ گئی۔ جب انہیں اپنی شہادت کا یقین ہو گیا تو اپنے ستر کے متعلق خطرہ لاحق ہوا کیونکہ دشمن جسے شہید کرتے تھے اس کی لاش کو روندتے اور برہنہ کر دیتے تھے۔ اس وقت انہوں نے اپنے خدا سے یوں التجا کی۔

اَللّٰهُمَّ حَمَيْتُ دِيْنَكَ أَوَّلَ نَهَارِيْ فَاحْمِ لِيْ لَحْمِیْ آخِرَهٗ کہ اے اللہ! میں نے دن کے شروع سے تیرے دین کی حفاظت کی ہے۔ اب دن کے آخر میں میرے جسم کی حفاظت تُو فرمانا۔

یہ دعا کر کے پھر لڑائی میں مشغول ہو گئے۔ تلوار کے دستے سے بھی دو آدمیوں کو شدید زخمی اور ایک آدمی کو قتل کر دیا۔ پھر پیغامِ اجل آ پہنچا اور جامِ شہادت نوش فرما گئے اور یوں اپنے باقی چھ ساتھیوں سمیت شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو گئے۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد7صفحہ140 مطبوعہ بزم اقبال لاہور 2022ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ صفر سنہ4 ہجری میں اپنے دس صحابیوں کی ایک پارٹی تیار کی اور ان پر عاصم بن ثابتؓ کو امیر مقرر فرمایا اور ان کویہ حکم دیا کہ وہ خفیہ خفیہ مکہ کے قریب جاکر قریش کے حالات دریافت کریں اور ان کی کارروائیوں اور ارادوں سے آپؐ کو اطلاع دیں۔ لیکن ابھی یہ پارٹی روانہ نہیں ہوئی تھی کہ قبائل عَضَل اور قَارَہ کے چند لوگ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اسلام کی طرف مائل ہیں۔ آپؐ چند آدمی ہمارے ساتھ روانہ فرمائیں جو ہمیں مسلمان بنائیں اور اسلام کی تعلیم دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی یہ خواہش معلوم کرکے خوش ہوئے اور وہی پارٹی جو خبررسانی کے لیے تیار کی گئی تھی ان کے ساتھ روانہ فرما دی۔ لیکن دراصل جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا یہ لوگ جھوٹے تھے اور بنولَحْیَان کی انگیخت پر مدینہ میں آئے تھے جنہوں نے اپنے رئیس سفیان بن خالد کے قتل کابدلہ لینے کے لیے یہ چال چلی تھی کہ اس بہانہ سے مسلمان مدینہ سے نکلیں تو ان پر حملہ کردیا جاوے اور بنو لَحْیَان نے اس خدمت کے معاوضہ میں عَضَل اور قَارَہ کے لوگوں کے لیے بہت سے اونٹ انعام کے طور پر مقرر کئے تھے۔

جب عَضَل اور قَارَہ کے یہ غدار لوگ عُسْفَان اور مکہ کے درمیان پہنچے تو انہوں نے بنولَحْیَان کو خفیہ خفیہ اطلاع بھجوا دی کہ مسلمان ہمارے ساتھ آرہے ہیں تم آ جاؤ۔ جس پر قبیلہ بنو لَحْیَان کے دوسو نوجوان جن میں سے ایک سو تیر انداز تھے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور مقام رجیع میں ان کو آ دبایا۔

دس آدمی دو سو سپاہیوں کاکیا مقابلہ کرسکتے تھے، لیکن مسلمانوں کو ہتھیار ڈالنے کی تعلیم نہیں دی گئی تھی۔ فوراً یہ صحابی ایک قریب کے ٹیلہ پر چڑھ کرمقابلہ کے واسطے تیار ہو گئے۔ کفار نے جن کے نزدیک دھوکا دینا کوئی معیوب فعل نہیں تھا ان کو آواز دی کہ تم پہاڑی پرسے نیچے اتر آؤ ہم تم سے پختہ عہد کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ عاصم نے جواب دیا کہ ’’ہمیں تمہارے عہدوپیمان کاکوئی اعتبار نہیں ہے ہم تمہاری اس ذمہ داری پر نہیں اتر سکتے۔‘‘ اور پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا۔ ’’اے خدا! تُو ہماری حالت کو دیکھ رہا ہے۔ اپنے رسولؐ کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے۔‘‘ غرض عاصم اوراس کے ساتھیوں نے مقابلہ کیا۔ بالآخر لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 513-514)

حضرت عاصم بن ثابتؓ کی نعش کی خدائی حفاظت

کس طرح ہوئی؟ جو پہلے انہوں نے دعا کی تھی ناں کہ اللہ تعالیٰ میری نعش کی حفاظت کر۔ اس بارہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ مزید لکھتے ہیں کہ’’اسی واقعہ رجیع کے ضمن میں یہ روایت بھی آتی ہے کہ جب قریش مکہ کو یہ اطلاع ملی کہ جولوگ بنولَحْیَان کے ہاتھ سے رجیع میں شہید ہوئے تھے ان میں عاصم بن ثابتؓ بھی تھے۔ تو چونکہ عاصم نے بدر کے موقعہ پرقریش کے ایک بڑے رئیس کوقتل کیا تھا، اس لئے انہوں نے رجیع کی طرف خاص آدمی روانہ کئے اور ان آدمیوں کو تاکید کی کہ عاصم کا سر یا جسم کاکوئی عضو کاٹ کر اپنے ساتھ لائیں تاکہ انہیں تسلی ہو اور ان کا جذبہ انتقام تسکین پائے۔ ایک اَور روایت میں آتا ہے کہ جس شخص کوعاصم نے قتل کیا تھا اس کی ماں‘‘ سُلَافَہ بنتِ سَعْد ’’نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتل کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پئے گی‘‘ اور اس نے یہ انعام مقرر کیا تھا کہ جو اس کی کھوپڑی لائے گا اس کو سو اونٹ دئیے جائیں گے۔ اتنی زیادہ ان میں انتقام کی اور غضب کی آگ تھی ’’لیکن خدائی تصرف ایسا ہوا کہ یہ لوگ وہاں پہنچے توکیا دیکھتے ہیں کہ زنبوروں اورشہد کی نرمکھیوں کے جھنڈ کے جھنڈ عاصم کی لاش پر ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں اورکسی طرح وہاں سے اٹھنے میں نہیں آتے۔ ان لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ یہ زنبور اورمکھیاں وہاں سے اڑ جائیں مگر کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ آخرمجبور ہوکر یہ لوگ خائب وخاسر واپس لوٹ گئے۔ اس کے بعد جلد ہی بارش کاایک طوفان آیا اور عاصم کی لاش کووہاں سے بہا کر کہیں کا کہیں لے گیا۔ لکھا ہے کہ عاصم نے مسلمان ہونے پر یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ وہ ہرقسم کی مشرکانہ چیز سے قطعی پرہیز کریں گے حتّٰی کہ مشرک کے ساتھ چھوئیں گے بھی نہیں۔ حضرت عمرؓ کو جب ان کی شہادت اور اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو حضرت عمر ؓکہنے لگےکہ خدا بھی اپنے بندوں کے جذبات کی کتنی پاسداری فرماتا ہے۔ موت کے بعد بھی اس نے عاصم کے عہد کو پورا کروایا اور مشرکین کے مس سے انہیں محفوظ رکھا۔‘‘(ماخوذ سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 516)(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ352 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)(المواہب اللدنیہ جلد اوّل صفحہ 424 مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت 2004ء)

حضرت عاصم ؓکو حَمِیُّ الدَّبْرِ بھی کہا جاتا ہے یعنی وہ جسے بھڑوں یا شہد کی مکھیوں کے ذریعہ بچایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد بھڑوں کے ذریعہ ان کی حفاظت کی۔

پھر

حضرت مُعَتِّبْ بنِ عُبَیدؓاور دوسرے مظلوموں کی شہادت کا ذکر

ہے۔ حضرت مُعَتِّّب بن عُبَیدؓلڑتے لڑتے شدید زخمی ہو گئے۔ دشمنوں نے ان تک رسائی حاصل کر کے انہیں شہید کر دیا۔ ان کے علاوہ پانچ اَور صحابہ ؓبھی اسی طرح مردانہ وار لڑتے لڑتے دشمن کے تیروں کی زد میں آ کر شہید ہو گئے۔ اس طرح کل سات صحابہ ؓشہید ہو گئے۔ اب صرف تین صحابہؓ رہ گئے تھے حضرت خُبیب بن عَدِیؓ، حضرت زَید بن دَثِنَہؓاور حضرت عبداللہ بن طارق ؓ۔(الاصابہ جلد 3 صفحہ 461 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد6صفحہ454مطبوعہ دار السلام ریاض 1434ھ)

دشمنوں نے ان تینوں صحابہ سے عہد و پیمان کیا کہ ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے اور تمہیں امان دیتے ہیں۔ تم اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو۔ اس پر وہ صحابہ پہاڑی پر سے ان کی طرف اتر آئے۔ جب مخالفین نے ان صحابہؓ پر قابو پا لیا تو انہوں نے اپنی کمانوں کی یعنی مخالفین نے اپنی کمانوں کی تانتوں کو کھولا اور صحابہ کو ان سے باندھ دیا۔ اس پر حضرت عبداللہ بن طارق ؓنے کہا یہ پہلی بدعہدی ہے۔ اللہ کی قَسم! میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ ان شہید ہونے والوں کی اقتدا ہی مجھے پسند ہے۔ مخالفین نے زبردستی ان کو کھینچناچاہا بہت کوشش کی کہ ساتھ چلیں لیکن عبداللہ بن طارق نے ایسا نہ کیا تو انہوں نے عبداللہ کو بھی شہید کر دیا۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6،صفحہ41، دارالکتب العلمیۃ بیروت،لبنان)

بعض روایات کے مطابق مخالفین ان تینوں اصحاب کو قیدی بنا کر مکہ کی جانب رواں دواں تھے۔ وہ انہیں مکہ والوں کے ہاتھ بیچنا چاہتے تھے۔ جب یہ قافلہ مکہ مکرمہ سے بائیس کلو میٹر دُور شمال کی جانب واقع مَرُّالظَّہْرَانکے مقام پر پہنچا تو حضرت عبداللہ بن طارق ؓنے اپنے ہاتھ کھول لیے اور تلوار سونت کر مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہو گئے۔ جب دشمنوں نے ایسا جذبہ جہاد دیکھا تو فوراً پیچھے ہٹ گئے اور سنگباری کرنے لگے حتی کہ حضرت عبداللہ بن طارق کو شہید کر دیا۔ ان کی قبر مَرُّالظَّہْرَانہی میں ہے۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺجلد7،صفحہ141مطبوعہ بزم اقبال لاہور 2022ء)

اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’جب سات صحابہؓ مارے گئے اورصرف خُبَیب بن عَدِی اور زید بنِ دَثِنہاور ایک اَور صحابی باقی رہ گئے توکفار نے جن کی اصل خواہش ان لوگوں کوزندہ پکڑنے کی تھی پھر آواز دے کر کہا کہ اب بھی نیچے اتر آؤ۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔ اب کی دفعہ یہ سادہ لوح مسلمان ان کے پھندے میں آکر نیچے اتر آئے، مگر نیچے اترتے ہی کفار نے ان کواپنی تیر کمانوں کی تندیوں سے جکڑ کر باندھ لیا۔ اس پر خُبیب اور زید کے ساتھی سے جن کا نام تاریخ میں عبداللہ بن طارق مذکور ہوا صبر نہ ہو سکا اور انہوں نے پکار کر کہا۔ ’’یہ تمہاری پہلی بدعہدی ہے‘‘ اور نہ معلوم تم آگے چل کر کیا کرو گے! اور عبداللہ نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔ جس پر کفار تھوڑی دُور تک تو عبداللہ کوگھسیٹتے ہوئے اور زدوکوب کرتے ہوئے لے گئے اور پھر انہیں قتل کر کے وہیں پھینک دیا اور چونکہ اب ان کا انتقام پورا ہو چکا تھا۔ وہ قریش کو خوش کرنے کے لئے نیز روپے کی لالچ سے خُبَیب اورزید کوساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر انہیں قریش کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ چنانچہ

خُبیب کوتو حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے خرید لیا کیونکہ خُبیب نے بدر کی جنگ میں حارث کو قتل کیا تھا۔ اورزید کو صفوان بن امیہ نے خریدلیا۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 514)

حضرت خُبَیب بن عَدِیؓ اور حضرت زید بن دَثِنَہؓکو مشرکین نے قید کر لیا اور انہیں مکہ ساتھ لے گئے۔ مکہ پہنچ کر ان دونوں صحابہ کو فروخت کر دیا گیا۔ حارث بن عامر کے بیٹوں نے جیساکہ پہلے بیان ہوا ہے حضرت خُبیبؓ کو خریدا تھا تاکہ وہ اپنے باپ حارث کے قتل کا بدلہ لے سکیں جسے بدر کے روز خُبیب نے قتل کیا تھا۔ ابنِ اسحاق کے مطابق حُجَیر بن اَبُو اِھَاب تَمِیْمی نے حضرت خُبَیبؓ کو خریدا تھا جو حارث کی اولاد کا حلیف تھا۔ اس سے حارث کے بیٹے عُقبہ نے حضرت خُبَیبؓ کو خریدا تھا تاکہ اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لے سکے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عقبہ بن حارث نے حضرت خُبیبؓ کو بنونجار سے خریدا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابو اِھَاب، عِکْرِمَہبن ابو جہل، اَخْنَس بن شُرَیق، عُبَیدہ بن حکیم، امیہ بن ابو عُتْبہ حَضْرَمِی کے بیٹوں نے اور صَفْوَان بن اُمَیَّہ نے مل کر حضرت خُبیبؓ کو خریدا تھا۔ یہ سب وہ افراد تھے جن کے آباء غزوۂ بدر میں قتل کیے گئے تھے۔ ان سب نے حضرت خُبیبؓ کو خرید کر عُقْبہ بن حارِث کو دے دیا تھا جس نے انہیں اپنے گھر میں قید کر لیا۔(الاستیعاب جزء2 صفحہ442،440 دار الجیل بیروت 1992ء)

ابن ہشام کہتے ہیں کہ انہوں نے ان دونوں یعنی حضرت خُبَیبؓ اور حضرت زید بن دَثِنَؓہ کو ھُذَیل کے ان قیدیوں کے بدلہ میں بیچا جو مکہ میں تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت زیدؓکو سونے کے ایک مثقال کے بدلے میں بیچا گیا اور ایک قول کے مطابق پچاس اونٹوں کے بدلہ میں وہ بیچے گئے اور حضرت خُبیب کو بھی پچاس اونٹوں کے بدلہ میں بیچا گیا۔ بعض روایات کے مطابق حضرت خُبیبؓ کو سو اونٹوں کے بدلہ میں اور ایک روایت کے مطابق انہیں اسّی مثقال سونے کے عوض فروخت کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان میںچند لوگ قریش کے شریک ہوئے اور وہ ان دونوں یعنی حضرت خُبیبؓ اور زید بن دَثِنَہؓکو لے کر حرمت والے مہینے ذوالقعدہ میں داخل ہوئے اور ان کو قید میں رکھا یہاں تک کہ حرمت والے مہینے گزر گئے۔(امتاع الاسماع جزء 13 صفحہ 275 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)( دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ﷺ،جلد 7صفحہ 142مطبوعہ بزم اقبال لاہور 2022ء)(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6،صفحہ41، دارالکتب العلمیۃ بیروت)

گذشتہ خطبہ میں مَیں حرمت والے مہینوں کے بارے میں تفصیل سے بحث بیان کر چکا ہوں۔ ابنِ اسحاق اور ابنِ سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت زیدؓ کو صَفْوَان بن امیہ نے خریدا تھا تا کہ اپنے باپ امیہ بن خَلَف کے بدلے قتل کرے۔ صَفْوَان بعد میں مسلمان ہو گیا تھا۔ اس نے ان کو بنو جُمَح کے لوگوں کے پاس قید کر رکھا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اپنے غلام نِسْطَاس کے پاس رکھا۔ پس جب حرمت والے مہینے ختم ہو گئے تو صفوان نے اپنے غلام نِسْطَاس کو تنعیم کی طرف بھیجا۔ تنعیم مکہ سے مدینہ اور شام کی سمت میں تین یا چار میل پر ایک مقام ہے۔ بہرحال ان کو حرم سے نکالا تا کہ ان کو قتل کریں اور قریش کی جماعت بھی جمع ہو گئی۔ ان میں ابوسفیان بن حَرْب بھی تھا۔ جس وقت ان کو قتل کرنے کے لیے لایا گیا تو ابوسفیان نے ان سے کہا اے زید! میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا تُو یہ پسند کرتا ہے کہ تیری جگہ اس وقت ہمارے پاس محمد ہوں اور ہم اس کی گردن مار دیں اور تُو اپنے اہل و عیال میں رہے؟ حضرت زیدؓ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اتنا بھی پسند نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت جس مکان میں ہیں وہاں ان کو کانٹا بھی چبھے جو اُن کو تکلیف دے اور میں اپنے اہل و عیال میں رہوں۔ اس پر

ابوسفیان نے کہا مَیں نے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ کسی سے ایسی محبت کرتاہو جیسے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے محبت کرتے ہیں۔

پھر حضرت زید ؓکو نِسْطَاس نے قتل کردیا۔ ایک روایت کے مطابق اس کے ساتھ قریش کے کچھ دیگر لوگوں نے مل کر ان کو تیر مارنا شروع کیے یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے۔ بعد میں یہ نِسْطَاس جو قاتل تھا یہ بھی مسلمان ہو گیا تھا۔

ابنِ عُقْبَہ نے ذکر کیا ہے کہ زید اور خُبیب دونوں ایک ہی دن شہید کیے گئے تھے۔

جس دن دونوں شہید کیے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا گیا کہ آپؐ فرما رہے تھے کہوَعَلَیْکُمَا السَّلَام اور تم دونوں پر بھی سلامتی ہو۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6،صفحہ42، دارالکتب العلمیۃ بیروت)(شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 493 بعث الرجیع مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)(فرہنگ سیرت صفحہ77 مطبوعہ زوار اکیڈمی کراچی)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’صفوان بن امیہ اپنے قیدی زید بن دثنہ کو ساتھ لے کر حرم سے باہر گیا۔ رؤساء قریش کا ایک مجمع ساتھ تھا۔ باہر پہنچ کرصفوان نے اپنے غلام نسطاس کو حکم دیا کہ زید کو قتل کردو۔ نسطاس نے آگے بڑھ کر تلوار اٹھائی۔ اس وقت ابوسفیان بن حرب رئیس مکہ نے جو تماشائیوں میں موجود تھا آگے بڑھ کر زید سے کہا۔ ’’سچ کہو کیا تمہارا دل یہ نہیں چاہتا کہ اس وقت تمہاری جگہ ہمارے ہاتھوں میں محمدؐ ہوتا جسے ہم قتل کرتے اورتم بچ جاتے اوراپنے اہل وعیال میں خوشی کے دن گزارتے؟‘‘

زیدؓ کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور وہ غصہ میں بولے۔ ’’ابوسفیان! تم یہ کیا کہتے ہو؟ خدا کی قسم! میں تو یہ بھی نہیں پسند کرتا کہ میرے بچنے کے عوض رسول اللہؐ کے پاؤں میں ایک کانٹا تک چبھے۔‘‘

ابوسفیان بے اختیار ہوکر بولا۔

’’واللہ! میں نے کسی شخص کو کسی شخص کے ساتھ ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی کہ اصحاب محمدؐ کو محمدؐ سے ہے۔‘‘

اس کے بعد نِسطاس نے زید کو شہید کردیا۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ516)

اس قتل کے واقعہ کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں:’’اِس تماشہ کو دیکھنے والوں میں ابوسفیان رئیس مکہ بھی تھا۔ وہ زید کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ محمدؐ تمہاری جگہ پر ہواور تم اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہو؟ زیدؓ نے بڑے غصہ سے جواب دیا کہ ابوسفیان! تم کیا کہتے ہو؟ خدا کی قسم! میرے لیے مرنا اِس سے بہتر ہے کہ آنحضرتﷺ کے پاؤں کو مدینہ کی گلیوں میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔ اِس فدائیت سے ابوسفیان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اس نے حیرت سے زید کی طرف دیکھا اور فوراً ہی دبی زبان میں کہاکہ خدا گواہ ہے کہ جس طرح محمدؐ کے ساتھ محمدؐ کے ساتھی محبت کرتے ہیں میں نے نہیں دیکھاکہ کوئی اَور شخص کسی سے محبت کرتا ہو۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20صفحہ262-263)

ایک سیرت نگار حضرت خُبیبؓ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ حضرت خُبیبؓ حُجَیر بن ابواِھَاب کی تحویل میں تھے اور حارث بن نوفل کے بیٹوں کے گھر میں رہ رہے تھے۔ انہوں نے حضرت خُبیبؓ کے ساتھ جارحانہ سلوک کیا۔ ان کے اس ناروا سلوک کو دیکھ کر حضرت خُبیبؓ نے کہا کوئی معزز قوم اپنے قیدی سے اس طرح کا رویہ نہیں رکھتی۔ بہرحال کافروں کے دل پر اس کا بہت اثر ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے ان سے اچھا سلوک کرنا شروع کر دیا۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد7صفحہ 144 مطبوعہ بزم اقبال لاہور 2022ء)

ابنِ شہاب کہتے تھے کہ عبیداللہ بن عِیاض نے مجھے بتایا کہ حارث کی بیٹی نے ان سے ذکر کیا کہ جب کافروں نے اتفاق کر لیا کہ انہیں مار ڈالیں تو خُبیب نے ان سے استرا مانگا کہ اسے استعمال کریں۔ چنانچہ اس نے انہیں استرا دے دیا۔ حارث کی بیٹی کہتی ہے کہ اس وقت میری بے خبری کی حالت میں میرا ایک بچہ خُبیب کے پاس آیا اور انہوں نے اس کو لے لیا۔ اس نے کہا میں نے خُبیب کو دیکھا کہ وہ بچے کو اپنی ران پر بٹھائے ہوئے ہے اور استرا اس کے ہاتھ میں ہے۔ میں یہ دیکھ کر اتنا گھبرائی کہ خُبیب نے گھبراہٹ کو میرے چہرے سے پہچان لیا اور بولے۔ تم ڈرتی ہو کہ میں اسے مار ڈالوں گا؟ میں تو ایسا نہیں ہوں کہ یہ کروں۔ مسلمان وعدے کی پابندی کرتے ہیں اور ظلم نہیں کرتے۔

حارث کی بیٹی کہا کرتی تھی کہ بخدا ! میں نے کبھی ایسا قیدی نہیں دیکھا جو خُبیب سے بہتر ہو اور پھر کہنے لگی کہ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن ان کودیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اسے کھا رہے ہیں اور وہ زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے اور ان دنوں مکہ میں کوئی پھل بھی نہ تھا۔ کہتی تھیں یہ اللہ کی طرف سے رزق تھا جو اس نے خُبیب کو دیا۔

جب قریش انہیں حرم سے باہر لے گئے کہ ایسی جگہ قتل کریں جو حرم نہیں ہے تو خُبیب نے ان سے کہا مجھے اجازت دو کہ میں دو رکعت نماز پڑھ لوں۔ انہوں نے ان کو اجازت دے دی۔ انہوں نے دو رکعت پڑھی اور کہنے لگے۔ اگر تم یہ خیال کرتے کہ میں اس وقت جس حالت میں نماز میں ہوں یہ گھبراہٹ کا نتیجہ ہے تو میں ضرور یہ نماز لمبی پڑھتا۔ یعنی اگر تمہیں وہم ہوتا میرا کہ میں شاید بچنے کے لیے لمبی نماز پڑھ رہا ہوں تو میں ضرور یہ نماز لمبی پڑھتا۔ میں نے تو اس لیے نماز لمبی نہیں پڑھی، چھوٹی پڑھی ہے کہ تمہیں یہ وہم نہ ہو جائے کہ میں نے شاید موت سے بچنے کے لیے گھبراہٹ میں نماز لمبی پڑھی ہے۔ اگر میرے دل میں یہ خیال نہ آتا کہ تمہارے دل میں کبھی یہ خیال آجائے کہ شاید میں اس لیے لمبی پڑھ رہا ہوں اور تم نارمل مجھے دیکھتے تو میں شاید نماز لمبی پڑھتا۔ بہرحال پھر انہوں نے اپنے خدا سے دعا مانگی اور یہ کہا کہ اے اللہ! ان کو ایک ایک کر کے ہلاک کر دے یعنی دشمنوں کو۔ دشمنوں کے خلاف دعا کی۔ حضرت خُبیب نے یہ شعر بھی پڑھے کہ

وَلَسْتُ اُبَالِی حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا

عَلَی اَیِّ شِقٍّ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ

وَ ذٰلِکَ فِی ذَاتِ الْاِلٰہِ وَ اِنْ یَّشَأْ

یُبَارِک عَلٰی اَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ

جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں مارا جا رہا ہوں تو مجھے پرواہ نہیں کہ کس کروٹ اللہ کی خاطر گروں گا اور میرا یہ گرنا اللہ کی ذات کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے تو ٹکڑے کئے ہوئے جسم کے جوڑوں کو برکت دے سکتا ہے۔(صحیح بخاری کتاب الجھاد والسیر باب ھل یستاسر الرجل و من لم یستاسر… حدیث 3045)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے خُبیب کی قید کے حالات کا واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’ابھی یہ دونوں صحابی قریش کے پاس غلامی کی حالت میں قید تھے کہ ایک دن خُبیب نے حارث کی لڑکی سے اپنی ضرورت کے لئے ایک استرا مانگا اوراس نے دے دیا۔ جب یہ استرا خُبیب کے ہاتھ میں تھا تو بنتِ حارث کاایک خورد سالہ بچہ کھیلتا ہوا خُبیب کے پاس آگیا اور خُبیب نے اسے اپنی ران پر بٹھا لیا۔ ماں نے جب دیکھا کہ خُبیب کے ہاتھ میں استرا ہے اور ران پراس کا بچہ بیٹھا ہے تو وہ کانپ اٹھی اور اس کے چہرہ کا رنگ فق ہو گیا۔ خُبیب نے اسے دیکھا تواس کے خوف کو سمجھتے ہوئے کہا

’’کیا تم یہ خیال کرتی ہو کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا؟ یہ خیال نہ کرو۔ میں ان شاء اللہ ایسا نہیں کروں گا۔‘‘

ماں کا کملایا ہوا چہرہ خُبیب کے ان الفاظ سے شگفتہ ہو گیا۔ یہ عورت خُبیب کے اعلیٰ اخلاق سے اس قدرمتاثر تھی کہ وہ بعد میں ہمیشہ کہا کرتی کہ ’’میں نے خُبیب کا سا اچھا قیدی کوئی نہیں دیکھا۔‘‘ وہ یہ بھی کہا کرتی تھی کہ ’’میں نے ایک دفعہ خُبیب کے ہاتھ میں ایک انگور کا خوشہ دیکھا تھا جس سے وہ انگور کے دانے توڑ توڑ کرکھاتا تھا۔ حالانکہ ان دنوں میں مکہ میں انگوروں کانام ونشان نہیں تھا اور خُبیب آہنی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں سمجھتی ہوں کہ یہ خدائی رزق تھا جو خُبیب کے پاس آتا تھا۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ514۔515)

ایک اَور روایت میں حضرت خُبیب بن عدیؓ کی قید کے واقعہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ مَاوِیَّہ، حُجیر بن ابو اِھَاب کی آزاد کردہ لونڈی تھی۔ مکہ میں انہی کے گھر میں حضرت خُبیب بن عدیؓ قید تھے تا کہ حرمت والے مہینے ختم ہوں تو انہیں قتل کیا جا سکے۔ مَاوِیَّہ نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا اور وہ اچھی مسلمان ثابت ہوئیں۔ مَاوِیَّہ بعد میں یہ قصہ بیان کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! میں نے حضرت خُبیبؓ سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا۔ میں انہیں دروازے کی درز سے دیکھا کرتی تھی اور وہ زنجیر میں بندھے ہوتے تھے اور میرے علم میں رُوئے زمین پر کھانے کے لیے انگوروں کا ایک دانہ بھی نہ تھا یعنی کہ اس علاقے میں کوئی دانہ نہیں تھا۔ اس علاقے میں کوئی انگور نہیں تھا لیکن حضرت خُبیبؓ کے ہاتھ میں آدمی کے سر کے برابر انگوروں کا گچھا ہوتا تھا یعنی کافی بڑا گچھا ہوتا تھا۔ یہ ایک آدھ دفعہ کا واقعہ نہیں۔ اس کے مطابق تو کئی دفعہ اس نے یہ دیکھا ہے جس میں سے وہ کھاتے تھے۔ وہ اللہ کے رزق کے سوا اَور کچھ نہ تھا۔

حضرت خُبیبؓ تہجد میں قرآن پڑھتے اور عورتیں وہ سن کر رو دیتیں اور انہیں حضرت خُبیبؓ پر رحم آتا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ایک دن میں نے حضرت خُبیبؓ سے پوچھا کہ اے خُبیب! کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا نہیں۔ ہاں ایک بات ہے کہ مجھے ٹھنڈا پانی پلا دو اور مجھے بتوں کے نام پر ذبح کیے جانے والے سے گوشت کبھی نہ دینا ۔ جو کھانا تم لوگ دیتے ہو کبھی وہ کھانا نہ دینا جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور تیسری بات یہ کہ جب لوگ میرے قتل کا ارادہ کریں تو مجھے بتا دینا۔ پھر جب حرمت والے مہینے گزر گئے اور لوگوں نے حضرت خُبیبؓ کے قتل پر اتفاق کر لیا تو کہتی ہیں کہ میں نے ان کے پاس جا کر انہیں یہ خبر دی۔ کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم! انہوں نے اپنے قتل کیے جانے کی کوئی پروا نہیں کی۔ انہوں نے مجھ سے کہا میرے پاس استرا بھیج دو تا کہ میں اپنے آپ کو درست کر لوں۔ وہ بتاتی ہیں کہ میں نے اپنے بیٹے ابوحسین کے ہاتھ استرا بھیجا۔ راو ی کہتے ہیں کہ وہ ان کا حقیقی بیٹا نہ تھا بلکہ مَاوِیَّہ نے اس کی صرف پرورش کی تھی۔ بہرحال جب بچہ چلا گیا تو کہتی ہے کہ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اللہ کی قسم! خُبیب نے اپنا انتقام پا لیا۔ اب میرا بیٹا اس کے پاس ہے۔ استرا اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ تو انتقام لے لے گا۔ یہ میں نے کیا کر دیا! میں نے اس بچے کے ہاتھ استرا بھیج دیا۔ خُبیب اس بچے کو استرے سے قتل کر دے گا اور پھر کہے گا کہ مرد کے بدلے مرد۔ میں نے تو بدلہ لے لیا۔ پھر جب میرا بیٹا ان کے پاس استرا لے کر پہنچا تو انہوں نے وہ لیتے ہوئے مزاحاً اس بچے کو کہا کہ تُو بڑا بہادر ہے۔ کیا تمہاری ماں کو میری غداری کا خوف نہیں آیا؟ اور تمہارے ہاتھ میں میرے پاس استرا بھجوا دیا جبکہ تم لوگ میرے قتل کا ارادہ بھی کر چکے ہو۔ حضرت مَاوِیَّہ بیان کرتی ہیں کہ خُبیب کی یہ باتیں میں سن رہی تھی۔ میں نے کہا اے خُبیب! میں اللہ کی امان کی وجہ سے تم سے بے خوف رہی اور میں نے تمہارے معبودپر بھروسہ کر کے اس بچے کے ہاتھ تمہارے پاس استرا بھجوا دیا۔ میں نے وہ اس لیے نہیں بھجوایا کہ تم اس سے میرے بیٹے کو قتل کر ڈالو۔ حضرت خُبیبؓ نے کہا کہ میں ایسا نہیں ہوں کہ اس کو قتل کروں۔ ہم اپنے دین میں غداری جائز نہیں سمجھتے۔ وہ بتاتی ہیں کہ پھر میں نے خُبیب کو خبر دی کہ لوگ کل صبح تمہیں یہاں سے نکال کر قتل کرنے والے ہیں۔ پھر یہ ہوا کہ اگلے دن لوگ انہیں زنجیروں میں جکڑے ہوئے تنعیم لے گئے اور جیسا کہ بتایا ہے کہ یہ مکہ کے قریب تین میل کے فاصلہ پر جگہ تھی۔ خُبیب کے قتل کا تماشا دیکھنے کے لیے بچے عورتیں غلام اور مکہ کے بہت سارے لوگ وہاں پہنچے۔ کوئی بھی مکہ میں نہ رہا۔ ہر ایک جو انتقام چاہتا تھا وہ ان کو دیکھنے کے لیے چلا گیا۔ جو انتقام چاہتے تھے وہ تو اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے اور جنہوں نے انتقام نہیں لینا تھا اور جو اسلام اور مسلمانوں کے مخالف تھے وہ مخالفت کا اظہار کرنے اور خوش ہونے کے لیے وہاں گئے تھے کہ دیکھیں کس طرح اس کا قتل کیا جاتا ہے۔ پھر جب حضرت خُبیب ؓکو مع زید بن دَثِنَہؓکے لے کر تنعیم پہنچ گئے تو مشرکین کے حکم سے ایک لمبی لکڑی کھودی گئی۔ پھر جب وہ لوگ خُبیب کو اس لکڑی کے پاس لے کر پہنچے جو وہاں کھڑی کی گئی تھی۔ تو خُبیب بولے: کیا مجھے دو رکعت پڑھنے کی مہلت مل سکتی ہے؟ لوگ بولے کہ ہاں۔ حضرت خُبیبؓ نے دو نفل اختصار کے ساتھ ادا کیے اور انہیں لمبا نہ کیا۔(الطبقات الکبریٰ جزء8 صفحہ399 دار احیاء الراث العربی بیروت)(صحیح بخاری کتاب الجھاد والسیر باب ھل یستاسر الرجل و من لم یستاسر… حدیث 3045)(اسدالغابہ جلد 1صفحہ 683 دار الکتب العمیۃ بیروت 2003ء)

جیسا کہ میں نے بتایا اس لیے لمبا نہ کیا کہ کہیں ان کو یہ خیال نہ ہو کہ میں شایدموت سے بچنے کے لیے لمبی نماز پڑھ رہا ہوں۔

ابنِ سعد کے حوالے سے جو روایت ابھی بیان ہوئی ہے اس کے مطابق مَاوِیَّہ جو تھیں حُجیر بن ابواِھَاب کی آزاد کردہ لونڈی تھیں جن کے گھر میں حضرت خُبیبؓ قید کیے گئے تھے۔ علامہ ابن عبدالْبَرَّکے مطابق حضرت خُبیبؓ عُقْبَہ کے گھر میں قید تھے اور عقبہ کی بیوی انہیں خوراک مہیا کرتی تھی اور کھانے کے وقت کھول دیا کرتی تھی۔(الاستیعاب جزء2 صفحہ 442 دار الجیل بیروت 1992ء)

بہرحال یہ ان لوگوں کی قربانیاں تھیں اور موت سے بے خوفی تھی۔ اسلام کی خاطر جان دینے کے لیےیہ صحابہؓ ہر وقت تیار رہنے والے تھے ۔ اسی سَرِیّہ کا ذکر ابھی مزید بھی ہے جو ان شاء اللہ آئندہ بیان کر دوں گا۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 17؍ مئی 2024ء شہ سرخیاں

    جس دن حضرت زیدؓ اور خبیبؓ دونوں شہید کیے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا گیا کہ آپؐ فرما رہے تھے: وَعَلَیْکُمَا السَّلَام اور تم دونوں پر بھی سلامتی ہو

    سریہ رجیع کے امیر حضرت عاصم بن ثابتؓ نے دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے متعلق اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرما دے

    جب عَضَل اور قَارَہ کے یہ غدار لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان پہنچے تو انہوں نے بنولَحْیَان کو خفیہ خفیہ اطلاع بھجوا دی کہ مسلمان ہمارے ساتھ آرہے ہیں تم آ جاؤ۔ جس پر قبیلہ بنو لَحْیَان کے دوسو نوجوان جن میں سے ایک سو تیر انداز تھے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور مقام رجیع میں ان کو آ دبایا

    حضرت زیدؓ کا جواب سن کر ابوسفیان بے اختیار بولا: ’’واللہ! میں نے کسی شخص کو کسی شخص کے ساتھ ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی کہ اصحابِ محمدؐ کو محمدؐ سے ہے۔‘‘

    حارث کی بیٹی کہا کرتی تھی کہ بخدا ! میں نے کبھی ایسا قیدی نہیں دیکھا جو خُبیب سے بہتر ہو اور پھر کہنے لگی کہ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن ان کودیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اسے کھا رہے ہیں اور وہ زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے اور ان دنوں مکہ میں کوئی پھل بھی نہ تھا۔ کہتی تھیں یہ اللہ کی طرف سے رزق تھا جو اس نے خُبیب کو دیا

    سریہ رجیع کی روشنی میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ، صحابۂ کرامؓ کی قربانیوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و وفا کا ایمان افروز تذکرہ

    فرمودہ 17؍ مئی 2024ء بمطابق 17؍ ہجرت 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور