خلافت: انعامِ الٰہی اور برکات
خطبہ جمعہ 24؍ مئی 2024ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
اللہ تعالیٰ کا یہ ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأة ثانیہ کا وعدہ فرمایا تھا۔ آپؑ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں دین اسلام کی تجدید کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے اور پھر
اللہ کے وعدوں کے مطابق ہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپؑ کی بنائی ہوئی جماعت میں خلافت کا نظام جاری ہوا۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا اظہار ہے جس کی وجہ سے ہم ہر سال دنیا میں ہر جگہ جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے 27؍مئی کو یوم خلافت مناتے ہیں ۔
26؍مئی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا وصال ہوا اور 27؍مئی کو جماعت نے خدائی وعدوں کے مطابق حضرت مولانا حکیم نور الدین ؓکو خلیفة المسیح الاوّل منتخب کر کے آپؓ کے ہاتھ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے کام کو جاری رکھنے کا عہد کیا اور بیعت کی۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی وفات کے بعد حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر جماعت جمع ہوئی اور باوجود بعض اندرونی مخالفتوں اور ہر قسم کے نامساعد حالات کے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہم نے دیکھے اور آپؓ کی خلافت تقریباً باون۵۲ سال جاری رہی اور اس دَور میں جماعت احمدیہ کی دن دونی اور رات چوگنی ترقی کے نظارے ہم نے دیکھے۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی وفات کے بعد خلافت ثالثہ کا آغاز ہوا اور اس دَور میں بھی جماعت کی ترقی کے نظارے ہم نے دیکھے۔ دشمنوں نے بڑا زور لگایا جماعت کو ختم کرنے کا لیکن اس کے باوجود ہمیں تاریخ میں ترقی کے نظارے ہی نظر آتے ہیں ۔ پھر جب حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی وفات ہوئی تو ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا نظارہ دکھایا اور خلافت رابعہ کا دَور شروع ہوا جس میں دشمن نے جماعت کو ختم کرنے کی پھر بھرپور کوشش کی لیکن ہر طرح ناکامی کا منہ دیکھا اور اس دشمنی کی وجہ سے حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکو پاکستان سے ہجرت کرنی پڑی۔ انگلستان میں مرکز قائم کیا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جماعت کی ترقی کی رفتار بڑھتی چلی گئی اور جماعت کی ترقی کو روکنے والے اس ترقی کو دیکھ کر پیچ و تاب کھانے لگے۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی وفات ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے پھر اپنے وعدے کو پورا کرنے کا جلوہ دکھایا اور خلافت خامسہ کا انتخاب ہوا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے باوجود میری بےشمار کمزوریوں کے غیر معمولی تائید و نصرت سے نوازا اور جماعت کی ترقی کا قدم آگے سے آگے ہی بڑھتا گیا۔
اِس دَور میں درجنوں ملکوں میں احمدیت کا پودا لگا۔ درجنوں ملکوں میں جماعت احمدیہ کا باقاعدہ نظام قائم ہوا۔ سینکڑوں شہروں اور قصبوں میں خود اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی راہنمائی کر کے خلافت کی تائید و نصرت کے نظارے دکھا کر لوگوں کے دلوں میں خلافت سے تعلق کا جذبہ پیدا کر کے مخلصین کی جماعتوں کے قیام کے سامان پیدا فرمائے اور یہ نظارے اللہ تعالیٰ دکھاتا چلا جا رہا ہے۔
خلافت سے وابستگی کے یہ نظارے اور جماعت کی ترقی کے یہ نظارے کیوں نہ ہوتے؟ یہ تو ہونے ہی تھے کہ اس کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیشگوئی فرمائی تھی۔
پس نہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو بھولنے والا اور توڑنے والا ہے اور نہ ہی اپنے سب سے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے پورا کرنے میں کمی کرنے والا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیشگوئی فرمائی تھی کہ تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا زمانہ ۔فرمایا:پھر اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔اور پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ پھر جب یہ دَور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دَور کو ختم کر دے گا اور اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ فرما کر آپؐ خاموش ہو گئے۔(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 285 حدیث 18596 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس پیشگوئی کو پورا ہوتادیکھنے والے ہیں۔پس جو حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامؑ کی جماعت کے ساتھ جڑے رہنے والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد سے جو خلافت کا نام نہاد تصور مسلمانوں میں قائم تھا وہ بھی ختم ہو گیا اور اب صرف حکومتیں ہی ہیں اور یہ حکومتیں اگر جابر بھی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچنے والی نہیں ہیں ۔
اللہ تعالیٰ بعض دفعہ رسی ڈھیلی تو کر دیتا ہے لیکن ظالموں کو پکڑتا ضرور ہے۔
بہرحال جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔ آپؐ کی غلامی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور آپؑ نے بھی فرمایا کہ میرے بعد بھی جماعت میں میری خلافت کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق جاری رہے گا۔ آپؑ نے فرمایا: مَیں خاتم الخلفاء ہوں۔(ماخوز از ملفوظات جلد دوم صفحہ 282۔ ایڈیشن 1984ء)اب جو بھی آئے گا جس کو اللہ تعالیٰ خلافت کا مقام دے گا میری پیروی میں ہی آئے گا۔
پس دنیاوی طور پر اب کوئی جتنا چاہے زور لگا لے کبھی خلافت کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے علیحدہ ہو کر نہیں ہو سکتا۔
بہرحال جب آپؑ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؑ نے خلافت کے جاری رہنے کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ ’’دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (۱) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں ۔ تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیساکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اُس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا: وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا (النور:56) یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے۔‘‘
فرمایا :’’…سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو۲ قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو۲ جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنّت کو ترک کر دیوے۔ اس لیے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں ۔‘‘
ضمناً میں یہ بھی بتا دوں کہ مَیں تو اس بات سے یہ بھی استنباط کرتا ہوں کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر کی بحث میں پڑے ہوئے ہیں ان کا بھی اس میں جواب ہے کہ آپؑ نے اپنی عمر کے سال گنوا کر یہ نہیں بتایا کہ اتنے سال باقی ہیں بلکہ اپنی واپسی کا اشارہ دیا ہے اور عمر کی بحث کو کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ کام پورا کرنے کی اہمیت ہے۔
بہرحال آپؑ فرماتے ہیں:’’لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیساکہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیساکہ خدا فرماتا ہے کہ میں اِس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا۔اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ ‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 304تا 306)
پس یہ وعدے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہیں کچھ پورے ہوئے،کچھ ہوں گے اور آئندہ ہم ان کو پورا ہوتا دیکھتے چلے جائیں گے۔ پس جیسا کہ میں نے شروع میں بیان کیا تھا اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آپؑ کے وصال کے بعد خلافت اولیٰ کا دَور آیا اور جماعت کا قدم آگے بڑھتا گیا۔ پھر خلافت ثانیہ کا دَور آیا تو جماعت میں مزید ترقی ہوئی اور دنیا کے بہت سے ممالک میں جماعتیں قائم ہوئیں ۔ پھر خلافت ثالثہ کا دَور آیا تو اس میں مزید ترقی ہوئی۔پھر خلافت رابعہ کا دَور آیا تو ترقیات کے بھی نئے دروازے کھلے۔ پھر
خلافت خامسہ کا دَور ہے تو اس میں جماعت ترقی کی منازل طے کرتی چلی جا رہی ہے۔ دشمن کی بھرپور کوششوں کے باوجود جماعت آگے سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
بلکہ ہمیشہ کی طرح خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں جو دُور دراز ملکوں میں بیٹھے ہیں ،جنہوں نے کبھی کسی خلیفہ کو دیکھا بھی نہیں ہے خود راہنمائی فرماتے ہوئے خلافت کے جھنڈے تلے آنے کی ہدایت دیتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی اور غیر مسلموں میں بھی ایسے سینکڑوں ہزاروں لوگ ہیں جن کے سینے اللہ تعالیٰ کھولتا ہے۔اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدہ فرمایا اسے پورا کرتے ہوئے ہر روز جماعت کی تائید و نصرت کے نظارے دکھاتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ نے خلافت قائم رکھنے کا وعدہ فرمایا تو کس طرح
لوگوں کے دلوں میں خلافت سے تعلق اور اس سے جڑے رہنے کے جذبات
پیدا فرماتا ہے۔ اس بارے میں
بعض لوگوں کے واقعات بھی پیش کر دیتا ہوں جن سے خلافت احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کے وعدے پورے ہونے کا نظارہ ہم دیکھتے ہیں ۔
برکینا فاسو
افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے معلم لکھتے ہیں کہ جب ہماری جماعت میں پہلی بار ایم ٹی اے لگا اور لوگوں نے پہلی بار خلیفہ وقت کو دیکھا تو ان کی آنکھیں نم تھیں اور خوشی ان کے چہروں سے عیاں تھی۔کچھ دن کے بعد وہاں سے ایک وفد آیا اور ایم ٹی اے کا شکریہ ادا کیا اور کہنے لگے کہ ویسے تو ہم خلیفہ وقت سے ملاقات کے لیے نہیں جا سکتے مگر ایم ٹی اے پر خلیفہ وقت کو دیکھ کر ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو تسکین ملتی ہے۔اور اس طرح اب یہ ہمارا روز کا معمول بن گیا ہے کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ ہم روز خلیفہ وقت سے ملاقات کرتے ہیں۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کر رہا ہے۔وہ جو کبھی ملے بھی نہیں ان کے دلوں میں بھی خلافت سے محبت ہے۔
پھر کس طرح
اللہ تعالیٰ خلافت کے ذریعہ لوگوں کی اسلام کی طرف راہنمائی کرتا ہے
اس بارے میں امیر صاحب
گیمبیا
لکھتے ہیں کہ ایک موٹر مکینک سامبا صاحب ہیں۔ اتفاق سے ایم ٹی اے پر انہوں نے مجھے کوئی خطاب کرتے ہوئے یا خطبہ سنتے ہوئے دیکھا تو یہ سن کے کہنے لگے کہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شخص کو خدا تعالیٰ کی حمایت حاصل ہے۔
چنانچہ موصوف نے اپنے خاندان کے چودہ افراد سمیت بیعت کر لی۔ان کے کاروبار میں کمی تھی۔اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ۔تو پھر یہ کہنے لگے کہ یہ سب کچھ احمدیت کی وجہ سے ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدیت اندھیرے کے لیے ایک روشن سورج کی مانند ہے۔
خلافت کی تائید کا اظہار غیر بھی محسوس کرتے ہیں
اور پھر جماعت میں شامل ہوتے ہیں ۔ اب یہ افریقہ کی مثال ہے۔
اب ایک عرب ہے
جرمنی
میں۔ سیکرٹری تبلیغ جرمنی لکھتے ہیں کہ وہ ان کے تبلیغی سٹال پہ آئے ۔ قرآن کریم جرمن ترجمہ لے گئے۔ اپنا نمبر بھی دے گئے تا کہ ان سے رابطہ رکھا جائے۔ گذشتہ سال جلسہ سالانہ جرمنی پہ ان کو آنے کی دعوت دی گئی۔ یہ کچھ سالوں کا واقعہ ہے اس لیے گذشتہ سال سے مراد یہ ہے کہ جب یہ واقعہ بیان ہورہا ہے اس سے ایک سال پہلے۔ بہرحال اپنے امتحان کی وجہ سے جلسہ میں شامل ہونے سے انہوں نے معذرت کی اور اپنی جگہ اپنے بڑے بھائی اورایک اَور فیملی ممبر کو بھجوا دیا۔ وہاں جلسہ پر ان کے بھائی میری تقریر سننے کے بعد کہنے لگے کہ
یہ شخص یقیناً خدا تعالیٰ کا تائید یافتہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ڈالا کہ خلافت سچی ہے۔ موصوف نے اسی رات بیعت فارم پُر کیا اور جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے۔
یہ جذبات صرف اللہ تعالیٰ ہی دلوں میں پیدا کر سکتا ہے اور اس لیے کرتا ہے کہ اس کا یہ وعدہ ہے۔
دوسرے جو عرب دوست تھے ان کے فیملی ممبر نے پہلے دن تو بیعت نہیں کی لیکن جماعت کے بارے میں کافی سوالات پوچھتے رہے۔ میرے ساتھ عربوں کی ایک نشست بھی تھی۔ تکفیر کے حوالے سے ایک سوال کرنا چاہتے تھے۔ یہی سوال ایک اَور عرب دوست نے کر دیا جس کا میں نے ان کو بڑی تفصیل سے جواب دیا۔ یہ جواب سن کر موصوف کی تسلی ہوئی اور بیعت کی تقریب سے قبل ہی وہاں بیعت فارم پُر کر کے انہوں نے دستی بیعت کی اور اس بیعت میں شامل ہوئے۔
اس بارے میں کہ
اللہ تعالیٰ کس طرح سعید روحوں کو گھیر کر جماعت میں شامل کرتا ہے اور خلافت کی تائید کے وعدے کو پورا فرماتا ہے۔
گیمبیا
کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک جگہ کرنگور (Kerngorr) ہے۔وہاں جب جماعت کا قیام عمل میں آیا تو ایک دوست الحاجی فائے صاحب نے جماعت کی شدید مخالفت کی۔ جماعتی لٹریچر کو ہاتھ تک لگانا بھی گوارا نہیں کرتے تھے لیکن ہمارے داعین الیٰ اللہ نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل انہیں تبلیغ کرتے رہے۔ ایک دن گاؤں میں نومبائعین کے لیے تربیتی کلاس کا پروگرام رکھا گیا۔ ہمارے داعین الیٰ اللہ نے موصوف کو اس بات پر منا لیا کہ وہ بےشک کوئی کتاب نہ پڑھیں مگر ایک دفعہ ہمارے ساتھ مشن ہاؤس چلے جائیں اور ہمارے پروگرام میں شامل ہو جائیں۔ ہم وہاں آپ کو کوئی تبلیغ نہیں کریں گے اور نہ ہی آپ سے اس موضوع پر بات کریں گے۔ آپ صرف پروگرام میں شامل ہو کر ہماری باتیں سن لیں ۔ چنانچہ موصوف جب مشن ہاؤس آئے تو کہنے لگے میں آپ کی کلاس میں شامل ہونا نہیں چاہتا۔ یہاں ٹی وی والے کمرے میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ لیتا ہوں۔اس پر انہیں ٹی وی والے کمرے میں بٹھا کر ٹی وی پر ایم ٹی اے لگا دیا گیا ۔انہیں وہیں چھوڑ کر باقی سارے لوگ کلاس میں شامل ہونے کے لیے مسجد چلے گئے۔ اس دوران موصوف نے ایم ٹی اے پر جو میرا خطبہ لگا ہوا تھا وہ سنا۔ کلاس کے بعد جب ان سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ
یہ شخص جھوٹا نہیں۔ یعنی یہ خلافت تو مجھے سچی خلافت لگتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ میں اب پیٹھ پھیر لوں۔چنانچہ موصوف اپنے خاندان کے دس لوگوں سمیت بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے۔ کیا یہ کسی انسان کا کام ہو سکتا ہے؟ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے وعدے سچے کر کے دکھا رہا ہے۔
خلافت سے تعلق بڑھنے کا اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہونے کا ایک اَور واقعہ یہ ہے کہ
کیمرون
کے شہر ’’گوانڈیرے‘‘ کے ایک محلہ میں آٹھ فیملیوں نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ نومبائعین کا کہنا ہے کہ ایم ٹی اے نے ہمارے بچوں کی زندگی بدل دی ہے اور دین کے بارے میں ان کے علم میں اضافہ ہوا ہے۔
ان میں سے ایک نوجوان عبدالرحمٰن ہے جو او لیول کر رہا ہے۔ یہ میرے خطبات بڑے شوق سے سنتا ہے۔بڑا شیدائی ہے۔ جمعہ کے دن سکول ٹیچر سے کہتا ہے کہ میں نے گھر خطبہ سننے کے لیے جانا ہے۔ اور سکول چھوڑ سکتا ہوں ، خطبہ جمعہ نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ ان کا ایمان ہے۔ ان کے والد نے کہا کہ ہر جمعہ کو سکول چھوڑ کر ایم ٹی اے پر خطبہ سننے آ تا ہے اور عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ خطبہ سننے سے میرا ایمان اور علم بڑھتا ہے۔پہلے میں جو بھی غلط کام کرتا تھا اب چھوڑ دیے ہیں ۔
پس یہ لوگ ہیں جو خلافت کے ساتھ جُڑنے کے عہد کو بھی پورا کر رہے ہیں ۔ یقیناً ایک وقت آئے گا جب یہ ترقی کر کے سب سے اوپر ہوں گے کیونکہ یہ وعدوں کے مصداق بننا چاہتے ہیں ۔
پھر
اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت سے جوڑنے کا جو وعدہ ہے
اس کے بارے میں ایک اَور واقعہ ہے۔
برکینا فاسو
ایک جگہ کافی تبلیغ کی گئی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جاتے ہوئے معلم کہتے ہیں میں نے چند لوگوں کو کہا کہ آپ جب شہر آئیں تو میرے گھر ضرور آنا۔ چنانچہ کچھ دنوں بعد ان میں سے ایک آدمی بون (Bone) صاحب ہمارے گھر آئے تو انہیں ایم ٹی اے لگا دیا۔ تھوڑی دیر بعد جب انہوں نے ایم ٹی اے پر مجھے دیکھا تو کہنے لگے کہ
اس شخص کو تو میں پہلے ہی خواب میں دیکھ چکا ہوں ۔ چنانچہ وہ اسی وقت بغیر کسی دلیل کے احمدیت میں داخل ہو گئے
اور واپس جا کر اپنے گاؤں والوں کو بتایا تو گاؤں کے کافی اَور لوگوں نے احمدیت قبول کر لی۔ اب خدا کے فضل سے اس گاؤں میں ایک مضبوط جماعت قائم ہو چکی ہے۔
پھر اسی طرح کا اللہ تعالیٰ کی تائید کا ایک اَور نظارہ ہے۔کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں خلافت سے تعلق پیدا کر رہا ہے۔ اسلام کی حقیقی تعلیم ان پر واضح کر رہا ہے۔ اس بارے میں
قرغیزستان
کے سلطان صاحب ہیں۔ اب یہ قرغیزستان کا ایک علاقہ ہے۔ بالکل ہی دوسرا علاقہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: میرے بیٹے اور اہلیہ کو بیعت کرنے کی توفیق مل چکی تھی۔ میں نے 2017ء میں ہر جمعہ کو جماعتی مشن ہاؤس جانا شروع کیا۔ جب میں اور میری اہلیہ گاڑی میں نماز جمعہ کے لیے اپنی جماعت کے مشن ہاؤس جاتے تو تقریباً بارہ کلو میٹر کے سفر میں ہم ہمیشہ خلیفہ وقت کے خطبہ کی ریکارڈنگ سنتے۔ کہتے ہیں میں نے جب بھی ان خطبات کو سنا اس کے بعد میرے احساسات بہت مضبوط ہوتے جاتے۔ یہ 22ء کی بات ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں اس سال 2؍مئی کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے اختتام پر عید کے دن میں نے بیعت کی۔ میں یہ پہلے کرنا چاہتا تھا لیکن کسی نہ کسی طرح یہ کام رہ جاتا تھا ۔کہتے ہیں میں نے مختصراً لکھا ہے لیکن جو کچھ میرے اندر روح میں ہو رہا ہے میں یہ بیان نہیں کر سکتا۔ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں ہر نماز میں اللہ سے اسلام کے بارے میں علم میں اضافہ کی دعا کرتا ہوں ۔ ہر جمعہ کی نماز میرے لیے مسلسل کچھ نہ کچھ نیا راستہ کھول رہی ہوتی ہے۔
گنی بساؤ
ایک اَور ملک ہے۔
کس طرح اللہ تعالیٰ خلافت کے ذریعہ لوگوں کے سینے کھول رہا ہے۔
عثمان بالڈے صاحب کا ایک واقعہ ہے جو نومبائع ہیں ۔ کسی اَور علاقے میں رہتے ہیں ۔ انہیں جب اس بات کا علم ہوا کہ ان کے رشتہ دار کثرت سے احمدیت قبول کر رہے ہیں تو وہ بعض مولویوں کو اکٹھا کر کے اس علاقے میں لے کر آئے تا کہ جماعت کی مخالفت کر سکیں ۔ ہمارے معلم نے انہیں کہا کہ آپ ضرور مخالفت کریں مگر ہماراپیغام ایک مرتبہ سن لیں ۔ وہاں لوگوں میں کم از کم یہ شرافت ہے کہ مخالفت کرتے بھی ہیں تو پیغام سننے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی طرح نہیں ہیں کہ ڈھٹائی دکھائیں۔ مولوی صاحب نے تو آنے سے انکار کیا۔وہ تو مولویوں کی فطرت ہے اس نے تو کرنا ہی تھا ۔مگر عثمان صاحب نے دعوت قبول کی اور جماعت کا پیغام سننے آ گئے۔ چنانچہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے متعلق بتایا گیا۔ جس دن وہ آئے وہ جمعہ کا روز تھا۔وہاں میرا خطبہ لگا ہوا تھا جو ایم ٹی اے پہ براہ راست آ رہا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ ہم تمام احمدی خلیفہ وقت کا براہ راست خطبہ سنتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو کچھ دیر خطبہ ضرور سنیں۔ جس پر انہوں نے کہا کہ میں صرف تھوڑی دیر کے لیے خطبہ سنوں گا لیکن جب خطبہ سننا شروع کیا تو وقت بھول گئے اور بڑے غور سے خطبہ سنتے رہے اور مکمل خطبہ سنا۔ بعد میں کہنے لگے کہ
جماعت احمدیہ کافر نہیں ہو سکتی جیساکہ میں نے سنا تھا کیونکہ آپ کے خلیفہ توصحابی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پیش کر رہے ہیں ۔ بعض دفعہ بعض احمدی یہ سوال اٹھا دیتے ہیں کہ ہمیں اسلامی تاریخ بتانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ لوگوں کے لیے، دوسرے مسلمانوں کے لیے تبلیغ کا ذریعہ بن رہی ہے اس لیے ضرورت ہے بتانے کی۔اور ہمارے اپنے علم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں بہت سوں کو اس کا پتہ ہی نہیں تھا۔
کہتے ہیں کہ اَور کوئی کافر جماعت یہ کام نہیں کر سکتی کہ صحابہؓ کی سیرت بیان کرے۔ اس کے بعد انہوں نے جماعت کی مخالفت ختم کر دی اور اپنی تمام فیملی کے ساتھ احمدیت قبول کر لی۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے علاقہ میں تبلیغ بھی کرتے ہیں اور باقاعدہ جماعتی نظام میں شامل ہیں ۔
پھر
غیروں کو خلافت کی آواز کے ذریعہ ہدایت
پر لانے کا ایک اَور واقعہ
کونگو کنشاسا
کا ہے۔وہاں کے لوکل مشنری کہتے ہیں۔ یہاں کے ایک علاقے میں تبلیغی مہم شروع کی گئی تو بعض غیر از جماعت احباب نے منظّم طور پر مخالفت کا آغاز کر دیا۔ پھر تین ماہ کے بعد ایک دن انہی مخالفین میں سے ایک دوست عثمان صاحب ہیں۔ انہوں نے مشن سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ اپنی ساری فیملی کے ساتھ جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے کہ ایک دن میری بیوی سیٹلائٹ چینل دیکھ رہی تھی تو آپ کا چینل ایم ٹی اے لگ گیا۔ کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ میں احمدیت کی مخالفت میں پیش پیش ہوں تو اس نے مجھے بلا لیا۔ جب میں جماعت کے بارے میں غلط بولنے لگا تو بیوی نے کہا: پہلے پروگرام پورا سنو پھر بولنا۔ اس وقت وہاں میرا خطبہ نشر ہو رہا تھا۔ خطبہ سننے کے بعد کہتے ہیں
مجھے یقین ہو گیا کہ جو آواز آج میرے کانوں میں پڑی ہے یہی اسلام کی حقیقی تصویر ہے اور خلیفہ کو سننے کے بعد جماعت کی سچائی میں مجھے کوئی شک نہیں رہ گیا۔
خلافت کی محبت کس طرح اللہ تعالیٰ دلوں میں پیدا کرتا ہے؟ ایمان میں کس طرح اضافہ کرتا ہے؟ ایک شخص جو ہزاروں میل دُور ہے کبھی خلیفہ سے نہیں ملا جیساکہ میں نے پہلے کہا اپنے جذبات کا اظہار کس طرح کرتا ہے!
سینیگال
کے ایک عمر صاحب ہیں۔ کہتے ہیں
آپ کا خطبہ جب بھی سنتا ہوں دل میں ایک عجیب لذّت کا احساس ہوتا ہے۔ دعا کریں کہ یہ احساس ہمیشہ رہے۔ خطبہ سُن کر آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں ۔
مجھے آپ سے محبت ہے۔ دعا کریں کہ خدا، رسولؐ اور مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفاء کی محبت مجھے دنیا و مافیہا کی محبت سے بڑھ کر ہو۔ آپ کی دعا سے یہ کہتے ہیں میرے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے۔ پس یہ سب اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدے کا پورا ہونا ہے۔
پھر امیر صاحب
بیلجیم
لکھتے ہیں کہ مراکش کے ایک دوست مصطفیٰ صاحب ہیں۔ لمبا عرصہ احمدیت کے بارے میں تحقیق کر کے انہوں نے بیعت کی۔ کہتے ہیں کہ میں نے بچپن سے ہی بہت سے علماء کی صحبت میں وقت گزارا ہے لیکن
خلیفۂ وقت کے خطبات نہ صرف قرآن کریم کی صحیح تفسیر ہیں بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب لے جاتے ہیں ۔
کہتے ہیں یہ خطبات سننے کے بعد مجھے نمازوں کا مزہ آنے لگا ہے۔خدا تعالیٰ نے مجھے سچی خوابیں بھی دکھائی ہیں۔احمدیت نے میری زندگی بدل دی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے موصوف آبدیدہ ہو جاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جاری خلافت کی تائید فرماتا ہے، کس طرح سینے کھولتا ہے
ایک اَور واقعہ ہے ۔
گنی بساؤ
کے مبلغ کہتے ہیں کہ اکیس جماعتوں میں ایم ٹی اے انسٹال کرنے کی توفیق عطا ہوئی۔ ایک گاؤں میں گذشتہ سال تبلیغ کے ذریعہ احباب نے احمدیت قبول کر لی تھی مگر اس گاؤں کے چار خاندانوں نے احمدیت قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جب ہماری ٹیم اس گاؤں میں ایم ٹی اے انسٹال کرنے گئی تو ہمارے معلم محمد مسالیوجالو صاحب نے ان تمام خاندانوں کو بھی مسجد میں مدعو کیا کہ وہ آ کر ہمارا مسلم چینل اور ہمارے خلیفہ اور امام مہدی علیہ السلام کو دیکھیں، تصویر دیکھیں ۔ جب ایم ٹی اے انسٹالیشن مکمل ہوئی تو اس وقت مغرب کا ٹائم تھا۔ نماز کی ادائیگی کے لیے ٹی وی بند کیا گیا۔ نماز کے بعد جب ایم ٹی اے چلایا گیا تو اس میں خطبہ آ رہا تھا۔ غیر از جماعت دوست بڑے غور سے یہ سارا کچھ دیکھتے رہے۔معلم نے انہیں کہا کہ خطبہ انگلش میں چل رہا ہے میں آپ کے لیے ترجمہ کر دیتا ہوں۔ آپ کا حق ہے کہ آپ کو پتہ چل سکے کہ خلیفہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ اس پر اس نے کہا کہ
مجھے سمجھ نہیں آ رہی مگر میں خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ جھوٹ نہیں بول سکتے! اگر یہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ ہیں تو احمدیہ جماعت کبھی جھوٹی جماعت نہیں ہو سکتی اور میں ابھی اور اسی وقت احمدیت قبول کرنے کا اعلان کرتا ہوں ۔
تو اس طرح بھی اللہ تعالیٰ دلوں کو پھیرتا ہے۔
خلافت تبلیغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔
سعید فطرت لوگ اسی طرح دیکھ کر اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں ۔
گیمبیا
کے امیر صاحب کہتے ہیں کہ ایک جگہ سامبے(Samba)ہے۔ تبلیغ کے لیے ہم وہاں گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بارے میں بتایا گیا ۔آپؑ کی جماعت میں شامل ہونے کے لیے شرائط بیعت پڑھ کر سنائی گئیں تو گاؤں کے الکالی، وہاں جو چیف ہوتا ہے، ان کا امام اور گاؤں کی ترقیاتی کمیٹی کے چیئرمین نے برجستہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مہدیؑ کی آمد کی پیشگوئی فرمائی تھی اور آج وہ پہلی مرتبہ امام مہدیؑ کی آمد کا سن رہے ہیں اور جب سے احمدیت کو دیکھا ہے بہت متاثر ہیں ۔ پھر کہنے لگے کہ
صرف احمدی ہی حقیقی مسلمان ہیں کیونکہ ان کے پاس خلافت کی طاقت ہے جو سب کو ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہے ۔
اور
جب انہیں میری تصویر دکھائی تو کہنے لگے کہ اس میں سچائی نظر آتی ہے
اور ہم ٹی وی پر بھی یہ دیکھتے ہیں ۔ پھر سارے افراد نے جو بہت بڑی تعداد میں تھے بیعت کر لی۔
جب انہوں نے قرآن کریم کا ترجمہ تین مقامی زبانوں فُولا، مینڈینکا اور وُولف میں دیکھا تو کہا کہ احمدیت ہی سچا اسلام ہے ۔کسی اَور فرقے کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی جیساکہ احمدی کر رہے ہیں اور آخر پر کہا کہ وہ اب ان شاء اللہ احمدیت پر قائم رہیں گے۔ کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ سچا اسلام یہی ہے۔ دوسرے مولوی تو آ کے ہمیں دھوکہ دیتے ہیں ۔
پھر
مالی
کے مبلغ کہتے ہیں: ایک شخص ریڈیو احمدیہ تشریف لائے اور انہوں نے کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ احمدیت کی وجہ سے آج میں جہنم کی آگ سے بچ رہا ہوں ۔ کہتے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ وجہ کیا ہے؟ تو کہنے لگے۔ بعض علماء نے نماز کے متعلق کہا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لیے انہوں نے بھی نماز پڑھنا ترک کر دی تھی۔ اب نمازوں سے ہی چھوٹ دی ہے۔ مگر ریڈیو احمدیہ پر خلیفہ کا خطبہ جس میں انہوں نے نماز کی اہمیت کا بتایا اس کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا ہے۔ اس کے بعد نماز ترک کرنا میں جہنم میں جانا خیال کرتا ہوں ۔ پس آج سے میں احمدی ہوں اور کبھی بھی نماز نہیں چھوڑوں گا۔
اس طرح نئے آنے والوں میں یہ اثر ہو رہا ہے۔
پرانوں کو بھی خاص طور پر اپنے جائزے لینے چاہئیں۔
ہمارے خلاف تو یہ لوگ بولتے رہتے ہیں ۔کفر کے فتوے بھی مولوی لگاتے ہیں۔ خود یہ حال ہے کہ اسلام کے بنیادی رکن کے ہی انکاری ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ خلافت کے ذریعہ سے لوگوں کی راہنمائی کر رہا ہے اور دین میں بگاڑ پیدا کرنے والوں سے ان کو رہائی مل رہی ہے۔
پھر
نائیجیریا
کے مبلغ کہتے ہیں ۔ایم ٹی اے دیکھنے کے لیے بہت ساری جگہوں پر جو ڈشیں لگائی گئی ہیں وہاں خطبات دیکھتے ہیں اور دوسرے پروگرام دیکھتے ہیں۔تو کہتے ہیں ایک شخص نے کہا کہ
مجھے جماعت کے متعلق بہت اعتراضات تھے اور دلی تسلی نہیں ہوتی تھی لیکن امام جماعت احمدیہ کا خطبہ سنا اور قدرتی طور پر میرا دل تسلی پا گیا۔ مجھے حقیقی اسلام مل گیا ہے اور سارے اعتراضات ختم ہو گئے اور میں نے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔
پھر سعید روحوں کی راہنمائی کا ایک اَور واقعہ
گیمبیا
سے ایک صاحب محمد سو (Sowe) صاحب خود اپنی خواب کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک شخص آئے اور ان کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ کر، خواب دیکھنے والے کے ہاتھ کو پکڑ کر اس نے کہا السلام علیکم ورحمة اللہ تو انہوں نے پہچانا نہیں کہ کون تھے وہ۔ لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ احمدیوں کے امام ہیں ۔ اگلی صبح یہ ہمارے مشن آئے اور ہمارے معلم کو خواب سنائی۔ معلم نے ایم ٹی اے لگا دیا جہاں خطبہ جمعہ لگا ہوا تھا۔ انہوں نے جب مجھے دیکھا تو بے اختیار کہا کہ یہی تو تھے وہ جو کل رات میری خواب میں آئے تھے اور پھر اسی وقت احمدیت قبول کر لی۔
کیمرون
کے مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ وہاں کے ایک شہر ’’مَرْوَہ‘‘ میں لوگ کثرت سے ایم ٹی اے افریقہ دیکھ رہے ہیں اور جماعت میں شامل بھی ہو رہے ہیں ۔یہاں کے ایک امام معلم احمدو صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہمارے ایمان بڑھے ہیں اور
خلیفۂ وقت کے خطبات،خطابات اور عربی پروگراموں کے ذریعہ سے ہمارے اندر ایک نور پیدا ہوا ہے اور اندھیرا ختم ہو گیا ہے۔
اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایم ٹی اے اور احمدیت کے آنے سے پہلے ہم جانور تھے اور اب ایم ٹی اے نے ہمیں انسان بنا دیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ خلافت کی تائید میں کس طرح لوگوں کے دل کھولتا ہے؟اس کی ایک اَور مثال۔
کیمرون
کے معلم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مَیں جمعہ کا خطبہ دے رہا تھا۔ آہستہ آہستہ مسجد میں لوگ داخل ہو رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص کوٹ پہنے ہوئے اور سر پر پگڑی پہنے مسجد میں داخل ہوا ہے۔ نماز کے بعد میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے یہ لباس کیوں پہن رکھا ہے؟ کہنے لگے کہ میرے ایک روحانی امام ہیں اور وہ ایسا لباس پہنتے ہیں ۔ اگر آپ ان کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں تو کیبل پر ایک چینل ایم ٹی اے افریقہ آتا ہے آپ وہ دیکھا کریں ۔ اس چینل پر ان کے خطابات آتے ہیں اور وہ اپنی مسجد میں بچوں کے ساتھ سوال جواب بھی کرتے ہیں۔ آپ ان کو دیکھیں گے تو آپ کو نظر آئے گا کہ وہ سچے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تائید یافتہ ہیں ۔ اس پر میں نے انہیں دس شرائط بیعت اور التقویٰ رسالہ سے تصویر نکال کے دکھائی ۔ میری تصویر ان کو دکھائی اور بتایاکہ یہ مسجد اسی امام نے بنائی ہے۔ ان کو نہیں پتہ تھا کہ جماعت احمدیہ کی مسجد ہے اور میں ان کی جماعت کا ہی مشنری ہوں ۔ اس پر موصوف بہت خوش ہوئے اور پھر اپنی فیملی سمیت بیعت بھی کر لی۔
پس یہ چند واقعات ہیں جو میں نے بیان کیے ہیں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ کی خدائی تائید کا اظہار ہوتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ کا وعدہ قدرت ثانیہ کے جاری رہنے اور اس کی تائید و نصرت کا ہے اور اس ذریعہ سے اب اسلام کا غلبہ مقدر ہے۔
خدا تعالیٰ خود لوگوں کے سینے کھول رہا ہے۔ غیروں کے دل میں خلافت احمدیہ کا اثر قائم فرما رہا ہے۔ سعید فطرت لوگوں کو خلافت کے ساتھ منسلک کر رہا ہے۔
خلافت احمدیہ کی ایک سو سولہ (۱۱۶) سالہ تاریخ کا ہر دن اس بات کا ثبوت ہے کہ
اللہ تعالیٰ ہی خلافت احمدیہ کی تائید و نصرت فرما رہا ہے اور
جماعت ہر روز ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔
اللہ تعالیٰ مجھے بھی اپنے خاص فضل سے اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور
ہر احمدی کو بھی کامل وفا اور اخلاص کے ساتھ ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رکھے اور تاقیامت وفا شعار اور تقویٰ پر قائم رہنے والے خلافت احمدیہ کو ملتے رہیں اور
وہ تمام مقاصد اللہ تعالیٰ پورے فرمائے جن کا اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے وعدہ فرمایا ہے اور خلافت احمدیہ کے ذریعہ خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم ہو اور دنیا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانے کا نظارہ دیکھے۔
نماز کے بعد
دو جنازے غائب
بھی پڑھاؤں گا مَیں ۔ پہلا
چودھری محمد ادریس نصر اللہ خان صاحب
کا ہے جو آج کل کینیڈا میں تھے۔ نوّے (۹۰)سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ آپ کے دادا حضرت چودھری نصر اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جماعت احمدیہ کے ابتدائی ناظر اعلیٰ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ ادریس نصر اللہ خان صاحب حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ کے بھتیجے بھی تھے۔ ان کے والد بڑا لمبا عرصہ کراچی کے امیر جماعت بھی رہے ہیں۔ ادریس نصراللہ حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کے پڑنواسے تھے۔ ادریس صاحب کے نانا حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ جماعت کے اوّلین واقفِ زندگی اور اوّلین مبلغ انگلستان تھے جو سینکڑوں لوگوں کواحمدیت میں داخل کرنے کا باعث بنے۔
ادریس نصر اللہ صاحب کو تیس سال سے زائد عرصہ تک بطورسیکرٹری امورعامہ لاہور خدمت کی توفیق ملی۔ مرکزی افتا کمیٹی اور قضا کمیٹی کے ممبر اور صدر رہے۔ خلافت ثالثہ کے پُرآشوب دَور میں جن وکلاء نے تاریخ ساز کام کیا ان میں آپ کا نام بھی سرفہرست ہے۔ 1974ء میں ربوہ کے واقعہ میں جو صمدانی ٹربیونل قائم ہوا تھا اس میں ادریس نصراللہ صاحب حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔ پھر ان کو بہت ساری کمیٹیوں کا ممبر بھی حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے بنایا ہوا تھا۔ لاہور کے نمائندہ کے طور پر یہ کسرصلیب کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔ حضرت خلیفةالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی لندن ہجرت کے وقت ربوہ سے کراچی تک کے قافلے میں شامل ہونے کی تاریخی سعادت بھی ان کو ملی۔ بڑے صائب الرائے تھے۔ خلافت سے انتہائی وفا اور اخلاص کا تعلق رکھنے والے تھے۔ اس کا تو میں نے بھی ذاتی طور پر بہت تجربہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
دوسرا ذکر
مکرم کنور ادریس صاحب کراچی
کا ہے جو چودھری عزیز احمد صاحب باجوہ کے بیٹے تھے۔ نوّے (۹۰)سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ چودھری محمد حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سردار بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کے پوتے تھے۔ مرحوم اللہ کے فضل سے موصی تھے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور دوبیٹیاں شامل ہیں ۔
1959ء میں سول سروسز میں شمولیت اختیار کی اور پینتیس سالہ طویل عرصۂ ملازمت میں مرکزی اور صوبائی حکومت میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ ہمیشہ ایک نہایت ایماندار اور فرض شناس افسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ آپ کا یہ حسن کردار اپنے والد کی نصیحت کا نتیجہ تھا جو انہوں نے سول سروس میں شمولیت کے وقت آپ کو کی تھی۔ انہوں نے آپ کو کہا تھا کہ مجھے اگر یہ خبر ملے کہ ادریس فوت ہو گیا ہے تو مجھے اتنا صدمہ نہیں ہو گا لیکن اگر مجھے یہ خبر ملے کہ ادریس نے کسی سے رشوت لی ہے تو اس کا مجھے بہت زیادہ صدمہ ہوگا۔ یہ تربیت تھی باپ کی بیٹے کے لیے اور یہ نصیحت تھی۔ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی مشہور کتاب سوانح حیات جو ’’تحدیث نعمت‘‘ ہے اس کا انگریزی ترجمہ بھی انہوں نے کیا تھا جس سے یہ کتاب انگریزی دان حلقہ میں متعارف ہوئی۔ 1998ء سے 2007ء تک مجلس عاملہ جماعت احمدیہ ضلع کراچی میں سیکرٹری امور خارجہ کے طور پر بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ ان کو عبوری حکومت کے دوران صوبائی وزیر بننے کا بھی موقع ملا۔
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کو انہوں نے خط لکھا اور یہ خط بسم اللہ سے شروع کیا تھا جس پر ایک معاند مولوی نے ان کے خلاف پرچہ کروا دیا اور بڑا لمبا عرصہ یہ کیس بھگتتے رہے ۔ لیکن بہرحال ہمیشہ انہوں نے ہر ایک سے رحم کا سلوک کیا۔صلہ رحمی بہت زیادہ تھی۔ بلکہ یہاں تک کہ جس مولوی نے ان پر مقدمہ کیا تھا جب کیس ختم ہو گیا تو اس مولوی نے اپنے بعض حالات کی وجہ سے مالی مدد کی درخواست کی تو اس کو بھی انہوں نے ایک خطیر رقم دے دی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، ان کی اولادوں کو بھی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔
’’وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا‘‘(رسالہ الوصیت)
اللہ کے وعدوں کے مطابق ہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی آپؑ کی بنائی ہوئی جماعت میں خلافت کا نظام جاری ہوا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا اظہار ہے جس کی وجہ سے ہم ہر سال دنیا میں ہر جگہ جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے 27؍مئی کو یوم خلافت مناتے ہیں
دورِ خلافتِ خامسہ میں درجنوں ملکوں میں احمدیت کا پودا لگا۔ درجنوں ملکوں میں جماعت احمدیہ کا باقاعدہ نظام قائم ہوا۔ سینکڑوں شہروں اور قصبوں میں خود اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی راہنمائی کر کے خلافت کی تائید و نصرت کے نظارے دکھا کر لوگوں کے دلوں میں خلافت سے تعلق کا جذبہ پیدا کر کے مخلصین کی جماعتوں کے قیام کے سامان پیدا فرمائے اور یہ نظارے اللہ تعالیٰ دکھاتا چلا جا رہا ہے
خلافت خامسہ کا دَور ہے تو اس میں جماعت ترقی کی منازل طے کرتی چلی جا رہی ہے۔ دشمن کی بھرپور کوششوں کے باوجود جماعت آگے سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس پیشگوئی کو پورا ہوتادیکھنے والے ہیں۔پس جو حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کی جماعت کے ساتھ جُڑے رہنے والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ
دنیاوی طور پر اب کوئی جتنا چاہے زور لگا لے کبھی خلافت کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے علیحدہ ہو کر نہیں ہو سکتا
27؍ مئی یومِ خلافت کی مناسبت سے دنیا بھر میں خلافتِ حقّہ اسلامیہ احمدیہ کی برکات اور اس کی تائید پر مشتمل بعض ایمان افروز واقعات کا پُر اثربیان
مکرم چودھری محمد ادریس نصر اللہ خان صاحب آف کینیڈا اور مکرم کنور ادریس صاحب آف کراچی کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
فرمودہ 24؍ مئی 2024ء بمطابق 24؍ ہجرت 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔