حضرت محمد رسول اللہﷺ: اُسوۂ حسنہ
خطبہ جمعہ 7؍ جون 2024ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج جس سریہ کا ذکر کروں گا وہ
سَرِیَّہ حضرت مُنذِر بن عَمروؓ یا سریہ بئر معونہ
کہلاتا ہے۔ یہ دردناک حادثہ بھی 4ہجری میں ہوا۔ بعض کے نزدیک یہ سریہ رجیع سے پہلے اور بعض کے نزدیک رجیع کے بعد ہوا۔ یہ واقعہ بھی سریہ رجیع کی طرح دشمن کی بدعہدی اور سفاکی کا بدترین نمونہ ہے۔
اس سَرِیَّہ کو سریہ بئر مَعُونَہ کہا جاتا ہے۔ بئر مَعُونہ مکہ سے مدینہ جانے والے راستے پر بنوسُلَیم کے علاقے میں ایک کنواں تھا اور اسی نام کا علاقہ بھی تھا۔ اسی وجہ سے اس کا نام سریہ بئر معونہ مشہور ہوا۔ اس سریہ کے امیر حضرت مُنْذِر بن عَمروؓ تھے اس لیے اس کو سریہ حضرت مُنذِر بن عَمروؓ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اسے سَرِیَّۃُ الْقُرّاءکے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔
سریہ بئر معونہ میں روانہ ہونے والے سب صحابہؓ نوجوان تھے۔ قرآن کے قاری ہونے کی وجہ سے لوگ انہیں قرّاء کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 6 صفحہ 57 دارالکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد6صفحہ491،487 دارالسّلام ریسرچ سنٹر)(فرہنگ سیرت صفحہ69زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)
اس سریہ کے پس منظر کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’قبائل ِسُلَیم وغَطْفَان… یہ قبائل عرب کے وسط میں سطح مرتفع نجد پر آباد تھے اورمسلمانوں کے خلاف قریش مکہ کے ساتھ ساز باز رکھتے تھے اور آہستہ آہستہ ان شریر قبائل کی شرارت بڑھتی جاتی تھی اور سارا سطح مرتفع نجد اسلام کی عداوت کے زہر سے مسموم ہوتا چلا جا رہا تھا۔ چنانچہ‘‘ لکھا ہے کہ’’ ان ایام میں جن کا ہم اس وقت ذکر کررہے ہیں ایک شخص ابوبَرَاء عَامِری جووسط عرب کے قبیلہ بنو عامر کا ایک رئیس تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ آپؐ نے بڑی نرمی اورشفقت کے ساتھ اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی اور اس نے بھی بظاہرشوق اور توجہ کے ساتھ آپؐ کی تقریر کو سنا مگر مسلمان نہیں ہوا۔ البتہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا کہ آپؐ میرے ساتھ اپنے چند اصحاب نجد کی طرف روانہ فرمائیں جووہاں جا کر اہل نجد میں اسلام کی تبلیغ کریں اور مجھے امید ہے کہ نجدی لوگ آپؐ کی دعوت کو ردّ نہیں کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا:مجھے تو اہلِ نجد پراعتماد نہیں ہے۔ ابوبَرَاء نے کہا کہ آپؐ ہرگز فکر نہ کریں۔ مَیں ان کی حفاظت کاضامن ہوتا ہوں۔‘‘ جو لوگ آپ بھیجیں گے۔ ’’چونکہ ابوبَرَاء ایک قبیلہ کا رئیس اور صاحبِ اثر آدمی تھا آپؐ نے اس کے اطمینان دلانے پر یقین کر لیا اور صحابہؓ کی ایک جماعت نجد کی طرف روانہ فرمادی۔ یہ تاریخ کی روایت ہے۔
بخاری میں آتا ہے کہ قبائل رِعْل اور ذَکْوَان وغیرہ (جومشہور قبیلہ بنو سُلَیم کی شاخ تھے) ان کے چند لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کا اظہار کرکے درخواست کی کہ ہماری قوم میں سے جولوگ اسلام کے دشمن ہیں ان کے خلاف ہماری امداد کے لئے… چندآدمی روانہ کئے جائیں۔‘‘ یہاں یہ تشریح نہیں آئی کہ کس قسم کی امداد تھی۔تبلیغی یافوجی۔ بہرحال ’’جس پر آپؐ نے یہ دستہ روانہ فرمایا۔ بد قسمتی سے بئر مَعُونہ کی تفصیلات میں بخاری کی روایات میں بھی کچھ خلط واقع ہوگیا ہے جس کی وجہ سے حقیقت پوری طرح متعین نہیں ہوسکتی مگربہرحال اس قدر یقینی طورپر معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر قبائل رِعل اور ذَکْوَان وغیرہ کے لوگ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تھے اورانہوں نے یہ درخواست کی تھی کہ چند صحابہؓ ان کے ساتھ بھجوا ئے جائیں۔ان دونوں روایتوں کی مطابقت کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ رعل اور ذکوان کے لوگوں کے ساتھ ابوبَرَاء عامری رئیس قبیلہ عامر بھی آیا ہو اور اس نے ان کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بات کی ہو۔ چنانچہ تاریخی روایات کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمانا کہ مجھے اہلِ نجد کی طرف سے اطمینان نہیں ہے اور اس کا یہ جواب دینا کہ آپؐ کوئی فکر نہ کریں۔ مَیں اس کا ضامن ہوتا ہوں کہ آپؐ کے صحابہؓ کوکوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ابوبَرَاء کے ساتھ رِعل اورذکوان کے لوگ بھی آئے تھے جن کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فکر مند تھے۔ واللہ اعلم۔بہرحال
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صَفر4ہجری میں مُنذِر بن عَمروانصاری ؓکی امارت میں صحابہؓ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی۔ یہ لو گ عموماًانصار میں سے تھے اور تعداد میں ستر تھے اور قریباًسارے کے سارے قاری یعنی قرآن خوان تھے۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 517تا 518)
اس بارے میں ایک مصنف لکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر آن، ہر گھڑی یہی تمنا دامن گیر رہتی تھی کہ اللہ کا دین ساری دنیا میں غالب آ جائے۔ سب لوگ اسلام کے سایۂ عاطفت میں آ جائیں اور ایک اللہ کی بندگی اختیار کر لیں تا کہ وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جائیں۔ اسی لیے آپؐ دین کی دعوت و تبلیغ کے فرض کو بےحد اہمیت دیتے تھے اور اس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے اور بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نجد کے اوباش دیہی باشندوں سے خطرہ لاحق ہونے کے باوجود آپؐ نے اللہ پر توکل کیا اور ابوبَرَاء کی یقین دہانی پر صحابہؓ کی ایک عظیم جماعت ان کی طرف روانہ فرما دی۔ اتنا بڑا اقدام آپؐ نے محض دعوت و تبلیغ کا فرض پورا کرنے اور اسلام کی نشر و اشاعت کا مقدس کام آگے بڑھانے کے لیے کیا۔(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 6صفحہ 490-491 دارالسّلام ریسرچ سنٹر)
بہرحال امیر لشکر حضرت مُنذِر بن عَمروؓ بنو سلیم کے ایک رہبر مُطَّلِب سُلَمِی کے ہمراہ نکلے۔ جب وہ بئرمعونہ پر پہنچے تو خیمے لگا لیے اور حضرت عَمرو بن امیہ ضَمْرِیؓ کی نگرانی میں اپنی سواری کے جانور چرنے کے لیے چھوڑ دیے۔ ان کے ہمراہ حارث بن صِمَّہؓبھی تھے۔ ابنِ ہشام نے حارث کی جگہ مُنذِر بن محمد کا نام لکھا ہے۔(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 6صفحہ 58 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اس سَریہ کے تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مکتوب کا بھی ذکر ملتا ہے جو آپؐ نے عامر بن طفیل کے نام لکھا تھا۔
اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کی جماعت کو عامر بن طفیل کے نام ایک مکتوب گرامی بھی عنایت فرمایا تھا۔ یہ ابوبَرَاء عامر بن مالک کا بھتیجا اور بنو عامر کے سرداروں میں سے ایک متکبر اور مغرور سردار تھا۔ اس کا ماجرا یہ تھا کہ یہ شخص اپنے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی حقانیت اور صداقت کا معترف تھا اور یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ عنقریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے جزیرہ نما عرب پر غلبہ اور اقتدار حاصل ہو جائے گا لیکن دریں اثنا خود اپنی حکمرانی کے خواب دیکھنے لگا۔ اس کے ذہن میں یہ شیطانی سوچ انگڑائیاں لینے لگی کہ کیوں نہ مَیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر پہلے ہی سے کوئی سودے بازی کر لوں۔ چنانچہ وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مَیں آپ کو اختیار دیتا ہوں کہ بادیہ نشینوں پر آپ کی اور شہر کے رہنے والوں پر میری حکومت ہو یا آپ کے بعد مَیں آپ کا خلیفہ اور جانشین بنوں یا مَیں غطفان کے ایک ہزار سرخ و زرد گھوڑوں اور ایک ہزار اونٹنیوں کے جتھے کے ساتھ آپ سے لڑوں گا۔ تین شرطیں اس نے پیش کیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن طفیل کے یہ جاہلانہ مطالبے مسترد کر دیے۔ کوئی بات نہیں مانی۔ وہ نامراد ہو کر لوٹ گیا۔
سریہ بئر معونہ کے موقع کی مناسبت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ اسے دین کی دعوت دی جائے۔ چنانچہ آپؐ نے خاص طور پر اس کے نام ایک مکتوب گرامی صحابہؓ کے ہاتھ روانہ فرمایا۔(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد6صفحہ 492-493 دارالسّلام ریسرچ سنٹر)
امیر لشکر حضرت مُنذِر بن عَمروؓ نے حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب دے کر قبیلہ بنو عامر کے سردار عامر بن طفیل کی طرف بھیجا۔(سبل الہدیٰ والرشاد جلد6صفحہ 58 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ کے اس خط لے جانے کی تفصیل میں لکھا ہے کہ حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ نے اپنے ساتھ دو اَور ساتھیوں کو لیا جن میں سے ایک صحابی ایک ٹانگ سے معذور تھے۔ ان کا نام کعب بن زید تھا جبکہ دوسرے ساتھی کے نام کے بارےمیں اکثر سیرت نگار خاموش ہیں البتہ بخاری کی ایک شرح فتح الباری میں زیرِ باب غزوة الرجیع میں اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے دوسرے ساتھی کا نام مُنذِر بن محمد بیان کیا ہے۔ بہرحال یہ تینوں افراد چل پڑے۔
حضرت حرامؓ نے اپنے دونوں ساتھیوں کو پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ تم میرے قریب ہی رہنا۔ مَیں ان کے پاس جاتا ہوں اگر انہوں نے مجھے امان دے دی تو ٹھیک ہے اور اگر مجھے قتل کر دیا گیا تو آپ دونوں اپنے ساتھیوں کے پاس واپس چلے جانا۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 7صفحہ 156بزم اقبال لاہور)(فتح الباری جلد 7 صفحہ448 دار الریان للتراث القاھرۃ 1986ء)
اس کے بعد وہ خود بے دھڑک اللہ کے دشمن عامر بن طفیل کے پاس چلے گئے۔ وہ بنو عامر کے کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ حرام نے ان سب کو مخاطب کر کے کہا کیا تم مجھے اس امر پر امان دیتے ہو کہ مَیں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب گرامی پہنچا دوں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ ہم آپ کو امان دیتے ہیں۔ حرام ان سے گفتگو کرنے لگے۔ موسیٰ بن عقبہ کی روایت میں ہے کہ حرام ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پڑھنے لگے۔ تاریخ طبری میں ہے کہ حرام نے ان لوگوں سے خطاب فرماتے ہوئے کہا:
اے بئر معونہ والو! مَیں تمہارے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرستادہ بن کر آیا ہوں۔ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ۔
ابھی حرام کی یہ مبارک گفتگو جاری ہی تھی کہ وہاں موجود لوگوں نے اپنے خُبثِ باطن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کر دیا وہ فوراً حرام کی پشت کی طرف جا پہنچا اور ان پر نیزے کا وار کیا جو ان کے جسم کے آر پار ہو گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حرام خط لے کر عامر بن طفیل کے پاس گئے تو اس ظالم نے خط دیکھنا بھی گوارانہیں کیا اور ان پر حملہ کر کے انہیں شہید کر ڈالا۔(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد 6صفحہ 494۔495 دارالسّلام ریسرچ سنٹر)
بہرحال جب حضرت حَرَامؓ کے آنے میں دیر ہوئی تو مسلمان ان کے پیچھے آئے۔ کچھ دُور جا کر ان کا سامنا اس جتھے سے ہوا جو حملہ کرنے کے لیے آ رہا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو گھیر لیا۔ دشمن تعداد میں بھی زیادہ تھے۔ جنگ ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ شہید کر دیے گئے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 2صفحہ 40 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
اس سریہ میں
حضرت عامر بن فُہَیْرَہؓ کی شہادت
کا ذکر یوں ملتا ہے: یہ حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ ہجرتِ مدینہ میں شامل تھے۔ یہ بھی بئر معونہ کے وقت میں شہید ہوئے تھے۔ جب وہ لوگ بئر معونہ میں قتل کیے گئے اور حضرت عَمرو بن امیہ ضَمْرِی ؓقیدکیے گئے تو عامر بن طفیل نے ان سے پوچھا یہ کون ہے؟ اور اس نے ایک مقتول کی طرف اشارہ کیا تو عَمرو بن امیہ نے جواب دیا کہ یہ عامر بن فُہَیْرَہ ہیں۔ عامر بن طفیل نے کہا کہ مَیں نے عامر بن فُہَیْرَہ کو دیکھا کہ وہ قتل کیے جانے کے بعد آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں۔ یہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ تب اس نے یہ نظارہ دیکھا۔ یہاں تک کہ مَیں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ آسمان ان کے اور زمین کے درمیان ہے۔ پھر وہ زمین پر اتارے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی خبر پہنچی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل کیے جانے کی خبر صحابہؓ کو دی اور فرمایا تمہارے ساتھی شہید ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے ربّ سے دعا کی ہے کہ اے ہمارے رب! ہمارے متعلق ہمارے بھائیوں کو بتا کہ ہم تجھ سے خوش ہو گئے اور تُو ہم سے خوش ہو گیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق بتا دیا۔ صحیح بخاری کی یہ روایت ہے۔
حضرت عامر بن فُہَیْرَہؓ کو کس نے شہید کیا، اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ آپؓ کو عامر بن طفیل نے شہید کیا جبکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ کو جَبَّار بن سَلْمیٰ نے شہید کیا۔(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع… حدیث 4093)(الاستیعاب جلد 2 صفحہ 796 دار الجیل بیروت 1992ء)(الاستیعاب جلد 1 صفحہ 229-230 دار الجیل بیروت 1992ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عامر بن فُہَیْرَہؓ کی شہادت کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’اسلام نے تلوار کے زور سے فتح نہیں پائی بلکہ اسلام نے اس اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ سے فتح پائی ہے جو دلوں میں اتر جاتی تھی اور اخلاق میں ایک اعلیٰ درجہ کا تغیر پیدا کر دیتی تھی۔
ایک صحابی کہتے ہیں میرے مسلمان ہونے کی وجہ محض یہ ہوئی کہ مَیں اس قوم میں مہمان ٹھہرا ہوا تھا جس نے غداری کرتے ہوئے مسلمانوں کے ستّر قاری شہید کر دیے تھے۔ جب انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو کچھ تو اونچے ٹیلے پر چڑھ گئے اورکچھ ان کے مقابلہ میں کھڑے رہے۔ چونکہ دشمن بہت بڑی تعداد میں تھا اور مسلمان بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی نہتے اور بے سروسامان تھے اِس لئے انہوں نے ایک ایک کرکے تمام مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ آخر میں صرف ایک صحابی رہ گئے جو ہجرت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے ان کا نام عامر بن فُہَیْرَہؓ تھا۔ بہت سے لوگوں نے مل کر ان کو پکڑ لیا اورایک شخص نے زور سے نیزہ ان کے سینہ میں مارا۔ نیزے کا لگنا تھا کہ ان کی زبان سے بے اختیار یہ فقرہ نکلا کہ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، کعبہ کے رب کی قسم! مَیں کامیاب ہو گیا۔ ‘‘ یہ بیان کرنے والا لکھتا ہے جو اس وقت مسلمان نہیں تھے کہ ’’جب مَیں نے ان کی زبان سے یہ فقرہ سنا تو مَیں حیران ہوا اور مَیں نے کہا یہ شخص اپنے رشتہ داروں سے دُور، اپنے بیوی بچوں سے دُور، اتنی بڑی مصیبت میں مبتلا ہوا اور نیزہ اِس کے سینہ میں مارا گیا مگر اِس نے مرتے ہوئے اگر کچھ کہا تو صرف یہ کہ ’’کعبہ کے رب کی قسم! مَیں کامیاب ہو گیا۔‘‘ کیا یہ شخص پاگل تو نہیں؟ چنانچہ‘‘ کہنے لگا کہ ’’مَیں نے بعض اَور لوگوں سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے اور اس کے منہ سے ایسا فقرہ کیوں نکلا؟ انہوں نے کہا تم نہیں جانتے یہ مسلمان لوگ واقعہ میں پاگل ہیں۔ جب یہ خداتعالیٰ کی راہ میں مرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ خداتعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور انہوں نے کامیابی حاصل کر لی۔‘‘ کہتا ہے کہ ’’میری طبیعت پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ مَیں ان لوگوں کا مرکز جا کر دیکھوں گا اور خود ان لوگوں کے مذہب کا مطالعہ کروں گا۔ چنانچہ‘‘ کہنے لگا کہ ’’مَیں مدینہ پہنچا اور مسلمان ہو گیا‘‘تعلیم سُن کے۔ ’’صحابہؓ کہتے ہیں کہ
اِس واقعہ کا کہ ایک شخص کے سینہ میں نیزہ مارا جاتا ہے اور وہ وطن سے کوسوں دُور ہے۔ اس کاکوئی عزیز اور رشتہ دار اس کے پاس نہیں اور اس کی زبان سے یہ نکلتا ہے کہ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ اس کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ جب وہ یہ واقعہ سنایا کرتا اور فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ کے الفاظ پر پہنچتا تھا تو اِس واقعہ کی ہیبت کی وجہ سے یکدم اس کا جسم کانپنے لگ جاتا اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔
تو اسلام اپنی خوبیوں کی وجہ سے پھیلا ہے‘‘ آپؓ نے فرمایا۔’’زور سے نہیں۔‘‘ پھیلا۔( سیر روحانی، انوارالعلوم جلد 22صفحہ250-251)
حضرت عامر بن فُہَیْرَہؓکی شہادت کے وقت ان کے منہ سے جو الفاظ نکلے ہیں ان میں فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ اور فُزْتُ وَاللّٰہِ۔دونوں الفاظ ملتے ہیں۔ دونوں روایتیں ہیں اور یہ الفاظ اَور صحابہؓ کے منہ سے بھی نکلے تھے۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے ذکر بھی فرمایا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ جنگوں میں اس طرح جاتے تھے کہ ان کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جنگ میں شہید ہونا ان کے لئے عین راحت اور خوشی کا موجب ہے اور اگر ان کو لڑائی میں کوئی دکھ پہنچتا تھا تو وہ اس کو دکھ نہیں سمجھتے تھے بلکہ سکھ خیال کرتے تھے۔ چنانچہ
صحابہؓ کے کثرت کے ساتھ اس قسم کے واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں کہ انہوں نے خدا کی راہ میں مارے جانے کو ہی اپنے لئے عین راحت محسوس کیا۔
مثلاً وہ حفاظ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وسط عرب کے ایک قبیلہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجے تھے ان میں سے حَرَام بن مِلْحَان اسلام کا پیغام لےکر قبیلہ عامر کے رئیس عامر بن طفیل کے پاس گئے اور باقی صحابہؓ پیچھے رہے۔ شروع میں تو عامر بن طفیل اور اس کے ساتھیوں نے منافقانہ طور پر ان کی آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور تبلیغ کرنے لگے تو ان میں سے بعض شریروں نے ایک خبیث کو اشارہ کیا اور اس نے اشارہ پاتے ہی حَرَام بن مِلْحَان پر پیچھے سے نیزہ کا وار کیا اور وہ گرگئے۔ گرتے وقت ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔یعنی مجھے کعبہ کے رب کی قَسم! مَیں نجات پاگیا۔ پھر ان شریروں نے باقی صحابہؓ کا محاصرہ کیا اور ان پر حملہ آور ہو گئے۔ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام عامر بن فُہَیْرَہؓجو ہجرت کے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان کے متعلق ذکرآتا ہے بلکہ خود ان کا قاتل جو بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجہ ہی یہ بیان کرتا تھا کہ جب مَیں نے عامر بن فُہَیْرَہؓکو شہید کیا تو اُن کے منہ سے بےساختہ نکلا فُزْتُ وَاللّٰہِ۔ یعنی خدا کی قَسم! مَیں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ صحابہؓ کے لئے موت بجائے رنج کے خوشی کا موجب ہوتی تھی۔‘‘(ایک آیت کی پُر معارف تفسیر، انوار العلوم جلد 18 صفحہ612-613)
حضرت عامر بن فُہَیْرَہؓ کو شہید کرنے والے جَبَّار بن سَلْمیٰ جو کہ بعد میں مسلمان ہو گئے تھے بیان کرتے ہیں کہ جس چیز نے مجھے اسلام کی طرف کھینچا وہ یہ ہے کہ مَیں نے بئر معونہ کے دن عامر بن فُہَیْرَہکو دونوں کندھوں کے درمیان تاک کر نیزہ مارا اور مَیں نے نیزے کی اَنی ان کے سینے سے پار ہوتی دیکھی۔ پھر معاً بعد
مَیں نے انہیں یہ کہتے سنا۔ فُزْتُ وَاللّٰہِ کہ اللہ کی قسم! مَیں کامیاب ہو گیا۔ یہ الفاظ میرے کانوں سے اتر کر میرے دل میں اتر گئے۔ مَیں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر ان الفاظ کا کیا مطلب ہوگا؟ بھلا انہیں کون سی کامیابی ملی؟ مَیں نے تو انہیں قتل کیا ہے۔
مَیں اسی شش و پنج میں ایک مسلمان شخص ضَحَّاکبن سفیان کِلَابِیکے پاس گیا۔ انہیں سارا واقعہ سنایا اور ان الفاظ کا مطلب پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کامیابی سے مراد جنت کو پا لینا ہے۔ یہ سن کر مَیں نے کہا کہ واقعی اللہ کی قسم! وہ کامیاب ہو گئے اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو مَیں نے اسلام قبول کر لیا۔(اسدالغابہ جلد 1 صفحہ 504-505 دارالکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد6 صفحہ 502-503 دارالسّلام ریسرچ سنٹر)
اس سریہ بئر معونہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’جب یہ لوگ اس مقام پر پہنچے جوایک کنوئیں کی وجہ سے بئر معونہ کے نام سے مشہور تھا توان میں سے ایک شخص حَرَام بن مِلْحَان جوانس بن مالک کے ماموں تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوتِ اسلام کا پیغام لے کر قبیلہ عامر کے رئیس اورابوبَرَاء عَامِرِی کے بھتیجے عامر بن طفیل کے پاس آگے گئے اور باقی صحابہؓ پیچھے رہے۔ جب حَرَام بن مِلْحَان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کے طور پر عامر بن طفیل اور اس کے ساتھیوں کے پاس پہنچے تو انہوں نے شروع میں تو منافقانہ طور پر آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہوکربیٹھ گئے‘‘ یعنی حَرَام بن مِلْحَان جب مطمئن ہو گئے ’’اور اسلام کی تبلیغ کرنے لگے توان میں سے بعض شریروں نے کسی آدمی کواشارہ کرکے اس بے گناہ ایلچی کو پیچھے کی طرف سے نیزہ کاوار کرکے وہیں ڈھیر کر دیا۔ اس وقت حَرَام بن مِلْحَان کی زبان پریہ الفاظ تھے۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ یعنی ’’اللہ اکبر کعبہ کے رب کی قَسم! مَیں تو اپنی مراد کوپہنچ گیا۔‘‘ عامر بن طفیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کے قتل پرہی اکتفاء نہیں کی بلکہ اس کے بعد اپنے قبیلہ بنوعامر کے لوگوں کو اکسایا کہ وہ مسلمانوں کی بقیہ جماعت پر حملہ آور ہوجائیں مگر انہوں نے اس بات سے انکار کیا اور کہا کہ ہم ابوبَرَاء کی ذمہ داری کے ہوتے ہوئے مسلمانوں پرحملہ نہیں کریں گے۔ اس پر عامر نے قبیلہ سُلَیم میں سے بَنُورِعل اور ذکوان اور عُصَیَّہ وغیرہ کو (وہی جو بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد بن کر آئے تھے) اپنے ساتھ لیا اوریہ سب لوگ مسلمانوں کی اس قلیل اوربے بس جماعت پرحملہ آور ہوگئے۔ مسلمانوں نے جب ان وحشی درندوں کو اپنی طرف آتے دیکھا، تو ان سے کہا کہ ہمیں تم سے کوئی تعرض نہیں۔ ہم تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک کام کے لئے آئے ہیں اورہم تم سے لڑنے کے لئے نہیں آئے۔ مگر انہوں نے ایک نہ سنی اورسب کوتلوار کے گھاٹ اتاردیا۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 518تا 519) ظالموں کا ہمیشہ یہی وطیرہ رہا ہے۔
بئر معونہ کے شہداء
کے بارے میں لکھا ہے کہ اہل مغازی کا اتفاق ہے کہ اس سریہ میں حضرت عَمرو بن امیہ ضَمْرِیؓ اور کعب بن زیدؓ کے علاوہ باقی سارے صحابہ کرامؓ کو شہید کر دیا گیا تھا۔ حضرت کعب بن زیدؓ بئر معونہ کے دن زخمی ہوئے اور خندق کے دن فوت ہوئے اور حضرت عَمرو بن امیہؓ عہد معاویہ میں فوت ہوئے۔ اس سریہ میں شامل ہونے والے تمام صحابہ کرامؓ کے اسماء سیرت و تاریخ کی کتب میں درج نہیں ہیں تاہم انہوں نے انتیس کے قریب شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ کے اسماء درج کیے ہیں۔ اس وقت مَیں یہ نام نہیں لیتا۔ جب اشاعت ہو گی تو اس وقت وہاں چھپ جائیں گے۔ لمبی فہرست ہے۔ یہ انتیس نام درج ذیل ہیں:
1۔حضرت عامر بن فُہَیْرَہؓ 2۔حضرت حَکَم بن کَیْسَانؓ، 3۔حضرت مُنْذِر بن محمدؓ، 4۔حضرت ابو عُبَيْدة بن عَمْرْوؓ، 5۔حضرت حَارِث بن صِمَّہؓ، 6۔حضرت اُبَیّ بن معاذؓ، 7۔حضرت اَنَس بن معاذؓ، 8۔حضرت ابو شیخ بن اَبِی ثابتؓ، 9۔حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ، 10۔حضرت سُلَیْم بن مِلْحَان، 11۔حضرت سفیان بن ثابتؓ، 12۔حضرت مالک بن ثابتؓ، 13۔حضرت عُرْوَہ بن اَسماءؓ بن صَلْت، 14۔حضرت قُطْبَہبن عبد عَمْروؓ، 15۔حضرت مُنْذِر بن عَمْروؓ، 16۔حضرت مُعَاذ بن مَاعِصؓ، 17۔حضرت عَائِذ بن مَاعِصؓ، 18۔حضرت مسعود بن سعدؓ، 19۔حضرت خالد بن ثابِتؓ، 20۔حضرت سُفْیَان بن حَاطِب ؓ، 21۔حضرت سَعْد بن عَمْروؓ، 22۔حضرت طُفَیْل بن سعدؓ، 23۔حضرت سَہْل بن عامرؓ، 24۔حضرت عبد اللہ بن قیسؓ، 25۔حضرت نافع بن بُدَیْل بن وَرْقَاء ؓ، 26۔ حضرت ضَحَّاک بن عَبْدِ عَمْرْوؓ۔یہ حضرت قُطْبَہؓکے بھائی تھے۔، 27۔ حضرت عُمَیْر بن مَعْبَد ؓ۔علامہ ابن اسحاق نے ان کا نام عَمْرْو بتایا ہے۔، 28۔ حضرت خالد بن کَعْب ؓ، 29۔ حضرت سُہَیْل بن عَامِر ؓ۔(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 6 صفحہ 61-63 دارالکتب العلمیۃ، اسدالغابہ جلد 4 صفحہ182 دار الکتب العلمیۃ)
بہرحال زندہ بچ جانے والے صحابہؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ اس سریہ میں شامل ہونے والے صحابہؓ میں سے دو افراد حضرت عَمرو بن امیہ ضَمْرِیؓ اور حضرت مُنذِر بن محمدؓ، بعض سیرت نگاروں کے نزدیک مُنذِر کی بجائے حارث بن صمہ تھے۔ ’’اس وقت اونٹوں وغیرہ کے چَرانے کے لئے اپنی جماعت سے الگ ہو کر اِدھر اُدھر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے دُور سے اپنے ڈیرہ کی طرف نظر ڈالی توکیا دیکھتے ہیں کہ پرندوں کے جُھنڈ کے جُھنڈہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ وہ ان صحرائی اشاروں کوخوب سمجھتے تھے۔ فوراً تاڑ گئے کہ کوئی لڑائی ہوئی ہے۔ واپس آئے تو ظالم کفار کے کشت وخون کا کارنامہ آنکھوں کے سامنے تھا۔ دُور سے ہی یہ نظارہ دیکھ کر انہوں نے فوراً آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ایک نے کہا کہ ہمیں یہاں سے فوراً بھاگ نکلنا چاہئے اورمدینہ میں پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دینی چاہئے مگر دوسرے نے اس رائے کو قبول نہ کیا اور کہا کہ مَیں تو اس جگہ سے بھاگ کرنہیں جاؤں گا جہاں ہمارا امیرمُنذِر بن عَمرو شہید ہوا ہے۔ چنانچہ وہ آگے بڑھ کر لڑا اور شہید ہوا۔‘‘ یہ سیرت خاتم النبیینؐ کا حوالہ ہے۔(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 519)(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 6صفحہ 499 دارالسّلام ریسرچ سنٹر)
حضرت عَمرو بن امیہ ضَمْرِیؓ کے علاوہ ایک اَور شخص بھی زندہ بچا جو پاؤں سے لنگڑا تھا۔ اس صحابی کا نام کعب بن زیدؓ تھا۔ بعض روایات سے پتہ لگتا ہے کہ کفار نے ان پر بھی حملہ کیا تھا۔ یہ حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ کے ساتھ تھے جس سے وہ شدید زخمی ہوئے اور کفار نے انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا حالانکہ شدید زخمی ہونے کے باوجود ان میں زندگی کی رمق باقی تھی۔ انہیں شہداء کی لاشوں کے درمیان میں سے اٹھا لیا گیا۔ اس کے بعد وہ زندہ رہے۔ بالآخر انہیں غزوہ خندق میں شہادت نصیب ہوئی۔(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 6صفحہ 499 دارالسّلام ریسرچ سنٹر)
حضرت عَمرو بن اُمَیَّہؓ کے گرفتار ہونے کے بارے میں
لکھا ہے کہ حضرت عَمرو بن امیہ ؓگرفتار ہو گئے اور مخالفین کے پوچھنے پر حضرت عَمروؓ نے بتایا کہ مَیں قبیلہ بنو مُضَر سے ہوں۔ اس پر عامر بن طفیل نے عَمرو کو پکڑا اور ان کی پیشانی کے بال کاٹ دیے۔ پھر انہیں اپنی ماں کی طرف سے آزاد کر دیا جس نے ایک غلام کو آزاد کرنے کی منت مان رکھی تھی۔ عرب جب کسی کو قیدی بناتے اور بعد میں اسے آزاد کرنے اور اس کے ساتھ احسان کرنے کا ارادہ کرتے تو اس کے پیشانی کے بال کاٹ دیتے تھے۔ اس کے بعد عَمرو بن امیہ وہاں سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ ایک سایہ دار جگہ پر پہنچ کر بیٹھ گئے۔ اسی وقت دو آدمی وہاں اور آئے اور حضرت عَمروؓ کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ عَمرو نے ان دونوں سے ان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہم بنو عامر سے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق انہوں نے خود کو بنوسُلَیم کا بتایا۔ ان دونوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ تھا جس کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امان دے رکھی تھی مگر عَمرو بن امیہ کو اس معاہدے کا پتہ نہیں تھا۔ عَمرو ان دونوں کے سونے کا انتظار کرنے لگے۔ جب انہیں نیند آ گئی تو عَمرو نے ان دونوں کو قتل کر دیا۔ ان کے ذہن میں اس وقت صرف یہ خیال تھا کہ انہوں نے ان کے ذریعہ بنو عامر سے صحابہؓ کا بدلہ لے لیاہے۔ اس کے بعد جب عَمرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ پہنچے اور آپؐ کو اس واقعہ کی اطلاع دی اور ان دونوں آدمیوں کو قتل کرنے کی خبر بھی سنائی تو آپؐ نے فرمایا: تم نے دو ایسے آدمیوں کو قتل کیا ہے جن کی ہمیں دیت ادا کرنی ہوگی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دیت ادا فرمائی۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کے قتل کے واقعہ کے متعلق فرمایا: یہ ابوبَرَاء کی حرکت ہے۔ مَیں اسی وجہ سے ناپسند کر رہا تھا کہ مَیں صحابہ ؓکو اس کے ہمراہ بھیجوں اور مجھے خدشہ لاحق تھا کہ کہیں یہ قبائل صحابہ ؓکو نقصان نہ پہنچائیں۔
جب ابوبَرَاء کو معلوم ہوا کہ اس کے بھتیجے عامر بن طفیل نے اس کی پناہ اور امان کو توڑ دیا تھا تو اس کو بہت صدمہ ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کا اس کی وجہ سے جو انجام ہوا اس سے اسےصدمہ ہوا۔ چنانچہ ابوبَرَاء کے بیٹے ربیعہ نے عامر بن طفیل پر حملہ کیا جو اس کا چچا زاد بھائی تھا۔ ربیعہ نے عامر کو نیزہ مارا جو اس کی ران میں لگا اور وہ اپنے گھوڑے سے گر پڑا۔عامر نے چِلَّا کر کہا کہ اگر مَیں مر گیا تو میرا خون ابوبَرَاء پر ہو گا اور اگر مَیں زندہ رہا تو مَیں اپنا معاملہ خود دیکھوں گا تاہم
عَمرو بن طفیل اس حملے کے بعد زندہ رہا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا پہنچی اور اسے طاعون کی بیماری لاحق ہو گئی جس کی وجہ سے وہ حالت کفر میں ہی مر گیا۔(سیرۃ الحلبیہ جلد3 صفحہ 242-243 دارالکتب العلمیۃ بیروت)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 7صفحہ 164 بزم اقبال لاہور)(التفسیر الکبیر لامام رازی جلد 9 جزء 18 صفحہ 12 دارالکتب العلمیۃ 2004ء)
بہرحال ابوبَرَاء بھی اس میں شریک ہے۔ شروع میں ان کو چاہیے تھا کہ آتے اور ان لوگوں کو روکتے۔ جہاں تک ابوبَرَاء یعنی عامر بن مالک کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں دونوں طرح کے اقوال ملتے ہیں۔ بعض علماء نے اسے صحابہؓ میں شمار کیا ہے جیساکہ ایک روایت میں ہے کہ ابوبَرَاء عامر بن مالک قبیلہ بنو بَکْر اور بنو جعفر کے پچیس افراد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن مالک اور ضحاک بن سفیان کِلَابی کو بنو بَکْر اور بنو جعفر پر عامل مقرر کر دیا۔ یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ یہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا جبکہ دوسرے قول کے مطابق ابوبَرَاء مسلمان نہیں ہوا تھا۔ بہرحال یہ دونوں طرح کی ہیں۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 3 صفحہ 485۔486 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ؓکوواقعہ رجیع اورواقعہ بئر معونہ کی اطلاع قریباً ایک ہی وقت میں ملی اور آپؐ کو اس کا سخت صدمہ ہوا۔ حتی ٰکہ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ ایسا صدمہ نہ اس سے پہلے آپؐ کو کبھی ہوا تھا اورنہ بعد میں کبھی ہوا۔ واقعی قریباً اسّی صحابیوں کااس طرح دھوکے کے ساتھ اچانک مارا جانا اورصحابی بھی وہ جو اکثر حفاظ قرآن میں سے تھے اورایک غریب بے نفس طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ عرب کے وحشیانہ رسم ورواج کومدنظر رکھتے ہوئے بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو یہ خبر گویا اسّی بیٹوں کی وفات کی خبر کے مترادف تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، کیونکہ ایک روحانی انسان کے لئے روحانی رشتہ یقیناً اس سے بہت زیادہ عزیز ہوتاہے جتنا کہ ایک دنیا دار شخص کودنیاوی رشتہ عزیز ہوتا ہے۔ پس
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوان حادثات کاسخت صدمہ ہوا، مگر اسلام میں بہرصورت صبرکاحکم ہے آپؐ نے یہ خبر سن کر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اورپھریہ الفاظ فرماتے ہوئے خاموش ہو گئے
کہ …’’یہ ابوبَرَاء کے کام کا ثمرہ ہے ورنہ مَیں تو ان لوگوں کے بھجوانے کوپسند نہیں کرتا تھا اوراہل نجد کی طرف سے ڈرتا تھا۔‘‘
واقعاتِ بئر معونہ اوررجیع سے قبائل عرب کے اس انتہائی درجہ کے بغض وعداوت کاپتہ چلتا ہے جووہ اسلام اورمتبعینِ اسلام کے متعلق اپنے دلوں میں رکھتے تھے۔ حتی ٰکہ ان لوگوں کواسلام کے خلاف ذلیل ترین قسم کے جھوٹ اوردغا اورفریب سے بھی کوئی پرہیز نہیں تھا اورمسلمان باوجود اپنی کمال ہوشیاری اور بیدار مغزی کے بعض اوقات اپنی مومنانہ حسن ظنی میں ان کے دام کا شکار ہوجاتے تھے۔ حفاظ قرآن، نماز گزار، تہجدخوان، مسجدکے ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کانام لینے والے اورپھر غریب مفلس فاقوں کے مارے ہوئے یہ وہ لوگ تھے جن کو ان ظالموں نے دین سیکھنے کے بہانے سے اپنے وطن میں بلایا اورپھر جب مہمان کی حیثیت میں وہ ان کے وطن میں پہنچے تو ان کو نہایت بے رحمی کے ساتھ تہ تیغ کر دیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان واقعات کا جتنا بھی صدمہ ہوتا کم تھا، مگر اس وقت آپؐ نے رجیع اوربئر معونہ کے خونی قاتلوں کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہیں فرمائی۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 520-521)
واقعہ رجیع اور واقعہ بئر معونہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک نماز میں قنوت فرمایا۔ ایک روایت کے مطابق رجیع کے واقعہ اور بئر معونہ کے سانحہ کی المناک خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی رات میں ملی تھی۔ ان دونوں واقعات میں صحابہ کرام ؓکو دھوکے اور غداری سے قتل کیا گیا تھا۔ رجیع میں صرف دس صحابہؓ تھے جبکہ سریہ بئر معونہ میں ستّر صحابہؓ تھے جن میں سے صرف دو باقی زندہ رہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بئر معونہ کے واقعہ پر اس قدر گہرا رنج اور ملال لاحق ہوا کہ اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے جس میں حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے کبھی نہیں دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بات پر اتنا قلق ہوا ہو جتنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہدائے بئر معونہ پر ہوا۔(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 6صفحہ 506 دارالسّلام ریسرچ سنٹر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینہ بھر نماز فجر میں قنوت فرمایا جس میں رِعل، ذکوان اور بَنُو لَحْیَان پر لعنت کرتے رہے۔(اسد الغابہ جلد 3صفحہ108 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رِعل اور ذکوان قبیلوں پر ایک ماہ تک بددعا کی۔(صحیح البخاری کتاب الوتر باب القنوت قبل الرکوع وبعدہ حدیث 1003)
صحیح مسلم میں دعا کے الفاظ اس طرح درج ہیں کہ
اے اللہ! بنو لَحْیَان، رِعل، ذکوان پر لعنت بھیج اور عُصَیَّہ پر جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کی۔ غِفَار قبیلے کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور اَسْلَم قبیلے کو اللہ سلامت رکھے۔(صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات…حدیث 1557)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ رجیع اور بئر معونہ کے سانحہ کی خبروں کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملنے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اس خبر کے آنے کی تاریخ سے لے کر برابر تیس دن تک آپؐ نے ہرروز صبح کی نماز کے قیام میں نہایت گریہ وزاری کے ساتھ قبائل رِعل اور ذکوان اور عُصَیَّۃ اور بنولَحْیَان کا نام لے لے کر خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی: اے میرے آقا! تُوہماری حالت پر رحم فرما اور دشمنانِ اسلام کے ہاتھ کو روک جوتیرے دین کو مٹانے کے لئے اس بے رحمی اورسنگدلی کے ساتھ بے گناہ مسلمانوں کاخون بہا رہے ہیں۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ521)
یہ سریہ بئر معونہ کا واقعہ ہے۔
جیساکہ مَیں ہمیشہ مظلوموں کے لیے تحریک کرتا ہوں۔
فلسطین کے مظلوموں کے لیے دعائیں جاری رکھیں۔
اللہ تعالیٰ ظالموں کی پکڑ کے جلد سامان پیدا فرمائے۔
معصوموں کو بھی اسی طرح قتل کیا جا رہا ہے جس طرح ان لوگوں کو،صحابہ ؓکو قتل کیا گیا اور دھوکے سے کبھی ایک جگہ بھیجا جاتا ہے، کبھی دوسری جگہ اور پھر وہاں بمباری کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
دنیا کی عمومی حالت کے لیے بھی دعا کریں۔
بڑی تیزی سے دنیا تباہی کی طرف جا رہی ہے اور جنگ کے آثار بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں کو جنگ کے بد اثرات سے اور اس کے شر سے محفوظ رکھے۔
پاکستانی احمدیوں کے لیے بھی خاص طور پر دعا کریں۔
آج کل پھر ان کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ان کو بھی ظالموں سے نجات دلائے۔
صحابہؓ کے کثرت کے ساتھ اس قسم کے واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں کہ انہوں نے خدا کی راہ میں مارے جانے کو ہی اپنے لئے عین راحت محسوس کیا
سَریہ بئر معونہ میں روانہ ہونے والے سب صحابہؓ نوجوان تھے۔ قرآن کے قاری ہونے کی وجہ سے لوگ انہیں قرّاء کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے
حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ نے کہا: اے بئرمَعُونَہ والو! مَیں تمہارے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرستادہ بن کر آیا ہوں۔ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ
’’اسلام نے تلوار کے زور سے فتح نہیں پائی بلکہ اسلام نے اس اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ سے فتح پائی ہے جو دلوں میں اتر جاتی تھی اور اخلاق میں ایک اعلیٰ درجہ کا تغیر پیدا کر دیتی تھی‘‘(حضرت مصلح موعودؓ)
عَمرو بن طفیل اس حملے کے بعد زندہ رہا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا پہنچی اور اسے طاعون کی بیماری لاحق ہو گئی جس کی وجہ سے وہ حالت کفر میں ہی مر گیا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوان حادثات کاسخت صدمہ ہوا، مگر اسلام میں بہرصورت صبرکاحکم ہے۔
آپؐ نے یہ خبر سن کر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اورپھر خاموش ہو گئے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان واقعات کا جتنا بھی صدمہ ہوتا کم تھا، مگر اس وقت آپؐ نے رجیع اوربئر معونہ کے خونی قاتلوں کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہیں فرمائی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینہ بھر نماز فجر میں قنوت فرمایا جس میں رعل، ذکوان اور بنو لحیان پر لعنت کرتے رہے
سریہ بئرمعونہ کے حالات و واقعات کا بیان نیز مظلوم فلسطینیوں، پاکستانی احمدیوں اور دنیا کے عمومی حالات کے لیے دعا کی تحریک
فرمودہ 07؍ جون 2024ء بمطابق 07؍ احسان 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔