حضرت محمد رسول اللہﷺ: اُسوۂ حسنہ

خطبہ جمعہ 21؍ جون 2024ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی بنو نضیر جو یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا ان کی سازش تھی، اس کا ذکر ہو رہا تھا۔ گذشتہ خطبہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ اس کی تفصیل بیان کروں گا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے منصوبے کو ناکام کیا جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا بنایا تھا۔

اس بارے میں لکھا ہے کہ

وحی کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سازش کا علم ہوا

اور اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ عمرو بن جَحَّاشْ جب چھت کے اوپر پہنچ گیا تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں کی سازش کی بذریعہ وحی خبر ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنے ساتھیوں کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر اس طرح روانہ ہو گئے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام ہے۔ اور آپؐ تیزی سے واپس مدینہ تشریف لے گئے۔ آپؐ کے صحابہؓ یہی سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی حاجت کے لیے تشریف لے گئے ہیں لیکن جب کچھ دیر ہو گئی تو صحابہؓ کو آپؐ کی فکر ہوئی اور وہ آپؐ کی تلاش میں اٹھے۔ راستے میں ان کو مدینہ سے آتا ہوا ایک شخص ملا۔ صحابہؓ نے اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا تو اُس نے کہا کہ مَیں نے آپؐ کو مدینہ میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔ صحابہؓ فوراً مدینہ آپؐ کے پاس پہنچے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ ؓکو بتایا کہ بنو نضیر نے کیا سازش کی تھی۔(سیرت حلبیہ جلد 2صفحہ 357 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2008ء)

دوسری طرف ابھی یہود آپس میں مشورہ ہی کر رہے تھے کہ ایک یہودی مدینہ سے آیا ۔ جب اس نے اپنے ساتھیوں کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق باہم مشاورت کرتے سنا تو اس نے کہا تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کر دیں اور آپؐ کے صحابہ کو گرفتار کر لیں۔ اس نے پوچھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں جو قریب ہی دوسری جگہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھی نے انہیں کہا کہ مَیں نے تو آپؐ کو دیکھا وہ مدینہ میں داخل ہو رہے تھے۔ اس پر وہ حیران رہ گئے۔(سبل الھدٰی والرشاد جلد 4 صفحہ318 دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1993ء)

ایک اَور سیرت نگار نے اس بارے میں لکھا ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو واپسی میں کچھ دیر ہو گئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے یہاں رکے رہنےسے کوئی فائدہ نہیں۔ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم آ گیا ہے۔ چنانچہ وہ سب وہاں سے چلنے لگے تو یہود کا سردار حُیِّی بنِ اَخْطَب کہنے لگا کہ ابوالقاسم نے جلدی کی ہے۔ ہم تو کھانے کی تیاری کر رہے تھے اور دیت کے لیے مشاورت کر رہے تھے۔ انہیں کھانا کھلا کر آپ کی ضرورت پوری کرنا چاہتے تھے۔ پھر جب صحابہ کرامؓ مدینہ کی طرف واپس آ رہے تھے تو انہیں ایک آدمی ملا۔ انہوں نے اس سے پوچھا کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے؟ اس نے بتایا کہ میری ابھی ابھی آپؐ سے ملاقات ہوئی ہے۔ آپؐ مدینہ میں داخل ہو رہے تھے۔ صحابہ کرامؓ وہاں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ وہاں سے تشریف لے آئے اور ہمیں معلوم ہی نہیں ہوا۔آپؐ نے فرمایا:

هَمَّتِ الْيَهُودُ بِالْغَدْرِ بِيْ، یہود نے میرے ساتھ دھوکے کا ارادہ کیا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی الٰہی کے مطابق جلد تشریف لے گئے۔ صحابہ کرامؓ کو آپؐ نے اس لیے کچھ نہیں بتایا کہ وہ خطرے کی زَد میں نہیں تھے۔ یہود کا اصل ہدف صرف آپؐ کی ذات تھی۔ اس لیے آپؐ مطمئن تھے کہ میرے صحابہؓ نہ صرف محفوظ و مامون رہیں گے بلکہ وہ میری تلاش میں جلدی نکل آئیں گے۔(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد 07صفحہ 40-41مکتبہ دار السلام ریاض 1435ھ)

کہتے ہیں اس وقت یہ آیت بھی نازل ہوئی کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ ہَمَّ قَوۡمٌ اَنۡ یَّبۡسُطُوۡۤا اِلَیۡکُمۡ اَیۡدِیَہُمۡ فَکَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ۔(المائدۃ:12)(سبل الھدٰی والرشاد جلد 4 صفحہ319 دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1993ء)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو۔ جب ایک قوم نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ وہ تمہاری طرف اپنے شر کے ہاتھ لمبے کریں گے مگر اس نے تم سے ان کے ہاتھوں کو روک لیا اور اللہ سے ڈرو اور چاہیے کہ اللہ ہی پر مومن توکل کریں۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ ’’انہوں نے‘‘ یعنی یہود نے ’’بظاہر آپؐ کے تشریف لانے پر خوشی کااظہار کیا اورکہا کہ آپؐ تشریف رکھیں۔ ہم ابھی اپنے حصہ کا روپیہ اداکئے دیتے ہیں۔ چنانچہ آپؐ مع اپنے چند اصحاب کے ایک دیوار کے سایہ میں بیٹھ گئے اور بنو نضیر باہم مشورہ کے لئے ایک طرف ہو گئے اور ظاہر یہ کیا کہ ہم روپے کی فراہمی کا انتظام کر رہے ہیں لیکن بجائے روپے کاانتظام کرنے کے انہوں نے یہ مشورہ کیا کہ یہ ایک بہت ہی اچھا موقعہ ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مکان کے سایہ میں دیوار کے ساتھ لگے بیٹھے ہیں کوئی شخص دوسری طرف سے مکان پرچڑھ جاوے اورپھر ایک بڑا پتھر آپؐ کے اوپر گرا کر آپؐ کا کام تمام کردے‘‘ نعوذ باللہ۔ ’’یہود میں سے ایک شخص سَلَّامْ بن مِشْکَمْ نے اس تجویز کی مخالفت کی اورکہا کہ یہ ایک غداری کافعل ہے اوراس عہد کے خلاف ہے جو ہم لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ کرچکے ہیں۔ مگر ان لوگوں نے نہ مانا اور بالآخر عَمرو بن جَحَّاش نامی ایک یہودی ایک بہت بھاری پتھر لے کر مکان کے اوپر چڑھ گیا اورقریب تھا کہ وہ اس پتھر کو اوپر سے لڑھکا دیتا۔ مگرروایت آتی ہے کہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے یہود کے اس بد ارادے سے بذریعہ وحی اطلاع دے دی اور آپؐ جلدی سے وہاں سے اٹھ آئے

اورایسی جلدی میں اٹھے کہ آپؐ کے اصحاب نے بھی اور یہود نے بھی یہ سمجھا کہ شاید آپؐ کسی حاجت کے خیال سے اٹھ گئے ہیں۔ چنانچہ وہ اطمینان کے ساتھ بیٹھے ہوئے آپؐ کا انتظار کرتے رہے لیکن آپؐ وہاں سے اٹھ کر سیدھے مدینہ میں تشریف لے آئے۔ صحابہ نے تھوڑی دیر آپؐ کا انتظار کیا لیکن جب آپؐ واپس تشریف نہ لائے تو وہ گھبراکراپنی جگہ سے اٹھے اور آپؐ کو اِدھر اُدھر تلاش کرتے ہوئے بالآخر خود بھی مدینہ پہنچ گئے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کویہود کی اس خطرناک سازش کی اطلاع دی۔‘‘(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 523)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد کی تفصیل میں یہودیوں کے رویے کے بارے میں لکھا ہے کہ یہود اپنے کیے پر بہت شرمندہ تھے۔ ایک یہودی کِنَانَہ بن صُوَیْرَاء یا صُورِیَّا نے کہا۔ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے کیوں اٹھ کر چلے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم! ہمیں تو معلوم نہیں تمہیں کچھ پتہ ہے تو بتا دو۔ اس نے کہا تورات کی قسم بلا شبہ مَیں جانتا ہوں کہ محمد کو خبر کر دی گئی ہے جو تم نے اس کے ساتھ دھوکے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ تم اب مزید اپنے آپ کو دھوکے میں نہ رکھو ۔ اللہ کی قسم! بلا شبہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ اٹھے بھی اس لیے ہیں کہ انہیں بذریعہ وحی بتا دیا گیا ہے کہ تم دھوکا دہیوں سے کام لینا چاہتے تھے۔ یقیناً وہ آخری نبی ہیں۔ تم چاہتے تھے کہ آخری پیغمبر ہارونؑ کی نسل سے آئے لیکن اللہ تعالیٰ نے جہاںسے چاہا انہیں مبعوث فرمایا۔ بلاشبہ ہماری کتابیں جنہیں ہم تورات میں پڑھتے ہیں وہ تبدیل نہیں ہوئیں۔ ان میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اس نبی کی پیدائش مکہ میں ہو گی اور وہ یثرب یعنی مدینہ میں ہجرت کرے گا۔ اس کی جو صفات ہماری کتاب تورات میں بیان کی گئی ہیں صرف اور صرف ان پر صادق آتی ہیں۔ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں خون خرابے کے سِوا کچھ نہیں ملے گا۔ تم اپنے اموال، جائیدادیں اور بچے روتے بلکتے چھوڑ جاؤ گے۔ اگر تم میری بات مان لو تو تمہارا شرف و وقار باقی رہے گا

میری دو باتیں مان لو ورنہ تیسری بات میں بھلائی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا وہ دو باتیں کیا ہیں؟ اس نے کہا کہ

پہلی بات

یہ کہ تم اسلام قبول کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی بن جاؤ گے تو تمہارے اموال اور تمہاری اولاد محفوظ رہے گی اور تم لوگ ان کے اونچے مقام والے ساتھیوں میں سے بن جاؤ گے اور اپنے گھروں سے نکالے نہیں جاؤ گے۔ یہود نے کِنَانَہ بن صُوْرِیَّا کی بات کا یہ جواب دیا کہ ہم تورات اور عہد موسیٰ کو نہیں چھوڑیں گے۔ کِنَانَہ نے کہا

دوسری بات

یہ ہے کہ تم لوگ انتظار کرو۔ عنقریب وہ تمہیں حکم دے گا کہ تم میرے شہر سے نکل جاؤ۔ اس پر تم لوگ کہنا ہاں۔ پھر وہ تمہارے خون اور تمہارے مال اپنے لیے حلال نہیں بنائے گا اور تمہارے مال اور جائیدادیں تمہارے لیے چھوڑ دے گا۔ چاہو تو بیچ دو اور چاہو تو اپنے پاس رکھ لو۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ سَلَّامْ بن مِشْکَمْ نے کہا تم لوگوں نے جو کہا مَیں مجبور ہو کر تمہارے ساتھ اس میں شریک ہوا۔ وہ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اب ہمیں پیغام بھیجنے والا ہے کہ تم اس علاقے سے نکل جاؤ۔ اے حُیَی! اس کی بات کے سامنے پس و پیش نہ کرنا ۔ اس سردار کو کہا۔ اور خوشی سے جلاوطنی قبول کر لینا اور اس کے شہر سے نکل جانا۔ اس پر حُیَّی نے کہا کہ مَیں ایسا ہی کروں گا اور اس جگہ سے چلا جاؤں گا۔(سبل الھدٰی والرشاد جلد 4 صفحہ319 دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1993ء)(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 7 صفحہ 42-43 مکتبہ دار السلام ریاض 1435ھ)

مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سازشوں کے متعلق کیا کارروائی فرمائی؟

اِس بارے میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی جلا وطنی کا حکم فرمایا لیکن انہوں نے فیصلہ ماننے سےانکار کیا۔ گو شروع میں یہی لکھا ہے لیکن بعد میں ان کا ارادہ بدل گیا اور انہوں نے مقابلے کی ٹھانی۔ اس کی مزید تفصیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچنے کے بعد حضرت محمد بن مسلمہ ؓکو بلا بھیجا۔ وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ

بنو نضیر کے یہود کے پاس جاؤ اور ان سے کہنا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری طرف یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ تم ان کے شہر سے نکل جاؤ۔(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد7صفحہ42-43مکتبہ دار السلام ریاض 1435ھ)

محمد بن مسلمہؓ بنو نضیر کے پاس پہنچ کر کہنے لگے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری طرف ایک پیغام دے کر بھیجا ہے لیکن وہ سنانے سے پہلے مَیں تمہیں ایک بات یاد دلاتا ہوں جس کا تم سب کو علم ہے۔انہوں نے پوچھا وہ کون سی بات ہے؟ محمد بن مسلمہؓ نے کہا تمہیں تورات کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا۔ تمہیں یاد ہو گا کہ قبل از اسلام مَیں ایک روز تورات لے کر آیا اور تمہارے سامنے پیش کی۔ تم نے کہا کھانا کھانا چاہتے ہو تو کھلائیں گے۔ یہودی بننا چاہتے ہو تمہیں یہودی بنا دیں گے۔ مَیں نے کہا تھا کہ اگر کھانا کھلاؤ گے تو کھا لوں گا۔ یہودی بننے کے لیے کہو گے تو یہ ناممکن ہے۔ پھر تم نے ایک طشت میں کھانا پیش کیا اور پوچھا کہ تم یہودی مذہب قبول کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ کیا تم ابراہیمی دین کے متلاشی ہو؟ کیا ابو عامر راہب دینِ ابراہیمی کا پیروکار نہیں ہے؟ اس دین والا نبی ہمارے پاس آنے والا ہے جس کی یہ نشانیاں ہیں۔ وہ ہنس مکھ ہو گا۔ دشمنانِ حق ملیامیٹ کرنے والا ہو گا۔ اس کی آنکھیں سرخی مائل ہوں گی۔ وہ یمن کی طر ف سے آئے گا۔ اونٹ پر سوار ہو گا۔سر پر عمامہ باندھ رکھا ہو گا۔ سوکھی روٹی کے ٹکڑے پر اکتفا کرنے والا ہو گا۔ اس کی گردن سے تلوار لٹکی ہو گی اور وہ حکمت و دانائی کی باتیں کرے گا۔ یہود نے کہا تم نے سب نشانیاں درست بتائی ہیں۔ ہم نے یہ باتیں تم سے کی تھیں لیکن یہ علامتیں اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں ہیں۔ اس پر محمد بن مسلمہؓ نے کہا جو بات مَیں تمہیں یاد کرانا چاہتا ہوں وہ یہی تھی۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سن لو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ جو معاہدہ تمہارے ساتھ کیا گیا تھا تم نے دھوکا بازی کر کے اسے توڑ دیاہے۔ عمرو بن جحاش نے چھت پر چڑھ کر پتھر پھینکنے کا سوچا تھا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی ؐکو باخبر کر دیا گیاہے۔ تم نے عہد شکنی کی ہے۔ یہ بات سن کر ان پر سکتہ طاری ہو گیا۔ محمد بن مسلمہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سناتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اُخْرُجُوا مِنْ بَلَدِىْ فَقَدْ أَجَّلْتُكُمْ عَشْرًا فَمَنْ رُّئِيَ بَعْدَ ذَالِكَ ضَرَبْتُ عُنُقَهٗ یعنی تم میرے شہر سے نکل جاؤ مَیں تمہیں دس دن کی مہلت دیتا ہوں۔ اگر اس کے بعد کوئی شخص نظر آیا تو مَیں اس کی گردن مار دوں گا۔ یہود نے کہا ہم یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اوس قبیلے کے کسی شخص سے ہم اس طرح کی بات سنیں گے۔ تم تو ہمارے حلیف تھے۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا کہ اب دل بدل گئے ہیں۔ اوس اور خزرج کے دلوں میں یہود سے محبت تھی مگر اسلام کے بعد اب وہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سن کر یہود نے جلا وطنی کی تیاری شروع کر دی۔ بنو نضیر کو چند ایام کی مہلت دے دی گئی تووہ جلاوطن ہونے کی تیاریاں کرنے لگے۔ ان کی سواریاں ذِیْ جَدْر مقام پر چراگاہ میں موجود تھیں۔ ذِیْ جَدْر قباء کے نواح میں مدینہ سے چھ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک چراگاہ تھی۔ یہ انہیں واپس لانے لگے انہوں نے قبیلہ اَشْجَعْ سے کچھ اونٹ بطور قرض لینے کا مطالبہ بھی کیا۔(دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہﷺ جلد 7 صفحہ 179-180بزم اقبال لاہور 2022ء)( فرہنگِ سیرت صفحہ 85 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)

یہود وہاں سے نکلنے کی تیاریوں میں تھے کہ اس دوران رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبَی بن سلول نے ایک چال چلی اوراس کی اس چال کی وجہ سے ان کے ارادے بدل گئے۔ جس کی تفصیل میں تاریخ میں لکھا ہے کہ یہود اپنی تیاری میں مصروف تھے کہ ان کے پاس عبداللہ بن اُبَی کا پیغام آیا۔ سُوَیْد اور دَاعِسْ یہ پیغام لے کر آئے کہ عبداللہ بن اُبَی کہہ رہا ہے کہ اپنے گھروں سے نہ نکلو۔اپنے اموال نہ چھوڑو۔ اپنے قلعوں میں ٹھہرے رہو۔ میرے پاس اپنی قوم اور دیگر اہل عرب کے دو ہزار جوان موجود ہیں وہ تمہارے ساتھ تمہارے قلعوں میں داخل ہو جائیں گے۔ ان کا آخری شخص مر جائے گا لیکن مسلمانوں کو تم تک نہ پہنچنے دیں گے۔ بنو قریظہ بھی تمہاری مدد کریں گے۔ تمہیں رسوا نہیں کریں گے۔ بنو غطفان میں سے تمہارے حلیف بھی تمہاری مدد کریں گے اور اگر تم یہاں سے نکلنے پر مجبور ہوگئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی یہاں سے چلے جائیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے منافقین کی اس چالبازی اور مکاری کو قرآن مجید میں بھی بیان فرمایا ہے اور یہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ نَافَقُوۡا یَقُوۡلُوۡنَ لِاِخۡوَانِہِمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ لَئِنۡ اُخۡرِجۡتُمۡ لَنَخۡرُجَنَّ مَعَکُمۡ وَ لَا نُطِیۡعُ فِیۡکُمۡ اَحَدًا اَبَدًا وَّ اِنۡ قُوۡتِلۡتُمۡ لَنَنۡصُرَنَّکُمۡ َ۔ (الحشر:12)کیا تُو نے ان کی طرف نظر نہیں دوڑائی جنہوں نے نفاق کیا۔ وہ اہل کتاب میں سے اپنےبھائیوں سے جنہوں نے کفر کیا کہتے ہیں کہ اگر تم نکال دیے گئے تو تمہارے ساتھ ہم بھی ضرور نکلیں گے اور تمہارے بارے میں کبھی کسی کی اطاعت نہیں کریں گے اور اگر تمہارے خلاف لڑائی کی گئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 7صفحہ180 بزم اقبال لاہور 2022ء)(الاکتفاء جلد2 صفحہ110عالم الکتب بیروت)

عبداللہ بن اُبَی نے بنو قریظہ کے کَعْب بن اَسَد قُرَظِیکی طرف پیغام بھیجا کہ وہ اپنے ساتھیوں کی مدد کرے۔ اس نے کہا ہم میں سے ایک شخص بھی یہ معاہدہ توڑنے پر راضی نہیں۔ اس نے انکار کر دیا۔ عبداللہ بن اُبَی بنوقریظہ سے مایوس ہو گیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بنو نضیر کے درمیان معاملات میں شدت پیدا کرنا چاہتا تھا۔ وہ لگاتار حُیَیّ کی طرف پیغام بھیجتا رہا۔ حُیَیّ نے کہا کہ مَیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف یہ پیغام بھیج رہا ہوں کہ ہم اپنے گھروں سے نہیں نکلیں گے۔ ہم اپنے اموال نہیں چھوڑیں گے۔ وہ جو چاہیں کرلیں۔ حُیَیّ، عبداللہ بن اُبَی کی باتوں میں آ گیا۔ سَلَّامْ بن مِشْکَمْ نے حُیَیّسے کہا کہ حُیَیّ! تیرے نفس نے تجھے دھوکا دے رکھا ہے۔ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تیری رائے کو احمق سمجھا جائے گا تو مَیں اپنے اطاعت گزار یہودیوںکے ساتھ تجھے چھوڑ دیتا۔ حُیَیّ اس طرح نہ کر۔ اسے کہا۔

بخدا! تُو بھی جانتا ہے اور تیرے ساتھ ہم بھی جانتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ ان کے اوصاف ہمارے ہاں موجود ہیں۔ اگر ہم ان کی اتباع نہ کریں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ان سے حسد کرتے ہیں کیونکہ نبوت بنو ہارون سے نکل چکی ہے۔ آؤ ہم ان کے عطا کردہ امن کو قبول کر لیں۔

ہم ان کے شہر سے نکل جائیں۔ تُو بھی جانتا ہے کہ تُو نے ان کے ساتھ دھوکا کرنے میں میری مخالفت کی ہے۔ جب ہم یہاں سے چلے جائیں گے اور جب پھل پک جائیں گے تو ہم آئیں گے یا ہم میں سے ایک اپنے پھل کے پاس آئے گا اُسے فروخت کر دے گا یا اس کے ساتھ جو چاہے گا کرے گا پھر ہمارے پاس آ جائے گا۔ تو گویا کہ ہم اپنے شہر سے نکلے ہی نہیں کیونکہ ہمارے اموال ہمارے ہاتھوں میں ہوں گے۔ ہماری قوم پر ہمارا شرف ہمارے اموال اور افعال کی وجہ سے ہے۔ جب اموال ہمارے ہاتھوں سے چلے جائیں گے تو پھر ہم ذلت میں دوسرے یہود کی طرح ہو جائیں گے لیکن اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف آئے اور اگر انہوں نے ایک دن بھی ہمارے اس قلعہ کا محاصرہ کر لیا پھر وہ اس پیغام کو قبول نہیں کریں گے جو انہوں نے ابھی بھیجا ہے اور وہ اس کا انکار کر دیں گے۔ حُیِّی بنِ اَخْطَب نے کہا کہ محمدؐ تب ہی ہمارا محاصرہ کریں گے جب انہیں موقع ملے گا ورنہ وہ واپس چلے جائیں گے۔ تم نے دیکھا نہیں کہ عبداللہ بن اُبَینے بھی میرے ساتھ وعدہ کیا ہے۔

سَلَّامْ بن مِشْکَمْ نے کہا عبداللہ بن اُبَی کے قول کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ تجھے ہلاکت کے گڑھے میں پھینکنا چاہتا ہے یہاں تک کہ تُو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرے۔ وہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا اور تجھے چھوڑ دے گا۔

عبداللہ بن اُبَی نے کعب سے مدد مانگی تھی مگر کعب نے انکار کر دیا تھا۔ کعب نے کہا تھا کہ بنو قریظہ کا ایک شخص بھی اس عہد کو نہیں توڑے گا جبکہ مَیں زندہ ہوں۔ عبداللہ بن اُبَی نے اپنے حلیف بنو قینقاع کے ساتھ بھی اسی طرح کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے بھی جنگ کرنے کی کوشش کی۔ عہد کو پسِ پشت ڈالا۔ خود کو اپنے قلعوں میں محصور کر دیا۔ وہ عبداللہ بن اُبَی کی مدد کا انتظار کرتے رہے جبکہ وہ اپنے گھر میں بیٹھا رہا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف گئے اور ان کا محاصرہ کر لیا حتی کہ وہ اُن کا حکم ماننے پر مجبور ہو گئے۔

ابن اُبَی نے تو اپنے حلیفوں کی مدد نہیں کی تھی ہم نے تو اپنی تلواروں کے ساتھ اوس کے ہمراہ اس کے ساتھ تمام جنگوں میں شرکت کی ہے۔ اب تو جنگ کا وہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا چکے ہیں اور ان کے درمیان یعنی جنگوں کے درمیان روک ڈال دی گئی ہے۔ ابن اُبَی نہ یہودی ہے نہ مسلمان۔ نہ ہی اپنی قوم کے دین پر ہے۔ ہم اس کی بات کیسے قبول کر لیں۔ حیی نے کہا کہ مَیں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت ہی کرتا رہوں گااور ان کے ساتھ قتال ہی کرتا رہوں گا۔ سَلَّام نے کہا پھر تو ہم اپنی سرزمین سے جلاوطن ہو جائیں گے۔ ہمارے اموال اور ہمارا شرف ختم ہو جائے گا۔ ہمارے بچے قیدی بن جائیں گے اور ہمارے جنگجو قتل کر دیے جائیں گے۔ مگر حیی نے انکار کر دیا سوائے اس کے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرے گا ۔(سبل الھدٰی والرشاد جلد 4صفحہ320تا321 دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1993ء)

سَارُوْک بن اَبِی حُقَیق جو یہود کی قوم کا ایک بوڑھا شخص تھا اور کم عقل مشہور تھا اس نے بھی کہا کہ اے حیی! تُو منحوس آدمی ہے۔ تُو بنو نضیر کو ہلاک کر دے گا۔ حیی غضبناک ہو گیا۔ اس نے کہا بنو نضیر کا ہرآدمی بات کر رہا ہے حتی کہ یہ پاگل اور بیوقوف آدمی بھی مجھے ملامت کر رہا ہے۔ سَارُوک کو اس کے بھائیوں نے مارا اور حیی سے کہا ہم تمہارے حکم کے تابع ہیں۔ ہم ہرگز تمہاری مخالفت نہیں کریں گے۔(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد7صفحہ45مکتبہ دارالسلام ریاض 1435ھ)(دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ﷺ جلد7صفحہ181بزم اقبال لاہور 2022ء)

پھر

حیی نے اپنے بھائی جُدَیّ بن اخطب کو ایلچی بنا کر بھیجا کہ جاؤ مسلمانوں کے قائد کو بتا دو کہ ہم یہاں سے نہیں جائیں گے جو کر سکتے ہو کر لو۔

جُدَیّ نے مدینہ پہنچ کر حیی کا پیغام سنایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سنی تو بلند آواز میں اللہ اکبر! کہا اور مسلمانوں نے بھی نعرۂ تکبیر بلند کر دیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حَارَبَتِ الْيَهُوْدُ ۔ یعنی یہود نے اعلان جنگ کر دیا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی ان کارروائیوں اور اعلانیہ جنگ کے جواب میں بنو نضیر پر چڑھائی کرنے کا اعلان کیا تو صحابہؓ اسی وقت تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ یہود کا یہی قاصد جُدَیّ بن اخطب فوراً عبداللہ بن اُبی کے گھر پہنچا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے والی گفتگو اور احوال کے متعلق بتایا۔ یہ گھر میں اپنے دوست احباب سے خوش گپیوں میں مگن تھا۔ اس نے کہا جاؤ مَیں اپنے حلیفوں کو پیغام بھیجتا ہوں وہ تمہارے ساتھ قلعوں میں داخل ہو جائیں گے۔ اس ایلچی نے دیکھا کہ ابن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہ زرہ پہنےاور تلوار تھامے اسلامی لشکر میں شمولیت کے لیے دوڑے جا رہے ہیں۔ اس پر جُدَیّ تعاون سے ناامید ہو گیا۔ یہ فوراً حیی کے پاس آیا اور اسے تمام روئیداد بیان کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری بات سن کر کہا کہ یہود نے اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔ پھر نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے تیاری کا اعلان کر دیاہے۔ اسے پھر بھی اعتبار نہ آیا۔ کہنے لگا یہ تو ان کی جنگی چال تھی۔ حیی نے پوچھا کہ عبداللہ بن اُبَی نے کیا کہا؟ تو اس نے ابن ابی کے ساتھ بات چیت کے بارے میں بتایا کہ وہ کہتا ہے کہ مَیں اپنے حلیفوں کو پیغام بھیج دیتا ہوں وہ تمہارے ساتھ قلعوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ جُدَیّ نے کہا بھائی مَیں تو اس کی مدد سے ناامید ہوں۔

ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قلعوں کا محاصرہ کرنے کے لیے صحابہ ؓکو حکم صادر فرمایا۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 7 صفحہ181-182 بزم اقبال لاہور 2022ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ ’’قبیلہ اوس کے ایک رئیس محمد بن مسلمہؓ کو بلاکر فرمایا کہ تم بنو نضیر کے پاس جاؤ اوران کے ساتھ اس معاملہ کے متعلق بات چیت کرو اوران سے کہو کہ چونکہ وہ اپنی شرارتوں میں بہت بڑھ گئے ہیں اوران کی غداری انتہاء کوپہنچ گئی ہے اس لئے اب ان کا مدینہ میں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ مدینہ کوچھوڑ کر کہیں اَور جا کر آباد ہو جائیں اور آپؐ نے ان کے لئے دس دن کی میعاد مقرر فرمائی ہے۔ محمد بن مسلمہ جب ان کے پاس گئے تو وہ سامنے سے بڑے تمرد سے‘‘ بڑے تکبر سے ’’پیش آئے اورکہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)سے کہہ دو کہ ہم مدینہ سے نکلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ تم نے جوکرنا ہو کر لو۔ جب ان کا یہ جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوپہنچا تو آپؐ نے بے ساختہ فرمایا۔ ’’اللہ اکبر! یہود توجنگ کے لئے تیار بیٹھے ہیں اس کے بعد آپؐ نے مسلمانوں کوتیاری کاحکم دیا اورصحابہؓ کی ایک جمعیت کو ساتھ لے کر بنونضیر کے خلاف میدان میں نکل آئے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 523-524)

ریاست کے ان سرکش باغیوں کی سرکوبی کے لیے جو سربراہِ ریاست کو قتل کرنے کے بھیانک منصوبے بھی کر چکے تھے ۔کیونکہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سربراہِ ریاست تھے اور اب بجائے ندامت کے وہ ہتھیار بند ہو کر اعلان جنگ کر چکے تھے تو مدینہ کو ایک بڑی خونریزی سے بچانے اور مدینہ کے دفاع کے لیے ان باغیوں کا سدباب کرنا ضروری ہو چکا تھا۔ لہٰذا جب تمام مسلمان جمع ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نکلے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں حضرت ابن ام مکتوم ؓکو اپنا قائمقام مقرر فرمایا۔ حضرت سعد بن عُبادہ ؓکو خیمہ دیا کہ اسے بنو نضیر کے قلعوں کے سامنے نصب کیا جائے۔ یہ خاص لکڑی کا تھا، بعض نے اسے چمڑے کا بتایا ہے۔ جنگی پرچم حضرت علی بن ابوطالبؓ نے اٹھایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لشکرِ اسلام کے ساتھ آگے بڑھے یہاں تک کہ شام کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی بستی میں پہنچ کر پڑاؤ کیا اور وہاں کھلے میدان میں عصر کی نماز ادا فرمائی۔ ادھر یہود اپنی حویلیوں میں قلعہ بندہو گئے تھے اور قلعوں کے اوپر کھڑے ہو کر تیر اور پتھر برسانے لگے۔ جب عشاء کا وقت ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور نماز کے بعد دس صحابہؓ کے ساتھ واپس اپنے گھر مدینہ تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم زرہ پہنے ہوئے تھے اور گھوڑے پر سوار تھے۔ آپؐ نے لشکر کا امیر حضرت علی ؓکو بنایا اور ایک قول ہے کہ حضرت ابوبکر ؓکو امیر مقرر فرمایا۔ بہرحال مسلمانوں نے رات اس حالت میں گزاری کہ وہ یہود کا محاصرہ کیے ہوئے تھے اور بار بار تکبیر کے نعرے بلند کرتے رہے یہاں تک کہ صبح کا اجالا ہونے لگا تو حضرت بلالؓ نے فجر کی اذان دی۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان دس صحابہؓ کے ساتھ واپس لشکر گاہ میں تشریف لے آئے جو آپؐ کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی۔ یہود میں سے ایک شخص کا نام عَزْوَکْ تھا۔ بعض جگہ اس کا نام غَزُول بیان ہوا ہے۔ یہ شخص بڑا ماہر تیر انداز تھا اور اس کا پھینکا ہوا تیر بہت دُور تک جاتا تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کا نشانہ لے کر تیر مارا۔ وہ تیر خیمے پر آ لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے کو وہاں سے ہٹا کر تیر اندازوں سے دُور اسے نصب کرنے کا حکم دیا۔(سیرت حلبیہ جلد 2صفحہ 359 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2008ء)(کتاب المغازی جلد1صفحہ314 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)

پھر رات ہو گئی۔ نہ عبداللہ بن اُبَی بنو نضیر کے پاس آیا اور نہ ہی اس کا کوئی حلیف ان کے پاس آیا اور وہ اپنے گھر میں بیٹھا رہا۔ بنو نضیر اس کی مدد سے مایوس ہو چکے تھے۔ سَلَّامْ بن مِشْکَمْ اور کِنَانَہ بن صُوَیْرَاء حیی سے کہنے لگے کہ ابن ابی کی وہ مددکہاں گئی جو تُو گمان کرتا تھا۔ حیی نے کہا اب مَیں کیا کروں۔ یہ ہلاکت ہے جو ہمارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔(سبل الھدٰی والرشاد جلد 4 صفحہ322 دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1993ء)

اسی دوران ایک رات عشاء کے قریب حضرت علیؓ لشکر میں سے غائب پائے گئے تو لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! علیؓ کہیں نظر نہیں آ رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی فکر نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے ہی ایک کام سے گئے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ حضرت علیؓ اس شخص کا سر کاٹ کرلے آئے جس کا نام عَزْوَکْ تھا اور جس کا تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے تک پہنچا تھا۔ حضرت علیؓ اسی وقت اس کی گھات میں بیٹھ گئے تھے جب وہ مسلمانوں کے کسی بڑے سردار کو مارنے کے لیے چلا تھا۔ اس کے ساتھ ایک جماعت بھی تھی۔ حضرت علیؓ نے اس پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا۔ اس کے ساتھ جو دوسرے لوگ تھے وہ سب فرار ہو گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کے ساتھ دس آدمیوں کی ایک جماعت روانہ فرمائی جس میں حضرت ابودُجَانہؓ اور حضرت سَہْل بن حُنَیفؓ بھی تھے ۔ ان لوگوں نے اس جماعت کو جا پکڑا جو عَزْوَک کے ساتھ تھے اور حضرت علی ؓکو دیکھ کر بھاگ گئی تھی۔ صحابہؓ کی جماعت نے ان سب کو قتل کر دیا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس جماعت میں دس آدمی تھے۔ صحابہؓ ان کو قتل کر کے ان کے سر لے کر آئے جنہیں بعد میں مختلف کنوؤں میں ڈال دیا گیا۔(سیرت حلبیہ جلد 2صفحہ 359 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2008ء)

ایک قول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سروں کو بنوخَطْمَہ کے کنوؤں میں پھینکنے کا حکم دیا تھا۔(کتاب المغازی جلد1صفحہ315 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)

باقی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔

……………………………………………………………………………

[خطبہ ثانیہ کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مجھے کسی نے بتایا کہ صفوں میں جب آپ کھڑے ہوتے ہیں تو کندھے سے کندھا نہیں ملا یا ہوتا۔ اب وہ دَور گزر گیا جو کووِڈ (Covid) کا تھا۔ صف بناتے ہوئے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑا ہونا چاہیے۔]


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 21؍ جون 2024ء شہ سرخیاں

    بنونضیر کی جانب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی مذموم سازش اور غزوۂ بنو نضیر کے اسباب کا تفصیلی بیان

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے یہود کے اس بدارادے سےبذریعہ وحی اطلاع دے دی اور آپؐ جلدی سے وہاں سے اٹھ آئے

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت محمد بن مسلمہ ؓکو حکم دیا کہ بنو نضیر کے یہود کے پاس جاؤ اور ان سے کہنا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری طرف یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ تم ان کے شہر سے نکل جاؤ

    سَلَّامْ بن مِشْکَمْ نے حُیِّی بنِ اَخْطَب سے کہا :بخدا! تُو بھی جانتا ہے اور تیرے ساتھ ہم بھی جانتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سچے رسولؐ ہیں۔ ان کے اوصاف ہمارے ہاں موجود ہیں۔

    اگر ہم ان کی اتباع نہ کریں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ان سے حسد کرتے ہیں کیونکہ نبوت بنو ہارون سے نکل چکی ہے۔ آؤ ہم ان کے عطا کردہ امن کو قبول کر لیں

    سَلَّامْ بن مِشْکَمْ نے حُیِّی بنِ اَخْطَب سے کہا: عبداللہ بن اُبَی کے قول کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ تجھے ہلاکت کے گڑھے میں پھینکنا چاہتا ہے یہاں تک کہ تُو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرے۔ وہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا اور تجھے چھوڑ دے گا

    حُیِّی نے اپنے بھائی جُدَیّ بن اخطب کو ایلچی بنا کر بھیجا کہ جاؤ مسلمانوں کے قائد کو بتا دو کہ ہم یہاں سے نہیں جائیں گے جو کر سکتے ہو کر لو

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حَارَبَتِ الْيَهُوْدُ یعنی یہود نے اعلان جنگ کر دیا ہے

    فرمودہ 21؍ جون 2024ء بمطابق 21؍ احسان 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور