حضرت محمد رسول اللہﷺ: اُسوۂ حسنہ
خطبہ جمعہ 16؍ اگست 2024ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
گذشتہ کچھ خطبات سے غزوۂ بنو مصطلق کا ذکر ہو رہا تھا ۔ اس کی مزید تفصیل میں یہ بات بھی لکھی ہے کہ بنومصطلق سے واپسی پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نَقِیْع مقام سے گزرے تو بہت کشادگی، گھاس اور بہت سے تالاب دیکھے۔ آپؐ نے اس کے پانی کے بارے میں پوچھا تو کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جب گرمیاں آتی ہیں تو پانی کم ہو جاتا ہے۔ تالابوں کا پانی نیچے چلا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعہ کو حکم دیا کہ وہ کنواں کھودیں اور نقیع کو چراگاہ بنانے کا حکم دیا۔ حضرت بِلال بن حارِث مُزَنِی کو اس پر نگران مقرر کیا۔ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں کہاں تک چراگاہ بناؤں۔ آپ نے فرمایا جب طلوع فجر ہو جائے تو ایک بلند آواز والے شخص کو مُقَمَّل پہاڑ پر کھڑا کرو اور جہاں تک اس کی آواز جائے وہاں تک مسلمانوں کے ان اونٹوں اور گھوڑوں کے لیے چراگاہ بناؤ جن پر وہ جہاد کیا کریں گے۔ یہ معیار رکھا آپ نے اس ایریا کی وسعت کا۔ حضرت بلالؓ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! عام مسلمانوں کے چرنے والے جانوروں کے بارے میں کیا رائے ہے۔ آپؐ نے فرمایا وہ اس میں داخل نہیں ہوں گے۔ پھر کہتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ! اس کمزور مرد یا کمزور عورت کے بارے میں کیا خیال ہے جس کے پاس قلیل تعداد میں بھیڑ بکریاں ہوں۔ وہ انہیں چرانے کے لیے دوسری جگہ جانے کی سکت نہ رکھتا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں چرنے کے لیے چھوڑ دو۔(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 352-353 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
گویا کہ یہ سرکاری چراگاہ جو بنائی گئی تھی اس میں آنے کی ان غریبوں کو صرف اجازت دی، باقیوں کے لیے جو امراء تھے انہیں کہا اپنی اپنی علیحدہ بناؤ یہاں صرف سرکاری جانور ہی چرا کریں گے۔ یہ چراگاہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے دَورِخلافت تک برقرار رہی اور بعد ازاں گھوڑوں اور اونٹوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے جگہ تبدیل ہو گئی۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہؐ جلد7 صفحہ282-283 بزم اقبال لاہور)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو چاک و چوبند اور تازہ دم رکھنے کا بڑا اہتمام فرماتے تھے۔ آپ ان کے مابین وقتاً فوقتاً کھیل کے ایسے مقابلے کراتے رہتے جن میں شجاعت، جوانمردی، ایمانی اور جہادی تربیت کا پہلو غالب تھا۔ اس قسم کی کھیلوں سے ان کے عزم، حوصلے، ولولے اور بہادری میں بڑا اضافہ ہوتا تھا۔ گویا کہ کھیلوں کے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نقیع پہنچے تو اسی روز آپ نے صحابہ کے مابین گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ کا مقابلہ بھی کروایا۔ آپ کی اونٹنی قَصْوَاء سب اونٹوں سے آگے نکل گئی۔ اس پر حضرت بلال بن رَبَاح ؓسوار تھے اور آپؐ کا گھوڑا سب گھوڑوں سے آگے نکل گیا۔ آپ کے پاس دو گھوڑے تھے ایک کو لِزَازْ جبکہ دوسرے کو ظَرِب کہا جاتا تھا۔ اس روز ظَرب نے مقابلے میں شرکت کی اس پر حضرت ابواُسَید سَاعِدِی سوار تھے اور وہ بھی پہلے نمبر پہ آیا۔(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 4صفحہ 353 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد7صفحہ197 دار السلام ریاض)
اسی جگہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہؓ کے ساتھ دَوڑ کے مقابلے کا بھی ذکر
ملتا ہے۔ کتاب اِمْتَاعُ الْاَسْمَاع میں ہے کہ اس غزوہ یعنی بنو مصطلق کے سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے اپنے کپڑے سمیٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قَبَا سمیٹی اور دوڑ لگائی تو آپ حضرت عائشہؓ سے آگے نکل گئے پھر ان سے فرمایا: یہ اس دفعہ کا بدلہ ہے جب تم مجھ سے آگے نکل گئی تھی۔
اس جملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گذشتہ واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا۔ ایک مرتبہ آپؐ حضرت ابوبکرؓ کے مکان پر تشریف لے گئے۔ آپؐ نے حضرت عائشہؓ کے ہاتھ میں کوئی چیز دیکھی۔ آپؐ نے ان سے دیکھنے کو مانگی تو انہوں نے انکار کر دیا اور وہاں سے بھاگیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ ان کی طرف دوڑے مگر وہ ہاتھ نہ آئیں بلکہ آگے نکل گئیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو آپؐ کی گھریلو باتیں ہیں جو آپؐ گھر کو خوشگوار بنانے کے لیے، اپنے گھر کو خوشگوار بنانے کے لیے آپؐ کیا کرتے تھے۔ ہر کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اپنا اسوہ قائم فرمایا ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے بھی اسوہ ہے جو اپنی بیویوں پر بڑی سختیاں کرتے ہیں۔
علامہ اِبْنِ جَوْزِی نے حضرت عائشہؓ سے ایک روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں گئی۔ اس وقت میں کم عمر اور دبلی پتلی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ دوڑ لگاؤ۔ چنانچہ سب نے دوڑ لگائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ آؤ ہم دوڑیں۔ دوڑ میں مقابلہ کریں۔ چنانچہ ہم دوڑے تو مَیں آگے نکل گئی۔ جو پہلے روایت بیان کی گئی ہے ہو سکتا ہے وہ کسی اَور موقع کی ہو۔ گویا کہ یہ حسن سلوک کے واقعات ہوتے رہتے تھے اس کے بعد کافی عرصہ گزر گیا ۔کہتی ہیں اس دوران میں میرا بدن کچھ بھاری ہو گیا تھا۔ پھر ایک مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں گئی۔ اس دفعہ پھر آپؐ نے لوگوں سے فرمایا کہ دوڑ لگاؤ۔ چنانچہ سب نے دوڑ لگائی ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا آؤ دوڑ میں مقابلہ کریں۔ چنانچہ مقابلہ ہوا اور اس دفعہ آپؐ جیت گئے۔ اس وقت آپؐ ہنسنے لگے اور فرمانے لگے یہ پچھلی دفعہ کا بدلہ ہے۔(السیرۃالحلبیہ جلد2صفحہ393دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ کو بھی بیان فرمایا ہے کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی بیویوں کے ساتھ پھرتے تھے۔ ایک دفعہ لشکر کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہؓ دوڑے۔‘‘یہ نہیں کہ علیحدہ۔ لشکر کے سامنے دوڑے۔ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہار گئے اور حضرت عائشہؓ جیت گئیں۔ دوسری دفعہ پھر دوڑے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیت گئے اور حضرت عائشہؓ ہار گئیں کیونکہ حضرت عائشہؓ کا جسم کچھ موٹا ہو گیا تھا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یَا عَائِشَۃ تِلْکَ بِتِلْکَ ۔ عائشہ! اس ہار کے بدلہ میں یہ ہار ہو گئی۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے ساتھ پھرنا معیوب خیال نہیں فرماتے تھے اور جس بات کی اجازت اسلام نے دی ہے اس کو عیب نہیں کہا جا سکتا۔‘‘(خطبات محمود جلد 33 صفحہ 269-270 خطبہ جمعہ فرمودہ 5 ستمبر1952ء)
پرانے زمانے میں بعض لوگ سمجھتے تھے، اب بھی بعض اس قسم کے ہیں جو بڑا فرق رکھتے ہیں بیویوں کے ساتھ اور غلط قسم کی شرم بھی اس زمانے میں لوگ رکھتے تھےکہ خود آگے جا رہے ہیں بیویاں پیچھے جا رہی ہیں یا فاصلہ دے کے چل رہے ہیں اور آجکل بھی اگر ایسے کوئی لوگ ہیں تو ان کے لیے بھی یہ نمونہ ہے۔ یہ حسنِ سلوک ہے جو عورتوں سے اسلام نے سکھایا ہے جس کا نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا۔
اس سفرمیں
واقعۂ افک کا ذکر
بھی ملتا ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ بنو مصطلق سے واپسی پر منافقین کی طرف سے ایک اور فتنہ کھڑا کیا گیا اور وہ ام المومنین حضرت عائشہؓ پر ایک جھوٹی تہمت کا واقعہ ہے جس کو واقعۂ افک بھی کہا جاتا ہے۔ پہلے تو وہ پانی کے واقعہ کا ذکر ہے ناں جہاں عبداللہ بن اُبَی نے جھگڑا پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، ایک دوسرا واقعہ بھی ہے۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ واقعہ افک کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواجِ مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے۔ پھر ان میں سے جس کا قرعہ نکلتا اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لے جاتے۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ ایک غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے درمیان قرعہ ڈالا جس میں جانے کے لیے آپ نکلے تھے۔ تو کہتی ہیں اس میں میرا قرعہ نکلا اور مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئی۔ بعد اس کے کہ پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا۔ یہ واقعہ اس کے بعد کا ہے جب پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا۔ کہتی ہیں کہ مجھے میرے ہودج میں سوار کیا جاتا اور اسی میں اتارا جاتا۔ ہم سفر کرتے رہے یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس غزوے سے فارغ ہوئے اور لَوٹے اور لَوٹتے ہوئے ہم مدینہ کے قریب پہنچے تو آپؐ نے ایک رات کوچ کرنے کا اعلان فرمایا۔ میں اٹھی جب انہوں نے کوچ کا اعلان کیا تھا اور مَیں چلی یہاں تک کہ لشکر کو پار کیا۔ اور حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے باہر چلی گئی۔ کہتی ہیں جب مَیں نے اپنی ضرورت پوری کر لی تو میں اپنی سواری کی طرف بڑھی اور اپنے سینے کو چھوا تو کیا دیکھا کہ میرا ہارجو ظَفَار کے نگینوں کا تھا۔ ظَفَار صَنْعَاء کے قریب یمن کا ایک پہاڑ یا شہر ہے۔ اس کے نگینے مشہور تھے۔ کہتی ہیں وہ کہیں ٹوٹ کر گر گیا۔ میں واپس لَوٹی اور اپنا ہار ڈھونڈنے لگی۔ اس کی تلاش نے مجھے روکے رکھا یعنی دیر ہو گئی۔ کہتی ہیں پھر وہ لوگ آئے جو مجھے ہودج پہ سوار کیا کرتے تھے۔ میرے ہودج کو اٹھا لیا اور اسے میرے اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوا کرتی تھی اور وہ سمجھ رہے تھے کہ مَیں اس ہودج میں ہوں اور عورتیں ان دنوں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں۔ وہ فربہ نہ تھیں۔ ان پر گوشت نہیں چڑھا ہوتا تھا۔ تھوڑا ہی تو کھانا کھاتی تھیں۔ اور لوگوں نے ہودج کے ہلکے پن کو عجیب محسوس نہ کیا۔ جب انہوں نے اسے اٹھایا اور اسے رکھا اور مَیں ایک نوجوان لڑکی تھی۔ انہوں نے اونٹ کو اٹھایا اور چل دیے اور مَیں نے اپنے ہار کو پا لیا بعد اس کے کہ لشکر چلا گیا۔ وہ چلے گئے تو میں ہار ڈھونڈ رہی تھی۔ ہار ڈھونڈتے ہوئے میں نے اس کو تلاش کر لیا اور پھر کہتی ہیں مَیں اُن کے پڑاؤ کی جگہ پہ واپس آئی۔ وہاں اُن میں سے نہ کوئی پکارنے والا تھا اور نہ جواب دینے والا تھا۔ سب جا چکے تھے، کوئی نظر نہیں آیا۔ مَیں اپنی اس جگہ پر چلی گئی جہاں مَیں تھی۔ جہاں میرا خیمہ تھا یا جگہ تھی وہاں چلی گئی۔ مَیں نے خیال کیا کہ وہ مجھے گم پائیں گے تو میرے پاس واپس لَوٹ آئیں گے۔اس دوران کہ میں اپنی جگہ بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور سو گئی۔
صَفْوَان بن مُعَطَّلْ سُلَمِی ذَکْوَانِی لشکر کے پیچھے تھے۔ ان کی ڈیوٹی تھی کہ وہ لشکر کے پیچھے پیچھے رہیں تا کہ گری پڑی چیزوں کو اکٹھا کر کے لے آئیں۔ وہ میرے ٹھکانے کے قریب صبح کو پہنچے تو انہوں نے ایک سوئے ہوئےانسان کا وجود دیکھا۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا جب انہوں نے مجھے دیکھا اور پردہ کے حکم سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔تو کہتی ہیں کہ جب انہوں نے مجھے پہچان لیا تو مَیں ان کے اِنَّا لِلّٰہ پڑھنے سے بیدار ہو گئی اور مَیں نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانک لیا اور اللہ کی قسم! ہم نے ایک بات بھی نہ کی اور نہ ہی مَیں نے ان سے کوئی بات سنی سوائے ان کے اِنَّا لِلّٰہ پڑھنے کے۔ وہ اونٹنی سے نیچے اترے اور اپنی اونٹنی بٹھا دی اور اس کی اگلی ٹانگوں پر پاؤں رکھا۔ میں اٹھ کر اونٹنی کے پاس آئی اور اس پر سوار ہو گئی اور وہ مجھے لے کر اونٹنی کو ساتھ لے کر چل پڑے یہاں تک کہ ہم سخت گرمی میں عین دوپہر کے وقت لشکر تک پہنچ گئے اور لوگوں نے پڑاؤ کیا ہوا تھا۔
حضرت عائشہؓ نے بیان کیا۔ ہلاک ہو گیا جو ہلاک ہو گیا اور وہ جس نے بہتان کا بڑا حصہ لیا۔ وہ عبداللہ بن اُبَی بن سَلُول تھا۔
عروہ کہتے تھے کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کے پاس باتیں پھیلائی جاتی تھیں اور اس کے آس پاس ان کا تذکرہ کیا جاتا تھا تو وہ اسے صحیح قرار دیتا اور کان لگا کر سنتا اور کرید کرید کر پوچھتا اور عروہ نے یہ بھی کہا کہ اسی طرح بہتان باندھنے والوں میں سے کسی کا نام نہیں لیا گیا سوائے حَسَّان بن ثابت اور مِسْطَح بن اُثَاثَہ اور حَمْنَہ بنتِ جَحْشْ کے بشمول کچھ اَور لوگ ہوں گے جن کا مجھے علم نہیں۔ یہ روایت کرنے والے نے کہا ہے مگر وہ ایک گروہ تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اس کے بڑے حصے کا ذمہ دار وہ تھا جو عبداللہ بن ابی بن سلول کہلاتا ہے۔ عروہ نے کہا کہ حضرت عائشہؓ ناپسند کرتی تھیں کہ ان کے پاس حضرت حسّان کو برا کہا جائے اور فرماتی تھیں کہ وہ، وہ ہے جس نے کہا ہے کہ میرا باپ اور اس کا باپ یعنی میرے باپ کا باپ اور میری آبرو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو کے لیے تمہارے مقابلہ میں ڈھال ہے۔ بڑے نیک خیالات تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں۔ بڑا اخلاص اور وفا کا تعلق تھا اس لیے ان کے بارے میں برا کہنا کبھی نہیں سنتی تھیں۔
حضرت عائشہ ؓفرماتی تھیں کہ ہم مدینہ میں پہنچے تو میں مہینے بھر بیمار رہی۔ سفر شروع ہو گیا۔ یہ لوگ وہاں پہنچ گئے۔ قافلہ چل پڑا۔ مدینہ پہنچ گئے اور کہتی ہیں وہاں جاکے میں بیمار ہو گئی۔ لوگ بہتان باندھنے والوں کی بات میں لگے رہے۔ میں اس سے متعلق کچھ نہیں جانتی تھی۔ بیمار تھی، گھر میں تھی، مجھے کچھ نہیں پتہ تھا۔ مجھے اپنی بیماری میں جو بے چین کرنے والی بات تھی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مہربانی نہیں دیکھ رہی تھی جو مَیں آپؐ سے دیکھا کرتی تھی۔ جب مَیں بیمار ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آتے اور سلام کرتے۔ پھر فرماتے تمہارا کیا حال ہے؟ پھر چلے جاتے۔ بس اتنا ہی تھا۔ اس سے زیادہ حسنِ سلوک نہیں تھا۔ سو یہ بات مجھے بےچین کرتی تھی۔ مجھے اس شر کا علم نہ تھا یہاں تک کہ میں نکلی۔ جب میں کچھ ٹھیک ہوئی اور میں ام مسطح کے ساتھ مَنَاصِع کی طرف گئی اور یہ ہمارے باہر جانے کی جگہ تھی اور ہم نہیں نکلا کرتی تھیں مگر ایک رات سے اگلی رات تک اور یہ اس سے پہلے کی بات ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بیوت الخلاء بنائیں۔ یعنی کہ حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے عورتیں باہر جایا کرتی تھیں اور وہ بھی رات کے وقت۔ اس وقت بیوت الخلاء گھروں میں نہیں ہوتے تھے۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ ہمارا معمول پہلے عربوں کے طریق جیسا تھا جنگل میں قضائے حاجت کے لیے جانے کے لیے اور ہم بیوت الخلاء سے تکلیف محسوس کرتے تھے کہ اپنے گھروں میں انہیں بنائیں۔ بہرحال پھر رواج ہو گیا اور گھروں میں بننے لگ گئے۔
پھر آگے کہتی ہیں کہ آپؓ نے فرمایا میں اور ام مسطح گئیں اور پھر آپؓ نے، حضرت عائشہؓ نے یہ فرمایا کہ میں اور ام مسطح گئیں اور یہ اَبُو رُھْم بن مُطَّلِب بن عَبدِ مَنَاف کی بیٹی تھیں اور ان کی ماں صَخْربن عامِر کی بیٹی تھیں جو حضرت ابوبکر صدیق کی خالہ تھیں اور ان کا بیٹا مسطح بن اثاثہ بن عَبَّاد بن مطلب تھا۔ تو مَیں اور ام مسطح اپنے گھر کی طرف آ رہی تھیں۔ جب ہم اپنے کام سے فارغ ہوئیں تو ام مسطح اپنی اوڑھنی میں الجھ کر لڑکھڑائیں اور بولیں مسطح کا برا ہو۔ مَیں نے ان سے کہا کیا ہی برا کہا ہے؟ کیا ایسے آدمی کو برا کہتی ہو جو بدر میں شریک ہوا تھا۔ کہنے لگیں اے بھولی بھالی !کیا تم نے سنا نہیں جو اس نے کہا ہے؟ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ مَیں نے کہا اس نے کیا کہا ہے؟ تو اس نے مجھے افک والوں کا قصہ بتایا۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں یہ بات سن کے میری بیماری اَور بڑھ گئی۔
ایک دوسری روایت میں قضائے حاجت پر جانے والا واقعہ یوں بیان ہوا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا: مَیں اپنی حاجت کے لیے باہر گئی اور میرے ساتھ ام مسطح تھی۔ اس نے ٹھوکر کھائی اور کہنے لگی مسطح کا ناس ہو۔ میں نے کہا اماں! تم اپنے بیٹے کو برا بھلا کہتی ہو۔ اس پر وہ خاموش ہو گئی۔ پھر اس نے دوسری بار ٹھوکر کھائی اور کہنے لگی مسطح کا ناس ہو۔ مَیں نے اس سے کہا تم اپنے بیٹے کو برا بھلا کہتی ہو۔ پھر اس نے تیسری بار ٹھوکر کھائی اور کہنے لگی مسطح کا ستیا ناس ہو۔ مَیں نے اسے ڈانٹا۔ شاید وہ اس بارے میں سوچ رہی ہوں گی تو بے دھیانی میں ٹھوکر لگ جاتی تھی۔ بہرحال کہتی ہیں مَیں نے انہیں پھر کہا اور جب انہیں ڈانٹا تو وہ کہنے لگیں کہ بخدا ! میں اُسے برا بھلا نہیں کہتی مگر تمہاری وجہ سے۔ جو مَیں اس کو برا بھلا کہہ رہی ہوں تو وہ تمہاری وجہ سے کہہ رہی ہوں۔ وہ سوچیں میرے دماغ میں آ جاتی ہیں تو مَیں نے پوچھا میرے لیے کس وجہ سے حضرت عائشہؓ نے کہا کہ انہوں نے میرے لیے ساری بات کھول کر بیان کر دی۔ تب انہوں نے حضرت عائشہ ؓکو ساری بات بیان کی۔ تو مَیں نے کہا کیا یہی بات ہو رہی ہے۔ کہنے لگی ہاں اللہ کی قسم !تو میں اپنے گھر واپس آئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جس حاجت کے لیے میں نکلی تھی وہ مجھے بالکل نہ رہی نہ تھوڑی نہ بہت۔ جب میں اپنے گھر میں واپس آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے۔ آپ نے سلام کیا پھر فرمایا تمہارا کیا حال ہے؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے ماں باپ کے پاس جاؤں؟ وہ بیان کرتی ہیں کہ میں چاہتی تھی کہ ان دونوں سے خبر کی پختگی کے بارے میں معلوم کروں۔
ابن ہشام نے یہ بیان کیا ہے کہ جب حضرت عائشہ اپنے والدین کے گھر گئیں تو اُس وقت انہیں تہمت کا علم نہ تھااور ام مسطح والا واقعہ بھی والدین کے گھر جانے کے بعد پیش آیا تھا۔ بہرحال یہ دونوں روایتیں ہیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی۔ ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ایک خادم بھیجا۔ میں گھر میں داخل ہوئی اور مَیں نے اپنی والدہ اُمِّ رُوْمَان کو مکان کے نچلے حصہ میں اور حضرت ابوبکر ؓکو گھر کے بالا خانے میں پایا۔ وہ قرآن پڑھ رہے تھے۔ یہ بخاری کی روایت میں ہے۔ کہتی ہیں مَیں نے اپنی ماں سے کہا اے میری پیاری ماں! لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں! ماں نے ان کو کہا کہ اے میری پیاری بیٹی! خاطر جمع رکھو۔ حوصلہ رکھو۔ اللہ کی قسم !کم ہی ہوتا ہے کہ کبھی کوئی حسین و جمیل عورت کسی شخص کے پاس ہو جس سے وہ محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں ہوں مگر وہ اس کے خلاف بہت کچھ کہتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا مَیں نے کہا سبحان اللہ۔ کیا لوگ بھی ایسی باتیں کرنی شروع ہو گئے ہیں؟ میرے بارے میں وہ ایسی بات کہیں۔
ایک دوسری روایت میں ہے۔ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ حضرت ابوبکر نے میری آواز سنی اور وہ اوپری منزل میں قرآن پڑھ رہے تھے۔ وہ گھر کے بالا خانے سے نیچے آئے اور میری ماں سے کہا اسے کیا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا اسے وہ بات پہنچ گئی ہے جو اس کے متعلق کہی جا رہی تھی تو حضرت ابوبکرؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ کہنے لگے اے میری پیاری بیٹی! میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم اپنے گھر لَوٹ جاؤ تو وہ کہتی ہیں کہ مَیں لَوٹ گئی۔ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ مَیں ساری رات روتی رہی یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ میرے آنسو تھمتے ہی نہ تھے اور نہ مجھے نیند آئی۔ پھر میں نے روتے ہوئے صبح کی۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ جب وحی میں توقف ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالبؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ کو بلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا اور ان دونوں سے اپنے گھر والوں کو چھوڑنے کے بارے میں مشورہ طلب کیا یعنی حضرت عائشہؓ کے بارے میں کہ ان کو علیحدہ کر دیں۔ آپؓ بیان کرتی ہیں ۔ جہاں تک اسامہ کا تعلق ہے تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں مشورہ دیا جو وہ آپؐ کے گھر والوں کی براءت کے بارے میں جانتا ہے اور اس کے مطابق جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات میں اس کے بارے میں جانتے تھے۔ حضرت اسامہؓ نے کہا وہ آپؐ کی زوجہ مطہرہ ہیں اور ہم بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ ہم تو یہی جانتے ہیں کہ ان میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ چھوڑنے کا سوال نہیں۔
ایک روایت میں یہ ہے کہ اسامہ نے کہا یہ سراسر جھوٹ ہے اور بے بنیاد ہے۔ جہاں تک حضرت علی ؓکا تعلق ہے تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ عورتیں ان کے سوا بہت ہیں اور خادمہ سے پوچھئے آپؐ سے سچ کہے گی۔ حضرت علیؓ نے ذرا شبہ کا اظہار کیا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلایا، یہ خادمہ تھیں ۔ آپؐ نے فرمایا اے بریرہ! کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو تمہیں شک میں ڈالتی ہو؟ بریرہ کہنے لگی کہ اس کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے ان کی کبھی کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جس کو میں معیوب سمجھتی ہوں سوائے اس کے کہ وہ نوجوان لڑکی ہے اور اپنے گھر والوں کا گوندھا ہوا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہے۔ گھر کی بکری آتی ہے اور اس کو کھا جاتی ہے۔ یعنی گہری نیند ہے تھوڑی سی لاپروائی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی برائی نہیں ہے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک نے اس خادمہ کو ڈانٹا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ بیان کرو یہاں تک کہ ان لوگوں نے اس بارے میں اسے کرید کرید کر پوچھا۔ وہ کہنے لگی کہ اللہ ہی کی ذات پاک ہے۔ اللہ کی قسم! میں ان کے بارے میں نہیں جانتی مگر جتنا سنار خالص کندن سونے کے بارے میں جانتا ہے۔ میں نے تو ان کو ہمیشہ اچھا ہی پایا ہے۔
ایک روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ایمن سے بھی حضرت عائشہؓ کے متعلق دریافت فرمایا۔ انہوں نے کہا میں اپنے کانوں اور آنکھوں کو بچا کر رکھتی ہوں۔ مَیں نے عائشہ کے متعلق ہمیشہ بہتر گمان رکھا ہے اور اچھی بات ہی جانی ہے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت زینب بنت جحشؓ سے بھی میرے متعلق پوچھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینبؓ سے فرمایا تمہیں کیا علم ہے یہ جو باتیں ہو رہی ہیں یا تم کیا سمجھتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی شنوائی اور بینائی محفوظ رکھتی ہوں۔ بڑے ہوش و حواس میں ہوں میرا سب کچھ سلامت ہے، آنکھیں بھی سلامت ہیں اور کان بھی سلامت ہیں کہ اللہ کی قسم !سوائے بھلائی کے مجھے کچھ علم نہیں ہے۔ میں نے تو بھلائی ہی دیکھی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا اور یہ وہ تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے میری رقابت کیا کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں حضرت زینبؓ وہ تھیں جو تھوڑی بہت رقابت رکھتی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی وجہ سے انہیں محفوظ رکھا۔ انہوں نے غلط بات نہیں کی۔ حضرت عائشہ نے بیان کیا اور ان کی بہن حمنہ ان کی خاطر لڑتی تھی اور وہ ہلاک ہو گئی ان کے ساتھ جو ہلاک ہوئے۔ یعنی اس کا انجام ٹھیک نہیں ہوا۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا اللہ کی قسم !وہ شخص جس کے متعلق کہا گیا جو کہا گیا یعنی صفوان بن معطل وہ کہتا تھا سبحان اللہ! اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مَیں نے کبھی کسی عورت کے پہلو کو برہنہ نہیں کیا یعنی کبھی کسی عورت سے تعلق قائم نہیں کیا۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا پھر اس کے بعد وہ اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا یعنی وہ ایسا نیک صالح انسان تھا کہ شہادت کا مقام پایا۔
علامہ ابن اسحاق کہتے ہیں حضرت ابو ایوب خالد بن زید انصاریؓ کی بیوی ام ایوب نے ان سے کہا کہ اے ابو ایوب ! تم سنتے ہو کہ لوگ عائشہ کے حق میں کیا کہہ رہے ہیں؟ ابو ایوب نے کہا ہاں میں نے سنا ہے اور یہ سب جھوٹ ہے۔ اے ام ایوب !کیا تم ایسا فعل کر سکتی ہو۔ ام ایوب نے کہا خدا کی قسم! میں ایسے فعل کی مرتکب نہیں ہو سکتی تو ابوایوب نے کہا پھر عائشہ تم سے کہیں زیادہ افضل اور بہترہے۔ وہ کب ایسے فعل کی مرتکب ہو سکتی ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ اس موقع پر ایک انصاری آدمی نے یہ کہا اے اللہ! تُوپاک ہے۔ یہ ہمارا کام نہیں کہ ہم اس بات کو آگے دہرائیں۔ اے خدا تو پاک ہے یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ یہ بھی بخاری کی روایت ہے۔
شارح بخاری علامہ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ بات ابوایوب انصاری نے کی تھی اور حضرت اُبَی بن کعب سے یہ روایت بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے یہ بات اپنی بیوی حضرت ام طفیلؓ سے کہی تھی۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی دن کھڑے ہوئے آپؐ نے عبداللہ بن ابی سے بیزاری کا اظہار فرمایا اور آپؐ منبر پر تھے۔ آپؐ نے فرمایا اے مسلمانوں کی جماعت! کون اس شخص سے مجھے بچائے گا جس کی طرف سے مجھے میرے گھر والوں کے بارے میں تکلیف پہنچی ہے۔ اللہ کی قسم !میں اپنے گھر والوں کے بارے میں نہیں جانتا سوائے خیر کے اور انہوں نے ایسے شخص کا ذکر کیا یعنی صفوان بن معطل کا جس کے بارے میں میں نہیں جانتا سوائے بھلائی کے یعنی مرد کی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی کہ میں نے تو بھلائی دیکھی ہے اور وہ میرے گھر والوں کے پاس نہیں آتا تھا سوائے میرے ساتھ اور میں کسی سفر میں نہیں گیا مگر وہ میرے ساتھ ضرور جاتا۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں توحضرت سعد بن مُعَاذؓ جو بنی عَبْدِ اَشْھَل میں سے تھے کھڑے ہوئے۔ بعض کے نزدیک حضرت اُسَید بن حُضَیرؓ تھے۔ کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کو بچاؤں گا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے اس درد کا، فکر کا، غم کا اظہار کیا تو اس پر یہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں آپ کو اس سے بچاؤں گا جو غلط الزام لگایا جا رہا ہے۔ آپ کو گھر والوں کی وجہ سے تکلیف دی جا رہی ہے۔ اگر وہ اَوس سے ہوا تو اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر ہمارے بھائیوں خزرج سے ہوا تو آپؐ جو حکم دیں گے ہم آپؐ کے حکم کے مطابق عمل کریں گے۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ خزرج سے ایک شخص اٹھا اور حَسَّان کی ماں اس قبیلہ کی شاخ سے اس کی چچا زاد بہن تھی اور وہ سعد بن عُبَادہ تھا اور وہ خزرج قبیلے کے سردار تھے۔ حضرت عائشہ ؓکہتی تھیں کہ وہ اس سے پہلے اچھے آدمی تھے لیکن حمیت نے ان کو ابھارا۔ انہوں نے سعد سے کہا۔ انہوں نے یہ بات جب کی تو وہ بھی اٹھے اور سعد کے خلاف یہ بات کی کہ اللہ کی قسم !تم نے غلط کہا ہے تم اسے قتل نہیں کرو گے اور نہ اس کے قتل کی تم قدرت رکھتے ہو۔ اگر وہ تمہارے گروہ سے ہوتا تو تم پسند نہ کرتے کہ مارا جائے۔ حضرت اُسَید بن حضیرؓ کھڑے ہوئے اور وہ سعد کے چچا زاد بھائی تھے انہوں نے سعد بن عبادہ سے کہا تم نے غلط کہا ہے۔ اللہ کی قسم !ہم اسے ضرور قتل کریں گے تم منافق ہو۔ منافقوں کی طرف سے جھگڑتے ہو۔ آپس میں صحابہ کا بھی اس بات پہ جھگڑا شروع ہو گیا۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا اس پر دونوں قبیلے اَوس اور خزرج بھڑک اٹھے یہاں تک کہ وہ لڑنے کے لیے آمادہ ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل انہیں دھیما کرتے رہے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو گئے۔
حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ میں اپنے اس سارے دن میں روتی رہی۔ میرے آنسو تھمتے نہ تھے اور نہ مجھے نیند آتی تھی۔ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ میرے ماں باپ بھی میرے پاس رہے اور مَیں دو راتیں اور ایک دن روتی رہی۔ نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ مجھے نیند آتی تھی یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ یہ رونا میرے جگر کو پھاڑ دینے والا ہے۔ اس اثنا میں کہ میرے ماں باپ میرے پاس بیٹھے تھے اور مَیں رو رہی تھی ایک انصاری عورت نے میرے پاس آنے کی اجازت چاہی۔ میں نے اسے اجازت دی۔ وہ بیٹھ گئی اور میرے ساتھ رونے لگی۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ابھی ہم اس حالت میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپؐ نے سلام کہا، پھر بیٹھ گئے۔ حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی میرے پاس نہیں بیٹھے تھے جب سے کہا گیا جو اس سے پہلے کہا گیا یعنی جب سے یہ واقعہ ہوا تھا پاس نہیں بیٹھتے تھے۔ سلام اور حال پوچھ کے دور سے چلے جاتے تھے۔ کہتی ہیں اور آپؐ ایک مہینہ ٹھہرے رہے یعنی ایک مہینے تک یہ عمل جاری رہا۔ آپؐ کومیرے معاملے کی نسبت کوئی وحی نہیں ہوئی۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد پڑھا جب آپ بیٹھے۔ پھر فرمایا اَمَّا بَعد اے عائشہ! دیکھو تمہارے متعلق مجھے یہ یہ بات پہنچی ہے سو اگر تم بَری ہو تو اللہ ضرور بری کر دے گا اور اگر تم سے کوئی لغزش ہو گئی ہو تو اللہ سے استغفار کرو اور اس کے حضور توبہ کرو کیونکہ بندہ جب اعتراف کرتا ہے۔ پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ اس پر رجوع برحمت ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات مکمل کر چکے تو یہ بات سن کے میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ میں آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی محسوس نہیں کرتی تھی۔ مَیں نے اپنے باپ حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری طرف سے جواب دیں جو انہوں نے میرے بارے میں فرمایا ہے۔ میرے باپ نے کہا کہ اللہ کی قسم! مَیں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہوں؟ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کیا جواب دوں؟ پھر کہتی ہیں مَیں نے اپنی ماں سے کہاکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا جواب دیں جو آپؓ نے فرمایا ہے۔ میری ماں کہنے لگیں اللہ کی قسم !میں نہیں جانتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہوں؟ انہوں نے بھی وہی جواب دیا۔کہتی ہیں پھر مَیں نے خود ہی کہا۔ میں نوجوان لڑکی تھی قرآن زیادہ نہیں جانتی تھی۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں جانتی ہوں کہ آپ لوگوں نے یہ بات سنی ہے یہاں تک کہ وہ آپ کے دلوں میں جم گئی ہے۔ یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ شاید میں بری ہوں اور آپ لوگوں نے اس کو سچا سمجھ لیا ہے۔ پس اگر میں آپ لوگوں سے کہوں کہ میں بَری ہوں میں نے یہ نہیں کیا تو آپ لوگ میری تصدیق نہیں کریں گے اور اگر میں آپ لوگوں سے کسی بات کا اعتراف کروں اور اللہ جانتا ہے کہ میں اس سے بَری ہوں۔ میں نے قطعاً نہیں کیا تو آپ لوگ مجھے سچا سمجھ لیں گے پھر آپ کہہ دیں گے ہاں یہ قصور وار تھی یہ توبہ کر رہی ہے۔ کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں اپنے لیے اور آپ کے لیے نہیں پاتی کوئی مثال سوائے یوسف کے باپ کی جب انہوں نے کہا تھا یعنی میرے پاس صرف یوسف کے باپ کی مثال ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ کہ اب اچھی طرح صبر کرنا ہی میرے لیے مناسب ہے اور جو بات تم بیان کرتے ہو اس کے تدارک کے لیے اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے اور اسی سے مدد مانگی جائے گی۔
کہتی ہیں یہ کہہ کے پھر میں نے کروٹ بدل لی اور اپنے بستر پر لیٹ گئی اور اللہ جانتا ہے کہ میں اس وقت بَری تھی اور اللہ میری براءت کو ظاہر کرنے والا تھا لیکن اللہ کی قَسم میں یہ خیال نہیں رکھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں وحی نازل کرے گا جس کی تلاوت کی جائے گی۔ میری حیثیت میرے نزدیک اس سے کم تھی کہ اللہ تعالیٰ میری نسبت کلام کرتا لیکن میں یہ امید رکھتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند میں کوئی خواب دیکھیں گے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مجھے بَری قرار دے گا۔ یہ تو مجھے تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ میری بریت کا بتا دے گا لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ قرآن کریم کی آیت نازل ہو جائے گی۔ کہتی ہیں اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بیٹھنے کی جگہ سے نہیں ہٹے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی ایک بھی نکلا یہاں تک کہ آپؐ پر وحی نازل ہوئی اور آپؐ کو ایسی حالت نے آ لیا جو شدت میں سے آپؐ کو آ لیتی تھی یہاں تک کہ آپ سے پسینہ موتیوں کی طرح ٹپکنے لگا اور وہ سردی کا دن تھا لیکن بوجہ اس کلام کے بوجھ کے جو آپ پر نازل کیا گیا یہ پسینہ آپؐ کو آیا۔
سیرت ابن ہشام میں ہے کہ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ آپؐ کو چادر اوڑھا دی گئی اور سر مبارک کے نیچے چمڑے کا تکیہ رکھ دیا گیا جب میں نے یہ دیکھا تو میں کچھ نہ گھبرائی کیونکہ میں جانتی تھی کہ مَیں بے گناہ ہوں۔ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں مجھے تو پتہ لگ گیا کہ وحی ہو رہی ہے اور کوئی گھبراہٹ بھی نہیں تھی کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ میں بے گناہ ہوں۔ اگر وحی بھی ہے تو اللہ تعالیٰ میری بریت ہی کرے گا اور اللہ تعالیٰ مجھ پر ظلم نہیں کرے گا۔ رہی میرے والدین کی بات، جہاں تک والدین کا سوال ہے تو اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں عائشہ کی جان ہے ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی والی کیفیت ختم نہیں ہوئی تھی کہ مجھے یوں لگا جیسے ان دونوں کی جان نکل جائے گی۔ میرے ماں باپ دونوں بڑے ڈر رہے تھے۔ وہ ڈر رہے تھے کہ لوگوں نے جو کچھ کہا ہے کہیں خدا تعالیٰ اس کے موافق آیت نازل نہ فرما دے۔ یہ کہیں سچ بات نہ ہو جائے۔
پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کیفیت ختم ہو گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر پیشانی پر سے پسینہ صاف کرنے لگے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ کیفیت جاتی رہی اور آپؐ مسکرا رہے تھے۔
پہلی بات جو آپؐ نے کہی وہ یہ تھی کہ اے عائشہ! اللہ نے تجھے بَری کر دیا ہے۔
حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ میری ماں مجھے کہنے لگی کہ اٹھو !آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ میں نے کہا نہیں۔ اللہ کی قسم! میں آپ کے پاس نہیں جاؤں گی کیونکہ میں حمد نہیں کروں گی سوائے اللہ عزوجل کے۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ ۔ یقیناً وہ لوگ جنہوں نے ایک بڑا اتہام باندھا تھا، یہ دس آیات ساری کی ساری ہیں۔ سورہ نور کی بارہ تا اکیس آیات ہیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے میری براءت میں یہ نازل فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا اور مسطح بن اثاثہ کو بوجہ اپنے اس قرابت اور اس کی تنگ دستی کے خرچ دیا کرتے تھے۔ مسطح بھی ان الزام لگانے والوں میں سے تھا ناں، اس کو خرچ حضرت ابوبکر دیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قَسم ! میں مسطح پرکبھی خرچ نہیں کروں گا بعد اس کے جو اس نے عائشہ کے بارے میں کہا ہے تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔ وَ لَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ کہ اور تم میں سے دین و دنیا میں فضیلت رکھنے والے اور کشائش رکھنے والے لوگ قسم نہ کھائیں اور غَفُورٌ رَحیم کے قول تک آیت نازل ہوئی یعنی بہت معاف کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ جب یہ ہوا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا کیوں نہیں۔ پہلے تو انہوں نے قَسم کھائی کہ نہیں خرچ دوں گا۔ اس آیت کے بعد حضرت ابوبکرؓ کہنے لگےکیوں نہیں اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ اللہ میرے گناہوں کی پردہ پوشی کرے تو وہ مسطح کو وہ خرچ دوبارہ دینے لگے جو اس پر خرچ کیا کرتے تھے اور کہا اللہ کی قسم! میں اس سے کبھی نہیں ہٹوں گا۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب حدیث الافک روایت4141، کتاب التفسیر حدیث4750، 4757، کتاب الاعتصام بالکتاب حدیث 7370)(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ675 تا 677 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگ سیرت صفحہ183 زوار اکیڈیمی کراچی)(امتاع الاسماع جلد 1 صفحہ 214 دارالکتب العلمیۃ بیروت)(ھدی الساری مقدمہ فتح الباری شرح صحیح البخاری 498-499 قدیمی کتب خانہ کراچی)
تو یہ اس افک کے واقعہ کا کچھ تفصیلی ذکر ہے۔ باقی انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
آج پھر میں
دعا کی طرف یاددہانی
کروانا چاہتا ہوں۔
بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیے دعا کریں۔
اللہ تعالیٰ ان کے حالات بھی جلد بہتر فرمائے۔
پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں۔
اللہ تعالیٰ ان کے حالات بھی بہتر فرمائے۔
فلسطین کے مظلوموں کے لیے بھی دعا کریں
اللہ تعالیٰ ان کی حالت پر بھی رحم فرمائے۔
مسلمان ممالک کے لیے۔
اللہ تعالیٰ ان کے لیڈروں کو عقل دے اور وہ عوام کے حق ادا کرنے والے بنیں۔ ظلم کرنے والے نہ بنیں کیونکہ ان کے ظلم کی وجہ سے ہی دشمنوں کو بھی جرأت پیدا ہوتی ہے کہ مسلمانوں پر ظلم کرتے چلے جائیں کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ یہ خود حق ادا نہیں کر رہے تو ہمارے سے کس طرح حق مانگ سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مسلم اُمّہ پر رحم فرمائے۔
واقعۂ افک کے حوالے سے وحی کے نزول کے بعد پہلی بات جو آپؐ نے کہی وہ یہ تھی کہ اے عائشہ! اللہ نے تجھے بَری کر دیا ہے
غزوۂ بنو مُصْطَلِق کے حالات و واقعات کے تناظر میں واقعۂ اِفک کا تفصیلی بیان
بنگلہ دیش اور پاکستان کے احمدیوں اور مظلومینِ فلسطین نیز مسلم امّہ کے لیے دعائیں کرنے کی یاددہانی
فرمودہ 16؍اگست 2024ء بمطابق 16؍ظہور 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔