حضرت محمد رسول اللہﷺ: اُسوۂ حسنہ

خطبہ جمعہ 13؍ ستمبر 2024ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

جنگِ اَحزاب

کے حوالے سے گذشتہ خطبہ میں ذکر ہو رہا تھا کہ کس طرح خیبر کے یہودیوں کی عہد شکنی اور بغض کی وجہ سے کفار کا ایک لشکر تیار ہوا تا کہ مسلمانوں پر حملہ کر کے انہیں ختم کیا جا سکے۔ اس کی

مزید تفصیل تاریخ سے

یوں ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُلَیط اور سفیان بن عوف اسلمی کو لشکروں کی خبر لانے کے لیے بھیجا تو یہ دونوں گئے۔ جب یہ مقام بَیْدَاء پر پہنچے۔ بَیدَاء مکہ اور مدینہ کے درمیان ذوالحلیفہ سے آگے ایک میدانی علاقہ ہے اور ذوالحلیفہ مدینہ سے چھ سات میل کے فاصلے پر ہے۔ بہرحال ان دونوں کی طرف ابوسفیان کے گھڑ سوار متوجہ ہوئے کہ دیکھیں۔ دشمن کی ان پر نظر پڑ گئی تو یہ دونوں لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ ان دونوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور ایک قبر میں دفن کیا گیا۔

لکھا ہے کہ جب خندق کھودنے کا فیصلہ ہو گیا تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی مہاجرین اور انصار بھی تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کے پڑاؤ کے لیے جگہ تلاش کی تو سب سے موزوں جگہ یہ نظر آئی کہ آپ سَلَع پہاڑ کو اپنی پشت کی طرف رکھیں اور مَذَاذْ سے ذُبَابْ اور رَاتِجْ تک خندق کھودی جائے۔

مَذَاذْ جو ہے یہ مدینہ میں کوہ سَلع کے قریب ایک مقام تھا اور ذُبَابْ مدینہ کے قریب ایک پہاڑ کا نام تھا۔ رَاتِجْ مدینہ کے قلعوں میں سے ایک قلعہ تھا۔ یہ یہود کا قلعہ تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ذُبَابْ کے مشرق میں واقع ایک چھوٹا پہاڑ تھا۔ تو اس دن خندق کا کام شروع ہوا اور مسلمانوں نے بنوقریظہ سے کھدائی کے بہت سے آلات، کدالیں، بڑے کلہاڑے، بیلچے وغیرہ مستعار لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کی ہر جانب کی کھدائی ایک قوم کے سپرد کر دی۔ آپؐ نے صحابہ کو دس دس کی ٹولیوں میں تقسیم فرمایا اور ہردس افراد کے لیے قریباً چالیس گز کا ٹکڑا مقرر کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی کھدائی میں حصہ لیا اور مٹی اپنی پیٹھ پر اٹھائی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت اور پیٹ غبار آلود ہو جاتے۔

جو مسلمان اپنے حصہ سے فارغ ہو جاتے وہ دوسرے کی مدد کے لیے پہنچ جاتے یہاں تک کہ خندق مکمل ہو گئی۔ یہ نہیں کہ ایک کا کام مکمل ہو گیا تو بیٹھ گئے بلکہ اپنے ساتھیوں کی مدد کے لیے پہنچ جاتے تھے۔ خندق کھودنے میں کوئی مسلمان پیچھے نہیں رہا اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو جب ٹوکریاں نہ ملتیںتو جلدی میں اپنے کپڑوں میں مٹی منتقل کرتے تھے، جو چادر ہوتی تھی اس میں مٹی ڈال کے لے جاتے تھے۔(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد4صفحہ364-365 دارالکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگ سیرت صفحہ105، 125، 129، 265زوار اکیڈمی کراچی)(خلاصۃ الوفاء باخبار دارالمصطفیٰ صفحہ 553-554 مکتبہ العلمیۃ مدینہ منورہ)

اس کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی بیان فرمائی ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’اتنے بڑے لشکر کی نقل وحرکت کا مخفی رکھنا کفّار کے لیے مشکل تھا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جاسوسی کا انتظام بھی نہایت پختہ تھا۔ چنانچہ ابھی قریش کا لشکر مکہ سے نکلا ہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی خبر پہنچ گئی۔ جس پر آپؐ نے صحابہ کو جمع کر کے اس کے متعلق مشورہ فرمایا۔ اس مشورہ میں ایران کے ایک مخلص صحابی سلمان فارسیؓ بھی شریک تھے … چونکہ سلمان فارسی عجمی طریقِ جنگ سے واقف تھے۔‘‘یعنی جو غیر عربوں کا طریقِ جنگ تھا اس سے واقف تھے۔ ’’انہوں نے یہ مشورہ پیش کیا کہ مدینہ کے غیرمحفوظ حصہ کے سامنے ایک لمبی اور گہری خندق کھود کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیا جاوے۔ خندق کا خیال عربوں کے لیے بالکل نیا تھا۔ لیکن یہ معلوم کرکے کہ یہ طریقِ جنگ دیارِ عجم میں عام طور پر کامیابی کے ساتھ رائج ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجویز کو منظور فرمایا۔‘‘

گذشتہ خطبہ میں ذکر بھی ہوا تھا کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے بھی بتایا تھا کہ یہ طریق ٹھیک ہے۔ بہرحال لکھا ہے کہ ’’اور چونکہ مدینہ کا شہر تین طرف سے ایک حد تک محفوظ تھا یعنی مکانات کی مسلسل دیواروں اورگھنے درختوں اور چٹانوں کے سلسلے کی وجہ سے یہ اطراف لشکرِ کفار کے اچانک حملہ سے محفوظ تھیں اور صرف شامی طرف ایسی تھی جہاں دشمن ہجوم کر کے مدینہ پر حملہ آور ہو سکتا تھا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غیر محفوظ طرف میں خندق کے کھودے جانے کا حکم دیا اور آپؐ نے خود اپنی نگرانی میں موقعہ پر نشان لگا کر تقسیمِ کار کے اصول کے ماتحت خندق کو دس دس ہاتھ یعنی پندرہ پندرہ فٹ کے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ہر ٹکڑہ دس دس صحابیوں کے سپرد فرما دیا۔ ان پارٹیوں کی تقسیم میں یہ خوشگوار اختلاف رونما ہوا کہ سلمان فارسی کس گروہ میں شمار ہوں۔‘‘ہر گروہ چاہتا تھا کہ سلمان فارسی اس میں شامل ہوں۔ ’’آیا وہ مہاجر سمجھے جائیں یابوجہ اس کے کہ وہ اسلام کی آمد سے پہلے ہی مدینہ میں آئے ہوئے تھے انصار میں شمار ہوں۔ بوجہ اس کے کہ سلمان اس طریق جنگ کے محرک تھے اور ویسے بھی ایک مستعد اور باوجود بوڑھے ہونے کے مضبوط آدمی تھے ہر فرقہ ان کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا تھا۔ آخر یہ اختلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا اور آپؐ نے فریقین کے دعاوی سن کر۔‘‘ دونوں نے، ہر ایک نے جو دعویٰ کیا تھا آپؐ نے سنا اور پھر ’’مسکراتے ہوئے فرمایا کہ سلمان دونوں میں سے نہیں ہے۔‘‘ نہ وہ مہاجروں میں سے ہے نہ انصار میں سے۔ ’’بلکہ

سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ‘‘یعنی سلمان میرے اہل بیت میں شمار کیے جائیں۔‘‘

اس وقت سے سلمان کویہ شرف حاصل ہو گیا کہ وہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے آدمی سمجھے جانے لگے۔

الغرض خندق کی تجویز پختہ ہونے کے بعد صحابہ ؓکی جماعت مزدوروں کے لباس میں ملبوس ہو کر میدانِ کارزار میں نکل آئی۔ کھدائی کاکام کوئی آسان کام نہیں تھا‘‘بڑا مشکل کام تھا ’’اور پھر یہ موسم بھی سردی کا تھا جس کی وجہ سے ان ایام میں صحابہؓ نے سخت تکالیف اٹھائیں اور چونکہ دوسرے کاروبار بالکل بند ہو گئے تھے اس لیے وہ لوگ جن کا کام روز کی روٹی روز کمانا تھا اور صحابہ میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی۔‘‘ روز کا روز کام کرتے تھے اور ان کو کھانے کے لیے پیسے ملتے تھے۔ ’’ان کو تو ان دنوں میں بھوک اورفاقہ کشی کی مصیبت بھی برداشت کرنی پڑی اور چونکہ صحابہ کے پاس نوکر اور غلام بھی نہ تھے اس لیے سب صحابہ کو خود اپنے ہاتھ سے کام کرنا پڑتا تھا۔ جو دس دس کی ٹولیاں مقرر ہوئی تھیں انہوں نے اپنے کام کی اندرونی تقسیم اس طرح کی تھی کہ کچھ آدمی کھدائی کرتے تھے اور کچھ کھدی ہوئی مٹی اور پتھروں کو ٹوکریوں میں بھر بھر کر اپنے کندھوں پر لاد کر باہر پھینکتے جاتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیشتر حصہ اپنے وقت کا خندق کے پاس گزارتے تھے اور بسا اوقات خود بھی صحابہ کے ساتھ مل کر کھدائی اور مٹی کی ڈھلائی کا کام کرتے تھے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ574-575)

خندق کی کھدائی کے دوران تازہ دم رکھنے کے لیے شعر بھی پڑھے جاتے

ہیں۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ سہل بن سعد اور انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم خندق کھود رہے تھے اور اپنے کندھوں پر مٹی منتقل کر رہے تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری یہ مشقت اور بھوک دیکھی تو فرمایا

اَللّٰهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ
فَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَہْ

کہ اے اللہ! عیش تو صرف آخرت کا عیش ہے۔ پس تُو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔ اس پر صحابہ کرامؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتے ہوئے کہا۔ ؎

نَحْنُ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا مُحَمَّدَا
عَلَى الْجِهَادِ مَا بَقِيْنَا أَبَدَا

کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے جہاد پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی جب تک ہم زندہ ہیں۔

حضرت بَرَاء بن عَازِبؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ

خندق کے دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی اٹھاتے دیکھا

یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شکم مبارک کی سفیدی مٹی میں چھپ گئی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابن رَوَاحَہ کے یہ شعر پڑھتے سنا۔ ؎

وَاللّٰهِ لَوْلَا مَا اهْتَدَيْنَا
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا
فَأَنْزِلَنْ سَكِيْنَةً عَلَیْنَا
وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقِيْنَا
وَالْمُشْرِكُوْنَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا
إذَا أَرَادُوْا فِتْنَةً أَبَيْنَا

یعنی ہمارے مولیٰ! اگر تیرا فضل نہ ہوتا تو ہمیں ہدایت نصیب نہ ہوتی اور ہم صدقہ و خیرات کرنے اور تیری عبادت کرنے کے قابل نہ بنتے۔ پس اے خدا! جب تُو نے ہمیں اس حد تک پہنچایا ہے تو اَب اس مصیبت کے وقت میں ہمارے دلوں کو سکینت عطا کر اور اگر دشمن سے مقابلہ ہو تو ہمارے قدموں کو مضبوط رکھ۔ تُو جانتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے خلاف ظلم اور تعدی کے رنگ میں حملہ آور ہو رہے ہیں اور ان کی نیت ہمیں اپنے دین سے بے دین کرنا ہے مگر اے ہمارے خدا! تیرے فضل سے ہمارا یہ حال ہے کہ جب وہ ہمیں بے دین کرنے کے لیے کوئی تدبیر اختیار کرتے ہیں تو ہم ان کی تدبیر کو دور سے ہی ٹھکرا دیتے ہیں اور ان کے فتنہ میں پڑنے سے انکار کر تے ہیں اور

اَبَیْنَا اَبَیْنَا پر آپؐ بلند آواز کرتے۔

ایک روایت میں ہے کہ شعر کے آخر پر آواز کو لمبا کرتے۔

بہرحال خندق کی کھدائی ایک مشقت طلب کام تھا اور دیگر صحابہ کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خندق کی کھدائی میں ساتھ ساتھ تھے۔ کبھی کدال چلاتے اور کبھی بیلچے سے مٹی جمع کرتے اور کبھی ٹوکری میں مٹی اٹھاتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ تھکاوٹ ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے۔ پھر آپؐ نے اپنے بائیں پہلو پر پتھر کا سہارا لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند آ گئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہو کر لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرنے سے روکتے رہے کہ کہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگا نہ دیں۔ جب کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو جلدی سے اٹھے اور فرمایا۔ تم نے مجھے بیدار کیوں نہیں کیا؟ مَیں سویا ہوا تھا مجھے جگایا کیوں نہیں؟ اور پھر آپؐ بڑا کلہاڑا اٹھا کر زمین پر مارنے لگے یعنی کام شروع کر دیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی برکت سے صحابہؓ  تو گویا اپنے غم اور محنت کی کُلفت کو بھول ہی جاتے تھے

اور جہاں ایک طرف پاکیزہ شعر خوانی ہوتی تو دوسری طرف ہلکا پھلکا مزاح بھی جاری رہتا۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت زید بن ثابتؓ جو کہ کم سن نوجوان تھے خندق کھودتے کھودتے خندق کے اندر ہی سو گئے تو ان کے ایک ساتھی نے ان کا کھدائی کا سامان مذاق میں اٹھا لیا اور جب وہ بیدار ہوئے تو اپنا سازو سامان نہ پا کر گھبرا گئے جبکہ دوسرے دوست اس پریشانی سے محظوظ ہونے لگے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب علم ہوا تو آپؐ نے حضرت زیدؓ کو فرمایا۔ لڑکے تم ایسے سوئے کہ اپنے سامان کی بھی خبر نہ ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود حضرت زیدؓ کے پاس تشریف لائے اور مسکراتے ہوئے فرمایا: يَا أَبَا رُقَادٍ! اے نیند کے ماتے! البتہ ساتھ ہی اس طرح کے مذاق کی بھی حکیمانہ انداز میں اصلاح فرمائی اور فرمایا کہ زید کے سامان کی کسی کو خبر ہے؟ تو ایک شخص نے عرض کیا کہ حضورؐ میرے پاس اس کا سامان ہے اور مَیں نے ہی اٹھایا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو اس طرح پریشان نہیں کرنا چاہیے کہ اس کے ہتھیار اور اوزار اٹھا لیے جائیں۔(سیرت الحلبیہ جلد2 صفحہ420)(سبل الہدی جلد 4 صفحہ 365 تا 367 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)(امتاع الاسماع جلد 1 صفحہ 227 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

صحابہؓ کی مسلسل شبانہ روز محنت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی برکت سے یہ خندق مکمل ہو گئی۔ مسلمانوں نے خندق کھود کر اس کو پختہ کر دیا۔

خندق کی تکمیل کتنی مدت میں ہوئی؟

اس کے متعلق روایات ہیں۔ چھ دن، دس دن، پندرہ دن، بیس دن اور ایک مہینہ۔ یہ مدت بیان کی جاتی ہے۔ پندرہ دن اور ایک ماہ کے متعلق زیادہ اتفاق کیا جاتا ہے۔(سیرت الحلبیہ جلد 2 صفحہ 422 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اس خندق کی لمبائی تقریباً چھ ہزار گز یا کوئی ساڑھے تین میل تھی،
چوڑائی نو ہاتھ اور گہرائی سات ہاتھ۔

ایک ہاتھ ڈیڑھ فٹ کا بیان کیا جاتا ہے اس طرح چوڑائی تیرہ چودہ فٹ اور گہرائی دس گیارہ فٹ بنتی ہے۔( اٹلس سیرت نبویؐ صفحہ 278 مطبوعہ دار السلام
(غزوہ احزاب از محمد احمد باشمیل صفحہ171 نفیس اکیڈمی کراچی)(الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم ﷺ جلد10صفحہ 208 المرکز الاسلامی للدراسات)

یہ طویل و عریض خندق صدیوں تک موجود رہی

یہاں تک کہ وادی بَطْحَانْ کے پانی کے مسلسل بہاؤ اور کاٹ کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ معدوم ہوتی گئی۔ بَطْحَانْ جو ہے یہ بھی مدینہ کے تین مشہور وادیوں میں سے ایک وادی ہے۔ باقی دو وادیاں عقیق اور وادی قَنَاۃہیں۔(فرہنگ سیرت صفحہ 58-59 زوار اکیڈمی کراچی)

وہ خندق کچھ تو لوگوں نے بھر دی تھی تا کہ اس کے آر پار جانے کے لیے رستے بن جائیں اور باقی ماندہ وادی بطحان کے نالے کی بھل سے بھر گئی۔ بھل کہتے ہیں دریا سے بارشوں کا جو پانی آتا ہے اس کے ساتھ مٹی آتی ہے وہ جمع ہوتی رہتی ہے اس سے بھر گئی۔

چھٹی صدی ہجری کے مشہور مؤرخ مدینہ حافظ ابن نَجَّارْ لکھتا ہے کہ جہاں تک خندق کا تعلق ہے وہ آج بھی ہمارے دور میں موجود ہے۔ البتہ اس نے ایک نالے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس کی دیوار بہت ساری جگہوں سے منہدم ہو چکی ہے اور کھجورکے درختوں کی کثیر تعداد اس کے اندر اُگ چکی ہے۔

نویں صدی ہجری کے ایک مصنف لکھتے ہیں کہ آج اس خندق میں سے کچھ بھی نہیں بچا۔ چھ سو سال تک تو یہ قائم رہی۔ نویں صدی میں وہ کہتا ہے کوئی نشان نہیں سوائے اس کے کہ اس کا محل وقوع اس ندی سے معلوم پڑ جاتا ہے جو کہ وادی بَطْحَان کا حصہ ہے اور اس کی جگہ بہ رہی ہے۔(جستجوئے مدینہ صفحہ 405 اورینٹل پبلی کیشنز پاکستان)

لکھا ہے کہ ہرچند کہ مدینہ میں یہ دن خوف و ہراس اور پریشانی کے تھے منافقین آنے بہانے بنا کر اپنے اپنے ڈیروں اور گھروں کی طرف جانا شروع ہو گئے تھے لیکن صحابہؓ کا عمومی جوش اور ولولہ قابلِ دید تھا۔ بچے اور عورتیں بھی ان کے شانہ بشانہ ان کی ہمت بندھانے اور ان کی معاونت کرنے میں پیش پیش تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات بھی خطرے کی اس گھڑی میں عزم و ہمت کے ساتھ مردانہ وار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔ خندق چونکہ مدینہ سے باہر کھودی جا رہی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر یہیں رہتے تھے اور مدینہ کی عورتوں اور بچوں کو مدینہ میں بعض مضبوط قلعوں میں منتقل کر دیا گیا تھا اس لیے کبھی تو حضرت عائشہ ؓآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے آتیں اور چند دن رہتیں۔ پھر حضرت ام سلمہؓ چند دن رہتیں۔ پھر حضرت زینبؓ چند دن رہتیں اور باقی تمام ازواجِ مطہرات بنو حارثہ کے مضبوط قلعہ میں تھیں اور بعض نے کہا کہ ازواجِ مطہرات بنو زُرَیْق کے قلعہ نَسْر میں تھیں اور کہا گیا ہے کہ بعض ازواجِ مطہرات فَارِعْ میں تھیں۔ یہ مختلف روایتیں ہیں۔ فَارِعْ جو ہے یہ مدینہ میں حضرت حَسَّان بن ثَابِتؓ کا قلعہ تھا۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ 367 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگ سیرت صفحہ223 زوار اکیڈمی کراچی)

خندق کی کھدائی کے وقت بعض معجزات

بھی ہوئے۔ ان میں سے

کھدائی کے دوران چٹان نہ ٹوٹنے والا واقعہ

بھی بیان کیا جاتا ہے۔ روایت میں ہے کہ خندق کی کھدائی کے دوران ایک سخت اور پتھریلی جگہ آ گئی اور صحابہؓ سخت کوشش کے باوجود اس جگہ کی کھدائی سے عاجز آ گئے۔ آخر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر فریاد کی۔ آپؐ نے کدال لی اور اس جگہ ماری تو وہ پتھریلی زمین ریت کی طرح بھر بھرا گئی۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ پانی منگوایا اور اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا پھر آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور اس کے بعد یہ پانی اس پتھریلی زمین پر چھڑک دیا۔ وہاں جو صحابہؓ اس وقت موجود تھے ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سچائی دے کر ظاہر فرمایا ہے کہ یہ پانی پڑتے ہی وہ زمین ملائم ہو کر ریت کی طرح ہو گئی۔(سیرت الحلبیہ جلد 2 صفحہ 420 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

یہ واقعہ دوسرا ہے جہاں بادشاہتوں کی خوشخبریاں دی گئی تھیں۔ وہ دوسرا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے۔ پہلا واقعہ جو تھا وہ تو پانی ڈالنے کا تھا اور یہ وہ ہے جس میں

آپؐ کو آئندہ بادشاہتوں کی خوشخبریاں دی گئیں

اس کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک اَور موقع پر ذکر ہے کہ حضرت سلمان فارسیؓ سے ایک چٹان ٹوٹ نہیں رہی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمانؓ سے کدال لے لی اور ایک ضرب لگائی تو ایک بجلی کی سی چمک نمودار ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اللہ اکبر! پاس کھڑے صحابہ نے بھی اللہ اکبر! کہا اور اس کا ایک حصہ ٹوٹ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بار ضرب لگائی اور اس میں سے چمک نکلی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اللہ اکبر! اور چٹان کا کچھ حصہ اور ٹوٹ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار ضرب لگائی تو چٹان کا باقی حصہ بھی ٹوٹ گیا اور اس میں سے پھر ایک چمک نکلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر! کہا۔ صحابہ نے بھی ہر بار اللہ اکبر! کہا۔ حضرت سلمان فارسیؓ جو پاس ہی کھڑے تھے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جب آپؐ کدال سے ضرب لگاتے تھے تو چٹان سے ایک روشنی سی نکلتی تھی اور آپؐ نے اللہ اکبر بھی کہا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سلمان! کیا تم نے بھی روشنی کو دیکھا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مَیں نے بھی دیکھی تھی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

پہلی بار جب روشنی نکلی تھی تو حِیرہ اور کسریٰ کے محلات مجھے دکھائے گئے تھے اور جبرئیل نے مجھے کہا کہ آپؐ کی امت اس پر قبضہ کرے گی۔
دوسری مرتبہ روشنی میں ارضِ روم کے سرخ محلات مجھے دکھائے گئے اور جبرئیل نے خبردی کہ تمہاری امت اس پر قابض ہو گی
اور تیسری بار جب روشنی نکلی تو صَنْعَاء کے محلات مجھے دکھائے گئے اور جبریل نے بتایا کہ تمہاری امت ان پر بھی غالب آ جائے گی۔ لہٰذا تمہیں خوشخبری ہو۔

اور سب نے کہا الحمد للہ! سچا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تنگی کے بعد ہم سے مدد کا وعدہ کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فارس کے محلات کی نشانیاں سلمانؓ کو بیان کرنے لگے تو سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کہا ہے یہ ہی اس کی نشانی ہے۔ یعنی جس جس طرح آپؐ نے بتایا تھا کہ یہ ان کی نشانیاں ہیں حضرت سلمانؓ نے اس کی تصدیق کی۔ کہنے لگے کہ

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سلمان! یہ فتوحات اللہ تعالیٰ میرے بعد دے گا۔ شام کو فتح کیا جائے گا اور ہرقل اپنی مملکت کے آخر تک بھاگ جائے گا اور تم شام پر غالب ہو گے۔ تم سے کوئی جھگڑا اور مزاحمت نہ کرے گا اور یہ مشرق فتح ہو گا اور کسریٰ قتل کیا جائے گا۔ اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہو گا۔ اس پر منافقین بڑا تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ مصیبت اور بے کسی اور خوف و ہراس کے اس عالم میں اس عظیم الشان لیکن بظاہر غیر ممکن بشارت سے مومنوں کا ایمان تو اور بڑھ گیا اور ان کی بشاشت میں مزید اضافہ کا باعث بنا لیکن منافقین نے اس پر تمسخر کرنا شروع کر دیا۔ منافقین نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہیں یہ خبر دے رہے ہیں کہ وہ یثرب سے حیرہ کے محل اور کسریٰ کے شہر دیکھ رہے ہیں اور تم وہ فتح کرو گے حالانکہ تم یہاں اپنے بچاؤ کے لیے خندقیں کھود رہے ہو اور تم میں اتنی بھی طاقت نہیں ہے کہ تم یہاں سے نکل سکو اور کچھ دور قضائے حاجت کے لیے جا سکو۔

اس موقع پر منافقین کی اس کیفیت کا اظہار اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے۔ فرمایا کہ وَ اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا۔ (الاحزاب:13) اور جب منافقوں نے اور ان لوگوں نے جن کے دلوں میں مرض تھا کہا ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے دھوکے کے سوا کوئی وعدہ نہیں کیا۔ لیکن دیکھنے والوں نے پھر دیکھا کہ چند ہی سالوں کے اندر اندر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں یہ سارے شہر اور محلات فتح ہوئے اور یہی بےبس اور بے کس فاقہ کش مومنین ان محلات کے وارث بنے۔ حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ تمام فتوحات میں نے دیکھی ہیں۔(الاکتِفاء جلد 1 صفحہ422)(ماخوذ ازسبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ368 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ان واقعات کو جو پتھر توڑنے کے ہیں اور معجزات جو رونما ہوئے اس کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اپنے اندازمیں بیان کیا ہے، لکھتے ہیں کہ ’’تنگی اورشدت کی حالت میں خندق کھودتے کھودتے ایک جگہ سے ایک پتھر نکلا جو کسی طرح ٹوٹنے میں نہ آتا تھا اور صحابہ کا یہ حال تھا کہ وہ تین دن کے مسلسل فاقہ سے سخت نڈھال ہورہے تھے۔ آخر تنگ آکر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ایک پتھر ہے جو ٹوٹنے میں نہیں آتا۔ اس وقت آپ کا بھی یہ حال تھا کہ بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا تھا مگر آپؐ فوراً وہاں تشریف لے گئے اورایک کدال لے کر اللہ کانام لیتے ہوئے اس پتھر پر ماری۔ لوہے کے لگنے سے پتھر میں سے ایک شعلہ نکلا جس پر آپؐ نے زور کے ساتھ اللہ اکبر! کہا اور فرمایا کہ مجھے مملکت شام کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اور خدا کی قسم! اس وقت شام کے سرخ محلات میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ اس ضرب سے وہ پتھر کسی قدر شکستہ ہو گیا۔ دوسری دفعہ آپؐ نے پھر اللہ کا نام لے کر کدال چلائی اور پھر ایک شعلہ نکلا جس پر آپ نے پھر اللہ اکبر! کہا اور فرمایا اس دفعہ مجھے فارس کی کنجیاں دی گئی ہیں اور مدائن کے سفید محلات مجھے نظر آرہے ہیں۔ اس دفعہ پتھر کسی قدر زیادہ شکستہ ہو گیا۔ تیسری دفعہ پھر آپؐ نے کدال ماری جس کے نتیجہ میں پھر ایک شعلہ نکلا اورآپ نے پھر اللہ اکبر! کہا اور فرمایا اب مجھے یمن کی کنجیاں دی گئی ہیں اور خدا کی قسم صنعاء کے دروازے مجھے اس وقت دکھائے جا رہے ہیں۔ اس دفعہ وہ پتھر بالکل شکستہ ہوکر اپنی جگہ سے گر گیا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقعہ پر بلند آواز سے تکبیر کہی اور پھر بعد میں صحابہ کے دریافت کرنے پر آپ نے یہ کشوف بیان فرمائے۔ اورمسلمان اس عارضی روک کو دور کر کے پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ نظارے عالمِ کشف سے تعلق رکھتے تھے۔ گویا اس تنگی کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مسلمانوں کی آئندہ فتوحات اور فراخیوں کے مناظر دکھا کر صحابہ میں امیدوشگفتگی کی روح پیدا فرمائی مگر بظاہر حالات یہ وقت ایسا تنگی اور تکلیف کا وقت تھا کہ منافقین مدینہ نے ان وعدوں کو سن کر مسلمانوں پر پھبتیاں اڑائیں کہ گھر سے باہر قدم رکھنے کی طاقت نہیں اور قیصر وکسریٰ کی مملکتوں کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ مگر خدا کے علم میں یہ ساری نعمتیں مسلمانوں کے لیے مقدر ہوچکی تھیں۔ چنانچہ یہ وعدے اپنے اپنے وقت پر یعنی کچھ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں اور زیادہ تر آپ کے خلفاء کے زمانہ میں پورے ہوکر مسلمانوں کے ازدیادِایمان و امتنان کا باعث ہوئے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ577-578)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس بارے میں لکھا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’جب خندق کھودی جارہی تھی تو زمین میں سے ایک ایسا پتھر نکلا جو کسی طرح لوگوں سے ٹوٹتا نہیں تھا۔ صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس بات کی خبر دی تو آپؐ وہاں خود تشریف لے گئے۔ اپنے ہاتھ میں کدال پکڑا اور زور سے اس پتھر پر مارا۔ کدال کے پڑنے سے اس پتھر میں سے روشنی نکلی اور آپؐ نے فرمایا۔ اللہ اکبر! پھر دوبارہ آپؐ نے کدال مارا تو پھر روشنی نکلی۔ پھر آپؐ نے فرمایا۔ اللہ اکبر! پھر آپؐ نے تیسری دفعہ کدال مارا اور پھر پتھر سے روشنی نکلی اور ساتھ ہی پتھر ٹوٹ گیا۔ اس موقع پر پھر آپؐ نے فرمایا۔ اللہ اکبر! صحابہؓ نے آپؐ سے پوچھا۔ یا رسول اللہؐ! آپؐ نے تین دفعہ اللہ اکبر کیوں فرمایا ہے؟ آپؐ نے فرمایا پتھر پر کدال پڑنے سے تین دفعہ جو روشنی نکلی تو تینوں دفعہ خدا نے مجھے اسلا م کی آئندہ ترقیات کا نقشہ دکھایا۔ پہلی دفعہ کی روشنی میں مملکت قیصر کے شام کے محلات دکھائے گئے اور اس کی کنجیاں مجھے دی گئیں۔ دوسری دفعہ کی روشنی میں مدائن کے سفید محلات مجھے دکھائے گئے اور مملکتِ فارس کی کنجیاں مجھے دی گئیں۔ تیسری دفعہ کی روشنی میں صنعاء کے دروازے مجھے دکھائے گئے اور مملکتِ یمن کی کنجیاں مجھے دی گئیں۔ پس تم خد اکے وعدوں پر یقین رکھو۔ دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20صفحہ269)

ان معجزات میں جو ان دنوں میں ہوتے رہے ایک

کھانے کا معجزہ

بھی ہے۔اَور بھی کھانے کے معجزے ہوں گے لیکن ایک واقعہ یوں بیان ہوتا ہے کہ

حضرت جابر بن عبداللہؓ نے کھانا پکوایا اور اس میں برکت پڑی۔

اس کی تفصیل یوں ہے کہ حضرت جابرؓ نے انہی دنوں میں سے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھا ہوا ہے اور صحابہ کرامؓ تین دن سے وہاں ہیں ،کوئی کھانے کی چیز چکھی بھی نہیں۔ تین دن ہو گئے کچھ کھانے کو نہیں ملا۔ جابر کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر جانے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے گھر جا کر اپنی بیوی کو کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت بھوک کے آثار دیکھے ہیں جس کو دیکھ کر مجھ سے صبر نہیں ہو سکا۔ کیا گھر میں کچھ ہے؟ اس نے کہا گھر میں ایک صاع جَو کا یعنی اڑھائی سیر سے کچھ کم جَو ہے اور بکری کا بچہ ہے تو بیوی نے وہ برتن نکالا جس میں ایک صاع جَو تھا۔ اور کہتے ہیں میں نے بکری کا بچہ ذبح کیا۔ اہلیہ نے جَو پیسے اور میں نے گوشت کو ہنڈیا میں ڈال دیا۔ میری اہلیہ نے کہا چونکہ کھانا تھوڑا سا ہے اس لیے چپکے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے سامنے رسوائی کا سامنا کرنا پڑے یعنی لوگ زیادہ ہو جائیں اور کھانا تھوڑا رہ جائے۔ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور چپکے سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے پاس تھوڑا سا کھانا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک یا دو آدمی تشریف لے چلیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو میری انگلیوں میں ڈالا اور پوچھا کتنا ہے؟ میں نے بتایا کہ اتنا ہے تو

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت ہے اور طیب ہے۔ تم گھر جاؤ اور اپنی بیوی سے کہو کہ میرے آنے تک ہنڈیا کو نیچے نہ اتارے اور روٹی پکانا شروع نہ کرے

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز لگائی۔ اے خندق والو! جابر نے تمہارے لیے کھانا تیار کیا ہے۔ آ جاؤ! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے آگے آگے چلنے لگے اور مجھے اتنی شرم آئی کہ اس کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جان سکتا ہے۔ مَیں نے دل میں کہا یہ تو بہت زیادہ لوگ آ گئے ہیں۔ ایک صاع جَو اور بکری کے بچے پر اتنے لوگوں کا آنا اللہ کی قسم رسوائی ہے۔ میں گھر میں اپنی بیوی کے پاس گیا تو میں نے سارا ماجرا بیان کیا اس سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ مہاجرین و انصار کو لے کے آ رہے ہیں۔ اہلیہ نے کہا کہ تیرا بھلا ہو مَیں نے تمہیں کہا بھی تھا کہ چپکے سے عرض کرنا۔ شوہر نے بیوی کو بتایا کہ میں نے بالکل اسی طرح کہا تھا جیسا تم نے کہا تھا۔ بیوی نے کہا کہ باقی سب لوگوں کو تم نے دعوت دی تھی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دی تھی۔ اس پر

ایمان و اخلاص کی پیکر بیوی نے کہا کہ پھر کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔

اب فکر کی کوئی بات نہیں۔ یہ ایمان اس عورت کا ہے جو اپنے خاوند سے بھی اس وقت ایمان و اخلاص میں بڑھ گئی۔ جابر بیان کرتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور فرمایا تم دس دس افراد داخل ہو۔ یعنی جو لوگ آئے تھے ان کو دس دس کی ٹولیوں میں بانٹا اور جابر کی اہلیہ نے آٹا نکالا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں لعاب ڈالا اور برکت کی دعا دی۔ پھر ہماری ہنڈیا میں لعاب ڈال کر برکت کی دعا کی۔ پھر ہمیں فرمایا روٹی پکاؤ اور سالن ڈالو اور ہنڈیاکو ڈھانپ دو۔ پھر روٹی تندور سے نکالو اور روٹیوں کو ڈھانپ دو تو ہم نے ایسا ہی کیا۔ ہم سالن نکالتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنڈیا کو ڈھانپ دیتے پھر اس کو کھولتے تو ہم نے دیکھا کہ اس سے کچھ کم نہیں ہوا اور تنور سے روٹی نکالتے پھر اس کو ڈھانپ دیتے تو اس سے بھی کچھ کم نہ ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روٹی کے ٹکڑے کرتے اور اس پر گوشت ڈالتے اور اپنے صحابہؓ کے قریب کر کے فرماتے کہ کھاؤ۔ جب ایک جماعت سیر ہو جاتی تو وہ چلے جاتے۔ پھر دوسرے کو بلاتے یہاں تک کہ ہزار افراد نے وہ کھانا کھایا اور سب چلے گئے اور ہماری ہنڈیا پہلے کی طرح جوش مار رہی تھی اور ہمارا آٹا پہلے کی طرح پڑا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تم کھاؤ اور لوگوں کو بھی بھیجو کیونکہ لوگ بہت زیادہ بھوکے ہیں۔(سبل الہدیٰ و الرشاد جلد 4 صفحہ 369 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(لغات الحدیث جلد 2صفحہ648)

اس واقعہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی لکھا ہے۔ انہوں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’ایک مخلص صحابی جابر بن عبداللہ نے آپ کے چہرہ پر بھوک کی وجہ سے کمزوری اور نقاہت کے آثاردیکھ کرآپ سے اپنے گھر جانے کی اجازت لی۔ گھر آکر اپنی بیوی سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک کی شدت کی وجہ سے سخت تکلیف معلوم ہوتی ہے۔ کیا تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے؟ اس نے کہا ہاں کچھ جَو کاآٹا ہے اورایک بکری ہے۔ جابر کہتے ہیں کہ اس پر میں نے بکری کوذبح کیا اور آٹے کو گوندھا اور پھر اپنی بیوی سے کہا کہ تم کھانا تیار کرو۔ میں رسول اللہ کی خدمت میں جاکر عرض کرتا ہوں کہ تشریف لے آئیں۔ میری بیوی نے کہا دیکھنا مجھے ذلیل نہ کرنا۔ کھانا تھوڑا ہے۔ رسول اللہؐ کے ساتھ زیادہ لوگ نہ آئیں۔ جابر کہتے ہیں کہ میں گیا اور میں نے آہستگی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میرے پاس کچھ گوشت اورجَو کا آٹا ہے جن کے پکانے کے لیے میں اپنی بیوی سے کہہ آیا ہوں۔ آپ اپنے چند اصحاب کے ساتھ تشریف لے چلیں اور کھانا تناول فرمائیں۔ آپ نے فرمایا :کھانا کتنا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس اس قدر ہے۔ آپ نے فرمایابہت ہے۔ پھر آپ نے اپنے اردگرد نگاہ ڈال کر بلند آواز سے فرمایا: اے انصارومہاجرین کی جماعت! چلو جابر نے ہماری دعوت کی ہے چل کر کھانا کھا لو۔ اس آواز پر کوئی ایک ہزار فاقہ مست صحابی آپ کے ساتھ ہو لیے۔ آپؐ نے جابر سے فرمایاکہ تم جلدی جلدی جاؤ اور اپنی بیوی سے کہہ دو کہ جب تک میں نہ آلوں ہنڈیا کو چولہے پر سے نہ اتارے اورنہ ہی روٹیاں پکانا شروع کرے۔ جابر نے جلدی سے جا کر اپنی بیوی کواطلاع دی اوروہ بیچاری سخت گھبرائی کہ کھانا توصرف چند آدمیوں کے اندازہ کا ہے اور آرہے ہیں اتنے لوگ! اب کیا ہو گا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پہنچتے ہی بڑے اطمینان کے ساتھ ہنڈیا اور آٹے کے برتن پر دعا فرمائی اور پھر فرمایا اب روٹیاں پکانا شروع کر دو۔ اس کے بعد آپ نے آہستہ آہستہ کھانا تقسیم کرنا شروع فرما دیا۔ جابر روایت کرتے ہیں کہ مجھے اس ذات کی قَسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی کھانے سے سب لوگ سیرہوکر اٹھ گئے اور ابھی ہماری ہنڈیا اسی طرح ابل رہی تھی اور آٹا اسی طرح پک رہا تھا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ578)

جنگ اَحزاب کے حوالے سے باقی باتیں انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔

دعاؤں کی طرف میں توجہ دلاتا رہتا ہوں۔ اس طرف بہت توجہ رکھیں۔

اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرے۔ ہر جگہ، ہر ملک میں رہنے والے احمدی کو، بنگلہ دیش میں، پاکستان میں دوسری جگہوں پر ہر احمدی کو ہر شر سے بچائے۔ اور دنیا جس آگ میں پڑ رہی ہےاور جانے کی بڑی تیزی سے کوشش کر رہی ہے اس سےدنیا کو بھی بچائے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔

اللہ تعالیٰ سب طاقتوں کا مالک ہے۔ اگر ابھی بھی یہ لوگ اصلاح کی طرف توجہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو مصیبتوں سے نکال سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کو عقل اور سمجھ آجائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 13؍ ستمبر 2024ء شہ سرخیاں

    نبی اکرمﷺ نے فرمایا: پہلی بار جب روشنی نکلی تھی تو حیرہ اور کسریٰ کے محلات مجھے دکھائے گئے تھے اور جبرئیل نے مجھے کہا کہ آپؐ کی امت اس پر قبضہ کرے گی۔ دوسری مرتبہ روشنی میں ارضِ روم کے سرخ محلات مجھے دکھائے گئے اور جبرئیل نے خبردی کہ تمہاری امت اس پر قابض ہو گی۔ اور تیسری بار جب روشنی نکلی تو صنعاء کے محلات مجھے دکھائے گئے اور جبریل نے بتایا کہ تمہاری امت ان پر بھی غالب آ جائے گی لہٰذا تمہیں خوشخبری ہو

    خندق کھودنے کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی برکت سے صحابہؓ تو گویا اپنے غم اور محنت کی کلفت کو بھول ہی جاتے تھے

    غزوۂ احزاب کے لیے خندق کی کھدائی اور اس دوران پیش آمدہ بعض معجزات کا بیان

    احمدیوں کے ایمان میں مضبوطی اور دنیا کے عمومی حالات کے لیے دعاؤں کی تلقین

    اللہ تعالیٰ سب طاقتوں کا مالک ہے اگر ابھی بھی یہ لوگ اصلاح کی طرف توجہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو مصیبتوں سے نکال سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کو عقل اور سمجھ آ جائے

    فرمودہ 13؍ستمبر 2024ء بمطابق 13؍تبوک 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور