حضرت محمد رسول اللہﷺ: اُسوۂ حسنہ
خطبہ جمعہ 25؍ اکتوبر 2024ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
جنگِ احزاب میں بنو قریظہ کے عہد توڑنے پر جنگِ احزاب کے بعد ان کے قلعوں کے محاصرہ کا ذکر
ہو رہا تھا تا کہ انہیں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور عہد شکنی کرنے کی سزا دی جائے۔
اس کی مزید تفصیل
یوں ہے کہ جب محاصرہ شدید ہو گیا تو بنو قریظہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر قلعوں سے نیچے اتر آئے۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 9، دارالکتب العلمیۃ 1993ء)
بنو قریظہ کا یہ محاصرہ کتنے دن رہا
اس بارے میں مختلف روایات ہیں۔ بعض روایات دس دن کی ہیں۔ بعض پندرہ دن کی، بعض چودہ دن اور بعض جگہ پچیس دن بیان کیے جاتے ہیں(الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ57، 59۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)( سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 20، دارالکتب العلمیۃ 1993ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مختلف تاریخوں کی روایات سے اخذ کر کے بیان فرمایا ہے کہ
اس محاصرے کی مدت کم و بیش بیس دن تھی۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 599)
اس فیصلے میں حضرت سعد بن معاذ ؓکو حَکَم بنایا گیا۔
اس کی تفصیل یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو قید کرنے کا حکم دیا تو ان کو رسیوں سے باندھ دیا گیا۔ اس کام کی نگرانی حضرت محمد بن مسلمہؓ نے کی۔ عورتوں اور بچوں کو قلعوں سے باہر نکالا اور ان کو بھی ایک طرف کر دیا اور ان پر حضرت عبداللہ بن سلامؓ کو نگران مقرر کیا اور جو کچھ ان کے قلعوں میں تھا مثلاً ہتھیار، سامان اور کپڑا وغیرہ، وہ جمع کیا گیا۔ انہیں وہاں پندرہ سو تلواریں، تین سو زرہیں، دوہزار نیزے، پندرہ سو چمڑے کی ڈھالیں اور بہت سا سامان ملا۔ بہت سے برتن، شراب، گھڑے، نشہ آور چیزیں ملیں جن کو بہا دیا گیا اور بہت سے اونٹ اور دوسرے جانور بھی پائے گئے جو سب کے سب جمع کر لیے گئے۔ اَوس قبیلے کے معززین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !بنوقریظہ ہمارے حلیف ہیں۔ عہد شکنی کی وجہ سے ہمارے حلیف بھی نادم و پریشان ہیں۔ پس ان کو ہماری خاطر بخش دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ اَوس کا اصرار بڑھنے لگا اور اَوس کے سارے لوگ ہی آ گئے اور التجا کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ ان کے بارے میں فیصلہ تم میں سے ہی ایک شخص کے حوالے کر دیا جائے؟ سب نے کہا کیوں نہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ
یہ معاملہ سعد بن معاذ کے سپرد کیا جاتا ہے۔
ایک دوسری روایت میں اس طرح بیان ہو اہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فیصلے کے لیے میرے صحابہ میں سے جس کو چاہو اختیار کر لو تو انہوں نے حضرت سعد بن معاذ ؓکو اختیار کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر راضی ہو گئے۔ حضرت سعدؓ اوس قبیلے کے رئیس تھے اور بنو قریظہ کے حلیف تھے۔ یوں قبیلہ اوس کے لوگ نہ صرف مطمئن ہو گئے بلکہ خوش ہو گئے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اب معاملہ ہمارے ہاتھ میں ہے اور عرب کا دستور تھا کہ حلیف کی پاسداری کی جاتی تھی۔ لیکن خدائی تقدیر کچھ اَور ہی فیصلہ کیے ہوئے تھی اور حضرت سعدؓ کا پاکیزہ اور مخلص دل خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی سب رشتوں اور تعلقات پر مقدم کیے ہوئےتھا۔ حضرت سعدؓ اس وقت مدینہ کی مسجد میں رفیدہ اسلمیہ کے خیمہ میں تھے۔ وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور ان کا مسجد میں ہی ایک خیمہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کو اس خیمہ میں ٹھہرایا تھا تا کہ علاج معالجے کی نگرانی اور بسہولت ان کی، زخمیوں کی عیادت بھی کی جا سکے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ حضرت سعد بن معاذؓ کے سپرد کر دیا تو قبیلہ اوس والے ان کے پاس گئے اور انہیں ایک گدھے پر سوار کیا جس کی زین کھجور کی چھال کی تھی اور زین کے اوپر چمڑے کا گدا بچھایا ہوا تھا۔ اس کی لگام بھی کھجور کے ریشوں کی تھی۔ حضرت سعدؓ بھاری بھرکم جوان تھے۔ لوگ حضرت سعدؓ کے ارد گرد جمع ہو گئے اور کہنے لگے اے ابو عمرو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوس کے حلیفوں کا معاملہ آپ کے سپرد کیا ہے تا کہ آپ ان کے ساتھ بھلائی کریں۔ پس آپ ان پر احسان کیجیے۔ اتنے میں اَور بھی بہت سے لوگ جمع ہو گئے لیکن حضرت سعدؓ خاموش رہے۔ جب لوگوں کا اصرار زیادہ ہو گیا تو
حضرت سعدؓ نے فرمایا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کروں۔
حضرت سعدؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور لوگ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ جب حضرت سعد بن معاذ ؓآئے اور بخاری اور مسلم میں ہے کہ جب وہ اس مسجد کے قریب آئے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اور جسے بنو قریظہ کے محاصرے کے وقت نماز پڑھنے کے لیے تیار کیا گیا تھا تو ان کو دیکھ کر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے سردار کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ اپنے اس بہترین آدمی کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔
بنو عبد الاشھل کے لوگ کہتے ہیں ہم حضرت سعدؓ کے لیے دو صفیں بنائے کھڑے ہوئے۔ ہم میں سے ہر شخص ان کو خوش آمدید کہتا رہا یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے سعد !ان کے درمیان فیصلہ کرو۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کے زیادہ حقدار ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم ان کے بارے میں فیصلہ کرو۔ اوس کے لوگ کہنے لگے کہ اے ابوعمرو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے حلیفوں کا فیصلہ آپ کے سپرد کر دیا ہے۔ پس آپ ان کو یعنی ان کے ساتھ اچھا سلوک کیجیے اور ان کی مصیبتوں کو اپنے سامنے رکھیں۔ حضرت سعدؓ نے فرمایا کیا تم بنو قریظہ کے متعلق میرے فیصلے پر راضی ہو گے؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔ ہم آپ کے فیصلے پر اس وقت سے راضی ہیں جبکہ آپ ہم میں موجود نہ تھے یعنی آپ کی غیر حاضری میں بھی ہم نے آپ کا نام تجویز کیا تھا۔ ہماری طرف سے آپ کو اختیار ہے اور امید کرتے ہیں کہ آپ ہم پر احسان فرمائیں گے جیسے آپ کے علاوہ کسی اور نے اپنے حلیف بنو قینقاع کے ساتھ کیا ہے اور ہماری ترجیح آپ ہی ہیں اور ہم آپ کے فیصلے کے آج کے دن بہت محتاج ہیں۔ حضرت سعدؓ نے فرمایا میں پوری کوشش کروں گا۔ تو لوگوں نے پوچھا اس بات سے آپ کی کیا مراد ہے کہ میں پوری کوشش کروں گا؟ حضرت سعدؓ نے فرمایا تمہیں اللہ کے عہد و پیمان کی قسم کیا میرا فیصلہ ہی نافذ ہو گا؟ پکا کرنے کے لیے دوبارہ پوچھا۔ انہوں نے کہا جی ہاں۔
پھر حضرت سعدؓ اس طرف متوجہ ہوئے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال و عظمت کی وجہ سے آپؐ سے مخاطب نہ ہوئے اور یہ کہا کہ اور اِدھر بیٹھے ہوئے لوگ بھی یہ وعدہ کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ان لوگوں نے کہا جی ہاں۔پھر
حضرت سعدؓ نے فرمایا کہ میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے بالغ مردوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قید کر دیا جائے اور مال تقسیم کر دیا جائے اور گھر مہاجرین کو دے دیے جائیں نہ کہ انصار کو۔
انصار نے کہا کہ ہم ان کے بھائی ہیں، ان کے ساتھ ہی تھے۔ فرمایا میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ تم سے مستغنی ہو جائیں۔ یعنی مہاجرین کچھ آزادانہ طور پر اپنے کام کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد! تمہارا فیصلہ اللہ کے اس فیصلے کے مطابق ہے جو اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کے فیصلے کے بارے میں فرمایا۔ اسی فیصلے کے متعلق مجھے فرشتے نے سحری کے وقت بتایا تھا۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5صفحہ9تا 11، دارالکتب العلمیۃ 1993ء)(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ جلدالمواہب اللدنیہ جلد 3صفحہ 81 دارالکتب العلمیۃ 1996ء)
اس کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھی ہے کہ ’’آخر کم وبیش بیس دن کے محاصرہ کے بعد یہ بدبخت یہود ایک ایسے شخص کوحَکم مان کر اپنے قلعوں سے اترنے پررضا مند ہوئے جو باوجود ان کا حلیف ہونے کے ان کی کارروائیوں کی وجہ سے ان کے لیے اپنے دل میں کوئی رحم نہیں پاتا تھا اور جو گوعدل وانصاف کا مجسمہ تھا مگر اس کے قلب میں رَحْمۃٌ لِّلْعَالَمِینکی سی شفقت اور رأفت نہیں تھی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ قبیلہ اَوس بنوقریظہ کاقدیم حلیف تھا اور اس زمانہ میں اس قبیلہ کے رئیس سعد بن معاذؓ تھے جو غزوۂ خندق میں زخمی ہو کر اب مسجد کے صحن میں زیر علاج تھے۔ …سعدؓ سوار ہو کر آئے اور راستہ میں قبیلہ اَوس کے بعض لوگوں نے ان سے اصرار کے ساتھ اور بار بار یہ درخواست کی کہ قریظہ ہمارے حلیف ہیں جس طرح خزرج نے اپنے حلیف قبیلہ بنوقینقاع کے ساتھ نرمی کی تھی تم بھی قریظہ سے رعایت کامعاملہ کرنا اورانہیں سخت سزانہ دینا۔ سعد بن معاذؓ پہلے تو خاموشی کے ساتھ ان کی باتیں سنتے رہے لیکن جب ان کی طرف سے زیادہ اصرار ہونے لگا توسعد نے کہا کہ
’’یہ وہ وقت ہےکہ سعد اس وقت حق وانصاف کے معاملہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کر سکتا۔‘‘
یہ جواب سن کر لوگ خاموش ہو گئے۔
جب سعدؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے تو آپؐ نے صحابہ سے فرمایا: قُوْمُوْااِلٰی سَیِّدِکُمْ۔ یعنی ’’اپنے رئیس کے لیے اٹھو اور سواری سے نیچے اترنے میں انہیں مدد دو۔‘‘جب سعد سواری سے اتر کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آگے بڑھے تو آپؐ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’سعد! بنو قریظہ نے تمہیں حَکَم مانا ہے اور ان کے متعلق جوتم فیصلہ کرو انہیں منظور ہوگا۔‘‘اس پر سعد نے اپنے قبیلہ اوس کے لوگوں کی طرف نظر اٹھا کر کہا۔ عَلَیْکُمْ بِذَالِکَ عَھْدُ اللّٰہِ وَمِیْثَاقُہٗ اِنَّ الْحُکْمَ فِیْھِمْ بِمَا حَکَمْتُ۔ ’’کیا تم خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ پختہ عہد کرتے ہو کہ تم بہرحال اس فیصلہ پر عمل کرنے کے پابند ہو گے جو میں بنو قریظہ کے متعلق کروں؟‘‘ لوگوں نے کہا ہاں ہم وعدہ کرتے ہیں۔ پھر سعدؓ نے اس جہت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے کہا۔ وَعَلٰی مَنْ ھٰھُنَا۔ یعنی ’’وہ صاحب جو یہاں تشریف رکھتے ہیں کیا وہ بھی ایسا ہی وعدہ کرتے ہیں کہ وہ بہرحال میرے فیصلہ کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں وعدہ کرتا ہوں۔
اس عہدوپیمان کے بعد سعدؓ نے اپنا فیصلہ سنایا جو یہ تھا کہ
’’بنو قریظہ کے مقاتل یعنی جنگجو لوگ قتل کر دئے جائیں اور ان کی عورتیں اور بچے قید کر لیے جائیں اور ان کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کر دئے جائیں۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ سنا تو بے ساختہ فرمایا۔ لَقَدْ حَکَمْتَ بِحُکْمِ اللّٰہِ۔ یعنی ’’تمہارا یہ فیصلہ ایک خدائی تقدیر ہے۔‘‘جو ٹل نہیں سکتی اور ان الفاظ سے آپ کا یہ مطلب تھا کہ بنوقریظہ کے متعلق یہ فیصلہ ایسے حالات میں ہوا ہے کہ اس میں صاف طورپر خدائی تصرف کام کرتا ہوا نظرآتا ہے اور اس لیے آپ کاجذبہ رحم اسے روک نہیں سکتا اور یہ واقعی درست تھا کیونکہ بنوقریظہ کا ابولبابہ کو اپنے مشورہ کے لیے بلانا اور ابولبابہ کے منہ سے ایک ایسی بات نکل جانا جو سراسر بے بنیاد تھی اور پھر بنوقریظہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ماننے سے انکار کرنا اور اس خیال سے کہ قبیلہ اوس کے لوگ ہمارے حلیف ہیں اور ہم سے رعایت کا معاملہ کریں گے سعد بن معاذ رئیس اوس کو اپنا حکم مقرر کرنا۔ پھر سعد کاحق وانصاف کے رستے میں اس قدر پختہ ہو جانا کہ عصبیت اور جتھہ داری کا احساس دل سے بالکل محو ہو جاوے۔ اوربالآخر سعد کااپنے فیصلہ کے اعلان سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا پختہ عہد لے لینا کہ بہرحال اس فیصلہ کے مطابق عمل ہو گا۔ یہ ساری باتیں اتفاقی نہیں ہو سکتیں اوریقینا ًان کی تہ میں خدائی تقدیر اپنا کام کر رہی تھی اوریہ فیصلہ خدا کا تھا نہ کہ سعد کا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 599 تا 601 )
سعد بن معاذؓ کے فیصلہ کی تنفیذ کے بارے میں
مزید لکھا ہے کہ جب حضرت سعدؓ نے فیصلہ کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو ذوالحجہ بروز جمعرات مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ ایک روایت میں ہے کہ پانچ ذوالحجہ کو واپس آئے۔ ابن سعد نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سات ذوالحجہ کو مدینہ واپس تشریف لائے اور وہ جمعرات کا دن تھا۔ ان قیدیوں کے بارے میں حکم دیا کہ ان کو مدینہ میں لایا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق قیدیوں کو حضرت اسامہ بن زیدؓ کے گھر لایا گیا۔ عورتوں اور بچوں کو حضرت رملہ بنت حارثؓ کے گھر لایا گیا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان سب کو حضرت رملہ بنت حارثؓ کے گھر قید کیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے کھجوریں لانے کا حکم دیا تو وہ ساری زمین پر بکھیر دی گئیں۔ لوگ بیشمار کھجوریں لے آئے اور یہودی ساری رات وہ بافراغت کھاتے رہے۔ ہتھیار، سامان، کپڑے وغیرہ حضرت رملہ کے گھر لانے کا حکم دیا اور اونٹوں اور بکریوں کو وہیں درختوں کے نیچے چرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 11، 12، دارالکتب العلمیۃ 1993ء)(طبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 58، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنوقریظہ کی بدعہدی اور غداری اور بغاوت اور فتنہ وفساد اور قتل وخونریزی کی وجہ سے خدائی عدالت سے یہ فیصلہ صادر ہوچکا تھا کہ ان کے جنگجو لوگوں کو دنیا سے مٹا دیا جاوے۔ چنانچہ ابتداءً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواس غزوہ کے متعلق غیبی تحریک ہونا بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک خدائی تقدیر تھی مگر خدا کو یہ منظور نہ تھا کہ اس کے رسول کے ذریعہ سے یہ فیصلہ جاری ہو اور اس لیے اس نے نہایت پیچ درپیچ غیبی تصرفات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بالکل الگ رکھا اور سعد بن معاذ کے ذریعہ اس فیصلہ کا اعلان کروایا اور فیصلہ بھی ایسے رنگ میں کروایا کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالکل دخل نہیں دے سکتے تھے کیونکہ آپؐ وعدہ فرما چکے تھے کہ آپ بہرحال اس فیصلہ کے پابند رہیں گے‘‘ جو سعد بن معاذ کریں گے۔ آپؐ پر غیر اور اعتراض کرنے والے لوگ بعض دفعہ ہمارے نوجوانوں کو بھی یہ کہہ کے زہر آلود کرتے ہیں کہ آپؐ نے بنو قریظہ پر ظلم کیا۔ اس کا یہ بڑا واضح جواب ہے کہ آپؐ نے تو فیصلہ کیا ہی نہیں اور فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے حلیف سے کروایا اور اس نے بھی آپؐ سے پختہ عہد لیا۔
بہرحال ’’پھر چونکہ اس فیصلہ کا اثر بھی صرف آپ کی ذات پر نہیں پڑتا تھا بلکہ تمام مسلمانوں پر پڑتا تھا اس لیے آپ اپنا یہ حق نہیں سمجھتے تھے کہ اپنی رائے سے خواہ وہ کیسی ہی عفوورحم کی طرف مائل ہو اس فیصلہ کو بدل دیں۔ یہی خدائی تصرف تھا جس کی طاقت سے متاثر ہو کر آپ کے منہ سے بے اختیار طور پر یہ الفاظ نکلے کہ قَدْ حَکَمْتَ بِحُکْمِ اللّٰہِ۔ یعنی ’’اے سعد! تمہارا یہ فیصلہ تو خدائی تقدیر معلوم ہوتی ہے۔‘‘ جس کے بدلنے کی کسی کو طاقت نہیں۔
یہ الفاظ کہہ کر آپ خاموشی سے وہاں سے اٹھے اور شہر کی طرف چلے آئے اور اس وقت آپ کا دل اس خیال سے دردمند ہو رہا تھا کہ ایک قوم جس کے ایمان لانے کی آپ کے دل میں بڑی خواہش تھی اپنی بدکرداریوں کی وجہ سے ایمان سے محروم رہ کر خدائی قہروعذاب کا نشانہ بن رہی ہے اور غالباً اسی موقعہ پر آپ نے یہ حسرت بھرے الفاظ فرمائے کہ لَوْ اٰمَنَ بِیْ عَشَرَۃٌ مِنَ الْیَھُوْدِ وَلَآمَنَتْ بِیَ الْیَھُوْدُ۔ یعنی ’’اگر یہود میں سے مجھ پر دس آدمی (یعنی دس با رسوخ آدمی بھی ایمان لے آتے) تو میں خدا سے امید رکھتا تھا کہ یہ ساری قوم مجھے مان لیتی‘‘ اور خدائی عذاب سے بچ جاتی۔ وہاں سے اٹھتے ہوئے آپؐ نے یہ حکم دیا کہ بنو قریظہ کے مردوں اور عورتوں اور بچوں کو علیحدہ علیحدہ کر دیا جائے۔ چنانچہ دونوں گروہوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے مدینہ میں لایا گیا اور شہر میں دو الگ الگ مکانات میں جمع کر دیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت صحابہ نے (جن میں سے غالباً کئی لوگ خود بھوکے رہے ہوں گے) بنوقریظہ کے کھانے کے لیے ڈھیروں ڈھیر پھل مہیا کیا اور لکھا ہے کہ یہودی لوگ رات بھر پھل نوشی میں مصروف رہے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 601 تا 602 )
جب صبح ہوئی تو مدینہ کے ایک بازار میں گڑھے کھودنے کا حکم دیا جو اَبُو جَھْم عَدْوِی کے گھر اَحْجَارُالزَّیْت تک کھودے گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے اور آپ کے ساتھ بعض دیگر صحابہ بھی تھے۔ آپ نے بنوقریظہ کے مردوں کو بلایا۔ انہیں ٹولیوں کی شکل میں نکالا جاتا اور اس خندق میں قتل کر دیا جاتا۔ جب انہیں لے جایا جا رہا تھا تو انہوں نے کعب بن اسد سے کہا تیری کیا رائے ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا کرنے لگے ہیں؟ کسی نے پوچھا ان سے۔ اس نے کہا جو تمہیں برا لگے۔ کعب بن اسد سے لوگوں نے کہا کہ تیری کیا رائے ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرنے لگے ہیں؟ اس نے کہا کہ جو تمہیں برا لگے۔ وہ کرنے لگے ہیں جو تمہیں اچھا نہیں لگے گا۔ ہلاکت ہو تم پر۔ تم کسی حالت میں بھی سمجھتے نہیں ہو۔ بلانے والا چھوڑتا نہیں اور جو چلا جاتا ہے وہ واپس نہیں آتا۔ اس کے لیے اللہ کی قسم!تلوار ہے۔ یعنی اب تو تمہاری زندگی کے بچنے کا کوئی بھی امکان نہیں ہے۔ میں نے تمہیں اس کے علاوہ کی طرف بلایا تھا لیکن تم نے انکار کر دیا۔ یہود کہنے لگے یہ غصہ کا وقت نہیں ہے۔ اگر ہم تمہاری رائے کو مان لیتے تو ہم اس عہد کو توڑنے کے مرتکب نہ ہوتے جو ہمارے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تھا۔ حیی بن اخطب نے کہا اب اس ملامت کو چھوڑ دو۔ اب تم سے کچھ بھی دور نہیں کیا جائے گا۔ اب بس تلوار کے لیے صبر کرو۔ حضرت علی اور حضرت زبیر بن عوام کو یہود کے قتل پر مامور کیا گیا۔ بعض روایات کے مطابق کچھ قیدیوں کو قتل کرنے کے لیے مختلف صحابہ میں تقسیم کر دیا گیا۔(ماخوذ از سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5صفحہ 12، دارالکتب العلمیۃ 1993ء)
اس کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھی ہے کہ ’’دوسرے دن صبح کو سعد بن معاذؓ کے فیصلہ کا اجرا ہونا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چند مستعد آدمی اس کام کی سرانجام دہی کے لیے مقرر فرما دیئے اور خود بھی قریب ہی ایک جگہ میں تشریف فرما ہو گئے تا کہ اگر فیصلہ کے اجراء کے دوران میں کوئی بات ایسی پیدا ہو جس میں آپ کی ہدایت کی ضرورت ہو تو آپ بلاتوقف ہدایت دے سکیں۔ نیز یہ کہ اگر کسی مجرم کے متعلق کسی شخص کی طرف سے رحم کی اپیل ہو تو اس میں آپ فوراً فیصلہ صادر فرما سکیں۔ کیونکہ گو سعد کے فیصلہ کی اپیل عدالتی رنگ میں آپ کے سامنے پیش نہیں ہو سکتی تھی مگر ایک بادشاہ یاصدر جمہوریت کی حیثیت میں آپ کسی فرد کے متعلق کسی خاص وجہ کی بناء پر رحم کی اپیل ضرور سن سکتے تھے۔ آپ نے بتقاضائے رحم یہ بھی حکم صادر فرمایا کہ مجرموں کوایک ایک کرکے علیحدہ علیحدہ قتل کیا جاوے۔یعنی ایک کے قتل کے وقت دوسرے مجرم پاس موجود نہ ہوں۔ چنانچہ ایک ایک مجرم کوالگ الگ لایا گیا اوربموجب فیصلہ سعد بن معاذ قتل کیا گیا۔‘‘
جب حیی بن اخطب رئیس بنو نضیر آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر کہنے لگا کہ
’’اے محمدؐ! مجھے یہ افسوس نہیں ہے کہ میں نے تمہاری مخالفت کیوں کی لیکن بات یہ ہے کہ جو خدا کو چھوڑتا ہے خدا بھی اسے چھوڑ دیتا ہے۔‘‘
پھر لوگوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا
’’خدا کے حکم کے آگے کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ اسی کا حکم اوراسی کی تقدیر ہے۔‘‘
اسی طرح کعب بن اسد کو جب قتل کیا گیا ’’کعب بن اسد رئیس قریظہ کو میدانِ قتل میں لایا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اشارةً مسلمان ہو جانے کی تحریک کی۔ اس نے کہا ’’اے ابوالقاسم! میں مسلمان تو ہو جاتا مگر لوگ کہیں گے موت سے ڈر گیا۔ پس مجھے یہودی مذہب پر ہی مرنے دو۔‘‘
ایک یہودی رُفَاعَہ کی معافی کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’ایک اور یہودی رُفَاعَہ نامی تھا اس نے ایک رحم دل مسلمان خاتون کی منت سماجت کر کے اسے اپنی سفارش میں کھڑا کر لیا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان خاتون کی سفارش پر رفاعہ کوبھی معاف فرما دیا۔ غرض اس وقت جس شخص کی بھی سفارش آپؐ کے پاس کی گئی آپ نے اسے فوراً معاف کردیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپؐ سعدؓ کے فیصلہ کی وجہ سے مجبور تھے ورنہ آپ کا قلبی میلان ان کے قتل کیے جانے کی طرف نہیں تھا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 602 )
یہ اس الزام کا بڑا واضح طور پہ جواب ہے کہ آپؐ نے ظلم کیا۔ اسی طرح ہوتا رہا یعنی بنو قریظہ کے مردوں کو قتل کیا جاتا رہا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فارغ ہو گئے اور ان کو شفق کے غائب ہونے تک قتل کیا جاتا رہا۔ پھر گڑھوں کو مٹی سے بھر دیا گیا۔ یہ سب کچھ حضرت سعد بن معاذ ؓکی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب کی۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 13، دارالکتب العلمیۃ 1993ء)
تاریخی روایات کے مطابق عورتوں میں سے صرف نُبَاتَہ کو قتل کیا گیا جو بنو قریظہ کے ایک شخص حَکم کی بیوی تھی اور اس نے ایک مسلمان صحابی حضرت خَلَّادؓ کو جو کہ بنو قریظہ کے قلعہ کی دیوار کے ساتھ بیٹھے تھے اوپر سے پتھر پھینک کر ماردیا تھا۔ اس قتل کی سزا میں اسے قتل کیا گیا تھا۔ (سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5صفحہ 13، 14، دارالکتب العلمیۃ 1993ء) لیکن بعض سیرت نگار اس روایت سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کے نزدیک بنو نضیر یا خیبر کی بعض روایات اس واقعہ کے ساتھ مل جل جانے کی وجہ سے اور بعض دیگر قرائن کی وجہ سے اس عورت کے قتل کا واقعہ درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔(الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم ﷺ، جلد 12 صفحہ 136-137۔ المرکز الاسلامی للدراسات)
رَیْحَانَہ بنت زید نَضَرِیَّہ کے واقعہ کا ذکر
بھی ملتا ہے۔ بنو قریظہ کی قیدی عورتیں اور بچے مدینہ کے مسلمانوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ ان میں بنو نضیر کی ایک عورت ریحانہ بنت زید تھی اور بنو قریظہ میں حَکم نام کے ایک شخص سے اس کی شادی ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے لیے منتخب کیا۔ بعض کے نزدیک اس نے اسلام قبول کر لیا اور بعض کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بطور لونڈی کے رکھا اور بعض کے نزدیک شادی کی تھی۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5صفحہ 15، دارالکتب العلمیۃ 1993ء)(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 7 صفحہ 428-429 مطبوعہ دار السلام)
مختلف روایات ہیں۔ کیا سچ ہے کیا غلط ہے آگے اس کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے جبکہ اس روایت کی تحقیق کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیرت نگاروں کو اس میں غلطی لگی ہے اور اول تو یہ روایت ہی خلافِ واقعہ اور وضعی ہے اور اگر اس میں کچھ حقیقت ہے بھی تو صرف اتنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آزاد کر دیا تھا اور وہ اپنے میکے واپس چلی گئی تھی اور وہیں وفات ہوئی۔ اور اگر بالفرض محال اس روایت کو تسلیم بھی کیا جائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے شادی کی تھی نہ کہ بطور لونڈی کے رکھا تھا۔
چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کی تفصیل میں
ریحانہ کا غلط واقعہ
کے عنوان کے ساتھ لکھا ہے کہ ’’بعض مورخین لکھتے ہیں کہ بنوقریظہ کے قیدیوں میں ایک عورت ریحانہ تھی جسے آنحضرتؐ نے لونڈی کے طورپر اپنے پاس رکھ لیا تھا اوراسی روایت کی بناء پر سرولیم میور نے اس موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہایت دلآزار طعن کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ اول توصحیح بخاری کی محولہ بالا روایت جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کے قیدیوں کو صحابہ میں تقسیم فرمادیا تھا اس روایت کوغلط ثابت کرتی ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی قیدی عورت اپنے گھر کے لیے الگ کر لی تھی تو طبعاً اس موقع پر بخاری کی روایت میں اس کا ذکر ہونا چاہیے تھا مگر بخاری میں اس کا اشارہ تک نہیں ہے۔ علاوہ ازیں دوسری صحیح روایات سے معین طور پر ثابت ہے کہ ریحانہ ان قیدیوں میں سے تھی جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور احسان کے چھوڑ دیا تھا اور اس کے بعد ریحانہ مدینہ سے رخصت ہو کر اپنے میکے کے خاندان (بنونضیر) میں چلی گئی تھی اور پھر وہیں رہی اورعلامہ ابن حجر نے جو اسلام کے چوٹی کے محققین میں سے ہیں اسی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ لیکن اگر یہ تسلیم بھی کیا جاوے کہ ریحانہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا تو تب بھی یقیناً وہ آپ کی بیوی تھی نہ کہ لونڈی۔ چنانچہ جن مورخین نے ریحانہ کے متعلق یہ روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیاتھا ان میں سے اکثر نے ساتھ ہی یہ صراحت کی ہے کہ آپؐ نے اسے آزاد کر کے اس کے ساتھ شادی کر لی تھی۔ چنانچہ ابن سعد نے ایک روایت خود ریحانہ کی زبانی نقل کی ہے جس میں وہ بیان کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آزاد کردیا تھا اور پھر میرے مسلمان ہوجانے پر میرے ساتھ شادی فرمائی تھی اور میرا مہر بارہ اوقیہ‘‘چالیس درہم ’’مقرر ہوا تھا اور ابنِ سعد نے اس روایت کے مقابلہ میں اس دوسری روایت کو جس پر سرولیم میور نے بنیاد رکھی ہے صراحت کے ساتھ غلط اور خلاف واقعہ قرار دیا ہے۔‘‘ باقی یہ مشکوک روایات میں ہے بہرحال۔ ’’اور لکھا ہے کہ یہی اہلِ علم کی تحقیق ہے۔ الغرض اول تو جیسا کہ بخاری کی روایت سے استدلال ہوتاہے اور اصابہ میں تصریح کی گئی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ریحانہ کو اپنی سرپرستی میں لیا ہی نہیں بلکہ اسے آزاد کردیا تھا۔ جس کے بعد وہ اپنے خاندان میں جاکر آباد ہوگئی تھی۔ دوسرے اگر اس روایت کو تسلیم بھی کیا جاوے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا تو تب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد کر کے اس کے ساتھ شادی فرمائی تھی اور اسے لونڈی کے طورپر نہیں رکھا۔‘‘ جیسا کہ اس کی اپنی ایک روایت سے بعض لوگوں نے لکھا ہے۔ کہاں تک وہ صحیح ہے اللہ بہتر جانتا ہے۔ ’’علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ریحانہ کے نام اور حسب نسب اور قبیلہ وغیرہ کے متعلق روایات میں اس قدر اختلاف ہے کہ اس کے وجود ہی کے متعلق شبہ کرنا غالباً غیرمعقول نہیں سمجھا جا سکتا۔ خصوصاً جبکہ اس بات کو مدنظر رکھا جاوے کہ اسے ایک ایسے شخص کی بیوی کہا جاتا ہے جو دنیا میں یقینا ًسب سے زیادہ تاریخی شخص ہے واللہ اعلم۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 604، 605)(لغات الحدیث جلد4صفحہ527)
مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں تفصیل
یہ ہے کہ جب مال غنیمت جمع ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کا حصہ کر کے تقسیم کیا۔ اس غزوہ میں چھتیس گھوڑے تھے۔ ایک گھوڑے کے لیے دو حصے اور گھڑ سوار کے لیے ایک حصہ اور پیادہ کے لیے ایک حصہ مقرر کیا گیا۔ ایک ہزار عورتیں اور بچے قیدی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالِ غنیمت تقسیم کرنے سے پہلے اس کا خمس نکالا۔ قیدیوں کے پانچ حصے کیے اور اس میں سے خمس رکھ لیا۔ آپ اس میں سے آزاد کرتے اور ہبہ کرتے اور خادم بناتے۔ اسی طرح کھجوروں میں سے بھی خمس نکالا اور ہر ایک چیز کا خمس نکال کر حصہ تقسیم کیا گیا۔ ان میں سے ہر ایک حصہ کے لیے قرعہ اندازی کی جاتی جو حصہ قرعہ اندازی میں خمس کا نکلتا وہ آپ لے لیتے اور حضرت مَحمِیَہ بن جَزء زُبَیْدِی کو خمس پر نگران مقرر کیا۔ پھر بقیہ چار حصے تقسیم کیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں کو بھی عطا فرمایا جو جنگ کے وقت حاضر تھیں۔ ان عورتوں میں حضرت صفیہ بنت عبدالمطلبؓ، حضرت ام عمارہؓ، حضرت ام سَلِیطؓ، حضرت ام عَلَاؓ انصاریہ، حضرت سمیراؓ بنت قیسؓ، حضرت ام سعد بن معاذؓ اور حضرت کَبْشَہ بنت رافعؓ شامل تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عُبَادہؓ کو ایک گروہ کے ساتھ خمس کے اموال یعنی قیدی وغیرہ فروخت کرنے کے لیے شام کی طرف بھیجا کہ ان کے بدلے میں ہتھیار اور گھوڑے خرید کر لائیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے اس میں سے ایک حصہ خرید لیا۔ (سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 15، 16، دارالکتب العلمیۃ 1993ء) لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ ان سب قیدیوں کو مدینہ میں ہی رکھا گیا تھا کہیں نہیں بھیجا گیا۔ پھر انہیں آہستہ آہستہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بطور احسان رہا بھی فرماتے رہے۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مختلف تاریخ کی کتب سے اپنی تحقیق کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’بچے اور عورتیں جو سعد کے فیصلہ کے مطابق قید کرلیے گئے تھے ان کے متعلق بعض روایات سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نجد کی طرف بھجوا دیا تھا جہاں بعض نجدی قبائل نے ان کا فدیہ ادا کر کے انہیں چھڑا لیا تھا اور اس رقم سے مسلمانوں نے اپنی جنگی ضروریات کے لیے گھوڑے اور ہتھیار خریدے تھے۔ اگرایسا ہوا ہو تو کوئی بعیدنہیں کیونکہ نجدی قبائل اور بنوقریظہ آپس میں حلیف تھے اور غزوہ قریظہ سے صرف چند دن قبل ہی وہ غزوۂ احزاب میں مسلمانوں کے خلاف اکٹھے لڑ چکے تھے اور دراصل اہل نجد ہی کی انگیخت پر بنوقریظہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بغاوت کاجھنڈا بلند کیا تھا۔ پس اگر نجدوالوں نے اپنے حلیف بنوقریظہ کے قیدیوں کومسلمانوں کے ہاتھ سے چھڑا لیا ہو تو جائے تعجب نہیں لیکن صحیح روایات سے پتہ لگتا ہے کہ یہ قیدی مدینہ میں ہی رہے تھے۔‘‘کہیں نہیں گئے تھے’’اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حسبِ دستور مختلف صحابیوں کی نگرانی میں تقسیم فرمادیا تھا۔ اورپھر ان میں سے بعض نے اپنا فدیہ اداکرکے رہائی حاصل کرلی تھی۔ اوربعض کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یونہی بطوراحسان کے چھوڑ دیا تھا۔ اورپھر یہ لوگ بعد میں آہستہ آہستہ بطیبِ خاطر خود مسلمان ہو گئے۔ چنانچہ ان میں سے عَطِیَّہ قُرَظِی اور عبدالرحمٰن بن زُبَیر بن بَاطِیَا اور کعب بن سُلَیم اور محمد بن کَعْب کے نام تاریخ میں محفوظ ہیں اور یہ سب مسلمان ہوگئے تھے۔‘‘ اور ان میں جومؤخر الذکر ہیں محمد بن کعب یہ شخص توایک بڑے پائے کےمسلمان گزرے ہیں۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 603، 604 )
یہ قیدی عورتیں تقسیم ہوئی ہوں یا فروخت کی گئی ہوں
اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا حکم دیا جو آپ کی وسعت رحمت اور عورتوں کے محسن کے طور پر آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بھی کوئی عورت تقسیم کی جائے یا فروخت کی جائے۔ اگر اس کے ساتھ چھوٹا بچہ یا بچی ہو تو اس کو اس کی ماں سے الگ نہ کیا جائے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے اور ایسا ہی اگر دو چھوٹی بہنیں ہوں تو انہیں بھی بالغ ہونے تک جدا نہ کیا جائے۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد5صفحہ 16، دارالکتب العلمیۃ 1993ء)(غزوہ بنوقریظہ ازباشمیل صفحہ181نفیس اکیڈمی کراچی)
یہ تھا رحمۃ للعالمین ؐکا عمل اور آپؐ کا عورتوں پر احسان اور قیدیوں پر احسان اور اپنے مخالفین پر احسان لیکن آجکل مسلمانوں کا کیا حال ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے نام پر لوگوں کو گھروں سے بے گھر کر رہے ہیں،نکال رہے ہیں،قتل کر رہے ہیں اور پھر اس کا نتیجہ یہی نکل رہا ہے کہ مسلمانوں کی اپنی عزت ختم ہو رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو بھی عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔
بنو قریظہ کی قیدی عورتیں تقسیم ہوئی ہوں یا فروخت کی گئی ہوں اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا حکم دیا جو آپ کی وسعتِ رحمت اور عورتوں کے محسن کے طور پر آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بھی کوئی عورت تقسیم کی جائے یا فروخت کی جائے۔ اگر اس کے ساتھ چھوٹا بچہ یا بچی ہو تو اس کو اس کی ماں سے الگ نہ کیا جائے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے اور ایسا ہی اگر دو چھوٹی بہنیں ہوں تو انہیں بھی بالغ ہونے تک جدا نہ کیا جائے
قبیلہ اَوس کی جانب سے بنو قریظہ کی سفارش سننے پر حضرت سعدؓ نے فرمایا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کروں
بنوقریظہ کے معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے حضرت سعدؓ کے تشریف لانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے سردار کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ اپنے اس بہترین آدمی کے لیے کھڑے ہو جاؤ
حضرت سعدؓ نے بنو قریظہ کے متعلق فرمایا کہ میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے بالغ مردوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قید کر دیا جائے اور مال تقسیم کر دیا جائے اور گھر مہاجرین کو دے دیے جائیں نہ کہ انصار کو۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد! تمہارا فیصلہ اللہ کے اس فیصلے کے مطابق ہے جو اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی فیصلے کے متعلق مجھے فرشتے نے سحری کے وقت بتایا تھا
غزوۂ بنو قریظہ کے اختتام پر بنو قریظہ کی سزا اور دیگر حالات و واقعات کا تفصیلی بیان
فرمودہ 25؍اکتوبر 2024ء بمطابق 25؍اخاء 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔