اُسوۂ حسنہ: صلح حدیبیہ

خطبہ جمعہ 15؍ نومبر 2024ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج

صلح حدیبیہ

کے حوالے سے ذکر شروع کروں گا۔ صلح حدیبیہ ذوالقعدہ چھ ہجری بمطابق مارچ 628ء کو ہوئی۔ اس کو غزوۂ حدیبیہ بھی کہا جاتا ہے۔ غزوہ حدیبیہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک پوری سورت سورة الفتح نازل فرمائی۔ اس کا آغاز ان آیات مبارکہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔ اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ﴿۲﴾ لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ یَہۡدِیَکَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا ﴿۳﴾ وَّ یَنۡصُرَکَ اللّٰہُ نَصۡرًا عَزِیۡزًا ﴿۴﴾ (الفتح آیات 2تا 4)

یقیناً ہم نے تجھے کھلی کھلی فتح عطا کی ہے تا کہ اللہ تجھے تیری ہر سابقہ اور ہر آئندہ ہونے والی لغزش کو بخش دے اور تجھ پر اپنی نعمت کو کمال تک پہنچائے اور صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اللہ تیری وہ نصرت کرے جو عزت اور غلبہ والی نصرت ہو۔

غزوہ حدیبیہ کو کیوں غزوہ حدیبیہ کہا جاتا ہے اور اس کا کیا تعارف ہے؟

یہ مختصر بیان کرتا ہوں۔ حدیبیہ ایک کنویں کا نام تھا جس کی وجہ سے اس جگہ کا نام حدیبیہ پڑ گیا۔ آغازِ اسلام کے وقت یہ کنواں مسافروں ا ور حاجیوں کے کام آتا تھا لیکن کوئی آبادی نہیں تھی۔ حدیبیہ مکہ سے ایک مرحلے یعنی نو میل کے فاصلے پر واقع ہے اور مکہ سے مدینہ کا فاصلہ دو سو پچاس میل کے قریب ہے۔ اس طرح مدینہ سے حدیبیہ تک کا فاصلہ تقریباً دو سو اکتالیس میل بنتا ہے۔ حدیبیہ حرمِ مکہ کی مغربی حد ہے اور بعض کے نزدیک اس کا اکثر حصہ حرم میں داخل ہے اور کچھ حصہ حرم سے باہر ہے۔

یہیں، حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں اور قریش کے مابین معاہدہ ہوا تھا جسے صلح حدیبیہ کہتے ہیں۔ روایت میں اسے غزوۂ حدیبیہ بھی کہا گیا ہے۔

ایک روایت میں اسے غزوۂ تِہَامَہ بھی کہا گیا ہے۔ مکہ اور اس کے ارد گرد کے علاقے کو شدید گرمی اور لُو کی وجہ سے تِہَامَہ کہتے تھے اس لحاظ سے اس کا نام تِہَامَہ بھی پڑ گیا۔(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ 70دار الکتب العلمیۃ بیروت)( اٹلس سیرت نبویؐ صفحہ 326)(فرہنگ سیرت صفحہ 100 زوار اکیڈمی کراچی)(الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ جلد 15 صفحہ 59 المرکز الاسلامی للدراسات)(انسائیکلوپیڈیا سیرت النبیﷺ صفحہ188زم زم پبلشرز)( المعجم الاوسط جلد 2صفحہ 356 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ87دارالکتب العلمیۃ بیروت)

اس کی وجہ

کیا تھی۔ روایات اور تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خواب کی بناپر سفرِ حدیبیہ اختیار کیا۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دکھایا گیا کہ آپؐ اپنے صحابہ کے ساتھ امن کی حالت میں اپنے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بالوں کو کترواتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے ہیں اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے ہیں اور اس کی چابی لے لی ہے اور میدانِ عرفات میں وقوف کرنے والوں کے ساتھ وقوف کیا۔ آپؐ وہاں ٹھہرے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ عرب اور اردگرد کے بادیہ نشین لوگوں کو بلایا تا کہ یہ سب لوگ آپؐ کے ساتھ نکلیں۔ اس سفر میں مسلمانوں کے پاس سوائے تلواروں کے کوئی اسلحہ نہیں تھا جو نیاموں میں تھیں، وہ بھی نیاموں میں تھیں تلواریں۔ تلوار اس زمانے میں گھر سے نکلتے وقت ہر شخص اپنے پاس رکھتا تھا۔ اس لیے اس کو یہ نہیں سمجھا جاتا تھا کہ جس کے پاس تلوار ہے وہ ضرور جنگ کرے گا۔ حضرت عمر ؓنے آپؐ سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر آپؐ کو ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے مسلمانوں کے لیے خطرہ ہے تو آپؐ نے جنگ کے لیے سازو سامان ساتھ کیوں نہیں لیا۔ آپؐ نے فرمایا: چونکہ میں عمرے کی نیت سے جا رہا ہوں اس لیے نہیں چاہتا کہ اپنے ساتھ ہتھیار لے کر چلوں۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواب کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’آپؐ نے اس خواب کودیکھنے کے بعد اپنے صحابہ سے تحریک فرمائی کہ وہ عمرہ کے واسطے تیاری کر لیں۔ عمرہ گویا ایک چھوٹی قسم کا حج تھا جس میں حج کے بعض مناسک کو ترک کرکے صرف بیت اللہ کے طواف اور قربانی پر اکتفا کی جاتی تھی۔‘‘ جس میں مناسک کو تر ک کر کے صرف بیت اللہ کے طواف اور قربانی کی جاتی ہے۔ ’’اوربخلاف حج کے اس کے لیے سال کا کوئی خاص حصہ بھی معین نہیں تھا بلکہ یہ عبادت ہر موسم میں ادا کی جا سکتی ہے۔ اس موقع پر آپؐ نے صحابہ میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ چونکہ اس سفر میں کسی قسم کاجنگی مقابلہ مقصود نہیں ہے بلکہ محض ایک پُرامن دینی عبادت کابجا لانا مقصود ہے اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ اس سفر میں اپنے ہتھیار ساتھ نہ لیں بلکہ عرب کے دستور کے مطابق صرف اپنی تلواروں کو نیاموں کے اندر بند کر کے مسافرانہ طریق پر اپنے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 749)

غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد

کتنی تھی؟ اس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک ہزار سے کچھ اوپر صحابہؓ تھے۔ ایک روایت میں ہے ایک ہزار تین سو تھے اور ایک روایت میں ہے کہ ایک ہزار چار سو تھے۔ الغرض سترہ سو تک تعداد کی روایت بھی بیان کی جاتی ہے یعنی ایک ہزار سے لے کر سترہ سو تک مختلف روایتیںہیں۔(بخاری کتاب المناسک باب من اشعر و قلد بذی الحلیفۃ … الخ حدیث:1694)(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیہ حدیث:4155،4154،4152)(فتح الباری جلد 7 صفحہ 559 قدیمی کتب خانہ)

جب روانگی کا وقت آیا تو قربانی کے جانور حضرت ناجِیَہ بن جُنْدُبْ اَسْلَمِیؓ کے سپرد کر دیے گئے جو انہیں ذوالحلیفہ لے گئے۔ ذوالحلیفہ بھی مدینہ سے چھ یا سات میل کے فاصلے پر ایک جگہ ہے۔

سفر پر نکلنے پر مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ قائمقام یا امیر مقامی مقرر کیا کرتے تھے۔ اس سفر پر نکلنے سے پہلے آپ نے ابن سعد کی روایت کے مطابق مدینہ پر حضرت عبداللہ بن ام مکتومؓ کو نائب مقرر کیا۔ جبکہ ابن ہشام کی روایت ہے کہ حضرت نُمَیْلَہ بن عبداللہ ؓکو نائب مقرر کیا گیا اور بَلَاذُرِی نے حضرت اَبُورُھْم کُلْثُوم بن حُصَین کا ذکر کیا ہے اور بعض کے نزدیک حضرت ابن امّ مکتوم کو امام الصلوٰة مقرر کیا اور باقی سب کو نائب مقرر کیا۔ مختلف روایتیں ہیں۔(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ 33دارالکتب العلمیۃ)(فرہنگ سیرت صفحہ 105)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی سفر کے لیے تیاری اور روانگی کی تفصیل

یوں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اعلان کرنے کے بعد اپنے گھر میں داخل ہوئے اور غسل کیا اور صُحَارْ کے بنے ہوئے دو کپڑے پہنے۔ صُحار یمن میں ایک بستی ہے اور اس کے کپڑے اچھے ہوتے تھے۔ اور پھر اپنے دروازے کے پاس آپؐ باہر آئے اور اپنے دروازے کے پاس اپنی اونٹنی قَصوَاء پر سوار ہوئے۔ اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت ام سَلَمہ ؓآپؐ کے ساتھ تھیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالقعدہ کے شروع میں پیر کے دن روانہ ہوئے اور ذوالحلیفہ میں پہنچ کر وہاں ظہر کی نماز ادا کی۔ پھر قربانی کے جانور منگوائے جن کی تعداد ستّر تھی۔ ان کو گانیاں یعنی ہار پہنائے۔ پھر آپؐ نے کچھ اونٹوں کو اِشْعَار کیا یعنی ان کی کوہان کو نشان لگایا تا کہ معلوم ہو جائے کہ یہ قربانی کے اونٹ ہیں۔ پھر آپؐ نے حضرت نَاجِیَہ بن جُنْدُبؓ کو حکم دیا تو انہوں نے باقی جانوروں کا اِشعار کیا، ان پہ بھی نشان لگائے گئے اور ان کو ہار پہنا دیے۔ باقی مسلمانوں نے بھی اپنے جانوروں کو ہار پہنائے اور اِشعار کیا۔ مسلمانوں کے پاس اس سفر میں دو سو گھوڑے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام باندھنے کے بارے میں

تفصیل اس طرح ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی اور ذوالحلیفہ کی مسجد کے دروازے سے سوار ہوئے۔ آپؐ نے عمرہ کا احرام باندھا تا کہ لوگ جان لیں کہ آپ بیت اللہ کی زیارت اور اس کی تعظیم کے لیے نکلے ہیں۔ پھر آپؐ نے یہ تلبیہ پڑھا۔

لَبَّيْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ۔

اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ۔

میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔

سب تعریف اور نعمت تیری ہے اور بادشاہی تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے حالات کا علم حاصل کرنے کے لیے کہ آیا وہ کسی شرارت کا ارادہ تو نہیں رکھتے ایک خبر رساں حضرت بُسر بن سفیانؓ کو آگے بھیجا اور مزید احتیاط کے طور پر آپؓ نے حضرت عَبَّاد بن بِشر ؓ کو اور ایک روایت کے مطابق حضرت سَعْد بن زَیداَشْھَلِی کو بیس گھڑ سواروں پر امیر بنا کر آگے بھیجا۔( سبل الھدیٰ جلد5 صفحہ 33-34، 80 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

مختلف مقامات پر پڑاؤ کرتے ہوئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رَوْحَاء مقام پر پہنچے جو مدینہ سے تہتر کلومیٹر کے فاصلے پر ہے تو آپؐ کو خبر ملی کہ بحیرۂ اَحْمر کے ساتھ ساحل پر واقع وادی غَیْقَہ میں کچھ مشرکین ہیں اور ان کی طرف سے خطرہ ہے کہ وہ اچانک مسلمانوں پر حملہ کر دیں گے۔ تو آپؐ نے حضرت ابوقَتَادہ انصاریؓ کو جنہوں نے عمرے کا احرام نہیں باندھا تھا صحابہؓ کی ایک جماعت کے ساتھ ان کی طرف روانہ کیا۔(فتح الباری جلد 4صفحہ 28 قدیمی کتب خانہ)(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد8 صفحہ 50 دار السلام)

اس سفر میں بعض معجزات

کا بھی ذکر ہے۔سفر کے دوران ایک جگہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے جبکہ آپؐ کے سامنے ایک پانی کا برتن تھا اور آپؐ اس سے وضو کر رہے تھے۔ آپؐ نے پوچھا کیا بات ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ آپؐ کے پاس اس برتن میں جو پانی ہے اس کے علاوہ ہم میں سے کسی کے پاس نہ پینے کو پانی ہے اور نہ وضو کرنے کے لیے پانی ہے۔ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا۔ اسی وقت آپ کی انگلیوں کے درمیان میں سے اس طرح پانی کے فوارے پھوٹنے لگے جیسے پانی کے چشمے پھوٹ آئے ہوں۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ ہم سب نے پانی پیا اور وضو کیا۔ اگر ہم تعداد میں ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمیں کافی ہو جاتا جبکہ اس وقت ہماری تعداد صرف پندرہ سو تھی۔(سیرت الحلبیہ جلد 3 صفحہ 14 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس واقعہ کو تاریخ کی کتابوں سے لے کر اس طرح بیان کیا ہے کہ

’’دورانِ سفر… ایک وقت ایسا آیا تھا کہ سوائے اس لوٹے کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر استعمال تھا ہر برتن پانی سے خالی ہو گیا تھا۔ اس موقع پر آپؐ نے صحابہ ؓکی طرف سے پانی کی شکایت ہونے پر اپنے لوٹے کے منہ پر اپنا دست مبارک رکھا اور لوٹے کے منہ کو جھکاتے ہوئے صحابہ سے فرمایا کہ اب اپنے اپنے برتن لاؤ اور بھر لو۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اس وقت آپؐ کی انگلیوں کے اندر سے پانی اس طرح پھوٹ پھوٹ کر بہہ رہا تھا کہ گویا ایک چشمہ جاری ہے۔ حتیٰ کہ سب نے اپنی ضرورت کے مطابق پانی لے لیا اور مسلمانوں کی تکلیف جاتی رہی۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 751)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بیان فرمایا ہے، اس واقعہ کو آپؑ فرماتے ہیں’’درجہ لقاء میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں … بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعا نہ تھی۔ کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کر دیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا اور کئی دفعہ دو چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزارہا بھوکوں پیاسوں کا ان سے شکم سیر کر دیا اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیریں کر دیا۔ اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا۔ اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جا پڑے تھے اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کر دیا۔ ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کئے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقت الٰہی مخلوط تھی۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 65۔66)

ان باتوں کا یہ ذکر آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں کیا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کی اطلاع پر قریش کا لشکر تیار کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہؓ سے مشورہ کرنے کا ذکر

بھی ملتا ہے۔ قریش نے اس بات کا علم ہوتے ہوئے کہ مسلمان جنگ کے لیے نہیں بلکہ بیت اللہ کی زیارت کے لیے آ رہے ہیں، مسلمانوں کو مکہ سے روکنے کا فیصلہ کیا اور ہر وہ شخص جو تلوار اٹھا سکتا تھا مسلمانوں کو روکنے کے لیے نکل آیا۔ باوجود اس کے ان کو پتہ تھا کہ جنگ کے لیے نہیں آ رہے اور اپنے حلیفوں کو ساتھ ملا کر آٹھ ہزار کا لشکر تیار کر کے مکہ کے مغربی جانب ایک وادی بَلدَح میں پڑاؤ ڈال لیا اور خالد بن ولید کو دو سو سواروں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا راستہ روکنے کے لیے عُسْفَان سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک وادی کُرَاعُ الغَمِیمبھیج دیا۔(ماخوذ از صلح حدیبیہ از باشمیل صفحہ 114تا119 نفیس اکیڈمی)(فرہنگ سیرت صفحہ 61، 243 )

حضرت مِسْوَرْ بن مَخْرَمہ اور مَرْوَان بن حَکَم سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عُسفان کے قریب اَشْطَاطْ کے تالاب پر پہنچے تو آپؐ کا سراغ رساں آپؐ کے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ قریش نے آپؐ کے لیے بہت بڑا لشکر جمع کیا ہے اور آپ کے لیے متفرق قبیلوں کو جمع کیا ہے اور وہ آپؐ سے لڑنے والے ہیں اور آپؐ کو بیت اللہ سے روکنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے لوگو !مجھے مشورہ دو۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ جو لوگ ہمیں بیت اللہ سے روکنا چاہتے ہیں میں ان کے اہل و عیال اور بال بچوں سب پر چڑھائی کروں اور اگر وہ ہماری طرف آئیں تو ہم انہیں شکست خوردہ چھوڑ دیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپؐ بیت اللہ کا عزم کر کے نکلے تھے، آپؐ نے کسی کو مارنے کا ارادہ نہیں کیا اور نہ کسی سے لڑنے کا۔ اس لیے آپؐ اسی گھر کی طرف چلیں۔ جس نے ہم کو اس سے روکا ہم اس سے لڑیں گے۔(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیہ حدیث: 4178-4179)

یعنی کہ ہمیں تو اپنا کام کرتے رہنا چاہیے۔ سفر جاری رکھنا چاہیے۔ حضرت اُسَید بن حُضَیر ؓنے حضرت ابوبکر ؓکی اس بات سے اتفاق کیا۔ حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت مِقْدَادؓ نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم !یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپؐ سے وہ بات نہیں کہتے جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی موسیٰ سے کہی تھی کہ تُو اور تیرا رب جاکر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یا رسول اللہ! آپؐ جائیں۔ آپؐ اور آپؐ کا ربّ قِتَال کریں ہم بھی آپؐ کے ساتھ قتال کریں گے۔(سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 37 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے انداز میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’مکہ والوں کو پتہ لگ گیا۔ وہ لشکر لے کر آگئے اور انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ تم کو یہاں آنے کی کِس نے اجازت دی ہے؟ انہوں نے کہا ہم لڑنے کے لیے تو نہیں آئے۔ صرف اِس لیے آئے ہیں کہ عمرہ کر لیں۔ یہ مقام تمہارے نزدیک بھی برکت والا ہے او رہمارے نزدیک بھی۔ ہم اس کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔ لڑائی کے لیے نہیں آئے۔ انہوں نے کہا طواف کا سوال نہیں۔‘‘کافروں نے انکار کر دیا۔ ’’ہماری تمہاری لڑائی ہے۔

اگر تم مکہ آئے اور طواف کر گئے توتمام عرب میں ہماری ناک کٹ جائے گی کہ تمہارا دشمن آکر تمہارے گھر میں طواف کر گیا ہے۔ ہم ساری دنیائے عرب کو اجازت دے سکتے ہیں مگر تم کو نہیں دے سکتے۔‘‘(سیر روحانی(7)۔انوارالعلوم جلد 24 صفحہ 247)

جیسا کہ بیان ہوا ہے خالد بن ولید دو سو کے لشکر کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قافلے کو روکنے کے لیے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آگے آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خالد بن ولید سے ہٹ کے، اس کے رستے سے ہٹ کےدوسرے رستے سے حدیبیہ پہنچ گئے جس کی تفصیل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’جب آپؐ چند روز کے سفر کے بعد عُسْفَان کے قریب پہنچے جو مکہ سے قریبا ً دو منزل کے رستہ پر واقع ہے توآپؐ کے خبر رساں نے واپس آ کر آپؐ کی خدمت میں اطلاع دی کہ قریش مکہ بہت جوش میں ہیں اور آپ کو روکنے کا پختہ عزم کئے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان میں سے بعض نے اپنے جوش اور وحشت کے اظہار کے لیے چیتوں کی کھالیں پہن رکھی ہیں اور جنگ کاپختہ عزم کر کے بہرصورت مسلمانوں کو روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ قریش نے اپنے چند جانباز سواروں کا ایک دستہ خالدبن ولید کی کمان میں جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے آگے بھجوا دیا ہے۔ اور یہ کہ یہ دستہ اس وقت مسلمانوں کے قریب پہنچا ہوا ہے اور اس دستہ میں عکرمہ بن ابوجہل بھی شامل ہے وغیرہ وغیرہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سنی تو تصادم سے بچنے کی غرض سے صحابہ ؓکو حکم دیا کہ مکہ کے معروف رستہ کو چھوڑ کر دائیں جانب ہوتے ہوئے آگے بڑھیں۔ چنانچہ مسلمان ایک دشوار گزار اور کٹھن رستہ پر پڑ کر سمندر کی جانب ہوتے ہوئے آگے بڑھنا شروع ہوئے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 750)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند کیا کہ ان سے لڑائی ہو کیونکہ آپؐ لڑائی کے لیے نہیں بلکہ عمرے کے لیے تشریف لے گئے تھے۔

بہرحال آپؐ وہاں سے نکل گئے اور اپنی جگہ پر پہنچ گئے۔ خالد بن ولید کو مسلمانوں کے رستہ بدل کر نکل جانے کا احساس تک نہ ہوا۔ یہاں تک کہ جب خالد بن ولید نے اسلامی لشکر کے غبار کو دیکھا تو دوڑے تا کہ قریش کو خبردار کریں۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5 صفحہ38 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(صلح حدیبیہ از باشمیل صفحہ125 نفیس اکیڈمی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حدیبیہ میں نزول کے بارے میں

روایت میں آتا ہے۔ حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمہؓ اور مروان سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں تشریف لے گئے یہاں تک کہ جب آپؐ اس گھاٹی میں پہنچے جہاں سے ان قریش پر اترا جاتا ہے، آپؐ کی اونٹنی آپ کو لیے ہوئے بیٹھ گئی۔ لوگوں نے اسے اٹھانے کے لیے آوازیں لگائیں مگر وہ اسی طرح رہی۔ لوگوں نے کہا قَصوَاء اڑ گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قَصوَاء اڑی نہیں اور نہ یہ اس کی عادت ہے بلکہ ہاتھیوں کو روکنے والی پاک ذات یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کو روک دیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !قریش جو بات بھی مانگیں گے جس میں وہ اللہ کی حرمتوں کی تعظیم چاہتے ہوں میں ان کو وہ ضرور دوں گا۔ پھر آپؐ نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ کھڑی ہو گئی۔ انہوں نے کہا جو بھی قریش مطالبہ کریں گے سوائے اللہ تعالیٰ کی حرمت پہ حرف نہ آتا ہو تو میں ان کی جو بھی ڈیمانڈز ہیں، پوری کروں گا۔ بہرحال اونٹنی کو دوبارہ آپؐ نے چلایا تو وہ کھڑی ہوگئی۔ آپ مکہ والوں کی طر ف سے ہٹ گئے یہاں تک کہ حدیبیہ کے پرلے کنارے پر ایک تھوڑے پانی والے حوض پر پڑاؤ کیا۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔(بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد حدیث 2731-2732 )

حضرت مصلح موعود ؓبیان کرتے ہیں کہ ’’یہاں آپ کی اونٹنی کھڑی ہو گئی اور اس نے آگے چلنے سے انکار کر دیا۔ صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہ! آپ کی اونٹنی تھک گئی ہے آپ اس کی جگہ دوسری اونٹنی پر بیٹھ جائیں۔ مگر آپؐ نے فرمایا۔ نہیں نہیں یہ تھکی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہر جائیں اور میں یہیں ٹھہر کر مکہ والوں سے ہر طریقہ سے درخواست کروں گا کہ وہ ہمیں حج کی اجازت دے دیں اور خواہ کوئی شرط بھی وہ کریں میں اسے منظور کر لوں گا۔ اس وقت تک مکہ کی فوج مکہ سے دُور فاصلہ پر کھڑی تھی اور مسلمانوں کا انتظار کر رہی تھی۔

اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو بغیر مقابلہ کے مکہ میں داخل ہو سکتے تھے لیکن چونکہ آپؐ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ پہلے آپؐ یہی کوشش کریں گے کہ مکہ والوں کی اجازت کے ساتھ طواف کریں اور اسی صورت میں مقابلہ کریں گے کہ مکہ والے خود لڑائی شروع کرکے لڑنے پر مجبور کریں۔ اس لیے باوجود مکہ کی سڑک کے کھلا ہونے کے آپؐ نے حدیبیہ پر ڈیرہ ڈال دیا۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن۔انوارالعلوم جلد 20 صفحہ 306۔307)

بخاری میں روایت ہے کہ حدیبیہ میں مسلمانوں نے جس تھوڑے پانی والے حوض پر پڑاؤ کیا تھا لوگ اس سے تھوڑا تھوڑا پانی لینے لگ گئے۔ ابھی لوگوں کو دیر نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے اس کا پانی نکال کر ختم بھی کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیاس کی شکایت کی۔(بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد حدیث 2731-2732 )

حضرت نَاجِیَہ بن اَعْجَم ؓروایت کرتے ہیں کہ جب حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پانی کی قلت کی شدید شکایت کی گئی تو آپ نے مجھے بلایا اور اپنی ترکش میں سے ایک تیرنکالا اور مجھے دیا۔ پھر چشمے کا پانی ایک ڈول میں منگوایا۔ میں اس کو لے کر آیا آپ نے وضو فرمایا اور کلی کر کے ڈول میں انڈیل دیا۔ پھر آپؐ نے مجھے فرمایا کہ اس ڈول کو چشمے میں انڈیل دو جس کا پانی خشک ہو گیا ہے اور اس کے پانی میں تیر گاڑھ دو تو مَیں نے ایسا ہی کیا۔ پس قَسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں بہت ہی مشکل سے باہر نکلا۔ مجھے پانی نے ہر طرف سے گھیر لیا۔ پانی ڈال کے، تِیر گاڑ ھ کے میں وہاں کھڑا تھا کہ ایک دم کنویں میں پانی چڑھنا شروع ہو گیا اور پانی ایسے ابل رہا تھا جیسے دیگچی ابلتی ہے یہاں تک کہ پانی بلند ہوا اور کناروں تک برابر ہو گیا۔ لوگ اس کے کنارے سے پانی بھرتے تھے یہاں تک کہ ان میں سے آخری شخص نے بھی پیاس بجھا لی۔(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ 41 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس موقع پر ایک بارش کا ذکر کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے۔ یہ بھی تاریخ کی کتابوں میں سے ہے کہ ’’اسی رات یا اس کے قریب بارش بھی ہو گئی۔ چنانچہ جب صبح کی نماز کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میدان پانی سے تر بتر تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ ’’کیا تم جانتے ہو کہ اس بارش کے موقع پر تمہارے خدا نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟‘‘ صحابہ نے حسبِ عادت عرض کیا کہ خدا اور اس کا رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا

’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندوں میں سے بعض نے تو یہ صبح حقیقی ایمان کی حالت میں کی ہے مگربعض کفر کی حالت میں پڑ کر ڈگمگا گئے۔ کیونکہ جس بندے نے تو یہ کہا کہ ہم پر خدا کے فضل و رحم سے بارش ہوئی ہے وہ تو ایمان کی حقیقت پر قائم رہا مگر جس نے یہ کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کے اثر کے ماتحت ہوئی ہے تووہ بیشک چاند سورج کا تو مومن ہوگیا لیکن خدا کا اس نے کفر کیا۔‘‘

اس ارشاد سے جو توحید کی دولت سے معمور ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ ؓکویہ سبق دیا کہ بےشک سلسلہ اسباب وعلل کے ماتحت خدا نے اس کارخانہ عالم کوچلانے کے لیے مختلف قسم کے اسباب مقرر فرما رکھے ہیں اور بارشوں وغیرہ کے معاملہ میں اجرام سماوی کے اثر سے انکار نہیں مگر حقیقی توحید یہ ہے کہ باوجود درمیانی اسباب کے انسان کی نظر اس وراء الوراء ہستی کی طرف سے غافل نہ ہو۔‘‘یعنی اللہ تعالیٰ سے کبھی غافل نہ ہو۔ اسباب تو اللہ تعالیٰ نے دیے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہی یہ اسباب بھی کام کرتے ہیں ’’جوان سب اسباب کی پیدا کرنے والی اوراس کارخانہ عالَم کی علت العلل ہے اور جس کے بغیر یہ ظاہری اسباب ایک مردہ کیڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔‘‘( سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 751تا 752)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عَمرو بن سَالِم اور بُسْر بن سُفْیَان کے تحفے کا ذکر

بھی ملتا ہے۔ لکھا ہے کہ عَمرو بن سالم اور بُسر بن سفیان جو کہ خُزَاعہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بکریاں اور اونٹنیاں تحفے میں دیں۔ عَمرو بن سالم نے حضرت سعد بن عُبادہؓ کو بھی اونٹ تحفے میں دیا۔ حضرت سعد عمروؓ کے دوست تھے۔ حضرت سعد بن عُبادہؓ اس تحفے کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور خبر دی کہ عَمرو نے ان کے لیے یہ اونٹ بطور تحفہ دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمرو نے ہمیں بھی تحفہ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ عمرو کے مال میں برکت دے۔ پھر حکم دیا کہ اونٹوں کو ذبح کر کے ان کو صحابہ میں تقسیم کر دو اور بکریوں کو ان میں تقسیم کر دیا، ان کو ویسے دے دیا اور اس تقسیم میں اپنے آپ کو بھی آپؐ نے شامل کیا۔ پھر حضرت ام سَلَمہؓ کے پاس اونٹنی کا گوشت بھیجا گیا جیسےدوسروں کے پاس بھیجا گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بکری میں سے کچھ گوشت بھی حضرت ام سَلَمہ ؓکو دیا اور جو شخص تحفہ لے کر آیا تھا اس کو کپڑا تحفے کے طور پر دینے کا حکم دیا۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 42 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

اور یہ سارا تحفہ جو آپؐ کو ملا تھا آپؐ نے وہ بھی ایک جگہ اکٹھا کرکے سب صحابہؓ میں تقسیم کیا۔

یہ ذکر تو چل رہا ہے۔ حدیبیہ کے حوالے سے تفصیل کچھ اَور بھی ہے۔ کس طرح ہوا ؟کیا ہوا؟ سب کچھ باقی انشاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔

اس وقت میں

کچھ مرحومین کا ذکر

کروں گا اور نماز کے بعد جنازہ پڑھاؤں گا۔ پہلا ذکر تو ہے

عزیزم شہریار رکین کا جو جناب محمد عبدالوہاب صاحب بنگلہ دیش کے بیٹے تھے۔

اس واقعہ کے بارے میں لکھا ہے کہ 5؍ اگست کو حکومت کے معزول ہونے کے بعد بنگلہ دیش میں گذشتہ دنوں کافی فساد رہا ہے۔ جب حکومت معزول ہو گئی تو ملک میں انتشار پھیل گیا اور مخالفینِ احمدیت نے بھی اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے احمد نگر جماعت پر حملہ کر دیا۔ پہلے بھی یہاں حملہ ہو چکا ہے۔ مخالفین احمدیوں کے گھر جلاتے جا رہے تھے اور مسجد میں آگ لگا کر جامعہ اور جلسہ گاہ کی طرف آئے۔ وہ اگرچہ جامعہ میں گھسنے میں کامیاب نہ ہو سکے لیکن جلسہ گاہ کے پیچھے کی طرف سے آ کر جلسے کی حفاظت کے لیے وہاں ڈیوٹی پر موجود خدام کو گھیر لیا اور ان پر وار کرتے رہے۔ اسی دوران عزیزم شہریار کے سر پر شدید چوٹ آئی۔ اس کی وجہ سے تین مہینوں کے علاج کے بعد آخر آٹھ نومبر کو سولہ سال کی عمر میں اس کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اور اس طرح یہ شہادت کا مقام پا گیا۔

عزیزم شہریار وقفِ نو کی تحریک میں شامل تھے۔ پسماندگان میں والدین اور دادا دادی کے علاوہ ایک بہن اور دو بھائی شامل ہیں۔ مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا حضرت منشی سراج الاسلام صاحب کے ذریعہ ہوا جنہوں نے علامہ ظِلُّ الرحمٰن صاحب کے ذریعہ خاندان کے اکثر افراد سمیت بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔ مرحوم خودبھی جماعت کا کام کرنے والے تھے۔ اطفال الاحمدیہ احمد نگر کی مجلس عاملہ میں بطور سیکرٹری مال خدمت کر رہے تھے۔

ان کی والدہ لکھتی ہیں کہ ان کا یہ بیٹا آغاز سے ہی نماز اور عبادت کا پابند اور جماعتی کاموں میں سب سے زیادہ دلچسپی لینے والا رہا ہے۔ بلکہ اگر اس کو پڑھائی کا واسطہ دے کر جماعتی کاموں میں بعد میں حصہ لینے کے لیے کہا جاتا تو ناراض ہو جاتا تھا۔ جب بھی احمد نگر میں کوئی اجتماع یا جلسے کا کوئی موقع ہوتا تو یہ سب سے آگے گھر سے نکل کر وہاں پہنچ جاتا۔ گھر کا چھوٹا بیٹا ہونے کے ناطے ماں کہتی ہیں میرا ہاتھ بھی بہت بٹاتا تھا۔ کچن اور پکائی کے کاموں میں بہت مدد کرتا تھا۔ یہ لڑکا بہت سوشل تھا کسی بھی اجنبی سے مل کر بہت جلد گھل مل جاتا تھا۔ والدہ کا کہنا ہے کہ یہ بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح جامعہ میں داخلے کی تیاری کر رہا تھا۔ والدہ صاحبہ نے یہ بھی لکھا کہ ان کو پہلے سے ہی ایسی خوابیں آئی تھیں جس سے عزیزم شہریار کی شہادت کے بارے میں پیش از وقت خبر دی گئی تھی۔

خدام الاحمدیہ احمد نگر کے قائد نجم الثاقب صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ قبل ازیں گذشتہ سال مارچ 2023ء کو جلسہ کے دوران ہونے والے حملوں کے نتیجہ میں انجنیئر زاہد حسن صاحب شہید ہوئے تھے اور میں نے یہاں ان کا جنازہ غائب پڑھایا تھا۔ خطبہ میں ان کا ذکر بھی کیا تھا تو کہتے ہیں کہ ہم سب ڈیوٹی پر ناشتہ کرتے ہوئے خطبہ سن رہے تھے تو اس موقع پر عزیزم شہریار رکین نے کہا کہ آج اگر میں شہید ہوتا تو میرا بھی یہ ذکر ہو رہا ہوتا۔ تفصیل میں لکھتے ہیں کہ جب حملہ آور لوگوں نے 5؍ اگست کو اچانک حملہ کیا۔ اس دفعہ ہنگاموں کے بعد جو حملہ ہوا ہے تو کثیر تعداد میں لوگ جامعہ کی حفاظت کے لیے موجود تھے اور سڑک کے دو طرف صرف پندرہ خدام جلسہ گاہ کی حفاظت کے لیے ڈیوٹی پر کھڑے رہے۔ شہریار ان ہی میں آکر شامل ہوا۔ بڑی دلیری سے پہرہ دیتے رہے اور حفاظتی اقدام میں قائد صاحب کا ہاتھ بٹاتا رہا۔ اچانک حملہ آور گیٹ توڑ پھوڑ کر اندر داخل ہو گئے اور داخل ہوتے ہی ہلَّہ بول دیا اور ڈنڈوں سے لوگوں کو زدو کوب کیا، مارا، بہت ساروں کو زخمی کیا اور سب سے زیادہ زخم، چوٹ مرحوم کو لگی اور ان کو سر پر اس وقت بہت زیادہ چوٹیں لگیں، اتنی زیادہ چوٹیں تھیں کہ نچلا دھڑ بالکل سُن ہو گیا تھا جس کا اظہار انہوں نے وہیں کیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد آرمی کی گاڑی آئی اور فوج کے آجانے سے حملہ آوروں نے زخمی احمدیوں کو چھوڑ کر وہاں سے بھاگنے کی راہ لی۔

قائد صاحب لکھتے ہیں کہ کسی وقت بھی ڈیوٹی اور خدمت بجا لانے کے لیے تیار رہتا تھا۔ مسجد کی صفائی اور وقارِ عمل میں خود بھی حصہ لیتا تھا اور دوسروں کو بھی شامل کرواتا تھا۔ فجر اور تہجد کی نماز پر لوگوں کو جگانے کا فریضہ ادا کرتا تھا۔ جامعہ بنگلہ دیش کے متعلم زُہیر صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب اس کی تدفین ہو رہی تھی اس دن اس علاقے میں جلسہ گاہ میں میری ڈیوٹی تھی تو مَیں نے احمد نگر کے ایک خادم سے پوچھا کہ آپ لوگ اکثر اس کے ساتھ ہوتے تھے اور کھیلتے بھی رہے ہیں۔ کون سی ایسی خصوصیت تھی جو اسے دوسروں سے بڑی ممتاز کرتی ہے تو انہوں نے کہا کہ وہی بات کہ تئیس کے جلسہ کے موقع پر شہید زاہد حسن کے متعلق نمائش لگائی اور ہم سب مل کر دیکھ رہے تھے تو اس وقت اچانک رکین کہنے لگا۔ کاش زاہد بھائی کی طرح میں بھی ایسے شہید ہو پاتا۔ میری تصویر بھی یہاں ہوتی اور میرا ذکر بھی خطبہ میں ہوتا۔ کہتے ہیں ہم اس بات کو اس سے سن کے بڑے حیران تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ خواہش پوری کر دی۔

مرحوم کی چچی زینت فوزیہ کہتی ہیں۔ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ سب کی بات مانتا، سب کے کام کر دیتا تھا اور حملے کے دن جب گھر سے جا رہا تھا تو اس وقت کہہ رہا تھا کہ مسجد کی حفاظت کرنی ہے اگر کامیاب نہ ہو سکا تو شہید ہو جاؤں گا۔ بہرحال شہید مرحوم نے بڑوں کے لیے بھی قربانی کی ایک مثال قائم کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند فرمائے اور والدین اور لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔

دوسرا ذکر ہے۔جنازہ غائب پڑھاؤں گا، یہ ہمارے ایک پرانے عرب دوست ہیں۔

کبابیر کے عبداللہ اسعدعودہ صاحب

گذشتہ دنوں 94سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کی پرورش ایسے گھرانے میں ہوئی جو کبابیر میں احمدی مبلغین کرام کے ساتھ سب سے زیادہ محبت اور اخلاص کا تعلق رکھتا تھا۔ ان مبلغین کی مخلصانہ کوششوں اور دعاؤں اور ان سب سے بڑھ کر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعاؤں کے نتیجہ میں کبابیر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور امن میں رہا۔ خصوصاً فلسطین کی جنگ اور 1948ء میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے دوران اللہ تعالیٰ نے کبابیر کو محفوظ رکھا۔ مرحوم حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے سے لے کر آخر عمر تک خلفائے احمدیت کے ساتھ خط و کتابت اور اطاعت اور اخلاص کا گہرا تعلق رکھتے تھے۔ ابتدائی موصیان میں شامل تھے۔ 1934ء میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے احمدیہ سکول کھولا تو اس میں مرحوم نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر 1948ء میں انگلش سکول میں داخل ہوئے، وہاں سے بھی میٹرک کیا۔ پھر القدس یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری نمایاں کامیابی سے حاصل کی۔ بیس سال تک وزارتِ صنعت و تجارت میں کام کیا۔ اس کے بعد آڈٹ کے حکومتی شعبہ میں ایک بڑے عہدہ پر کام کرنے کی توفیق ملی۔ 1995ء میں وہاں سے ریٹائرڈ ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وزارت مذہبی امور میں ان کا نام اسلامی امور کے صدر کے طور پر پیش کیا گیا۔ بعض اسلامی ممالک نے احمدی ہونے کی وجہ سے آپ کی مخالفت کی۔ اس پر آپ اپنے اصولوں اور احمدیت پر کاربند رہتے ہوئے اس سے دستکش ہو گئے۔

1945ء میں حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ نے اقوامِ متحدہ کے نمائندے کے طور پر فلسطین کا دورہ کیا اور اس دوران مشن ہاؤس میں بھی آئے اور مرحوم ابو صلاح محمد صالح عودہ جو شریف عودہ کے دادا تھے ان کے گھر قیام کیا۔ اس وقت مرحوم عبداللہ اسعد صاحب پندرہ سال کے تھے۔ آپ روزانہ چودھری صاحب کی خدمت کے لیے آتے، ان کو اخبار وغیرہ بھی مہیا کرتے۔

مرحوم ہمیشہ مبلغین کرام کے بہت قریب رہے اور جنرل سیکرٹری،سیکرٹری تعلیم و تربیت،سیکرٹری امورخارجہ،صدر مجلس انصار اللہ،سیکرٹری صد سالہ جوبلی کے عہدوں پر جماعت کی خدمت کی توفیق پائی۔

کبابیر میں مدرسہ احمدیہ کی تعمیر نو کے عظیم الشان منصوبے میں مبلغ سلسلہ جلال الدین قمر صاحب مرحوم کے معاون اور مددگار رہے۔ بلند پایہ مؤ  لف تھے۔ عربی رسالہ البشریٰ میں ستر سال تک دسیوں مضامین لکھے۔ آپ نے سورہ کہف کی تفسیر کا انگریزی سے عربی میں ترجمہ بھی کیا جو مبلغ سلسلہ مکرم فضل الٰہی بشیر صاحب کے عہد میں جماعت میں شائع ہوا۔

عرب ممالک میں جماعت مخالف پروپیگنڈا ہو رہا تھا کہ جماعت احمدیہ اور بہائیت ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں، ملا دیا جماعت کو بہائیوں کے ساتھ۔ عبداللہ اسعد صاحب نے اس کا دندان شکن جواب دیتے ہوئے عربی زبان میں اَلْمُؤَامَرَةُ الکبریٰ کے عنوان سے ایک کتاب تالیف کی۔ اسی طرح کبابیر میں جماعت احمدیہ کی تاریخ کے موضوع پر اَلْکَبَابِیْر بَلَدِی کےعنوان سے کتاب لکھی۔ نہایت مخلص،غیور، احمدیت اور جماعت سے متعلق ہر بات پر فخر کرنے والے جماعت کے سچے خادم تھے۔ آپ کو ممبر پارلیمنٹ بھی بننے کی پیشکش ہوئی مگر آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ سیاست کا اپنا ایک اصول ہوتا ہے جبکہ میرا اصول احمدیت ہے۔ مرحوم کے بیٹے خالد عبداللہ کہتے ہیں کہ بعض اوقات والد صاحب جماعتی کاموں میں مصروف ہوتے اور والدہ صاحبہ اکٹھے چائے پینے کا یا کہیں باہر جانے کا کہتیںتو والد صاحب جواب دیتے کہ میرے پاس اہم جماعتی کام ہیں وہ ختم کرنے کے بعد ہی اور طرف متوجہ ہوں گا۔ پہلی فوقیت جماعتی کام۔ پسماندگان میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں اور چودہ پوتے پوتیاں شامل ہیں۔

اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے اور ان کی نسل کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جیسا کہ میں نے کہا نماز کے بعد یہ جنازے غائب بھی ادا کروں گا۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 15؍ نومبر 2024ء شہ سرخیاں

    ’’اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو بغیر مقابلہ کے مکہ میں داخل ہو سکتے تھے لیکن چونکہ آپؐ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ پہلے آپؐ یہی کوشش کریں گے کہ مکہ والوں کی اجازت کے ساتھ طواف کریں اور اسی صورت میں مقابلہ کریں گے کہ مکہ والے خود لڑائی شروع کرکے لڑنے پر مجبور کریں۔ اس لیے باوجود مکہ کی سڑک کے کھلا ہونے کے آپؐ نے حدیبیہ پر ڈیرہ ڈال دیا۔‘‘ (حضرت مصلح موعودؓ)

    حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں اور قریش کے مابین معاہدہ ہوا تھا جسے صلح حدیبیہ کہتے ہیں۔ روایت میں اسے غزوۂ حدیبیہ بھی کہا گیا ہے

    ’’دورانِ سفر… ایک وقت ایسا آیا تھا کہ سوائے اس لوٹے کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر استعمال تھا ہر برتن پانی سے خالی ہو گیا تھا۔ اس موقع پر آپؐ نے صحابہ ؓکی طرف سے پانی کی شکایت ہونے پر اپنے لوٹے کے منہ پر اپنا دست مبارک رکھا اور لوٹے کے منہ کو جھکاتے ہوئے صحابہؓ سے فرمایا کہ اب اپنے اپنے برتن لاؤ اور بھر لو۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اس وقت آپؐ کی انگلیوں کے اندر سے پانی اس طرح پھوٹ پھوٹ کر بہہ رہا تھا کہ گویا ایک چشمہ جاری ہے۔ حتیٰ کہ سب نے اپنی ضرورت کے مطابق پانی لے لیا اور مسلمانوں کی تکلیف جاتی رہی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ)

    خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندوں میں سے بعض نے تو یہ صبح حقیقی ایمان کی حالت میں کی ہے مگربعض کفر کی حالت میں پڑ کر ڈگمگا گئے۔ کیونکہ جس بندے نے تو یہ کہا کہ ہم پر خدا کے فضل و رحم سے بارش ہوئی ہے وہ تو ایمان کی حقیقت پر قائم رہا مگر جس نے یہ کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کے اثر کے ماتحت ہوئی ہے تووہ بیشک چاند سورج کا تو مومن ہو گیا لیکن خدا کا اس نے کفر کیا

    غزوۂ حدیبیہ کے پس منظر نیز حالات و و اقعات کا بیان

    عزيزم شہريار رکین شہیدولد مکرم محمد عبدالوہاب صاحب آف بنگلہ ديش اور مکرم عبداللہ اسعد عودہ صاحب آف کبابیر کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

    فرمودہ 15 نومبر 2024ء بمطابق 15 نبوت 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور