اُسوۂ حسنہ: صلح حدیبیہ
خطبہ جمعہ 22؍ نومبر 2024ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حدیبیہ کے بارہ میں
بیان ہو رہا ہے۔ اس بارہ میں
بُدَیل بن وَرْقَاء خُزَاعِی اور دیگر قریش کے قاصدوں کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا ذکر
بھی ملتا ہے۔ اس کی تفصیل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں بیان کیا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کی وادی میں پہنچ کر اس وادی کے چشمہ کے پاس قیام کیا۔ جب صحابہ اس جگہ ڈیرے ڈال چکے تو قبیلہ خُزَاعہ کا ایک نامور رئیس بُدَیل بن وَرْقَاء نامی جو قریب ہی کے علاقہ میں آباد تھا اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لیے آیا اور اس نے آپؐ سے عرض کیا کہ مکہ کے رؤساء جنگ کے لیے تیار کھڑے ہیں اور وہ کبھی بھی آپ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ آپؐ نے فرمایا
’’ہم تو جنگ کی غرض سے نہیں آئے بلکہ صرف عمرہ کی نیت سے آئے ہیں
اور افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ قریش مکہ کو جنگ کی آگ نے جلا جلا کر خاک کر رکھا ہے مگر پھر بھی یہ لوگ باز نہیں آتے اور
مَیں تو ان لوگوں کے ساتھ اس سمجھوتہ کے لیے بھی تیار ہوں کہ وہ میرے خلاف جنگ بند کرکے مجھے دوسرے لوگوں کے لیے آزاد چھوڑ دیں۔ لیکن اگر انہوں نے میری اس تجویز کو بھی ردّ کر دیا اور بہر صورت جنگ کی آگ کوبھڑکائے رکھا تو مجھے بھی اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ پھر مَیں بھی اس مقابلہ سے اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹوں گا کہ یا تو میری جان اس رستہ میں قربان ہو جائے اور یا خدا مجھے فتح عطا کرے۔‘‘
اگر میں ان کے مقابلہ میں آکر مٹ گیا تو قصہ ختم ہوا لیکن اگرخدا نے مجھے فتح عطا کی اور میرے لائے ہوئے دین کو غلبہ حاصل ہو گیا تو پھر مکہ والوں کو بھی ایمان لے آنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔ بُدَیل بن وَرْقَاء پر آپؐ کی اس مخلصانہ اور دردمندانہ تقریر کا بہت اثر ہوا اور اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ مجھے کچھ مہلت دیں کہ میں مکہ جاکر آپ کا پیغام پہنچاؤں اور مصالحت کی کوشش کروں۔ آپ نے اجازت دی اور بُدَیل اپنے قبیلہ کے چند آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب بُدَیل بن وَرْقَاء مکہ میں پہنچا تو اس نے قریش کو جمع کرکے ان سے کہا کہ میں اس شخص یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم …کے پاس سے آرہا ہوں اور میرے سامنے اس نے ایک تجویز پیش کی ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کا ذکر کروں۔ اس پر قریش کے جوشیلے اور غیر ذمہ وار لوگ کہنے لگے کہ ہم اس شخص کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔‘‘یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں ’’مگر اہل الرائے اور ثقہ لوگوں نے کہا ہاں ہاں جو تجویز بھی ہے وہ ہمیں بتاؤ۔ چنانچہ بُدَیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تجویز کا اعادہ کیا۔ اس پر ایک شخص عُرْوَہ بن مسعود نامی جو قبیلہ ثقیف کا ایک بہت بااثر رئیس تھا اور اس وقت مکہ میں موجود تھا کھڑا ہو گیا اور قدیم عربی انداز میں قریش سے کہنے لگا۔ ’’اے لوگو! کیا میں تمہارے باپ کی جگہ نہیں ہوں؟‘‘ ان لوگوں نے کہا ’’ہاں‘‘۔ پھر اس نے کہا ’’کیا آپ لوگ میرے بیٹوں کی طرح نہیں ہیں ؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ہاں‘‘۔ ہم بھی بیٹوں کی طرح ہیں۔ ’’پھر عُرْوَہ نے کہا ’’ کیا تمہیں مجھ پر کسی قسم کی بے اعتمادی ہے؟‘‘ قریش نے کہا ’’ہرگز نہیں ‘‘ اس نے کہا ’’تو پھر میری یہ رائے ہے کہ اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپ کے سامنے ایک عمدہ بات پیش کی ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اس تجویز کوقبول کر لیں اور مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کی طرف سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جاکر مزید گفتگو کروں۔‘‘ قریش نے کہا ’’بے شک آپ جائیں اور گفتگو کریں ‘‘۔ ‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے 755تا 756)
عُرْوَہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ عُرْوَہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے کَعْب بن لُؤَیّ اور عامر بن لُؤَیّ کو حدیبیہ کے پانیوں پر چھوڑا ہے۔ ان کے ساتھ دودھ دینے والی اونٹنیاں ہیں۔ انہوں نے اَحَابِیْش، (احابیش قریش کے حلیف قبائل تھے انہوں نے حبشی نامی پہاڑی کے دامن میں حلف لیا تھا اس لیے ان لوگوں کو احابیش کہا جانے لگا) اور ان کے پیروکاروں کو بلایا ہے۔ کہنے لگا۔ اور انہوں نے چیتے کی کھالیں پہن رکھی ہیں یعنی ان کافروں نے چیتے کی کھالیں پہن رکھی ہیں، جنگ کے لیے تیار ہیں اور وہ قسم کھا چکے ہیں کہ وہ بیت اللہ اور آپ کے درمیان راستہ نہیں چھوڑیں گے یہاں تک کہ آپ ان کو ہلاک کر دیں۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ہلاک کر دیں۔ وہ کہنے لگا کہ بیشک آپ اور جن کے ساتھ آپ جنگ کریں گے دو امور میں سے ایک امر طے ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہنے لگا کہ یا تو آپ اپنی قوم کو ہلاک کر دیں گے اور آج تک یہ نہیں سنا گیا کہ کسی آدمی نے اپنی قوم کو ہلاک کیا ہو اور اپنے گھر والوں کو ہلاک کیا ہو۔ یا وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں وہ آپ کو رسوا کر دیں گے۔ یعنی اس نے اس طرح بھی ڈرانے کی کوشش کی کہ یہ لوگ تو بزدل لوگ ہیں جو آپ کے ساتھ ہیں۔ کہنے لگاکہ اللہ کی قَسم !مجھے جو مختلف چہرے آپ کے ساتھ نظر آ رہے ہیں، صحابہ پر بڑی بدظنی کی اس نے۔ کہتا ہے کہ مجھے جو چہرے نظر آ رہے ہیں وہ صرف بھاگنے والے ہی ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ ان لوگوں میں سے وہ لوگ ہیں جن کے چہرے کو میں نہیں پہچانتا اور نہ ہی ان کے نسب کو اور اخلاق کو۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھاگ جائیں گے اور آپ کو چھوڑ دیں گے اور ایک روایت میں ہے کہ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ اگر آپ نے قریش سے جنگ کی تو یہ آپ کو قریش کے حوالے کر دیں گے۔ اس طرح اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو متاثر کرنے کی، ڈرانے کی کوشش کی۔ اور وہ آپ کو قیدی بنا لیں گے تو پھر اس سے زیادہ کون سی چیز سخت ہو گی؟ تو
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے تھے وہ غصےہو گئے اور کہنے لگے اپنے بت لات کو چومتے پھرو یعنی اس کی پوجا کرو۔ یہ باتیں ہم سے نہ کرو تم۔ کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ جائیں گے؟
تو عُرْوَہ نے کہا یہ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ابوبکر ہیں۔ تو عُرْوَہ نے کہا اللہ کی قسم !اگر مجھ پر تیرا ایک احسان نہ ہوتا تو میں اس کا ضرور جواب دیتا۔ کسی زمانے میں عُرْوَہ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا احسان بھی تھا۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ عُرْوَہ نے دیت ادا کرنے کے لیے تعاون مانگا تھا۔ کسی کو قتل کر دیا تھا اس کی دیت دینی تھی۔ تعاون مانگا تو کسی آدمی نے دو اور کسی نے تین اونٹ دے کر تعاون کیاجبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دس اونٹ دے کر تعاون کیا۔ یہ احسان تھا جو حضرت ابوبکرؓ نے عُرْوَہ پر کیا تھا۔
پھر عُرْوَہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرنے لگا اور جب بات کرتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کو ہاتھ لگاتا۔ حضرت مُغِیرہ بن شُعْبَہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تلوار لے کر کھڑے تھے اور اپنے سر پر خَود پہن رکھا تھا۔ عُروہ بات کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ پھر عُرْوَہ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تاکہ آپ کی داڑھی مبارک کو ہاتھ لگائے تو حضرت مُغِیرہؓ نے اپنی تلوار کے کونے سے اس کو ہٹا دیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنے ہاتھ کو روکو قبل اس کے کہ تلوار تم تک پہنچے کیونکہ کسی مشرک کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ آپؐ کی داڑھی کو چھوئے۔ عُروہ نے اپنا سر اٹھایا اور کہا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا مُغِیرہ بن شُعْبَہ۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارا بھتیجا مغیرہ بن شعبہ ہے۔ اس نے کہا اے بدعہد۔ عُرْوَہ مغیرہ بن شعبہ کو کہنے لگا کہ کیا مَیں نے تیری بدعہدی کی اصلاح کی کوشش نہیں کی تھی اور جس کا حوالہ وہ دے رہا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت مغیرہ زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگوں کے ساتھ گئے اور انہوں نے ان کو قتل کر دیا اور ان کے مال لے لیے اور پھر آئے اور اسلام قبول کر لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو وہ مَیں قبول کرتا ہوں اور جہاں تک مال کا تعلق ہے تو میرا اس سے کچھ واسطہ نہیں ہے۔ بخاری کی یہ روایت ہے۔ بہرحال عُرْوَہ نے بھی اس معاملے میں ان کی کوئی مدد کی ہو گی۔ پھر عُرْوَہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو غور سے دیکھنے لگا۔ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھوکتے تو صحابہ اس کو ہاتھ پر لے لیتے اور پھر اس کو اپنے چہرے اور سینے پر ملتے۔ جب آپؐ صحابہ کو کسی چیز کا حکم دیتے تو صحابہ فوری طور پر اس کو بجا لاتے۔ جب آپ وضو کرتے تو صحابہ وضو کے پانی کو حاصل کرنے کے لیے ٹوٹ پڑتے۔ کسی بال کو بھی نیچے گرنے نہیں دیتے تھے بلکہ اس کو حاصل کر لیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز کو نیچا رکھتے اور آپؐ کی تعظیم کی وجہ سے آپؐ کو ترچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتے تھے، نظر اٹھا کےنہیں دیکھتے تھے۔ جب عُروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرنے سے فارغ ہوا تو آپؐ نے عُرْوَہ سے بھی وہی بات کہی جو بُدَیل بن وَرْقَاء سے کہی تھی اور ایک مدت تک صلح کی تجویز پیش کی۔
پھر عُرْوَہ قریش کے پاس آیا اور کہنے لگا
اے میرے لوگو!میں سفارت کے لیے بادشاہوں کے درباروں میں،قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے دربار میں گیا ہوں۔ اللہ کی قَسم !میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کی ایسی اطاعت کی جائے جیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزاری اس کے صحابہؓ میں ہوتی ہے۔
کہاں تو وہ آیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں سے ڈرانے کے لیے اور کہاں جب یہ نظارے دیکھے تو متاثر ہو کر گیا اور یہی بات پھر اس نے جا کے ان کافروں کو بھی بتائی۔ کہنے لگا کہ اللہ کی قسم !میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کے اصحاب اس کی اتنی عزت کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم !ان جیسا کوئی بادشاہ نہیں۔ جب وہ تھوکتے ہیں تو ان کے ساتھی اس کو اپنے ہاتھ پر لے لیتے ہیں پھر اس کو اپنے مونہوں، سینے پر مل لیتے ہیں اور پھر جب وہ حکم کرتے ہیں تو اس کو بجا لانے میں جلدی کرتے ہیں۔ جب وہ وضو کرتے ہیں تو وضو کے پانی کو لینے کے لیے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور آپ کے بالوں کو نیچے نہیں گرنے دیتے بلکہ محفوظ کر لیتے ہیں۔ آپ کے سامنے اس کے ساتھی آہستہ آواز سے کلام کرتے ہیں اور تعظیم کی وجہ سے آپ کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے اور کوئی آدمی بھی اجازت کے بغیر بات نہیں کرتا۔ جب وہ اجازت دیتے ہیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت ہوتی ہے تو پھر صحابہ بات کرتے ہیں اور اگر اجازت نہ دیں تو ہر ایک خاموش رہتا ہے۔ کہنے لگا کہ اس نے تم پر ایک بھلائی کی بات پیش کی ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بھلائی کی بات پیش کی ہے لہٰذا اسے قبول کر لو۔ کہنے لگا کہ بیشک میں نے اپنی قوم کو محتاط کر دیا ہے اور تم خوب جان لو کہ اگر تم نے اس کے ساتھ تلوار کا ارادہ کر لیا تو وہ بھی تلوار کو تمہارے خلاف استعمال کریں گے اور جب تم ان کے صاحب کو روک دو گے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دو گے تو میں نے اس قوم کو دیکھا ہے وہ اس بات کی بالکل پروا نہیں کریں گے کہ ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ اللہ کی قسم !میں نے اس کے ساتھ ایسی عورتیں بھی دیکھی ہیں جو اس کو ہمارے سپرد نہیں کریں گی۔ اے میری قوم !اپنی رائے کو بدل لو اور اس کے پاس جاؤ اور تم وہ چیز قبول کر لو جو وہ تمہارے سامنے رکھتے ہیں۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صلح کی پیشکش کی ہے یا عمرے کی بات کی ہے اس کو مان لو۔ کہنے لگا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ اس کے ساتھ مجھے یہ خوف بھی ہے کہ تمہاری مدد اس شخص کے خلاف نہیں کی جائے گی جو بیت اللہ کی زیارت کے لیے آیا ہے۔ اس کے پاس قربانی کے جانور ہیں جن کو وہ ذبح کریں گے اور پھر لَوٹ جائیں گے۔ اس پر قریش نے کہا اے ابو یَعفُور! یعنی عُرْوَہ کو کہا۔ یہ بات نہ کرو۔ کیا تیرے علاوہ کسی اَور شخص نے بھی یہ بات کی ہے۔ اس کے برعکس ہم اس کو اس سال واپس بھیج دیں گے اور وہ آئندہ سال آئیں گے۔ تو عُروہ کہنے لگا کہ تم کو سخت مصیبت اٹھانا پڑے گی۔ پھر عُرْوَہ اور اس کے ساتھی طائف کی طرف چلے گئے۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ44-45دارالکتب العلمیۃبیروت)(بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد … الخ 2731۔2732)(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد8صفحہ 93مطبوعہ دار السلام)(مسند احمد مع حاشیہ سندی جلد11صفحہ207مکتبہ ادارۃ الشون الاسلامیہ)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی صلح حدیبیہ کے واقعات بیان کیے ہیں۔ آپؓ یہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خانہ کعبہ کے طواف کے لیے تشریف لے گئے توکفارِ مکہ نے خبر پاکر اپنے ایک سردار کو آپ کی طرف روانہ کیا کہ وہ جا کر کہے کہ اس سال آپ طواف کے لیے نہ آئیں۔ وہ سردار آپ کے پاس پہنچا اور بات چیت کرنے لگا۔ بات کرتے وقت اس نے آپ کی ریشِ مبارک کو ہاتھ لگایا کہ آپ اس دفعہ طواف نہ کریں اور کسی اگلے سال پرملتوی کر دیں۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ ہاتھ لگانا کسی بے ادبی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ ’’ایشیا کے لوگوں میں دستور ہے کہ جب وہ کسی سے بات منوانا چاہتے ہوں تو منت کے طور پر دوسرے کی داڑھی کو ہاتھ لگاتے ہیں یا اپنی داڑھی کو ہاتھ لگا کر کہتے ہیں کہ دیکھو! میں بزرگ ہوں اور قوم کا سردار ہوں میری بات مان جاؤ۔ چنانچہ اس سردار نے بھی منت کے طور پر آپ کی داڑھی کو ہاتھ لگایا۔ یہ دیکھ کر ایک صحابی آگے بڑھے اور اپنی تلوار کا ہتھہ مار کر سردار سے کہا: اپنے ناپاک ہاتھ پیچھے ہٹاؤ۔ سردار نے تلوار کا ہتھہ مارنے والے کو پہچان کر کہا تم وہی ہو جس پر میں نے فلاں موقع پر احسان کیا تھا۔ یہ سن کر وہ صحابی خاموش ہو گئے اور پیچھے ہٹ گئے۔ سردار نے پھر منت کے طور پر آپ کی داڑھی کو ہاتھ لگایا۔ صحابہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس سردار کے اس طرح ہاتھ لگانے پر سخت غصہ آرہا تھا مگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا شخص نظر نہ آتا تھا جس پر اس سردار کا احسان نہ ہو۔‘‘ یعنی اس کافر سردار نے بہت لوگوں پر احسان کیا ہوا تھا ’’اور اس وقت ہمارا دل چاہتا تھا کہ کاش! ہم میں سے کوئی ایسا شخص ہوتا جس پر اس سردار کا کوئی احسان نہ ہو۔
اتنے میں ایک شخص ہم میں سے آگے بڑھا جو سر سے پاؤں تک خَوداور زِرہ میں لپٹا ہوا تھا اور بڑے جوش کے ساتھ سردار سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ ہٹا لو اپنا ناپاک ہاتھ۔ یہ حضرت ابوبکرؓ تھے جنہوں نے یہ کہا۔ سردار نے جب ان کو پہچانا تو کہا ہاں میں تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ تم پر میرا کوئی احسان نہیں ہے۔‘‘
(ہندوستانی الجھنوں کا آسان ترین حل، انوارالعلوم جلد 18صفحہ560)
پھر حُلَیْسَ بِن عَلْقَمَہ کِنَانی جو اَحَابِیْش کا سردار تھا جیسا کہ میں نے بتایا ہے احابیش قریش کے حلیف قبائل تھے اور انہوں نے حبشی نامی پہاڑی کے دامن میں حلف لیا تھا اس لیے ان کو احابیش کہتے ہیں۔ اس نے کہا مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے دو تو قریش نے کہا جاؤ۔ جب اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلندی سے دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ فلاں شخص ہے جو ایسے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے جو قربانی کے جانوروں کا احترام کرتے ہیں اور صحابہ کو فرمایا کہ اس کو دکھانے کے لیے قربانی کے جانور آگے گزارو۔ تو انہوں نے جانوروں کو آگے بھیج دیا۔ جب اس نے وادی کے کنارے ان جانوروں کو دیکھا جن کی گردن میں ہار تھے جن کے زیادہ عرصہ رہنے کی وجہ سے یعنی ہاروں کے زیادہ عرصہ گردن میں رہنے کی وجہ سے ان کی گردن کے بال جھڑ چکے تھے۔ وہ جانور بار بار آوازیں نکال رہے تھے۔ صحابہ نے تلبیہ کہتے ہوئے ان کا استقبال کیا اور وہ آدھا مہینہ سےیہاں مقیم تھے۔ انہوں نے خوشبو نہیں لگائی ہوئی تھی یعنی صحابہ نے کوئی خوشبو نہیں لگائی ہوئی تھی اور ان کے بال بھی پراگندہ تھے۔ جب اس نے یہ دیکھا تو اس نے کہا کہ سبحان اللہ! ان لوگوں کے لیے مناسب نہیں کہ وہ بیت اللہ سے روکے جائیں۔ فوراً اس کا دل نرم ہو گیا۔ کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ لَخْم، جُذَام، کِنْدَہ اور حِمْیَر قبائل تو حج کریں اور عبدالمطلب کے بیٹے کو روکا جائے۔ یہ مناسب نہیں ہے کہ قریش ان کو بیت اللہ سے روکیں۔ رب کعبہ کی قسم !قریش ہلاک ہو جائیں گے۔ بیشک یہ لوگ عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ اس نے مسلمانوں کی حمایت میں یہ بات کہی۔ یہ باتیں سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ کی قَسم !اے بَنُو کِنَانَہ کے بھائی !بالکل ایسی ہی بات ہے۔ آپ نے اس کو یہ جواب دیا۔ وہ اس قدر متاثر ہوا کہ قریش کی طرف جا کر کہنے لگا کہ میں نے ایسی چیز دیکھی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو روکنا جائز نہیں ہے۔ میں نے جانوروں کو دیکھا ہے۔ گلے میں ہاروں کی وجہ سے ان کے بال جھڑ چکے ہیں اور وہ ہار ان کی گردنوں میں کافی دیر سے پڑے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے سر پراگندہ ہو چکے ہیں اور یہ سب اس لیے ہے کہ وہ بیت اللہ کا طواف کرسکیں اور اللہ کی قسم !ہم نے اس بات پر تم سے معاہدہ نہیں کیا تھا۔ اس نے کافروں کو کہا کہ ہم نے تم سے اس بات پر معاہدہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی ہم نے تم سے اس بات پر عقد کیا ہے کہ تم ہر اس شخص کو روکو گے جو اس بیت اللہ کی حرمت اور تعظیم کو قائم کرنے والا ہو گا اور اس کا حق ادا کرنے والا ہے۔ اور وہ قربانی کے جانور لے کر انہیں ان کے مقام تک لے جانا چاہتا ہے اور
قَسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ تم ان کے راستے کو کعبہ تک جانے کے لیے خالی کر دو ورنہ میں اپنے لوگوں کو لے کر تمہارا ساتھ چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔
اس نے کہا ان کو جانے کی، عمرہ کرنے کی اجازت دو۔ قریش نے کہا کہ اے حُلَیْس!تم خاموش رہو تا کہ ہم اپنی مرضی کی شرائط ان سے منوا لیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ قریش نے کہا کہ تُو بیٹھ جا، تُو اَعرابی یعنی دیہاتی ہے تجھے کچھ پتہ نہیں ہے۔ تُو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے اور دیکھا ہے وہ مکرو فریب ہے نعوذ باللہ۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 45 دار الکتب العلمیۃبیروت)
اس سفر میں
حضرت کَعْب بن عُجْرَہ کے لیے احرام میں سر منڈوانے کی رخصت کا ذکر
ملتا ہے۔ اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ حضرت کَعْب بن عُجْرَہ سے روایت ہے کہ ہم حُدَیْبِیہ مقام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ ہم حالتِ احرام میں تھے۔ مشرکین نے ہمارا محاصرہ کر رکھا تھا۔ میرے بال لمبے تھے، جوئیں میرے چہرے پر گرنے لگیں۔ آپؐ میرے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں اذیت دے رہی ہیں؟ میں نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا یہ میرا گمان نہ تھا کہ تمہاری یہ اذیت اس قدر زیادہ ہو جائے گی۔ آپ نے مجھے سر منڈوانے کا حکم دیا کہ تم پہلے ہی سر منڈوا سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ بِہٖۤ اَذًی مِّنۡ رَّاۡسِہٖ فَفِدۡیَۃٌ مِّنۡ صِیَامٍ اَوۡ صَدَقَۃٍ اَوۡ نُسُکٍ (البقرہ:197) پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو کچھ روزوں کی صورت میں یا صدقہ دے کر یا قربانی پیش کر کے فدیہ دینا ہو گا۔ ایسی حالت میں، تکلیف کی صورت میں یہ کیا جا سکتا ہے، سر منڈوایا جا سکتا ہے۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5صفحہ 35دار الکتب العلمیۃبیروت)
اس دوران
قریش کا مِکْرَزْ بن حَفْص کو بطور سفیر بھیجنے کا ذکر
بھی ملتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ قریش سے اجازت لے کر مختلف لوگ بطور سفیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے۔ بہرحال ان میں مِکْرَزْ بن حَفْص کا بھی ذکر ہے۔ اس نے بھی قریش کو کہا کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے دو۔ جب وہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا: یہ ایک دھوکے باز شخص ہے اور روایت میں فاجر کا لفظ بھی ملتا ہے۔ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی وہی بات کی جو عُرْوَہ اور بُدَیل سے کی تھی۔ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان کو ان باتوں کی خبر دی جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کی تھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس معاملے میں
حضرت خِرَاشْ بن اُمَیَّہ ؓکو قریش کی طرف بھیجنے کا ذکر
بھی ملتا ہے یعنی آپ نے اپنا بھی ایک سفیر بھیجا۔ محمد بن اسحاق نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پر حضرت خِرَاش بن اُمَیَّہ کو قریش کی طرف بھیجا۔ اس اونٹ کا نام ثَعْلَب تھا تا کہ قریش کے لوگوں تک وہ پیغام پہنچا دیں جس کے لیے وہ آئے ہیں تو عکرمہ بن ابی جہل نے اونٹ کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ عِکْرِمہ نے اس نمائندے کے قتل کا بھی ارادہ کیا لیکن احابیش نے روک دیا تو انہوں نے حضرت خِراش کو جانے دیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آ گئے اور جو اُن کے ساتھ ہوا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 46 دار الکتب العلمیۃبیروت)
بہرحال
قریش نقصِ امن کی صورتحال پیدا کرتے رہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درگزر فرماتے رہے۔
اس کی تفصیل میں ایک جگہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ ’’قریشِ مکہ نے اسی پر اکتفانہیں کی بلکہ اپنے جوش میں اندھے ہو کر اس بات کا بھی ارادہ کیا کہ اب جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ مکہ سے اس قدر قریب اورمدینہ سے اتنی دور آئے ہوئے ہیں تو ان پر حملہ کرکے جہاں تک ممکن ہو نقصان پہنچایا جائے۔ چنانچہ اس غرض کے لیے انہوں نے چالیس پچاس آدمیوں کی ایک پارٹی حدیبیہ کی طرف روانہ کی اوراس گفت وشنید کے پردے میں جو اس وقت فریقین میں جاری تھی ان لوگوں کوہدایت دی کہ اسلامی کیمپ کے اردگرد گھومتے ہوئے تاک میں رہیں اور موقع پاکر مسلمانوں کا نقصان کرتے رہیں۔ بلکہ بعض روایتوں سے یہاں تک پتہ لگتا ہے کہ یہ لوگ تعداد میں اسّی تھے اوراس موقع پر قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی بھی سازش کی تھی مگربہرحال خدا کے فضل سے مسلمان اپنی جگہ ہوشیار تھے۔ چنانچہ قریش کی اس سازش کاراز کھل گیا اور یہ لوگ سب کے سب گرفتار کرلیے گئے۔ مسلمانوں کو اہلِ مکہ کی اس حرکت پر جو اَشْہَرِ حرم میں اور پھر گویاحرم کے علاقہ میں کی گئی ،سخت طیش تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کومعاف فرما دیا اور مصالحت کی گفتگو میں روک نہ پیدا ہونے دی۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ759-760)
پھر یہ ذکر ملتا ہے۔ بڑا مشہور واقعہ ہے جب
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی بطور سفیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھجوایا۔
علامہ بیہقی نے عُروہ سے روایت کی ہے کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطابؓ کو بلایا تا کہ انہیں قریش کی طرف بھیجیں تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! قریش میری دشمنی سے واقف ہیں۔ اس لیے مجھے اپنی جان پر خوف ہے اور بنو عَدِی میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو میری حفاظت کرے۔ اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہؐ! اگر آپ چاہتے ہیں تو میں چلا جاتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کچھ نہ کہا۔ تو حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! میں آپ کو ایک ایسے شخص کا بتلاتا ہوں جس کی مکہ میں مجھ سے زیادہ عزت ہے اور زیادہ بڑا خاندان ہے جو اس کی حفاظت کریں گے اور وہ آپ کے پیغام کو جو آپ چاہتے ہیں پہنچا دیں گے اور وہ شخص حضرت عثمان بن عفانؓ ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کسی جان کے خوف سے یہ بات نہیں کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا میں جاؤں گا تو مجھے مار دیں گے اور جو پیغام پہنچانے کا مقصد ہے وہ پورا نہیں ہو گا۔ ایک فتنہ پیدا ہو جائے گا اس لیے بہتر یہی ہے کہ میں نہ جاؤں، حضرت عثمان جائیں۔ تو بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو بلایا اور فرمایا تم قریش کے پاس جا کر انہیں خبر دو کہ ہم قتال کرنے کے لیے نہیں آئے بلکہ عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 46 دار الکتب العلمیۃبیروت)
اس کی تفصیل سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھی ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے…حضرت عثمانؓ سے ارشاد فرمایا کہ وہ مکہ جائیں اور قریش کو مسلمانوں کے پرامن ارادوں اور عمرہ کی نیت سے آگاہ کریں اورآپؐ نے حضرت عثمانؓ کواپنی طرف سے ایک تحریر بھی لکھ کر دی جو رؤساءقریش کے نام تھی۔ اس تحریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آنے کی غرض بیان کی اور قریش کویقین دلایا کہ ہماری نیت صرف ایک عبادت کا بجا لانا ہے اور ہم پُرامن صورت میں عمرہ بجا لا کر واپس چلے جائیں گے۔ آپؐ نے حضرت عثمانؓ سے یہ بھی فرمایا کہ مکہ میں جو کمزور مسلمان ہیں انہیں بھی ملنے کی کوشش کرنا اوران کی ہمت بڑھانا اور کہنا کہ ذرا اور صبر سے کام لیں۔ خدا عنقریب کامیابی کا دروازہ کھولنے والا ہے‘‘ بڑا یقین تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو۔
’’یہ پیغام لے کر حضرت عثمانؓ مکہ میں گئے اور ابوسفیان سے مل کر جواس زمانہ میں مکہ کا رئیسِ اعظم تھا اور حضرت عثمانؓ کا قریبی عزیز بھی تھا اہلِ مکہ کے ایک عام مجمع میں پیش ہوئے۔ اس مجمع میں حضرت عثمانؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریر پیش کی جو مختلف رؤساء قریش نے فرداً فرداً بھی ملاحظہ کی مگر باوجود اس کے سب لوگ اپنی اس ضد پر قائم رہے کہ بہرحال مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ حضرت عثمانؓ کے زور دینے پر قریش نے کہا کہ اگر تمہیں زیادہ شوق ہے تو ہم تم کوذاتی طور پر طوافِ بیت اللہ کاموقع دے دیتے ہیں۔ ‘‘ حضرت عثمانؓ کو آفر کی کہ آپ کر لیں طواف۔ ’’مگراس سے زیادہ نہیں۔ حضرت عثمانؓ نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ تومکہ سے باہر روکے جائیں اور مَیں طواف کروں؟ مگر قریش نے کسی طرح نہ مانا اور بالآخر حضرت عثمانؓ مایوس ہو کر واپس آنے کی تیاری کرنے لگے۔ اس موقع پر مکہ کے شریر لوگوں کو یہ شرارت سوجھی کہ انہوں نے غالباً اس خیال سے کہ اس طرح ہمیں مصالحت میں زیادہ مفید شرائط حاصل ہوسکیں گے حضرت عثمانؓ اوران کے ساتھیوں کو مکہ میں روک لیا۔ اس پر مسلمانوں میں یہ افواہ مشہور ہوئی کہ اہلِ مکہ نے حضرت عثمانؓ کو قتل کردیا ہے۔‘‘
یہ خبر جب پہنچی تو پھر وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بیعت لی جو
بیعتِ رضوان
کہلاتی ہے۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ ’’یہ خبر‘‘ یعنی حضرت عثمان کی شہادت کی خبر ’’حدیبیہ میں پہنچی تو مسلمانوں میں سخت جوش پیدا ہوا کیونکہ عثمانؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور معزز ترین صحابہ میں سے تھے اور مکہ میں بطور اسلامی سفیر کے گئے تھے۔ اوریہ دن بھی اشہرِحرم کے تھے اور پھر مکہ خود حرم کا علاقہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً تمام مسلمانوں میں اعلان کرکے انہیں ایک ببول (کیکر) کے درخت کے نیچے جمع کیا۔ اور جب صحابہ جمع ہوگئے تو آپؐ نے اس خبر کا ذکرکرکے فرمایا کہ ‘‘اگر یہ اطلاع درست ہے توخدا کی قَسم! ہم اس جگہ سے اس وقت تک نہیں ٹلیں گے کہ عثمان کا بدلہ نہ لے لیں۔‘‘ پھر
آپؐ نے صحابہ سے فرمایا ’’آؤ اور میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر (جواسلام میں بیعت کا طریق ہے) یہ عہد کرو کہ تم میں سے کوئی شخص پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر کسی حال میں اپنی جگہ نہیں چھوڑے گا۔‘‘
اس اعلان پر صحابہ بیعت کے لیے اس طرح لپکے کہ ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ اوران چودہ پندرہ سو مسلمانوں کا (کہ یہی اس وقت اسلام کی ساری پونجی تھی) ایک ایک فرد اپنے محبوب آقا کے ہاتھ پر گویا دوسری دفعہ بِک گیا۔
جب بیعت ہورہی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے کیونکہ اگروہ یہاں ہوتا تواس مقدس سودے میں کسی سے پیچھے نہ رہتا، لیکن اس وقت وہ خدا اور اس کے رسول کے کام میں مصروف ہے۔‘‘
اس طرح یہ بجلی کا سا منظر اپنے اختتام کو پہنچا۔
اسلامی تاریخ میں یہ بیعت ’’بیعت رضوان‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یعنی وہ بیعت جس میں مسلمانوں نے خدا کی کامل رضا مندی کا انعام حاصل کیا۔
قرآن شریف نے بھی اس بیعت کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔
لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا (الفتح: 19) یعنی ’’اللہ تعالیٰ خوش ہو گیا مسلمانوں سے جب کہ اے رسول! وہ ایک درخت کے نیچے تیری بیعت کررہے تھے کیونکہ اس بیعت سے ان کے دلوں کا مخفی اخلاص خدا کے ظاہری علم میں آگیا سو خدا نے بھی ان پر سکینت نازل فرمائی اور انہیں ایک قریب کی فتح کا انعام عطا کیا۔‘‘
صحابہ کرامؓ بھی ہمیشہ اس بیعت کو بڑے فخر سے اور محبت کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے اوران میں سے اکثر بعد میں آنے والے لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ تم تو مکہ کی فتح کو فتح شمار کرتے ہو۔’’ بڑا سمجھتے ہو‘‘ مگر ہم بیعتِ رضوان ہی کو فتح خیال کرتے تھے۔ اور اس میں شبہ نہیں کہ یہ بیعت اپنے کوائف کے ساتھ مل کر ایک نہایت عظیم الشان فتح تھی۔ نہ صرف اس لیے کہ اس نے آئندہ فتوحات کا دروازہ کھول دیا بلکہ اس لیے بھی کہ اس سے اسلام کی اس جاں فروشانہ روح کا جو دین محمدیؐ کا گویا مرکزی نقطہ ہے ایک نہایت شاندار رنگ میں اظہار ہو ااور فدائیانِ اسلام نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ وہ اپنے رسول اور اس رسول کی لائی ہوئی صداقت کے لیے ہر میدان میں اور اس میدان کے ہر قدم پر موت وحیات کے سودے کے لیے تیار ہیں۔ اسی لیے
صحابہ کرامؓ بیعتِ رضوان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ بیعت موت کے عہد کی بیعت تھی یعنی اس عہد کی بیعت تھی کہ ہر مسلمان اسلام کی خاطر اور اسلام کی عزت کی خاطر اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اور اس بیعت کاخاص پہلو یہ تھا کہ یہ عہد وپیمان صرف منہ کا ایک وقتی اقرار نہیں تھا جوعارضی جوش کی حالت میں کر دیا گیا ہو بلکہ دل کی گہرائیوں کی آواز تھی جس کے پیچھے مسلمانوں کی ساری طاقت ایک نقطہ واحد پر جمع تھی۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 760 تا 763)
حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر اور بیعت رضوان کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ نے بھی فرمایا ہے۔ آپ اپنی ایک تقریر میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو جمع کیا‘‘ جب حضرت عثمان کے واقعہ کی اطلاع ملی ’’ اور فرمایا سفیر کی جان ہر قوم میں محفوظ ہوتی ہے۔ تم نے سنا ہے کہ عثمانؓ کو مکہ والوں نے مار دیا ہے۔ اگر یہ خبر درست نکلی تو ہم بزور مکہ میں داخل ہوں گے (یعنی ہمارا پہلا ارادہ کہ صلح کے ساتھ مکہ میں داخل ہوں گے جن حالات کے ماتحت تھا وہ چونکہ تبدیل ہو جائیں گے اِس لیے ہم اِس ارادہ کے پابند نہ رہیں گے) جو لوگ یہ عہد کرنے کے لیے تیار ہوں کہ اگر ہمیں آگے بڑھنا پڑا تو یا ہم فتح کر کے لوٹیں گے یا ایک ایک کر کے میدان میں مارے جائیں گے وہ اس عہد پر میری بیعت کریں۔ آپ کا یہ اعلان کرنا تھا کہ پندرہ سو زائر جو آپ کے ساتھ آیا تھا یکدم پندرہ سو سپاہی کی شکل میں بدل گیا اور دیوانہ وار ایک دوسرے پر پھاندتے ہوئے انہو ں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر دوسروں سے پہلے بیعت کرنے کی کوشش کی۔ یہ بیعت تمام اسلامی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور درخت کا عہد نامہ کہلاتی ہے کیونکہ جس وقت بیعت لی گئی اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20 صفحہ 307۔308)
صلح حدیبیہ کے حوالے سے مزید ان شاء اللہ کچھ اور تفصیل ہے جو آئندہ بیان کروں گا۔
اس وقت میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ
یورپ میں بھی حالات بڑی تیزی سے جنگ کی طرف جا رہے ہیں۔
یوکرین اور روس کی جنگ پھیلنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
دھمکیاں مل رہی ہیں یورپ کے باقی ملکوں کو بھی۔ اکثر جو عقل رکھنے والے اور امن پسند لوگ، لیڈر ہیں اس بارے میں پریشان بھی ہیں۔ بہرحال
دعا کریں اللہ تعالیٰ احمدیوں اور امن پسند لوگوں کو جنگ کے بداثرات سے محفوظ رکھے اور یہ لوگ جنگ میں ایسے ہتھیار استعمال نہ کریں جن کے استعمال سے آئندہ نسلیں متاثر ہوتی ہوں۔
مسلمان ممالک کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی عقل اور سمجھ دے اور وہ لوگ بھی حق پہچاننے والے ہوں۔ اللہ ان کو حق پہچاننے کی توفیق دے۔
دوسرے اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ حالات جس طرح تیزی سے بگڑے ہیں اور بگڑ رہے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے پہلے ہی لوگوں میں توجہ ہے لیکن مزید دوبارہ یاددہانی کرا دوں کہ
گھروں میں دو، تین مہینے کا راشن رکھنے کی کوشش کریں
لیکن
سب سے اہم نکتہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں بڑھنے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔
عُروہ نے کہا: اے میرے لوگو!میں سفارت کے لیے بادشاہوں کے درباروں میں قیصر و کسریٰ اورنجاشی کے دربار میں گیا ہوں۔ اللہ کی قسم !میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کی ایسی اطاعت کی جائے جیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزاری اس کے صحابہؓ میں ہوتی ہے
نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ہم تو جنگ کی غرض سے نہیں آئے بلکہ صرف عمرہ کی نیت سے آئے ہیں…مَیں تو ان لوگوں کے ساتھ اس سمجھوتہ کے لیے بھی تیار ہوں کہ وہ میرے خلاف جنگ بند کرکے مجھے دوسرے لوگوں کے لیے آزاد چھوڑ دیں۔ لیکن اگر انہوں نے میری اس تجویز کو بھی ردّ کر دیا اور بہر صورت جنگ کی آگ کوبھڑکائے رکھا تو مجھے بھی اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ پھر مَیں بھی اس مقابلہ سے اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹوں گا کہ یا تو میری جان اس رستہ میں قربان ہو جائے اور یا خدا مجھے فتح عطا کرے۔‘‘
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے تھے وہ غصےہو گئے اور عُرْوَہ سے کہنے لگے: اپنے بت لات کو چومتے پھرو یعنی اس کی پوجا کرو، یہ باتیں ہم سے نہ کرو تم ۔کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ جائیں گے؟
قریش نقصِ امن کی صورتحال پیدا کرتے رہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درگزر فرماتے رہے آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا ’’آؤ اور میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر (جواسلام میں بیعت کا طریق ہے) یہ عہد کرو کہ تم میں سے کوئی شخص پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر کسی حال میں اپنی جگہ نہیں چھوڑے گا‘‘
جب بیعت ہورہی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے کیونکہ اگروہ یہاں ہوتا تواس مقدس سودے میں کسی سے پیچھے نہ رہتا، لیکن اس وقت وہ خدا اور اس کے رسول کے کام میں مصروف ہے۔‘‘
صحابہ کرام بیعتِ رضوان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ بیعت موت کے عہد کی بیعت تھی یعنی اس عہد کی بیعت تھی کہ ہر مسلمان اسلام کی خاطر اور اسلام کی عزت کی خاطر اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اور اس بیعت کاخاص پہلو یہ تھا کہ یہ عہد وپیمان صرف منہ کا ایک وقتی اقرار نہیں تھا جوعارضی جوش کی حالت میں کر دیا گیا ہو بلکہ دل کی گہرائیوں کی آواز تھی جس کے پیچھے مسلمانوں کی ساری طاقت ایک نقطہ واحد پر جمع تھی۔
غزوۂ حدیبیہ کے حالات و واقعات اور بیعتِ رضوان کی تفصیلات کا پُراثر بیان نیز دنیا کے حالات کے پیشِ نظردعائیں کرنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی یاددہانی
سب سے اہم نکتہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں، اس میں بڑھنے کی کوشش کریں
فرمودہ 22؍ نومبر 2024ء بمطابق 22؍ نبوت 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔