حضرت محمد رسول اللہﷺ: اُسوۂ حسنہ

خطبہ جمعہ 17؍ جنوری 2025ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج جن سرایا کا ذکر ہو گا ان میں سے ایک

سریّہ عبداللہ بن رواحہ

جو اُسَیر بن رِزَام کی طرف ہے اس کا ذکر پہلے ہو گا۔ عبداللہ بن رواحہ کا یہ سریہ شوال 6ہجری میں اُسَیر یا یُسَیر بن رِزَام کی طرف خیبر میں ہوا۔ تفصیل میں بیان ہوا ہے کہ جب ابورافع سَلَّام بن ابی حقیق کو قتل کیا گیا تو یہودیوں نے اُسَیر بن رِزَام کو اپنا امیر مقرر کیا۔ وہ یہود میں کھڑا ہو کر خطاب کرنے لگا کہ اللہ کی قسم! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جب بھی یہود میں سے کسی طرف چلے یا اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھیجا تو جس بات کا ارادہ کیا اس میں کامیاب ہو گئے لیکن میں وہ کام کروں گا جو میرے ساتھیوں میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کیا۔ یہود نے پوچھا کہ تمہارا کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ اُسَیر بن رِزَام کہنے لگا۔ میں قبیلہ غَطَفَان کی طرف جاتا ہوں اور ان کو اکٹھا کرتا ہوں اور ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل کر ان کے گھر میں گھس جائیں گے۔ جب بھی کوئی اپنے دشمن کے گھر میں آ کر حملہ کرتا ہے تو وہ اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔ تو یہود نے کہا کہ تمہارا خیال بہت اچھا ہے۔ چنانچہ وہ غَطَفَان اور دیگر قبائل کی طرف چلا گیا اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرنے کے لیے اکٹھا کرنے لگا۔ یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خبر کی حقیقت واضح کرنے کے لیے حضرت عبداللہ بن رَوَاحہؓ کو تین آدمیوں کے ساتھ ماہ رمضان میں خفیہ طور پر بھیجا۔(سبل الھدیٰ جلد 6 صفحہ 111 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

اس کی تفصیل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان حالات سے اطلاع ہوئی تو آپؐ نے فوراً اپنے ایک انصاری صحابی عبداللہ بن رواحہ کوتین دوسرے صحابیوں کی معیت میں خیبر کی طرف روانہ فرمایا اور انہیں تاکید فرمائی کہ خفیہ خفیہ جائیں اور سارے حالات معلوم کر کے جلدترواپس آ جائیں۔ چنانچہ عبداللہ بن رواحہؓ اور ان کے ساتھی گئے اور خفیہ خفیہ تمام حالات اور کوائف کاپتہ لے کر اور یہ تصدیق کر کے کہ یہ خبریں درست ہیں واپس آ گئے۔ بلکہ عبداللہ بن رواحہ اوران کے ساتھیوں نے ایسی ہوشیاری سے کام لیا کہ خیبر کے قلعوں کے آس پاس گھوم کر اور اُسَیر بن رِزَام کی مجلس گاہوں کے پاس پہنچ کرخود اُسَیر اور اس کے ساتھیوں کی زبانی یہ سن لیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ یہ تدبیریں کر رہے ہیں۔ انہی دنوں میں ایک غیر مسلم شخص خارجہ بن حُسَیْل اتفاقاً خیبر کی طرف سے مدینہ میں آیا اور اس نے بھی عبداللہ بن رواحہ کی تصدیق کی اور کہا کہ میں اُسَیر کو ایسی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ وہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے اپنے لاؤ لشکر کوجمع کر رہا تھا۔

اس تصدیق کے بعد

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن رواحہ کی امارت میں
تیس صحابہ کی ایک پارٹی خیبر کی طرف روانہ فرمائی

اور گو روایات سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پارٹی کو کیا ہدایات دے کر روانہ فرمایا تھا مگراس گفت وشنید سے جو خیبر میں عبداللہ بن رَوَاحَہ اور اُسَیر بن رِزَام میں ہوئی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء یہ تھا کہ اُسَیر کومدینہ میں بلا کر اس کے ساتھ کوئی ایسا سمجھوتہ کیا جائے جس سے اس فتنہ انگیزی کا سلسلہ رک جائے اور ملک میں امن وامان کی صورت پیدا ہو۔ اس خواہش میں آپؐ اس حد تک تیار تھے کہ اگر اُسَیر کو خیبر کے علاقہ کا امیر تک تسلیم کرنا پڑے توتسلیم کر لیا جائے بشرطیکہ آئندہ کے لیے وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی فتنہ انگیزی سے باز آجائے۔

جب عبداللہ بن رواحہ کی پارٹی خیبر میں پہنچی توسب سے پہلے انہوں نے اُسَیر بن رِزَام سے دوران گفتگو کے لیے امن وامان کاعہد لیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت خطرہ اس قدر بڑھ چکا تھا کہ مسلمان سمجھتے تھے کہ کہیں اس گفت وشنید کے درمیان ہی اُسَیر کی طرف سے کوئی غداری کی صورت نہ پیدا ہو جائے۔ اُسَیر نے اقرار کیا کہ ایسا نہیں ہوگا‘‘ ٹھیک ہے معاہدہ کرتا ہوں۔ ’’مگر ساتھ ہی اپنی شرم رکھنے کے لیے اسی قسم کاعہد عبداللہ بن رواحہ سے بھی لیا‘‘ کہ وہ بھی ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ ’’مگرعبداللہ بن رواحہ کی طرف سے اس معاملہ میں پہل ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اصل خطرہ کس کی طرف سے تھا۔ بہرحال اس قول وقرار کے بعد عبداللہ بن رواحہ نے اُسَیر سے گفتگو شروع کی جس کا مآل یہ تھا‘‘ مقصد اس کا یہ تھا ’’کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ساتھ ایک امن وامان کامعاہدہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ آپس کی جنگ رک جائے اوراس کے لیے بہترین صورت یہ ہے کہ تم خود مدینہ میں چل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ بات کرو۔ اگر اس قسم کا معاہدہ ہو گیا تو مَیں امید کرتا ہوں کہ رسول اللہؐ تمہارے ساتھ احسان کامعاملہ کریں گے اورممکن ہے کہ تمہیں خیبر کا باقاعدہ رئیس تسلیم کرلیا جائے۔ اُسَیر کوجو سخت جاہ طلب تھا یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے دل میں کوئی اَور نیت مخفی ہو یہ تجویز پسند آئی اور کم از کم اس نے یہ ظاہر کیا کہ مجھے یہ تجویز پسند ہے مگر ساتھ ہی اس نے خیبر کے یہودی عمائد کو جمع کرکے ان سے مشورہ مانگا کہ مسلمانوں کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی ہے اس کے متعلق کیا کیا جائے۔ یہود نے جو اسلام کے خلاف عامیانہ عداوت میں اندھے ہو رہے تھے عام طور پر اس تجویز کی مخالفت کی اور اُسَیر کو اس ارادے سے باز رکھنے کی غرض سے کہا کہ ہمیں امید نہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں خیبر کا امیر تسلیم کریں۔ مگر اُسَیر جو حالات سے زیادہ واقف تھا اپنی بات پر قائم رہا اور کہنے لگا ’’تم نہیں جانتے محمدؐ اس جنگ سے تنگ آیا ہوا ہے اور دل سے چاہتا ہے کہ جس طرح ہواس لڑائی کاسلسلہ رک جائے۔

الغرض اُسَیر بنِ رزَام عبداللہ بن رَوَاحَہ کی پارٹی کے ساتھ مدینہ چلنے کے لیے تیار ہو گیا اور عبداللہ بن رواحہ کی طرح خود اس نے بھی تیس یہودی اپنے ساتھ لے لیے۔ جب یہ دونوں پارٹیاں خیبر سے نکل کر ایک مقام قَرْقَرَہ میں پہنچیں جو خیبر سے چھ میل کے فاصلہ پر تھا۔ تو اُسَیر کی نیت بدل گئی یا اگر اس کی نیت پہلے سے خراب تھی تو یوں سمجھنا چاہیے کہ اس کے اظہار کا وقت آ گیا۔ چنانچہ اس نے باتیں کرتے کرتے بڑی ہوشیاری کے ساتھ مسلمانوں کی پارٹی کے ایک معزز فرد عبداللہ بن اُنَیْس انصاری کی تلوار کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ عبداللہ فوراً تاڑ گئے کہ اس بدبخت کے تیور بدلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے جھٹ اپنی اونٹنی کوایڑ لگا کر اسے آگے کرلیا اور پھر اُسَیر کی طرف گھوم کر آواز دی کہ ’’اے دشمن خدا! کیا تم ہمارے ساتھ غداری کرنا چاہتے ہو؟‘‘عبداللہ بن اُنَیْس نے دو دفعہ یہ الفاظ دہرائے۔ مگر اُسَیر نے کوئی جواب نہیں دیا اورنہ ہی اس نے اپنی کوئی بریت کی بلکہ وہ سامنے سے جنگ کے لیے تیار تھا۔ یہ غالباً یہودیوں میں پہلے سے مقررشدہ اشارہ تھا کہ ایسا موقع آئے توسب مل کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں۔ چنانچہ اسی جگہ عین راستہ میں مسلمانوں اور یہودیوں میں تلوار چل گئی۔‘‘ جنگ شروع ہو گئی۔’’اور گو دونوں پارٹیاں تعداد میں برابر تھیں اور یہودی لوگ پہلے سے ذہنی طور پر تیار تھے اور مسلمان بالکل بے ارادہ تھے۔‘‘ جنگ کا کوئی ارادہ نہیں تھا ان کا۔ ’’مگر خدا کا ایسا فضل ہوا کہ بعض مسلمان زخمی تو بیشک ہوئے مگر ان میں سے کسی جان کا نقصان نہیں ہوا لیکن دوسری طرف سارے یہودی اپنی غداری کامزا چکھتے ہوئے خاک میں مل گئے۔ جب صحابہ کی یہ پارٹی مدینہ میں واپس پہنچی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوحالات سے اطلاع ہوئی تو آپؐ نے مسلمانوں کے صحیح سلامت بچ جانے پر خدا کا شکر کیا اور فرمایا قَدْ نَجَاکُمُ اللّٰہُ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ۔ ’’شکر کرو کہ خدا نے تمہیں اس ظالم پارٹی سے نجات دی۔‘‘اس واقعہ کے متعلق بعض مسیحی مورخین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ گویا عبداللہ بن رواحہ کی پارٹی اُسَیر وغیرہ کو خیبر سے اسی نیت سے نکال کر لائی تھی کہ رستہ میں موقع پا کر انہیں قتل کر دیا جائے۔ مگر یہ اعتراض مغربی سینہ زوری کے ایک ناگوار مظاہرہ کے سواکچھ حقیقت نہیں رکھتا۔‘‘ جو چاہے ان کے دل میں وہ اسلام پہ اعتراض کرنے والے کہہ دیتے ہیں۔ ’’کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے تاریخ میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ مسلمان اس نیت سے وہاں گئے تھے بلکہ غور کیا جاوے تو قطع نظر دوسرے شواہد کے صرف عبداللہ بن اُنَیس کے یہ الفاظ ہی کہ ’’اے دشمن خدا! کیاغداری کی نیت ہے؟‘‘ اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ کہ ’’شکر کرو کہ خدا نے تمہیں اس ظالم پارٹی سے نجات دی۔‘‘ اس بات کے ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ مسلمانوں کی نیت بالکل صاف اور پرامن تھی اور جو کچھ ہوا وہ محض اس غداری کانتیجہ تھا جو یہودی لوگ حسب عادت مسلمانوں کے ساتھ کرنا چاہتے تھے مگر جسے خدا نے اپنے فضل سے خود انہی پر الٹا دیا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 739تا741)بہرحال یہ انجام ہوا اس سریہ کا۔

پھر

سریہ عمرو بن امیہ ضَمْرِی ہے۔

یہ ابوسفیان کی طرف گیا تھا۔ ابن ہشام، ابن کثیر اور طبری وغیرہ نے اس سریہ کو 4ہجری کے ضمن میں واقعہ رجیع کے بعد بیان کیا ہے لیکن ابن سعد نے اس سریہ کو 6ہجری کے سرایا کے ذیل میں بیان کیا ہے اور زرقانی نے بھی ابن سعد کو ترجیح دیتے ہوئے 6ہجری کے ذیل میں اس سریہ کو بیان کیا ہے۔(ماخوذ از السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ885دار الکتب العلمیۃ بیروت)( السیرۃ النبویہ لابن کثیر جلد3صفحہ135مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت)( تاریخ الطبری جلد2صفحہ79دارالکتب العلمیۃ بیروت)( طبقات الکبریٰ جلد2صفحہ71، 72دار الکتب العلمیۃ بیروت)( زرقانی جلد3صفحہ166تا169 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی سیرت خاتم النبیینؐ میں اس سریہ کو 6ہجری میں بیان کیا ہے اور تفصیل میں لکھا ہے کہ ’’اس سریہ کی تاریخ کے متعلق مورخین میں اختلاف ہے۔ ابن ہشام اور طبری اسے 4ھ میں بیان کرتے ہیں مگرابن سعد نے اسے 6ھ میں لکھا ہے اور علامہ قَسْطَلَانِی اور زَرْقَانِی نے ابن سعد کی روایت کو ترجیح دی ہے۔ لہٰذا‘‘ لکھتے ہیں کہ ’’میں نے بھی اسے 6ھ میں بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ ابن سعد کی روایت کے مفہوم کی تائید بیہقی نے بھی کی ہے مگر اس میں اس واقعہ کے زمانہ کاپتہ نہیں چلتا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ743)

اس سریہ کی تفصیل یوں ہے کہ ابوسفیان نے قریش کے چند آدمیوں کو کہا کہ کیا تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اچانک قتل کر دے جب وہ بازاروں میں چلتے پھرتے ہوں۔ چنانچہ ابوسفیان کے پاس بادیہ نشینوں میں سے ایک آدمی ان کے گھر آیا اور اس نے کہا کہ تُو مجھے لوگوں میں سے سب سے زیادہ مضبوط دل والا پائے گا۔ میری گرفت ان سے زیادہ سخت ہے اور میں سب سے تیز بھاگ سکتا ہوں۔ اگر تُو میری مدد کرے تو میں ان کی طرف جاؤں گا یہاں تک کہ اچانک محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر حملہ کر دوں اور میرے پاس ایک خنجر ہے جو گدھ کے پَر کی طرح ہے۔ اس سے میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر حملہ کروں گا پھر میں کسی قافلے میں مل جاؤں گا اور بھاگ کر اس قوم سے آگے بڑھ جاؤں گا کیونکہ راستہ کا میں بہت ماہر ہوں۔ ابو سفیان نے کہا تُو ہی ہمارا ساتھی ہے۔ چنانچہ ابوسفیان نے اس کو اونٹ اور زادِراہ دیا اور کہا اپنے کام کو پوشیدہ رکھنا۔ وہ رات کو نکلا اور اپنی سواری پر پانچ دن چلتا رہا اور چھٹی صبح وہ حرّہ میں پہنچا۔ حَرَّہ سیاہ پتھریلی زمین کو کہتے ہیں اور مدینہ دو حَرَّوں کے درمیان تھا۔ ایک مشرقی حَرَّہ اور ایک مغربی حَرَّہ۔ بہرحال پھر وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوا۔ مدینہ پہنچ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھنے لگا یہاں تک کہ اس کو آپ کے متعلق بتایا گیا تو اس نے اپنی سواری کو باندھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنوعبدالاشہل کی مسجد میں تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو فرمایا: یقیناً اس آدمی کا دھوکہ دینے کا ارادہ ہے۔ پہچان گئے اس کی حالت سے اور اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے ارادے کے درمیان میں حائل ہے۔

چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کے لیے چلا تو اُسَید بن حُضَیر نے اس کو اس کی چادر کے اندر والے کنارے سے پکڑ کر کھینچا تو اچانک اس کے ہاتھ سے خنجر گر پڑا اور وہ پکارنے لگا میرا خون میرا خون یعنی میری جان بخشی کر دو۔ پکڑا گیا۔ حضرت اُسَید نے اس کو گردن سے پکڑا پھر اس کو چھوڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا مجھے سچ سچ بتاؤ کہ تم کون ہو؟ اس نے کہا میں امان طلب کرتا ہوں۔ تو آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے۔ اس نے اپنا کام اور جو کچھ ابوسفیان نے اس کے لیے مقرر کیا بتایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو چھوڑ دیا اور اس شفقت پہ وہ مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا کہ

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! میں لوگوں سے نہیں ڈرتا تھا لیکن جب میں نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو میری عقل چلی گئی اور میرا دل کمزور ہو گیا۔ پھر میں اپنے اس ارادے پر آگاہ ہواجو میرا عزم تھا جس کے بارے میں کئی سوار کوشش کر چکے تھے مگر کوئی کامیاب نہ ہوا۔ میں نے جان لیا کہ آپؐ کی حفاظت کی گئی ہے اور یقیناً آپؐ حق پر ہیں یعنی اللہ تعالیٰ آپؐ کی حفاظت کرتا ہے

اور ابوسفیان کا لشکر شیطان کا لشکر ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔ پھر وہ آدمی چند دن ٹھہرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر چلا گیا۔ اس کے بعد اس آدمی کا کوئی ذکر نہیں سنا گیا۔ تاریخ میں بعد میں اس کا ذکر نہیں آتا۔(سبل الھدیٰ والرشادجلد6 صفحہ123 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(ماخوذ از فرہنگ سیرت صفحہ 101۔102 زوار اکیڈمی کراچی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عَمرو بن امیہ اور سَلَمہ بن اسلم کو ابوسفیان بن حرب کی طرف بھیجا اور فرمایا اگرتم دونوں اس کو غفلت کی حالت میں پاؤ تو اس کو قتل کر دینا۔

وہ یہ ارادے کر رہا ہے تو پھر ٹھیک ہے اس کا علاج بھی یہی ہے کہ اس کو ختم کر دیا جائے تا کہ یہ جھگڑا ختم ہو۔ ابن ہشام نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن امیہ کے ساتھ جَبَّار بن صَخْر انصاری کو بھیجا تھا۔(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ885 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(طبقات الکبریٰ جلد2 صفحہ72 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

پس یہ دونوں وہاں سے چلے یہاں تک کہ مکہ کے قریب پہنچ گئے اور ان دونوں نے اپنے دونوں اونٹوں کو یَأجَجْ کی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں چھپا دیا جو مکہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر تھی۔ پھر رات کو مکہ میں داخل ہوئے۔ جَبَّار یا سَلَمہ نے عمرو کو کہا کاش کہ ہم بیت اللہ کا طواف کر لیتے اور دو رکعت نماز پڑھ لیتے۔ عمرو نے کہا یہ لوگ جب رات کا کھانا کھا لیتے ہیں تو اپنے صحنوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر وہ مجھے دیکھیں گے تو پہچان لیں گے۔ میں مکّہ میں سفید اور سیاہ گھوڑے سے بھی زیادہ مشہور ہوں یعنی مجھے بہت لوگ جانتے ہیں۔ ان کو میری پہچان ہے۔ عمرو کے ساتھی نے کہا کہ ہرگزنہیں۔ ان شاء اللہ ہم جائیں گے۔ عمرو نے بیان کیا کہ اس نے میری بات ماننے سے انکار کر دیا تو پھر ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا اور نماز پڑھی۔ چلے گئے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم ابوسفیان کا ارادہ کر کے نکلے۔ جس مقصد کے لیے آئے تھے اُسے پورا کرنے کے لیے نکلے۔ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم !ہم مکہ میں چل رہے تھے کہ اچانک مکہ والوں میں سے ایک آدمی نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا۔ ابن سعد نے بیان کیا ہے کہ وہ معاویہ بن ابی سفیان تھا جس نے پہچانا تھا تو معاویہ نے کہا اللہ کی قسم !عمرو بن امیہ کسی شر کے لیے ہی آیا ہے۔ اس نے قریش کو بتا دیا۔ چنانچہ وہ عمرو سے خوفزدہ ہو گئے۔ قریش کو جب پتہ لگا تو خوفزدہ ہوئے اور تلاش کرنے کے لیے نکل پڑے۔ عمرو کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھی کو کہا کہ جلدی بھاگ چلو۔ چنانچہ ہم نکل کر تیزی سے دوڑنے لگے یہاں تک کہ ہم ایک پہاڑ پر چڑھ گئے اور وہ ہماری تلاش میں نکلے اور ہم پہاڑ پر چڑھ گئے تھے۔ وہ ہم سے مایوس ہو گئے تو ہم واپس آئے اور پہاڑ کی ایک غار میں داخل ہو گئے۔ ہم نے اس میں رات گزاری اور ہم نے پتھر لیے اور اپنے ارد گرد ترتیب سے جوڑ لیے۔ جب صبح ہوئی تو ہمارے پاس قریش کا ایک آدمی آیا۔ وہاں دیکھا کہ قریش کا ایک آدمی پھر رہا تھا۔ ابن سعد کے نزدیک وہ عبید اللہ بن مالک بن عُبَید اللہ تَیْمِی تھا۔ لیکن ابن اسحاق کے نزدیک وہ عثمان بن مالک یا عبد اللہ تھا۔ بہرحال کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھوڑے کو ہانک رہا تھا۔ وہ ہمارے پاس غار کے ارد گرد تھا اور ہم غار میں تھے۔ چنانچہ میں نے کہا کہ اگر اس نے ہمیں دیکھ لیا تو یہ چیخ پڑے گا اور ہم پکڑے جائیں گے اور قتل کر دیےجائیں گے یعنی وہ کفارکو بلا لے گا۔ کہتے ہیں میرے پاس خنجر تھا جو میں نے ابوسفیان کے لیے تیار کر رکھا تھا۔ میں نے نکل کر اس کے سینے پر ایک وار کیا۔ وہ چیخا تو اہلِ مکہ نے اس کی آواز سن لی۔ میں واپس لوٹ آیا اور غار میں داخل ہو گیا اور لوگ اس کے پاس تیزی سے دوڑتے ہوئے آئے اور وہ زندگی کے آخری لمحات میں تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس سے پوچھا کہ تجھے کس نے مارا تھا تو اس نے کہا عمرو بن امیہ نے اور اس پر موت غالب آ گئی اور وہ اسی جگہ پر مر گیا اور ہماری جگہ نہ بتا سکا۔

ایک روایت میں ہے کہ جب انہوں نے اس کو پایا تو اس میں اتنی طاقت نہ تھی کہ مکہ والوں کو ہماری جگہ بتا سکتا۔ عمرو بن امیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھی کو کہا کہ تُو اپنی جان بچا کر بھاگ جا۔اب تم اپنے اونٹ کے پاس جاؤ اور اس پر بیٹھ کر چلے جاؤ۔ چنانچہ وہ چلے گئے۔ عمرو بن امیہ کہتے ہیں کہ پھر اس کے بعد میں چلا یہاں تک کہ ضَجنَان پہنچ گیا۔ ضَجنان مکہ سے ایک بَرِیْد یعنی بارہ میل کے فاصلے پر ایک پہاڑ تھا۔ کہتے ہیں پھر میں نے ایک پہاڑ کی طرف پناہ لی اور ایک غار میں داخل ہو گیا۔ عمرو کہتے ہیں پھر میں وہاں سے نکلا یہاں تک کہ عَرْج میں آ گیا۔ عَرْج بھی مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک گھاٹی تھی جہاں قافلے ٹھہرتے تھے۔ پھر میں سواری پر سوار ہو کر چلا یہاں تک کہ جب میں نَقِیْع میں پہنچا۔ نقیع مدینہ سے دو راتوں کی مسافت پہ ایک جگہ تھی۔ ابن ہشام کی سیرت میں یہ فاصلہ لکھا ہوا ہے۔ تو قریش کے مشرکین میں سے دو آدمی مدینہ کی طرف آ رہے تھے جن کو قریش نے جاسوس بنا کر بھیجا تھا کہ وہ دیکھیں اور حالات و واقعات کی جستجو کریں۔ مَیں نے ان دونوں کو کہا تم اپنے آپ کو قیدی بنانے کے لیے میرے حوالے کر دو۔ ان دونوں نے انکار کر دیا۔ مَیں نے ان دونوں میں سے ایک کو تیر مار کر قتل کر دیا اور دوسرے نے اپنے آپ کو حوالے کر دیا۔ میں اس کو باندھ کر مدینہ لے کر آیا۔ حوالے اسی طرح نہیں ہو گیا بلکہ دونوں کی وہاں جنگ ہوئی تھی، تیر اندازی ہوئی تھی آپس میں۔ بہرحال عَمرو بنِ اُمَیَّہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حالات و واقعات بتانے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عَمرو بنِ اُمَیَّہ کے لیے خیر کی دعا کی۔(ماخوذ از سبل الھدی جلد6 صفحہ123تا125 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگ سیرت صفحہ319،198،56 زوار اکیڈمی کراچی)(زرقانی جلد3صفحہ228 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ886 حاشیہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اس سریہ کے سال کے بارے میں بعض مختلف روایات ہیں۔ ابن ہشام، ابن کثیر اور طبری وغیرہ نے اس سریہ کو 4ہجری میں بیان کرتے ہوئے اس ضمن میں حضرت خُبَیب بن عَدِی کی لاش کو لکڑی سے اتارنے کا ذکر کیا ہے۔ حضرت خُبَیب واقعہ رجیع میں قید ہو کر مکہ میں فروخت کئے گئے تھے اور قریش نے ان کو لکڑی پر باندھ کر شہید کیا تھا لیکن ابنِ سعد نے عَمرو بنِ اُمَیَّہ کے سَرِیَّہ کے ضمن میں لاش کو لکڑی سے اتارنے کا ذکر نہیں کیا اور ابنِ سعد کی روایت اس بارے میں زیادہ بہتر لگتی ہے کیونکہ حضرت خُبَیبؓ کی لاش کے اتارنے کے لیے ایک اَور پارٹی کے جانے کا ذکر کتب میں علیحدہ ملتا ہے۔ زرقانی نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے اور عَمرو بنِ اُمَیَّہ کے سریہ کے آخر میں لکھا ہے کہ خُبَیب بن عدی کی لاش کے اتارنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زُبیر اور مقداد کو بھیجا تھا۔(ماخوذ اززرقانی جلد3صفحہ 169 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اس بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی جو لکھا ہے اس میں عمرو بن امیہ کے اس سَرِیّے کے ضمن میں خُبَیب بن عدی کی لاش کو لکڑی سے اتارنے والے واقعہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس کی تفصیل اس طرح آپ نے لکھی ہے کہ ’’غزوہ احزاب کی ذلت بھری ناکامی کی یاد نے قریش مکہ کے تن بدن میں آگ لگا رکھی تھی اور طبعاً یہ قلبی آگ زیادہ تر ابوسفیان کے حصہ میں آئی تھی جومکہ کارئیس تھا اور احزاب کی مہم میں خاص طور پر ذلت کی مار کھاچکا تھا۔ کچھ عرصہ تک ابوسفیان اس آگ میں اندر ہی اندر جلتا رہا مگر بالآخر معاملہ اس کی برداشت سے نکل گیا اور اس آگ کے مخفی شعلے باہر آنے شروع ہو گئے۔ طبعاً کفار کی سب سے زیادہ عداوت بلکہ درحقیقت اصل عداوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ تھی۔ اس لیے اب ابوسفیان اس خیال میں پڑ گیا کہ جب ظاہری تدبیروں اور حیلوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو کیوں نہ کسی مخفی تدبیر سے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کاخاتمہ کردیا جائے۔ وہ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد کوئی خاص پہرہ نہیں رہتا بلکہ بعض اوقات آپؐ بالکل بے حفاظتی کی حالت میں ادھر ادھر آتے جاتے۔ شہر کے گلی کوچوں میں پھرتے۔ مسجد میں روزانہ کم از کم پانچ وقت نمازوں کے لیے تشریف لاتے اور سفروں میں بالکل بے تکلفانہ اور آزادانہ طور پر رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ اچھا موقع کسی کرایہ دار قاتل کے لیے کیا ہوسکتا تھا؟ یہ خیال آنا تھا کہ ابوسفیان نے اندر ہی اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تجویز پختہ کرنی شروع کر دی۔

جب وہ پورے عزم کے ساتھ اس ارادے پر جم گیا تواس نے ایک دن موقع پاکر اپنے مطلب کے چند قریشی نوجوانوں سے کہا کہ ’’کیا تم میں سے کوئی ایسا جوانمرد نہیں جو مدینہ میں جاکر خفیہ خفیہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا کام تمام کر دے؟ تم جانتے ہو کہ محمد کھلے طور پر مدینہ کی گلی کوچوں میں پھرتا ہے۔‘‘ ان نوجوانوں نے اس خیال کو سنا اور لے اڑے۔‘‘ ان کو یہ پسند آیا۔ ’’ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ایک بدوی نوجوان ابوسفیان کے پاس آیا اورکہنے لگا ’’میں نے آپ کی تجویز سنی ہے اورمیں اس کے لیے حاضر ہوں۔‘‘ جس طرح پہلے یہ واقعہ بیان ہوا۔ اس واقعہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی بیان کیا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ’’میں ایک مضبوط دل والا اورپختہ کار انسان ہوں جس کی گرفت سخت اور حملہ فوری ہوتا ہے۔ اگر آپ مجھے اس کام کے لیے مقرر کر کے میری مدد کریں تو میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کرنے کی غرض سے جانے کے لیے تیار ہوں اور میرے پاس ایک ایسا خنجر ہے جو شکاری گدھ کے مخفی پروں کی طرح رہے گا۔ سو میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر حملہ کروں گا اور پھر بھاگ کر کسی قافلہ میں مل جاؤں گا اورمسلمان مجھے پکڑ نہیں سکیں گے۔‘‘وہی واقعہ جو پہلے بیان ہوا ہے۔ اسی کو اس نے بیان کیا ہے اورآپ نے بھی اس کو دوبارہ لکھا ہے۔ پھر کہنے لگا کہ ’’اور میں مدینہ کے رستہ کا بھی خوب ماہر ہوں۔ ابوسفیان نے کہا۔ ’’بس بس تم ہمارے مطلب کے آدمی ہو۔‘‘اس کے بعد ابوسفیان نے اسے ایک تیز رو اونٹنی اور زادِراہ وغیرہ دے کر رخصت کیا اورتاکید کی کہ اس راز کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دینا۔

مکہ سے رخصت ہوکر یہ شخص دن کو چھپتا ہوا اور رات کو سفر کرتا ہوا مدینہ کی طرف روانہ ہوا اور چھٹے دن مدینہ پہنچ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ لیتے ہوئے سیدھا قبیلہ بنی عبدالاشہل کی مسجد میں پہنچا۔ جہاں آپؐ اس وقت تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ چونکہ ان ایام میں نئے سے نئے آدمی مدینہ میں آتے رہتے تھے اس لیے کسی مسلمان کواس کے متعلق شبہ نہیں ہوا۔ مگر جونہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا‘‘مسجد میں تشریف لے گئے تھے ’’آپؐ نے فرمایا یہ شخص کسی بری نیت سے آیا ہے۔ وہ یہ الفاظ سن کر اوربھی تیزی کے ساتھ آپؐ کی طرف بڑھا مگر ایک انصاری رئیس اُسَید بن حُضَیر فوراً لپک کر اس کے ساتھ لپٹ گئے اور اس جدوجہد میں ان کا ہاتھ اس کی چھپی ہوئی خنجر پر جا پڑا جس پر وہ گھبرا کر بولا ’’میرا خون میرا خون‘‘۔‘‘ یہاں انہوں نے مزید تفصیل لکھی ہے کہ صرف چادر نہیں کھینچی تھی بلکہ باقاعدہ آپ نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے پھر اس کا خنجر اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ بہرحال اس نے پھر یہ آواز بلند کی کہ بخش دو مجھے۔ ’’جب اسے مغلوب کر لیا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ ’’سچ سچ بتاؤ تم کون ہو اورکس ارادے سے آئے ہو؟‘‘اس نے کہا میری جان بخشی کی جائے تو میں بتا دوں گا۔‘‘پھر اس نے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے ساری کہانی سنائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ ٹھیک ہے تمہیں معاف کر دیا جائے گا۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کر دیا ’’… اور یہ بھی بتایا کہ ابوسفیان نے اس سے اس اس قدر انعام کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے بعد یہ شخص چند دن تک مدینہ میں ٹھہرا اور پھر اپنی خوشی سے مسلمان ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو گیا۔

ابوسفیان کی اس خونی سازش نے اس بات کو آگے سے بھی زیادہ ضروری کردیا کہ مکہ والوں کے ارادے اور نیت سے آگاہی رکھی جائے۔ چنانچہ آپؐ نے اپنے دو صحابی عمرو بن امیہ ضَمْرِی اور سلمہ بن اسلم کو مکہ کی طرف روانہ فرمایا اور ابوسفیان کی اس سازش قتل اور اس کی سابقہ خون آشام کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے انہیں اجازت دی کہ اگر موقع پائیں تو بیشک اسلام کے اس حربی دشمن کا خاتمہ کر دیں مگر جب امیہ اور ان کا ساتھی مکہ میں پہنچے تو قریش ہوشیار ہو گئے اور یہ دوصحابی اپنی جان بچا کر مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔ راستہ میں انہیں قریش کے دوجاسوس مل گئے جنہیں رؤساء قریش نے مسلمانوں کی حرکات وسکنات کاپتہ لینے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کا علم حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ اور کوئی تعجب نہیں کہ یہ تدبیر بھی قریش کی کسی اور خونی سازش کا پیش خیمہ ہو مگر خدا کا فضل ہوا کہ امیہ اور سلمہ کو ان کی جاسوسی کا پتہ چل گیا جس پر انہوں نے ان جاسوسوں پر حملہ کرکے انہیں قید کرلینا چاہا مگرانہوں نے سامنے سے مقابلہ کیا۔ چنانچہ اس لڑائی میں ایک جاسوس تو مارا گیا اور دوسرے کو قید کرکے وہ اپنے ساتھ مدینہ میں واپس لے آئے۔ ‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 741تا743)

باقی انشاء اللہ آئندہ۔

پاکستان کے حالات کے لیے میں دعا کے لیے کہتا رہتا ہوں۔

اس میں تو اَب بعض دفعہ بہت زیادہ شدت آ جاتی ہے اور انتظامیہ اور حکومت بھی لگتا ہے کہ شدت پسند مولویوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہے۔ پہلے تو یہ خبریں ہی آتی تھیں کہ مسجد کا منارہ گرا دیا یا محراب گرا دی۔ ان کو یہ اعتراض تھا لیکن اب ڈسکہ میں کل انہوں نے سڑک بنانے کے بہانے پہلے نوٹس بھیجا کہ اتنی جگہ ہم لیں گے اور وہاں بلڈوزر پھیر کے جگہ صاف کریں گے اس سے مسجد کا تھوڑا سا حصہ غسل خانے وغیرہ آتے تھے لیکن

جب بلڈوزر لے کر آئے تو انہوں نے مولویوں کے کہنے پر ساری مسجد کو مسمار کر دیا اورشہید کر دیا۔

یہ مسجد پرانی بنی ہوئی ہے۔ پارٹیشن سے پہلے کی بنی ہوئی تھی اور حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے شاید بنوائی تھی۔ بہرحال

یہ آجکل اب اس حد تک بڑھ گئے ہیں اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان کی جلد پکڑ کے سامان پیدا فرمائے اور ان کے مکر ان لوگوں پر الٹائے۔

اس لیے احمدیوں کو خاص طور پہ پاکستان کے احمدیوں کو بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اس طرف توجہ دیں۔ اسی طرح

فلسطین کے بارے میں

بھی جو معاہدہ ہو رہا ہے کبھی کہتے ہیں ہو گیا کبھی کہا جاتا ہےنہیں ہوا۔ معاہدے کے بعد پھر واقعات ہو رہے ہیں۔ تو اس بات پہ بعض لوگ بے جا خوشی کا اظہار کرنے لگ گئے ہیں لیکن ان کو سمجھنا چاہیے کہ

دجالی طاقتوں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ یہ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں

اس لیے اتنی زیادہ خوش فہمی کی ضرورت نہیں ہے،

ان کے لیے بھی دعاؤں کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کو عقل سے کام لے کر اپنے حق حاصل کرنے کی طرف بھی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مسلم قوم کو بھی اس کی عقل دے۔

اس وقت میں

چند مرحومین کا ذکر

کروں گا اور بعد میں جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔

پہلا ذکر ہے

مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کا یہ ربوہ میں صدر انجمن احمدیہ کے ناظر دیوان تھے۔

یہ گیارہ جنوری کو ستتر سال کی عمر میں وفات پا گئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحوم موصی تھے پیدائشی احمدی تھے اور ان کے دادا شیخ محمد دین صاحب نے 1938ء میں بیعت کی تھی۔ کتھا ننگل تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور سے ان کا تعلق تھا۔

شیخ مبارک صاحب نے بی اے بی ایڈ تعلیم حاصل کرنے کے بعد 66ء سے 81ء تک تقریباً پندرہ سال بطور استاد تعلیم الاسلام ہائی سکول خدمت کی۔ بعد میں جب 73ء میں سکول نیشنلائزڈ ہو گئے تھے تو اس کے بعد پھر انہوں نے بعض دوسرے سکولوں میں بھی حکومت کی سروس کی۔ تدریس کے فرائض انجام دیےاور بہرحال چالیس سال تک ان کا جماعت کی خدمت کا عرصہ ہے۔ خلیفة المسیح الثالثؒ کی خدمت میں انہوں نے وقف کو پیش کیا۔ 1982ء میں انہوں نے وقف قبول فرمایا ان کا اور پھر 1982ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے صدسالہ جوبلی میں ان کو نائب وکیل کے طور پر تعینات فرمایا۔ پھر نائب وکیل المال کے طور پر ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ ایڈیشنل ناظر بیت المال صدر انجمن احمدیہ کی توفیق ملی۔ پھر ناظر بیت المال کے طور پہ بھی انہوں نے کام کیا۔ پھر اس کے بعد ناظر دیوان کے طور پر، ناظر رشتہ ناطہ کے طور پر ایک لمبا عرصہ ان کو جماعت کی خدمت کی توفیق ملی اور اسی طرح ذیلی تنظیموں میں انصار اللہ کے مختلف عہدوں پر قائد اور خدام الاحمدیہ کے مہتمم رہے۔

حسان محمود صاحب ان کے بھانجے اور داماد ہیں، مربی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے خلافت کے ساتھ اخلاص ووفا کا تعلق رکھنا اور مالی معاملات میں دخل نہیں دینا۔ یہ نصیحت کیا کرتے تھے مربیان کو۔ کہتے ہیں کہ نمازوں کا خصوصی اہتمام کرتے۔ آخری عمر تک نمازوں کی ادائیگی مسجد میں جاکے ادا کرنے کی کوشش کرتے اور ہمیشہ جماعتی اور نجی محفلوں میں خلافت سے اپنا تعلق رکھنے کی تاکید کرتے اور ہمیشہ یہ دعا کرتے کہ میری اولاد کو بھی خلافت سے جوڑے رکھے اور پھر یہ کہتے ہیں کہ میں تو ہر بات خلیفة المسیح کو لکھتا ہوں۔ چھپاتا نہیں ہوں اور غلطی ہو گئی تب بھی لکھ دیتا ہوں تا کہ اس کی اصلاح ہو جائے اور مجھے فائدہ ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف کو انہوں نے خوب نبھایا ہے۔ مَیں نے بھی دیکھا ہے، میں بھی جب انجمن میں تھا تو انہوں نے میرے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی ایک مثال تھے۔ سادہ رہنا سادگی سے زندگی گزارنا اور اپنا وقت پورا دینا۔

اکثر یہ ہوتا تھا کہ دورہ کیا ہے اور دورہ کر کے واپس آئے ہیں۔ دفتر اٹینڈ کیا اور شام کو پھر دورے پہ چلے گئے اور یہی کوشش ہوتی تھی کہ مجھے خدمت کا موقع ملتا رہے۔ ان کے بچوں میں سے کبھی کسی نے آرام کا مشورہ دیا۔ بیمار بھی ہو گئے تھے تو انہوں نے کہا کہ میری ریٹائرمنٹ میری وفات پر ہی ہو گی۔

دفترکے کارکنان بھی ان سے بہت خوش تھے۔ کہتے ہیں ہمیشہ ہمارا، ہماری ذاتی ضروریات کا بھی خیال رکھتے۔ ہر بات کا جائزہ لیتے اور اسے پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ اسی طرح انہوں نے لکھا ہے کہ مطالعہ کا بہت شغف تھا اور کہتے ہیں میں نے دیکھا ہے گھر میں ہر وقت مطالعہ کر رہے ہوتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات کا گہرا مطالعہ کیا ہوا تھا اور بچوں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے۔

جماعتی قواعد اور ضوابط کا ان کو بہت زیادہ علم تھا اور فیصلہ لینے کی قوت بھی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو صلاحیتوں سے نوازا ہوا تھا۔ انجمن کے قواعد کی جب revisionہوئی ہے تو اس وقت یہ بھی کمیٹی میں تھے اور بڑی صائب رائے دیا کرتے تھے۔

کراچی کے انسپکٹر بیت المال سید داؤد احمد ہیں۔ کہتے ہیں تیئس سال کا عرصہ نظارت مال آمد میں شیخ صاحب کے زیر نگرانی کام کیا۔ بڑے ہی پیارے انداز میں ہم سے کام لیتے۔ جہاں غلطی ہوتی وہاں سمجھاتے۔ جہاں اچھا کام کرتے حوصلہ افزائی فرماتے۔ دفتر کا ہر کارکن یہی سمجھتا کہ مجھ سے شیخ صاحب کا خاص تعلق ہے۔ ہر کارکن کی گھریلو اور فیلڈ کی پریشانیوں پر نظر رکھتے اور جس قدر ممکن ہوتا تعاون کرتے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ایک اہلیہ ہیں۔

دوسرا ذکر

مکرم محمد منیر ادلبی صاحب

کا ہے جن کی گذشتہ دنوں چھہتر سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں جو سب قطر میں مقیم ہیں۔

مسلم دروبی صاحب کہتے ہیں کہ ان کے ذریعہ ہی میں نے اور میرے بھائی نے احمدیت قبول کی۔ وہ فعال مبلغ، مقرر، دانشور اور احمدی تبلیغی علوم کے مصنف تھے۔ 1984ء کے شروع میں بیعت کی۔ جب انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تو پھر یہاں لندن میں لمبا عرصہ قیام کیا اور لقاء مع العرب کے کچھ پروگراموں اور بعض دیگر پروگراموں کا ترجمہ بھی کیا۔ انہوں نے دس سے زیادہ کتابیں لکھیں جن میں سے سات کتب جماعت احمدیہ کی تبلیغ پر مشتمل مضامین کے بارے میں ہیں۔ دیر سے آئے لیکن بہت کام کر گئے۔ شام جماعت میں سیکرٹری تبلیغ اور سیکرٹری تعلیم و تربیت کے طور پر خدمت کی۔ درجنوں احباب نے ان کے ذریعہ بیعت کی۔ حوش عرب کی بستی میں احمدیت ان کے ذریعہ سے آئی۔ اس بناپر احمدیت کے مخالفین نے ایک دفعہ ان کی کار کو بھی آگ لگا دی۔ ان کے مناظروں اور تبلیغی نشستوں کی وجہ سے حکام کے پاس شکایت کی گئی جس کی وجہ سے وہاں حوش عرب کی بستی کے بعض افراد کے ساتھ 1989ء میں سابقہ حکومت کی جیلوں میں کئی مہینے قید رہے۔ شام کے حالات خراب ہونے کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ قطر چلے گئے۔

صدر جماعت سیریا وسیم صاحب لکھتے ہیں۔ کئی کتابیں تصنیف کیں جن سے احمدی کتب خانہ مالا مال ہوا۔ احمدی تعلیمات کو انہوں نے سادہ انداز میں واضح طور پر پیش کیا۔ ان کی وجہ سے بہت سے لوگ احمدیت میں داخل ہوئے۔

باسل ادلبی صاحب کہتے ہیں آپ نے اپنی پوری زندگی احمدیت کی خدمت میں گزاری اور خلافت کے عاشق تھے اور خلیفة المسیح الرابعؒ کے لیے انہوں نے انگریزی سے عربی میں ترجمانی کی۔ احمدیت کے مجاہد تھے۔ انہوں نے احمدیت کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی اور سیریا میں موجود بہت سے احمدیوں کی ہدایت کا سبب بنے۔ تبلیغ کے لیے انہوں نے مختلف ممالک کا سفر بھی کیا۔ 2013ء میں سیریا کے بحران کی وجہ سے قطر منتقل ہو گئے اور وہاں فیس بک پر احمدیت اور خلافت کے بارے میں لکھتے رہے اور دلچسپی رکھنے والوں سے رابطے میں رہتے۔ آپ ایک فصیح مقرر تھے اور قرآن و سنت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے پیغام کی صداقت کے دلائل اور شواہد پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انہوں نے خلافت کی عظمت اور دفاع میں انگریزی سے عربی میں متعدد کتب کا ترجمہ بھی کیا۔ انہوں نے اپنی ذات، زبان، قلم اور زندگی کو احمدیت کی تبلیغ اور دفاع کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اپنے موقف اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کی صداقت پر ایمان کی وجہ سے اپنے خاندان اور دمشق کے معاشرے کی طرف سے بہت سے صدمات بھی برداشت کرنے پڑے۔

نظار عجیب صاحب کہتے ہیں مجھے ادلبی صاحب کے ذریعہ احمدیت سے تعارف ہوا۔ مکرم خالد عزام صاحب نے آپ کی دجال کے بارے میں ایک کتاب کہیں سے حاصل کی۔ مجھے یہ کتاب بہت اچھی لگی اور اس نےمیرے سارے مفاہیم بدل ڈالے۔ اس کے بعد میں نے ان کی کتاب ’’قتل مرتد‘‘ اور پھر ’’جِنّوں‘‘ کے بارے میں پڑھی اور ان سے فون پر رابطہ کیا۔ پھر میں نے اور خالد عزام صاحب نے بیعت کر لی۔ مرحوم کو علم ہوا تو بہت خوش ہوئے۔

ڈاکٹر عمران رحمان صاحب صدر جماعت قطر کہتے ہیں۔ انتہائی منکسر المزاج تھے اور نظام جماعت سے ہمیشہ مضبوط تعلق رکھتے تھے۔ خلافت سے آپ کی محبت اور اطاعت بہت غیر معمولی تھی۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ یہاں خطبات سنتے اور میرے باقی پروگرام بھی دیکھتے اور اس کا بہت اظہار کرتے تھے۔ مالی قربانی میں پیش پیش رہتے۔ اس بات کو یقینی بناتے کہ ان کے چندے سب سے پہلے ادا ہوں۔ کہتے ہیں وفات سے کچھ روز قبل بھی انہوں نے مجھے اور مربی صاحب کو اور سیکرٹری مال کو اپنے گھر بلایا اور انہوں نے کہا وقف جدید کا چندہ ادا کرنا ہے وہ آکے لے لیں۔ غلط رپورٹوں کی وجہ سے وہاں بھی ان کو سیکیورٹی حکام نے طلب کیا لیکن پھر چھوڑ دیا۔

پھر کسی نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ کو شام کے ٹی وی پروگراموں میں متعدد بار مدعو کیا گیا جہاں آپ نے اسلام میں مرتد کی سزا کی ممانعت پر ممتاز علماء سے بحث کی۔ اس بات پر آپ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں جن میں سے کچھ آن لائن شائع بھی ہوئیں۔ آپ ایک فیس بک صفحہ بھی چلاتے تھے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے اقتباسات شیئر کیےجاتے تھے جسے احمدی اور غیر احمدی دونوں ہی فالو کرتے تھے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی، اپنی آخری سانس تک اپنے قلم اور الفاظ کے ساتھ ثابت قدم رہتے ہوئے گزاری۔ ان کی بنیادی فکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچانا اور دنیا میں اللہ کا سچا دین پھیلانا تھا۔ جہاں بھی موقع ملتا وہاں بیٹھ کر گفتگو کو احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور آپؑ کے پیغام کی تبلیغ کی طرف موڑنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

ان کے بچوں کو بھی نیکیوں پہ قائم رکھے۔ درجات بلند فرمائے۔

تیسرا ذکر

عبدالباری طارق صاحب کا ہےجو کمپیوٹر سیکشن وقف جدید ربوہ کے انچارج تھے۔

ان کی گذشتہ دنوں وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

صدر صاحب وقف جدید نے لکھا ہے کہ احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا مکرم چودھری محمد یار صاحب ساکن گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ کے ذریعہ ہوا۔ انہوں نے 1903ء میں ایک خط کے ذریعہ بیعت کر کے احمدیت قبول کی۔ مرحوم کے دادا چودھری غلام قادر صاحب پیدائشی احمدی تھے۔ انہوں نے ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس کی تعلیم پائی۔ پھر کراچی میں ملازمت کرتے رہے۔ پھر ان کو کینسر کی بیماری ہو گئی اور اس سے صحت یاب ہوئے۔ پھر دوبارہ کینسر عود کر آیا۔ پھر انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی خدمت میں لکھا۔ انہوں نے ان کو ہومیو پیتھک دوائی بھیجی اور باقی ہومیو علاج بھی ان کو کہا۔ ساتھ ہی انہوں نے وقف کی بھی درخواست کی تھی جسےحضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے منظور فرمایا اور ان کو تحریک جدید میں بھیج دیا۔ پھر وقف جدید میں ان کی تقرری ہوگئی۔ تمام دفاتر کو کمپیوٹرائز کرنے کے علاوہ جماعت کے دیگر ادارہ جات جو ہیں وہاں بھی بہت کام کیا بلکہ بیرون پاکستان احمدیہ ہسپتال کانو نائیجیریا اور احمدیہ ہسپتال بینن کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کی بھی توفیق ملی بلکہ کانو کے ڈاکٹر صاحب نے تو لکھا ہے کہ جب ہم کمپیوٹرائزڈ کرنا چاہتے تھے تو جہاں لاکھوں کا خرچہ تھا اور سستے سے سستا بھی ہزاروں ڈالروں میں ہمیں estimateملا تھا لیکن یہ وہاں آئے اور ایک مہینہ رہ کے بہت معمولی رقم پہ انہوں نے ہمارا سارا کام کر دیا۔

ان کے پسماندگان میں والدہ، اہلیہ، ایک بیٹا اور پانچ بھائی ہیں اور بہنیں شامل ہیں۔

انہوں نے وقف کیا۔ انہوں نے عہد کیا تھا کہ صحتیاب ہوکے وقف کروں گا۔ بیماری کے بعد جب صحتیاب ہوئے تو پھر انہوں نے اکیس سال تک جو وقف کا عرصہ ہے بےنفس ہو کےکام کیا۔ نہ دن دیکھا نہ رات دیکھی اور واقفین کے لیے ایسا نمونہ قائم کیا جو ان کے لیے بھی قابل تقلید ہے۔

انصار اللہ مرکزیہ میں بھی یہ قائد کے طور پہ کام کر رہے تھے۔ وہیں جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے تو ان کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وفات ہو گئی۔

صدر انصار اللہ ڈاکٹر سلطان صاحب کہتے ہیں۔ آپ تنظیم، سلسلہ اور خلافت کے نہایت وفادار وجود تھے اور انہوں نے اپنے وقف کو پوری وفا سے نبھایا۔ وہ خدمت دین میں ہمہ تن مصروف رہنے میں ہی اپنے آپ کو خوش محسوس کرتے اور ذمہ داری کو ادا کرنے میں راحت محسوس کرتے تھے۔ کسی نے ان کو کہا کہ آپ لوگوں کاکام کرتے ہیں تو ان سے اجرت لے لیا کریں۔ سافٹ ویئر وغیرہ بناتے ہیں اتنی محنت آپ کررہے ہیں تو کہنے لگے میں وقف زندگی ہوں اور مجھے معاوضہ خدا کے پاس ملے گا۔ آپ نے وقف کے تقاضوں کو بخوبی نبھایا جیسا کہ میں نے کہا اور وقف کی برکات پر کامل یقین تھا اور آخری سانس تک خدمت کرنے کا عہد کیا تھا جسے انہوں نے پورا کیا۔ اللہ تعالیٰ ان سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 17؍ جنوری 2025ء شہ سرخیاں

    اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! میں لوگوں سے نہیں ڈرتا تھا لیکن جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو میری عقل چلی گئی اور میرا دل کمزور ہو گیا۔ پھر میں اپنے اس ارادے پر آگاہ ہواجو میرا عزم تھا
    جس کے بارے میں کئی سوار کوشش کر چکے تھے مگر کوئی کامیاب نہ ہوا۔ میں نے جان لیا کہ
    آپؐ کی حفاظت کی گئی ہے اور یقیناً آپؐ حق پر ہیں۔ (ایک حملہ آور کا برملا اعتراف)

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن امیہ اور سلمہ بن اسلم کو ابوسفیان بن حرب کی طرف بھیجا
    اور فرمایا اگرتم دونوں اس کو غفلت کی حالت میں پاؤ تو اس کو قتل کر دینا

    سریّہ عبدالله بن رواحہ بطرف اُسَیْر بن رِزام اور سریّہ عمرو بن اُمیہ ضمری کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان

    مکرم شیخ مبارک احمد صاحب(ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ ربوہ )، مکرم محمد منیر اِدلبی صاحب آف شام اور مکرم عبدالباری طارق صاحب(انچارج کمپیوٹر سیکشن وقفِ جدید ربوہ)کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

    اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف کو شیخ مبارک صاحب نے خوب نبھایا ہے۔ مَیں نے بھی دیکھا ہے،
    میں بھی جب انجمن میں تھا تو میرے ساتھ بھی انہوں نے کام کیا ہے۔ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی ایک مثال تھے۔

    فرمودہ 17؍ جنوری 2025ء بمطابق17؍ صلح 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور