حضرت محمد رسول اللہﷺ: اُسوۂ حسنہ

خطبہ جمعہ 31؍ جنوری 2025ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

گذشتہ جمعہ

غزوۂ ذِی قَرَدْ کا ذکر

ہو رہا تھا جیسا کہ بتایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس غزوہ میں جانے سے پہلے چند صحابہ ؓکو دشمن کی طرف روانہ فرمایا تھا اور آپؐ پھر ان کے پیچھے اپنا لشکر لے کر روانہ ہوئے۔ اس ضمن میں مزید لکھا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ آئے تو دشمن کے لشکر نے انہیں دیکھا اور وہ بھاگ گئے۔ جب مسلمان دشمن کے پڑاؤ کی جگہ پہنچے تو حضرت ابوقتادہؓ کا گھوڑا وہاں موجود تھا جس کی کونچیں کٹی ہوئی تھیں۔ ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!ابوقتادہ کے گھوڑے کی تو کونچیں کٹی ہوئی ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس کھڑے ہوئے اور دو مرتبہ فرمایا۔ تیرا بھلا ہو، جنگ میں تیرے کتنے دشمن ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ آگے چل دیے یہاں تک کہ اس جگہ پہنچے جہاں حضرت ابوقتادہؓ اور مَسْعَدَہ نے کشتی کی تھی، گذشتہ جمعہ اس کے بارے میں بیان ہوا تھا۔ تو انہوں نے سمجھا کہ حضرت ابوقتادہؓ چادر میں لپٹے پڑے ہیں۔ ایک صحابی نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !لگتاہے کہ ابوقتادہؓ شہید ہو گئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ ابوقتادہ پر رحم کرے۔ اس ذات کی قسم! جس نے مجھے عزت بخشی ہے ابو قتادہ تو دشمن کے پیچھے ہے اور رجز پڑھ رہا ہے۔

حضرت ابوقتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قافلے نے، لشکر نے جب میرے گھوڑے کو دیکھا کہ اس کی کونچیں کٹی ہوئی ہیں اور مقتول کو میری چادر میں لپٹے ہوئے دیکھا تو انہوں نے سمجھا کہ شاید میں شہید ہو گیا ہوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلدی سے آگے بڑھے اور چادر ہٹائی تو مَسْعَدَہ کا چہرہ دیکھا۔ ان دونوں نے کہا اللہ اکبر! اللہ اور اس کے رسولؐ نے سچ کہا۔ یا رسول اللہ!یہ مَسْعَدَہ ہے۔ اس پر صحابہؓ نے بھی تکبیر کہی اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی حضرت ابوقتادہ اونٹنیاں ہانکتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوقتادہؓ !تمہارا چہرہ کامیاب ہو گیا۔ ابوقتادہؓ گھڑ سواروں کے سردار ہیں۔ اے ابوقتادہؓ! اللہ تم میں برکت رکھ دے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری اولاد اور اولاد کی اولاد میں برکت رکھ دے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوقتادہ!یہ تمہارے چہرے پر کیا ہوا ہے؟ حضرت ابوقتادہؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں مجھے ایک تیر لگا تھا۔ اس ذات کی قسم!جس نے آپؐ کو عزت بخشی، میرا خیال تھا کہ میں نے وہ تیر نکال دیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا ابوقتادہ میرے قریب آؤ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا۔ آپ نے نرمی سے تیر نکال دیا اور اپنا لعاب دہن لگایا اور اپنا ہاتھ اس پر رکھا۔ حضرت ابوقتادہؓ کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم!جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا کی مجھے یوں لگتا تھا جیسے مجھے کوئی چوٹ ہی نہ لگی ہو اور نہ زخم آیا ہو۔ پچھلی دفعہ بیان ہوا تھا کہ تیر تو حضرت ابوقتادہؓ نے خود نکالا تھا لیکن ہو سکتا ہے اس کی کوئی اَنی، اس کا کوئی پھل اندر رہ گیا ہو جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکالا۔ اس کا نشان نظر آ رہا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوقتادہ کو دیکھا تو فرمایا اے اللہ!اس کے بالوں اور اس کی جلد میں برکت رکھ دے۔ اور فرمایا تمہارا چہرہ کامیاب ہو گیا۔ وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ!آپؐ کا چہرہ کامیاب ہو گیا۔ پھر جب ستر سال کی عمر میں حضرت ابوقتادہؓ کی وفات ہوئی تب بھی کہتے ہیں کہ آپؓ چہرے سے پندرہ سال کے لگتے تھے یعنی جوان چہرہ لگتا تھا۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد5صفحہ 100، 101دارالکتب العلمیۃ1993ء)

اس غزوہ میں حضرت سَلَمَہ ؓ کا دشمن سے ذُو قَرَدْ میں مقابلے کا ذکر یوں ملتا ہے۔ حضرت سَلَمہ ؓ کہتے ہیں کہ میں دشمن کے پیچھے دوڑتا جا رہا تھا یہاں تک کہ مجھے اس ذات کی قسم! جس نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت دی مجھے اپنے پیچھے صحابہ ؓ نظر نہیں آ رہے تھے اور نہ ہی مجھے ان کا گردو غبار نظر آ رہا تھا۔ دشمن غروبِ آفتاب سے پہلے ایک گھاٹی میں پہنچ گیا جہاں ذُوقَرَدْ نام کا ایک چشمہ تھا۔ انہوں نے وہاں سے پانی پینا چاہا تو مجھے دیکھا کہ میں ان کے پیچھے ہی ہوں تو وہ اس سے ہٹ گئے۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ میں نے ایک شخص کو دیکھا تو اسے تیر مارا۔ میں نے صبح بھی اسے تیر مارا تھا۔ اب دوسرا تیر اسے مارا اور دونوں تیر اسے لگے۔ وہ دو گھوڑے چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تو میں نے ان دونوں کو پکڑا اوراتنی دیر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے تھے تو پھر ان کو لے کے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہانک لایا۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5صفحہ 98-99دارالکتب العلمیۃ1993ء)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذُو قَرَدْ پہنچنے کے بارے میں

یوں بیان ہوا ہے۔ حضرت سَلَمَہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے وقت پہنچے اور چشمے پر پڑاؤ ڈالا جہاں میں نے دشمن کو روکا تھا۔ آپؐ اونٹنیاں اور ہر وہ چیز جو میں نے دشمن سے چھینی تھی قبضہ میں کر چکے تھے۔ حضرت بلالؓ نے ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ ذبح کیا جو دشمن سے چھینے گئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیےاس کا کلیجہ اور کوہان بھونی۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے کھجوروں سے لدے ہوئے دس اونٹ بھیجے جو آپؐ کو ذُو قَرَدْ مقام پر ملے۔ حضرت سَلَمَہ ؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے عرض کیا مَیں نے دشمن کو پانی سے روکا ہوا تھا اور وہ پیاسے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایک سو مجاہدین کے ساتھ روانہ کریں میں ان کا پیچھا کر کے ان کے ہر مخبر کو بھی قتل کر دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے یہاں تک کہ آگ کی روشنی میں آپ کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے۔ آپ نے فرمایا: سَلَمَہ کیا تم ایسا کر سکتے ہو؟ میں نے کہا آپ کو عزت دینے والے کی قَسم! جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔مَلَکْتَ فَاَسْجِحْتم نے ان پر قابو پا لیا ہے تو نرمی اختیار کرو۔ یہ عرب کے محاوروں میں سے ایک محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بہترین معافی یہی ہے کہ نرمی اختیار کرو اور سختی سے کام نہ لو۔ اگر وہ چلے گئے تو چلے گئے اب ان کا پیچھا کرنے کی ضرورت نہیں۔

اس جنگ کے واقعات میں حضرت سَلَمَہؓ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صبح کے وقت

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج کے بہترین گھڑ سوار ابو قتادہؓ اور بہترین پیادہ سَلَمَہ بِنْ اَكْوَع ہیں۔

حضرت سَلَمَہ ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے سوار اور پیادہ دونوں کا حصہ عطا فرمایا۔ پھر مجھے اپنی اونٹنی پر اپنے پیچھے سوار کیا۔ اس سفر میں حضرت سَلَمَہؓ کی ایک اور روایت ملتی ہے۔ حضرت سَلَمَہ ؓ کہتے ہیں کہ مدینہ واپسی کے وقت جب ہم مدینہ کے قریب پہنچے تو ایک انصاری صحابی جو دوڑنے میں بہت تیز تھے اعلان کر کے کہنے لگے کہ کوئی ہے جو میرے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کرے۔ یعنی مدینہ طیبہ تک میرے ساتھ دوڑ لگائے۔ انہوں نے چند مرتبہ یہی الفاظ دہرائے۔ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہی اونٹنی پر سوار تھا۔ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار تھا۔ میں نے ان انصاری صحابی سے کہا کہ کیا تم کسی معزز کی عزت نہیں کرتے۔ تمہیں کسی شریف آدمی کا ڈر نہیں ہے جو یہ اعلان کرتے پھر رہے ہو۔ اس نے کہا نہیں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اَور مجھے کسی سے کوئی نہیں ڈر۔ تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرض کیا کہ یا رسول اللہ!میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں مجھے اس آدمی سے دوڑ لگانے کی اجازت دیں۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے اگر تم چاہتے ہو تو لگاؤ۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ چلو۔ پھر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے پاؤں موڑے اور چھلانگ ماری اور دوڑ پڑا اور مَیں ایک یا دو گھاٹیاں اس کے پیچھے دوڑا یعنی وہ آگے اور میں پیچھے تھا اور اپنی طاقت بچاتا رہا۔ پھر میں تیز ہوا اور اسے جا لیا۔ مَیں نے اسے کندھے کے درمیان ہاتھ مارا اور کہا اللہ کی قسم!میں تم پر سبقت لے گیا۔ وہ مسکرانے لگا اور کہا میرا بھی یہی خیال ہے اور یوں مَیں اس دوڑ میں آگے نکل گیا یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔

اس غزوہ کے لیےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے کتنا عرصہ باہر رہے

اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدھ کی صبح روانہ ہوئے اور آپؐ نے ایک رات ایک دن ذُوقَرَدْ میں قیام فرمایا تا کہ دشمن کی کوئی خبر مل سکے۔ پھر سوموار کے دن مدینہ واپس تشریف لائے۔ یوں آپ پانچ راتیں مدینہ سے باہر رہے۔

اس جنگ میں شہید ہونے والے صحابہ کی تفصیل

یوں ہے۔ مسلمانوں میں سے حضرت مُحْرِزْ بن نَضْلَہؓ شہیدہوئے۔ ابنِ ہشام کے مطابق ابنِ وَقَّاص بن مُجَزِّزْ بھی شہید ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ حضرت ابوذرؓ کے بیٹے جنگ سے پہلے ہی اونٹوں کے باڑہ میں شہید کر دیے گئے تھے۔ کفار کے بارے میں لکھا ہے کہ کفار میں سے عبدالرحمٰن بن عُیَیْنَہ،حُبَیْب بن عُیَیْنَہ، مَسْعَدَہ بن حَکَمَہ فَزَارِی، اَوْبَار اور اس کا بیٹا عَمرو قتل ہوئے۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد5صفحہ100تا 104دارالکتب العلمیۃ1993ء)(عمدۃ القاری جلد 14صفحہ 286دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5صفحہ 95 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت ابوذرؓ کی بیوی کو دشمن قید کر کے لے گئے تھے۔ اس کا ذکر پہلے ہوا تھا۔ حملہ آور حضرت ابوذر کی بیوی کو پکڑ کر ساتھ لے گئے تھے اور انہوں نے اس کو باندھ کر رکھا ہوا تھا اور وہ لوگ اپنے مویشی اپنے گھروں کے سامنے رات کو رکھتے تھے۔ ایک رات وہ عورت بندھنوں سے چھٹ گئی اور قریب ہی بندھے ہوئے اونٹوں کے پاس آئی۔ جب بھی وہ کسی اونٹ کے قریب آتی تو وہ بلبلاتا۔ اسے چھوڑ دیتی وہ شور مچاتا یہاں تک کہ عَضْبَاء یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ اونٹنی تھی جسے دشمن لُوٹ کر ساتھ لے آئے تھے اس کے پاس پہنچی تو وہ نہیں بلبلائی۔ بولی کوئی نہیں۔ بڑے آرام سے رہی۔ وہ سدھائی ہوئی اونٹنی تھی۔ وہ عورت اس کی پشت پر سوار ہو گئی اور اسے ایڑھ لگا دی اور وہ چل پڑی۔ ان لوگوں کو اس کے بھاگنے کا علم ہو گیا تو انہوں نے اسے پکڑنا چاہا لیکن وہ پکڑی نہ گئی۔

راوی کہتے ہیں کہ اس عورت نے اللہ کی خاطر نذر مانی کہ اگر اللہ اسے اس اونٹنی کے ذریعہ نجات دے گا تو وہ ضرور اس کو ذبح کر دے گی۔ جب وہ مدینہ آئی اور لوگوں نے دیکھا تو کہنے لگے یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی عَضْبَاء ہے۔ وہ عورت کہنے لگی میں نے تو نذر مانی ہے کہ اگر اللہ اس اونٹنی کے ذریعہ نجات دے گا تو وہ اس کی قربانی کرے گی۔ اس بحث مباحثہ پر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے یہ ساری بات بیان کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ! اس عورت نے اس اونٹنی کو کتنا بُرا بدلہ دیا ہے۔ یہ اس کو بچا کے لائی ہے اور یہ اس کو یہ نذر مان کر یہ بدلہ دے رہی ہے کہ اگر اللہ نے اس اونٹنی کے ذریعہ اسے بچایا تو وہ اسے ذبح کر ڈالے گی۔ یہ تو اچھا بدلہ نہیں ہے۔ پھر فرمایا

کوئی نذر خدا کی نافرمانی میں پوری نہ کی جائے اور نہ ہی اُس میں نذر جائز ہے جس کا بندہ مالک نہیں۔

فرمایا: تم اس کی مالک ہی نہیں ہو۔ یہ میری اونٹنی ہے۔ تم اللہ کا نام لے کر خیرو برکت کے ساتھ اپنے گھر جاؤ۔(صحیح مسلم جلد 8صفحہ 236-237 کتاب النذر باب لا وفاء لنذرٍ فی معصیۃ اللّٰہ …حدیث:3085)(سیرت ابن ہشام،غزوہ ذِی قَرَدْ صفحہ 667 دار الکتب العلمیۃ بیروت )(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5صفحہ 95 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اب ایک سریے کا ذکر کروں گا یہ

سَرِیَّہ حضرت اَبَان بن سعیدؓ بطرف نَجْد

کہلاتا ہے۔ یہ سَرِیَّہمحرم سات ہجری میں ہوا۔(غزوات و سرایا از محمد اظہر فرید صفحہ390فریدیہ پبلشرز ساہیوال)جبکہ ایک روایت میں اس سَرِیَّہکی تاریخ جُمَادَی الثانی 7 ہجری بیان ہوئی ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اس سَرِیَّہ کو محرم سات ہجری میں لکھا ہے۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 6صفحہ 128 دار الکتب العلمیۃ بیروت)( ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 837)

اس سَرِیَّہ کی تاریخ محرم سات ہجری زیادہ قرینِ قیاس ہے کیونکہ روایات میں ذکر ہے کہ خیبر کی طرف روانگی سے قبل مدینہ سے نجد کی طرف حضرت اَبَان بن سعیدؓ کو بھیجا اور خیبر کی طرف روانگی محرم 7ہجری میں ہوئی تھی۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 115دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت اَبَانؓ کا تعارف

یہ ہے کہ حضرت اَبَانؓ کے والد اکابر قریش میں سے تھے۔ ان کے بھائی عمرو اور خالد پہلے مسلمان ہو گئے تھے اور حبشہ ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے۔ اَبَان جنگِ بدر میں مشرکین کی طرف سے شامل ہوئے تھے۔ انہوں نے صلح حدیبیہ کے دوران حضرت عثمانؓ کو پناہ دی تھی۔ عمرو اورخالد حبشہ سے واپس آئے تو انہوں نے اَبَان کو پیغام بھیجا یہاں تک کہ تینوں اکٹھے خیبر کے ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اَبَان نے اسلام قبول کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت اَبَان بن سعیدؓ نے صلح حدیبیہ اور غزوۂ خیبر کے درمیانی عرصہ میں اسلام قبول کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت اَبَان بحرین پر عامل تھے۔ اس کے بعد وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اور شام چلے گئے۔ آپؓ تیرہ ہجری میںشہید ہوئے، ایک روایت کے مطابق ستائیس ہجری کو حضرت عثمانؓ کی خلافت میں وفات پائی۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد1صفحہ168تا170دار الکتب العلمیۃ بیروت)(اسدالغابہ جلد1صفحہ 148دار الکتب العلمیۃ بیروت)

غزوۂ خیبر پر روانگی سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اَبَان بن سعیدؓ کی قیادت میں نجد کی طرف ایک لشکر روانہ کیا تھا۔ نجد ایک نیم صحرائی لیکن شاداب خطہ ہے جس میں متعدد وادیاں اور پہاڑ ہیں۔ یہ جنوب میں یمن،شمال میں صحرائے شام اور عراق تک جا پہنچتا ہے۔ اس کے مغرب میں صحرائے حجاز واقع ہے۔ یہ علاقہ سطح زمین سے بارہ سو میٹر بلند ہے۔ اس بلندی کی بنا پر اس کو نجد کہتے ہیں۔ اس لشکر کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں مدینہ کو دشمن قبائل سے محفوظ رکھنا تھا۔ یہ قبائل ہمیشہ اس فکر میں رہتے تھے کہ کب مناسب موقع ملے اور مدینہ پر حملہ کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کے ساتھ مدینہ سے باہر جانا مدینہ پر حملہ کے لیےموزوں ترین موقع سمجھا جاتا تھا۔ دشمن یہ خیال کرتا تھا کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر ہیں اور لوگ بھی ان کے ساتھ ہیں۔ لشکر ساتھ ہے اور مدینہ میں بہت کم لوگ ہیں۔ اس لیےہم حملہ کر کے مدینہ کو فتح کر لیں۔ اس خدشہ کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی غزوہ پر جاتے تو ایسے قبائل کی طرف بھی کچھ صحابہؓ بھیج دیا کرتے تھے۔(ماخوذ از دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ جلد8 صفحہ 412 بزم اقبال لاہور)(فرہنگ سیرت صفحہ297زوار اکیڈمی کراچی)

اس سَرِیَّہکا ذکر صحیح بخاری میں اس طرح آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اَبَانؓ کو ایک سَرِیَّہپر مقرر کر کے مدینہ سے نجد کی طرف بھیجا۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں پھر اَبَان اور ان کے ساتھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خیبر میں آئے بعد اس کے کہ آپؐ نے اس کو فتح کر لیا تھا۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے تھے کہ یہ خیبر کی فتح کے بعد پہنچے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! انہیں اس میں حصہ نہ دیجیے خیبر کے مال غنیمت میں ان کا حصہ کوئی نہیں ہونا چاہیے۔جس پر ان دونوں کی باہم تکرار ہو گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اَبَان! بیٹھ جاؤ۔ اور آپؐ نے اس کو حصہ نہیں دیا کیونکہ براہ راست یہ خیبر کی جنگ میں شامل نہیں تھے۔ یہی وجہ ہو سکتی ہے۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر حدیث:4238، 4239)(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 6 صفحہ 128 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

پھر ایک غزوہ کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ جو بڑا مشہور ہے۔ یہ

غزوۂ خیبر

کہلاتا ہے۔ خیبر ایک وسیع سبزہ زار ہے جو چشموں اور بکثرت پانیوں سے شاداب ہے اور جزیرۂ عرب میں کھجوروں کے سب سے بڑے نخلستان میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی زرخیزی کا اندازہ اسی سے کیا جا سکتا ہے کہ خیبر کی صرف ایک وادی جو کَتِیْبَہ کے نام سے موسوم ہے اس میں چالیس ہزارکھجوروں کے درخت تھے۔ خیبر کی وادی مدینہ سے شمال کی جانب اندازا ًچھیانوے میل کی دوری پر تھی۔ یہاں یہود بہت قدیم سے آباد تھے۔ تاریخی روایت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے یہاں بنی اسرائیل کے یہود آباد تھے۔ بعض مؤرخین کے مطابق بُخْتَ نَصَّر کے زمانے میں یہود یہاں آباد ہوئے۔ کچھ اور روایات بھی ہیں جن سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ خیبر میں قدیم سے یہود آباد تھے اور بڑے بڑے قلعے بنا کر یہ لوگ یہاں آباد تھے۔ ان کے نزدیک اس جگہ کی بڑی اہمیت تھی اور اَب بھی کہتے ہیں کہ ہے۔ عبرانی زبان میں خیبر کے معنی بھی قلعہ کے ہیں۔ یہود کے کچھ قبائل مدینہ میں بھی آباد تھے لیکن خیبر کے یہود کو ایک بات ممتاز کرتی تھی کہ یہاں کے یہود باقی تمام یہود سے شجاعت اور جنگ میں استقلال دکھانے میں بڑھ کر تھے اور ان میں باہم اتحاد بھی دوسروں کی نسبت زیادہ تھا۔ جس کی وجہ سے یہ خطۂ عرب میں قوت و طاقت کی ایک اکائی سمجھی جانے والی قوم تھی۔(ماخوذ از سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد8صفحہ328تا 331 دار السلام)(طبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 81 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگ سیرت صفحہ 66 زوار اکیڈمی کراچی)

مدینہ کے یہود ہوں یا خیبر کے یہود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے متعلق ان کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں باغیانہ حد تک بڑھی ہوئی تھیں۔ بغض و عداوت میں بڑھتی ہی چلی جانے والی اس قوم نے اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کو بھی ختم کرنے میں اپنی تمام تر قوتوں کو بروئے کار لانے میں کوئی کمی نہیں کی جبکہ اس کے برعکس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے یہود کے ساتھ ہمیشہ نرمی کا برتاؤ کیا۔ ان کے ساتھ صلح کے معاہدے کیے اور جب کبھی بھی وہ معاہدے کو توڑ دیتے یا خلاف ورزی کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی کوشش درگزر اور عفو کی ہوتی تھی یہاں تک کہ ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی متعدد مرتبہ کوشش کی۔ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیرونی طاقتوں کو مدینہ پر حملہ کرنے میں تعاون کیا جس کے بدلے میں سزا کے طور پر ان تمام یہود کو سخت سے سخت سزا بھی دی جاتی تو وہ عدل و انصاف کے عین مطابق ہوتی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حد درجہ کا عفو اور رحمت کا یہ عالم تھا کہ پھر بھی ان کی جان و مال کو یوں امان دی اور مدینہ سے یوں جلا وطن کر دیا کہ جو کچھ ساتھ لے کر جا سکتے ہو لے جاؤ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد نعوذ باللہ جبر و اکراہ ہوتا تو مدینہ کے یہود کی بار بار عہد شکنی پر ان کو کبھی معاف نہ فرماتے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اگر خون بہانا ہوتا تو بنو قَیْنُقَاع اور بَنُو نَضِیر کو کبھی جان کی امان دے کر بحفاظت مدینہ سے نہ جانے دیتے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اگر مال و دولت کا حصول ہوتا تو بنو نضیر جو کہ جزیرۂ عرب میں سب سے بڑا سرمایہ دار گروہ خیال کیا جاتا تھا کبھی سونے چاندی کو مشکوں اور بڑے بڑے تھیلوں میں بھر کر اہالیانِ مدینہ کے سامنے ان کو دکھا دکھا کر نہ لے جاسکتا اور جو حسن و احسان اور عفو و درگزر کا سلوک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودِ مدینہ کے ساتھ کیا تھاہونا تو یہ چاہیےتھا کہ خیبر میں آباد ہوجانے کے بعد یہ لوگ اسلام اور بانی اسلام کے حق میں صلح جوئی اور امن و سلامتی کے ماحول میں رہتے۔ لیکن مدینہ سے جلاوطنی کے بعد مدینہ کے یہود کی ایک تعداد خیبر میں جا کر آباد ہو گئی تھی اور خیبر جو کہ پہلے ہی ایک بہت بڑی حربی طاقت تھی اب مسلمانوں کے خلاف خطرناک منصوبہ سازیوں کا مرکز بن گئی۔ یہ خیبر کے یہود ہی تھے کہ ایک بڑا وفد لے کر جس میں خیبر کے بڑے بڑے یہودی سردار تھے مشرکینِ مکہ کو ملنے مکہ پہنچے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک اور اسلام کو ختم کرنے کا ایک منصوبہ تیار کیا اور ان کو رضا مند کرنے کے بعد ارد گرد کے متفرق قبائل میں ان کا وفد گیا اور ایک ایک قبیلے کو تیار کر کے اور اس وقت کی تاریخ کا پندرہ ہزار کا ایک بہت بڑا لشکر تیار کرکے مدینہ پر چڑھائی کر دی جو تاریخ اسلام میں غزوۂ احزاب یا جنگ خندق کے نام سے مشہور ہے، اس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت نہ ہوتی تو مسلمانوں کے ساتھ شاید مدینہ کا بھی نام و نشان مٹ چکا ہوتا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس خطرناک منصوبے کے سرغنہ خیبر کے یہود ہی تھے جو اب ہر وقت مسلمانوں کو ختم کرنے میں مصروف تھے۔ مدینہ میں موجود بنو قُرَیْظَہ کو ان کی عہد شکنی کی پہلی مرتبہ سخت سزا بھی یہود خیبر کو اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کرنے کا باعث نہ بن سکی اس لیےاب بہت ضروری تھا کہ اس عہد شکنی اور سازشی کردار ادا کرنے والی قوم کے خلاف براہ راست کوئی قدم اٹھایا جائے تا کہ خطے کا امن بحال ہو سکے اور ہر کوئی اپنی اپنی جگہ امن و سکون سے بے خوف و خطر اپنے اپنے مذہب و مسلک پر اس طرح عمل پیرا ہو سکے کہ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ کہ دین صرف اللہ کے لیےہو جائے۔ دین میں کسی قسم کا کوئی جبر نہ ہو کیونکہ یہ اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ ہے۔

ایک مشہور مستشرق منٹگمری واٹ جو کہ اسلام اور بانی اسلام کے خلاف زہر اگلنے میں دریغ نہیں کرتا وہ بھی اپنی کتاب میں لکھتا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ خیبر پر حملہ کی سیدھی اور سادہ وجہ یہ تھی کہ انہوں نے یعنی خیبر کے لوگوں نے، اپنی دولت کا بےدریغ استعمال کر کے، اپنے ہمسایہ عربوں کو اکسایا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھائیں۔(Muhammad Prophet and Stateman by W.Montgomery Watt Pg:189)

تو یہ وہ خاص پس منظر تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائی اشاروں کے تابع یہ فیصلہ کیا کہ خیبر کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ علامہ ابن سعد نے لکھا ہے کہ غزوہ خیبر جُمَادَی الاولیٰ سات ہجری میں ہوا۔(طبقات الکبریٰ جلد 2صفحہ 81،دارالکتب العلمیۃ بیروت) جبکہ ابنِ عُقْبہ اور علامہ ابن اسحاق کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذُوالحِجَّہ میں حدیبیہ سے مدینہ واپس تشریف لائے تو آپ مدینہ میں تقریباً بیس راتیں رہے۔پھر خیبر کی طرف تشریف لے گئے اور یہ محرم کا مہینہ تھا۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 115،دارالکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی سیرت خاتم النبیینؐ میں بقیہ عناوین کے جو نوٹس لکھے ہیں ان میں آپؓ نے اس غزوۂ خیبر کو ماہ محرم اور صفر سات ہجری کا غزوہ قرار دیا ہے۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 837)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ سے واپس آنے کے قریباً پانچ ماہ بعد یہ فیصلہ کیا کہ یہودی خیبر سے جو مدینہ سے صرف چند منزل کے فاصلہ پر تھا اور جہاں سے مدینہ کے خلاف آسانی سے سازش کی جا سکتی تھی نکال دیے جائیں۔ چنانچہ آپؐ نے سولہ سو صحابہؓ کے ساتھ اگست 628ء میں خیبر کی طرف کوچ فرمایا۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن،انوار العلوم جلد 20صفحہ 325)

بعض مؤرخین صلح حدیبیہ سے پانچ ماہ بعد اس کی تاریخ بیان کرتے ہیں اور حضرت مصلح موعودؓ نے بھی دیباچہ تفسیر القرآن میں یہی بیان فرمایا ہے۔ البتہ مؤرخین و محدثین کی اکثریت صلح حدیبیہ کے تھوڑے ہی دنوں بعد محرم کے مہینے میں اس کو بیان کرتی ہے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اس کے بارے میں یہی لکھا ہے۔ واللہ اعلم۔

بنیادی طور پر صلح حدیبیہ ایک بہت بڑی فتح تھی
قرآن کریم نے اس کو ایک فتح عظیم سے تعبیر کیا ہے

جیسا کہ فرمایااِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا (الفتح: 2) یعنی یقیناً ہم نے تجھے کھلی کھلی فتح عطا کی ہےاور فتح مبین کا یہ وہ دروازہ تھا کہ جس سے گزرتے ہوئے خیبر اور مکہ جیسی عظیم الشان فتوحات نصیب ہوئیں۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے اسی وقت ہی فتح خیبر کاوعدہ فرما دیا تھا جب صلح حدیبیہ سے واپسی پر مکہ اور مدینہ کے درمیان سورت فتح نازل ہوئی۔ اس سورت میں فتح خیبر کی خوشخبری یوں عطا فرمائی کہ لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَاَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ۙ وَّمَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً یَّاۡخُذُوۡنَہَا ؕ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً تَاۡخُذُوۡنَہَا فَعَجَّلَ لَکُمۡ ہٰذِہٖ۔ (الفتح:19-21) اللہ مومنوں سے اس وقت بالکل خوش ہو گیا جبکہ وہ درخت کے نیچے تیری بیعت کر رہے تھے اور اس نے اس ایمان کو جو ان کے دلوں میں تھا خوب جان لیا۔ سو اس کے نتیجہ میں اس نے ان کے دلوں پر سکینت نازل کی اور ان کو ایک قریب میں آنے والی فتح بخشی یعنی فتح خیبر اور بہت سے غنیمت کے مال بھی بخشے۔ خیبر کے اموال بھی ان کو ملے۔ جن کو وہ قبضہ میں لا رہے تھے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔اللہ نے تم سےبہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جو تم اپنے قبضہ میں لاؤ گے اور یہ موجودہ مالِ غنیمت تم کو ان وعدوں میں سے جلدی عطا کر دیا ہے۔

لشکر کی تیاری اور مدینہ پر نائب مقرر کرنے کی تفصیل

یوں بیان ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی طرف جانے کے لیےجب منادی کروائی تو یہ اعلان کروایا کہ صرف وہی ساتھ چلیں گے جو صلح حدیبیہ میں شریک تھے۔ایک روایت کے مطابق

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مالِ غنیمت کی غرض سے نکل رہے ہیں وہ میرے ساتھ نہ نکلیں۔ صرف وہ لوگ میرے ساتھ روانہ ہوں جو صرف جہاد میں رغبت رکھتے ہیں۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 115،دارالکتب العلمیۃ بیروت)(طبقات الکبریٰ جلد2صفحہ81،دارالکتب العلمیۃ بیروت)

ابن ہشام کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت نُمَیْلَہ بن عبداللہ لَیْثِی کو مدینہ پر اپنا نائب مقرر فرمایا جبکہ امام بخاری کے مطابق آپؐ نے حضرت سِبَاع بِن عُرْفُطَہ کو نائب مقرر فرمایا۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 115،دارالکتب العلمیۃ بیروت)(التاریخ الصغیر لامام بخاری صفحہ43 مکتبۃ المعارف1986 ء)

علامہ ابن اسحاق اور ابن سعد نے بیان کیا ہے کہ

سب سے پہلی مرتبہ غزوۂ خیبر میں پرچم کا ذکر ملتا ہے

اس سے پہلے صرف چھوٹے جھنڈے ہوتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ، حضرت حُبَاب بن مُنذِرؓ اور حضرت سعد بن عُبَادہؓ کو پرچم عطا فرمائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم سیاہ رنگ کا تھا جو حضرت عائشہؓ کی چادر سے بنایا گیا تھا۔ اس کا نام عُقَاب تھا اور یہی پرچم حضرت حُبَاب بن مُنذِرؓ کے پاس تھا۔(السیرۃ الحلبیۃ جلد3 صفحہ 52 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(شرح زرقانی جلد3 صفحہ255 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

روایت میں حضرت علیؓ کو بھی ایک جھنڈا دیے جانے کا ذکر ملتا ہے لیکن وہ جھنڈا خیبر میں دیا گیا تھا کیونکہ حضرت علیؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ نہیں ہو سکے تھے کیونکہ انہیں آشوب چشم کی تکلیف تھی۔ آنکھوں کی بیماری تھی ۔کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا ان کو۔ البتہ بعد میں بے چین ہو کر یہ روانہ ہو گئے اور خیبر پہنچ گئے۔ صبر نہیں ہوا ان سے۔ اس سفر میں ام المومنین حضرت ام سَلَمَہؓ  آپ کے ہمراہ تھیں۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 115،دارالکتب العلمیۃ بیروت)(دائرہ معارف سیرت النبیؐ جلد 8 صفحہ 391 بزم اقبال لاہور)(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 8 صفحہ 365 دار السلام)

ایک روایت کے مطابق چھ سات صحابیاتؓ بھی اس مہم میں ساتھ ہو لیں اور ایک روایت کے مطابق بیس صحابیاتؓ اس غزوہ میں شامل ہوئیں۔

حضرت ام سِنَان اَسْلَمِیَّہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غزوۂ خیبر کا ارادہ فرمایا تو میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اجازت دیں تو میں بھی ساتھ چلوں۔ میں مشکیزوں کی سلائی کروں گی۔ لشکر کے سامان کی حفاظت کروں گی۔ کوئی بیمار ہوا یا زخمی ہوا تو اس کا علاج کروں گی تو کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی اور اسی طرح بَنُو غِفَار کی کچھ عورتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہؐ!  ہم بھی جنگ میں شرکت کرنا چاہتی ہیں۔ ہم زخمیوں کی دیکھ بھال کریں گی اور مجاہدین کی مدد کریں گی جس قدر ہمیں استطاعت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی اجازت دی اور ان کے لیےبرکت کی دعا کی۔(دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ﷺ،جلد 8صفحہ371 بزم اقبال لاہور)(سنن ابو داؤدکتاب الجہادباب فی المرأۃ والعبد یحذیان من الغنیمۃ حدیث2729)(امتاع الاسماء جلد1 صفحہ321 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی تیاری کا علم مدینہ کے یہود کو ہوا تو ان پر یہ امر بہت گراں گزرا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اگر آپؐ خیبر میں داخل ہو گئے تو خیبر ہلاک ہو جائے گا جیسا کہ بَنُو قَیْنُقَاع اور بنونضیر اور بنو قُریظہ ہلاک ہوئے تھے۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 115،دارالکتب العلمیۃ بیروت)

مدینہ کے یہود صاحبِ ثروت تھے اور مدینہ کے مسلمان مالی کمزوری کی وجہ سے ان سے قرض لیا کرتے تھے۔ اب اس وقت خیبر کے یہود کے مفاد کی خاطرمدینہ کے یہود نے مسلمانوں کو تنگ کرنے اور جنگ سے روکنے کے لیےفوری طور پر اپنے قرض کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔(فتح خیبر،ازباشمیل صفحہ67 نفیس اکیڈمی کراچی)

ایک صحابیؓ کا واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ابنِ اَبِی حَدْرَدؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوشَحْم یہودی کے پانچ درہم اور ایک روایت میں ہے کہ چار درہم دینے تھے۔ یہودی نے ابن ابی حدرد سے مطالبہ کیا ابن ابی حدرد نے اس سے کہا کہ مجھے مہلت دے دو۔ میں خیبر سے واپس آ کر ان شاء اللہ تمہارا حق ادا کر دوں گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرمایا ہے کہ خیبر انہیں غنیمت میں عطا کرے گا۔ ابو شَحْم یہودی نے بطور حسد و عناد کہا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ خیبر والوں سے لڑنا ایسا ہی ہے جیسا کہ عام بدوؤں سے لڑنا ہے۔ تَوْرَات کی قسم! وہاں دس ہزار جنگجو ہیں۔ ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا معاملہ پیش کیا۔ اس وقت جنگی ہنگامی حالات تھے۔ یہ یہودی تعصّب کی حد تک یہود خیبر کی تائید اور ہمدردی کا اظہار کر رہا تھا اور مسلمان فوجی کا مذاق بھی اڑا رہا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ریاست کے سربراہ تھے۔ اس یہودی کو کوئی سزا بھی مل سکتی تھی لیکن کمال ضبط اور حوصلے اور عدل و انصاف اور رواداری کا یہ اسوہ دیکھنے کو ملا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس یہودی کا حق ادا کر دو۔ ابن ابی حَدْرَد نے کہا قَسم ہے اس ذات کی جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے کہ میں اس وقت اس کا حق ادا کرنے پر قادر نہیں ہوں۔ آپؐ نے فرمایا جیسے بھی ہو اس کا حق دے دو۔ ابن ابی حدرد بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے سر کا عمامہ اتار کر بطور تہ بند باندھا اور تہ بند کی چادرکو بازار میں فروخت کر کے اس کا حق ادا کر دیا اور میں نے دوسرا کپڑا پہن لیا۔ یہ دوسرا کپڑا ایک چادر تھی جو سَلَمَہ بن اسلم یا ایک روایت کے مطابق بوڑھی صحابیہ نے ان کو دیا تھا۔ جب اس کو اس سارے واقعہ کی تفصیل کا علم ہوا تو اس نے تحفہ دے دیا۔

اللہ تعالیٰ کی تقدیر کہ خیبر میں اس صحابی کو مال غنیمت ملا اور اس میں ایک عورت بھی ملی جو اسی اَبُوشَحْم یہودی کی رشتہ دار تھی اور پھر اس نے وہ عورت اسی یہودی کے پاس فروخت کر دی۔(دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ﷺ، جلد8صفحہ373-374 بزم اقبال لاہور)(فتح خیبر،ازباشمیل صفحہ68 نفیس اکیڈمی کراچی)

خیبر کی طرف پیش قدمی

کی خبروں پر مدینہ کے یہود نے مسلمانوں سے صرف بغض و عناد اور تعصب کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ اشجع قبیلے کا ایک بدو کرائے پر حاصل کر کے فوری طور پر خیبر کی طرف مسلمانوں کی جنگی تیاریوں اور ضروری معلومات دے کر بھیجا اور ساتھ یہ پیغام دیا کہ مسلمانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ ویسے بھی مسلمانوں کے مخالفین کو کسی جاسوس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مدینہ میں موجود منافقین یہ کام بڑی تیزی سے کرتے تھے۔ چنانچہ

اس موقع پر بھی رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول خاموش نہیں رہا بلکہ اپنے ایک مددگار کے ذریعہ ایک خط فوری طور پر خیبر کے یہود کی طرف بھیجا۔

خط کا مضمون یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری طرف آنے والے ہیں۔ اپنے بچاؤ کی تدابیر کر لو اور اپنے اموال کو اپنے قلعوں میں داخل کر لو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیےمیدان میں آ جاؤ اور ان سے بالکل خوفزدہ نہ ہو۔ تمہاری تعداد بہت ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی قوم بہت تھوڑی ہے اور ان کے پاس صرف تھوڑے سے ہتھیار ہیں۔(سیرت الحلبیہ بحوالہ فتح خیبرازباشمیل صفحہ72،69 نفیس اکیڈمی کراچی)

اس بارے میں جب ان یہودیوں کو پتہ لگا تو ان کے راہنماؤں کی میٹنگ ہوئی اور اس میٹنگ میں اختلاف کا ذکر ملتا ہے۔ ذکر یوں ہے کہ خیبر کے یہود کو جب مسلمانوں کے لشکر کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے ایک میٹنگ کی جس میں اسلامی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیےمشاورت ہوئی۔ اس بحث میں یہود کے راہنماؤں کی طرف سے مختلف قسم کی تجاویز پیش ہوئیں۔ ایک گروہ کی رائے تھی کہ یہودی قلعہ بند ہو کر فصیلوں کے پیچھے سے جنگ کریں جس کی وجہ سے مسلمان آخر تنگ آ کر محاصرہ چھوڑ دیں گے جبکہ خیبر کے مشہور بہادر مَرْحَب کے بھائی ابوزینب نے تجویز دی کہ قلعہ بند ہو کر مقابلہ کرنے کی بجائے باہر میدان میں نکل کر مقابلہ کیا جائے کیونکہ اس سے پہلے مدینہ کے یہود قلعہ بند ہو کر مقابلوں کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں اور اس میں مسلمانوں کو ہی فتح ہوئی ہے لیکن پہلے گروہ نے اس کی اس تجویز کو یہ کہہ کر ردّ کر دیا کہ ہمارے قلعے ان کے قلعوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ ایک تیسری تجویز اس سے بھی زیادہ متکبرانہ تھی جو یہود کی نسبت سے بہت جرأت مندانہ تھی اور وہ خیبر کی فوجوں کے سپہ سالار سَلَّام بن مِشْکَم کی طرف سے تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم خود مدینہ پر حملہ کر دیں اور اپنے سارے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا خاتمہ کر دیں۔ اکثریت نے اس رائے سے اتفاق کیا لیکن خیبر کے رئیس اعظم کِنَانَہ بن اَبِی الْحُقَیْق نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ ہمارے قلعے یثرب کے قلعوں کی طرح نہیں ہیں اور فخر و غرور کا یہ عالم تھا کہ کہنے لگا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کبھی بھی ہماری طرف آنے کی جرأت نہیں کریں گے۔ البتہ

سب راہنماؤں کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ ایک وفد تیار کر کے ارد گرد کے جنگجو بہادر قبائل کی طرف بھیجا جائے تا کہ ان سے فوجی مدد کی درخواست کی جائے

چنانچہ چودہ افراد پر مشتمل ایک وفد تیار ہوا جس کی قیادت بعض روایات کے مطابق خیبر کا رئیس اعظم کِنَانہ خود کر رہا تھا۔ یہ وفد قبیلہ بنو اَسَد، غطفان اور دیگر قبائل کی طرف گیا اور خیبر کی ایک سال کی پیداوار کا نصف دینے کی پیشکش پر فوجی امداد کی درخواست کی۔ قبیلہ بَنُو مُرَّہ نے تو دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے اس طرح کی مدد کرنے سے انکار کردیا۔ البتہ بنو اسد اور بنو غطفان جیسے جنگجو قبائل نے ایک ہزار مسلح فوجیوں پر مشتمل لشکر تو فوری روانہ کر دیا اور چار ہزار کے لشکر کی مزید امداد کا وعدہ کرتے ہوئے اس کی تیاری بھی شروع کر دی۔(فتح خیبرازباشمیل صفحہ75-77 نفیس اکیڈمی کراچی)

بہرحال اس کی مزید تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بیان کر دوں گا۔ اس وقت میں

کچھ مرحومین کا ذکر

کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا ذکر

مکرم محمد اشرف صاحب ابن مکرم محمد بخش صاحب منڈی بہاؤالدین

کا ہے جو گذشتہ دنوں بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کے تین بیٹیاں اور چھ بیٹے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے کاشف جاوید صاحب آجکل سینیگال میں ہیں اور قائمقام مشنری انچارج ہیں امیر جماعت بھی ہیں اور اس وجہ سے اپنے والد کے جنازے پہ سینیگال سے شامل بھی نہیں ہو سکے۔

ان کے یہی بیٹے جو مربی ہیں لکھتے ہیں کہ خاکسارکے والد انتہائی سادہ لوح، نیک طبع، خداترس وجود تھے۔ احمدیت اور خلافت سے انتہائی محبت کرنے والے تھے۔ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے اور اکثر یہی کہا کرتے تھے کہ ہم نے جو کچھ پایا وہ احمدیت کی وجہ سے پایا۔ اپنی اولاد کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے کہ ہمیشہ احمدیت اور خلافت سے تعلق جوڑے رکھنا۔ کہتے ہیں کہ ان کے دادا محمد اعظم صاحب نے 1968ء کے قریب سرگودھا میں ایک گاؤں ہے بھابڑا وہاں سے بیعت کی تھی اور اس وقت کہتے ہیں میرے والد بھی احمدی ہو گئے تھے۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ پھر والدہ کی طرف سے اکلوتے بھائی تھے جو احمدی ہوئے۔ میٹرک کے بعد وہاں سے گاؤں چھوڑ کے منڈی بہاؤالدین میں شاہ تاج شوگر مل میں ملازمت اختیارکی اور آخر تک وہیں منڈی بہاؤالدین میں رہے۔ بڑی عمر میں شوق سے قرآن کریم سیکھا۔ پھر اس قدر محنت اور محبت سے پڑھا کہ ہر ماہ ایک دو دور لازم مکمل کر لیتے تھے۔ رمضان میں دو تین دفعہ ختم کرتے تھے۔ غرباء کی خاص طور پر مدد کرتے تھے جو بھی ان کے پاس آتا اس کو کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹاتے اور مربی صاحب کہتے ہیں کہ مجھے بھی کہا کرتے تھے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ ہم پر فضل فرما رہا ہے یہ تمہارے وقف کی برکت کی وجہ سے ہے۔

ایک بیٹے مبشر جاوید صاحب کہتے ہیں کہ میں گذشتہ کئی سال سے سیکرٹری مال ہوں اور ہمیشہ والد صاحب چندوں کی ادائیگی میں باقاعدہ تھے اور جب بھی پنشن ملتی تھی کوشش یہ ہوتی تھی کہ سارا سال کا چندہ ادا کر دیں اور وفات کے وقت بھی ان کو یہی فکر تھی کہ میرے چندے ادا ہو گئے ہیں کہ نہیں اور اس پر ان کو وفات کے وقت بڑی شکرگزاری تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میرے تمام چندے ادا کرنے کی مجھے توفیق دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ سب کو صبر و سکون عطا فرمائے۔

دوسرا ذکر ہے

حبیب محمد شاتری صاحب نائب امیر دوم کینیا

جو محمد حبیب شاتری صاحب کے بیٹے تھے۔ یہ عرب نژاد تھے۔ ان کی گذشتہ دنوں چھپن سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں والدین کے علاوہ اہلیہ اور تین بچے شامل ہیں۔

کینیا کے امیر جماعت ناصر محمود طاہر صاحب کہتے ہیں کہ ان کے آباءواجداد کا تعلق یمن سے تھا اور ان کے والد حبیب شاتری صاحب نے اگست 1982ء میں بیعت کی اور بڑے مخلص احمدی تھے اوریہ مرحوم ان کے بڑے بیٹے تھے۔ والد کی بیعت کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے بھی بیعت کر لی اور بیعت کا عہد تا وقت وفات خوب نبھایا۔ بنیادی تعلیم ممباسہ سے حاصل کی۔ نہایت قابل اور لائق طالبعلم تھے۔ سکول کی طرف سے کچھ عرصہ کے لیےان کو فرانس بھی تعلیم کے لیےبھجوایا گیا۔ ہمیشہ خلفاء سے ملاقات کے واقعات کو اپنی زندگی کے بہترین واقعات بیان کیا کرتے تھے۔ خلیفہ رابع ؒسے بھی ملے تھے، مجھ سے بھی ملے تھے۔ مختلف رنگ میں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ وفات کے وقت بھی نیشنل سیکرٹری تعلیم اور نائب امیر دوم کینیا کی خدمت بجا لا رہے تھے۔

کہتے ہیں کہ میں ان کو بیس سال سے جانتا ہوں۔ واقفین کا بہت احترام کرنے والے اور پھر جو کام بھی ان کے ذمہ لگایا جاتا اس کو نہایت سنجیدگی سے کرتے۔ کبھی یاددہانی کروانے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔ نمازوں کے پابند، شعائر اللہ اور حدود اللہ کا باریکی سے خیال رکھنے والے، چندہ جات میں باقاعدہ، عمدہ اخلاق کے مالک، غریبوں کی خبرگیری کرنے والے، والدین کی اطاعت اور حقوق ادا کرنے والے، چھوٹے بہن بھائیوں کا بھی حق ادا کرنے والے، صائب الرائے، نیک مخلص اور باوفا انسان تھے۔ بڑی بڑی کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مالی کشائش بھی دی ہوئی تھی۔ دنیاوی لحاظ سے اچھے کاروباری سیاسی اور سرکاری اور مذہبی لوگوں سے واسطہ رہتا تھا مگر کبھی اپنی احمدیت کو نہیں چھپایا بلکہ اظہار کر کے تبلیغ بھی کر دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے جنازے پر کثرت سے ممباسہ کی اعلیٰ سرکاری، کاروباری، سیاسی اور سماجی شخصیات شامل ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے سب لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔

تیسرا ذکر ہے

مکرم انوبی مدنگو (Anubi Madengu) صاحب

یہ زمبابوے کی ایک جماعت کے صدر جماعت تھے۔ ان کی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے بیٹے یوسف انوبی صاحب زمبابوے کے صدر جماعت ہیں وہ لکھتے ہیں کہ یہ آغاز میں پہلے سنّی مسلمان تھے اور شروع میں جماعت کی مخالفت کیا کرتے تھے لیکن اسلام کی محبت ان کے دل میں تھی۔ پہلے یہ ملاوی میں تھے۔ وہاں جب رہتے تھے تو کافی مخالفت تھی۔ پھر زمبابوے شفٹ ہوگئے تو یہاں آ کے اسلام کی محبت کی وجہ سے انہوں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور جس علاقے میں تھے وہاں باجماعت نماز کا انتظام کیا اور دل میں ان کی ایک تڑپ تھی کہ میں حقیقی مسلمان بنوں۔ بہرحال بعد میں پھر جماعت سے ان کا رابطہ ہوا۔ ہمارے مربی سمیع اللہ صاحب ہیں ان سے تفصیلی بحث و مباحثہ ہو تا رہا اور پھر آخر انہوں نے احمدیت قبول کر لی اور اپنے علاقے میں پہلے احمدی تھے۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد ان کی مخالفت بھی ہوئی اور جن لوگوں کو انہوں نےاکٹھا کیا تھا ان لوگوں نے بھی ان کو چھوڑ دیا۔ انہوں نے ان سےسختیاں بھی کیں تو پھر انہوں نے اپنا وہ سینٹر جو لوگوں کو اکٹھا کرنے کا، نماز باجماعت کا بنایا تھا وہ بھی چھوڑ دیا اور اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے گھر میں ہی نمازیں اور جمعہ ادا کرنا شروع کر دیا۔ بہرحال انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ تبلیغ کرتے رہے اور بہت سے لوگوں نے ان کا پیغام سنا۔ جماعت کا پیغام سنا اور ان کے ذریعہ سے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ بااثر شخصیت تھے۔ بہت سے لوگ آپ کو دیکھ کر جماعت میں شامل ہوئے۔ خود مالی قربانی کر کے انہوں نے زمین بھی خریدی جس پر آجکل جماعت احمدیہ زمبابوے کی پہلی مسجد تعمیر ہو رہی ہے۔ ان کی خواہش یہی تھی کہ میری زندگی میں بن جائے لیکن بہرحال اس وقت نہیں بن سکی۔ اب تعمیر ہو رہی ہے۔ بہت وفادار، صاف گو، دیانتدار انسان تھے۔ لوگوں کے درمیان مسائل کو بڑی حکمت سے دور کرتے۔ صدر جماعت منتخب ہونے سے قبل بھی اکثر لوگ آپ پر اعتماد اور بھروسہ کرتے تھے۔ یہ بھی ذاتی وسائل سے ضرورتمندوں کی مدد کرتے۔ گھر ہمیشہ مہمانوں سے بھرا رہتا۔ جماعت کے ساتھ گہرا عقیدت کا تعلق تھا۔ ہر کسی کو جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ ان کے پسماندگان میں آٹھ بچے ہیں اور آپ کے بیٹے جیسا کہ میں نے بتایا صدر جماعت زمبابوے ہیں اور ایک ان کا پوتا قاسم انوبی زمبابوے میں پہلے مرکزی مبلغ ہیں۔ جامعہ سے پڑھے ہیں۔

اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی نسلوں میں جماعت کی تعلیم ہمیشہ جاری رہے اور یہ لوگ نیکیاں کرتے رہیں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 31؍ جنوری 2025ء شہ سرخیاں

    غزوۂ خیبر کے موقع پر روانگی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مالِ غنیمت کی غرض سے نکل رہے ہیں وہ میرے ساتھ نہ نکلیں۔ صرف وہ لوگ میرے ساتھ روانہ ہوں جو صرف جہاد میں رغبت رکھتے ہیں

    غزوۂ ذِی قَرَدْ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے بہترین گھڑ سوار ابو قتادہؓ اور بہترین پیادہ سَلَمَہ بِنْ اَكْوَع ہیں

    نبی کریمﷺ نے فرمایا: کوئی نذر خدا کی نافرمانی میں پوری نہ کی جائے اور نہ ہی اُس میں نذر جائز ہے جس کا بندہ مالک نہیں

    غزوۂ ذِی قَرَدْ، سَرِیَّہحضرت اَبَان بن سعیدؓ بطرف نجد اور غزوۂ خیبر کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان

    مکرم محمد اشرف صاحب آف منڈی بہاؤالدین، مکرم حبیب محمد شاتری صاحب نائب امیر دوم کینیا اور
    مکرم انوبی مدینگو صاحب آف زمبابوے کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

    فرمودہ 31؍ جنوری 2025ء بمطابق31؍ صلح 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور