نہ وہ تم بدلے نہ ہم، طَور ہمارے ہیں وہی
فاصلے بڑھ گئے، پر قُرب تو سارے ہیں وہی
آکے دیکھو تو سہی بَزمِ جہاں میں، کل تک
جو تمہارے ہُوا کرتے تھے، تمہارے ہیں وہی
جُھٹپٹوں میں اُنہی یادوں سے وہی کھیلیں گے کھیل
وہی گلیاں ہیں، وہی صحن، چَوبارے ہیں وہی
وہی جلسے، وہی رونق، وہی بَزم آرائی
ایک تم ہی نہیں، مہمان تو سارے ہیں وہی
شامِ غم، دِل پر شَفَق رَنگ، دُ کھی زخموں کے
تم نے جو پُھول کِھلائے مجھے پیارے ہیں وہی
صحنِ گُلشن میں وہی پُھول کِھلا کرتے ہیں
چاند راتیں ہیں وہی، چاند سِتارے ہیں وہی
وہی جَھرنوں کے مَدُھر گیت ہیں مدہوش شَجَر
نیلگوں رُود کے گُل پوش کِنارے ہیں وہی
مَے برستی ہے ۔ بُلا بھیجو ۔ کہاں ہے ساقی
بَھری برسات میں موسم کے اِشارے ہیں وہی
بے بسی ہائے تماشا کہ تِری موت سے سب
رَنجشیں مٹ گئیں ، پر رَنج کے مارے ہیں وہی
تم وہی ہو تو کرہ کُچھ تو مُداوا غم کا
جِن کے تم چارہ تھے وہ دَرد تو سارے ہیں وہی
میرے آنگن سے قضا لے گئی چُن چُن کے جو پُھول
جو خدا کو ہوئے پیارے، مرے پیارے ہیں وہی
تم نے جاتے ہوئے پلکوں پہ سَجا رکھے تھے
جو گُہر، اب بھی مِری آنکھوں کے تارے ہیں وہی
مُنتظِر کوئی نہیں ہے لبِ ساحِل ورنہ
وہی طُوفاں ہیں، وہی ناؤ، کِنارے ہیں وہی
یہ تِرے کام ہیں مَولا، مجھے دے صبروثَبات
ہے وہی راہ کٹھن، بوجھ بھی بھارے ہیں وہی
(جلسہ سالانہ یوکے ۔ ١٩٩٢ء)