رہبر کے لیے دوستو رستے کو سجا دو
اور دیدہ و دل فرشِ سرِراہ بچھا دو
اس رہ میں انا کی سبھی دیواریں گرا دو
ہے اس میں فضیلت سرِتسلیم جھکا دو
ہے جائے ادب دوستو دربارِ خلافت
پہنائی خدا نے جسے دستارِ خلافت
بُجھنے کو ابھی شمّع ِہدایت تھی سرِبام
ایک اُٹھّا پہلوان خدا کا وہ لیے نام
تکمیلِ اشاعت کا جسے سونپا گیا کام
لایا وہ ثّریا سے اور ایمان کیا عام
جو کام نبوّت کا وہی کارِ خلافت
پہنائی خدا نے جسے دستارِ خلافت
مامور جسے کرتا ہے، دیتا ہے سکینت
غیّور خدا رکھتا ہے پھر اُس کے لیے غیرت
جب بوجھ اُٹھانے کی بشر پائے نہ طاقت
سر گودمیں رکھتاہے بندھاتا ہے وہ ہمّت
دنیا میں وُہی واقف ِ اسرارِ خلافت
پہنائی خدا نے جسے دستارِ خلافت
خوف امن میں ہر بار بدلتے ہوئے دیکھا
طوفانوں سے کشتی کو نکلتے ہوئے دیکھا
رُخ سب نے ہوائوں کا بدلتے ہوئے دیکھا
ظلمت کو اِسی نور سے چھٹتے ہوئے دیکھا
اُس ذات سے وابستہ ہیں انوارِ خلافت
پہنائی خدا نے جسے دستارِ خلافت
جس شخص کے ہر کام میں تائیدخدا کی
ہر حال میں اُس نے بھی ہے مولا سے وفا کی
بات اُس کی عبادت کی ہو، یا اُس کی دُعا کی
یا اُس کے تبسّم کی ہو، یا اُس کی حیا کی
اک ایک ادا اُس کی ہے شہکارِ خلافت
پہنائی خدا نے جسے دستارِ خلافت
یوں خدمتِ ملّت بہ دل و جان کرے ہے
ہر لمحہ وہ اس قوم پہ احسان کرے ہے
کام اتنا کوئی دنیا میں انسان کرے ہے؟
ہاں مولا ہے جو کام سب آسان کرے ہے
جز اُس کے اٹھائے گا کوئی بارِ خلافت؟
پہنائی خدا نے جسے دستارِ خلافت
فاروق محمود (لندن)