دورۂ آئرلینڈ
خطبہ جمعہ 3؍ اکتوبر 2014ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اسلامی تعلیم کے رُو سے دینِ اسلام کے حصے صرف دو ہیں۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ تعلیم دو بڑے مقاصد پر مشتمل ہے۔ اوّل ایک خدا کو جاننا جیسا کہ وہ فی الواقعہ موجود ہے۔ اور اس سے محبت کرنا اور اس کی سچی اطاعت میں اپنے وجود کو لگانا جیسا کہ شرط اطاعت و محبت ہے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی میں اپنے تمام قویٰ کو خرچ کرنا اور بادشاہ سے لے کر ادنیٰ انسان تک جو احسان کرنے والا ہو شکر گزاری اور احسان کے ساتھ معاوضہ کرنا۔‘‘ (تحفۂ قیصریہ روحانی خزائن جلد12 صفحہ281)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اسلام نے اپنی تعلیم کے دو حصے کئے ہیں۔ اوّل حقوق اللہ۔ دوم حقوق العباد۔ حقّ اللہ یہ ہے کہ اس کو واجب الاطاعت سمجھے۔ اور حقوق العباد یہ ہے کہ خدا کی مخلوق سے ہمدردی کریں۔ یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفت مذہب کی وجہ سے کسی کو دکھ دیں۔‘‘ (لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلد20 صفحہ281)
اس طرح کے بہت سے ارشادات اور تحریرات ہمیں ہمارے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب اور ملفوظات میں دئیے ہیں اور یہی حقوق اللہ اور حقوق العباد قائم کرنے کی تعلیم ہے جس کی دنیا کو آج ضرورت ہے اور یہی تعلیم ہے جسے ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں تو دنیا حیران رہ جاتی ہے اور جب اسلامی تعلیم کی مزید تفصیل پیش کی جاتی ہے، مزید جزئیات میں جا کر بیان کیا جاتا ہے تو سننے والوں کی حیرانی اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ عام طور پر غیر مسلم دنیا نے تو مخالفین اسلام کی طرف سے اسلام کے بارے میں یہی باتیں سنی ہیں کہ اسلام شدت پسندی اور حقوق غصب کرنے کا مذہب ہے اور وہ اپنی دلیل کو مسلمان گروہوں کے عملی نمونے پیش کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں جو بدقسمتی سے بعض مسلمان گروہ اور افراد دکھا رہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جب اسلامی تعلیم کی حقیقت قرآن کریم سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے اور خلفائے راشدین اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے نمونے کے حوالے سے پیش کی جائے تو ان پر حقیقت کھلتی ہے۔ اور جب یہ بتایا جائے کہ اس تعلیم کے لاگو کرنے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے اور جماعت احمدیہ اس کا پرچار بھی کرتی ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے تو دنیا کی توجہ جماعت کی طرف پیدا ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ مخالف سے مخالف کے سامنے بھی جب احسن رنگ میں، اچھے رنگ میں یہ تعلیم پیش کی جائے اور عملی نمونے سے اس کے اظہار کی کوشش بھی کی جائے تو ایک غیر معمولی اثر لوگوں پر پڑتا ہے۔
بہر حال اس وقت میں اس تعلیم کی تفصیل میں جانے کی بجائے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ دنوں جماعت احمدیہ آئر لینڈ کی پہلی باقاعدہ مسجد کا افتتاح تھا۔ آپ سب نے میرا خطبہ بھی وہاں سے سنا ہو گا اور پھر شام کو مہمانوں کے ساتھ، غیروں کے ساتھ ریسیپشن کا جو پروگرام تھا وہ بھی لائیو نشر کیا گیا تھا وہ بھی سنا ہو گا۔ اس میں مَیں نے اس اسلامی تعلیم کے حوالے سے کچھ باتیں کی تھیں اور عموماً غیروں کے سامنے میں اسی حوالے سے بات کیا کرتا ہوں جس کا غیروں پر غیر معمولی اثر بھی ہوتا ہے۔ وہاں گالوےؔ آئرلینڈ میں بھی جو ہمارے مہمان آئے ہوئے تھے ان پر بھی اثر ہوا۔ اس کے علاوہ پریس انٹرویوز اور سیاستدانوں اور پڑھے لکھے طبقے کے ساتھ بھی اسلام کی تعلیم کے حوالے سے باتیں ہوئیں۔ ان پر بھی اثر ہوا جس کا اظہار ہر ایک نے کیا۔ آئرش لوگوں کی یہ خوبی ہے کہ مثبت یا منفی اظہار کھل کر کر دیتے ہیں۔ یا بات اگر پسندنہیں آئی تو پھر خاموش رہتے ہیں، بلا وجہ کی تعریف نہیں کرتے۔
آج میں اس دورہ کے حوالے سے کچھ باتیں، کچھ تأثرات ان لوگوں کے بیان کروں گا جس کو دیکھ کر، سن کر، پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور توفیق ملتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کا تعارف اور اسلام کی حقیقی تعلیم پھیلانے کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔
جب مَیں وہاں آئرلینڈ میں پہنچا ہوں تو اگلے دن جماعت نے پارلیمنٹ ہاؤس میں سپیکر اور بعض پارلیمنٹیرین کے ساتھ ملاقات کا ایک پروگرام رکھا ہوا تھا جو بڑے اچھے ماحول میں ہوا۔ آئرلینڈ کی نیشنل پارلیمنٹ کے سپیکر سے ملاقات ہوئی۔ بڑے ملنسار اور کھلے دل کے اور انسانی ہمدردی رکھنے والے انسان ہیں۔ انصاف پسند شخصیت ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میراجماعت سے تعارف ہے اور آپ کی جماعت کے کاموں کو مَیں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ اگرچہ یہ جماعت یہاں چھوٹی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی فعّال ہے۔ اپنے حوالے سے انہوں نے افریقہ کی بعض مشکلات اور مسائل کا بتایا کہ مَیں روانڈا میں گیا تھا تو وہاں بھی میں نے دیکھا ہے۔ بہر حال ان سے باتیں ہوئیں اور جماعت افریقن ممالک میں جو خدمت کر رہی ہے اس کے بارے میں ان کو مَیں نے بتایا کہ کس طرح ہم ہسپتال، سکول چلا رہے ہیں۔ غریب لوگوں کو پینے کا پانی مہیا کر رہے ہیں اور دوسرے رفاہی کام جو ہیں وہ کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ بغیر کسی تفریق مذہب و ملّت کے ہو رہا ہے۔ جس چیز نے ان کو حیران کیا وہ یہ تھی کہ مَیں نے ان کو جب بتایا کہ ہمارے سکولوں میں مذہبی تعلیم بھی دی جاتی ہے لیکن اس میں آزادی ہے کوئی زبردستی نہیں۔ ہر مذہب کے طلباء اپنے اپنے مذہب کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ بائبل نالج بھی پڑھائی جاتی ہے۔ یہ سن کر سپیکر صاحب نے بڑی حیرانی کا اظہار کیا کیونکہ عیسائی مشن کے جو سکول ہیں وہ زبردستی صرف عیسائیت کی تعلیم دیتے ہیں اور بائبل نالج پڑھاتے ہیں۔ مسلمانوں کو بھی زبردستی پڑھنی پڑتی ہے۔ تو یہ سن کر کہ اس طرح کی آزادی ہماری طرف سے ہے ان کے لئے یہ بڑی حیرت کی بات تھی۔ پھر خود ہی دہشتگردی کے حوالے سے یہ بھی کہنے لگے کہ بعض جگہ عیسائیوں کی طرف سے بھی ظلم ہوتا ہے لیکن عیسائیت کو کوئی الزام نہیں دیتا۔ اس پر مَیں نے کہا یہی فرق ہے کہ مسلمانوں سے دنیا میں تعصب کا اظہار ہو رہا ہے کہ عیسائیت کی طرف سے اگر کوئی غلطی ہو تو عیسائیت کو بدنام نہیں کیا جاتا لیکن ایک مسلمان اگر کوئی غلطی کرتا ہے یا ظلم کرتا ہے تو اسلامی تعلیم کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہرحال خود ہی یہ ان کا خیال تھا۔ اس لئے انہوں نے بڑی ہاں میں ہاں ملائی۔ اسی طرح پھر بیس کے قریب پارلیمنٹیرین کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی۔ وہاں ہمارے ایک ممبر آف پارلیمنٹ ایمن کین (Eamon O’Cuin) ہیں جنہوں نے میرا تعارف بھی کرایا اور اس کے بعد جماعت کے کاموں کی تعریف کی۔ پرانے جماعت کو جانتے ہیں۔ وہاں کچھ سوال بھی ہوئے جہاں میں نے ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور اس کا سارا تعارف کرایا۔ باقی باتیں بھی ہوئیں۔ یہ سیاستدان سمجھتے ہیں کہ شاید جماعت احمدیہ اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے علیحدہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے اور اگر کبھی موقع ملے بھی تو ہم بات چیت کرنے کی طرف راغب نہیں ہوتے۔ اسی طرح ایک نے سوال کیا کہ کیاکوئی ایسا موقع کبھی ہوا ہے یا اگر پیدا کیا جائے کہ غیر از جماعت یا غیر احمدی علماء سے یا ان کے لیڈروں سے جو جماعت کے خلاف ہیں بیٹھ کر کسی پلیٹ فارم پر بات کی جائے تو مَیں نے کہا ہم تو ہمیشہ تیار ہیں اور اگر تم لوگ کوئی ایسا پلیٹ فارم مہیا کر سکتے ہو تو ہم وہاں بھی جانے کو تیار ہیں اور مجھے پتا ہے کہ وہ لوگ نہیں آئیں گے۔ گزشتہ دنوں یہاں ہی بی بی سی نے ایک پروگرام کرنا تھا۔ ہمارے ایک نوجوان جو ٹیم کے ممبر ہیں۔ ان کو انہوں نے بلایاکہ تمہارا مؤقف بھی سنیں گے اور دوسرے غیر از جماعت کو بھی بلایا۔ لیکن جب ان کو پتا لگا کہ احمدی وہاں آ رہا ہے تو انہوں نے آنے سے انکار کر دیا تو یہ تو ان کا حال ہے۔ کیونکہ پتا ہے کہ حقیقت ان کے پاس کچھ نہیں اور جو کچھ ہے اس کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہے۔ پھر عورتوں کی آزادی کے حوالے سے بات ہوئی۔ ان کو سمجھایا گیا تو ان کی کافی تسلی ہوئی۔ پھر فرقہ واریت کے بارے میں بھی انہوں نے سوال کئے کہ کیوں شیعہ سنی ہیں؟ اس پر میں نے ان کو بتایا کہ جس طرح یہودی اور عیسائی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اسی طرح اسلام میں بھی ہیں لیکن اسلام کے ان فرقوں کی پیشگوئی تو پہلے سے ہی تھی اور یہی جماعت احمدیہ کی بنیاد کی وجہ ہے کیونکہ آنے والے نے ان سب فرقوں کو اکٹھا کرنا تھا جو کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔ بہر حال ان ساری باتوں کا ان پر بڑا اچھا اثر تھا۔ اس میں سے کچھ لوگ وہاں بھی آئے جو مسجد میں جمعہ والے دن ریسپشن ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سو سے زائد یہ مہمان تھے جن میں سے پانچ ممبران نیشنل پارلیمنٹ تھے۔ دو سینیٹر تھے۔ سٹی کونسل کے ممبر تھے۔ چیف سپرنٹنڈنٹ گالوے پولیس تھے۔ بشپ گالوے کے نمائندے تھے۔ یہ خود بھی بشپ ہیں۔ کونسلرز، استاد، ڈاکٹر، انجنیئرز اور وکلاء وغیرہ مختلف لوگ آئے ہوئے تھے۔ بہر حال ایک اچھے ماحول میں یہ ریسپشن بھی ہوئی۔
ایک مہمان سیاستدان جان ریبٹ (John Rabbit) ہیں۔ اس فنکشن کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ’’آج کی تقریب نے مجھے up lift کر دیا ہے۔ میں خلیفۃ المسیح کے خطاب سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میرا اسلام کے بارے میں نظریہ یکسر تبدیل ہو گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ میرا ایک دوست سعودی عرب میں رہتا ہے وہ مجھے اسلام کے بارے میں جو باتیں بتاتا ہے اس کے برعکس مَیں نے یہاں خوبصورت اسلام کو دیکھا ہے۔ آپ کی باتیں سن کے مجھے پتا لگا کہ اسلام واقعی پر امن، محبت و پیار اور ایک دوسرے کے لئے ہمدردی اور رواداری رکھنے والا مذہب ہے‘‘۔
میں نے مختلف لوگوں کے تھوڑے تھوڑے فقرے لئے ہیں۔ ڈپٹی میئر گالوے کاؤنٹی کا کافی لمبا بیان ہے۔ تھوڑا سا حصہ بیان کر رہا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مختلف عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کوایک جگہ جمع ہوتے دیکھنا نہایت خوشی کی بات ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ آئر لینڈ اور بالخصوص گالوےؔ شہر اسلام احمدیت کو خوش آمدید کہتا ہے‘‘۔ تو یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے۔ مخالفین بھی، دوسرے مذہب رکھنے والے بھی خوش آمدید کہتے ہیں۔ پھر ڈپٹی سپیکر نیشنل پارلیمنٹ مائیکل پی کِٹ (Michael P. Kitt) نے کہا: ’’یہ بڑی خوبصورت تقریب تھی اور میرے پیغام کے بارے میں کہا کہ محبت اور امن کے بارے میں یہ خطاب میرے لئے بہت حوصلہ افزا ہے اور اس خطاب سے پتا چلتا ہے کہ محبت کے پیغام میں کتنی طاقت ہے‘‘۔
پھر ایک مہمان جو تقریب میں آئے، کہتے ہیں کہ ’’میں بہت خوش ہوں اور آپ کے محبت اور امن کے پیغام سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں اس پیغام کو اپنے دیگر احباب تک پہنچاؤں گا‘‘۔
پھر ایک مہمان ڈرڈری میک کِینَا (Deirdre Mc Kenna) کہتے ہیں کہ ’’مختلف بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک جگہ متحد دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اللہ کرے کہ آج کی یہ تقریب ہمارے معاشرے میں کشادہ دلی کی روایات کا آغاز کرنے والی ثابت ہو اور آئر لینڈ کے تمام لوگ اس کا حصہ بن جائیں تا کہ ہم باہم مثبت تعلقات استوار کرتے ہوئے زندگی گزارنا سیکھیں اور آئرلینڈ میں ایک بہترین مستقبل کی بنیاد پڑے‘‘۔
تو یہ ہے جماعت کی خوبصورت تعلیم، اسلام کی خوبصورت تعلیم جو جماعت پیش کرتی ہے اور غیروں کو بھی مجبور کرتی ہے کہ وہ اس تعلیم کو اپنانے کی طرف توجہ دیں۔ پھر ایک مہمان نے کہا کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ آجکل لوگ اسلام سے بہت خوفزدہ ہیں مگر اس تقریب نے ہم سب کو مذہبی برداشت کا درس دیا ہے۔ خلیفہ نے ہمیں اسلام اور قرآن کی محبت اور امن کی تعلیمات سے آگاہ کیاجو ہم سب کے لئے بہت اطمینان بخش تھا۔ آج کی تقریب سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے‘‘۔
پھر ایک مہمان جینی مکلین (Jenny Mc Clean) میرے خطاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’انہوں نے بعض بہت ہی اہم امور کا ذکر کیا اور کہتے ہیں کہ ہر شخص جو خلیفہ کا خطاب سن رہا تھا بہت متاثر دکھائی دیا۔ اور یہ بھی اہم بات تھی کہ خلیفہ نے اپنے خطاب میں مسلمان دنیا میں موجود تضادات کا بھی ذکر کیا‘‘۔ تو یہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کا پتا لگنے کے بارہ میں بہت سارے لوگوں کے کومنٹس (comments) ہیں۔ پھر ایک یہ بھی ہے کہ ’’یہ خطاب حکمت سے پُر اور دل کو چھو لینے والا تھا‘‘۔ پھر ایک مہمان خاتون تھیں، کہتی ہیں ’’جو امن کا پیغام دیا ہے اور جہاد کی وضاحت کی ہے اس سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں اور مسجد کا نام ہی معاشرے میں ہم آہنگی کو فروغ دے رہا ہے۔ یہاں آ کر اسلام کے متعلق مجھے ایک نئی قسم کی آگاہی ہوئی ہے‘‘۔
پھر گالوے کاؤنٹی کے ایک کونسلر ٹام ہیلے (Tom Healy) کہتے ہیں کہ ’’اللہ کرے کہ آپ کا پیغام ساری دنیا میں گونجے اور آپ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی سفیر بنیں‘‘۔
تو اس طرح یہ عیسائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی عزت کر رہے ہیں اور اس پیغام کو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پہنچانے کی دعا دے رہے ہیں۔ پھر ایک خاتون مہمان جو ایجوکیشن فاؤنڈیشن ڈبلن کی ڈپٹی پرنسپل تھیں، کہتی ہیں کہ ’’مجھے مسجد کا یہ نام مریم رکھنا بڑا اچھا لگا۔ اور اس خطاب سے مجھے پتا چلا کہ اسلام میں مریم کا کیا مقام ہے اور قرآن کریم میں حضرت مریم علیہا السلام کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ میرے نزدیک یہ بہت دلکش نکتہ ہے جو ان تمام عیسائیوں کو بتانا چاہئے جو اسلام کے خلاف بولتے ہیں۔ اسلام کے متعلق مجھے اتنا علم نہ تھا لیکن خلیفۃ المسیح کا خطاب سن کر اب مجھ پر اسلام کا انتہائی اچھا تاثر قائم ہو گیا‘‘۔
ایک جرنلسٹ خاتون مسز برتھا (Mrs. Bertha) آئی ہوئی تھیں۔ کہتی ہیں کہ ’’آج سے پہلے میں اسلام سے بالکل واقف نہ تھی۔ میں نے آج کا سارا دن مسجد مریم میں گزار اہے اور خلیفہ کا خطبہ جمعہ اور مسجد مریم کے حوالے سے افتتاحی خطاب سنا ہے۔ میں نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ احمدی لوگ کس قدر خوش مزاج ہیں‘‘۔ پس یہ نمونے ہیں جو متاثر کرتے ہیں، یہ نمونے بھی ہمیں دکھانے چاہئیں۔ پھر ایک آئرش خاتون کہتی ہیں کہ ’’اسلام کے متعلق مجھے زیادہ علم نہ تھا مجھے صرف اس حد تک ہی علم تھا جو خبروں میں نظر آتا ہے یعنی خود کش دھماکے اور دہشتگردی۔ لیکن خلیفہ نے جس اسلام کا بتایا ہے وہ تو بالکل مختلف ہے وہ اسلام تو محبت اور امن کا پُر کشش پیغام دیتا ہے‘‘۔
ایک مہمان جو کونسلر بھی ہیں، کہتے ہیں کہ ’’یہاں آنے سے پہلے مَیں سمجھتا تھا کہ سارے مسلمان ایک ہی طرح کے ہیں۔ بالکل ایسے جس طرح میڈیا میں نظر آتا ہے کہ مسلمان دہشتگردی کر رہے ہیں اور ظلم کر رہے ہیں لیکن خلیفہ کا خطاب سن کر مَیں بہت متاثر ہوا۔ بالخصوص امن کا پیغام اور آپ کا یہ ماٹو دیکھ کر کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت احمدیہ اس پر عمل بھی کرتی ہے جس کی وہ تبلیغ کرتے ہیں اور دنیا کو آجکل اس پیغام کی سخت ضرورت ہے۔ دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو صرف اور صرف محبت کا پیغام پھیلاتی ہے‘‘۔ پس جہاں جہاں جب ہم یہ پیغام سنتے ہیں تو خوش نہ ہو جائیں بلکہ اسی طرح ہمارا احساس ذمہ داری بڑھتاچلے جانا چاہئے۔
ایک خاتون کونسلر کہتی ہیں کہ ’’میرے خیال میں جب ہم اس تقریب میں آئے ہیں تو ہر شخص کچھ نہ کچھ tense ضرور تھالیکن جب خلیفہ نے اپنے خطاب میں اس بات کا ذکر کر دیا کہ یہاں پر موجود بعض لوگ اسلام کے متعلق خوف و خدشات رکھتے ہوں گے تو جونہی خلیفہ نے اس بات کا اظہار کیا، ہر ایک مطمئن سا ہو گیا اور پھر بڑے آرام سے یہ خطاب سنا‘‘۔
پھر ایک اخباری صحافی کہتے ہیں کہ ’’یہ خطاب سوچنے پر مجبور کرتا ہے‘‘۔ کہتے ہیں کہ ’’تقریر میں انہوں نے اسلام احمدیت کی وضاحت کی اور بتایا کہ بعض شدت پسندوں نے اسے بگاڑ دیا ہے۔ خلیفہ نے بڑے عمدہ رنگ میں اسلام کی امن، محبت اور برداشت کا مذہب ہونے کی تعلیم پیش کی اور یہ تقریر مدلل اور واضح تھی۔ یہ بھی سن کر بڑا علم حاصل ہوا‘‘۔ کہتے ہیں ’’مَیں گزشتہ گیارہ سال سے جماعت کو جانتا ہوں۔ جماعت انٹر فیتھ پروگرامز بھی کرتی ہے‘‘۔ لیکن ان کا یہ خیال تھا کہ شاید وہاں رہنے والے لوگ دکھانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ اصل تعلیم کچھ اَور ہے۔ لیکن آج جب مجھے ملے اور سارا کچھ دیکھا تو جماعت کے بارے میں ان کی تسلی مزید بڑھی۔
ایک مہمان تھیں جو آئر لینڈ قومی اسمبلی کی ممبر ہیں۔ پہلے تو شکریہ ادا کرتی ہیں۔ کہتی ہیں ’’اپنے حلقے میں بہت سے احباب کو جانتی ہوں اور لوکل سطح پر یہ احمدی سارے بڑے فعال ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بڑا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جماعت کی خواتین کی تنظیم بھی ہمیں چیریٹی دیتی ہے‘‘۔
بہرحال یہ چیریٹی بھی ہر تنظیم کی طرف سے، جماعت کی طرف سے بھی ان تنظیموں کو دینی چاہئے۔ اس سے بھی تعارف بڑھتا ہے اور تعارف بڑھنے سے پھر تبلیغ کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ پھر گالوے کاؤنٹی کی ایک ڈویژن کے جو پولیس چیف سپرنٹنڈنٹ تھے، وہ کہنے لگے کہ ’’اس میں شامل ہونا میرے لئے اعزاز کی بات ہے اور مجھے بخوبی علم ہے کہ اسلام احمدیت شدت پسندی پر یقین نہیں رکھتی۔ جو احمدی اسلام ہے جو حقیقی اسلام ہے یہ دوسرے مذہب کو برداشت کرنے کا درس دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جماعت احمدیہ نے اس مسجد کا نام حضرت مریم علیہا السلام کے نام پر رکھا ہے‘‘۔ اور پھر کہتے ہیں کہ ’’مَیں اس بات پر خوش ہوں کہ آپ نے گالوےؔ شہر کا انتخاب کیا‘‘۔ پھر کہتے ہیں ’’جماعت احمدیہ کو مَیں بحیثیت پولیس افسر یہ یقین دلاتا ہوں کہ جس تعلیم کا آپ پرچار کر رہے ہیں آپ کو ہر قسم کا تحفظ دیا جائے گا‘‘۔
پاکستان میں یا دوسرے ممالک میں ہماری مسجدوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔ اور عیسائی دنیا اس بات پر فخر کر رہی ہے کہ آپ نے ہمارے شہر میں مسجد بنانے کا انتخاب کیا ہے اور اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہر ایک کو عبادت کا حق ہے۔ انڈونیشیا میں یا پاکستان میں یا بعض جگہوں پر پولیس کی نگرانی میں تشدد کیا جاتا ہے۔ ان ملکوں میں عیسائی دنیا میں پولیس کے افسران کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کو ہر طرح کا تحفظ دینے کے لئے بھر پور کوشش کریں گے۔ اسلام کے یہ جو بنیادی اخلاق تھے ان کو اصل میں ان لوگوں نے اپنا لیا اور ہماری مسلمانوں کی اکثریت بھولتی جا رہی ہے۔
پھر ایک مہمان سیاستدان ایمن صاحب جو بڑے منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ 1989ء میں پہلی مرتبہ بطور سینیٹر ان کا انتخاب ہوا۔ منسٹر آف سٹیٹ بھی رہ چکے ہیں۔ پھر 2002ء سے 2010ء تک منسٹر آف کمیونٹی اور Rural افیئرز بھی رہے۔ 2010ء میں منسٹر آف سوشل پروٹیکشن بنے۔ یہ کہتے ہیں کہ ’’2010ء میں مجھے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں بھی شمولیت کا موقع ملا اور مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ آج یہ مسجد مکمل ہو گئی اور مَیں افتتاح کے لئے بھی آیا ہوں‘‘۔ اور یہ جماعت کی محبت اور پیار کی تعلیم سے بڑے متأثر ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’جماعت نے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ یہ جماعت اپنے اعلیٰ مقاصد کے مطابق ہی کام کر رہی ہے۔ اس جماعت نے جس طرح بین المذاہب کانفرنسز کا انعقاد کیا اور مختلف مذاہب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ہے اس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں‘‘۔
مسجد کے ساؤنڈ سسٹم کے لئے کمپنی کے مالک مسٹر فنٹن (Mr. Fintan) ایک عیسائی تھے، وہ آئے ہوئے تھے۔ دورے سے پہلے بھی کام کرتے رہے، بعد میں بھی۔ انہوں نے مجھے نمازیں پڑھاتے، جمعہ پڑھاتے بھی دیکھا تو کہتے ہیں کہ ’’مَیں مذہباً کیتھولک ہوں اور چرچ جاتا ہوں لیکن یہاں آ کر مَیں نے محسوس کیا ہے کہ میری زندگی میں ایک تبدیلی آ رہی ہے۔ مجھے مسجد آ کر ایک سکون محسوس ہو رہا ہے۔ چرچ میں تو مجھے آج تک خدا نہیں ملا لیکن جب سے یہاں مَیں نے خلیفۃ المسیح کو نمازیں پڑھاتے دیکھا ہے تو مجھے یہاں خدا نظر آ رہا ہے۔ مجھے یہاں خدا مل گیا ہے۔ مَیں نے خلیفہ کے ساتھ سجدے کئے ہیں اور دعائیں کی ہیں‘‘۔ اور باقاعدہ وہ ہمارے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے۔ کہتے ہیں ’’مجھے نماز تو نہیں آتی لیکن جو حرکات تم لوگ کرتے تھے وہی ساتھ ساتھ مَیں کرتا تھا اور سجدے میں جا کے میں نے تم لوگوں کے لئے بہت دعا کی‘‘۔
پھر پریس کے ذریعہ بھی جو کہ تبلیغ کا، اسلام کا پیغام پہنچانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے بھی کافی کام ہوا۔ ان کاایک ٹی وی TG4 ہے۔ اس میں خبر نشر ہوئی۔ اس میں مجھے خطبہ دیتے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ پورے ملک کا چینل ہے اور ایک اندازے کے مطابق تقریباً پانچ ملین لوگ اس کو دیکھتے ہیں یا کہہ لیں پوری آبادی دیکھتی ہے۔ پھر آر ٹی ای ریڈیو چینل ہے۔ آر ٹی، ٹی وی چینل تو یہاں بھی سکائی پر آتا ہے۔ لیکن یہ ریڈیو ہے۔ ان کے سننے والوں کی تعداد بھی ایک ملین ہے۔ انہوں نے کچھ جمعہ بھی ریکارڈ کیا تھا اور جمعہ کے بعد پھر میرا انٹرویو بھی لیا تھا جس کو انہوں نے اپنے پروگرام میں بغیر کسی ایڈٹ کرنے کے تقریباً اسی طرح دکھا بھی دیا۔ پھر آر ٹی ون کے نمائندے جنہوں نے انٹرویو لیا تھا۔ اسلام کے بارے میں سوال کیا کہ آپ کا نعرہ تو محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ہے اور جو کچھ مسلمان دنیا میں ہو رہا ہے یہ آپ کو فکر مند یا پریشان نہیں کرتا؟ اس پر میں نے ان کو یہی کہا تھا کہ اسلام تو یہ سکھاتا ہے کہ کسی کا حق نہ مارو، کسی کی حق تلفی نہ کرو، کسی پر زیادتی نہ کرو اور ہم تو اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل پیرا ہیں اور اسی بنیاد پر، اسی تعلیم پر ہمارا یہ ماٹو ہے۔ ہمیں اسلام نے یہ سکھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں اور جو اللہ ہے وہ ربّ العالمین ہے۔ تمام جہانوں کا ربّ ہے۔ سب کو پالنے والا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ رحمت للعالمین ہیں۔ جب ایک ربّ ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور ایک نبی ہے جو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اسلام کی تعلیم میں کہیں بھی کسی کا حق مارنے اور ظلم کرنے کا ذکر ہو۔ پس یہ سب جھوٹ ہے اور اسلام کی تعلیم کی بنیاد ہی یہ ہے۔ بہر حال اس پر وہ کافی متاثر ہوئے۔ انہوں نے اس کو ریڈیو پر بھی دیا۔
پھر اور زیادتیوں کے بارے میں، طالبان وغیرہ کے بارے میں، ISIS کے بارے میں سوال کرتے رہے۔ میں نے یہی بتایا کہ سب غلط ہے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ دنیا کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو میں نے یہ ہی بتایا کہ دنیا جس تیزی سے فسادات میں ملوث ہو رہی ہے اس میں صرف اسلامی ممالک کا سوال نہیں ہے بلکہ اس میں یورپ کے ممالک بھی شامل ہیں اور اب یہ لپیٹ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اگر صبر اور تحمل کا مظاہرہ نہ کیا، اگر امن کے قیام کی کوششیں صحیح طرح نہ کی گئیں تو ایک بہت بڑی تباہی آئے گی جس کو قابو کرنا مشکل ہو جائے گا اور یہ تباہی تیسری جنگ عظیم ہے۔ اس کا بھی انہوں نے اپنی خبروں میں ذکر کیا۔
اسی طرح انہوں نے ہمارے آئرلینڈ جماعت کے صدر اور مبلغ انچارج کا انٹرویو بھی لیا۔
پھر گالوے ایف ایم ریڈیو ہے اس نے بھی نشر کیا۔ ان کی سننے والوں کی تعداد بھی ایک لاکھ پینتیس ہزار ہے۔
پھر آئرلینڈ کا نیشنل اخبار آئرش ٹائمز ہے۔ اس نے بھی 29؍ستمبر کو خبر دی اور تقریباً پورے پونے صفحے کی خبر تھی اور مسجد کی بڑی تصویروں کے ساتھ اور میری تصویر کے ساتھ دی۔ انٹرویو بھی اس نے آ کے لیا تھا۔ انٹرویو کے حوالے سے کچھ quote بھی اس نے بیان کئے۔ اس اخبار کے قارئین جو ہیں ایک لاکھ اکاسی ہزار ہیں اور انٹرنیٹ پر تقریباً چار لاکھ چوراسی ہزار سے زائد لوگ اس کو وزٹ کرتے ہیں، پڑھتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے جب انٹرویو لیا کہ کیا فرق ہے؟ کیوں احمدیت قائم ہوئی اور آپ میں اور مسلمانوں میں فرق کیا ہے؟ تو اس کو میں نے بتایا کہ جو فرق ہے یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہے کہ ایسا زمانہ آئے گا اور اس زمانے میں پھر مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہو گا۔ مسلمانوں کی مسجدیں آباد تو نمازیو ں سے بیشک ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ (الجامع لشعب الایمان جزء3صفحہ317-318 فصل قال وینبغی لطالب العلم ان یکون تعلمہ…حدیث نمبر1763 مکتبۃ الرشدناشرون 2004ء)
اور حدیث کی رو سے یہ ساری تعلیم جو ہے ان کو بیان کی۔ پھر یہ بھی مَیں نے بتایا کہ صرف یہ باتیں نہیں ہیں کہ خلافت کسی کے کہنے سے قائم ہو جائے یا ریفارمر آگیا اور اس نے دعویٰ کر دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے نشانات بتائے تھے جس میں سے آسمانی نشانوں میں سے ایک نشان چاند اور سورج کا گرہن بھی تھا۔ (سنن الدارقطنی جزء 2 صفحہ 51 کتاب العیدین باب صفۃ صلاۃ الخسوف و الکسوف و ھیئتھما حدیث1777 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
تو یہ ساری باتیں ان کو بتائیں جو انہوں نے نوٹ بھی کی تھیں۔ کچھ کا شاید ذکر بھی کیا ہے۔ اسی طرح مسجدوں کی آزادی اور تحفظ کے حوالے سے بھی کافی باتیں ہوتی رہیں۔ بہرحال مجموعی طور پر میڈیا نے تقریباً ہر لحاظ سے ریڈیو نے بھی، ٹیلی ویژن نے بھی، اخبار نے بھی کوریج دی اور پورے ملک میں یہ خبریں اچھی طرح پھیلیں اور جماعت کا اور اسلام کا تعارف ہوا۔ پس جہاں ہم مسجد بناتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کی حقیقی تعلیم پھیلانے کے غیرمعمولی سامان بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تائیدات ظاہر ہوتی ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ میرے دوروں کو بھی غیر معمولی طور پر برکت بخشتا ہے۔ یہ سب برکات و تائیدات اور تبلیغ اور تعارف کے جو نئے راستے ہیں اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے مطابق ہیں جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہے۔ ہماری تو معمولی کوشش ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بے پایاں عنایات ہوتی ہیں جن سے ہراحمدی ایمان و ایقان میں مزید مضبوط ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کے چمکانے اور ہمارے اس سلسلہ کی تائید میں اس قدر کثرت کے ساتھ زور دے رہا ہے پھر بھی ان لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔‘‘ فرمایا: ’’یہ بھی ایک عادت اﷲ ہے کہ مکذبین کی تکذیب خدا تعالیٰ کے نشانات کو کھینچتی ہے‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’ایک مخالف نے ایک دفعہ مجھے خط لکھا کہ آپ کی مخالفت میں لوگوں نے کچھ کمی نہیں کی مگر ایک بات کا جواب ہمیں نہیں آتا کہ باوجود اس مخالفت کے آپ ہر بات میں کامیاب ہی ہوتے جاتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد4 صفحہ238-239۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
یہ سوال ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ ہم مخالفت کرتے ہیں اور کامیابی آپ کو ملتی چلی جاتی ہے۔ یہی سوال آج بھی ان لوگوں کا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی تائیدات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہیں اور ان کو یہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ ان کے نام نہاد علماء نے ان کی عقل پر ایسے پردے ڈالے ہیں کہ روشنی کے بجائے اندھیروں کی تلاش میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بار بار مشاہدہ کر رہے ہیں لیکن پھر بھی توجہ نہیں۔ یہ جو قدرتی آفات ہیں، یہ مسلمانوں کی قابل رحم حالت ہے، قتل و غارتگری ہے ان کو اس بات کی طرف نہیں لے جاتی کہ سوچیں کہ یہ ہم پر کیا ہو رہا ہے۔ کیاہم اسلامی تعلیم پر عمل کر رہے ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بن رہے ہیں۔ اپنی ان حرکات سے ہم دنیا کو اسلام کی طرف کھینچ رہے ہیں یا متنفر کر رہے ہیں۔ بہرحال اللہ کرے کہ ان نام نہاد علماء اور خود غرض لیڈروں کے چنگل سے یہ مسلمان نکل کر اسلام کی خوبصورت تعلیم پر عمل کرنے اور اس کو پھیلانے والے بنیں اور اس امام کو قبول کریں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے بھیجا ہے۔ ہمارے تو یہ شہید بھی کرتے ہیں۔ ایک شہید ہوتا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں کیا ان کو سکون ملتا ہے، ان کے روزانہ نہیں تو کم از کم ہفتے میں سینکڑوں مر رہے ہیں۔ پاکستان میں ہی آپ دیکھ لیں۔ فساد ہے۔ ہر طرف بے چینی ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم بھی اپنے فرائض کو پورے طور پر احسن رنگ میں ادا کرنے والے ہوں۔
آج بھی مَیں ایک شہید کا جنازہ پڑھاؤں گاجن کو میر پور خاص میں شہید کیا گیا اور دو اَور جنازے بھی ہیں۔ پہلے تو ایک جنازہ حاضر ڈاکٹر روبینہ کریم صاحبہ کا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سارے جنازے ہوں گے۔ یہ ڈاکٹر عبدالمنعم صاحب (آئر لینڈ) کی اہلیہ تھیں۔ یہ 27؍ ستمبر کو بقضائے الٰہی وفات پا گئیں۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مکرم محمد کریم قریشی صاحب راولپنڈی کی بیٹی تھیں اور حضرت حافظ محمد امین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی تھیں۔ یہ بیاہ کر 2000ء میں آئر لینڈ آئیں۔ یہاں آئر لینڈ میں لمبا عرصہ آپ کو لجنہ کی جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری مال کی خدمت کی توفیق ملی۔ اسی طرح 2009ء سے اپنی وفات تک ایسٹ ریجن کی نائب صدر لجنہ مقامی کے فرائض بھی جانفشانی سے انجام دیتی رہیں۔ یہاں مسجد یا سینٹر بھی نہیں تھا تو کئی سال تک جمعہ کا انتظام ان کے گھر میں ہوتا رہا۔ مہمانوں کی تواضع انتہائی خوش اخلاقی سے کیا کرتی تھیں۔ نمازوں کی پابند، دعا گو، ملنسار، خوش مزاج، مہمان نواز، غریب پرور، خدمت خلق کے جذبے سے سرشار، ہر ایک سے حسن اخلاق اور حسن سلوک کرنے والیں صابرہ شاکرہ تھیں۔ چندہ میں باقاعدگی، مالی قربانیوں میں پیش پیش، بڑی مخلص اور نیک تھیں۔ کچھ عرصہ سے علیل چلی آ رہی تھیں۔ کینسر کی ان کو تکلیف تھی لیکن بڑے صبر اور حوصلے سے انہوں نے بیماری کے دن گزارے ہیں۔ کبھی کوئی ناشکری کا کلمہ زبان پر نہیں آنے دیا۔ بڑی ہمت کر کے مجھے بھی ملنے آئی تھیں۔ ان کے چھوٹے بچے ہیں۔ فکر تھی تو صرف یہ کہ میرے یہ بچے اس ماحول میں کہیں خراب نہ ہو جائیں۔ ان کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور ان بچوں کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے۔ یہ مسجد کے افتتاح میں بیماری کی وجہ سے تو نہیں جا سکیں اور ہفتے کو اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا خاوند کے علاوہ ان کے دو بیٹے ہیں اور دونوں بچے وقف نو ہیں۔
جس شہید کا مَیں نے ذکر کیا ہے یہ مکرم مبشر احمد صاحب کھوسہ ابن مکرم محمد جلال صاحب آف سیٹلائٹ ٹاؤن میر پور خاص ہیں جن کو 22؍ ستمبر کو ساڑھے سات بجے رات ان کے کلینک میں جہاں یہ ہومیوپیتھک کی بھی اور ڈسپنسری کی بھی پریکٹس کرتے تھے ان کو نامعلوم افرادنے فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر مبشر صاحب مالہی کالونی میر پور خاص سانگھڑ بائی پاس رِنگ روڈ پر واقع اپنی کلینک پر معمول کے مطابق مریض چیک کر رہے تھے۔ خواتین کی طرف سے چیک کر کے مرد حضرات کی طرف آئے اور ابھی کرسی پر نہیں بیٹھے تھے کہ دو نامعلوم افراد موٹر سائیکل پر آئے اور ان میں سے ایک شخص نے کلینک میں داخل ہو کر مکرم مبشر احمد صاحب پر فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کے نتیجہ میں پانچ چھ گولیاں شہید مرحوم کے سر اور سینے میں لگیں جس سے موقع پر ہی ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ڈاکٹر صاحب کے خاندان کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا۔ 1954ء میں ان کے والد مکرم محمد جلال صاحب نور نگر ضلع عمر کوٹ سندھ شفٹ ہو گئے تھے۔ مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد مکرم محمد جلال صاحب کے ذریعے 1954ء میں ہوا تھا۔ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب شہید کے والد جب احمدی ہوئے تو گھر والوں نے انہیں گھر سے نکال دیا جس پر ان کو مکرم غلام رسول صاحب آف محمد آبادنے پناہ دی اور اپنی بیٹی محترمہ مریم صدیقہ صاحبہ کے ساتھ شادی کر دی کہ محنتی اور مخلص انسان ہے۔ شادی کے بعد محمد جلال صاحب کنری چلے گئے۔ وہاں انہوں نے آٹا چکی کا کام شروع کیا۔ 1974ء میں مخالفین نے ان کی آٹا چکی کو آگ لگا دی۔ گھر کا سامان لوٹ لیا۔ گھر پر پتھراؤ کیا۔ بہرحال شہید کے والدنے بھی سختیاں دیکھیں۔ یہ شہید 1967ء میں کنری میں پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک تک تعلیم محمد آباد ضلع عمر کوٹ میں حاصل کی۔ وہاں جماعت کی زمینیں ہیں۔ اس کے بعد یہ کراچی اپنی نانی کے پاس چلے گئے۔ ایف۔ اے پاس کیا۔ پھر ڈی ایچ ایم ایس کا کورس کیا۔ ڈسپنسری کا کورس کیا اور شادی کے بعد پھر 1995ء میں بچوں کی تعلیم کی خاطر میرپورخاص شفٹ ہو گئے۔ کچھ عرصے کے بعد وہاں کلینک کا آغاز کیا۔ اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کے ہاتھ میں بہت شفا رکھی تھی۔ علاقہ کے وڈیروں اور بعض افراد کے فیملی ڈاکٹر کے طور پر تھے۔ ہومیوپیتھک علاج بھی کرتے تھے۔ تمام لوگوں کو ان کے احمدی ہونے کا علم تھا مگر کبھی کسی نے مخالفت نہیں کی حتی کہ کلینک کے ساتھ غیر از جماعت کی مسجد ہے۔ وہاں کے امام مسجدنے بھی کبھی جماعت کی مخالفت کی کوئی بات نہیں کی بلکہ ڈاکٹر صاحب سے ان کا اچھا سلوک تھا تو وہاں بعض مولوی صاحبان بھی ایسے ہیں جن میں اللہ کے فضل سے شرافت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو مزید ہدایت دے۔ شہید مرحوم شہادت کے وقت سیکرٹری تربیت نومبائعین کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کو کئی تنظیمی اور جماعتی عہدوں پر خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب شہید کی امارت کے دور میں ضلعی عاملہ کے ممبر رہے۔ جو بھی نومبائعین آتے ان کے کھانے کا انتظام کرتے۔ ان کے پاس کرایہ نہ ہوتا تو اپنی جیب سے کرایہ بھی دیتے۔ خدمت خلق کا بڑا شوق تھا۔ کشمیر کا زلزلہ آیا تو میڈیکل ٹیم کے ساتھ وہاں گئے۔ 22دن تک خدمت کا موقع ملا۔ بہر حال قربانی کے میدان میں صف اول میں سے تھے۔ مہمان نواز تھے۔ اپنے ساتھیوں اور جماعتی عہدیداران کی دعوت کا اہتمام کرتے تھے۔ انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ خلافت سے انتہائی محبت، عشق کا تعلق تھا۔ اطاعت کا غیر معمولی جذبہ رکھتے تھے۔ باجماعت نمازی تھے۔ نفل پڑھنے والے تھے۔ درود پڑھنے والے تھے۔ ہمیشہ نرم لہجے میں بات کرتے۔ ہمیشہ درگزر سے کام لیتے۔ اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے اور بڑے باوقار اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ سینتالیس سال کی عمر تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور سیکرٹری مال کہتے ہیں اور سیکرٹری وصایا نے بھی بتایا کہ ڈاکٹر صاحب چندہ کی ادائیگی میں ہمیشہ فعال تھے۔ ہمیشہ اپنے بجٹ سے زیادہ اور بروقت چندہ وصیت ادا کیا کرتے تھے۔ اعلیٰ تعلیم بچوں کو دلوانے کا شوق تھا۔ ان کی دو بیٹیاں اس وقت میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ دو بیٹے بھی زیر تعلیم ہیں۔ درود شریف کی، دعاؤں کی میں نے بات کی۔ ان کو پان کھانے کی عادت تھی تو انہوں نے پان کھانے کی عادت اس لئے ترک کر دی کہ جب ہر وقت، درود شریف پڑھنا ہو، زیادہ ورد کرنا ہو تو پان جو ہے اس میں روک بنتا ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی محمد بلال نے شہادت سے چند روز قبل ایک خواب میں دیکھا کہ ان کے بھائی ایک چھت پر مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صاحب صدیقی شہید کے ساتھ ایک طرف کونے میں کھڑے ہیں اور باقی لوگ دوسری طرف کھڑے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب شہید کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ تمام بہن بھائیوں میں یہ اونچے مقام پر کھڑے ہیں۔ شہید مرحوم کے لواحقین میں والد مکرم جلال احمد صاحب اور والدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے علاوہ اہلیہ محمودہ بیگم، دو بیٹیاں عزیزہ مدیحہ بلوچ جو اسد اللہ رند صاحب مربی سلسلہ کراچی کی اہلیہ ہیں۔ یہ کراچی میں میڈیکل کی تعلیم بھی حاصل کر رہی ہیں۔ اور عزیزہ ناجیہ نگار، اکیس سال، یہ بھی حیدرآباد میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ دو بیٹے ہیں۔ اٹھارہ سال کا ایک بیٹا ہے ایف ایس سی کی ہے اور اب آگے مزید انٹری ٹیسٹ کی تیاری کر رہا ہے۔ ایک بیٹا پندرہ سال کی عمر کا ہے۔ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو، بیوی کو، والدین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور بچوں کا حامی و ناصر ہو اور جو خواہشات یہ اپنے بچوں کے بارے میں رکھتے تھے اللہ تعالیٰ ان کو پورا فرمائے۔
مبشر صاحب شہید کے بارے میں عطاء الوحید باجوہ صاحب جو جامعہ ربوہ میں پڑھاتے ہیں کہتے ہیں کہ میرا تعلق بھی میر پور خاص سے ہے۔ وہاں ہمارا گھر مکرم ڈاکٹر صاحب کے گھر کے قریب ہی ہے۔ اس وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بہت خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے۔ ہر ایک سے مسکرا کر بات کرتے۔ کسی مجلس میں بیٹھے ہوتے تو فوراً اس کا حصہ بن جاتے اور اپنے دلچسپ انداز گفتگو سے محفل کو کشت زعفران بنا دیتے۔ تمام واقفین زندگی اور خاص طور پر مربیان سلسلہ کا بہت احترام کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ موسم گرما میں جب بھی میں میر پور خاص جاتا تو مسجد میں آپ سے ملاقات ہوتی اور بحیثیت واقف زندگی بڑی عاجزی اور انکساری سے ملتے حالانکہ عمر میں میرے سے بڑے تھے لیکن مربی ہونے کی وجہ سے اتنا احترام کرتے کہ مجھے اس پر شرمندگی محسوس ہوتی۔ چہرے پر غصہ، تنگ نظری کے آثار کبھی نہیں دیکھے۔ ہمیشہ مسکراتے اور بارونق چہرے کے ساتھ ملتے۔ علاقے کے لوگ بھی حیران ہیں کہ کس وجہ سے شہید کیا گیا ہے؟ ایک ہمدرد انسان تھے۔ خدمت انسانیت کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ لوگوں کی طرف سے اس بات کا برملا اظہار آپ کی شہادت کے موقع پر بھی ہوا۔ کہتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے بچوں میں بڑا حوصلہ ہے۔ میں نے بیٹے سے افسوس کیا۔ میرا خیال تھا کہ مجھے اچھی طرح جانتا ہے تو شاید جذباتی نہ ہو جائے لیکن بالکل نہیں رویا، کوئی جذباتی نہیں ہوا اور مجھے کہنے لگا کہ مربی صاحب! میر پور خاص کی دو شہادتیں ہو گئیں۔ سابق صدر لجنہ بیان کرتی ہیں کہ شہادت کے موقع پر غیر از جماعت بھی افسوس کے لئے آئے۔ دو غیر از جماعت عورتیں تعزیت کے لئے آئیں۔ ان کا تعلق اس علاقے سے تھا جہاں ان کا کلینک تھا۔ کہتی ہیں ہم بھی ڈاکٹر صاحب سے دوائی لیا کرتی تھیں۔ کہتی ہیں ایک دفعہ ایک غریب عورت ڈاکٹر صاحب کے پاس دوائی لینے کے لئے آئی۔ آپ نے اسے دوائی دی اور کچھ پرہیز بتایا۔ اس پر اس عورت نے بادل نخواستہ کہا۔ اچھا۔ اس کے انداز سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ ایسا نہیں کرے گی کیونکہ وہ غریب تھی بیچاری تو مبشر صاحب شہید فوراً سمجھ گئے۔ اور اسے فیس بھی واپس کر دی اور کچھ رقم بھی دی اور کہا کہ لو ان پیسوں سے تم نے یہ چیزیں لینی ہیں۔ علاج مکمل کرنا خوراک کا خیال رکھنا۔ ان عورتوں نے کہا کہ آپ لوگ جو انسانیت کی خدمت کرتے ہیں تو یہ غیر ازجماعت، یہ احمدیوں کے مخالفین، آپ لوگوں کو ہی چُن چُن کر مارتے ہیں۔ بہرحال ان کا خیال ہے کہ یہ ظالمانہ اور درندگی سے بھری ہوئی حرکات سے وہ ہمارے ایمان کو کچھ کمزور کرلیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد کئی خط مجھے آئے ہیں کہ ہم اپنے ایمان پر قائم ہیں اور کوئی فکر کی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک شہید کے بدلے ہزاروں احمدی عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہے۔ بہر حال ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان میں احمدیوں کو ہر لحاظ سے اپنی حفاظت میں رکھے۔ ان کے بھائی بھی لکھتے ہیں کہ بڑے حکمت سے سارے خاندان کے کام سلجھانے والے تھے۔ اور تمام خاندان والے ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ اپنے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا ان کی تعلیم کا خیال رکھنا۔ ایک بہن کے کچھ مالی مسائل تھے۔ ان کے خاوند کو کسی وجہ سے جیل جانا پڑ گیا۔ بچوں کا بڑا خیال رکھا۔ نومبائعین کی خدمت میں ہر وقت مصروف رہنے والے تھے۔
تیسرا جنازہ جو ہے الحاجہ سسٹر نعیمہ لطیف صاحبہ کا ہے۔ یہ مکرم الحاج جلال الدین لطیف صاحب صدر جماعت زائن اور نائب صدر انصار اللہ یو ایس اے کی اہلیہ تھیں۔ کچھ عرصہ سے کافی زیادہ بیمار تھیں۔ 23؍ستمبر 2014ء کو نماز ظہر کی تیاری کر رہی تھیں تو اپنے مولیٰ حقیقی سے جا ملیں۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
سسٹر نعیمہ لطیف 21؍مئی 1939ء کو ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ آپ نے ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر کے امریکن آرمی کے شعبہ میڈیکل میں رضا کارانہ طور پر کام شروع کیا۔ جنگ کے دوران زخمی ہونے والے فوجیوں کی دیکھ بھال کا کام کیا۔ معاشرے میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی، قانون کی پاسدار اور امن پسند خاتون تھیں۔ 1974ء میں احمدیت قبول کی اور خود مطالعہ کر کے بڑی تیزی سے ایمان و اخلاص میں ترقی کی۔ یہاں تک کہ یو کے کے جلسہ سالانہ 2000ء کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع سے ملاقات ہوئی تو حضور نے ان کو فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے جیسے آپ پیدائشی احمدی مسلمان ہیں۔ سسٹر نعیمہ نے اپنی زندگی میں کبھی نماز جمعہ نہیں چھوڑی۔ جماعتی پروگراموں میں باقاعدگی سے شامل ہونے والی تھیں۔ رمضان کے روزے کبھی نہیں چھوڑے۔ اس کے علاوہ سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے باقاعدگی سے ہفتہ وار نفلی روزے بھی رکھتی تھیں۔ اعتکاف میں بیٹھنے کا بھی انہیں موقع ملتا رہا۔ خدمت خلق کے کاموں میں پیش پیش تھیں۔ ضعیف کمزور لوگوں کو جو خود مسجدنہیں پہنچ سکتے تھے۔ انہیں باقاعدگی سے سواری مہیا کرتیں۔ 2002ء میں اپنے خاوند اور جماعت امریکہ کے بڑے وفد کے ساتھ حج بیت اللہ کی سعادت پائی۔ اپنے بچوں کو جمعہ کی نماز میں شامل کرنے کے لئے سکول سے چھٹی کرواتی تھیں۔ اپنے گھر میں فجر کی نماز کے بعد سارے خاندان کو تلاوت قرآن پاک کی عادت ڈالی۔ مغرب کی نماز جو گھر میں باجماعت ادا ہوتی تو ان کے بچوں کے ساتھ محلے کے بچے بھی شامل ہو جایا کرتے تھے۔ مالی قربانی میں پیش پیش رہتیں۔ جب بھی کوئی زیور آپ کے میاں کی طرف سے تحفہ ملتا تو مساجد کے لئے چندے میں دے دیتیں۔ عمر کے آخری حصے میں اپنے خاوند کو کہا کہ آپ نے جو تحفہ دینا ہوتا ہے وہ میں مسجد فنڈ میں دے دیتی ہوں۔ بہتر یہ ہے کہ آپ تحائف خریدنے کے بجائے براہ راست میری طرف سے یہ رقم مسجد فنڈ میں دے دیا کریں۔ اخلاص سے بھری ہوئی ایسی خواتین بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عطا فرمائی ہیں۔ بہت منکسر المزاج تھیں۔ غیبت سے آپ کو سخت نفرت تھی۔ آپ کی موجودگی میں اگر کوئی عورت کسی دوسری عورت کے متعلق منفی رنگ میں بات کرتی تو بلا تردد کہہ دیا کرتی تھیں کہ میں کسی کا گوشت کھانا نہیں چاہتی۔ چنانچہ کسی کو آپ کے سامنے غیبت کرنے کی جرأت نہ تھی۔ کاش کہ یہ عادت نہ صرف عورتوں میں بلکہ مردوں میں بھی پیدا ہو جائے تو بہت قسم کے جھگڑے جو ہیں فساد جو ہیں رنجشیں جو ہیں وہ ہماری جماعت میں سے دور ہو جایا کریں۔ خلافت اور خلیفہ وقت سے عشق کی حد تک پیار تھا اور خلیفہ وقت کی اطاعت کو اولین ترجیح دیتیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے امریکہ کے دورے کے دوران ایک یونیورسٹی میں پردے کی اہمیت پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا خطاب سن کر اسی وقت حجاب لے لیا اور اس زمانہ میں اپنے علاقہ میں واحد خاتون تھیں جو اسلامی پردے میں نظر آتی تھیں۔ دعا کے لئے باقاعدہ لکھا کرتی تھیں۔ بڑا تعلق رکھنے والی تھیں۔ یہاں بھی جلسوں پہ آئی ہیں۔ کئی دفعہ مجھے ملتی رہیں۔ بڑا اخلاص اور وفا کا ان کا تعلق تھا۔ نیشنل سیکرٹری وقف جدید، صدر لجنہ نارتھ جرسی جماعت اور یوایس کی نیشنل رشتہ ناطہ ٹیم کی ممبر کے طور پر ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ اللہ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ ان کے پسماندگان میں خاوند مکرم جلال الدین لطیف صاحب کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ تمام بچے سلسلہ کے کاموں میں حصہ لینے والے اور جماعتی عہدوں پر فائز ہیں۔ پورا خاندان ہی اللہ کے فضل سے انتہائی وفا کا تعلق رکھنے والا ہے۔ جلال صاحب خود بھی، بچے بھی خدمت کرنے والے ہیں۔ ان کی بیٹی تو میرے خیال میں سب سے زیادہ اخلاص و وفا میں بڑھی ہوئی ہے۔ ہر سال یہاں جلسے پہ آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان سے پیار اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان کے خاوند اور بچوں کو بھی حوصلہ دے اور صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیشہ ان کی مشکلات دُور فرمائے۔
ایک جنازہ کیونکہ حاضر بھی ہے اس لئے نماز جمعہ کے بعد مَیں باہر جا کے نماز جنازہ پڑھاؤں گا۔ احباب یہیں مسجد میں ہی صفیں درست کر کے نماز پڑھیں۔
میں نے دیکھا ہے کہ مخالف سے مخالف کے سامنے بھی جب احسن رنگ میں اچھے رنگ میں صحیح اسلامی تعلیم پیش کی جائے اور عملی نمونے سے اس کے اظہار کی کوشش بھی کی جائے تو ایک غیر معمولی اثر لوگوں پر پڑتا ہے۔
آئرلینڈ کے دورہ کے دوران اور مسجد مریم کے افتتاح کی تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں کے اسلام احمدیت کے متعلق تأثرات اور آئرلینڈ کے ٹی وی، پریس، الیکٹرانک میڈیا میں دورہ کی وسیع پیمانے پر کوریج کا تذکرہ۔
ہر لحاظ سے میڈیا نے، ریڈیو نے بھی ٹیلی ویژن نے بھی اخبار نے بھی کوریج دی اور پورے ملک میں یہ خبریں اچھی طرح پھیلیں اور جماعت کا اور اسلام کا تعارف ہوا۔ پس جہاں ہم مسجد بناتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کی حقیقی تعلیم پھیلانے کے غیر معمولی سامان بھی پیدا ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی تائیدات ظاہر ہوتی ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ میرے دوروں کو بھی غیر معمولی طور پر برکت بخشتا ہے۔ یہ سب برکات و تائیدات اور تبلیغ اور تعارف کے جو نئے راستے ہیں اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے مطابق ہیں جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہے۔ ہماری تو معمولی کوشش ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بے پایاں عنایات ہوتی ہیں جن سے ہر احمدی ایمان و ایقان میں مزید مضبوط ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔
مکرمہ ڈاکٹر روبینہ کریم صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر عبد المنعم صاحب آف آئرلینڈ کی وفات۔ مرحومہ کا ذکر خیر و نماز جنازہ حاضر۔
مکرم ڈاکٹر مبشر احمدصاحب کھوسہ ابن مکرم محمد جلال صاحب آف سیٹلائٹ ٹاؤن میر پور خاص کی شہادت۔ مکرمہ الحاجہ سسٹر نعیمہ لطیف صاحبہ اہلیہ مکرم الحاج جلال الدین لطیف صاحب آف زائن، یوایس اے کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 03؍اکتوبر 2014ء بمطابق03 اخاء 1393 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔