مسجد بیت الاحد: جماعت احمدیہ جاپان کی پہلی مسجد
خطبہ جمعہ 20؍ نومبر 2015ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْامُوْرِ(الحج: 42) یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں تمکنت عطا کریں تو وہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔ زکوۃ ادا کرتے ہیں اور نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور ہر بات کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
الحمد للہ آج جماعت احمدیہ جاپان کو اپنی پہلی مسجد بنانے کی توفیق ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی تعمیر کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور آپ لوگ اس مقصد کو پورا کرنے والے ہوں جو مسجد بنانے کا مقصد ہے۔ مسجد تو غیر از جماعت اور دوسرے مسلمان بھی بناتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کر کے بہت خوبصورت مساجد بناتے ہیں۔ یہاں جاپان میں گو جماعت احمدیہ مسلمہ کی یہ پہلی مسجد ہے لیکن ملک کی پہلی مسجدنہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں دوسرے مسلمانوں کی سو (100) یا اس سے زائد مساجد ہیں۔ پس صرف مسجد بنا لینا کوئی ایسی بات نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ جاپان میں آنے کا ہمارا مقصد پورا ہو گیا۔ بعض یہ بات بھی بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ یہ مسجد جو ہم نے بنائی یہ گنجائش کے اعتبار سے جاپان کی سب سے بڑی مسجد ہے لیکن یہ بات بھی کوئی ایسی اہم بات نہیں ہے کہ ہم سمجھیں کہ ہم نے اپنی انتہاؤں کو حاصل کر لیا ہے۔ ہمارا مقصد تو تب پورا ہو گا جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور وہ مقصد یہ ہے کہ ہمارا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو اور ہم اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ ہم اس کی مخلوق کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ہم اپنی عملی حالتوں کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے اونچے معیار حاصل کرنے والے ہوں۔ ہم اسلام کے خوبصورت پیغام کو، اس کی خوبصورت تعلیم کو اس قوم کے ہر فرد تک پہنچانے والے ہوں۔ جب جاپان کو مذہبی آزادی ملی اور جاپانیوں کا بھی مذہب کی طرف رجحان پیدا ہوا تو اسلام کی طرف بھی توجہ پیدا ہوئی۔ جب یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم میں لائی گئی تو آپ نے جاپانیوں تک حقیقی اسلام پہنچانے کی خواہش کا بڑی شدت سے اظہار کیا۔ آج سے ایک سو سال پہلے یہ واضح فرمایا کہ اگر اسلام کی طرف جاپانیوں کا رجحان پیدا ہوا ہے تو پھر حقیقی اسلام کا پیغام بھی انہیں پہنچانا چاہئے ورنہ جاپانیوں کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ مردہ مذہب کی طرف جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ جن کے اندر یعنی دوسرے مسلمانوں کے اندر خود اسلام کی روح نہیں ہے وہ دوسروں کو کیا فائدہ پہنچائیں گے۔ فرمایا کہ دوسرے مسلمان تو وحی کا دروازہ بند کر کے اپنے مذہب کو مردے کی طرح بنا چکے ہیں۔ آپ نے بڑے درد سے فرمایا کہ دوسرے مسلمان یہ بات کہہ کے کہ وحی کا دروازہ بند ہو گیا صرف اپنے پر ہی ظلم نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو بھی اپنے عقائد اور خراب اعمال دکھا کر اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ ان کے پاس کونسا ہتھیار ہے جس سے غیر مذہب کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے اپنے ماننے والوں کو کہا کہ چاہئے کہ اس جماعت میں چند آدمی اس کام کے لئے تیار کئے جائیں جو لیاقت اور جرأت والے ہوں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 452۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) پھر آپ نے جاپانیوں میں تبلیغ کے لئے کتاب لکھنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد ہشتم صفحہ 20۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس آپ علیہ السلام جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے آئے تھے جاپان بھی اس سے باہر نہیں، جزائر بھی اس سے باہر نہیں اور باقی دنیا بھی اس سے باہر نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ آپ لوگوں کو اس ملک میں آنے کا موقع میسر آیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ آپ میں سے ایسے بھی ہیں جن کو یہاں آ کر اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروباروں میں ترقی دی۔ تقریباً تمام ہی ایسے ہیں جن کے حالات یہاں آ کر پاکستان کی نسبت معاشی لحاظ سے بھی بہتر ہوئے۔ آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے باپ دادا نے احمدیت قبول کی اور یقینا ان میں سے ایسے بھی ہوں گے جن کی خواہش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں سن کر یہ ہو کہ کاش ہمیں موقع ملے تو ہم بھی جاپان میں بھی اور دنیا میں بھی پھیل کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پیغام پہنچائیں لیکن ان کی حسرت ان کے دلوں میں رہی۔ لیکن آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ جاپان میں بھی آئے اور دنیا میں بھی نکلے تا کہ اس پیغام کو پہنچا سکیں۔ کیا صرف معاشی آسودگی حاصل کرنے کے لئے آپ جاپان میں آئے تھے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو اس بات پر دکھ کا اظہار فرما رہے ہیں کہ دوسرے مسلمانوں نے جاپان میں اسلام کو کیا پھیلانا ہے کہ یہ لوگ تو اللہ تعالیٰ کے کلام و وحی کا دروازہ بند کرکے اسلام کو مردہ مذہب بنا چکے ہیں اور جاپانیوں کو یا دنیا میں کسی بھی ملک کے رہنے والوں کو مردہ مذہب کی کیا ضرورت ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں یہ تو تم لوگ ہو جو اسلام کے زندہ ہونے کا ثبوت دے سکتے ہو اور اس کی خوبیاں دنیا کو بتا سکتے ہو۔
جب اللہ تعالیٰ سے تعلق کے راستے بند کر دئیے تو مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں کیا فرق رہ گیا۔ اگر اسلام کی برتری دنیا پر ثابت کرنی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کر کے ثابت کی جا سکتی ہے۔ دنیا کو یہ بتا کر برتری ثابت کی جا سکتی ہے کہ اسلام کا خدا اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار۔ پس یہ برتری ثابت کرنے کے لئے یہاں آ کر آپ کی معاشی آسودگی ہی کافی نہیں اور یقینا نہیں ہے۔ بلکہ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کو پھیلنے کے لئے کسی تلوار کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام کو پھیلنے کے لئے ان لوگوں کی ضرورت ہے جن کا خدا تعالیٰ پر کامل اور مکمل یقین اور ایمان ہو۔ اسلام کو پھیلنے کے لئے ان لوگوں کی ضرورت ہے جن کی عبادت کے معیار بلند ہوں۔ اسلام کو پھیلنے کے لئے ان لوگوں کی ضرورت ہے جو قتل و غارت گری کرنے کے بجائے اپنے نفسوں کے خلاف جہاد کر کے اپنی عملی حالتوں کو درست کرنے والے ہوں۔ مسلمانوں کی حالت کا یہ بڑا سخت المیہ ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ کی زندہ وحی اور تعلق کا انکار کر بیٹھے ہیں اور دوسری طرف تلوار سے اسلام کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سختی سے اسلام کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ متشدد ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ معصوموں کو قتل کر کے اسلام کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اب پچھلے دنوں میں پیرس میں جو واقعہ ہؤا انتہائی ظالمانہ فعل تھا۔ یہ لوگ یہ عمل کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو نہیں بلکہ اس کی ناراضگی کو مول لے رہے ہیں۔ پس اس لحاظ سے بھی آج احمدیوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جہاں اپنی عبادتوں کے معیار بڑھائیں وہاں اسلام کی خوبصورت تعلیم کے ساتھ دوسروں کو تبلیغ کریں۔ پس یہ مسجد جو بنائی ہے تو اس کا حق ادا کریں۔ اس حق کو ادا کرنے کے لئے اسے پانچ وقت آباد کریں۔ اس کا حق ادا کرنے کے لئے اپنی عبادتوں کے معیار بڑھائیں۔ اس کا حق ادا کرنے کے لئے اپنی عملی حالتوں کے جائزے لیں۔ اس کا حق ادا کرنے کے لئے تبلیغ کے میدان میں وسعت پیدا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ جہاں اسلام کا تعارف کروانا ہو وہاں مسجد بنا دو تو تبلیغ کے راستے اور تعارف کے راستے کھلتے چلے جائیں گے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 119۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) پس یہ مسجد آپ پر ذمہ داری ڈال رہی ہے کہ جہاں عبادتوں کے معیاروں کو اونچا کریں وہاں تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں۔ اب افتتاح سے پہلے ہی میڈیا نے اس مسجد کی کافی کوریج بھی دے دی ہے اور اس حوالے سے ایک امن پسند اسلام کا تعارف اہل ملک کے سامنے پیش کیا ہے۔ پس اس تعارف سے فائدہ اٹھانا اب یہاں رہنے والے ہراحمدی کا کام ہے۔ جاپانیوں کے لئے مسجد تو کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یہاں جیسا کہ میں نے بتایا کہا جاتا ہے کہ سو کے قریب مساجد ہیں تو ہماری اس مسجد کے افتتاح کو اتنی اہمیت کیوں؟ اس لئے کہ عام مسلمانوں سے ہٹ کر ہم اسلام کی تصویر دکھاتے ہیں۔ وہ حقیقی تصویر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائی اور جس کے دکھانے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے غلامِ صادق کو بھیجا ہے۔ پس اس تصویر کو دکھانے کے لئے آپ کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہو گی اور یہ ذمہ داریاں نہیں ادا ہو سکتیں جب تک کہ آپ صرف عقیدے کی پختگی تک ہی قائم نہ ہوں بلکہ عملی حالتوں کے اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے کی بھی کوشش کرنے والے ہوں۔ آپس کی محبت اور پیار اور بھائی چارے میں بڑھنے والے ہوں۔ جہاں ہمارے آقا و مطاع کی نظر ہے جہاں آپ کے غلامِ صادق کی نظر ہے، ہمیں اپنی نظریں اس طرف پھیرنی ہوں گی۔ آپ نے کیا کیا؟ آپ نے کیا دکھایا؟ آپ نے ماحول میں بھی اس پیار اور محبت کا عملی اظہار کیا جس کی تعلیم دی۔ اس کا ذکر ہمیں قرآن کریم میں بھی ملتا ہے۔ پس صرف یہ کہہ دینا کہ الحمد للہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا، الحمد للہ ہم احمدی ہیں، کافی نہیں ہے۔
جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں جن باتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے اس کے اس زمانے میں مخاطب احمدی مسلمان ہی ہیں کیونکہ ہم ہی ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے۔ ہم ہی ہیں جن میں نظام خلافت دین کی تمکنت کے لئے جاری ہے۔ ایک احمدی مسلمان کے لئے، اس زمانے کے امام کو ماننے والے کے لئے، خلافت سے وابستہ رہنے کا دعویٰ کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض اصولی باتیں بیان فرمادیں کہ ایک تو نمازوں کے قیام کی طرف توجہ رکھو کہ یہ تمہاری پیدائش کا بنیادی مقصد ہے۔ اگر نمازوں کی ادائیگی نہیں، اگر عبادتوں کی طرف توجہ نہیں تو پھر یہ دعوے بھی غلط ہیں کہ ہم حقیقی مسلمان ہیں۔ یہ دعوے بھی غلط ہیں کہ ہم دنیا میں انقلاب پیدا کر دیں گے۔ یہ دعوے بھی غلط ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو مان لیا ہے۔ کیونکہ آپ نے تو اپنی آمد کا مقصد ہی بندے کو خدا تعالیٰ سے جوڑنے کا بتایا ہے۔
اور پھر فرمایا کہ دوسرا مقصد ایک دوسرے کے حق ادا کرنا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 95۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں۔ اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ اپنے مال میں سے بھی خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر انسانیت کی بھلائی اور بہتری کے لئے خرچ کرنے والے ہیں۔ اور صرف اپنی زندگیوں میں ہی یہ انقلاب پیدا نہیں کرتے کہ تقویٰ پر چلنے والی زندگی گزارو بلکہ اپنے نمونے دکھا کر دوسروں کو بھی اپنے ساتھ ملاتے ہیں۔ انہیں بھی بتاتے ہیں کہ زندگی کا اصل مقصد کیا ہے۔ انہیں بتاتے ہیں کہ شیطان سے کس طرح بچ کر رہنا ہے۔ پس اگر ہم اس زمانے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے فرستادے کے ماننے والے ہیں تو ہمیں ان باتوں کا خیال رکھنا ہو گا کہ ہم پر جو اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہوا ہے جبکہ دوسرے مسلمان بکھرے پڑے ہیں ان کے پاس کوئی آوازنہیں ہے جو انہیں ایک ہاتھ کی طرف بلائے۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر اور پھر آپ کے بعد آپ کے جاری نظام خلافت کے ذریعہ وہ تمکنت عطا فرمائی ہے کہ ہم ایک آواز پر اٹھنے اور بیٹھنے والے ہیں۔ تمکنت صرف حکومت کا ملنا ہی نہیں ہے بلکہ ایک رعب کا ظاہر ہونا بھی ہے اور سکونِ دل کا پیدا ہونا بھی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی آئے گا جب حکومتیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آ کر صحیح اسلام کو سمجھیں گی۔ لیکن اِس وقت بھی دنیا اب ہماری طرف دیکھنے لگ گئی ہے کہ اسلام کی صحیح تعلیم بتاؤ۔ پس یہ بھی ایک تمکنت اور رُعب ہے جو اب دنیا پر اللہ تعالیٰ ڈال رہا ہے۔ لیکن اس سے فائدہ اٹھانے والے وہی ہوں گے جو خدا تعالیٰ کی بات کی طرف توجہ دینے والے ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس فضل کے وارث بننے کے لئے نیکیوں پر قائم ہو جاؤ اور اس کو پھیلاؤ اور برائیوں سے بچو اور دوسروں کو بچاؤ۔ پس جب تک اس پر قائم رہو گے، اس بنیادی اصول کو پکڑے رہو گے، ترقیاں کرتے چلے جاؤ گے۔
پس ہر احمدی کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اپنے اعمال میں ترقی کرنے کی طرف توجہ دیتا چلا جائے تبھی دنیا کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکیں گے اور یہی چیز پھر اُس تمکنت کا بھی باعث بنے گی جب حکومتیں بھی اس حقیقی تعلیم کے تابع ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آئیں گی۔ پس اللہ تعالیٰ بہت بڑے مقاصد کے حصول کی حقیقی مسلمانوں کو خوشخبری دے رہا ہے لیکن اُن مسلمانوں کو جو ظالم نہ ہوں بلکہ انصاف پر قائم ہوں۔ جو خدا تعالیٰ کو بھولنے والے نہ ہوں بلکہ اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ جو دوسروں کے حقوق غصب کرنے والے نہ ہوں بلکہ حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ جو خود غرض نہ ہوں بلکہ بے نفس ہوں۔ جو خلافت احمدیہ سے وفا کا تعلق رکھتے ہوں۔ صرف اجتماعوں پر عہد دہرانے والے نہ ہوں بلکہ نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں سے روکنے کے لئے پہلے اپنے نفس کے جائزے لینے والے ہوں۔ جو نظام جماعت کی حفاظت کے لئے اپنی اَناؤں کو قربان کرنے والے ہوں۔ پس یہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کا مقرب بنائیں گی۔ یہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے والا بھی بنائیں گی۔ یہ چیزیں ہیں جو وہ حقیقی احمدی بننے والا بنائیں گی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ماننے والوں سے توقع رکھتے ہیں۔ آپ میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم خلافت کے لئے ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن جب آپس کی رنجشوں اور چپقلشوں کو ختم کرنے اور ایک وحدت بننے کا کہا جاتا ہے تو پھر سو بہانے بھی تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ پس اگر حقیقی مومن بننا ہے تو فساد کے بہانے اور راستے تلاش کرنے والا بننے کی بجائے قربانی کر کے امن اور سلامتی قائم کرنے والا بنیں۔ جب اس مسجد کی طرف منسوب ہو رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ ایک اینٹ، سیمنٹ، پتھر کی عمارت کی طرف منسوب نہیں ہو رہے بلکہ اس شخص کی طرف منسوب ہو رہے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اس لئے بھیجا ہے کہ بندے کو خدا سے جوڑے اور تمام ذاتی رنجشوں اور خواہشوں اور اَناؤں کو ختم کرتے ہوئے اس نظام میں پروئے جو قربانی چاہتا ہے۔ صرف مال کی قربانی نہیں بلکہ اپنی اَنا کی قربانی بھی۔ صرف امر بالمعروف دوسروں کے لئے نہیں چاہتا بلکہ پہلے اپنے نفس کو متوجہ کرتا ہے کہ کیا تم جو کہہ رہے ہو وہ کرتے بھی ہو۔ نہی عن المنکر کے لئے دوسروں کو کہنے سے پہلے اپنے نفس کے جائزے لینے کے لئے کہتا ہے۔
آپ میں سے اکثریت پاکستان سے آئے ہوؤں کی ہے جہاں آپ کو عبادت کرنے پر سختیاں اور پابندیاں اور تنگیاں برداشت کرنی پڑیں یا کرنی پڑتی ہیں۔ جہاں آپ کو اپنی مسجد کو مسجد کہنے کی سزا کاٹنی پڑتی ہے۔ جہاں آپ کو سلامتی کا پیغام دینے پر تین سال کے لئے جیل جانا پڑتا ہے۔ بعض آپ میں سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی تنگیوں کی وجہ سے یہاں اسائلم بھی کیا ہے۔ کچھ کاروباری لوگ بھی ہیں۔ پس اس بات کو سوچیں، اس پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں آپ پر کس قدر فضل فرمایا ہے کہ عبادت کرنے پر یہاں کوئی سختی نہیں ہے۔ مسجد کو مسجد کہنے پر کوئی سزا نہیں ہے۔ آپ کے سلامتی کے پیغام کو بجائے جیل میں بھجوانے کے پسند کیا جاتا ہے۔ پس کیا یہ باتیں اس بات کا تقاضا نہیں کرتیں کہ اپنے آپ میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کریں۔ اپنے مقصد پیدائش کو پہچانیں۔ اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے بجائے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ آپس میں بھی پیار اور محبت سے رہیں اور اس پیار اور محبت کو اس معاشرے میں بھی پھیلائیں۔ اپنے اندر وہ خصوصیات پیدا کریں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ صرف مسجد بننے سے وہ خصوصیات پیدا نہیں ہو جائیں گی بلکہ اس کے لئے کوشش کرنی ہو گی۔ ان خصوصیات کا خدا تعالیٰ نے ایک جگہ قرآن کریم میں یوں ذکر فرمایا ہے۔ فرماتا ہے کہ اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ۔ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (التوبۃ: 112) کہ توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، (خدا کی راہ میں ) سفر کرنے والے، (لِلّٰہ) رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کا حکم دینے والے اور بری باتوں سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (سب سچے مومن ہیں ) اور تُو مومنوں کو بشارت دے دے۔
پس جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایک انسان کے حقیقی مومن بننے کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ توبہ کرے یعنی اپنے گناہوں کا اقرار کرے اور گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے مکمل طور پر ان سے بچنے کا عہد کرے۔ گناہ صرف بڑے بڑے گناہ نہیں ہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں جو نظام میں خرابی پیدا کرتی ہیں وہ بھی گناہ بن جاتے ہیں اور جب اس عہد پر قائم ہو جائیں تو پھر خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی عبادت کرنا ایک مومن کا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر اپنے آپ کو چلانا ایک مومن کا فرض ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی مرضی کیا ہے؟ جیسا کہ مَیں پہلے بھی اس کا ذکر کر آیا ہوں، خدا تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی عبادت کرے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذّاریات: 57) اور میں نے جنّوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ پس نہ امیروں اور کاروباری لوگوں کے لئے کوئی گنجائش ہے کہ عبادت سے باہر ہوں، نہ عام انسانوں کے لئے اور غریبوں کے لئے کوئی گنجائش ہے کہ عبادت میں سستی کریں۔ مسجد بنانے میں بعض نے بہت بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں یا بعض کم آمدنی والوں نے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر مالی قربانیاں کی ہیں۔ بچوں نے بھی بڑے اعلیٰ نمونے قائم کئے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ آپ میں سے کسی کو بھی چاہے اس نے اس مسجد کی تعمیر میں بے انتہا قربانی کی ہے اس بات سے بَری نہیں کر دیتا کہ عبادتوں میں سستی دکھائیں۔ یہ قربانیاں بھی تبھی قبول ہوں گی جب اس مسجد کی آبادی کا بھی حق ادا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کریں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حمد کرنے والے بنو۔ خدا تعالیٰ کی حمد کا حق اس کی عبادت سے ادا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد کریں کہ اس نے مسجد بنانے کے لئے قربانی کی توفیق دی۔ اللہ تعالیٰ کی حمد ادا کریں کہ اس نے یہ مسجد عطا فرما کر تبلیغ کے میدان کھولے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد اس طرح کریں کہ اس نے اسلام کی خوبصورت تعلیم بتانے کے لئے نئے راستے کھولے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد اداکریں کہ اس نے آپ کے معاشی حالات بہتر کئے اور یہ معاشی حالات کا بہتر ہونا کسی کی عقل اور ہوشیاری اور علم کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد کریں۔ اس طرح اس کا حق ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ کی حمد یہ بھی ہے کہ بعض ناموافق حالات اگر آ جائیں تو اس پر بھی اس کا شکر ادا کرتے چلے جائیں۔ کبھی ناشکری نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کی حمد اس طرح بھی کریں کہ اس نے زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور ضائع ہونے سے بچا لیا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن اپنے سفروں کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بناتا ہے۔ پس اس لحاظ سے آپ کا اس ملک میں آنا تبلیغ کے میدان میں ترقی کر کے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا ہونا چاہئے۔
پھر فرمایا کہ مومن رکوع کرنے والے ہیں۔ ایک تو نمازوں کے رکوع ہیں لیکن اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ اپنے وقت کو، اپنی جان کو، اپنے مال کو دین کی راہ میں قربان کرنے والے ہیں۔ پس اپنے عَہدوں کا خیال رکھیں۔ صرف جان، مال، وقت اور عزّت کو قربان کرنے کا عہد رسماً نہ دہرائیں بلکہ اس کی عملی تصویر بنیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کے لئے ساجد ہونا بھی ضروری ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ اپنی دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ مومن سجدہ کی حالت میں خدا تعالیٰ کے قریب ترین ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ما یقال فی الرکوع والسجود حدیث نمبر 1083) پس اس قربت کے سجدے تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ صرف ماتھا زمین پر ٹکا دینا ہی سجدہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے آگے جھک کر اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنا سب کچھ قربان کرتے ہوئے اور اپنی اَناؤں کو پیچھے رکھتے ہوئے، اپنی عزت کو بھولتے ہوئے، اپنی عزت کو پس پشت ڈالتے ہوئے، اس کے حکموں پر چلتے ہوئے نظام کی پابندی کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور نظام کی اطاعت بھی اس لئے کہ یہ کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتا ہے۔ پس سجدے اللہ تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور اس وقت ہوتے ہیں جب انسان میں عاجزی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی تلاش ہمیں کرنی چاہئے۔ پس جب یہ عاجزانہ سجدوں کی توفیق ہمیں مل جائے، خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی انتہائی کوشش کی طرف توجہ ہو تو پھر اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ دوسروں کو بھی نیک باتوں کی تلقین کر کے خدا تعالیٰ کے قریب لائیں۔ پھر تبلیغ کی طرف توجہ کریں۔ دوسروں کو بھی جو دنیا میں غرق ہو رہے ہیں خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے والا بنائیں۔ دوسروں کو بھی گناہوں میں ڈوبنے اور آگ میں گرنے سے بچائیں۔ آج یہی ہر احمدی کا کام ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ دنیا کو خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے بچائیں۔ اور پھر یہ بھی یاد رکھیں جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ان باتوں پر نظر رکھیں اور ان کی حفاظت کریں۔ یعنی ان پر عمل کی پوری پابندی کے ساتھ کوشش کریں جو باتیں اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں۔ جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ ان باتوں کی حفاظت کرنا بھی کام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے بتائی ہیں۔ ان باتوں کی طرف بھی توجہ دیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی ہیں اور اپنی جماعت سے توقع رکھی ہے۔ ان باتوں کی طرف بھی توجہ کریں، انہیں سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں جو خلیفۂ وقت کی طرف سے آپ کو کہی جاتی ہیں۔ اپنے ایمان اور عمل کی حفاظت کریں۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انعام سے ہمیں سرفراز فرمایا ہے اس کی قدر کریں کہ اللہ تعالیٰ نے تمکنت دین کے لئے یہ لازمی جزو قرار دیا ہے اور ایسے مومنین کو خوشخبری دی ہے جو ان تمام باتوں پر عمل کرنے والے ہیں۔ پس اپنے جائزے لیں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو سچا مومن ہونے کی خدا تعالیٰ نے بشارت دی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے اس زمانے کی ایجادات کو بھی ہمارے تابع کر دیا ہے۔ جماعت ہر سال ایم ٹی اے پر لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔ یہ تبلیغ اور تربیت کا بہترین ذریعہ ہے اور سب سے بڑھ کر خلیفۂ وقت سے رابطے کا ذریعہ ہے۔ ایک ماں نے گزشتہ دنوں یہاں ملاقات میں ذکر کیا کہ بچوں کی تربیت کا انتظام نہیں ہے۔ انتظام ہونا چاہئے۔ تو بجائے اس کے کہ مبلغ کو یا انتظامیہ کو مورد الزام ٹھہرائیں۔ یہ سوچیں کہ ہفتہ میں چھ دن تو بچے یا ماں باپ کے پاس ہوتے ہیں یا سکول میں ہوتے ہیں۔ جب وہ گھر میں ہوں تو ان کو کم از کم خلیفۂ وقت کے پروگراموں کو سننے کی طرف توجہ دلائیں۔ اس سے ایک تعلق اور محبت قائم ہو گا۔ اس سے تربیت ہو گی۔ انہیں جماعت کی وحدت کا پتا چلے گا۔ پس ماں باپ نے اگر اپنی اگلی نسلوں کو سنبھالنا ہے تو خود بھی خلیفۂ وقت کے پروگراموں کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑیں اور اپنے بچوں کو بھی جوڑیں۔ بعض غیراحمدی بھی مجھے بعض دفعہ لکھتے ہیں کہ آپ کا خطبہ یا فلاں پروگرام سن کر ہمیں دین کی حقیقت کا پتا چلا۔ تو احمدی کو تو دین سیکھنے اور اصلاح کے لئے اور وحدت قائم کرنے کے لئے خلیفۂ وقت کے پروگراموں کے ساتھ جڑنا بے انتہا ضروری ہے۔ اگر یہاں مثلاً جاپان میں وقت کا فرق ہے تو وہاں جب لائیو خطبہ اَور وقت ہورہا ہوتا ہے تو مختلف اوقات میں پروگرام آتے ہیں سنے جا سکتے ہیں۔ ایک بیماری بعض لوگوں میں یہ ہے کہ ایک دوسرے کی برائیاں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ بجائے برائیاں تلاش کرنے کے تعمیری کاموں پر اپنا وقت لگائیں۔ اس طرح عہدیدار بھی چاہے وہ صدر جماعت ہیں یا دوسرے عہدیدار ہیں محبت اور پیار سے لوگوں کی تربیت کریں۔ محبت اور پیار کو فروغ دیں۔ رنجشیں بڑھانے کے بجائے محبتیں بڑھانے کی کوشش کریں۔ دوسروں کو تو پیغام دے رہے ہیں کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں اور خود دلوں میں اگر بغض اور کینے ہوں تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو بھی ایسی حالت میں ہیں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر اس حالت کو بدلیں۔ اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو سچا مومن ہونے کی خدا تعالیٰ نے بشارت دی ہے۔
بعض دفعہ گھروں میں نظام جماعت کے خلاف باتیں کرنے یا عہدیداروں کے خلاف باتیں کرنے کو ایک معمولی چیز سمجھا جاتا ہے لیکن غیر محسوس طور پر اس سے آپ لوگ اپنی اگلی نسلوں کو خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ پس سوچیں کہ دعویٰ تو ہم یہ کر رہے ہیں کہ امر بالمعروف کریں گے اور نہی عن المنکر کریں گے۔ نیکیوں کو پھیلائیں گے اور برائیوں کو روکیں گے تو پھر پہلے اپنے اور اپنے گھر کے افراد اور بچوں کو اس کا مخاطب بنائیں ورنہ آپ کی تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ یہ مسجد تو بنا لی ہے لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اس مسجد کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے بنیں۔ جاپانی احمدیوں سے بھی مَیں کہوں گا کہ دین سیکھیں اور اپنے ایمان و ایقان میں ترقی کریں۔ یہ نہ دیکھیں کہ فلاں پیدائشی احمدی یا پرانا احمدی کیسا ہے۔ اگر وہ دین کے معاملے میں کمزور ہے تو آپ اس کے لئے ہدایت کا باعث بن جائیں۔ پہلے بھی کئی دفعہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ کسی کا رشتہ دار نہیں ہے۔ جو نیک عمل کرے گا، اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرے گا، اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت پھر اس کے ساتھ ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہر احمدی اس اصل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگی گزارے اور یہ مسجد ہر احمدی کے ایمان میں بھی اور اس کی عملی حالت میں بھی ایک انقلابی تبدیلی پیدا کرنے والی ہو۔ صرف عارضی شوق اور جذبے سے مسجد بنانے والے نہ ہوں بلکہ حقیقت میں اس کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ مسجد کے بعض کوائف بھی مَیں پیش کر دیتا ہوں۔ مسجد کی زمین کا کُل رقبہ 1000مربع میٹر ہے۔ دو منزلہ عمارت ہے۔ جیسا کہ یہاں آنے والوں نے تو دیکھ لیا، دنیا والوں کو بتادوں کہ یہ علاقے کی مین سڑک کے بالکل اوپر ہے۔ یہ سڑک جو ہے علاقے کی ساری بڑی سڑکوں کو آپس میں ملاتی ہے۔ ہائی وے کے ایگزٹ (exit) کے بہت قریب ہے بلکہ اسے دو ہائی ویز (highways) لگتی ہیں۔ قریب ہی ریلوے سٹیشن موجود ہے۔ اس ریلوے سٹیشن سے Nagoya کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ تک سیدھی ٹرین جاتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی اس میں بڑی سہولتیں ہیں۔ مسجد کا نام بیت الاحد میں نے رکھا تھا۔ یہاں تبرک کے لئے مسجد مبارک قادیان اور دارالمسیح کی اینٹیں بھی نصب ہیں۔ عمارت کی پہلی منزل پر مسجد کا مین ہال ہے۔ یہ ہال جس میں بیٹھے ہوئے ہیں یہاں پانچ سو سے زائدنمازیوں کی گنجائش موجود ہے اور اوپر کی منزل میں لجنہ ہال ہے اور صحن ہے۔ وہاں چھوٹی سی سائبان لگا کر کچھ فنکشن بھی کئے جا سکتے ہیں اور اس کو شامل کر لیا جائے تو سات آٹھ سو نمازی ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ دوسری منزل پر دفتر بھی ہے۔ چھوٹی سی لائبریری ہے۔ لجنہ ہال ہے۔ مربی ہاؤس ہے۔ گیسٹ رومز ہیں۔ اور اس مسجد کی عمارت خریدی گئی تھی لیکن بعد میں اس میں تبدیلیاں کی گئیں۔ اس کی وجہ سے اس کو مسجد کا رنگ دینے کے لئے چاروں کونوں پہ منارے بھی تعمیر کئے گئے اور گنبد بھی بنایا گیا۔ اور یہ سڑک پر ہونے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کھینچنے کا بڑا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ مسجدنہ صرف جاپان بلکہ جو شمال مشرقی ایشیائی ممالک چین، کوریا، ہانگ کانگ، تائیوان وغیرہ ہیں، ان میں جماعت کی پہلی مسجد ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو باقی جگہوں میں بھی راستے کھولنے کا ذریعہ بنائے اور وہاں بھی جماعتیں ترقی کریں اور مسجدیں بنانے والی ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ عمارت خرید کر اس کو مسجد میں تبدیل کیا گیا تھا۔ جون 2013ء میں یہ عمارت خریدی گئی تھی۔ اور اس کی خرید اور تعمیر وغیرہ پر کُل تقریباً تیرہ کروڑ اٹہتّر لاکھ یَین (137800000 Yen) کی رقم خرچ ہوئی ہے۔ یہ تقریباً کوئی بارہ لاکھ ڈالر کے قریب بن جاتی ہے۔ اس میں سے تقریباً نصف سے کچھ کم تو مرکز کی گرانٹ تھی یا مدد تھی۔ باقی لوگوں نے، یہاں کی جماعت چھوٹی سی ہے، بڑی قربانی کر کے اس مسجد کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ جب یہ جگہ خریدی گئی تو پہلے تو یہی تھا کہ بڑی آسانی سے مسجد کی اجازت مل جائے گی لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ بہت مشکل لگ رہا تھا کہ اس مسجد کی تعمیر کی اجازت ملے۔ جماعت کے نام رجسٹریشن اور بطور مسجد استعمال کرنا بڑا مشکل لگ رہا تھا۔ ایک دفعہ تو وکلاء نے مسجد کمیٹی کو مشورہ دیا کہ یہاں کام بہت مشکل معلوم ہوتا ہے اور جماعت رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے جماعت کے نام انتقال اور دیگر مسائل کا سامنا آ سکتا ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اس معاہدے سے دستبردار ہو جائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے راستے کی یہ ساری روکیں جو تھیں وہ ہٹا دیں۔ لوکل لوگوں کی طرف سے مسائل پیدا ہونے کا یا اعتراض آنے کا خدشہ تھا۔ کیونکہ یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ اس شہر میں یہ پہلی مسجد ہے لیکن لوکل لوگوں کے ساتھ جب میٹنگز کی گئیں تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دلوں کو بھی ایسا انشراح عطا کر دیا کہ انہوں نے فوراً اپنی رضا مندی ظاہر کر دی۔ بعض ان میں سے اس وقت یہاں بیٹھے ہوئے موجود بھی ہوں گے۔ یہ تمام باتیں یہاں کے رہنے والے احمدیوں کے لئے ایمان اور یقین میں اضافے کا باعث ہونی چاہئیں۔ اور مَیں پھر دوبارہ کہوں گا کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
مسجد بیت الاحد کے لئے بعض بڑی مالی قربانی کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ جب مسجد بنانے کی تحریک کی گئی تو ایک احمدی بھائی کہتے ہیں کہ جب ان کو محصّل نے یا سیکرٹری مال نے، جس نے بھی تحریک کی تو یہ احمدی ان کو اپنے ساتھ لے گئے کہ میرے ساتھ گھر چلیں اور جو کچھ ہے مَیں پیش کر دیتا ہوں۔ ان کی اہلیہ جاپانی ہیں۔ جب وہ گئے اور چندے کا بتایا تو انہوں نے مختلف ڈبّے لا کے سامنے رکھ دئیے اور جب ان میں سے رقمیں نکالی گئیں یا دیکھا گیا تو یہ ساری چیزیں تقریبًا دس ہزار ڈالر مالیت کی تھیں۔ اسی طرح صدر صاحب جاپان نے یہ بھی لکھا کہ بعض احباب کے حالات سے ہمیں آگاہی تھی کہ وہ زیادہ آسودہ حال نہیں ہیں لیکن انہوں نے اپنے اخراجات کو محدود کر کے اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کے لئے قربانی کی سعادت حاصل کی اور ایک وقت میں انہوں نے جو رقم دینی تھی اس میں دو اڑھائی لاکھ ڈالر کی کمی آ رہی تھی لیکن احباب نے بڑی قربانی کر کے تکلیف اٹھا کر یہ رقم ادا کی۔ جو پہلے دے چکے تھے انہوں نے بھی پوری کوشش کی اور جو کچھ میسر تھا لا کے پیش کر دیا اور اس طرح تقریباً سات لاکھ ڈالر جمع ہو گئے۔ ایک نوجوان طالبعلم پارٹ ٹائم جاب کر رہے ہیں۔ اسّی ہزار یَین ان کو تنخواہ ملتی ہے۔ اس میں سے ہر مہینے پچاس ہزار یَین مسجد کے لئے ابھی تک پیش کرنے کی توفیق پا رہے ہیں یا جب تک رپورٹ تھی اس وقت تک دیتے رہے۔ احمدی بچے بڑی قربانیاں کرنے والے ہیں۔ اپنی جیب خرچ لا کر مسجد کے لئے چندہ پیش کرتے رہے۔ اور بچوں میں سب سے زیادہ قربانی ایک بچی نے کی ہے جس نے مختلف کرنسیوں کی صورت میں مختلف وقتوں میں جو اس کو تحفے تحائف اپنے بڑوں سے ملتے رہے وہ دئیے اور اس طرح جو رقم اس نے جمع کی ہوئی تھی وہ جمع کی گئی تو نو ہزار ڈالر کے قریب رقم بنی جو اس نے پیش کر دی۔ احمدی خواتین نے بڑی قربانیاں کیں۔ اپنے زیور پیش کر دئیے۔ اور ایک خاتون نے تو اپنی چوبیس چوڑیاں پیش کر دیں۔ پھر ایک اور ہیں انہوں نے اپنے زیورات جو ان کی والدہ کی طرف سے ملے تھے وہ دے دئیے۔ ایک خاتون جو پاکستان سے آئی ہیں انہوں نے اپنے زیور کا نیا سیٹ مسجد کے لئے پیش کر دیا جو انہوں نے جنوری میں ہی اپنی بیٹی کی شادی کے لئے خریدا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام قربانی کرنے والوں کو اپنی جناب سے بے انتہا نوازے۔ ان کے اموال میں برکت دے۔ ان کے نفوس میں برکت دے۔ انہیں ایمان اور یقین میں بڑھاتا چلا جائے اور ان سب کو اس مسجد کا حق ادا کرنے والا بنائے۔ یہ مسجد جہاں ان کی عبادت کے معیار بلند کرے وہاں یہ آپس میں محبت پیار میں بھی بڑھنے والے ہوں اور اس محبت اور پیار کو دیکھ کر دوسروں کی بھی اس طرف توجہ پیدا ہو۔
غیر از جماعت ہمسایوں نے بھی بڑا محبت اور خلوص کا اظہار کیا ہے۔ ایک جاپانی دوست کو جب علم ہوا کہ افتتاح میں شرکت کے لئے بیرون ملک سے کافی تعداد میں مہمان آ رہے ہیں تو انہوں نے اپنا ایک بہت بڑا گھر جو تین منزلہ گھر ہے جماعت کو پیش کر دیا کہ اپنے مہمان اس میں ٹھہرائیں۔ اسی طرح مسجد کے ہمسایوں کو جب پتا چلا کہ یہاں مسجد کے افتتاح کے لئے کثرت سے مہمانوں کی توقع ہے تو انہوں نے جماعت کے لئے کاروں کی پارکنگ کے لئے اپنی پارکنگ کی جگہ دے دی۔ بالعموم جاپانی لوگ کسی بھی عمارت کے افتتاح وغیرہ کے موقع پر اس عمارت کو نہایت قیمتی پھولوں سے سجاتے ہیں۔ جب دو جاپانی دوستوں کو پتا چلا کہ جاپان کی جماعت احمدیہ کی مسجد کا افتتاح ہو رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ مسجد کے افتتاح کے موقع پر مسجد کو پھولوں سے سجانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے پوری مدد کی۔
مسجد کی رجسٹریشن میں ایک غیر مسلم وکیل اکیو نجیما (Akio Najima) صاحب کی معاونت کا بھی بیان کر دوں انہوں نے بڑا کام کیا ہے۔ یہ قانونی معاونت فراہم کرتے رہے۔ نہایت بے لوث انداز میں انہوں نے معاونت فرمائی۔ ان کے کام کی فیس کم از کم بیس ہزار ڈالر کے قریب بنتی ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ جماعت احمدیہ کے جاپان پر احسانات ہیں اور اس کے بدلہ میں مَیں یہ کام معاوضے کے بغیر کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے کوئی فیس نہیں لی۔ اخبارات اور میڈیا میں بھی اس (مسجد) کا کافی ذکر ہے جیسا کہ مَیں شروع میں کہہ چکا ہوں۔ تمام بڑے اخبارات، معروف ٹی وی چینلز کے ذریعہ تعارف ہو چکا ہے اور 11؍نومبر کو مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ملک کی دوسری بڑی اخبار نے یہ رپورٹ شائع کی تھی کہ ’مسلمان ’’امن و محبت‘‘ جن کے ایمان کا حصہ ہے‘۔ جماعت احمدیہ جاپان کی مسجد اور کمیونٹی سینٹر آئی چی پریفیکچر کے تسوشیما شہر یعنی جو یہاں لوکل گورنمنٹ کا علاقہ ہے، میں تعمیر ہو گیا ہے۔ یہ مسجد پانچ چھوٹے بڑے میناروں پر مشتمل ہے اور پھر بتایا کہ اس میں پانچ سو کے قریب نمازی نمازیں ادا کر سکتے ہیں۔ پھر لکھا کہ امن و محبت کا پرچار اور اپنے معاشرے سے میل ملاپ بڑھاتے ہوئے پروگراموں کا انعقاد جماعت احمدیہ کا طُرّۂ امتیاز ہے۔ جاپان میں زیادہ تر پاکستانی اور پندرہ دیگر قوموں سمیت اس جماعت کے دو سو کے قریب ممبر آباد ہیں۔ رضا کارانہ سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہنے والی جماعت ہے۔ یہ لوگ ’’کوبے‘‘ میں آنے والے زلزلہ اور سونامی اور شمالی جاپان میں آنے والے زلزلوں کے علاوہ اس سال آنے والے سیلاب کے بعد متاثرین کو کھانا وغیرہ تقسیم کر کے خدمت میں حصہ لیتے رہے۔
پس یہ اثر ہے جو جماعت احمدیہ کا دوسروں پر قائم ہے کہ پُر امن اور سلامتی پھیلانے والے اسلام کے نمائندے ہیں۔ خدمت خلق کرتے ہیں۔ اس کو قائم رکھنا اور اس اثر کو بڑھانا یہاں رہنے والے ہر احمدی کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہر احمدی اس حقیقت کو پھیلانے والا بھی ہو کہ اسلام محبت اور سلامتی کا مذہب ہے اور ہماری مساجد اس کا symbol ہیں تا کہ اس قوم میں اسلام کا حقیقی پیغام پھیلانے کے راستے وسیع تر ہوتے چلے جائیں اور یہ قوم بھی ان خوش قسمتوں میں شامل ہو جائے جو اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے والی اور محسن انسانیت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو سمجھنے والی ہو۔
الحمد للہ آج جماعت احمدیہ جاپان کو اپنی پہلی مسجد بنانے کی توفیق ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی تعمیر کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور آپ لوگ اس مقصد کو پورا کرنے والے ہوں جو مسجد بنانے کا مقصد ہے۔ ہمارا مقصد تو تب پورا ہو گا جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور وہ مقصد یہ ہے کہ ہمارا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو اور ہم اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ ہم اس کی مخلوق کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ہم اپنی عملی حالتوں کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے اونچے معیار حاصل کرنے والے ہوں۔ ہم اسلام کے خوبصورت پیغام کو، اس کی خوبصورت تعلیم کو اس قوم کے ہر فرد تک پہنچانے والے ہوں۔ پچھلے دنوں میں پیرس میں جو واقعہ ہؤا انتہائی ظالمانہ فعل تھا۔ یہ لوگ یہ عمل کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو نہیں بلکہ اس کی ناراضگی کو مول لے رہے ہیں۔ پس اس لحاظ سے بھی آج احمدیوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جہاں اپنی عبادتوں کے معیار بڑھائیں وہاں اسلام کی خوبصورت تعلیم کے ساتھ دوسروں کو تبلیغ کریں۔ افتتاح سے پہلے ہی میڈیا نے اس مسجد کی کافی کوریج بھی دے دی ہے اور اس حوالے سے ایک امن پسند اسلام کا تعارف اہل ملک کے سامنے پیش کیا ہے۔ پس اس تعارف سے فائدہ اٹھانا اب یہاں رہنے والے ہر احمدی کا کام ہے۔
اگر نمازوں کی ادائیگی نہیں، اگر عبادتوں کی طرف توجہ نہیں تو پھر یہ دعوے بھی غلط ہیں کہ ہم حقیقی مسلمان ہیں۔ یہ دعوے بھی غلط ہیں کہ ہم دنیا میں انقلاب پیدا کر دیں گے۔ یہ دعوے بھی غلط ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو مان لیا ہے کیونکہ آپ نے تو اپنی آمد کا مقصد ہی بندے کو خدا تعالیٰ سے جوڑنے کا بتایا ہے۔
ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر اور پھر آپ کے بعد آپ کے جاری نظام خلافت کے ذریعہ وہ تمکنت عطا فرمائی ہے کہ ہم ایک آواز پر اٹھنے اور بیٹھنے والے ہیں۔ تمکنت صرف حکومت کا ملنا ہی نہیں ہے بلکہ ایک رعب کا ظاہر ہونا بھی ہے اور سکونِ دل کا پیدا ہونا بھی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی آئے گا جب حکومتیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آ کر صحیح اسلام کو سمجھیں گی۔ لیکن اِس وقت بھی دنیا اب ہماری طرف دیکھنے لگ گئی ہے کہ اسلام کی صحیح تعلیم بتاؤ۔ پس یہ بھی ایک تمکنت اور رُعب ہے جو اب دنیا پر اللہ تعالیٰ ڈال رہا ہے۔
آپ میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم خلافت کے لئے ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن جب آپس کی رنجشوں اور چپقلشوں کو ختم کرنے اور ایک وحدت بننے کا کہا جاتا ہے تو پھر سو بہانے بھی تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ پس اگر حقیقی مومن بننا ہے تو فساد کے بہانے اور راستے تلاش کرنے والا بننے کی بجائے قربانی کر کے امن اور سلامتی قائم کرنے والا بنیں۔ اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے بجائے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ آپس میں بھی پیار اور محبت سے رہیں اور اس پیار اور محبت کو اس معاشرے میں بھی پھیلائیں۔ اپنے اندر وہ خصوصیات پیدا کریں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔
ان باتوں کی طرف بھی توجہ کریں، انہیں سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں جو خلیفۂ وقت کی طرف سے آپ کو کہی جاتی ہیں۔ اپنے ایمان اور عمل کی حفاظت کریں۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انعام سے ہمیں سرفراز فرمایا ہے۔ اس کی قدر کریں کہ اللہ تعالیٰ نے تمکنت دین کے لئے یہ لازمی جزو قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے اس زمانے کی ایجادات کو بھی ہمارے تابع کر دیا ہے۔ جماعت ہر سال ایم ٹی اے پر لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔ یہ تبلیغ اور تربیت کا بہترین ذریعہ ہے اور سب سے بڑھ کر خلیفۂ وقت سے رابطے کا ذریعہ ہے۔
ماں باپ نے اگر اپنی اگلی نسلوں کو سنبھالنا ہے تو خود بھی خلیفۂ وقت کے پروگراموں کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑیں اور اپنے بچوں کو بھی جوڑیں۔ احمدی کو تو دین سیکھنے اور اصلاح کے لئے اور وحدت قائم کرنے کے لئے خلیفۂ وقت کے پروگراموں کے ساتھ جڑنا بے انتہا ضروری ہے۔
عہدیدار بھی چاہے وہ صدر جماعت ہیں یا دوسرے عہدیدار ہیں محبت اور پیار سے لوگوں کی تربیت کریں۔ محبت اور پیار کو فروغ دیں۔ رنجشیں بڑھانے کے بجائے محبتیں بڑھانے کی کوشش کریں۔ جاپانی احمدیوں سے بھی مَیں کہوں گا کہ دین سیکھیں اور اپنے ایمان و ایقان میں ترقی کریں۔ یہ نہ دیکھیں کہ فلاں پیدائشی احمدی یا پرانا احمدی کیسا ہے۔ اگر وہ دین کے معاملے میں کمزور ہے تو آپ اس کے لئے ہدایت کا باعث بن جائیں۔ یہ مسجدنہ صرف جاپان بلکہ چین، کوریا، ہانگ کانگ، تائیوان وغیرہ جو شمال مشرقی ایشیائی ممالک ہیں ان میں جماعت کی پہلی مسجد ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو باقی جگہوں میں بھی راستے کھولنے کا ذریعہ بنائے اور وہاں بھی جماعتیں ترقی کریں اور مسجدیں بنانے والی ہوں۔ مسجد دو منزلہ عمارت اور نہایت با موقع ہے۔ عمارت کے مختلف کوائف کا تذکرہ۔ اس میں سات سو کے قریب نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ 13کروڑ 78لاکھ یَین کی رقم خرچ ہوئی۔ افراد جماعت کی غیر معمولی مالی قربانیوں کا تذکرہ۔
اللہ تعالیٰ ان تمام قربانی کرنے والوں کو اپنی جناب سے بے انتہا نوازے۔ ان کے اموال میں برکت دے۔ ان کے نفوس میں برکت دے۔ انہیں ایمان اور یقین میں بڑھاتا چلا جائے اور ان سب کو اس مسجد کا حق ادا کرنے والا بنائے۔ یہ مسجد جہاں ان کی عبادت کے معیار بلند کرے وہاں یہ آپس میں محبت پیار میں بڑھنے والے بھی ہوں اور اس محبت اور پیار کو دیکھ کر دوسروں کی بھی اس طرف توجہ پیدا ہو۔
ملک کے بڑے اخبارات اور معروف ٹی وی چینلز کے ذریعہ مسجد بیت الاحد کا تعارف و تشہیر۔
فرمودہ مورخہ 20؍نومبر 2015ء بمطابق 20؍نبوت 1394 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الاحد، ناگویا، جاپان
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔